سورہ الحج: آیت 36 - والبدن جعلناها لكم من شعائر... - اردو

آیت 36 کی تفسیر, سورہ الحج

وَٱلْبُدْنَ جَعَلْنَٰهَا لَكُم مِّن شَعَٰٓئِرِ ٱللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ ۖ فَٱذْكُرُوا۟ ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَيْهَا صَوَآفَّ ۖ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا۟ مِنْهَا وَأَطْعِمُوا۟ ٱلْقَانِعَ وَٱلْمُعْتَرَّ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرْنَٰهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

اردو ترجمہ

اور (قربانی کے) اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے، تمہارے لیے اُن میں بھَلائی ہے، پس انہیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو، اور جب (قربانی کے بعد) ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں تو اُن میں سے خود بھی کھاؤ اور اُن کو بھی کھلاؤ جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اور اُن کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں اِن جانوروں کو ہم نے اِس طرح تمہارے لیے مسخّر کیا ہے تاکہ تم شکریہ ادا کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalbudna jaAAalnaha lakum min shaAAairi Allahi lakum feeha khayrun faothkuroo isma Allahi AAalayha sawaffa faitha wajabat junoobuha fakuloo minha waatAAimoo alqaniAAa waalmuAAtarra kathalika sakhkharnaha lakum laAAallakum tashkuroona

آیت 36 کی تفسیر

والبدن جعلنھا ……وبشر المحسنین (37)

یہاں قربانی کے جانوروں میں سے صرف اونٹ کا ذکر کیا جاتا ہے ، اس لئے کہ یہ سب سے بڑا ہوتا ہے۔ اس کا قربانی میں ذبح کیا جانا تمہارے لئے مفید ہے۔ جب زندہ ہو تب بھی مفید ہے کہ تم اس پر سوار ہوتے ہو اور اس کا دودھ دوہتے ہو اور جب ذبح کردیا جائے تو بھی تم گوشت کھاتے ہو ، لہٰذا اس ” خیر “ کو ذبح کرتے وقت تمہارا فرض بنتا ہے کہ اس پر اللہ کا نام لو۔ جب اسے ذبح کے لئے تیار کیا جا رہا ہو تو بھی اس پر اللہ کا نام لو ، جب وہ صف کی شکل میں کھڑے ہوں۔

فاذکروا اسم اللہ علیھما صواف (22 : 36) ” پس ان پر اللہ کا نام لو جب وہ صف میں ہوں۔ “ اونٹوں کو اس طرح ذبح کیا جاتا ہے کہ وہ تین پائوں پر کھڑے ہوں اور ایک پائوں باندھا ہوا ہو اور جب وہ ذبح کے بعد گر جائیں اور ان کی پیٹھ زمین پر ٹک جائے تو پھر تم ان سے کھانا چاہو تو کھائو اور ان کا گوشت اس فقیر کو بھی کھلائو جو سوال نہیں کرتا اور اس کو بھی کھلائو جو سوال کرتا ہے۔ اسی لئے اللہ نے ان کو تمہارے لئے مسخر کیا ہے تاکہ لوگ اس ” خیر “ پر خدا کا شکر ادا کریں جو ان میں لوگوں کے لئے ہے۔ زندگی میں بھی اور ذبح ہونے کے بعد بھی۔

کذلک سخرنھا لکم لعلکم تشکرون (22 : 36) ” ان جانوروں کو ہم نے اس طرح تمہارے لئے مسخر کیا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو۔ “

تمہیں جو حکم دیا جاتا ہے کہ ان کو اللہ کا نام لے کر ذبح کرو تو اس کا مقصد ہے لن ینال اللہ لحومھا و لادماوھا (22 : 38) ” نہ ان کا گوشت اللہ کو پہنچتا یہع نہ خون “۔ خون اور گوشت تو لالہ تک نہیں پہنچتا ، نہ اللہ کو ضرورت ہے ، اللہ کو مطلوب جذبہ خدا خوفی ہے۔ اس لئے مشرکین مکہ کی یہ حرکت کہ وہ جانوروں کو ذبح کر کے خون لے جا کر بتوں پر ملتے تھے محض ایک سوقیانہ حرکت ہے۔ اللہ اس سے بےنیاز ہے۔

