اس صفحہ میں سورہ Al-Hajj کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الحج کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
آیت 6 ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْحَقُّ ”اللہ تعالیٰ کے حق ہونے میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ وَاَنَّہٗ یُحْیِی الْمَوْتٰی وَاَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ”بارش کے پانی سے مردہ زمین کے یکایک زندہ ہوجانے کا منظر تم اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہتے ہو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ ایک دن تم لوگوں کو قبروں سے زندہ کر کے اٹھا کھڑا کرے گا۔
آیت 7 وَّاَنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ لَّا رَیْبَ فِیْہَالا وَاَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ ”بعث بعد الموت کا یہ واقعہ لازماً ہو کر رہے گا۔
آیت 8 وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّلَا ہُدًی وَّلَا کِتٰبٍ مُّنِیْرٍ ”ایسے لوگ بغیر کسی علمی دلیل اور الہامی رہنمائی کے اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔
آیت 11 وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ ج ”انسانی دل کے اس روگ کی نشان دہی سورة البقرۃ کی آیت 10 میں ان الفاظ میں کی گئی ہے : فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَرَضٌ ”ان کے دلوں میں مرض ہے“۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حق کا ساتھ دینا تو چاہتے ہیں ‘ لیکن اس کے لیے اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے کو تیار نہیں۔ وہ گہرے پانی میں جانے کا خطرہ مول لینے کے بجائے کنارے پر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ مبادا کہ اس سفر میں کوئی گزند پہنچ جائے یا کوئی مالی نقصان اٹھانا پڑجائے۔ وہ لوگ بڑی چالاکی کے ساتھ اس قسم کے سب خطرات سے خود کو محفوظ فاصلے پر رکھ کر حق کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں ‘ لیکن اس راستے میں ایسا طرز عمل قابل قبول نہیں ہے۔ یہ تو سرا سر قربانی کا راستہ ہے۔ اس راستے میں اپنی جان اور اپنے مال کو بچا بچا کر رکھنے والے فرزانوں کی نہیں بلکہ قدم قدم پر قربانیاں دینے والے دیوانوں کی ضرورت ہے۔ اسی فلسفے کو اقبال ؔ نے اپنے اس شعر میں بیان کیا ہے : تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ‘ ترا آئینہ ہے وہ آئینہ کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں !ایسے لوگوں کے مقابلے میں دوسری طرف کچھ وہ لوگ ہیں جو حق کو قبول کرتے ہی یہ نعرہ بلند کرتے ہوئے منجدھار میں کود پڑتے ہیں : ع ”ہر چہ بادا باد ‘ ماکشتی در آب انداختیم !“ کہ اب جو ہو سو ہو ‘ ہم تو حق کی اس کشتی میں سوار ہو کر اسے دریا میں ڈال چکے ہیں۔ اب یہ تیرے گی تو ہم بھی تیریں گے اور اگر اس راستے میں ہماری جان بھی چلی جائے تو ہم اس قربانی کے لیے بھی تیار ہیں۔وَاِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ نِ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْہِہٖ ج ”ایسے لوگ موافق حالات میں تو ہر کام میں اہل ایمان کے ساتھ شریک رہتے ہیں ‘ لیکن اگر کہیں اللہ کی راہ میں نکلنے کا مرحلہ آجائے یا کسی اور قربانی کا تقاضا ہو تو چپکے سے واپسی کی راہ لے لیتے ہیں۔ذٰلِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ ”یہ بہت ہی نمایاں اور واضح تباہی ہے۔اس آیت میں منافقانہ کردار کا ذکر ہے۔ اسی طرح اس سورت میں جہاد کا ذکر بھی ملتا ہے۔ منافقت اور جہاد چونکہ مدنی سورتوں کے موضوعات ہیں اس لیے سورة الحج کو بعض مفسرین مدنی سورت مانتے ہیں ‘ لیکن میرے نزدیک یہ مکی ہے۔ تفسیر طبری میں منقول حبر الامت حضرت عبداللہ بن عباس رض کے قول سے اس خیال کی تائیدہوتی ہے کہ اس سورت کی کچھ آیات 38 تا 41 اثنائے سفر ہجرت میں نازل ہوئیں۔ چناچہ ان آیات کو ”برزخی آیات“ کہنا چاہیے۔ اس کے علاوہ سورة الحج کو اس بنا پر بھی مدنی سمجھا جاتا ہے کہ اس کی بعض آیات کی سورة البقرۃ کی بعض آیات کے ساتھ گہری مشابہت پائی جاتی ہے۔ مثلاً سورة البقرۃ کی آیت 143 اور سورة الحج کی آخری آیت میں ”شہادت علی الناس“ کا مضمون بالکل ایک جیسے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ اسی طرح زیر نظر آیت میں منافقین کی جو کیفیت بیان کی گئی ہے وہ اس کیفیت سے بہت مشابہت رکھتی ہے جس کا نقشہ سورة البقرۃ کے دوسرے رکوع میں کھینچا گیا ہے کہ جب بجلی چمکتی ہے تو یہ لوگ کچھ چل پھر لیتے ہیں لیکن جب اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں۔ بہر حال مدینہ میں حضور ﷺ کے سامنے منافقین کا بالکل وہی حال تھا جس کی تصویر سورة البقرۃ کی مذکورہ تمثیل اور زیر مطالعہ آیت میں دکھائی گئی ہے۔ جب کسی جنگ یا کسی مہم کا تقاضا نہ ہوتا تو یہ لوگ حضور ﷺ کی محفل میں باقاعدگی سے حاضر ہوتے اور بڑے بڑے دعوے کرتے ‘ مگر جونہی کسی قربانی کا مرحلہ آتا تو گویا اوندھے منہ گرپڑتے تھے۔ دعا کریں کہ اللہ ہمیں اس بیماری سے بچائے اور اقامت دین کی جدوجہد میں پورے خلوص کے ساتھ ہمہ تن اور ہمہ وجوہ اپنے آپ کو جھونک دینے کی ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین !
آیت 13 یَدْعُوْا لَمَنْ ضَرُّہٗٓ اَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِہٖ ط ”اگر کوئی شخص اللہ کے سوا کسی اور کو معبود کا درجہ دے کر پکارے گا تو اس سے اس کو کچھ نفع تو ملنے والا نہیں ہے ‘ البتہ اس سے نقصان اسے بہر حال مل کر رہے گا۔
اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ ”اس کے اختیارات غیر محدود ہیں۔ وہ جو چاہے کر گزرتا ہے۔
فَلْیَنْظُرْ ہَلْ یُذْہِبَنَّ کَیْدُہٗ مَا یَغِیْظُ ”یہ آیت مشکلات القرآن میں سے ہے اور مختلف مفسرین نے اپنے اپنے انداز میں اس کی تعبیر کی ہے۔ میرے نزدیک ”موضح القرآن“ میں شاہ عبدالقادر دہلوی رح کی تعبیر سب سے بہتر ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو پورے اخلاص کے ساتھ ہمہ وقت دین کی خدمت میں مصروف ہے اور اس رستے میں آنے والی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اللہ سے مسلسل امید رکھتا ہے کہ آج نہیں تو کل ‘ کل نہیں تو پرسوں اللہ کی مدد ضرور آئے گی۔ لیکن خدانخواستہ کسی مرحلے پر اگر وہ اللہ کی مدد سے مایوس ہوجائے تو اس کی یہ کیفیت اس کے لیے ناکامی کا باعث بن جائے گی۔ چناچہ اللہ کے راستے میں جدوجہد کرنے والوں کو ع ”پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ“ کے مصداق کبھی بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور اللہ کی مدد سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ سورة الزمر کی آیت 53 میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے : لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط کہ تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ۔ اگر کسی خوش قسمت انسان کو اللہ کے رستے میں جدوجہد کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے تو اسے اللہ کے اس حکم کی تعمیل بھی کرنی چاہیے۔ اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کے فیصلے اس کی اپنی مشیت کے مطابق ہوتے ہیں اور اس کی مشیت میں بندوں کا کوئی عمل دخل نہیں۔ بندوں کو تو بس یہ چاہیے کہ وہ اپنے اپنے حصے کی کوشش کریں اور اس کے وعدوں پر پختہ یقین رکھیں۔ جیسے اس کے بہت سے وعدوں میں سے ایک خوش کن وعدہ یہ بھی ہے : وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا ط العنکبوت : 69 ”اور جو لوگ ہماری راہ میں جدو جہد کریں گے ‘ ہم لازماً انہیں اپنے راستے دکھائیں گے“۔ چناچہ داعیانِ حق کو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے اس کے حضور یوں التجا کرتے رہنا چاہیے : اِنَّکَ لاَ تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ آل عمران ”یقیناً تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا“۔ ہمیں یہ اندیشہ تو نہیں ہے کہ تو اپنا وعدہ پورا نہیں کرے گا ‘ بلکہ ہمیں یہ فکر دامن گیر ہے کہ ہم تیرے وعدوں کا مصداق بننے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں۔ اس کے لیے جو شرائط مطلوب ہیں وہ شرائط ہم پوری کر بھی سکیں گے یا نہیں ! آیت زیر نظر میں یہ نکتہ سمجھانے کے لیے ایک شخص کی مثال دی گئی ہے جس نے اپنے اوپر ایک رسی اللہ کی طرف سے امید کو تھاما ہوا ہے۔ وہ شخص اگر کسی مرحلے پر مایوس ہو کر خود ہی رسی کو چھوڑ دے گا تو وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ جیسے ایک حدیث میں قرآن کو اللہ کی رسی قرار دیا گیا ہے ایسے ہی اللہ کی امید بھی ایک معنوی رسی ہے جو ہمیں اللہ کے ساتھ وابستہ کیے ہوئے ہے۔ جب تک یہ رسی ہمارے ہاتھ میں رہے گی اللہ سے ہمارا تعلق قائم رہے گا ‘ اور ہمارے لیے ایک سہارا موجود رہے گا۔ اگر ہم اس رسی کو کاٹ دیں گے یعنی اللہ سے اپنی امید منقطع کرلیں گے تو اس مضبوط سہارے کو گویا خود ہی اپنے ہاتھ سے چھوڑ دیں گے۔ ایسا کرنے کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا نکلے گا کہ ہم بےیارو مددگار ہوجائیں گے زمین پر اوندھے منہ گرجائیں گے۔ چناچہ اس آیت کے پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کی نصرت کی امید اور اس کے وعدوں پر یقین رکھو ‘ یہ تمہارے لیے بہت مضبوط سہارا ہے۔