سورۃ الحدید (57): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Hadid کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الحديد کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الحدید کے بارے میں معلومات

Surah Al-Hadid
سُورَةُ الحَدِيدِ
صفحہ 538 (آیات 4 سے 11 تک)

هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ لَّهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ وَإِلَى ٱللَّهِ تُرْجَعُ ٱلْأُمُورُ يُولِجُ ٱلَّيْلَ فِى ٱلنَّهَارِ وَيُولِجُ ٱلنَّهَارَ فِى ٱلَّيْلِ ۚ وَهُوَ عَلِيمٌۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ ءَامِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَأَنفِقُوا۟ مِمَّا جَعَلَكُم مُّسْتَخْلَفِينَ فِيهِ ۖ فَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مِنكُمْ وَأَنفَقُوا۟ لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ ۙ وَٱلرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ لِتُؤْمِنُوا۟ بِرَبِّكُمْ وَقَدْ أَخَذَ مِيثَٰقَكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ هُوَ ٱلَّذِى يُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِۦٓ ءَايَٰتٍۭ بَيِّنَٰتٍ لِّيُخْرِجَكُم مِّنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ ۚ وَإِنَّ ٱللَّهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا۟ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَٰثُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ لَا يَسْتَوِى مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ ٱلْفَتْحِ وَقَٰتَلَ ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ ٱلَّذِينَ أَنفَقُوا۟ مِنۢ بَعْدُ وَقَٰتَلُوا۟ ۚ وَكُلًّا وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلْحُسْنَىٰ ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ مَّن ذَا ٱلَّذِى يُقْرِضُ ٱللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَٰعِفَهُۥ لَهُۥ وَلَهُۥٓ أَجْرٌ كَرِيمٌ
538

سورۃ الحدید کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الحدید کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور پھر عرش پر جلوہ فرما ہوا اُس کے علم میں ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اُس میں چڑھتا ہے وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو جو کام بھی کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee khalaqa alssamawati waalarda fee sittati ayyamin thumma istawa AAala alAAarshi yaAAlamu ma yaliju fee alardi wama yakhruju minha wama yanzilu mina alssamai wama yaAAruju feeha wahuwa maAAakum ayna ma kuntum waAllahu bima taAAmaloona baseerun