کذلک سخرھا لکم لتکبروا اللہ علی ماھدکم (22 : 38) ” اس نے ان کو تمہارے لئے اس طرح مسخر کیا ہے تاکہ اس کی بخشی ہوئی ہدایت پر اس کی تکبیر کرو۔ “ اس نے تمہیں عقیدہ توحید کی ہدایت کی ہے۔ اس کی طرف متوجہ ہونے کی ہدایت کی ہے ، اللہ اور بندے کے درمیان حقیقی تعلق کے قیام کی ہدایت کی ہے اور اپنے اعمال کو صحیح سمت دینے کی ہدایت کی ہے۔

وبشر المسنین (22 : 38) ” اور بشارت دے نیکو کاروں کو۔ “ جن کا تصور بھی حسین ہے جن کا شعور بھی حسین ہے ، جن کی عبادت بھی پر احسان ہے اور اللہ کے ساتھ جن کا ربط بھی خدا خوفی کا ہے۔

یوں ایک مسلم کا ہر قدم ، اس کی ہر حرکت اور اس کی ہر سوچ ایسی ہوتی ہے کہ وہ اس میں ذات باری کو پیش نظر رکھتا ہے اس میں اس کا دل خوف خدا سے لبالب ہوتا ہے اور وہ ہر کام میں رضائے الٰہی کا طلبگار ہوتا ہے۔ غرض اس کی پوری زندگی اس مقصد کو پورا کر رہی ہوتی ہے جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے اور دنیا میں بھی اس کی زندگی صحت مند اور مفید اور اس کی غایت کی شاخیں آسمانوں پر ہوتی ہیں۔

اسلام کے یہ شعائر اور مناسک مقرر ہیں۔ عبادات اور عبادات کے مقامات متعین کئے گئے ہیں اور ان کا احترام ضروری قرار دیا گیا ہے ، اس لئے ایک ایسی قوت کی ضرورت ہے جو ان شعائر کا احترام قائم کرے۔ آزادی فکر و نظر کے حق کو قائم کرے اور ہر شخص کے لئے ایسے مواقع پیدا کرے کہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق اللہ کی پرستش کرسکے۔ نیز مقامات عبادات کے تقدس کو بھی قائم رکھ سکے۔ نیز یہ ممکن بنایا جاسکے کہ مومنین ، عابدین اور عمل صالح کرنے الے نیک لوگ اپنے نظریہ حیات کے مطابق نظام زندگی قائم کرسکیں جس کا ایک طرف سے رابطہ اللہ تعالیٰ سے ہو اور دوسری جانب سے وہ نظام اس دنیا کے تمام انسانوں کے لئے موجب خیر و برکت ہو۔ غرض دنیا و آخرت کی بھلائی کا ضامن ہو۔

یہی وجہ ہے کہ ہجرت کے بعد مسلمانوں کو یہ اجازت دی گئی کہ وہ اب اللہ کی راہ میں ہتھیار اٹھا سکتے ہیں تاکہ وہ اپنی ملت کی مدافعت کرسکیں ، اپنے نظریہ اور عقیدہ کی مدافعت کرسکیں ، اگر کوئی دشمن ان کے علاقے پر حملہ آور ہو تو اس کا دفاع کرسکیں کیونکہ مسلمانوں پر ظلم و ستم اپنی انتہا کو پنچ گئے ہیں۔ اس قتال کا مقصد وحید صرف یہ ہے کہ لوگوں کے لئے بشمول اہل اسلام عقائد و نظریات کی آزادی قائم ہو سکے۔ اللہ کے دین کے نظام کے اندر ، اللہ کی نصرت کا وعدہ حقیقت کا روپ اختیار کرسکے اور وہ دین اسلام اور نظام اسلام کے وہ فرائض اد اکر سکیں جن کا ذکر ذیل کی آیات میں آیات ہے۔

