سورۃ الحدید (57): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Hadid کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الحديد کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الحدید کے بارے میں معلومات

Surah Al-Hadid
سُورَةُ الحَدِيدِ
صفحہ 538 (آیات 4 سے 11 تک)

هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ ۚ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا ۖ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ لَّهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ وَإِلَى ٱللَّهِ تُرْجَعُ ٱلْأُمُورُ يُولِجُ ٱلَّيْلَ فِى ٱلنَّهَارِ وَيُولِجُ ٱلنَّهَارَ فِى ٱلَّيْلِ ۚ وَهُوَ عَلِيمٌۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ ءَامِنُوا۟ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَأَنفِقُوا۟ مِمَّا جَعَلَكُم مُّسْتَخْلَفِينَ فِيهِ ۖ فَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مِنكُمْ وَأَنفَقُوا۟ لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌ وَمَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ ۙ وَٱلرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ لِتُؤْمِنُوا۟ بِرَبِّكُمْ وَقَدْ أَخَذَ مِيثَٰقَكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ هُوَ ٱلَّذِى يُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِۦٓ ءَايَٰتٍۭ بَيِّنَٰتٍ لِّيُخْرِجَكُم مِّنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ ۚ وَإِنَّ ٱللَّهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا۟ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَٰثُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ لَا يَسْتَوِى مِنكُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ ٱلْفَتْحِ وَقَٰتَلَ ۚ أُو۟لَٰٓئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ ٱلَّذِينَ أَنفَقُوا۟ مِنۢ بَعْدُ وَقَٰتَلُوا۟ ۚ وَكُلًّا وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلْحُسْنَىٰ ۚ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ مَّن ذَا ٱلَّذِى يُقْرِضُ ٱللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَٰعِفَهُۥ لَهُۥ وَلَهُۥٓ أَجْرٌ كَرِيمٌ
538

سورۃ الحدید کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الحدید کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور پھر عرش پر جلوہ فرما ہوا اُس کے علم میں ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اُس میں چڑھتا ہے وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو جو کام بھی کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee khalaqa alssamawati waalarda fee sittati ayyamin thumma istawa AAala alAAarshi yaAAlamu ma yaliju fee alardi wama yakhruju minha wama yanzilu mina alssamai wama yaAAruju feeha wahuwa maAAakum ayna ma kuntum waAllahu bima taAAmaloona baseerun

ھوالذی ................ الصدور (6) (75 : 4 تا 6)

” وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور پھر عرش پر جلوہ فرما ہوا۔ اس کے علم میں ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے۔ وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو جو کام بھی تم کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے۔ وہی زمین اور آسمان کی بادشاہی کا مالک ہے اور تمام معاملات فیصلے کے لئے اس کی طرف رجوع کئے جاتے ہیں۔ وہی رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور دلوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔ “

زمین و آسمان کی تخلیق کی حقیقت ، عرش پر استوا کی حقیقت اور پوری مخلوقات کا احاطہ اور کنٹرول اور ان تمام اشیاء کا علم اور یہ حقیقت کہ اللہ ہر چیز کے ساتھ موجود ہے جہاں بھی وہ ہو۔ اور یہ کہ تمام امور کا مرجع اللہ کی طرف ہے ، اور یہ کہ وہ اس پوری کائنات میں متصرف ہے۔ اور یہ کہ وہ دلوں کے رازوں اور سوچوں کو بھی جاننے والا ہے۔ یہ سب حقائق اسی بڑی حقیقت سے نکلے ہوئے ہیں جس کا اوپر ذکر ہوا۔ لیکن ان چیزوں کو دوبارہ اس کائناتی جزئیات کے ساتھ متعلق کرکے ذکر کرنے کا قلب پر اثر ہوتا ہے اور اس پر قدرت الٰہیہ کا پر تو پڑتا ہے۔ یہ آسمان اور یہ زمین اور یہ عظیم کائنات جب انسانی سوچ کا مرکز بنتے ہیں تو اپنی عظمت اور جلالت کے باعث ، اپنی خوبصورتی اور نظام کے باعث ، اپنے پیچیدہ نظم ونسق کے باعث ، اپنی منظم حرکات کے باعث ، اپنے تسلسل کی وجہ سے یہ انسانی قلب ونظر کو بےحد متاثر کرتے ہیں۔ پھر یہ مخلوقات بھی انسانوں جیسی مخلوق ہیں لہٰذا انسانی دل ان کے ساتھ ایک قسم کا انس اور محبت رکھتا ہے ، جب انسان کا دل و دماغ اس عظیم کائنات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کرتے ہیں تو فکر ونظر کی تاروں پہ ضربات پڑتی ہیں اور ان سے نئے نئے فکری زمزمے نکلتے ہیں۔ انسان ان کی طرف کان دھرتا ہے ، بڑے غور سے سنتا ہے ، مسحور ہوجاتا ہے۔ یہ نغمے اسے کیا پیغام دیتے ہیں کہ اللہ جس نے ان کو پیدا کیا ہے ، اس نے اس کو بھی پیدا کیا ہے۔ یہ سب چیزیں اللہ کی تسبیح کرتی ہیں اور انسان بھی اللہ کی تسبیح کرتا ہے۔ یہ چیزیں بتاتی ہیں کہ ہم نے بھی اپنا وجود خالق کائنات سے لیا ہے اور تم نے بھی۔ لہٰذا اس کائنات میں صرف وہی ایک حقیقت ہے جو اہم ہے۔

یہ چھ دن کیا ہیں ؟ ان کی حقیقت بھی صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ ہمارے دنوں کی حقیقت ہی کیا ہے ؟ یہ تو سورج کے سامنے زمین کی گردش محوری کا نتیجہ ہیں۔ اور یہ سورج اور یہ زمین تو اللہ کے ایام کے بعد وجود میں آئے ہیں۔ لہٰذا یہ وہ ایام نہیں ہیں جن میں اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ لہٰذا اس کو بھی اللہ پر چھوڑ دیں جب چاہے گا ہمیں بتا دے گا۔

