فرعون مصر میں تھا۔ یہ حضرت موسیٰ کے دور کا فرعون تھا۔ اس سے قبل اس کی تفصیلات نہیں آئیں۔ الموتفکت سے وہ بستیاں مراد ہیں جو ہلاک ہوئیں ، تباہ ہوئیں ، تلپٹ ہوئیں۔ یہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیاں تھیں ، جن کو ہلاک کیا گیا اور یوں کہ انہیں الٹ دیا گیا ۔ لفظ موتفکت کے مفہوم میں یہ دونوں باتیں آتی ہیں۔ ان سب لوگوں کے کام اور بدعملی کو الخاطئہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی انہوں نے غلط فعل کا ارتکاب کیا۔ یہ الخطیئة سے ماخوذ ہے یعنی عظیم غلطی۔ یہاں فعصوارسول ربھم (96 : 01) ” ان سب نے اپنے رب کے رسول کی بات نہ مانی “۔ حالانکہ انہوں نے کئی رسولوں کی بات نہ مانی تھی۔ ایک رسول نہ تھا لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے رسول اور رسالت ایک ہی چیز ہے۔ گویا تمام رسول ایک ہی رسول ہیں۔ قرآن کریم کے یہ انوکھے اشارات میں سے ایک اشارہ ہے۔ اور اس سورت کی فضا کے مطابق ان سب کا ایک ہی ہولناک انجام ذکر کردیا جاتا ہے۔ جو فیصلہ کن انجام ہے۔
فاخذھم ................ رابیة (96 : 01) ” تو اس نے ان کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑا “۔ رابیہ کے معنی ہیں : اعلیٰ ، ڈھانپنے والی ، دفن کرنے والی۔ یہ لفظ یہاں اس لئے لایا گیا ہے کہ لفظ طاغیہ کے ساتھ مناسبت پیدا ہوجائے جو ثمود پر آئی ہے۔ اور عاتیہ کے ساتھ یکساں ہوجائے جو عاد پر پڑی۔ اور اس سورت کی فضا اور ماحول سے مناسب لفظ بھی فراہم ہوجائے لیکن تفصیل اور طوالت بھی نہ ہو ، کیونکہ اس سورت میں اختصار بھی ملحوظ ہے۔
اب اس کے بعد سفینہ جاریہ کا منظر۔ اس میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت کے منظر کی طرف اشارہ ہے۔ انہوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی۔ حضرت نوح کا یہ امتیاز ہے کہ ان کے ساتھیوں کی نسل ہی سے موجود آبادی چلی ہے۔ لیکن انسانوں نے اس عظیم معجزے سے نہ عبرت پکڑی اور نہ خدا کا شکر ادا کیا ، کہ اس واقعہ میں اللہ نے ہمارے اجداد کو بچایا۔
آیت 9 { وَجَآئَ فِرْعَوْنُ وَمَنْ قَبْلَہٗ وَالْمُؤْتَفِکٰتُ بِالْخَاطِئَۃِ۔ } ”اور اسی طرح فرعون اور اس سے پہلے والوں نے ‘ اور الٹ دی جانے والی بستیوں کے باسیوں نے بھی خطاکاری کی روش اختیار کی تھی۔“ الٹائی جانے والی بستیوں سے مراد قوم لوط کی بستیاں ہیں۔