سورۃ الحدید: آیت 6 - يولج الليل في النهار ويولج... - اردو

آیت 6 کی تفسیر, سورۃ الحدید

يُولِجُ ٱلَّيْلَ فِى ٱلنَّهَارِ وَيُولِجُ ٱلنَّهَارَ فِى ٱلَّيْلِ ۚ وَهُوَ عَلِيمٌۢ بِذَاتِ ٱلصُّدُورِ

اردو ترجمہ

وہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے، اور دلوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Yooliju allayla fee alnnahari wayooliju alnnahara fee allayi wahuwa AAaleemun bithati alssudoori

آیت 6 کی تفسیر

یولج اللیل ............ الصدور (75 : 6) ” وہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور دلوں کے چھپے ہوئے راز تک جانتا ہے۔ “ رات کا دن میں داخل ہونا اور دن کا رات میں داخل ہونا ایک مسلسل حرکت ہے ، لیکن یہ نہایت ہی لطیف حرکت ہے ، بظاہر پرسکون نظر آتی ہے۔ اس کے معنی چاہے یہ ہوں کہ رات اور دن چھوٹے بڑے ہوتے رہتے ہیں ، رات کا ایک حصہ دن کو دیا جاتا ہے یا دن کا ایک حصہ چھوٹا کرکے رات کو دیا جاتا ہے ، یا طلوع و غروب کے وقت ان کا باہم تداخل مراد ہو ، لیکن یہ ایک مسلسل لطیف حرکت ہے۔ اور دلوں کے اندر ایک حرکت ہے۔ اور یہ خیال کی حرکت ہے۔ اور یہ ہر وقت دل میں ہوتی ہے۔ دلوں والی ہے ، یہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہے۔ یہ انسانی شعور کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے ، جو رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے ، نہایت ہی لطیف شعور ہے اور یہ شعور کہ اللہ دلوں کے لطیف ترین اور مخفی تصورات کو بھی جانتا ہے ، ایک عظیم چیز ہے !

اس سورت کا یہ پہلا پیراگراف انسانی احساس کو اس قدر تیز کردیتا ہے کہ اب وہ ہدایات لینے کے لئے تیار ہے۔ لہٰذا اب اسلامی جماعت کو حکم دیا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ اور مناسب وقت میں انفاق فی سبیل اللہ کا مظاہرہ کرو۔ یہ ہدایت ایسے حالات میں دی جاتی ہے کہ انسان کا اندرونی اور اس کے قلب کی طرف جانے والے تمام راستوں کے دروازے کھلے ہیں ، اس کا شعور بیدار ہے ، وہ سننے کے لئے بےتاب ہے۔ چناچہ ایسی حالت میں یہ پکار آتی ہے۔ لیکن یہ بھی اپنے اندر نہایت اثر انداز ہونے والے دلائل ، اور جھنجھوڑنے والی تنبیہات کے ساتھ آتی ہے۔

آیت 6{ یُوْلِجُ الَّـیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُوْلِجُ النَّہَارَ فِی الَّـیْلِ } ”وہ پرو لاتا ہے رات کو دن میں اور پرولاتا ہے دن کو رات میں۔“ یہ مضمون ان ہی الفاظ کے ساتھ قرآن حکیم میں متعدد بار آیا ہے۔ { وَہُوَ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۔ } ”اور وہ جانتا ہے اس کو بھی جو سینوں کے اندر ہے۔“ نوٹ کیجیے ! ان آیات میں اللہ تعالیٰ کے علم کا ذکر بہت تکرار کے ساتھ ہوا ہے ‘ پہلے فرمایا : { وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ۔ } پھر فرمایا : { یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآئِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْہَا…} آیت 4 اور اب یہاں اس آیت میں بتایا گیا کہ وہ سینوں کے رازوں کا بھی علم رکھتا ہے۔ ان چھ ابتدائی آیات پر مشتمل یہ ُ پرشکوہ تمہید گویا ایک اعلان ہے کہ خبردار ! تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ تم یہ کس کا کلام پڑھ رہے ہو ‘ کس سے ہم کلام ہو رہے ہو ! ان تمہیدی آیات میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت ‘ اس کی قدرت ‘ اس کی بادشاہی اور خصوصی طور پر اس کے علم کا تعارف ہے۔ یہ گویا توحید فی العقیدہ کا بیان ہے۔ توحید کا یہ عقیدہ عملی میدان میں بندوں سے کیا تقاضا کرتا ہے اس کا ذکر اب آگے آ رہا ہے۔ چناچہ اگلی آیات میں توحید کے دو بنیادی تقاضے بتائے گئے ہیں۔

آیت 6 - سورۃ الحدید: (يولج الليل في النهار ويولج النهار في الليل ۚ وهو عليم بذات الصدور...) - اردو