اور یہ عرش الٰہی ، ہم اس پر اس طرح ایمان لاتے ہیں جس طرح اللہ نے اس کا تذکرہ کیا ہے اور اس کی حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔ رہی یہ بات کہ اللہ نے عرش پر استوا حاصل کیا تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ اس سے مراد اس کائنات پر مکمل کنٹرول ہے۔ کیونکہ قرآن مجید نے یہ بات واضح طور پر کہہ دی ہے کہ اللہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل نہیں ہوتا۔ اس لئے کبھی ایسا نہ تھا کہ وہ کسی وقت عرش پر نہ ہو اور بعد میں متمکن ہوا ہو۔ اور یہ بات کہ ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور ہمیں اس کی کیفیت معلوم نہیں ہے ، یہ ایک ایسی بات ہے جو۔

ثم استوی ............ العرش (75 : 4) ” پھر عرش پر جلوہ فرما ہوا “ کی تشریح نہیں کرتا۔ لہٰذا اسے اس کائنات کے اقتدار اعلیٰ اور کنٹرول سے کنایہ کہنا چاہئے اور اس قسم کی تفسیر سے اس اصول کی خلاف ورزی نہیں ہوتی جو ہم نے ابھی بیان کی ہے۔ کیونکہ اس کنایہ میں ہم نے اپنا کوئی خیال پیش نہیں کیا بلکہ قرآن کی ایک طے شدہ حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مبین ہے۔ اور اس تصور کی طرف اشاہ کیا ہے جو ذات باری خود دیتا ہے۔

تخلیق اور کنٹرول اور مکمل علم کے ساتھ ، یہ آیت اس حقیقت کو ایک ایسی تصویری انداز میں پیش کرتی ہے کہ قلب ونظر اس میں گم ہوجاتے ہیں ، یہ تصویر بہت وسیع ہے ، بلکہ یہ تصویر مسلسل حرکت میں ہے ، بہ حرکت کسی بھی وقت رکتی نہیں ہے۔ یہ محض تصوراتی تصویر نہیں ہے اور نہ شعلہ خیال ہے بلکہ ایک موثر اشاراتی رنگ ہے جو انسانی دل و دماغ کے ہر پہلو کو بھردیتا ہے ، اس سے انسان کے دل دھڑکتے ہیں ، خیال کی لہریں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں اور فکرکے سوتے پھوٹتے رہتے ہیں۔ ذرا غور سے پڑھئے :

یلعم ............ فیھا (75 : 4) ” اس کے علم میں ہے جو زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اترتا ہے ، اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے “۔ ہر لمحہ زمین کے اندر جاندار اور بےجان چیزوں کی بیشمار تعداد داخل ہوتی ہے۔ اور اسی طرح ہر لحظہ زمین سے۔ لاتعدولا نقص زندہ اور غیر زندہ اشیاء نکلتی ہیں۔ آسمان سے جو بارشیں برستی ہیں جو شعاعیں یہاں مختلف ستاروں سے پہنچتی ہیں ، شہاب ثاقب جو گرتے ہیں ، فرشتے جو اترتے ہیں راز اور اقدار جو اترتی ہیں اور جو چیزیں آسمانوں میں چڑھتی ہیں ، جو نظر آتی ہیں اور جو نظر نہیں آتیں جن کی تعداد کا علم صرف اللہ کو ہے۔ غرض یہ مختصر سی آیت ایک مسلسل حرکت کی طرف خیال کو پھیرتی ہے جو کبھی منقطع نہیں ہے اور ان بڑے بڑے واقعات کی طرف اشارہ کرتی ہے جن کی تعداد معلوم نہیں ہے۔ اور انسان کا خیال مسلسل اس حرکت کے ساتھ چپک جاتا ہے کیونکہ زمین میں ہر وقت چیزیں داخل ہورہی ہیں۔ اور آسمان کی طرف ہر وقت چیزیں چڑھ رہی ہیں۔ اس طرح انسان اللہ کے علم کی وسعت سے متاثر رہتا ہے۔ جب انسان ان لاتعداد چیزوں کو دیکھتا ہے اور شمار نہیں کرسکتا۔

اگر کوئی دل اس حقیقت کی طرف دائما التفات رکھے تو وہ اللہ کی معیت میں زندگی بسر کرسکتا ہے۔ وہ اس کی مملکت میں سیر کرسکتا ہے ، جبکہ اس کا جسم اپنی جگہ برقرار ہوگا ، وہ اس کائنات کی وادیوں کی سیر کرسکتا ہے اور وہ نہایت حساسیت اور صاف و شفاف سوچ کے ساتھ نہایت خوف وتقویٰ کی حالت میں ملکوت سماوات میں گھوم پھر سکتا ہے۔

ابھی پڑھنے والا ان خیالات کے ساتھ زمین و آسمان کی وادیوں میں گھوم رہا تھا کہ قرآن نے اس کا دامن پکڑ لیا کہ ذرا اپنی ذات کی وادی میں بھی سیر کرو ، جب وہ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر اپنے بارے میں سوچتا ہے۔ اپنی ذات کی وادیوں میں گھومتا ہے تو باری تعالیٰ کو وہاں بھی موجودپاتا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے وہ جانتا ہے اور وہ بہت قریب ہے شہ رگ سے بھی زیادہ !

