سورہ الحج (22): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Hajj کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الحج کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورہ الحج کے بارے میں معلومات

Surah Al-Hajj
سُورَةُ الحَجِّ
صفحہ 336 (آیات 31 سے 38 تک)

حُنَفَآءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِۦ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ ٱلسَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ ٱلطَّيْرُ أَوْ تَهْوِى بِهِ ٱلرِّيحُ فِى مَكَانٍ سَحِيقٍ ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَٰٓئِرَ ٱللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى ٱلْقُلُوبِ لَكُمْ فِيهَا مَنَٰفِعُ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّى ثُمَّ مَحِلُّهَآ إِلَى ٱلْبَيْتِ ٱلْعَتِيقِ وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا۟ ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّنۢ بَهِيمَةِ ٱلْأَنْعَٰمِ ۗ فَإِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَٰحِدٌ فَلَهُۥٓ أَسْلِمُوا۟ ۗ وَبَشِّرِ ٱلْمُخْبِتِينَ ٱلَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ ٱللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَٱلصَّٰبِرِينَ عَلَىٰ مَآ أَصَابَهُمْ وَٱلْمُقِيمِى ٱلصَّلَوٰةِ وَمِمَّا رَزَقْنَٰهُمْ يُنفِقُونَ وَٱلْبُدْنَ جَعَلْنَٰهَا لَكُم مِّن شَعَٰٓئِرِ ٱللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ ۖ فَٱذْكُرُوا۟ ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَيْهَا صَوَآفَّ ۖ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا۟ مِنْهَا وَأَطْعِمُوا۟ ٱلْقَانِعَ وَٱلْمُعْتَرَّ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرْنَٰهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ لَن يَنَالَ ٱللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَآؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ ٱلتَّقْوَىٰ مِنكُمْ ۚ كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا۟ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَىٰكُمْ ۗ وَبَشِّرِ ٱلْمُحْسِنِينَ ۞ إِنَّ ٱللَّهَ يُدَٰفِعُ عَنِ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ
336

سورہ الحج کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورہ الحج کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

یکسُو ہو کر اللہ کے بندے بنو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گر گیا، اب یا تو اسے پرندے اُچک لے جائیں گے یا ہوا اُس کو ایسی جگہ لے جا کر پھینک دے گی جہاں اُس کے چیتھڑے اڑ جائیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Hunafaa lillahi ghayra mushrikeena bihi waman yushrik biAllahi fakaannama kharra mina alssamai fatakhtafuhu alttayru aw tahwee bihi alrreehu fee makanin saheeqin

اردو ترجمہ

یہ ہے اصل معاملہ (اسے سمجھ لو)، اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thalika waman yuAAaththim shaAAaira Allahi fainnaha min taqwa alquloobi