ہر چیز کا خالق ومالک اللہ ہے اللہ تعالیٰ کا زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کرنا اور عرش پر قرار پکڑنا سورة اعراف کی تفسیر میں پوری طرح بیان ہوچکا ہے اس لئے یہاں دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں، اسے بخوبی علم ہے کہ کس قدر بارش کی بوندیں زمین میں گئیں، کتنے دانے زمین میں پڑے اور کیا چارہ پیدا ہوا کس قدر کھیتیاں ہوئیں اور کتنے پھل کھلے، جیسے اور آیت میں ہے (وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ 59؀) 6۔ الانعام :59) ، غیب کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں جنہیں سوائے اس کے اور کوئی جانتا ہی نہیں وہ خشکی اور تری کی تمام چیزوں کا عالم ہے کسی پتے کا گرنا بھی اس کے علم سے باہر نہیں، زمین کے اندھیروں میں پوشیدہ دانہ اور کوئی ترو خشک چیز ایسی نہیں جو کھلی کتاب میں موجود نہ ہو، اسی طرح آسمان سے نازل ہونے والی بارش، اولے، برف، تقدیر اور احکام جو برتر فرشتوں کے بذریعہ نازل ہوتے ہیں، سب اس کے علم میں ہیں، سورة بقرہ کی تفسیر میں یہ گذر چکا ہے کہ اللہ کے مقرر کردہ فرشتے بارش کے ایک ایک قطرے کو اللہ کی بتائی ہوئی جگہ پہنچا دیتے ہیں، آسمان سے اترنے والے فرشتے اور اعمال بھی اس کے وسیع علم میں ہیں، جیسے صحیح حدیث میں ہے رات کے اعمال دن سے پہلے اور دن کے اعمال رات سے پہلے اس کی جناب میں پیش کردیئے جاتے ہیں، وہ تمہارے ساتھ ہے یعنی تمہارا نگہبان ہے۔ تمہارے اعمال و افعال کو دیکھ رہا ہے جیسے بھی ہوں جو بھی ہوں اور تم بھی خواہ خشکی میں ہو خواہ تری میں، راتیں ہوں یا دن ہوں، تم گھر میں ہو یا جنگل میں، ہر حالت میں اس کے علم کے لئے یکساں ہر وقت اس کی نگاہیں اور اس کا سننا تمہارے ساتھ ہے۔ وہ تمہارے تمام کلمات سنتا رہتا ہے تمہارا حال دیکھتا رہتا ہے، تمہارے چھپے کھلے کا اسے علم ہے۔ جیسے فرمایا ہے کہ اس سے جو چھپنا چاہے اس کا وہ فعل فضول ہے بھلا ظاہر باطن بلکہ دلوں کے ارادے تک سے واقفیت رکھنے والے سے کوئی کیسے چھپ سکتا ہے ؟ ایک اور آیت میں ہے پوشیدہ باتیں ظاہر باتیں راتوں کو دن کو جو بھی ہوں سب اس پر روشن ہیں۔ یہ سچ ہے وہی رب ہے وہی معبود برحق ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ جبرائیل کے سوال پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کر کہ گویا تو اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ پس اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے۔ ایک شخص آ کر رسول اللہ ﷺ سے عرض کرتا ہے کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھے کوئی ایسا حکمت کا توشہ دیجئے کہ میری زندگی سنور جائے، آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا لحاظ کر اور اس سے اس طرح شرما جیسے کہ تو اپنے کسی نزدیکی نیم قرابتدار سے شرماتا ہو جو تجھ سے کبھی جدا نہ ہوتا ہو، یہ حدیث ابوبکر اسماعیلی نے روایت کی ہے سند غریب ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے جس نے تین کام کر لئے اس نے ایمان کا مزہ اٹھا لیا۔ ایک اللہ کی عبادت کی اور اپنے مال کی زکوٰۃ ہنسی خوشی راضی رضامندی سے ادا کی۔ جانور اگر زکوٰۃ میں دینے ہیں تو بوڑھے بیکار دبلے پتلے اور بیمار نہ دے بلکہ درمیانہ راہ اللہ میں دیا اور اپنے نفس کو پاک کیا۔ اس پر ایک شخص نے سوال کیا کہ حضور ﷺ نفس کو پاک کرنے کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے فرمایا اس بات کو دل میں محسوس کرے اور یقین و عقیدہ رکھے کہ ہر جگہ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہے۔ (ابو نعیم) اور حدیث میں ہے افضل ایمان یہ ہے کہ تو جان رکھے کہ تو جہاں کہیں ہے اللہ تیرے ساتھ ہے (نعیم بن حماد) حضرت امام احمد ؒ اکثر ان دو شعروں کو پڑھتے رہتے تھے۔ اذا ما خلوت الدھر یوما فلا تقل خلوت ولکن قل علی رقیب ولا تحسبن اللہ یغفل ساعتہ ولا ان ما یخفی علیہ یغیب جب تو بالکل تنہائی اور خلوت میں ہو اس وقت بھی یہ نہ کہہ کہ میں اکیلا ہی ہوں۔ بلکہ کہتا رہ کہ تجھ پر ایک نگہبان ہے یعنی اللہ تعالیٰ۔ کسی ساعت اللہ تعالیٰ کو بیخبر نہ سمجھ اور مخفی سے مخفی کام کو اس پر مخفی نہ مان۔ پھر فرماتا ہے کہ دنیا اور آخرت کا مالک وہی ہے جیسے اور آیت میں ہے (وَاِنَّ لَنَا لَـلْاٰخِرَةَ وَالْاُوْلٰى 13 ؀) 92۔ اللیل :13) دنیا آخرت کی ملکیت ہماری ہی ہے۔ اس کی تعریف اس بادشاہت پر بھی کرنی ہمارا فرض ہے۔ فرماتا ہے آیت (وَهُوَ اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۭ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْاُوْلٰى وَالْاٰخِرَةِ ۡ وَلَهُ الْحُكْمُ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 70؀) 28۔ القصص :70) وہی معبود برحق ہے اور وہی حمد وثناء کا مستحق ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ایک اور آیت میں ہے اللہ کے لئے تمام تعریفیں ہیں جس کی ملکیت میں آسمان و زمین کی تمام چیزیں ہیں اور اسی کی حمد ہے آخرت میں اور وہ دانا خبردار ہے۔ پس ہر وہ چیز جو آسمان و زمین میں ہے اس کی بادشاہت میں ہے۔ ساری آسمان و زمین کی مخلوق اس کی غلام اور اس کی خدمت گذار اور اس کے سامنے پست ہے۔ جیسے فرمایا آیت (اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا 93؀ۭ) 19۔ مریم :93) ، آسمان و زمین کی کل مخلوق رحمن کے سامنے غلامی کی حیثیت میں پیش ہونے والی ہے ان سب کو اس نے گھیر رکھا ہے اور سب کو ایک ایک کر کے گن رکھا ہے، اسی کی طرف تمام امور لوٹائے جاتے ہیں، اپنی مخلوق میں جو چاہے حکم دیتا ہے، وہ عدل ہے ظلم نہیں کرتا، بلکہ ایک نیکی کو دس گنا بڑھا کردیتا ہے اور پھر اپنے پاس سے اجر عظیم عنایت فرماتا ہے، ارشاد ہے آیت (وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا ۭ وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَا بِهَا ۭ وَكَفٰى بِنَا حٰسِـبِيْنَ 47؀) 21۔ الأنبیاء :47) ، قیامت کے روز ہم عدل کی ترازو رکھیں گے اور کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا رائی کے برابر کا عمل بھی ہم سامنے لا رکھیں گے اور ہم حساب کرنے اور لینے میں کافی ہیں۔ پھر فرمایا خلق میں تصرف بھی اسی کا چلتا ہے دن رات کی گردش بھی اسی کے ہاتھ ہے اپنی حکمت سے گھٹاتا بڑھاتا ہے کبھی دن لمبے کبھی راتیں اور کبھی دونوں یکساں، کبھی جاڑا، کبھی گرمی، کبھی بارش، کبھی بہار، کبھی خزاں اور یہ سب بندوں کی خیر خواہی اور ان کی مصلحت کے لحاظ سے ہے۔ وہ دلوں کی چھوٹی سے چھوٹی باتوں اور دور کے پوشیدہ رازوں سے بھی واقف ہے۔