وھو معکم ............ بصیر (75 : 4) ” وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو جو کام بھی تم کرتے ہو اسے وہ دیکھ رہا ہے۔ “ یہ کوئی مجاز نہیں ہے ، یہ ایک حقیقت ہے ۔ اللہ ہر کسی کے ساتھ موجود ہے۔ ہر چیز کے ساتھ موجود ہے۔ ہر وقت موجود ہے۔ ہر مکان میں موجود ہے۔ وہ بندوں کے ہر عمل سے خبردار ہے اور دیکھتا ہے اگر کوئی صرف اس حقیقت کو دل میں بٹھا لے تو یہ ایک عظیم حقیقت ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ ایک پہلو سے انسان کو سراسیمہ کردیتی ہے اور ایک پہلو سے انسان کو امید اور محبت عطا کرتی ہے۔ بس یہی ایک حقیقت اگر کسی انسان کے قلب میں بیٹھ جائے تو اسے بلند کرنے اور پاک وصاف کرنے کے لئے یہ کافی ہے۔ انسان اس دنیا کی تمام دلچسپیوں اور مطلب پرستیوں سے دامن چھڑا کر اللہ کا ہوجاتا ہے اور پھر وہ ہر معاملے میں بہت محتاط ، خشیت اور خوف خدان سے سرشار اور ہر گندگی میں پڑنے سے رک جاتا ہے کیونکہ اس کو اللہ سے حیا آتی ہے۔ اب وادی ملکوت السموات والارض کی سیر ایک دوسرے زاویہ سے۔ یہ سیر ذرا اس سیر سے مختلف قسم کی ہے جو پہلے مذکور ہوئی۔

لہ ملک ............ الامور (75 : 5) ” وہی زمین و آسمان کی بادشاہی کا مالک ہے اور تمام معاملات فیصلے کے لئے اس کی طرف رجوع کیے جاتے ہیں۔ “ سماوات اور ارض کا ذکر پہلے تخلیق کے سلسلے میں ہوا اور حیات وممات کے نقطہ نظر سے ہوا۔ اور قضا وقدر کے زاویہ سے ہوا۔ یہاں اس زاویہ سے کہ ان کے فیصلے اللہ بادشاہ کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔ جب اللہ ہی مالک ہے تو فیصلے کرنا بھی اس کے اختیار میں ہے۔

جب انسان میں یہ شعور پختہ ہوجائے تو پھر وہ ہر معاملے میں اللہ کی رضا دیکھتا ہے۔ اپنے کاموں کے آغاز میں بھی اور انتہا میں بھی وہ دیکھتا ہے کہ اللہ کی مرضی کیا ہے۔ یہ شعور انسان کو غیر اللہ سے بےنیاز کردیتا ہے۔ اور ہر معاملے میں اللہ کا نیاز مند کردیتا ہے اور اسے تنہائی میں اور سوسائٹی میں ہر جگہ اللہ کی راہ پر گامزن کردیتا ہے۔ اس کی حرکت اور سکون ، اس کا مشورہ اور اس کی سوچ سب اللہ کی نگرانی میں ہوتی ہے اور اسے یقین ہوتا ہے کہ اسے بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں اور اللہ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔

اس سورة کا یہ پہلا پیراگراف ایک ایسی حرکت پر ختم ہوتا ہے جو اس کائنات میں دست قدرت کا مظہر ہے ، جو انسانی ضمیر کی گہرائیوں تک اترتی ہے۔

اردو ترجمہ

وہی زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے اور تمام معاملات فیصلے کے لیے اُسی کی طرف رجوع کیے جاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lahu mulku alssamawati waalardi waila Allahi turjaAAu alomooru

اردو ترجمہ

وہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے، اور دلوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yooliju allayla fee alnnahari wayooliju alnnahara fee allayi wahuwa AAaleemun bithati alssudoori

یولج اللیل ............ الصدور (75 : 6) ” وہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور دلوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔ “ رات کا دن میں داخل ہونا اور دن کا رات میں داخل ہونا ایک مسلسل حرکت ہے ، لیکن یہ نہایت ہی لطیف حرکت ہے ، بظاہر پرسکون نظر آتی ہے۔ اس کے معنی چاہے یہ ہوں کہ رات اور دن چھوٹے بڑے ہوتے رہتے ہیں ، رات کا ایک حصہ دن کو دیا جاتا ہے یا دن کا ایک حصہ چھوٹا کرکے رات کو دیا جاتا ہے ، یا طلوع و غروب کے وقت ان کا باہم تداخل مراد ہو ، لیکن یہ ایک مسلسل لطیف حرکت ہے۔ اور دلوں کے اندر ایک حرکت ہے۔ اور یہ خیال کی حرکت ہے۔ اور یہ ہر وقت دل میں ہوتی ہے۔ دلوں والی ہے ، یہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہے۔ یہ انسانی شعور کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے ، جو رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے ، نہایت ہی لطیف شعور ہے اور یہ شعور کہ اللہ دلوں کے لطیف ترین اور مخفی تصورات کو بھی جانتا ہے ، ایک عظیم چیز ہے !

اس سورت کا یہ پہلا پیراگراف انسانی احساس کو اس قدر تیز کردیتا ہے کہ اب وہ ہدایات لینے کے لئے تیار ہے۔ لہٰذا اب اسلامی جماعت کو حکم دیا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ اور مناسب وقت میں انفاق فی سبیل اللہ کا مظاہرہ کرو۔ یہ ہدایت ایسے حالات میں دی جاتی ہے کہ انسان کا اندرونی اور اس کے قلب کی طرف جانے والے تمام راستوں کے دروازے کھلے ہیں ، اس کا شعور بیدار ہے ، وہ سننے کے لئے بےتاب ہے۔ چناچہ ایسی حالت میں یہ پکار آتی ہے۔ لیکن یہ بھی اپنے اندر نہایت اثر انداز ہونے والے دلائل ، اور جھنجھوڑنے والی تنبیہات کے ساتھ آتی ہے۔

اردو ترجمہ

ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور خرچ کرو اُن چیزوں میں سے جن پر اس نے تم کو خلیفہ بنایا ہے جو لوگ تم میں سے ایمان لائیں گے اور مال خرچ کریں گے ان کے لیے بڑا اجر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aminoo biAllahi warasoolihi waanfiqoo mimma jaAAalakum mustakhlafeena feehi faallatheena amanoo minkum waanfaqoo lahum ajrun kabeerun

