سورۃ الحدید: آیت 9 - هو الذي ينزل على عبده... - اردو

آیت 9 کی تفسیر, سورۃ الحدید

هُوَ ٱلَّذِى يُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِۦٓ ءَايَٰتٍۭ بَيِّنَٰتٍ لِّيُخْرِجَكُم مِّنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ ۚ وَإِنَّ ٱللَّهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ

اردو ترجمہ

وہ اللہ ہی تو ہے جو اپنے بندے پر صاف صاف آیتیں نازل کر رہا ہے تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر نہایت شفیق اور مہربان ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee yunazzilu AAala AAabdihi ayatin bayyinatin liyukhrijakum mina alththulumati ila alnnoori wainna Allaha bikum laraoofun raheemun

آیت 9 کی تفسیر

آیت 9{ ھُوَ الَّذِیْ یُـنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِہٖ اٰیٰتٍم بَـیِّنٰتٍ لِّـیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ } ”وہی تو ہے جو اپنے بندے ﷺ پر یہ آیات بینات نازل کر رہا ہے تاکہ نکالے تمہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف۔“ یعنی یقین والے ایمان کا منبع و سرچشمہ اللہ کی یہ کتاب ہے۔ اگر تم اس کتاب کو سمجھ کر پڑھو گے ‘ اس پر فکرو تدبر کرو گے تو تمہارے اندر ایک ہلچل برپا ہوجائے گی ‘ تمہاری روح کے تاروں میں خود بخود سرسراہٹ پیدا ہوگی اور تم خود محسوس کرو گے۔ بقولِ اقبال ؎مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز نغمے بےتاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے تو ذرا چھیڑ تو دے ‘ تشنہ مضراب ہے ساز طور مضطر ہے اسی آگ میں جلنے کے لیے !دراصل ایمان تمہاری روح کے اندر خفتہ dormant حالت میں پہلے سے موجود ہے۔ بس اسے فعال active کرنے کی ضرورت ہے۔ اور تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایمان کو فعال کرنے کا نسخہ پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے ‘ یعنی آیات قرآنیہ۔ { وَاِنَّ اللّٰہَ بِکُمْ لَـرَئُ وْ فٌ رَّحِیْمٌ۔ } ”اور یقینا اللہ تمہارے حق میں بہت رئوف اور رحیم ہے۔“ وہ تمہارے حال پر نہایت ہی شفیق اور مہربان ہے۔ اس آیت میں واضح طور پر بتادیا گیا کہ ایمانِ حقیقی کا منبع اور سرچشمہ قرآن ہے۔ اس سے پہلے سورة الشوریٰ میں ہم پڑھ آئے ہیں کہ خود حضور ﷺ کو بھی ایمان قرآن مجید ہی سے ملا :{ وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَـآ اِلَـیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰـکِنْ جَعَلْنٰـہُ نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَآئُ مِنْ عِبَادِنَا وَاِنَّکَ لَتَھْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۔ } ”اور اے نبی ﷺ ! اسی طرح ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے ایک روح اپنے امر میں سے۔ آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے ‘ لیکن اس قرآن کو ہم نے ایسا نور بنایا ہے جس کے ذریعے سے ہم ہدایت دیتے ہیں اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں۔ اور آپ یقینا سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتے ہیں۔