آیت 36 وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰہَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآءِرِ اللّٰہِ ”قربانی کے جانور خاص طور پر اونٹ بھی اللہ کے شعائر میں سے ہیں۔لَکُمْ فِیْہَا خَیْرٌق ”کہ ان کا گوشت تم خود بھی کھاتے ہو اور غرباء کو بھی کھلاتے ہو۔فَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہَا صَوَآفَّ ج ”صَوَافّ ‘ صافَّۃکی جمع ہے ‘ یعنی صف میں کھڑے ہوئے۔ یہ اونٹوں کی قربانی کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ انہیں قبلہ رو صف بستہ کھڑے کر کے نحر کرو۔ چونکہ اونٹ کو گرا کر ذبح کرنا بہت مشکل ہے ‘ اس لیے کھڑے کھڑے ہی اس کی گردن میں برچھا مارا جاتا ہے۔ اس سے اس کی گردن کی بڑی رگ سے خون کا فوارہ چھوٹتا ہے اور جب زیادہ خون نکل جاتا ہے تو وہ خود بخود نیچے گرپڑتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور ﷺ نے سو اونٹوں کی قربانی دی تھی ‘ جن میں سے تریسٹھ اونٹوں کو آپ ﷺ نے اسی طریقے سے خود اپنے دست مبارک سے نحر فرمایا تھا۔ حضور ﷺ جونہی ایک اونٹ کو برچھا مارتے تھے اگلا اونٹ فوراً اپنی گردن حاضر کردیتا تھا۔ گویا آپ ﷺ کے ہاتھوں ذبح ہونا ان کے لیے ایک بہت بڑا عزاز تھا : ؂نشود نصیب دشمن کہ شود ہلاک تیغت سردوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی !یہ شعور انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ اونٹ تو پھر جاندار ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے تو ایک سوکھی لکڑی کو ایسا شعور عطا فرما دیا تھا کہ وہ حضور ﷺ کے فراق میں بےقرار ہو کر رونے لگ پڑی تھی۔ یہ ایمان افروز واقعہ احادیث میں تفصیل سے بیان ہوا ہے ‘ جس کا خلاصہ یوں ہے کہ شروع شروع میں مسجد نبوی ﷺ کے اندر حضور ﷺ جس جگہ پر کھڑے ہو کر خطبہ دیا کرتے تھے وہاں کھجور کا ایک خشک تنا موجود تھا۔ آپ ﷺ خطبہ کے لیے کھڑے ہوتے تو اس کے ساتھ ٹیک لگا لیتے۔ بعد میں اس مقصد کے لیے جب منبر بن گیا تو آپ ﷺ نے اس پر کھڑے ہو کر خطبہ دینا پسند فرمایا۔ لیکن جب آپ ﷺ پہلے دن منبر پر تشریف فرما ہوئے تو اس خشک لکڑی سے ایسی آوازیں آنا شروع ہوگئیں جیسے کوئی بچہ بلک بلک کر رو رہا ہو۔ یعنی وہ خشک لکڑی اپنی محرومی پر رو رہی تھی کہ آج کے بعد اسے حضور ﷺ کی معیت نصیب نہیں ہوگی۔ اس روز سے اس کا نام ”حنانہ“ رقت والی پڑگیا۔ بعد میں اس جگہ پر ایک ستون تعمیر کردیا گیا ‘ جو ”ستون حنانہ“ سے موسوم ہے۔ مولانا روم رح نے اپنے اس شعر میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے : ؂فلسفی کو منکر حنانہّ است از حواس انبیاء بیگانہ است کہ فلسفی کو ”حنانہ“ ّ جیسے معاملہ کی سمجھ نہیں آسکتی ‘ اس لیے کہ وہ انبیاء کے مقام و مرتبہ سے واقف نہیں ہے۔ وہ تو انبیاء کرام علیہ السلام کو بھی عام لوگوں پر ہی قیاس کرتا ہے۔ ایک عقلیت پسند شخص تو ایسے واقعہ کو تسلیم کرنے سے فوراً انکار کر دے گا۔ سر سید احمد خاں بھلا کیسے تسلیم کرتے کہ ایک سوکھی لکڑی سے رونے کی آواز آسکتی ہے۔ بہر حال پرانے زمانے میں ایسی باتوں کا انکار فلسفی کیا کرتے تھے ‘ آج کل سائنس دان اور عقلیت پرست دانشور ان باتوں کے منکر ہیں۔فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُہَا ”جب خون بہنے سے اونٹ کمزور ہوجاتا ہے تو پھر وہ ایک طرف کو اپنی کروٹ کے بل زمین پر گرپڑتا ہے۔فَکُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ ط ”ایسے مواقع پر ان سفید پوش ناداروں کو بھی مت بھولوجو اپنی خود داری اور قناعت کے سبب کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کرتے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان محتاجوں کو بھی کھلاؤ جو اپنی محرومی کے ہاتھوں بےقرار ہو کر مانگنے کے لیے آپ کے پاس آگئے ہیں۔کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰہَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ ”اونٹ اتنا بڑا جانور ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اسے تمہارے لیے اس انداز سے مسخر کردیا ہے کہ تم اسے برچھا مار کر نحر کرلیتے ہو اور پھر اس کا گوشت کھاتے ہو۔ اس کے لیے تم پر لازم ہے کہ تم اللہ کی نعمتوں کا شکرا دا کیا کرو۔