یہاں اللہ تعالیٰ اب ان دلوں سے مخاطب ہے جن کو خود اس نے پیدا کیا ہے ۔ اللہ ہی کو معلوم ہے کہ ان دلوں میں بات داخل کرنے کی راہیں کیا ہیں۔ کیونکہ ان کے حالات سے اللہ اچھی طرح باخبر ہے۔ خفیہ ترین خیالوں سے بھی اللہ باخبر ہے۔ اللہ کو معلوم ہے کہ دلوں میں ایمان کس طرح بیٹھتا ہے۔ دل غیر ایمانی شوائب سے کس طرح پاک ہوتا ہے اور یہ ایمان پھر کس طرح عملی زندگی میں ایک بڑے درخت کی طرح اگتا ہے ، اور انسان انفاق فی سبیل اللہ اور اللہ کے راستے میں کس طرح بڑھ کر جان تک قربان کردیتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو انسانی قوت سے بہت بڑا ہے ، اور اس کے حصول کے لئے بہت بڑی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ اپنی مخلوق کو تربیت دینے کے لئے اس قسم کے دلائل اور موثرات اور ہدایات دیتا ہے۔ پوری کائنات کے حقائق اس کے سامنے پیش کرتا ہے کہ حضرت انسان ان سے متاثر ہو ، اور دنیا کی تمام چیزوں کو اللہ کے ترازو سے تولے اور ناپے۔ اللہ بار بابر اور قدم قدم پر انسان کی تربیت کے لئے یہ انتظام فرماتا ہے۔ اور صرف یہ نہیں کہ سیدھا سادا حکم دے دیا جائے کہ اہل ایمان درج ذیل باتوں پر عمل کرلیں۔ قرآن نہ اس قسم کا خشک سرکلر جاری کرتا ہے نہ خشک قانون بناتا ہے بلکہ وہ ہر جگہ اطمینان بخش دلائل دیتا ہے۔ ہر وقت انسانی سوچ کی تاروں کو چھیڑتا ہے۔ انسانوں کی تربیت کے لئے قرآنی انداز اور منہاج اس قابل ہے کہ اسلامی انقلاب کے داعی اس پر بہت غور کریں ۔ اسے سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔ اس سورت کے آغاز میں جو موثر دلائل اور اشارات دیئے گئے تھے وہ دلوں پر گہرے اثرات چھوڑنے والے تھے۔ ان کو پڑھ کر سخت سے سخت دل موم ہوجاتے ہیں اور نہایت ہی خوابیدہ اور مدہوس شعور بھی جاگ اٹھتا ہے۔ لیکن قرآن کریم انہیں دوسرے پیرے میں بھی ان کو مسلسل جھنجھوڑتا اور ایما اور تلقین جاری ہے۔ ہدایات اور ارشادات بھی جاری ہیں اور ساتھ ساتھ دلائل واشارات بھی جاری ہیں۔

امنو ............................ فیہ (75 : 7) ” ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور خرچ کرو ان چیزوں میں سے جن پر اس نے تم کو خلیفہ بنایا ہے۔ “

یہاں اس آیت کے مخاطب مسلم ہیں بلکہ نہایت قدیم اور دور اول کے مومن ہیں۔ لیکن ان کو بھی کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ اللہ پر اور رسول اللہ پر۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے دلوں کے اندر حقیقت ایمانیہ پیدا کرو ، یہ ایک گہری ہدایت ہے اور گہرا نکتہ ہے کیونکہ بلایا تو اس طرف جارہا ہے کہ اللہ کی راہ میں انفاق کرو ، لیکن اس سے پہلے ہی یہ اشارہ دے دیا کہ اپنے دلوں کے اندر حقیقت ایمانی پیدا کرو ، اور اس انفاق کے حکم کے بعد بھی ایک اشارہ اور ہدایت کہ تم جو کچھ خرچ کررہے ہو وہ اپنے مال سے نہیں خرچ کررہے ، یہ تو اللہ کا مال ہے اور اس نے تمہاری نگرانی اور خلافت میں دے دیا ہے۔ کیونکہ ابھی تمہیں یہ سمجھایا گیا ہے کہ۔

لہ ملک ............ والارض ” زمین و آسمان کی بادشاہت اور ملکیت اسی کی ہے۔ “ یہ اللہ ہی ہے جس نے انسانوں کو اس زمین پر ایک محدود خلافت اور نیابت دی ہے۔ زندہ کرنے اور مارنے والا تو وہ ہے۔ یوں اس نے تمہیں زمین میں نسلابعد نسل خلیفہ بنایا ہے۔

سورت کے آغاز میں جو اصولی باتیں بیان کی گئی تھیں ، یہ ہدایات ان کے ساتھ مربوط ہوجاتی ہیں۔ اور یہ سب تصورات اب مل کر اہل ایمان کو قائل کرتے ہیں کہ وہ مالک جس نے تمہیں اس زمین پر ، اس کے خزانوں پر خلیفہ بنایا ہے ، تمہیں اس نے سب کچھ دیا ہے ، بتاؤ وہ اپنی ہی دولت کا ایک حصہ تم سے مانگ رہا ہے۔ کیا خیال ہے تمہارا ، دو گے اللہ کو کچھ ، دیکھو اللہ ہی دینے والا ہے ، اس کے خزانوں میں کمی نہیں ہے۔ تم کیوں ہاتھ کھینچے ہوئے ہو ، یہ تو اسی کا ہے ؟

فقط اس پر بھی بات ختم نہیں ہے کہ دلائل دیئے ، قائل کیا اور نہایت فہمائش اور محض امید پر ، بلکہ اس کے بعد ایک موثر خطاب آتا ہے کہ اس انفاق کا ایک نہایت ہی بڑا معاوضہ بھی تمہیں ملے گا۔ اس کا فضل وکرم بھی تم پر ہوگا۔

