سورۃ الحدید: آیت 11 - من ذا الذي يقرض الله... - اردو

آیت 11 کی تفسیر, سورۃ الحدید

مَّن ذَا ٱلَّذِى يُقْرِضُ ٱللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَٰعِفَهُۥ لَهُۥ وَلَهُۥٓ أَجْرٌ كَرِيمٌ

اردو ترجمہ

کون ہے جو اللہ کو قرض دے؟ اچھا قرض، تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا کر واپس دے، اور اُس کے لیے بہترین اجر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Man tha allathee yuqridu Allaha qardan hasanan fayudaAAifahu lahu walahu ajrun kareemun

آیت 11 کی تفسیر

من ذالذی .................................... المصیر (51) (75 : 11 تا 51)

” کون ہے جو اللہ کو قرض دے ؟ اچھا قرض ، تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا کر واپس دے اور اس کے لئے بہترین اجر ہے۔ اس دن جب کہ تم مومن مردوں اور عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑرہا ہوگا۔ (ان سے کہا جائے گا کہ ) آج بشارت ہے تمہارے لیے جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی ، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی ہے بڑی کامیابی۔ اس روز منافق مردوں اور عورتوں کا حال یہ ہوگا کہ وہ مومنوں سے کہیں گے ذرا ہماری طرف دیکھو تاکہ ہم تمہارے نور سے کچھ فائدہ اٹھائیں۔ مگر ان سے کہا جائے گا ” پیچھے ہٹ جاؤ ، اپنا نور کہیں اور تلاش کرو۔ “ پھر ان کے درمیان ایک دیوار حائل کردی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا۔ اس دروازے کے اندر رحمت ہوگی اور باہر عذاب۔ وہ مومنوں سے پکار پکار کر کہیں گے ” کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے “ ؟ مومن جواب دیں گے۔” ہاں ، مگر تم نے اپنے آپ کو خود فتنے میں ڈالا ، موقع پرستی کی شک میں پڑے رہے ، اور جھوٹی توقعات تمہیں فریب دیتی رہیں ، یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آگیا ، اور آخر وقت تک وہ بڑادھوکے باز (شیطان) تمہیں اللہ کے معاملہ میں دھوکا دیتا رہا۔ لہٰذا آج نہ تم سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ ان لوگوں سے جنہوں نے کھلا کھلا کفر کیا تھا۔ تمہارا ٹھکانا جہنم ہے ، وہی تمہاری خبر گیری کرنے والی ہے اور یہ بدترین انجام ہے۔ “

یہ رب ذوالجلال کی طرف سے ایک زبردست پکار ، ایک زبردست موثر اشارہ اللہ اپنے فقیر اور محتاج بندوں سے کہتا ہے۔

من ذالذی ........................ حسنا (75 : 11) ” کون ہے جو اللہ کو قرض دے ؟ اچھا قرض “ تاکہ صرف یہ تصور کہ ایک مسلم فقیر ہے اور اللہ کی طرف ہر وقت محتاج ہے اور رب ذوالجلال اس سے قرض مانگ رہا ہے ، اس بات کے لئے کافی ہے کہ وہ اڑ کر اللہ کی راہ میں خرچ کرے ، کیونکہ لوگوں کی یہ عادت ہے کہ وہ نفع بخش کاروبار میں سرمایہ لگاتے ہیں۔ لوگ چونکہ فقیر ہیں اور اللہ کو دیا ہوا قرضہ محفوظ ہے ، اس کی واپسی یقینی ہے ، پھر یہ ان کے لئے ایک باعث عزت بات بھی ہے کہ وہ اللہ کو قرض دے رہے ہیں۔ عموماً لوگ نفع بخش کاروبار میں رقم لگاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ تو کئی گنا بڑھا کر اسے واپس کرتا ہے۔ اس لئے کوئی وجہ نہیں ہے کہ لوگ اس کاروبار میں سرمایہ نہ لگائیں۔

اللہ تعالیٰ انک صرف اچھے جذبات تک ہی نہیں لے جاتا بلکہ وعدہ فرماتا ہے کہ اس قرض حسن پر تمہیں کئی گنا اضافہ کرکے دے گا۔ بشرطیکہ وہ قرض حسن ہو اور صرف اللہ کے لئے دیا ہو اور کئی گنا اضافے کے ساتھ پھر اللہ کے ہاں مزید اجر بھی ملے گا۔