اردو ترجمہ

وہی زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے اور تمام معاملات فیصلے کے لیے اُسی کی طرف رجوع کیے جاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lahu mulku alssamawati waalardi waila Allahi turjaAAu alomooru

اردو ترجمہ

وہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے، اور دلوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yooliju allayla fee alnnahari wayooliju alnnahara fee allayi wahuwa AAaleemun bithati alssudoori

اردو ترجمہ

ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور خرچ کرو اُن چیزوں میں سے جن پر اس نے تم کو خلیفہ بنایا ہے جو لوگ تم میں سے ایمان لائیں گے اور مال خرچ کریں گے ان کے لیے بڑا اجر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aminoo biAllahi warasoolihi waanfiqoo mimma jaAAalakum mustakhlafeena feehi faallatheena amanoo minkum waanfaqoo lahum ajrun kabeerun

ایمان لانے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم اللہ تبارک و تعالیٰ خود اپنے اوپر اور اپنے رسول ﷺ پر ایمان لانے اور اس پر مضبوطی اور ہمیشگی کے ساتھ جم کر رہنے کی ہدایت فرماتا ہے اور اپنی راہ میں خیرات کرنے کی رغبت دلاتا ہے جو مال ہاتھوں ہاتھ تمہیں اس نے پہنچایا ہو تم اس کی اطاعت گذاری میں اسے خرچ کرو اور سمجھ لو کہ جس طرح دوسرے ہاتھوں سے تمہیں ملا ہے اسی طرح عنقریب تمہارے ہاتھوں سے دوسرے ہاتھوں میں چلا جائے گا اور تم پر حساب اور عتاب رہ جائے گا اور اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ تیرے بعد تیرا وارث ممکن ہے نیک ہو اور وہ تیرے ترکے کو میری راہ میں خرچ کر کے مجھ سے قربت حاصل کرے اور ممکن ہے کہ وہ بد اور اپنی مستی اور سیاہ کاری میں تیرا اندوختہ فنا کر دے اور اس کی بدیوں کا باعث تو بنے نہ تو چھوڑتا نہ اڑاتا۔ حضور ﷺ سورة (الھکم) پڑھ کر فرمانے لگے انسان گو کہتا رہتا ہے یہ بھی میرا مال ہے یہ بھی میرا مال ہے حالانکہ دراصل انسان کا مال وہ ہے جو کھالیا پہن لیا صدقہ کردیا کھایا ہوا فنا ہوگیا پہنا ہوا پرانا ہو کر برباد ہوگیا، ہاں راہ اللہ دیا ہوا بطور خزانہ کے جمع رہا (مسلم) اور جو باقی رہے گا وہ تو اوروں کا مال ہے تو تو اسے جمع کر کے چھوڑ جانے والا ہے۔ پھر ان ہی دونوں باتوں کی ترغیب دلاتا ہے اور بہت بڑے اجر کا وعدہ دیتا ہے۔ پھر فرماتا ہے تمہیں ایمان سے کون سی چیز روکتی ہے رسول ﷺ تم میں موجود ہیں وہ تمہیں ایمان کیطرف بلا رہے ہیں دلیلیں دے رہے ہیں اور معجزے دکھا رہے ہیں، صحیح بخاری کی شرح کے ابتدائی حصہ کتاب الایمان میں ہم یہ حدیث بیان کر آئے ہیں کہ حضور ﷺ نے پوچھا سب سے زیادہ اچھے ایمان والے تمہارے نزدیک کون ہیں ؟ کہا فرشتے، فرمایا وہ تو اللہ کے پاس ہی ہیں پھر ایمان کیوں نہ لاتے ؟ کہا پھر انبیاء فرمایا ان پر تو وحی اور کلام اللہ اترتا ہے وہ کیسے ایمان نہ لاتے ؟ کہا پھر ہم فرمایا واہ تم ایمان سے کیسے رک سکتے تھے، میں تم میں زندہ موجود ہوں، سنو بہترین اور عجیب تر ایماندار وہ لوگ ہیں جو تمہارے بعد آئیں گے، صحیفوں میں لکھا دیکھیں گے اور ایمان قبول کریں گے، سورة بقرہ کے شروع میں آیت (الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ ۙ) 2۔ البقرة :3) کی تفسیر میں بھی ہم ایسی احادیث لکھ آئے ہیں، پھر انہیں روز میثاق کا قول وقرار یاد دلاتا ہے جیسے اور آیت میں ہے (وَاذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَمِيْثَاقَهُ الَّذِيْ وَاثَقَكُمْ بِهٖٓ ۙ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ۡ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِذَات الصُّدُوْرِ) 5۔ المآئدہ :7) ، اس سے مراد رسول اللہ ﷺ سے بیعت کرنا ہے اور امام ابن جریر فرماتے ہیں مراد وہ میثاق ہے جو حضرت آدم کی پیٹھ میں ان سے لیا گیا تھا، مجاہد کا بھی یہی مذہب ہے واللہ اعلم۔ وہ اللہ جو اپنے بندے پر روشن حجتیں اور بہترین دلائل اور عمدہ تر آیتیں نازل فرماتا ہے تاکہ ظلم و جہل کی گھنگھور گھٹاؤں اور رائے قیاس کی بدترین اندھیریوں سے تمہیں نکال کر نورانی اور روشن صاف اور سیدھی راہ حق پر لا کھڑا کر دے۔ اللہ رؤف ہے ساتھ ہی رحیم ہے یہ اس کا سلوک اور کرم ہے کہ لوگوں کی رہنمائی کے لئے کتابیں اتاریں، رسول بھیجے، شکوک و شبہات دور کردیئے، ہدایت کی وضاحت کردی۔ ایمان اور خیرات کا حکم کر کے پھر ایمان کی رغبت دلا کر اور یہ بیان فرما کر کہ ایمان نہ لانے کا اب کوئی عذر میں نے باقی نہیں رکھا پھر صدقات کی رغبت دلائی، اور فرمایا میری راہ میں خرچ کرو اور فقیری سے نہ ڈرو، اس لئے کہ جس کی راہ میں تم خرچ کر رہے ہو وہ زمین و آسمان کے خزانوں کا تنہا مالک ہے، عرش و کرسی اسی کی ہے اور وہ تم سے اس خیرات کے بدلے انعام کا وعدہ کرچکا ہے۔ فرماتا ہے آیت (وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهٗ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ 39؀) 34۔ سبأ :39) جو کچھ تم راہ اللہ دو گے اس کا بہترین بدلہ وہ تمہیں دے گا اور روزی رساں درحقیقت وہی ہے اور فرماتا ہے (مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍ 96؀) 16۔ النحل :96) اگر یہ فانی مال تم خرچ کرو گے وہ اپنے پاس کا ہمیشگی والا مال تمہیں دے گا۔ توکل والے خرچ کرتے رہتے ہیں اور مالک عرش انہیں تنگی ترشی سے محفوظ رکھتا ہے، انہیں اس بات کا اعتماد ہوتا ہے کہ ہمارے فی سبیل اللہ خرچ کردہ مال کا بدلہ دونوں جہان میں ہمیں قطعاً مل کر رہے گا۔ پھر اس امر کا بیان ہو رہا ہے کہ فتح مکہ سے پہلے جن لوگوں نے راہ اللہ خرچ کیا اور جہاد کیا اور جن لوگوں نے یہ نہیں کیا گو بعد فتح مکہ کیا ہو یہ دونوں برابر نہیں ہیں۔ اس وجہ سے بھی کہ اس وقت تنگی ترشی زیادہ تھی اور قوت طاقت کم تھی اور اس لئے بھی کہ اس وقت ایمان وہی قبول کرتا تھا جس کا دل ہر میل کچیل سے پاک ہوتا تھا۔ فتح مکہ کے بعد تو اسلام کو کھلا غلبہ ملا اور مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی اور فتوحات کی وسعت ہوئی ساتھ ہی مال بھی نظر آنے لگا، پس اس وقت اور اس وقت میں جتنا فرق ہے اتنا ہی ان لوگوں اور ان لوگوں کے اجر میں فرق ہے، انہیں بہت بڑے اجر ملیں گے گو دونوں اصل بھلائی اور اصل اجر میں شریک ہیں، بعض نے کہا ہے فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے۔ اس کی تائید مسند احمد کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت خالد بن ولید اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف میں کچھ اختلاف ہوگیا جس میں حضرت خالد نے فرمایا تم اسی پر اکڑ رہے ہو کہ ہم سے کچھ دن پہلے اسلام لائے۔ جب حضور ﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا میرے صحابہ کو میرے لئے چھوڑ دو ، اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم احد کے یا کسی اور پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرو تو بھی ان کے اعمال کو پہنچ نہیں سکتے۔ ظاہر ہے کہ یہ واقعہ حضرت خالد کے مسلمان ہوجانے کے بعد کا ہے اور آپ صلح حدیبیہ کے بعد اور فتح مکہ سے پہلے ایمان لائے تھے اور یہ اختلاف جس کا ذکر اس روایت میں ہے بنو جذیمہ کے بارے میں ہوا تھا حضور ﷺ نے فتح مکہ کے بعد حضرت خالد کی امارت میں اس کی طرف ایک لشکر بھیجا تھا جب وہاں پہنچے تو ان لوگوں نے پکارنا شروع کیا ہم مسلمان ہوگئے ہم صابی ہوئے یعنی بےدین ہوئے، اس لئے کہ کفار مسلمانوں کو یہی لفظ کہا کرتے تھے حضرت خالد نے غالباً اس کلمہ کا اصلی مطلب نہ سمجھ کر ان کے قتل کا حکم دے دیا بلکہ ان کے جو لوگ گرفتار کئے گئے تھے انہیں قتل کر ڈالنے کا حکم دیا اس پر حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت عبداللہ بن عمر نے ان کی مخالفت کی اس واقعہ کا مختصر بیان اوپر والی حدیث میں ہے۔ صحیح حدیث میں ہے میرے صحابہ کو برا نہ کہو اس کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو بھی ان کے تین پاؤ اناج کے ثواب کو نہیں پہنچے گا بلکہ ڈیڑھ پاؤ کو بھی نہ پہنچے گا۔ ابن جریر میں ہے حدیبیہ والے سال ہم حضور ﷺ کے ساتھ جب عسفان میں پہنچے تو آپ نے فرمایا ایسے لوگ بھی آئیں گے کہ تم اپنے اعمال کو ان کے اعمال کے مقابلہ میں حقیر سمجھنے لگو گے ہم نے کہا کیا قریشی ؟ فرمایا نہیں بلکہ یمنی نہایت نرم دل نہایت خوش اخلاق سادہ مزاج۔ ہم نے کہا حضور ﷺ پھر کیا وہ ہم سے بہتر ہوں گے ؟ آپ نے جواب دیا کہ اگر ان میں سے کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا بھی ہو اور وہ اسے راہ اللہ خرچ کرے تو تم میں سے ایک کے تین پاؤ بلکہ ڈیڑھ پاؤ اناج کی خیرات کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ یاد رکھو کہ ہم میں اور دوسرے تمام لوگوں میں یہی فرق ہے پھر آپ نے اسی آیت (لایستوی) کی تلاوت کی، لیکن یہ روایت غریب ہے، بخاری و مسلم میں حضرت ابو سعید خدری کی روایت میں خارجیوں کے ذکر میں ہے کہ تم اپنی نمازیں ان کی نمازوں کے مقابلہ اور اپنے روزے ان کے روزوں کے مقابلہ پر حقیر اور کمتر شمار کرو گے۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے ابن جریر میں ہے عنقریب ایک قوم آئے گی کہ تم اپنے اعمال کو کمتر سمجھنے لگو گے جب ان کے اعمال کے سامنے رکھو گے صحابہ نے پوچھا کیا وہ قریشیوں میں سے ہوں گے آپ نے فرمایا نہیں وہ سادہ مزاج نرم دل یہاں والے ہیں اور آپ نے یمن کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا پھر فرمایا وہ یمنی لوگ ہیں ایمان تو یمن والوں کا ایمان ہے اور حکمت یمن والوں کی حکمت ہے ہم نے پوچھا کیا وہ ہم سے بھی افضل ہوں گے ؟ فرمایا اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ان میں سے کسی کے پاس سونے کا پہاڑ ہو اور اسے وہ راہ اللہ دے ڈالے تو بھی تمہارے ایک مد یا آدھے مد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ پھر آپ نے اپنی اور انگلیاں تو بند کرلیں اور چھن گیا کو دراز کر کے فرمایا خبردار رہو یہ ہے فرق ہم میں اور دوسرے لوگوں میں، پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی، پس اس حدیث میں حدیبیہ کا ذکر نہیں۔ پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ممکن ہے فتح مکہ سے پہلے ہی فتح مکہ کے بعد کی خبر اللہ تعالیٰ نے آپ کو دے دی ہو، جیسے کہ سورة مزمل میں جو ان ابتدائی سورتوں میں سے ہے جو مکہ شریف میں نازل ہوئی تھیں پروردگار نے خبر دی تھی کہ آیت (وَاٰخَرُوْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ڮ فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ 20؀) 73۔ المزمل :20) یعنی کچھ اور لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں پس جس طرح اس آیت میں ایک آنے والے واقعہ کا تذکرہ ہے اسی طرح اس آیت کو اور حدیث کو بھی سمجھ لیا جائے واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے کہ ہر ایک سے اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا وعدہ کیا ہے یعنی فتح مکہ سے پہلے اور اس کے بعد بھی جس نے جو کچھ راہ اللہ دیا ہے کسی کو اس سے کم۔ جیسے اور جگہ ہے کہ مجاہد اور غیر مجاہد جو عذر والے بھی نہ ہوں درجے میں برابر نہیں گو بھلے وعدے میں دونوں شامل سے کم۔ جیسے اور جگہ ہے کہ مجاہد اور غیر مجاہد جو عذر والے بھی نہ ہوں درجے میں برابر نہیں گو بھلے وعدے میں دونوں شامل ہیں۔ صحیح حدیث میں ہے قوی مومن اللہ کے نزدیک ضعیف مومن سے افضل ہے لیکن بھلائی دونوں میں ہے۔ اگر یہ فقرہ اس آیت میں نہ ہوتا تو ممکن تھا کہ کسی کو ان بعد والوں کی سبکی کا خیال گذرے اس لئے فضیلت بیان فرما کر پھر عطف ڈال کر اصل اجر میں دونوں کو شریک بتایا۔ پھر فرمایا تمہارے تمام اعمال کی تمہارے رب کو خبر ہے وہ درجات میں جو تفاوت رکھتا ہے وہ بھی انداز سے نہیں بلکہ صحیح علم سے۔ حدیث شریف میں ہے ایک درہم ایک لاکھ درہم سے بڑھ جاتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ اس کے سردار ہیں آپ نے ابتدائی تنگی کے وقت اپنا کل مال راہ اللہ دے دیا تھا جس کا بدلہ سوائے اللہ کے کسی اور سے مطلوب نہ تھا۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں میں دربار رسالت مآب میں تھا اور حضرت صدیق اکبر بھی تھے۔ صرف ایک عبا آپ کے جسم پر تھی، گریبان کانٹے سے اٹکائے ہوئے تھے جو حضرت جبرائیل ؑ نازل ہوئے اور پوچھا کیا بات ہے جو حضرت ابوبکر نے فقط ایک عبا پہن رکھی ہے اور کانٹا لگا رکھا ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا انہوں نے اپنا کل مال میرے کاموں میں فتح سے پہلے ہی راہ اللہ خرچ کر ڈالا ہے اب ان کے پاس کچھ نہیں، حضرت جبرائیل ؑ نے فرمایا ان سے کہو کہ اللہ انہیں سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ اس فقیری میں تم مجھ سے خوش ہو یا ناخوش ہو ؟ آپ نے حضرت صدیق کو یہ سب کہہ کر سوال کیا۔ جواب ملا کہ اپنے رب عزوجل سے ناراض کیسے ہوسکتا ہوں میں اس حال میں بہت خوش ہوں۔ یہ حدیث سنداً ضعیف ہے واللہ اعلم۔ پھر فرماتا ہے کون ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے، اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے خرچ کرنا ہے۔ بعض نے کہا ہے بال بچوں کو کھلانا پلانا وغیرہ خرچ مراد ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آیت اپنے عموم کے لحاظ سے دونوں صورتوں کو شامل ہو، پھر اس پر وعدہ فرماتا ہے کہ اسے بہت بڑھا چڑھا کر بدلہ ملے گا اور جنت میں پاکیزہ تر روزی ملے گی، اس آیت کو سن کر حضرت ابو دحداح انصاری ؓ حضور ﷺ کے پاس آئے اور کہا کیا ہمارا رب ہم سے قرض مانگتا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں، کہا ذرا اپنا ہاتھ تو دیجئے آپ نے ہاتھ بڑھایا تو آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا میرا باغ جس میں کھجور کے چھ سو درخت ہیں وہ میں نے اپنے رب کو دیا آپ کے بیوی بچے بھی اسی باغ میں تھے آپ آئے اور باغ کے دروازے پر کھڑے رہ کر اپنی بیوی صاحبہ کو آواز دی وہ لبیک کہتی ہوئی آئیں تو فرمانے لگے بچوں کو لے کر چلی آؤ میں نے یہ باغ اپنے رب عزوجل کو قرض دے دیا ہے۔ وہ خوش ہو کر کہنے لگیں آپ نے بہت نفع کی تجارت کی اور بال بچوں کو اور گھر کے اثاثے کو لے کر باہر چلی آئیں، حضور ﷺ فرمانے لگے جنتی درخت وہاں کے باغات جو میوؤں سے لدے ہوئے اور جن کی شاخیں یا قوت اور موتی کی ہیں ابو دحداح کو اللہ نے دے دیں۔