فالذین ................ کبیر (75 : 7) ” جو لوگ تم میں سے ایمان لائیں گے اور مال خرچ کریں گے ان کے لئے بڑا اجر ہے۔ “ اب کون ہے جو ایمان کا دامن چھوڑ کر پیچھے رہ سکتا ہے۔ کون ہے جو انفاق سے پیچھے رہ سکتا ہے ، اور کون ہے جو اپنے آپ کو اس فضل وکرم سے محروم کرسکتا ہے ؟

لیکن ابھی بات یہاں بھی ختم نہیں ہے اب ان چنکیوں اور دلائل ، ہدایات واشارات کے بعد ان کو دعوت دی جاتی ہے کہ وقت کو بھی دیکھو ، حالات کی نزاکت کا احساس بھی کرو ، اس وقت کے حالات پیش کرکے کہا جاتا ہے کہ وقت کا تقاضا کیا ہے۔

اردو ترجمہ

تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ رسول تمہیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور وہ تم سے عہد لے چکا ہے اگر تم واقعی ماننے والے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama lakum la tuminoona biAllahi waalrrasoolu yadAAookum lituminoo birabbikum waqad akhatha meethaqakum in kuntum mumineena

ومالکم ............ رحیم (9) (75 : 8۔ 9) ” تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ رسول تمہیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور وہ تم سے عہد لے چکا ہے۔ اگر تم واقعی ماننے والے ہو۔ وہ اللہ ہی تو ہے جو اپنے بندے پر صاف صاف آیتیں نازل کررہا ہے تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے ، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر نہایت شفیق اور مہربان ہے۔ “

آخر ایمان کی راہ میں رکاوٹ کیا ہے ؟ ایمان تو وہ لا چکے ہیں ایمان لانے کا حق یہاں مطلوب ہے۔ پھر دعوت ذات رسول کی طرف سے ہے ، جن کے ہاتھ پر تم بیعت کرچکے ہو ، پختہ وعدہ کرچکے ہو۔ اور پھر آسمانوں سے آیات بینات کی پے درپے موسلا دھار بارش ہورہی ہے۔ یہ آیات تمہیں اندھیروں ، شک اور یحرانی سے نکال رہی ہیں۔ ہدایت ویقین اور اطمینان کی روشنی تمہیں دی جارہی ہے ۔ ایسے حالات میں جن میں تم پر رحمتوں کی بارشیں ہورہی ہیں۔

نبی آخر الزمان کا کسی قوم میں موجود ہونا ، ان کا اللہ کی زبان و کلام میں گفتگو فرمانا کلام اللہ پڑھ پڑھ کردیتا ہے۔ اور یہ اس قدر عظیم نعمت ہے جس کا تصور نہ پہلے کسی نے کیا اور نہ بعد میں ہوسکے گا۔ آج ہم چودہ سو سال کی دوری سے جب اسے سوچتے ہیں ، تو یہ دور ، وحی کا دور ، حیات رسول کا دور فی الواقع عظیم نعمتوں کا دور تھا ، خوشیوں کا دور تھا ، نیک بختیوں کا دور تھا ، کیا ہی دور تھا ، اللہ جل جلالہ ، بذات خود رسول اللہ کی زبانی اپنے بندوں کو بتارہا ہے۔ نہایت رحمت ، محبت اور کرم کے ساتھ ، لو یہ کام کرو ، دیکھو اس سے بچو ، یہ ہے راہ اس پر چلو ، یہ دیکھو تم غلط ہوگئے ہو ، یہ ہے میری رسی اسے پکڑو اور نکل آؤ گڑھوں سے ، کنوؤں سے ، توبہ کرو ، توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے۔

ایں درگہ ما درگہ ناامید نیست

صدبار اگر توبہ شکستی باز آ

آؤ دور تک نہ چلے جاؤ غلط راہوں پر ، میری رحمت سے مایوس نہ ہو ، وہ تو اس قدر وسیع ہے کہ سب کائنات اس میں ڈوب جاتی ہے۔ اسے فلاں نے یہ کہا ہے ، یہ غلط ہے۔ اسے فلاں تونے یہ سوچا ہے ، یہ غلط ہے۔ یہ تو گناہ ہے۔ فلاں فلاں کاموں کا تونے ارتکاب کیا ہے یہ غلط ہے۔ آؤ، توبہ کرو اور میری رحمت میں داخل ہوجاؤ۔ اے فلاں وہ فلاں فلاں چیزیں تمہیں روک رہی ہیں ان کو اتار پھینکو ، فلاں تونے یہ سوال کیا ہے یہ ہے جواب اس کا۔ اور یہ کام جو تونے کیا ہے اس کا یہ وزن ہے۔

یہ لوگ جو اللہ کے ساتھ رہتے ہیں ، جو اس کی مخلوق ہیں ، جن کو اللہ تلقین فرماتا ہے جن کے ساتھ یوں ہم کلام ہوتا ہے۔ یہ اپنے اندر تیز احساس رکھتے ہیں کہ اللہ ان کے ساتھ ہے اور وہ اللہ کے ساتھ ہیں۔ یہ حقیقت ہے اور یہ واقعہ ہے رات کی تاریکیوں میں بھی اللہ کی فریاد سن رہا ہے۔ اور ان کو قبول کرتا ہے۔ قدم قدم پر ان کی رہنمائی کرتا ہے اور ان کی طرف متوجہ ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ بات اس شخص کی سوچ سے بھی بلند ہے جو اس کے اندر نہ رہا ہو۔ اس لئے آج ہم بھی کہہ سکتے کہ وہ یوں تھے۔ لیکن ان آیات میں سب سے پہلے جن لوگوں کو خطاب کیا گیا وہ ایسے ہی حالات میں زندہ رہے تھے۔ اور ان لوگوں کو اس قسم کی تربیت یاد دہانی اور اکساہٹ کی ضرورت تھی۔ لیکن اب اگر کوئی اس قسم کے تصور کو اپنے ذہنوں میں جمائے اور بسائے ہوئے ہے ہمارے اس گئے گزرے دور میں تو یہ اس فضل سے بھی بڑا فضل ہے۔ یہ بات زیادہ قابل قدر ہے کہ دور صحابہ سے دور پندرہویں صدی میں یہ تصور کرتا ہو۔