قربانی کے جانور اور حجاج اللہ کے شعائر کی جن میں قربانی کے جانور بھی شامل ہیں حرمت وعزت بیان ہو رہی ہے کہ احکام الٰہی پر عمل کرنا اللہ کے فرمان کی توقیر کرنا ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں۔ یعنی قربانی کے جانوروں کو فربہ اور عمدہ کرنا۔ سہل کا بیان ہے کہ ہم قربانی کے جانوروں کو پال کر انہیں فربہ اور عمدہ کرتے تھے تمام مسلمانوں کا یہی دستور تھا (بخاری شریف) رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ دو سیاہ رنگ کے جانوروں کے خون سے ایک عمدہ سفید رنگ جانور کا خون اللہ کو زیادہ محبوب ہے۔ (مسند احمد، ابن ماجہ) پس اگرچہ اور رنگت کے جانور بھی جائز ہیں لیکن سفید رنگ جانور افضل ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ ﷺ نے دو مینڈھے چت کبرے بڑے بڑے سینگوں والے اپنی قربانی میں ذبح کئے۔ ابو سعید ؓ فرماتے ہیں حضور ﷺ نے ایک مینڈھا بڑا سینگ والا چت کبرا ذبح کیا جس کے منہ پر آنکھوں کے پاس اور پیروں پر سیاہ رنگ تھا۔ (سنن) امام ترمذی ؒ اسے صحیح کہتے ہیں۔ ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ حضور ﷺ نے دو مینڈھے بہت موٹے تازے چکنے چت کبرے خصی ذبح کئے۔ حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا کہ ہم قربانی کے لئے جانور خریدتے وقت اس کی آنکھوں کو اور کانوں کو اچھی طرح دیکھ بھال لیا کریں۔ اور آگے سے کٹے ہوئے کان والے پیچھے سے کٹے ہوئے کان والے لمبائی میں چرے ہوئے کان والے یا سوراخ دار کان والے کی قربانی نہ کریں (احمد اہل سنن) اسے امام ترمذی ؒ صحیح کہتے ہیں۔ اسی طرح حضور ﷺ نے سینگ ٹوٹے ہوئے اور کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے اس کی شرح میں حضرت سعید بن مسیب ؒ فرماتے ہیں جب کہ آدھایا آدھے سے زیادہ کان یا سینگ نہ ہو۔ بعض اہل لغت کہتے ہیں اگر اوپر سے کسی جانور کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو تو اسے عربی میں قصما کہتے اور جب نیچے کا حصہ ٹوٹا ہوا ہو تو اسے عضب کہتے۔ اور حدیث میں لفظ عضب ہے اور کان کا کچھ حصہ کٹ گیا ہو تو اسے بھی عربی میں عضب کہتے ہیں۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں ایسے جانور کی قربانی گو جائز ہے لیکن کراہت کے ساتھ۔ امام احمد ؒ فرماتے ہیں کہ جائز ہی نہیں۔ (بظاہر یہی قول مطابق حدیث ہے) امام مالک ؒ فرماتے ہیں اگر سینگ سے خون جاری ہے تو جائز نہیں ورنہ جائز ہے واللہ اعلم۔ حضور ﷺ کی حدیث ہے کہ چار قسم کے عیب دار جانور قربانی میں جائز نہیں کانا جانور جس کا بھینگا پن ظاہر ہو اور وہ بیمار جانور جس کی بیماری کھلی ہوئی ہو اور وہ لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو اور وہ دبلا پتلا مریل جانور جو گودے کے بغیر کا ہوگیا ہو۔ (احمد اہل سنن) اسے امام ترمذی صحیح کہتے ہیں۔ یہ عیوب وہ ہیں جن سے جانور گھٹ جاتا ہے۔ اس کا گوشت ناقص ہوجاتا ہے اور بکریاں چرتی چگتی رہتی ہیں اور یہ بوجہ اپنی کمزوری کے چارہ پورہ نہیں پاتا اسی لئے اس حدیث کے مطابق امام شافعی وغیرہ کے نزدیک اس کی قربانی ناجائز ہے ہاں بیمار جانور کے بارے میں جس کی بیماری خطرناک درجے کی نہ ہو بہت کم ہو امام صاحب کے دونوں قول ہیں۔ ابو داؤد میں ہے کہ حضور ﷺ نے منع فرمایا بالکل سینگ کٹے جانور سینگ ٹوٹے جانور اور کانے جانور سے اور بالکل کمزور جانور سے جو ہمیشہ ہی ریوڑ کے پیچھے رہ جاتا ہو بوجہ کمزوری کے یا بوجہ زیادہ عمر کے اور لنگڑے جانور سے پس ان کل عیوب والے جانوروں کی قربانی ناجائز ہے۔ ہاں اگر قربانی کے لئے صحیح سالم بےعیب جانور مقرر کردینے کے بعد اتفاقا اس میں کوئی ایسی بات آجائے مثلا لولا لنگڑا وغیرہ ہوجائے تو حضرت امام شافعی ؒ کے نزدیک اس کی قربانی بلاشبہ جائز ہے، امام ابوحنیفہ ؒ اس کے خلاف ہیں۔ امام شافعی ؒ کی دلیل وہ حدیث ہے جو مسند احمد میں حضرت ابو سعید ؓ سے مروی ہے کہ میں نے قربانی کے لئے جانور خریدا اس پر ایک بھیڑیے نے حملہ کیا اور اس کی ران کا بوٹا توڑ لیا میں نے حضور ﷺ سے واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا تم اسی جانور کی قربانی کرسکتے ہو۔ پس خریدتے وقت جانور کا فربہ ہونا تیار ہونا بےعیب ہونا چاہئے جیسے حضور ﷺ کا حکم ہے کہ آنکھ کان دیکھ لیا کرو۔ حضرت عمر فاروق ؓ نے ایک نہایت عمدہ اونٹ قربانی کے لئے نامزد کیا لوگوں نے اس کی قیمت تین سو اشرفی لگائیں تو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے مسئلہ دریافت کیا اگر آپ اجازت دیں تو میں اسے بیچ دوں اور اس کی قیمت سے اور جانور بہت سے خرید لوں اور انہیں راہ للہ قربان کروں آپ نے منع فرمادیا اور حکم دیا کہ اسی کو فی سبیل اللہ ذبح کرو۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں قربانی کے اونٹ شعائر اللہ میں سے ہیں۔ محمد بن ابی موسیٰ ؓ فرماتے ہیں عرفات میں ٹھہرنا اور مزدلفہ اور رمی جمار اور سر منڈوانا اور قربانی کے اونٹ یہ سب شعائر اللہ ہیں۔ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں ان سب سے بڑھ کر بیت اللہ شریف ہے۔ پھر فرماتا ہے ان جانوروں کے بالوں میں، اون میں تمہارے لئے فوائد ہیں ان پر تم سوار ہوتے ہو ان کی کھالیں تمہارے لئے کار آمد ہیں۔ یہ سب ایک مقررہ وقت تک۔ یعنی جب تک اسے راہ للہ نامزد نہیں کیا۔ ان کا دودھ پیو ان سے نسلیں حاصل کرو جب قربانی کے لئے مقرر کردیا پھر وہ اللہ کی چیز ہوگیا۔ بزرگ کہتے ہیں اگر ضرورت ہو تو اب بھی سواری کی اجازت ہے۔ بخاری ومسلم میں ہے کہ ایک شخص کو اپنی قربانی کا جانور ہانکتے ہوئے دیکھ کر آپ نے فرمایا اس پر سوار ہوجاؤ اس نے کہا حضور ﷺ میں اسے قربانی کی نیت کا کرچکا ہوں۔ آپ نے دوسری یا تیسری بار فرمایا افسوس بیٹھ کیوں نہیں جاتا۔ صحیح مسلم شریف میں ہے جب ضرورت اور حاجت ہو تو سوار ہوجایا کرو۔ ایک شخص کی قربانی کی اونٹنی نے بچہ دیا تو حضرت علی ؓ نے اسے حکم دیا کہ اس کو دودھ پیٹ بھر کر پی لینے دے پھر اگر بچ رہے تو خیر تو اپنے کام میں لا اور قربانی والے دن اسے اور اس بچے کو دونوں کو بنام اللہ ذبح کردے۔ پھر فرماتا ہے ان کی قربان گاہ بیت اللہ شریف ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت (هَدْيًۢا بٰلِــغَ الْكَعْبَةِ 95؀) 5۔ المآئدہ :95) اور آیت میں (وَالْهَدْيَ مَعْكُوْفًا اَنْ يَّبْلُغَ مَحِلَّهٗ 25؀) 48۔ الفتح :25) بیت العتیق کے معنی اس سے پہلے ابھی ابھی بیان ہوچکے ہیں فالحمد للہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں بیت اللہ کا طواف کرنے والا احرام سے حلال ہوجاتا ہے۔ دلیل میں یہی آیت تلاوت فرمائی۔