شعائر اللہ کیا ہیں ؟ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے جانور پیدا کئے اور انہیں اپنے نام پر قربان کرنے اور اپنے گھر بطور قربانی کے پہنچانے کا حکم فرمایا اور انہیں شعائر اللہ قرار دیا اور حکم فرمایا آیت (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَاۗىِٕرَ اللّٰهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَاۗىِٕد وَلَآ اٰۗمِّيْنَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا) 5۔ المآئدہ :2) نہ تو اللہ کے ان عظمت والے نشانات کی بےادبی کرو نہ حرمت والے مہینوں کی گستاخی کرو لہذا ہر اونٹ گائے جو قربانی کے لئے مقرر کردیا جائے۔ وہ بدن میں داخل ہے۔ گو بعض لوگوں نے صرف اونٹ کو ہی بدن کہا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ اونٹ تو ہے ہی گائے بھی اس میں شامل ہے حدیث میں ہے کہ جس طرح اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے قربان ہوسکتا ہے اسی طرح گائے بھی۔ جابر بن عبداللہ ؓ سے صحیح مسلم شریف میں روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ہم اونٹ میں سات شریک ہوجائیں اور گائے میں بھی سات آدمی شرکت کرلیں۔ امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ تو فرماتے ہیں ان دونوں جانوروں میں دس دس آدمی شریک ہوسکتے ہیں مسند احمد اور سنن نسائی میں ایسی حدیث بھی آئی ہے۔ واللہ اعلم پھر فرمایا ان جانوروں میں تمہارا اخروی نفع ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں بقرہ عید والے دن انسان کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک قربانی سے زیادہ پسندیدہ نہیں۔ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، کھروں اور بالوں سمیت انسان کی نیکیوں میں پیش کیا جائے گا۔ یاد رکھو قربانی کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں پہنچ جاتا ہے پس ٹھنڈے دل سے قربانیاں کرو (ابن ماجہ ترمذی) حضرت سفیان ثوری ؒ تو قرض اٹھا کر بھی قربانی کیا کرتے تھے اور لوگوں کے دریافت کرنے پر فرماتے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہیں اس میں تمہارا بھلا ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کسی خرچ کا فضل اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہ نسبت اس خرچ کے جو بقرہ عید والے دن کی قربانی پر کیا جائے ہرگز افضل نہیں۔ (دارقطنی) پس اللہ فرماتا تمہارے لئے ان جانوروں میں ثواب ہے نفع ہے ضرورت کے وقت دودھ پی سکتے ہو سوار ہوسکتے ہو پھر ان کی قربانی کے وقت اپنا نام پڑھنے کی ہدایت کرتا ہے حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں میں نے عید الضحیٰ کی نماز رسول ﷺ کے ساتھ پڑھی نماز سے فراغت پاتے ہی سامنے مینڈھا لایا گیا جیسے آپ نے دعا (بسم اللہ واللہ اکبر) پڑھ کر ذبح کیا پھر کہا اے اللہ یہ میری طرف سے ہے اور میری امت میں سے جو قربانی نہ کرسکے اس کی طرف سے ہے (احمد داؤد ترمذی) فرماتے ہیں عید والے دن آپ کے پاس دو مینڈھے لائے گئے انہیں قبلہ رخ کرکے آپ نے دعا (وجہت وجہی للذی فطرالسموت والارض حنیفا وما انا من المشرکین ان صلوتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین لاشریک لہ وبذلک امرت وانا اول المسلمین اللہم منک ولک عن محمد وامتہ) پڑھ کر بسم اللہ واللہ اکبر کہہ کر ذبح کر ڈالا۔ حضرت ابو رافع ؓ فرماتے ہیں کہ قربانی کے موقع پر رسول اللہ ﷺ دو مینڈھے موٹے موٹے تازے تیار عمدہ بڑے سینگوں والے چتکبرے خریدتے، جب نماز پڑھ کر خطبے سے فراغت پاتے ایک جانور آپ کے پاس لایا جاتا آپ وہیں عیدگاہ میں ہی خود اپنے ہاتھ سے اسے ذبح کرتے اور فرماتے اللہ تعالیٰ یہ میری ساری امت کی طرف سے ہے جو بھی توحید وسنت کا گواہ ہے پھر دوسرا جانور حاضر کیا جاتا جسے ذبح کر کے فرماتے یہ محمد ﷺ اور آل محمد کی طرف سے ہے پھر دونوں کا گوشت مسکینوں کو بھی دیتے اور آپ اور آپ کے گھر والے بھی کھاتے۔ (احمد ابن ماجہ) صواف کے معنی ابن عباس ؓ نے اونٹ کو تین پیروں پر کھڑا کر کے اس کا بایاں ہاتھ باندھ کر دعا (بسم اللہ واللہ اکبر لا ایہ الا اللہم منک ولک) پڑھ کر اسے نحر کرنے کے کئے ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے اپنے اونٹ کو قربان کرنے کے لئے بٹھایا ہے تو آپ نے فرمایا اسے کھڑا کردے اور اس کا پیر باندھ کر اسے نحر کر یہی سنت ہے ابو القاسم ﷺ کی۔ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ اونٹ کا ایک پاؤں باندھ کر تین پاؤں پر کھڑا کر کے ہی نحر کرتے تھے۔ (ابوداؤد) حضرت سالم بن عبداللہ ؓ نے سلیمان بن عبد الملک سے فرمایا تھا کہ بائیں طرف سے نحر کیا کرو۔ حجتہ الوداع کا بیان کرتے ہوئے حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے تریسٹھ اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر کئے آپ کے ہاتھ میں حربہ تھا جس سے آپ زخمی کررہے تھے۔ ابن مسعود ؓ کی قرأت میں صوافن ہے یعنی کھڑے کرکے پاؤں باندھ کر صواف کے معنی خالص کے بھی کئے گئے ہیں یعنی جس طرح جاہلیت کے زمانے میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک کرتے تھے تم نہ کرو، صرف اللہ واحد کے نام پر ہی قربانیاں کرو۔ پھر جب یہ زمین پر گرپڑیں یعنی نحر ہوجائیں ٹھنڈے پڑجائیں تو خود کھاؤ اوروں کو بھی کھلاؤ نیزہ مارتے ہی ٹکڑے کاٹنے شروع نہ کرو جب تک روح نہ نکل جائے اور ٹھنڈا نہ پڑجائے۔ چناچہ ایک حدیث میں بھی آیا ہے کہ روحوں کے نکالنے میں جلدی نہ کرو صحیح مسلم کی حدیث میں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ سلوک کرنا لکھ دیا ہے دشمنوں کو میدان جنگ میں قتل کرتے وقت بھی نیک سلوک رکھو اور جانوروں کو ذبح کرتے وقت بھی اچھی طرح سے نرمی کے ساتھ ذبح کرو چھری تیز کرلیا کرو اور جانور کو تکلیف نہ دیاکرو۔ فرمان ہے کہ جانور میں جب تک جان ہے اور اس کے جسم کا کوئی حصہ کاٹ لیا جائے تو اس کا کھانا حرام ہے۔ (احمد ابوداؤد ترمذی) پھر فرمایا اسے خود کھاؤ بعض سلف تو فرماتے ہیں یہ کھانا مباح ہے۔ امام مالک ؒ فرماتے ہے مستحب ہے اور لوگ کہتے ہیں واجب ہے۔ اور مسکینوں کو بھی دو خواہ وہ گھروں میں بیٹھنے والے ہوں خواہ وہ دربدر سوال کرنے والے۔ یہ بھی مطلب ہے کہ قانع تو وہ ہے جو صبر سے گھر میں بیٹھا رہے اور معتر وہ ہے جو سوال تو نہ کرے لیکن اپنی عاجزی مسکینی کا اظہار کرے۔ یہ بھی مروی ہے کہ قانع وہ ہے جو مسکین ہو آنے جانے والا۔ اور معتر سے مراد دوست اور ناتواں لوگ اور وہ پڑوسی جو گو مالدار ہوں لیکن تمہارے ہاں جو آئے جائے اسے وہ دیکھتے ہوں۔ وہ بھی ہیں جو طمع رکھتے ہوں اور وہ بھی جو امیر فقیر موجود ہوں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ قانع سے مراد اہل مکہ ہیں۔ امام ابن جریر ؒ کا فرمان ہے کہ قانع سے مراد تو سائل ہے کیونکہ وہ اپنا ہاتھ سوال کے لئے دراز کرتا ہے۔ اور معتر سے مراد وہ جو ہیر پھیر کرے کہ کچھ مل جائے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنے چاہئیں۔ تہائی اپنے کھانے کو، تہائی دوستوں کے دینے کو، تہائی صدقہ کرنے کو۔ حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں میں نے تمہیں قربانی کے گوشت کو جمع کرکے رکھنے سے منع فرمادیا تھا کہ تین دن سے زیادہ تک نہ روکا جائے اب میں اجازت دیتا ہوں کہ کھاؤ جمع کرو جس طرح چاہو۔ اور روایت میں ہے کہ کھاؤ جمع کرو اور صدقہ کرو۔ اور روایت میں ہے کھاؤ اور کھلاؤ اور راہ للہ دو۔ بعض لوگ کہتے ہیں قربانی کرنے والا آدھا گوشت آپ کھائے اور باقی صدقہ کردے کیونکہ قرآن نے فرمایا ہے خود کھاؤ اور محتاج فقیر کو کھلاؤ۔ اور حدیث میں بھی ہے کہ کھاؤ، جمع، ذخیرہ کرو اور راہ للہ دو۔ اب جو شخص اپنی قربانی کا سارا گوشت خود ہی کھاجائے تو ایک قول یہ بھی ہے کہ اس پر کچھ حرج نہیں۔ بعض کہتے ہیں اس پر ویسی ہی قربانی یا اس کی قیمت کی ادائیگی ہے بعض کہتے ہیں آدھی قیمت دے، بعض آدھا گوشت۔ بعض کہتے ہیں اس کے اجزا میں سے چھوٹے سے چھوٹے جز کی قیمت اس کے ذمے ہے باقی معاف ہے۔ کھال کے بارے میں مسند احمد میں حدیث ہے کہ کھاؤ اور فی اللہ دو اور اس کے چمڑوں سے فائدہ اٹھاؤ لیکن انہیں بیچو نہیں۔ بعض علماء نے بیچنے کی رخصت دی ہے۔ بعض کہتے ہیں غریبوں میں تقسیم کردئیے جائیں۔ (مسئلہ) براء بن عازب کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب سے پہلے ہمیں اس دن نماز عید ادا کرنی چاہئے پھر لوٹ کر قربانیاں کرنی چاہئیں جو ایسا کرے اس نے سنت کی ادائیگی کی۔ اور جس نے نماز سے پہلے ہی قربانی کرلی اس نے گویا اپنے والوں کے لئے گوشت جمع کرلیا اسے قربانی سے کوئی لگاؤ نہیں (بخاری مسلم) اسی لئے امام شافعی ؒ اور علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ قربانی کا اول وقت اس وقت ہوتا ہے جب سورج نکل آئے اور اتنا وقت گزر جائے کہ نماز ہولے اور دو خطبے ہو لیں۔ امام احمد ؒ کے نزدیک اس کے بعد کا اتنا وقت بھی کہ امام ذبح کرلے۔ کیونکہ صحیح مسلم میں ہے امام جب تک قربانی نہ کرے تم قربانی نہ کرو۔ امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک تو گاؤں والوں پر عید کی نماز ہی نہیں اس لئے کہتے ہیں کہ وہ طلوع فجر کے بعد ہی قربانی کرسکتے ہیں ہاں شہری لوگ جب تک امام نماز سے فارغ نہ ہولے قربانی نہ کریں واللہ اعلم۔ پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف عید والے دن ہی قربانی کرنا مشروع ہے اور قول ہے کہ شہر والوں کے لئے تو یہی ہے کیونکہ یہاں قربانیاں آسانی سے مل جاتی ہیں۔ لیکن گاؤں والوں کے لئے عید کا دن اور اس کے بعد کے ایام تشریق۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دسویں اور گیا رھویں تاریخ سب کے لئے قربانی کی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عید کے بعد کے دو دن۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عید کا دن اور اس کے بعد کے تین دن جو ایام تشریق کے ہیں۔ امام شافعی کا مذہب یہی ہے کیونکہ حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا ایام تشریق سب قربانی کے ہیں (احمد، ابن حبان) کہا گیا ہے کہ قربانی کے دن ذی الحجہ کے خاتمہ تک ہیں لیکن یہ قول غریب ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ اسی وجہ سے ہم نے ان جانوروں کو تمہارا فرماں بردار اور زیر اثر کردیا ہے کہ تم چاہو سواری لو، جب چاہو دودھ نکال لو، جب چاہو ذبح کرکے گوشت کھالو۔ جیسے سورة یسٰین میں آیت (اولم یروا) سے (افلا تشکرون) تک بیان ہوا ہے۔ یہی فرمان یہاں ہے کہ اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرو اور ناشکری، ناقدری نہ کرو۔

آیت 36 - سورہ الحج: (والبدن جعلناها لكم من شعائر الله لكم فيها خير ۖ فاذكروا اسم الله عليها صواف ۖ فإذا وجبت جنوبها فكلوا...) - اردو