“یعنی اس سے پہلے نہ تو آپ ﷺ تورات سے واقف تھے اور نہ ہی آپ ﷺ انجیل کے بارے میں کچھ جانتے تھے۔ آپ تو امی تھے۔ لیکن جب ہم نے قرآن کریم کو نور بنا کر آپ ﷺ کے دل پر اتارا تو اس سے آپ ﷺ کا باطن نور ایمان سے جگمگا اٹھا اور آپ ﷺ نوعِ انسانی کے لیے روشنی کا مینار بن گئے۔ اب آپ ﷺ لوگوں کو ہدایت دیں گے اور انہیں سیدھے راستے کی طرف بلائیں گے۔ اسی مضمون کو مولانا ظفر علی خان نے بڑی خوبصورتی اور سادگی سے یوں بیان کیا ہے : ؎وہ جنس نہیں ایمان جسے لے آئیں دکانِ فلسفہ سے ڈھونڈے سے ملے گی عاقل کو یہ قرآں کے سیپاروں میں ان دو آیات میں پہلے مطالبے یعنی ”ایمان“ سے متعلق پہلے ڈانٹ پلائی گئی کہ تمہارا ایمان پختہ کیوں نہیں ہے ؟ یہ ڈھل مل ایمان لیے کیوں پھر رہے ہو جس میں شکوک و شبہات کے کانٹے چبھے ہوئے ہیں ؟ اگر تمہارے ایمان میں کمزوری ہے تو اس کمزوری کو دور کیوں نہیں کرتے ہو ؟ کمزور ایمان کے ساتھ گزارا کیوں کر رہے ہو ؟ پھر دوسری آیت میں راہنمائی بھی کردی گئی کہ ایمان کی کمزوری کو دور کرنے اور حقیقی ایمان کے حصول کے لیے قرآن کی طرف رجوع کرو ! قرآن کا یہی مطالبہ ہم سے بھی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم بات ہمیشہ کے لیے پلے باندھ لیجیے کہ قرآن کا ترجمہ پڑھنے سے نہ تو قرآن دل میں اترتا ہے اور نہ ہی اس سے جذبے کو تحریک ملتی ہے۔ ترجمہ پڑھنے سے آپ کچھ آیات کا مفہوم تو سمجھ لیں گے اور کچھ معلومات بھی آپ کو حاصل ہوجائیں گی ‘ مگر قرآن آپ کے دل کے تاروں کو چھوئے گا نہیں ‘ اور نہ ہی اس کی تاثیر آپ کی روح تک پہنچے گی۔ لہٰذا اگر آپ چاہتے ہیں کہ قرآن آپ کی روح کو فیوضِ ملکوتی سے سیراب اور آپ کے دل کو نور ایمانی سے منورکرے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ قرآن کو اس کی زبان میں پڑھیں اور سمجھیں۔ بقول اقبال : ؎ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزول کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحب ِکشاف ! ظاہر ہے کسی کے ضمیر پر قرآن کا نزول تبھی ممکن ہے جب وہ قرآن کی زبان یعنی عربی سے واقف ہوگا اور قرآن کے الفاظ اور اس کی عبارت کو براہ راست سمجھے گا۔ اس کے لیے وہ پڑھے لکھے حضرات جو عربی زبان سے نابلد ہیں خصوصی طور پر اللہ کے ہاں جواب دہ ہوں گے کہ وہ اپنی زندگی میں ایک سے بڑھ کر ایک علوم و فنون سیکھتے رہے لیکن قرآن کی زبان سیکھنے کے لیے انہوں نے کوئی منصوبہ بندی اور کوئی کوشش نہ کی۔ ایسے تمام حضرات کو میرا مشورہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ایک سال اس کام کے لیے ضرور وقف کریں اور کم از کم اس حد تک عربی زبان ضرور سیکھیں کہ قرآن مبین کو پڑھتے ہوئے انہیں اس کی آیات بینات کا مفہوم تو معلوم ہو۔ خواہش مند حضرات اس مقصد کے لیے قرآن اکیڈمی کے تحت چلنے والے رجوع الی القرآن کورس میں داخلہ لے سکتے ہیں۔ یہ تو تھی توحید کے پہلے مطالبے ایمان سے متعلق ڈانٹ ڈپٹ اور راہنمائی۔ اور اب دوسرے مطالبے سے متعلق ڈانٹ :

آیت 9 - سورۃ الحدید: (هو الذي ينزل على عبده آيات بينات ليخرجكم من الظلمات إلى النور ۚ وإن الله بكم لرءوف رحيم...) - اردو