اردو ترجمہ

تمہیں ایک وقت مقرر تک اُن (ہدی کے جانوروں) سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے پھر اُن (کے قربان کرنے) کی جگہ اسی قدیم گھر کے پاس ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lakum feeha manafiAAu ila ajalin musamman thumma mahilluha ila albayti alAAateeqi

اردو ترجمہ

ہر امّت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے تاکہ (اُس امّت کے لوگ) اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے اُن کو بخشے ہیں (اِن مختلف طریقوں کے اندر مقصد ایک ہی ہے) پس تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے اور اُسی کے تم مطیع فرمان بنو اور اے نبیؐ، بشارت دے دے عاجزانہ رَوش اختیار کرنے والوں کو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walikulli ommatin jaAAalna mansakan liyathkuroo isma Allahi AAala ma razaqahum min baheemati alanAAami failahukum ilahun wahidun falahu aslimoo wabashshiri almukhbiteena

قربانی ہر امت پر فرض قرار دی گئی فرمان ہے کہ کل امتوں میں ہر مذہب میں ہر گروہ کو ہم نے قربانی کا حکم دیا تھا۔ ان کے لئے ایک دن عید کا مقرر تھا۔ وہ بھی اللہ کے نام ذبیحہ کرتے تھے۔ سب کے سب مکہ شریف میں اپنی قربانیاں بھیجتے تھے۔ تاکہ قربانی کے چوپائے جانوروں کے ذبح کرنے کے وقت اللہ کا نام ذکر کریں۔حضور ﷺ کے پاس دو مینڈھے چت کبرے بڑے بڑے سینگوں والے لائے گئے آپ نے انہیں لٹا کر ان کی گردن پر پاؤں رکھ کر بسم اللہ واللہ اکبر پڑھ کر ذبح کیا۔ مسند احمد میں ہے کہ صحابہ ؓ نے حضور ﷺ سے دریافت کیا کہ یہ قربانیاں کیا ہیں ؟ آپ نے جواب دیا تمہارے باپ ابراہیم ؑ کی سنت۔ پوچھا ہمیں اس میں کیا ملتا ہے ؟ فرمایا ہر بال کے بدلے ایک نیکی۔ دریافت کیا اور " اون " کا کیا حکم ہے ؟ فرمایا ان کے روئیں کے بدلے ایک نیکی۔ اسے امام ابن جریر رحمتہ اللہ بھی لائے ہیں۔ تم سب کا اللہ ایک ہے گو شریعت کے بعض احکام ادل بدل ہوتے رہے لیکن توحید میں، اللہ کی یگانگت میں، کسی رسول کو کسی نیک امت کو اختلاف نہیں ہوا۔ سب اللہ کی توحید، اسی کی عبادت کی طرف تمام جہان کو بلاتے رہے۔ سب پر اول وحی یہی نازل ہوتی رہی۔ پس تم سب اس کی طرف جھک جاؤ، اس کے ہو کر رہو، اس کے احکام کی پابندی کرو، اس کی اطاعت میں استحکام کرو۔ جو لوگ مطمئن ہیں، جو متواضع ہیں، جو تقوے والے ہیں، جو ظلم سے بیزار ہیں، مظلومی کی حالت میں بدلہ لینے کے خوگر نہیں، مرضی مولا، رضائے رب پر راضی ہیں انہیں خوشخبریاں سنادیں، وہ مبارکباد کے قابل ہیں۔ جو ذکر الٰہی سنتے ہیں دل نرم، اور خوف الٰہی سے پر کرکے رب کی طرف جھک جاتے ہیں، کٹھن کاموں پر صبر کرتے ہیں، مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں۔ امام حسن بصری ؒ فرماتے ہیں واللہ اگر تم نے صبر و برداشت کی عادت نہ ڈالی تو تم برباد کردیئے جاؤگے ولامقیمی کی قرأت اضافت کے ساتھ تو جمہور کی ہے۔ لیکن ابن سمیفع نے والمقیمین پڑھا ہے اور الصلوۃ کا زبر پڑھا ہے۔ امام حسن نے پڑھا تو ہے نون کے حذف اور اضافت کے ساتھ لیکن الصلوۃ کا زبر پڑھا ہے اور فرماتے ہیں کہ نون کا حذف یہاں پر بوجہ تخفیف کے ہے کیونکہ اگر بوجہ اضافت مانا جائے تو اس کا زبر لازم ہے۔ اور ہوسکتا ہے کہ بوجہ قرب کے ہو۔ مطلب یہ ہے کہ فریضہ الٰہی کے پابند ہیں اور اللہ کا حق ادا کرنے والے ہیں اور اللہ کا دیا ہوا دیتے رہتے ہیں، اپنے گھرانے کے لوگوں کو، فقیروں محتاجوں کو اور تمام مخلوق کو جو بھی ضرورت مند ہوں سب کے ساتھ سلوک واحسان سے پیش آتے ہیں۔ اللہ کی حدود کی حفاظت کرتے ہیں منافقوں کی طرح نہیں کہ ایک کام کریں تو ایک کو چھوڑیں۔ سورة براۃ میں بھی یہی صفتیں بیان فرمائی ہیں اور وہیں پوری تفسیر بھی بحمد اللہ ہم کر آئے ہیں

