سورہ الحج: آیت 8 - ومن الناس من يجادل في... - اردو

آیت 8 کی تفسیر, سورہ الحج

وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يُجَٰدِلُ فِى ٱللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَٰبٍ مُّنِيرٍ

اردو ترجمہ

بعض اور لوگ ایسے ہیں جو کسی علم اور ہدایت اور روشنی بخشنے والی کتاب کے بغیر، گردن اکڑائے ہوئے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamina alnnasi man yujadilu fee Allahi bighayri AAilmin wala hudan wala kitabin muneerin

آیت 8 کی تفسیر

ومن الناس ……بظلام للحمید (10)

ان دلائل کی موجودگی کے بعد بھی اللہ کے بارے میں کلام کرنا عجیب و غریب لگتا ہے اور نہایت ہی برا فعل ہے۔ نیز یہ جھگڑا جو لوگ کرتے ہیں وہ اہل علم ہی نہیں ہیں۔ ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ نہ اس میدان میں انہیں کوئی خصوصی معرفت ہے۔ نہ وہ ایسی کسی کتاب سے دلیل لائے ہیں جو عقل کو روشن کردیتی ہو۔ حق کی وضاحت کرتی ہو اور یقینی راہ بتلاتی ہو۔

یہاں ایسے لوگوں کی مخصوص تصویر کشی بھی کی جاتی ہے جنہوں نے غرور کی وجہ سے گردن اکڑائی ہوئی ہے۔

ثانی عطفہ (22 : 9) ” گردن اکڑائے ہوئے “۔ اور اس کی بات دلیل کے ساتھ نہیں ہوتی بلکہ وہ اکڑ کر بات کرتا ہے۔ درجہ متکبر ہوتا ہے۔

لیضل عن سبیل اللہ (22 : 9) ” تاکہ لوگوں کو خدا کی راہ سے بھٹکا دے۔ “ ایسے لوگ صرف اس پر اکتفا نہیں کرتے کہ وہ خود گمراہ ہوں بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔

لہٰذا ایسا غرور اور ایسی کرخت بڑائی اور گردن فرازی کا توڑنا ضروری ہے اس طرح کہ وہ ریزہ ریزہ ہوجائے۔

لہ فی الدنیا خزی (22 : 9) ” ایسے شخص کے لئے دنیا میں رسوائی ہے۔ “ رسوائی اور شرمنگدی کبر اور غرور کے عین متضاد حالت ہے۔ اللہ کا یہ قانون ہے کہ وہ ان منکرین ، گردن فرازوں اور اکڑ والوں اور گمراہ ہونے والوں اور ایک دوسرے کو گمراہ کرنے والوں کی اس اکڑ کو توڑ کر رکھ دیتا ہے ، اگرچہ ایک زمانے کے بعد۔ ہاں ایسے لوگوں کو اللہ مہلت دیتا ہے تاکہ جب زوال آئے تو وہ بہت زیادہ شرمندہ اور ذلیل ہوں اور اس تذلیل کا ان پر زیادہ اثر ہو۔ رہا آخرت کا عذاب تو وہ بہت ہی سخت اور بہت ہی درد ناک ہے۔

ونذیقہ یوم القیمۃ عذاب الحریق (22 : 9) ” اور قیامت کے دن ہم اسے جلنے کا عذاب چکھائیں گے۔ “ چند لمحے بھی نہیں گزرتے کہ یہ دھمکی حقیقت کا روپ اختیار کرلیتی ہے یوں کہ دوران کلام انداز کلام کو اچانک حکایتی انداز سے خطاب میں بدل دیا جاتا ہے۔

ذلک بما قدمت یدک و ان اللہ لیس بظلام للعبید (22 : 10) ” یہ ہے تیرا یہ مستقبل جو تیرے اپنے ہاتھوں نے تیرے لئے تیار کیا ہے ورنہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ “ گویا ایک ہی لمحے میں اس کی سرزنش بھی ہوگئی اور وہ عذاب میں بھی جاگرا۔

……

اب قرآن کریم لوگوں میں سے بعض دوسروں قسم کے لوگوں کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ اگرچہ اس قسم کے لوگ اس وقت دعوت اسلامی کے مقابلے پر تھے ، لیکن ایسے نمونے ہر دور میں موجود رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو یہودی مزاج رکھتے ہیں اور نظریہ کو بھی تاجرانہ انداز میں لیتے ہیں اور شہر مارکیٹ میں کھڑے نظر آتے ہیں۔