فیضعفہ .................... کریم (75 : 11) ” تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا کر واپس دے اور اس کے لئے بہترین اجر ہے۔ “ اور اس اجر کا نقشہ قیامت کے مناظر میں سے ایک منظر پیش کرکے بنایا جاتا ہے۔ قیامت کے دن یہ اجر دیا جائے گا اور یہ بہت ہی قابل قدر اجر ہوگا۔

یہ منظر قرآن کریم کے مناظر میں سے بالکل ایک نیا منظر ہے۔ اس منظر کی تصویر کشی اس طرح کی گئی ہے کہ اسے حرکت اور مکالمات سے بھر پور انداز میں بالکل ایک زندہ منظر بنا دیا گیا ہے۔ آج جب ہم قرآن کریم کو پڑھتے ہیں تو ہماری نظروں کے سامنے پوری تصویر آجاتی ہے۔ مومنین اور مومنات ہمیں سخت تاریکی میں چلتے نظر آتے ہیں لیکن ان کے سامنے اور ان کے دائیں جانب ہمیں ایک لطیف نور اور چمک نظر آتی ہے۔ یہ نور خود ان اہل ایمان کا نور ایمانی ہے اور یہ ان کے چہروں سے پھوٹ رہا ہے۔ ان مومنین اور مومنات کے اجسام سے یہ نور پھوٹ رہا ہے اور اس نور کی روشنی میں یہ اس دن کی تاریکی میں آگے بڑھ رہے ہیں ، یہ وہی نور ہے جو جاہلیت کے اندھیروں میں اللہ نے ان کو دیا تھا اور اس کی روشنی میں وہ چلتے تھے ، اب یہ نور ان کی ارواح کے ذریعہ ان کی خاکی جسم پر غالب آگیا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے اجسام کے خاکی اجزا سے یہ نور چمک رہا ہو کہ جدید سائنس کی تحقیقات بھی اسی طرف جاری ہیں کہ مادہ ایٹم سے بنا ہے اور ایٹم دراصل نور اور ” شعاعیں “ ہے ۔ یوں گویا یہ نور پھر حقیقی نور ہوگا۔

اب اس منظر میں مومنین اور مومنات کو مبارک سلامت دی جاتی ہے۔

بشرکم .................... العظیم (75 : 21) ” آج ہے خوش خبری تمہارے لیے جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی ، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی ہے بڑی کامیابی۔

لیکن مبارک سلامت کے اس منظر پر ابھی یہ ختم نہیں ہے۔ ادھر سے منافقین اور منافقات کا گروہ بھی گرتا پڑتا چلا آرہا ہے۔ یہ حیران وپریشان اور کس مپرسی کی حالت میں ہے ، یہ لوگ مومنین اور مومنات کے ساتھ لپٹ جاتے ہیں اور کہتے ہیں۔