اردو ترجمہ

جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سُنتے ہیں تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں، جو مصیبت بھی اُن پر آتی ہے اُس پر صبر کرتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ رزق ہم نے اُن کو دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena itha thukira Allahu wajilat quloobuhum waalssabireena AAala ma asabahum waalmuqeemee alssalati wamimma razaqnahum yunfiqoona

اردو ترجمہ

اور (قربانی کے) اونٹوں کو ہم نے تمہارے لیے شعائر اللہ میں شامل کیا ہے، تمہارے لیے اُن میں بھَلائی ہے، پس انہیں کھڑا کر کے ان پر اللہ کا نام لو، اور جب (قربانی کے بعد) ان کی پیٹھیں زمین پر ٹک جائیں تو اُن میں سے خود بھی کھاؤ اور اُن کو بھی کھلاؤ جو قناعت کیے بیٹھے ہیں اور اُن کو بھی جو اپنی حاجت پیش کریں اِن جانوروں کو ہم نے اِس طرح تمہارے لیے مسخّر کیا ہے تاکہ تم شکریہ ادا کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalbudna jaAAalnaha lakum min shaAAairi Allahi lakum feeha khayrun faothkuroo isma Allahi AAalayha sawaffa faitha wajabat junoobuha fakuloo minha waatAAimoo alqaniAAa waalmuAAtarra kathalika sakhkharnaha lakum laAAallakum tashkuroona