بخاری شریف کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن اپنے صحابہ سے کہا کہ تمہارے نزدیک کون سا مومن قابل تعجب اور صاحب فضل وکرم ہے ، تو صحابہ کرام نے فرمایا فرشتے ؟ تو حضور نے فرمایا ” وہ کیونکر ایمان نہ لائیں گے وہ ہیں ہی اپنے رب کے پاس۔ “ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ پھر ” انبیائ “۔ تو آپ نے فرمایا۔” وہ کس طرح ایمان نہ لائیں جبکہ وحی ان پر نازل ہورہی ہے “ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ پھر ” ہم لوگ “۔ تو حضور نے فرمایا : ” تم کیوں ایمان نہ لاؤ، جبکہ میں تمہارے درمیان ہوں ؟ بلکہ ایمان کے لحاظ سے افضل ترین لوگ وہ ہیں جو تمہارے بعد ہوں گے ، ان کے پاس صحیفے ہوں گے اور وہ ان کے اندر پائی جانے والی تعلیمات پر ایمان لائیں گے۔ “

رسول اللہ ﷺ نے سچ فرمایا کہ صورت حال میں بہت فرق ہے۔ ان لوگوں کے ہاں ایمان کے اشارات ، اسباب اور دلائل بہت زیادہ تھے۔ عجیب و غریب تھے ۔ بلکہ اگر وہ ایمان نہ لاتے تو قابل تعجب بات ہوتی۔ اس کے باوجود ان سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ایمان کو اپنے نفوس کے اندر حقیقت بناؤ، اگر مومن ہو تو۔

اب موجبات ایمان اور دلائل ایمان سے آگے ، دلائل انفاق اور موجبات انفاق کی طرف ، مگر قدرے تاکید کے ساتھ اور تکرار کے ساتھ۔

اردو ترجمہ

وہ اللہ ہی تو ہے جو اپنے بندے پر صاف صاف آیتیں نازل کر رہا ہے تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر نہایت شفیق اور مہربان ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee yunazzilu AAala AAabdihi ayatin bayyinatin liyukhrijakum mina alththulumati ila alnnoori wainna Allaha bikum laraoofun raheemun

اردو ترجمہ

آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کے لیے ہے تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ کبھی اُن لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے اُن کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے اچھے وعدے فرمائے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے با خبر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wama lakum alla tunfiqoo fee sabeeli Allahi walillahi meerathu alssamawati waalardi la yastawee minkum man anfaqa min qabli alfathi waqatala olaika aAAthamu darajatan mina allatheena anfaqoo min baAAdu waqataloo wakullan waAAada Allahu alhusna waAllahu bima taAAmaloona khabeerun

ومالکم ................ والارض (75 : 01) ” آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ زمین اور آسمانوں کی میراث اللہ ہی کے لئے ہے۔ “ اس میں اسی حقیقت کو دہرایا گیا ہے جو پہلے بیان ہوئی۔

لہ ملک ................ الامور ” اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اور تمام امور فیصلے کے لئے اللہ ہی کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔ “ اللہ کی میراث ، اس کا اقتدار اعلیٰ اور بادشاہت ہے اور جس کا اقتدار اعلیٰ ہے فیصلے بھی اسی کے ہیں اور جو اختیارات اللہ نے ان کے لئے دیئے ہیں وہ سب جلدی اسی کی طرف واپس ہوجائیں گے۔ اس لئے جب اللہ تمہیں دعوت انفاق دے رہا ہے اور یہ مال تو اسی کا ہے ، اور اسی نے اس میں تصرف کے اختیارات تمہیں دیئے ہیں۔ اور یہ اسی کی طرف لوٹنے والا ہے لہٰذا بخل اور کنجوسی کے لئے کوئی جواز نہیں رہتا ، اس خطاب میں بس یہی حقیقت ہے۔

مٹھی بھر السابقون الاولون نے اللہ کی راہ میں جو کچھ ان کے بس میں تھا ، خرچ کیا۔ یہ مہاجرین وانصار کے پاکیزہ لوگ تھے اور انہوں نے نہایت ہی مشکل دور میں یہ خرچ کیا۔ نہایت ہی شدید مشکلات کے دور میں انہوں نے مالی قربانی دی اور اس زمانے میں خرچ کیا جبکہ اسلام ہر طرف سے خطرات میں گھرا ہوا تھا۔ فتح مکہ یا حدیبیہ سے قبل کے زمانے میں اسلام کے دوست اور معاون قلیل تھے۔ دشمن زیادہ تھے۔ اور اس دور میں ان لوگوں نے جو خرچ کیا اس پر ان کو کوئی دنیاوی امید اور لالچ بھی نہ تھی۔ نہ وہ خرچ کسی کو دکھانے کے لئے کرتے تھے۔ یہ سب خرچ جذبہ خیر پر مبنی تھا۔ جس خیر کو انہوں نے اختیار کرلیا تھا۔ یہ خرچ وہ اپنے اس نظریہ کے لئے کررہے تھے جسے انہوں نے تمام دنیاوی مفادات کو چھوڑ کر اختیار کرلیا تھا۔ انہوں نے ڈھیر سا مال خرچ کیا۔ بعض نے اس مقدار میں مال خرچ کیا جو السابقون الاولون نے فتح سے قبل کیا تھا۔ اس پر قرآن کی آیات نازل ہوئیں ان میں تصریح کی گئی۔ مقدار کے اعتبار سے تمہارا خرچ ان کے خرچ کے برابر ہوسکتا ہے یا زیادہ بھی ہوسکتا ہے لیکن اللہ کے ترازو میں سابقون کا خرچ قابل ترجیح ہے۔ اس لئے کہ انہوں نے جس ایمانی جذبہ سے خرچ کیا اس میں فرق ہے۔