آیت 1 1{ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُـقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا } ”کون ہے جو اللہ کو قرض دے قرض حسنہ ؟“ { فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗ وَلَــہٗٓ اَجْرٌ کَرِیْمٌ۔ } ”کہ وہ اس کے لیے اسے بڑھاتا رہے اور اس کے لیے بڑا باعزت اجر ہے۔“ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر اور بھلا کون اجر دے سکتا ہے ؟ ایسا منافع اور بھلا کہاں سے مل سکتا ہے ؟ چناچہ اے اہل ایمان ! آگے بڑھو ! لبیک کہو اپنے رب کی اس پکار پر ! اور اپنا مال اور اپنا وقت قربان کر دو اس کی رضا کے لیے ! اپنی صلاحیتیں اور اپنی جان کھپا دو اس کی راہ میں ! یہاں پر یہ نکتہ ایک دفعہ پھر سے ذہن نشین کر لیجیے کہ انفاقِ مال اور انفاقِ جان ایک اعتبار سے ایک ہی چیز ہے۔ مال اور جان کے باہمی تعلق کو اس پہلو سے بھی سمجھنا چاہیے کہ ایک شخص اپنی جان ‘ یعنی جسمانی قوت ‘ ذہانت اور دیگر صلاحیتوں کی مدد سے مال کماتا ہے۔ پھر اپنے اس مال سے ایک طرف وہ اپنی جان کی بقا کا سامان پیدا کرتا ہے تو دوسری طرف اسی کی مدد سے وہ دوسروں کی قوت ‘ ذہانت اور دیگر صلاحیتوں کو خریدنے کی استعداد بھی حاصل کرلیتا ہے۔ اسی طرح انسان کی مہلت زندگی یعنی ”وقت“ بھی اس کی دولت ہے جس کے ذریعے سے وہ مال کماتا ہے۔ چناچہ عام طور پر کہا جاتا ہے : time is money کہ وقت اصل دولت ہے۔ گویا انسان کی جان ‘ اس کا مال اور وقت باہم یوں متعلق و مربوط ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کے انفاق میں عملی طور پر باقی دو چیزوں کا انفاق بھی شامل ہوتا ہے۔ چناچہ یہاں جس انفاق کی بات ہو رہی ہے اس میں آپ کا مال ‘ آپ کا وقت ‘ آپ کی جسمانی قوت ‘ ذہانت ‘ فطانت ‘ جان وغیرہ سب شامل ہیں۔ اب اگلی آیات میں روز محشر کے اس مرحلے کا نقشہ دکھایا جا رہا ہے جب منافقین کو چھانٹ کر سچے اہل ایمان سے الگ کردیا جائے گا۔ اس مرحلے کو ہمارے ہاں عموماً ”پل صراط“ کا مرحلہ کہا جاتا ہے۔ میدانِ حشر کا یہ نقشہ ذہن میں رکھیے کہ وہاں مختلف مواقع پر مختلف قسم کے لوگوں کی چھانٹی ہوتی چلی جائے گی۔ اس چھانٹی کے عمل کو سمجھنے کے لیے بجری بنانے والے کرشرز crushers میں لگی چھلنیوں کی مثال ذہن میں رکھیے۔ جس طرح ان مشینوں میں لگی مختلف قسم کی چھلنیاں مختلف سائز کے پتھروں کو الگ کرتی چلی جاتی ہیں بالکل اسی طرح میدانِ محشر میں مختلف مراحل پر مختلف قسم کے انسان بھی اپنے اعتقادات و اعمال کی بنیاد پر الگ ہوتے چلے جائیں گے۔ چناچہ سب سے پہلی چھانٹی میں تمام کفار و مشرکین کو الگ کرلیا جائے گا۔ پھر کسی مرحلے پر ایمان کے دعوے داروں میں سے سچے مومنین اور منافقین کو الگ الگ کرنے کے لیے چھانٹی کی جائے گی اور یہی وہ مرحلہ ہے جس کا نقشہ آئندہ آیات میں دکھایا جا رہا ہے۔ اس چھانٹی کے لیے تمام مسلمانوں کو گھپ اندھیرے میں پل صراط پر سے گزرنا ہوگا جس کے نیچے جہنم بھڑک رہی ہوگی۔ جن لوگوں کے دلوں میں سچا ایمان تھا اور انہوں نے ایمان کی حالت میں نیک اعمال بھی کیے تھے ‘ ان کے قلوب اور داہنے ہاتھوں سے اس وقت نور پھوٹ رہا ہوگا اور وہ اس روشنی میں راستہ پار کر کے جنت میں پہنچ جائیں گے۔ لیکن جو لوگ دنیا میں سچے ایمان سے محروم رہے اور اعمالِ صالحہ کی پونجی بھی ان کے پاس نہیں ہوگی ‘ وہ خواہ دنیا میں مسلمانوں ہی کے ساتھ شریک رہے ہوں اور خواہ وہ مسلمانوں کے بڑے بڑے قائدین بن کر رہے ہوں اس وقت وہ روشنی سے محروم کردیے جائیں گے۔ اس حالت میں وہ ٹھوکریں کھاتے جہنم میں گرتے چلے جائیں گے۔ آئندہ آیات میں اس مرحلے کا تفصیلی نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس کے بعد روز محشر کے اس مرحلے کی ایک جھلک سورة التحریم کی آیت 8 میں بھی دکھائی گئی ہے۔

آیت 11 - سورۃ الحدید: (من ذا الذي يقرض الله قرضا حسنا فيضاعفه له وله أجر كريم...) - اردو