سورہ الحج: آیت 15 - من كان يظن أن لن... - اردو

آیت 15 کی تفسیر, سورہ الحج

مَن كَانَ يَظُنُّ أَن لَّن يَنصُرَهُ ٱللَّهُ فِى ٱلدُّنْيَا وَٱلْءَاخِرَةِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَى ٱلسَّمَآءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهُۥ مَا يَغِيظُ

اردو ترجمہ

جو شخص یہ گمان رکھتا ہو کہ اللہ دُنیا اور آخرت میں اُس کی کوئی مدد نہ کرے گا اُسے چاہیے کہ ایک رسّی کے ذریعے آسمان تک پہنچ کر شگاف لگائے، پھر دیکھ لے کہ آیا اُس کی تدبیر کسی ایسی چیز کو رد کر سکتی ہے جو اس کو ناگوار ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Man kana yathunnu an lan yansurahu Allahu fee alddunya waalakhirati falyamdud bisababin ila alssamai thumma liyaqtaAA falyanthur hal yuthhibanna kayduhu ma yagheethu

آیت 15 کی تفسیر

من کان یظن ……ما یغیظ (15)

یہ ایک نہایت ہی متحرک منظر ہے جس میں انسان کے نفسیاتی غیض و غضب کو ظاہر کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ایسے حالات میں ہونے والی حرکتوں کو بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ ایسے حالات کو مجسم کر کے پیش کیا جاتا ہے جن میں انسان کا غصہ اور بےچینی اپنی انتہا پر ہو۔ ایک ایسا شخص جس پر مشکلات آرہی ہوں اور اس کا تعلق رب تعالیٰ سے نہ ہو ، یہ وہ شخص ہے جو مصیبت کے وقت ہر طرف سے مایوس ہوجاتا ہے۔ اسے کسی طرف کوئی امید کی کرن نظر نہیں آتی ، کسی طرف سے باد نسیم کے کسی جھونکے کے لئے کوئی کھڑکی نظر نہیں آتی۔ یہ شخص ضیق نفس اور دلی درد سے ناقابل برداشت حد تک تنگ آجاتا ہے اور مایوسی کی اس حالت میں اسے رنج و الم اور پریشانی اور بےاطمینانی مزید تکلیف دیتی ہے۔ چناچہ ایسے شخص کو قرآن کہتا ہے کہ اگر وہ بہت تنگ ہے تو کسی رسی کے ذریعے آسمانوں تک پہنچے ، اسی رسی کے ساتھ یہ لٹک جائے یا تو یہ خدکشی کرلے گا اور باہر گر جائے گا ، یا اس کے ذریعہ اس کی جان نکل جائے گی۔ پھر وہ دیکھ لے کہ آیا ایسی تدابیر سے وہ اپنے آپ کو اس بری حالت سے نکال سکتا ہے۔

یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ مسلسل مصائب صرف ایک ہی صورت میں برداشت کئے جاسکتے ہیں کہ انسان کو رحمت خداوندی کی امید ہو۔ مصائب و مشکلات صرف اس صورت میں دور ہو سکتی ہے کہ انسان اللہ کی طرف توجہ کرے۔ مصیبتوں اور مشکلات پر قابو پانے اور ان سے نکلنے کی واحد صورت یہی ہے کہ انسان صرف اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرے ، کسی مایوس شخص کی ہر حرکت زیادہ مایوسی اور زیادہ مصیبتوں کا باعث ہوتی ہے اور مصیبت زدہ شخص جب مایوس ہوتا ہے تو اسے مصیبت زیادہ تنگ کرنے لگتی ہے۔ لہٰذا میں ان تمام لوگوں کو دعوت دیتا ہوں جو مصائب اور تکالیف کی چکی میں پس رہے ہیں کہ وہ اللہ سے امداد طلب کریں۔ صرف یہی راستہ ہے جس سے وہ اطمینان پا سکتے ہیں اور اللہ کی رحمت کی باد نسیم ان پر چل سکتی ہے۔

…………

ہدایت و ضلالت کے حالات اور ہدایت و ضلالت کی مثالوں کے ایسے ہی بیانات کی خاطر اللہ نے یہ قرآن نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس قرآن کے لئے اپنے دل کھول دیں اور اللہ ان کو ہدایت نصیب کرے۔