آیت 8 وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّلَا ہُدًی وَّلَا کِتٰبٍ مُّنِیْرٍ ”ایسے لوگ بغیر کسی علمی دلیل اور الہامی رہنمائی کے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔

گمراہ جاہل مقلدلوگ چونکہ اوپر کی آیتوں میں گمراہ جاہل ملقدوں کا حال بیان فرمایا تھا یہاں ان کے مرشدوں اور پیروں کا حال بیان فرما رہے ہیں کہ وہ بےعقلی اور بےدلیلی سے صرف رائے قیاس اور خواہش نفسانی سے اللہ کے بارے میں کلام کرتے رہتے ہیں، حق سے اعراض کرتے ہیں، تکبر سے گردن پھیرلیتے ہیں، حق کو قبول کرنے سے بےپرواہی کے ساتھ انکار کرجاتے ہیں جیسے فرعونیوں نے حضرت موسیٰ ؑ کے کھلے معجزوں کو دیکھ کر بھی بےپرواہی کی اور نہ مانے۔ اور آیت میں ہے جب ان سے اللہ کی وحی کی تابعداری کو کہا جاتا ہے اور رسول اللہ کے فرمان کی طرف بلایا جاتا ہے تو تو دیکھے گا کہ اے رسول ﷺ یہ منافق تجھ سے دور چلے جایا کرتے ہیں۔ سورة منافقون میں ارشاد ہوا کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اور اپنے لئے رسول ﷺ سے استغفار کرواؤ تو وہ اپنے سرگھما کر گھمنڈ میں آکر بےنیازی سے انکار کرجاتے ہیں حضرت لقمان ؒ نے اپنے صاحبزادے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا آیت (وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ للنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْاَرْضِ مَرَحًا ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ 18؀ۚ) 31۔ لقمان :18) لوگوں سے اپنے رخسار نہ پھلادیا کر یعنی اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر ان سے تکبر نہ کر۔ اور آیت میں ہے ہماری آیتیں سن کر یہ تکبر سے منہ پھیرلیتا ہے۔ لیضل کا لام یہ تولام عاقبت ہے یا لام تعلیل ہے اس لئے کہ بسا اوقات اس کا مقصود دوسروں کو گمراہ کرنا نہیں ہوتا اور ممکن ہے کہ اس سے مراد معاند اور انکار ہی ہو اور ہوسکتا ہے کہ یہ مطلب ہو کہ ہم نے اسے ایسا بداخلاق اس لئے بنادیا ہے کہ یہ گمراہوں کا سردار بن جائے۔ اس کے لئے دنیا میں بھی ذلت و خواری ہے جو اس کے تکبر کا بدلہ۔ یہ یہاں تکبر کرکے بڑا بننا چاہتا تھا ہم اسے اور چھوٹا کردیں گے یہاں بھی اپنی چاہت میں ناکام اور بےمراد رہے گا۔ اور آخرت کے دن بھی جہنم کی آگ کا لقمہ ہوگا۔ اسے بطور ڈانٹ ڈپٹ کے کہا جائے کا کہ یہ تیرے اعمال کا نتیجہ ہے اللہ کی ذات ظلم سے پاک ہے جیسے فرمان ہے کہ فرشتوں سے کہا جائے گا کہ اسے پکڑ لو اور گھسیٹ کر جہنم میں لے جاؤ اور اس کے سر پر آگ جیسے پانی کی دھار بہاؤ۔ لے اب اپنی عزت اور تکبر کا بدلہ لیتا جا۔ یہی وہ ہے جس سے عمربھر شک شبہ میں رہا۔ حضرت حسن ؒ فرماتے ہیں مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ ایک دن میں وہ ستر ستر مرتبہ آگ میں جل کر بھرتا ہوجائے گا۔ پھر زندہ کیا جائے گا پھر جلایا جائے گا (اعاذنا اللہ)۔

آیت 8 - سورہ الحج: (ومن الناس من يجادل في الله بغير علم ولا هدى ولا كتاب منير...) - اردو