شعائر اللہ کیا ہیں ؟ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے جانور پیدا کئے اور انہیں اپنے نام پر قربان کرنے اور اپنے گھر بطور قربانی کے پہنچانے کا حکم فرمایا اور انہیں شعائر اللہ قرار دیا اور حکم فرمایا آیت (يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَاۗىِٕرَ اللّٰهِ وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْهَدْيَ وَلَا الْقَلَاۗىِٕد وَلَآ اٰۗمِّيْنَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرِضْوَانًا) 5۔ المآئدہ :2) نہ تو اللہ کے ان عظمت والے نشانات کی بےادبی کرو نہ حرمت والے مہینوں کی گستاخی کرو لہذا ہر اونٹ گائے جو قربانی کے لئے مقرر کردیا جائے۔ وہ بدن میں داخل ہے۔ گو بعض لوگوں نے صرف اونٹ کو ہی بدن کہا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ اونٹ تو ہے ہی گائے بھی اس میں شامل ہے حدیث میں ہے کہ جس طرح اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے قربان ہوسکتا ہے اسی طرح گائے بھی۔ جابر بن عبداللہ ؓ سے صحیح مسلم شریف میں روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ہم اونٹ میں سات شریک ہوجائیں اور گائے میں بھی سات آدمی شرکت کرلیں۔ امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ تو فرماتے ہیں ان دونوں جانوروں میں دس دس آدمی شریک ہوسکتے ہیں مسند احمد اور سنن نسائی میں ایسی حدیث بھی آئی ہے۔ واللہ اعلم پھر فرمایا ان جانوروں میں تمہارا اخروی نفع ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں بقرہ عید والے دن انسان کا کوئی عمل اللہ کے نزدیک قربانی سے زیادہ پسندیدہ نہیں۔ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، کھروں اور بالوں سمیت انسان کی نیکیوں میں پیش کیا جائے گا۔ یاد رکھو قربانی کے خون کا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں پہنچ جاتا ہے پس ٹھنڈے دل سے قربانیاں کرو (ابن ماجہ ترمذی) حضرت سفیان ثوری ؒ تو قرض اٹھا کر بھی قربانی کیا کرتے تھے اور لوگوں کے دریافت کرنے پر فرماتے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہیں اس میں تمہارا بھلا ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کسی خرچ کا فضل اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہ نسبت اس خرچ کے جو بقرہ عید والے دن کی قربانی پر کیا جائے ہرگز افضل نہیں۔ (دارقطنی) پس اللہ فرماتا تمہارے لئے ان جانوروں میں ثواب ہے نفع ہے ضرورت کے وقت دودھ پی سکتے ہو سوار ہوسکتے ہو پھر ان کی قربانی کے وقت اپنا نام پڑھنے کی ہدایت کرتا ہے حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں میں نے عید الضحیٰ کی نماز رسول ﷺ کے ساتھ پڑھی نماز سے فراغت پاتے ہی سامنے مینڈھا لایا گیا جیسے آپ نے دعا (بسم اللہ واللہ اکبر) پڑھ کر ذبح کیا پھر کہا اے اللہ یہ میری طرف سے ہے اور میری امت میں سے جو قربانی نہ کرسکے اس کی طرف سے ہے (احمد داؤد ترمذی) فرماتے ہیں عید والے دن آپ کے پاس دو مینڈھے لائے گئے انہیں قبلہ رخ کرکے آپ نے دعا (وجہت وجہی للذی فطرالسموت والارض حنیفا وما انا من المشرکین ان صلوتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین لاشریک لہ وبذلک امرت وانا اول المسلمین اللہم منک ولک عن محمد وامتہ) پڑھ کر بسم اللہ واللہ اکبر کہہ کر ذبح کر ڈالا۔ حضرت ابو رافع ؓ فرماتے ہیں کہ قربانی کے موقع پر رسول اللہ ﷺ دو مینڈھے موٹے موٹے تازے تیار عمدہ بڑے سینگوں والے چتکبرے خریدتے، جب نماز پڑھ کر خطبے سے فراغت پاتے ایک جانور آپ کے پاس لایا جاتا آپ وہیں عیدگاہ میں ہی خود اپنے ہاتھ سے اسے ذبح کرتے اور فرماتے اللہ تعالیٰ یہ میری ساری امت کی طرف سے ہے جو بھی توحید وسنت کا گواہ ہے پھر دوسرا جانور حاضر کیا جاتا جسے ذبح کر کے فرماتے یہ محمد ﷺ اور آل محمد کی طرف سے ہے پھر دونوں کا گوشت مسکینوں کو بھی دیتے اور آپ اور آپ کے گھر والے بھی کھاتے۔ (احمد ابن ماجہ) صواف کے معنی ابن عباس ؓ نے اونٹ کو تین پیروں پر کھڑا کر کے اس کا بایاں ہاتھ باندھ کر دعا (بسم اللہ واللہ اکبر لا ایہ الا اللہم منک ولک) پڑھ کر اسے نحر کرنے کے کئے ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے اپنے اونٹ کو قربان کرنے کے لئے بٹھایا ہے تو آپ نے فرمایا اسے کھڑا کردے اور اس کا پیر باندھ کر اسے نحر کر یہی سنت ہے ابو القاسم ﷺ کی۔ حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں حضور ﷺ اور آپ کے صحابہ اونٹ کا ایک پاؤں باندھ کر تین پاؤں پر کھڑا کر کے ہی نحر کرتے تھے۔ (ابوداؤد) حضرت سالم بن عبداللہ ؓ نے سلیمان بن عبد الملک سے فرمایا تھا کہ بائیں طرف سے نحر کیا کرو۔ حجتہ الوداع کا بیان کرتے ہوئے حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے تریسٹھ اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر کئے آپ کے ہاتھ میں حربہ تھا جس سے آپ زخمی کررہے تھے۔ ابن مسعود ؓ کی قرأت میں صوافن ہے یعنی کھڑے کرکے پاؤں باندھ کر صواف کے معنی خالص کے بھی کئے گئے ہیں یعنی جس طرح جاہلیت کے زمانے میں اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک کرتے تھے تم نہ کرو، صرف اللہ واحد کے نام پر ہی قربانیاں کرو۔ پھر جب یہ زمین پر گرپڑیں یعنی نحر ہوجائیں ٹھنڈے پڑجائیں تو خود کھاؤ اوروں کو بھی کھلاؤ نیزہ مارتے ہی ٹکڑے کاٹنے شروع نہ کرو جب تک روح نہ نکل جائے اور ٹھنڈا نہ پڑجائے۔ چناچہ ایک حدیث میں بھی آیا ہے کہ روحوں کے نکالنے میں جلدی نہ کرو صحیح مسلم کی حدیث میں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ سلوک کرنا لکھ دیا ہے دشمنوں کو میدان جنگ میں قتل کرتے وقت بھی نیک سلوک رکھو اور جانوروں کو ذبح کرتے وقت بھی اچھی طرح سے نرمی کے ساتھ ذبح کرو چھری تیز کرلیا کرو اور جانور کو تکلیف نہ دیاکرو۔ فرمان ہے کہ جانور میں جب تک جان ہے اور اس کے جسم کا کوئی حصہ کاٹ لیا جائے تو اس کا کھانا حرام ہے۔ (احمد ابوداؤد ترمذی) پھر فرمایا اسے خود کھاؤ بعض سلف تو فرماتے ہیں یہ کھانا مباح ہے۔ امام مالک ؒ فرماتے ہے مستحب ہے اور لوگ کہتے ہیں واجب ہے۔ اور مسکینوں کو بھی دو خواہ وہ گھروں میں بیٹھنے والے ہوں خواہ وہ دربدر سوال کرنے والے۔ یہ بھی مطلب ہے کہ قانع تو وہ ہے جو صبر سے گھر میں بیٹھا رہے اور معتر وہ ہے جو سوال تو نہ کرے لیکن اپنی عاجزی مسکینی کا اظہار کرے۔ یہ بھی مروی ہے کہ قانع وہ ہے جو مسکین ہو آنے جانے والا۔ اور معتر سے مراد دوست اور ناتواں لوگ اور وہ پڑوسی جو گو مالدار ہوں لیکن تمہارے ہاں جو آئے جائے اسے وہ دیکھتے ہوں۔ وہ بھی ہیں جو طمع رکھتے ہوں اور وہ بھی جو امیر فقیر موجود ہوں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ قانع سے مراد اہل مکہ ہیں۔ امام ابن جریر ؒ کا فرمان ہے کہ قانع سے مراد تو سائل ہے کیونکہ وہ اپنا ہاتھ سوال کے لئے دراز کرتا ہے۔ اور معتر سے مراد وہ جو ہیر پھیر کرے کہ کچھ مل جائے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنے چاہئیں۔ تہائی اپنے کھانے کو، تہائی دوستوں کے دینے کو، تہائی صدقہ کرنے کو۔ حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں میں نے تمہیں قربانی کے گوشت کو جمع کرکے رکھنے سے منع فرمادیا تھا کہ تین دن سے زیادہ تک نہ روکا جائے اب میں اجازت دیتا ہوں کہ کھاؤ جمع کرو جس طرح چاہو۔ اور روایت میں ہے کہ کھاؤ جمع کرو اور صدقہ کرو۔ اور روایت میں ہے کھاؤ اور کھلاؤ اور راہ للہ دو۔ بعض لوگ کہتے ہیں قربانی کرنے والا آدھا گوشت آپ کھائے اور باقی صدقہ کردے کیونکہ قرآن نے فرمایا ہے خود کھاؤ اور محتاج فقیر کو کھلاؤ۔ اور حدیث میں بھی ہے کہ کھاؤ، جمع، ذخیرہ کرو اور راہ للہ دو۔ اب جو شخص اپنی قربانی کا سارا گوشت خود ہی کھاجائے تو ایک قول یہ بھی ہے کہ اس پر کچھ حرج نہیں۔ بعض کہتے ہیں اس پر ویسی ہی قربانی یا اس کی قیمت کی ادائیگی ہے بعض کہتے ہیں آدھی قیمت دے، بعض آدھا گوشت۔ بعض کہتے ہیں اس کے اجزا میں سے چھوٹے سے چھوٹے جز کی قیمت اس کے ذمے ہے باقی معاف ہے۔ کھال کے بارے میں مسند احمد میں حدیث ہے کہ کھاؤ اور فی اللہ دو اور اس کے چمڑوں سے فائدہ اٹھاؤ لیکن انہیں بیچو نہیں۔ بعض علماء نے بیچنے کی رخصت دی ہے۔ بعض کہتے ہیں غریبوں میں تقسیم کردئیے جائیں۔ (مسئلہ) براء بن عازب کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب سے پہلے ہمیں اس دن نماز عید ادا کرنی چاہئے پھر لوٹ کر قربانیاں کرنی چاہئیں جو ایسا کرے اس نے سنت کی ادائیگی کی۔ اور جس نے نماز سے پہلے ہی قربانی کرلی اس نے گویا اپنے والوں کے لئے گوشت جمع کرلیا اسے قربانی سے کوئی لگاؤ نہیں (بخاری مسلم) اسی لئے امام شافعی ؒ اور علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ قربانی کا اول وقت اس وقت ہوتا ہے جب سورج نکل آئے اور اتنا وقت گزر جائے کہ نماز ہولے اور دو خطبے ہو لیں۔ امام احمد ؒ کے نزدیک اس کے بعد کا اتنا وقت بھی کہ امام ذبح کرلے۔ کیونکہ صحیح مسلم میں ہے امام جب تک قربانی نہ کرے تم قربانی نہ کرو۔ امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک تو گاؤں والوں پر عید کی نماز ہی نہیں اس لئے کہتے ہیں کہ وہ طلوع فجر کے بعد ہی قربانی کرسکتے ہیں ہاں شہری لوگ جب تک امام نماز سے فارغ نہ ہولے قربانی نہ کریں واللہ اعلم۔ پھر یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف عید والے دن ہی قربانی کرنا مشروع ہے اور قول ہے کہ شہر والوں کے لئے تو یہی ہے کیونکہ یہاں قربانیاں آسانی سے مل جاتی ہیں۔ لیکن گاؤں والوں کے لئے عید کا دن اور اس کے بعد کے ایام تشریق۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ دسویں اور گیا رھویں تاریخ سب کے لئے قربانی کی ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عید کے بعد کے دو دن۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عید کا دن اور اس کے بعد کے تین دن جو ایام تشریق کے ہیں۔ امام شافعی کا مذہب یہی ہے کیونکہ حضرت جبیر بن مطعم ؓ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا ایام تشریق سب قربانی کے ہیں (احمد، ابن حبان) کہا گیا ہے کہ قربانی کے دن ذی الحجہ کے خاتمہ تک ہیں لیکن یہ قول غریب ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ اسی وجہ سے ہم نے ان جانوروں کو تمہارا فرماں بردار اور زیر اثر کردیا ہے کہ تم چاہو سواری لو، جب چاہو دودھ نکال لو، جب چاہو ذبح کرکے گوشت کھالو۔ جیسے سورة یسٰین میں آیت (اولم یروا) سے (افلا تشکرون) تک بیان ہوا ہے۔ یہی فرمان یہاں ہے کہ اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرو اور ناشکری، ناقدری نہ کرو۔