فَلْیَنْظُرْ ہَلْ یُذْہِبَنَّ کَیْدُہٗ مَا یَغِیْظُ ”یہ آیت مشکلات القرآن میں سے ہے اور مختلف مفسرین نے اپنے اپنے انداز میں اس کی تعبیر کی ہے۔ میرے نزدیک ”موضح القرآن“ میں شاہ عبدالقادر دہلوی رح کی تعبیر سب سے بہتر ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو پورے اخلاص کے ساتھ ہمہ وقت دین کی خدمت میں مصروف ہے اور اس رستے میں آنے والی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اللہ سے مسلسل امید رکھتا ہے کہ آج نہیں تو کل ‘ کل نہیں تو پرسوں اللہ کی مدد ضرور آئے گی۔ لیکن خدانخواستہ کسی مرحلے پر اگر وہ اللہ کی مدد سے مایوس ہوجائے تو اس کی یہ کیفیت اس کے لیے ناکامی کا باعث بن جائے گی۔ چناچہ اللہ کے راستے میں جدوجہد کرنے والوں کو ع ”پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ“ کے مصداق کبھی بھی امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور اللہ کی مدد سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ سورة الزمر کی آیت 53 میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے : لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط کہ تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ۔ اگر کسی خوش قسمت انسان کو اللہ کے رستے میں جدوجہد کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے تو اسے اللہ کے اس حکم کی تعمیل بھی کرنی چاہیے۔ اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ کے فیصلے اس کی اپنی مشیت کے مطابق ہوتے ہیں اور اس کی مشیت میں بندوں کا کوئی عمل دخل نہیں۔ بندوں کو تو بس یہ چاہیے کہ وہ اپنے اپنے حصے کی کوشش کریں اور اس کے وعدوں پر پختہ یقین رکھیں۔ جیسے اس کے بہت سے وعدوں میں سے ایک خوش کن وعدہ یہ بھی ہے : وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا ط العنکبوت : 69 ”اور جو لوگ ہماری راہ میں جدو جہد کریں گے ‘ ہم لازماً انہیں اپنے راستے دکھائیں گے“۔ چناچہ داعیانِ حق کو اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے اس کے حضور یوں التجا کرتے رہنا چاہیے : اِنَّکَ لاَ تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ آل عمران ”یقیناً تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا“۔ ہمیں یہ اندیشہ تو نہیں ہے کہ تو اپنا وعدہ پورا نہیں کرے گا ‘ بلکہ ہمیں یہ فکر دامن گیر ہے کہ ہم تیرے وعدوں کا مصداق بننے میں کامیاب ہوں گے یا نہیں۔ اس کے لیے جو شرائط مطلوب ہیں وہ شرائط ہم پوری کر بھی سکیں گے یا نہیں ! آیت زیر نظر میں یہ نکتہ سمجھانے کے لیے ایک شخص کی مثال دی گئی ہے جس نے اپنے اوپر ایک رسی اللہ کی طرف سے امید کو تھاما ہوا ہے۔ وہ شخص اگر کسی مرحلے پر مایوس ہو کر خود ہی رسی کو چھوڑ دے گا تو وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ جیسے ایک حدیث میں قرآن کو اللہ کی رسی قرار دیا گیا ہے ایسے ہی اللہ کی امید بھی ایک معنوی رسی ہے جو ہمیں اللہ کے ساتھ وابستہ کیے ہوئے ہے۔ جب تک یہ رسی ہمارے ہاتھ میں رہے گی اللہ سے ہمارا تعلق قائم رہے گا ‘ اور ہمارے لیے ایک سہارا موجود رہے گا۔ اگر ہم اس رسی کو کاٹ دیں گے یعنی اللہ سے اپنی امید منقطع کرلیں گے تو اس مضبوط سہارے کو گویا خود ہی اپنے ہاتھ سے چھوڑ دیں گے۔ ایسا کرنے کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا نکلے گا کہ ہم بےیارو مددگار ہوجائیں گے زمین پر اوندھے منہ گرجائیں گے۔ چناچہ اس آیت کے پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کی نصرت کی امید اور اس کے وعدوں پر یقین رکھو ‘ یہ تمہارے لیے بہت مضبوط سہارا ہے۔

مخالفین نبی ﷺ ہلاک ہوں یعنی جو یہ جان رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی ﷺ کی مدد نہ دنیا میں کرے گا نہ آخرت میں وہ یقین مانے کہ اس کا یہ خیال محض خیال ہے۔ آپ کی مدد ہو کر ہی رہے گی چاہے ایسا شخص اپنے غصے میں ہار ہی جائے بلکہ اسے چاہے کہ اپنے مکان کی چھت میں رسی باندھ کر اپنے گلے میں پھندا ڈال کر اپنے آپ کو ہلاک کردے۔ ناممکن ہے کہ وہ چیز یعنی اللہ کی مدد اس کے نبی کے لئے نہ آئے گویہ جل جل کر مرجائیں مگر ان کی خیال آرائیاں غلط ثابت ہو کر رہیں گی۔ یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی سمجھ کے خلاف ہو کر ہی رہے گا۔ اللہ کی امداد آسمان سے نازل ہوگی۔ ہاں اگر اس کے بس میں ہو تو ایک رسی لٹکا کر آسمان پر چڑھ جائے اور اس اترتی ہوئی مدد آسمانی کو کاٹ دے۔ لیکن پہلا معنی زیادہ ظاہر ہے اور اس میں ان کی پوری بےبسی اور نامرادی کا ثبوت ہے کہ اللہ اپنے دین کو اپنی کتاب کو اپنے نبی کو ترقی دے گا ہی چونکہ یہ لوگ اسے دیکھ نہیں سکتے اس لئے انہیں چاہئے کہ یہ مرجائیں، اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں۔ جیسے فرمان ہے آیت (اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ 51؀ۙ) 40۔ غافر :51) ہم اپنے رسولوں کی اور ایماندروں کی مدد کرتے ہی ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی یہاں فرمایا کہ یہ پھانسی پر لٹک کر دیکھ لے کہ شان محمدی کو کس طرح کم کرسکتا ہے ؟ اپنے سینے کی آگ کو کسی طرح بجھا سکتا ہے اس قرآن کو ہم نے اتارا ہے جس کی آیتیں الفاظ اور معنی کے لحاظ سے بہت ہی واضع ہیں۔ اللہ کی طرف سے اس کے بندوں پر یہ حجت ہے۔ ہدایت گمراہی اللہ کے ہاتھ میں ہے اس کی حکمت وہی جانتا ہے کوئی اس سے باز پرس نہیں کرسکتا وہ سب کا حاکم ہے، وہ رحمتوں والا، عدل والا، غلبے والا، حکمت والا، عظمت والا، اور علم والا ہے۔ کوئی اس پر مختار نہیں جو چاہے کرے سب سے حساب لینے والا وہی ہے اور وہ بھی بہت جلد۔

آیت 15 - سورہ الحج: (من كان يظن أن لن ينصره الله في الدنيا والآخرة فليمدد بسبب إلى السماء ثم ليقطع فلينظر هل يذهبن كيده...) - اردو