لا یستوی ................ وقتلوا (75 : 01) ” تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ کبھی ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتے۔ جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے۔ ان کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے۔ “ ایک شخص وہ ہے جو اس وقت خرچ کرتا ہے اور جہاد کرتا ہے ، جب ہر طرف سے نظریہ پر حملے ہوتے ہیں ، اس نظریہ کے ماننے والے اور دوست قلیل ہیں۔ اور کسی منفعت کا کوئی نشان تک نہیں ہے۔ نہ اقتدار ہے اور نہ سہولیات ہیں ، اور ایک شخص اس وقت خرچ کرتا ہے اور جہاد کرتا ہے جب نظریہ حیات پرامن ہے ، اس کے انصار بہت ہیں اور نصرت ، غلبہ اور فتح اور مفادات متوقع ہیں تو دونوں کے درمیان بہت فرق ہے۔ پہلا شخص صرف اللہ سے لو لگائے ہوئے ہوتا ہے ، وہ مخلص ہے اور اس کے اخلاص میں شب ہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسے اللہ پر گہرا بھروسہ ہے اور صرف اللہ پر اطمینان ہے۔ یہ شخص اسباب ظاہری اور دنیاوی مفادات سے دور ہے۔ اس کو اس خیر اور بھلائی پر صرف اس کا عقیدہ آمادہ کررہا ہے اور یہ دوسرا شخص جو بھلائی کرتا ہے اس کے لئے اس کے نظریہ کے سوا دوسرے دواعی بھی اس نیکی پر آمادہ کرنے کے لئے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کی نیت صاف بھی ہو پھر بھی دوسرے عوامل ملحوظ ہیں۔

امام احمد نے روایت کی ہے۔ احمد ابن عبدالملک سے انہوں نے زہیر سے ، انہوں نے حمید الطویل سے ، انہوں نے انس سے کہتے ہیں کہ حضرت خالد ابن ولید اور عبدالرحمن بن عوف کے درمیان کچھ باتوں کا تبادلہ ہوگیا۔ خالد نے عبدالرحمن سے کہا : ” تم لوگوں پر اس لئے دست درازی کرتے ہو کہ کچھ دن تم ان سے پہلے اسلام لے آئے ہو ، ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ اس بات کا تذکرہ نبی ﷺ سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا ” میرے ان ساتھیوں کو چھوڑ دو ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، کہ اگر تم احد کے برابر سونا خرچ کرو (یا کہا کہ پہاڑوں کے برابر سونا خرچ کرو) تو بھی تم ان کے اعمال تک نہیں پہنچ سکتے ........ صحیح میں ہے۔

لا تسبواصحابی فوالذی نفسی بیدہ لو انفق احمد کم مثل احد ذھبا ما بلغ مداحد ھم او نصیفہ (1) ” میرے ساتھیوں کو گالیاں نہ دو ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اگر تم میں کوئی احد جیسا سونا خرچ کرے تو نہ ان کی مد کو پہنچ سکتا اور نہ نصف مد کو (مدپیمانہ تقریباً دو کلو) (1) معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں اصحابی کا خاص مفہوم ہے۔ ان کے بارے میں حضور نے سخت تنبیہہ فرمائی ہے۔ یہ لوگ دراصل سابقون اولون ہیں۔ حضور اکرم اپنے ارد گرد صحابہ اور مومنین سے کہتے تھے۔ دعوالی اصحابی ” میرے ساتھیوں کو میرے ہی لئے چھوڑ دو “ اس سے صحبت خاصہ مراد ہے۔ ایک بار حضرت ابوبکر صدیق کے بارے میں کہا دعوابی صاحبی ” میرے اس ساتھی کو میرے لئے چھوڑ دو ۔ “

لیکن بعد میں آنے والوں کو بھی مایوس نہیں کیا گیا۔ سب کے لئے اونچا مقام ہے۔ اچھا وعدہ ہے۔

وکلا وعد ................ الحسنی (75 : 01) ” اور اللہ نے دونوں ہی سے اچھے وعدے فرمائے ہیں۔ “ اگرچہ ان کے درمیان درجات کے اعتبار سے تفاوت تھا لیکن وہ سب اچھے اور عد دل تھے۔

لیکن یہ تفاوت ، اور سب کے لئے جزائے حسن کے وعدے سب کے سب اللہ کے علم سے مشروط ہیں سب کے احوال سے اللہ اچھی طرح باخبر ہے۔ یہ اللہ ہی ہے کہ وہ جانتا ہے کہ ان کے ان اعمال کے پیچھے کیا داعیہ تھا۔ حقیقی علم تو اللہ ہی رکھتا ہے۔

واللہ ............ خبیر (75 : 01) ” جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ “

یہ ایک ایسا ٹچ اور ایک ایسی چٹکی ہے جس سے دل بیدار ہوجاتے ہیں کہ ظاہری اعمال اپنی جگہ پر ہیں اور دنیا کے فیصلے تو اپنی جگہ پر ہیں لیکن اللہ کے فیصلے اللہ کے علم پر ہوں گے۔ خبردار وہاں وزن اللہ کے پیمانوں سے ہوگا۔

اردو ترجمہ

کون ہے جو اللہ کو قرض دے؟ اچھا قرض، تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا کر واپس دے، اور اُس کے لیے بہترین اجر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Man tha allathee yuqridu Allaha qardan hasanan fayudaAAifahu lahu walahu ajrun kareemun

من ذالذی .................................... المصیر (51) (75 : 11 تا 51)