اردو ترجمہ

نہ اُن کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے اُس نے ان کو تمہارے لیے اِس طرح مسخّر کیا ہے تاکہ اُس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اُس کی تکبیر کرو اور اے نبیؐ، بشارت دے دے نیکو کار لوگوں کو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lan yanala Allaha luhoomuha wala dimaoha walakin yanaluhu alttaqwa minkum kathalika sakhkharaha lakum litukabbiroo Allaha AAala ma hadakum wabashshiri almuhsineena

قربانی پر اللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان کرو ارشاد ہوتا ہے کہ قربانیوں کے وقت اللہ کا نام بڑائی سے لیا جائے۔ اسی لئے قربانیاں مقرر ہوئی ہیں کہ خالق رازق اسے مانا جائے نہ کہ قربانیوں کے گوشت وخون سے اللہ کو کوئی نفع ہوتا ہو۔ اللہ تعالیٰ ساری مخلوق سے غنی اور کل بندوں سے بےنیاز ہے۔ جاہلیت کی بیوقوفیوں میں ایک یہ بھی تھی کہ قربانی کے جانور کا گوشت اپنے بتوں کے سامنے رکھ دیتے تھے اور ان پر خون کا چھینٹا دیتے تھے۔ یہ بھی دستور تھا کہ بیت اللہ شریف پر قربانی کے خون چھڑکتے، مسلمان ہو کر صحابہ ؓ نے ایسا کرنے کے بارے میں سوال کیا جس پر یہ آیت اتری کہ اللہ تو تقوی کو دیکھتا ہے اسی کو قبول فرماتا ہے اور اسی پر بدلہ عنایت فرماتا ہے۔ چناچہ صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو نہیں دیکھتا نہ اس کی نظریں تمہارے مال پر ہیں بلکہ اس کی نگاہیں تمہارے دلوں پر اور تمہارے اعمال پر ہیں۔ اور حدیث میں ہے کہ خیرات وصدقہ سائل کے ہاتھ میں پڑے اس سے پہلے اللہ کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے۔ قربانی کے جانور کے خون کا قطرہ زمین پر ٹپکے اس سے پہلے اللہ کے ہاں پہنچ جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ خون کا قطرہ الگ ہوتے ہی قربانی مقبول ہوجاتی ہے واللہ اعلم۔ عامر شعبی سے قربانی کی کھالوں کی نسبت پوچھا گیا تو فرمایا اللہ کو گوشت وخون نہیں پہنچتا اگر چاہو بیچ دو ، اگر چاہو خود رکھ لو، اگر چاہو راہ للہ دے دو۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو تمہارے قبضے میں دیا ہے۔ کہ تم اللہ کے دین اور اس کی شریعت کی راہ پا کر اس کی مرضی کے کام کرو اور نامرضی کے کاموں سے رک جاؤ۔ اور اس کی عظمت وکبریائی بیان کرو۔ جو لوگ نیک کار ہیں، حدود اللہ کے پابند ہیں، شریعت کے عامل ہیں، رسولوں کی صداقت تسلیم کرتے ہیں وہ مستحق مبارکباد اور لائق خوشخبری ہیں۔ (مسئلہ) امام ابوحنیفہ مالک ثوری کا قول ہے کہ جس کے پاس نصاب زکوٰۃ جتنا مال ہو اس پر قربانی واجب ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ شرط بھی ہے کہ وہ اپنے گھر میں مقیم ہو۔ چناچہ ایک صحیح حدیث میں ہے کہ جسے وسعت ہو اور قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ اس روایت میں غرابت ہے اور امام احمد ؒ اسے منکر بتاتے ہیں۔ ابن عمر فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ برابر دس سال قربانی کرتے رہے۔ (ترمذی) امام شافعی ؒ اور حضرت احمد ؒ کا مذہب ہے کہ قربانی واجب وفرض نہیں بلکہ مستحب ہے۔ کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ مال میں زکوٰۃ کے سوا اور کوئی فرضیت نہیں۔ یہ بھی روایت پہلے بیان ہوچکی ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی تمام امت کی طرف سے قربانی کی پس وجوب ساقط ہوگیا۔ حضرت ابو شریحہ ؒ فرماتے ہیں میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے پڑوس میں رہتا تھا۔ یہ دونوں بزرگ قربانی نہیں کرتے تھے اس ڈر سے کہ لوگ ان کی اقتدا کریں گے۔ بعض لوگ کہتے ہیں قربانی سنت کفایہ ہے، جب کہ محلے میں سے یا گلی میں سے یا گھر میں سے کسی ایک نے کرلی باقی سب نے ایسا نہ کیا۔ اس لئے کہ مقصود صرف شعار کا ظاہر کرنا ہے۔ ترمذی وغیرہ میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میدان عرفات میں فرمایا ہر گھر والوں پر ہر سال قربانی ہے اور عتیرہ ہے جانتے ہو عتیرہ کیا ہے ؟ وہی جسے تم رجبیہ کہتے ہو۔ اس کی سند میں کلام کیا گیا ہے۔ حضرت ابو ایوب ؓ فرماتے ہیں صحابہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں اپنے پورے گھر کی طرف سے ایک بکری راہ للہ ذبح کردیا کرتے تھے اور خود بھی کھاتے، اوروں کو بھی کھلاتے۔ پھر لوگوں نے اس میں وہ کرلیا جو تم دیکھ رہے ہو۔ (ترمذی، ابن ماجہ) حضرت عبداللہ بن ہشام اپنی اور اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کیا کرتے تھے۔ (بخاری) اب قربانی کے جانور کی عمر کا بیان ملاحظہ ہو۔ صحیح مسلم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں نہ ذبح کرو مگر مسنہ بجز اس صورت کے کہ وہ تم پر بھاری پڑجائے تو پھر بھیڑ کا بچہ بھی چھ ماہ کا ذبح کرسکتے ہو۔ زہری تو کہتے ہیں کہ جزعہ یعنی چھ ماہ کا کوئی جانور قربانی میں کام ہی نہیں آسکتا اور اس کے بالمقابل اوزاعی کا مذہب ہے کہ ہر جانور کا جزعہ کافی ہے۔ لیکن یہ دونوں قول افراط والے ہیں۔ جمہور کا مذہب یہ ہے کہ اونٹ گائے بکری تو وہ جائز ہے جو ثنی ہو۔ اور بھیڑ کا چھ ماہ کا بھی جائز ہے۔ اونٹ تو ثنی ہوتا ہے جب پانچ سال پورے کرکے چھٹے میں لگ جائے۔ اور گائے جب دو سال پورے کرکے تیسرے میں لگ جائے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تین گزار کر چوتھے میں لگ گیا ہو۔ اور بکری کا ثنی وہ ہے جو دو سال گزار چکا ہو اور جذعہ کہتے ہیں اسے جو سال بھر کا ہوگیا ہو اور کہا گیا ہے جو دس ماہ کا ہو۔ ایک قول ہے جو آٹھ ماہ کا ہو ایک قول ہے جو چھ ماہ کا ہو اس سے کم مدت کا کوئی قول نہیں۔ اس سے کم عمر والے کو حمل کہتے ہیں۔ جب تک کہ اسکی پیٹھ پر بال کھڑے ہوں اور بال لیٹ جائیں اور دونوں جانب جھک جائیں تو اسے جذع کہا جاتا ہے، واللہ اعلم۔

اردو ترجمہ

یقیناً اللہ مدافعت کرتا ہے اُن لوگوں کی طرف سے جو ایمان لائے ہیں یقیناً اللہ کسی خائن کافر نعمت کو پسند نہیں کرتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna Allaha yudafiAAu AAani allatheena amanoo inna Allaha la yuhibbu kulla khawwanin kafoorin

اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے خبر دے رہا ہے کہ جو اس کے بندے اس پر بھروسہ رکھیں اس کی طرف جھکتے رہیں انہیں وہ اپنی امان نصیب فرماتا ہے، شریروں کی برائیاں دشمنوں کی بدیاں خود ہی ان سے دور کردیتا ہے، اپنی مدد ان پر نازل فرماتا ہے، اپنی حفاظت میں انہیں رکھتا ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت (اَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ ۭ وَيُخَوِّفُوْنَكَ بالَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖ ۭ وَمَنْ يُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ 36؀ۚ) 39۔ الزمر :36) یعنی کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں ؟ اور آیت میں (وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ بَالِغُ اَمْرِهٖ ۭ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا) 65۔ الطلاق :3) جو اللہ پر بھروسہ رکھے اللہ آپ اسے کافی ہے الخ، دغا باز ناشکرے اللہ کی محبت سے محروم ہیں اپنے عہدو پیمان پورے نہ کرنے والے اللہ کی نعمتوں کے منکر اللہ کے پیار سے دور ہیں۔

336