اردو ترجمہ

تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ رسول تمہیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور وہ تم سے عہد لے چکا ہے اگر تم واقعی ماننے والے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama lakum la tuminoona biAllahi waalrrasoolu yadAAookum lituminoo birabbikum waqad akhatha meethaqakum in kuntum mumineena

اردو ترجمہ

وہ اللہ ہی تو ہے جو اپنے بندے پر صاف صاف آیتیں نازل کر رہا ہے تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر نہایت شفیق اور مہربان ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee yunazzilu AAala AAabdihi ayatin bayyinatin liyukhrijakum mina alththulumati ila alnnoori wainna Allaha bikum laraoofun raheemun

اردو ترجمہ

آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ کبھی اُن لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے اُن کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے اچھے وعدے فرمائے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے با خبر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama lakum alla tunfiqoo fee sabeeli Allahi walillahi meerathu alssamawati waalardi la yastawee minkum man anfaqa min qabli alfathi waqatala olaika aAAthamu darajatan mina allatheena anfaqoo min baAAdu waqataloo wakullan waAAada Allahu alhusna waAllahu bima taAAmaloona khabeerun

اردو ترجمہ

کون ہے جو اللہ کو قرض دے؟ اچھا قرض، تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا کر واپس دے، اور اُس کے لیے بہترین اجر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Man tha allathee yuqridu Allaha qardan hasanan fayudaAAifahu lahu walahu ajrun kareemun
538