” کون ہے جو اللہ کو قرض دے ؟ اچھا قرض ، تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا کر واپس دے اور اس کے لئے بہترین اجر ہے۔ اس دن جب کہ تم مومن مردوں اور عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑرہا ہوگا۔ (ان سے کہا جائے گا کہ ) آج بشارت ہے تمہارے لیے جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی ، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی ہے بڑی کامیابی۔ اس روز منافق مردوں اور عورتوں کا حال یہ ہوگا کہ وہ مومنوں سے کہیں گے ذرا ہماری طرف دیکھو تاکہ ہم تمہارے نور سے کچھ فائدہ اٹھائیں۔ مگر ان سے کہا جائے گا ” پیچھے ہٹ جاؤ ، اپنا نور کہیں اور تلاش کرو۔ “ پھر ان کے درمیان ایک دیوار حائل کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا۔ اس دروازے کے اندر رحمت ہوگی اور باہر عذاب۔ وہ مومنوں سے پکار پکار کر کہیں گے ” کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے “ ؟ مومن جواب دیں گے۔” ہاں ، مگر تم نے اپنے آپ کو خود فتنے میں ڈالا ، موقع پرستی کی شک میں پڑے رہے ، اور جھوٹی توقعات تمہیں فریب دیتی رہیں ، یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آگیا ، اور آخر وقت تک وہ بڑادھوکے باز (شیطان) تمہیں اللہ کے معاملہ میں دھوکا دیتا رہا۔ لہٰذا آج نہ تم سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ ان لوگوں سے جنہوں نے کھلا کھلا کفر کیا تھا۔ تمہارا ٹھکانا جہنم ہے ، وہی تمہاری خبر گیری کرنے والی ہے اور یہ بدترین انجام ہے۔ “

یہ رب ذوالجلال کی طرف سے ایک زبردست پکار ، ایک زبردست موثر اشارہ اللہ اپنے فقیر اور محتاج بندوں سے کہتا ہے۔

من ذالذی ........................ حسنا (75 : 11) ” کون ہے جو اللہ کو قرض دے ؟ اچھا قرض “ تاکہ صرف یہ تصور کہ ایک مسلم فقیر ہے اور اللہ کی طرف ہر وقت محتاج ہے اور رب ذوالجلال اس سے قرض مانگ رہا ہے ، اس بات کے لئے کافی ہے کہ وہ اڑ کر اللہ کی راہ میں خرچ کرے ، کیونکہ لوگوں کی یہ عادت ہے کہ وہ نفع بخش کاروبار میں سرمایہ لگاتے ہیں۔ لوگ چونکہ فقیر ہیں اور اللہ کو دیا ہوا قرضہ محفوظ ہے ، اس کی واپسی یقینی ہے ، پھر یہ ان کے لئے ایک باعث عزت بات بھی ہے کہ وہ اللہ کو قرض دے رہے ہیں۔ عموماً لوگ نفع بخش کاروبار میں رقم لگاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ تو کئی گنا بڑھا کر اسے واپس کرتا ہے۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں ہے کہ لوگ اس کاروبار میں سرمایہ نہ لگائیں۔

اللہ تعالیٰ انک صرف اچھے جذبات تک ہی نہیں لے جاتا بلکہ وعدہ فرماتا ہے کہ اس قرض حسن پر تمہیں کئی گنا اضافہ کرکے دے گا۔ بشرطیکہ وہ قرض حسن ہو اور صرف اللہ کے لئے دیا ہو اور کئی گنا اضافے کے ساتھ پھر اللہ کے ہاں مزید اجر بھی ملے گا۔

فیضعفہ .................... کریم (75 : 11) ” تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا کر واپس دے اور اس کے لئے بہترین اجر ہے۔ “ اور اس اجر کا نقشہ قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر پیش کرکے بنایا جاتا ہے۔ قیامت کے دن یہ اجر دیا جائے گا اور یہ بہت ہی قابل قدر اجر ہوگا۔

یہ منظر قرآن کریم کے مناظر میں سے بالکل ایک نیا منظر ہے۔ اس منظر کی تصویر کشی اس طرح کی گئی ہے کہ اسے حرکت اور مکالمات سے بھر پور انداز میں بالکل ایک زندہ منظر بنا دیا گیا ہے۔ آج جب ہم قرآن کریم کو پڑھتے ہیں تو ہماری نظروں کے سامنے پوری تصویر آجاتی ہے۔ مومنین اور مومنات ہمیں سخت تاریکی میں چلتے نظر آتے ہیں لیکن ان کے سامنے اور ان کے دائیں جانب ہمیں ایک لطیف نور اور چمک نظر آتی ہے۔ یہ نور خود ان اہل ایمان کا نور ایمانی ہے اور یہ ان کے چہروں سے پھوٹ رہا ہے۔ ان مومنین اور مومنات کے اجسام سے یہ نور پھوٹ رہا ہے اور اس نور کی روشنی میں یہ اس دن کی تاریکی میں آگے بڑھ رہے ہیں ، یہ وہی نور ہے جو جاہلیت کے اندھیروں میں اللہ نے ان کو دیا تھا اور اس کی روشنی میں وہ چلتے تھے ، اب یہ نور ان کی ارواح کے ذریعہ ان کی خاکی جسم پر غالب آگیا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے اجسام کے خاکی اجزا سے یہ نور چمک رہا ہو کہ جدید سائنس کی تحقیقات بھی اسی طرف جاری ہیں کہ مادہ ایٹم سے بنا ہے اور ایٹم دراصل نور اور ” شعاعیں “ ہے ۔ یوں گویا یہ نور پھر حقیقی نور ہوگا۔

اب اس منظر میں مومنین اور مومنات کو مبارک سلامت دی جاتی ہے۔

بشرکم .................... العظیم (75 : 21) ” آج ہے خوش خبری تمہارے لیے جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی ، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی ہے بڑی کامیابی۔

لیکن مبارک سلامت کے اس منظر پر ابھی یہ ختم نہیں ہے۔ ادھر سے منافقین اور منافقات کا گروہ بھی گرتا پڑتا چلا آرہا ہے۔ یہ حیران وپریشان اور کس مپرسی کی حالت میں ہے ، یہ لوگ مومنین اور مومنات کے ساتھ لپٹ جاتے ہیں اور کہتے ہیں۔

538