سورہ غافر: آیت 7 - الذين يحملون العرش ومن حوله... - اردو

آیت 7 کی تفسیر, سورہ غافر

ٱلَّذِينَ يَحْمِلُونَ ٱلْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُۥ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِۦ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَىْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْمًا فَٱغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا۟ وَٱتَّبَعُوا۟ سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ ٱلْجَحِيمِ

اردو ترجمہ

عرش الٰہی کے حامل فرشتے اور وہ جو عرش کے گرد و پیش حاضر رہتے ہیں، سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں: "اے ہمارے رب، تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے، پس معاف کر دے اور عذاب دوزخ سے بچا لے اُن لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena yahmiloona alAAarsha waman hawlahu yusabbihoona bihamdi rabbihim wayuminoona bihi wayastaghfiroona lillatheena amanoo rabbana wasiAAta kulla shayin rahmatan waAAilman faighfir lillatheena taboo waittabaAAoo sabeelaka waqihim AAathaba aljaheemi

آیت 7 کی تفسیر

آیت نمبر 7 تا 9

ہم نہیں جانتے کہ عرش کی حقیقت کیا ہے ، نہ اس کی صورت متعین کرسکتے ہیں اور ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ اس کے اٹھانے والے اسے کس طرح اٹھاتے ہیں۔ یہ بھی نہیں جانتے کہ اس کا ماحول کیسا ہے اور اس کے اردگرد فرشتے کیسے ہیں ، لہٰذا ہمیں ان چیزوں کی ہئیت اور ماہیت معلوم کرنے کی فضول جدوجہد نہیں کرنا چاہئے کیونکہ یہ اشیاء انسانی ادراک کے دائرہ سے ماوراء ہیں۔ نہ ہمیں ان غیبی امور کے پیچھے پڑتا چاہئے ، جن کے بارے میں مباحثے کرنے والوں کو کوئی علم نہیں دیا گیا۔ جو بات آیات سے سمجھ میں آتی ہے ، وہ صرف یہ ہے کہ اللہ کے بعض مقرب بندے ، رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہیں ، اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور قرآن کریم ان کے ایمان کی تصریح اس لیے کررہا ہے کہ ان کا ربط مومن انسانوں کے ساتھ واضح ہوجائے اور اللہ کے یہ مقرب بندے ان مومن انسانوں کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں جو یہاں اس دنیا میں معرکہ خیر وشر میں کودے ہوئے ہیں ۔ یہ بندے جس انداز سے دعا کرتے ہیں اس میں ہمارے لیے تعلیم ہے کہ ہر انسان کو چاہئے کہ وہ اللہ کو یوں مخاطب کرے ۔ وہ کہتے ہیں

ربنا وسعت کل شئ رحمة وعلما (40: 7) ” اے ہمارے رب ، تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے “۔ وہ اللہ کے سامنے طلب رحمت کے لیے یوں درخواست کرتے کہ (اے اللہ) ہم انسانوں کے لیے وہ رحمت طلب کرتے ہیں جو دراصل ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے اور اللہ کے علم کو ذریعہ بناتے ہیں جو ہر چیز کو شامل ہے۔ وہ اللہ کے سامنے کوئی نئی چیز پیش نہیں کرتے جو اللہ کے پیش نظرنہ ہو۔ اللہ کی رحمت اور علم جو ہر چیز کو محیط ہیں انہی کے واسطہ سے وہ التجا کرتے ہیں۔

فاغفر۔۔۔۔ الجحیم (40: 7) ” پس معاف کردے اور عذاب دوزخ سے بچا لے ، ان لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کرلیا ہے “۔ اس دعا میں ایک اشارہ مغفرت اور توبہ کا ہے جو آغاز سورت میں غافر الذنب اور قابل التوب کے

ساتھ موافق ہے اور دوسرا اشارہ عذاب جہنم سے بچانے کی طرف ہے جو آغاز سورت میں شدید العقاب کے ساتھ موافق ہے۔

اس کے بعد یہ بندے دعا میں ذرا آگے بڑھتے ہیں ، اب وہ مغفرت اور عذاب جہنم سے بچانے سے بھی آگے جنت عطا کرنے کا سوال کرتے ہیں اور ان وعدوں کے پورے کیے جانے کا سوال کرتے ہیں جو اللہ نے اپنے نیک بندوں سے کر رکھے ہیں۔

ربنا۔۔۔۔ العزیز الحکیم (40: 8) ” اے ہمارے رب ، اور داخل کر ان کو ہمیشہ رہنے والی اب جنتوں میں جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے ، اور ان کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں (ان کو بھی وہاں ان کے ساتھ ہی پہنچادے) ۔ تو بلاشبہ قادر مطلق اور حکیم ہے “۔ جنت میں داخلہ ، بیشک بڑی نعمت اور بہت بڑی کامیابی ہے ، اور اس پر مزید کہ آباء ، ازواج اور اولاد بھی ساتھ ہوں۔ یہ مزید نعمت ہے۔ اس سے اس بات کا مظاہرہ ہوتا ہے کہ مومنین جنت میں بھی اکٹھے خاندانی نظام کی شکل میں ہوں گے۔ یہ ایمان ہے جو اباء ، ازواج اور اولا کے درمیان اکٹھ پیدا کرتا ہے ، اگر ایمان نہ ہوتا تو یہ رشتے کٹ جاتے۔ اور اس فقرے پر جو آخری نتیجہ مرتب ہوتا ہے۔

انت العزیز الحکیم (40: 8) ” تو قادر مطلق اور حکیم ہے “۔ اس میں ایک طرف قوت ہے اور دوسری طرف حکمت۔ بندوں کے معاملے میں کوئی فیصلہ قوت اور حکمت کے سوا نہیں ہوسکتا۔

وقھم السیاٰت ۔۔۔۔ العظیم (40: 9) ” اور بچا دے ان کو برائیوں سے ' جس کو تو نے قیامت کے دن برائیوں سے بچا دیا اس پر تو نے بڑا رحم کیا ، یہی بڑی کامیابی ہے “۔ جنت میں داخل ہونے کی دعا کے بعد یہ دعا کہ ان کو برائیوں سے بچا ، یہ توجہ دلاتی ہے کہ ذرا غور کرو کہ یہ سیئات اور برائیاں ہی ہیں جو ان کا ارتکاب کرنے والوں کو برباد کرتی ہیں۔ اور یہ بربادی آخرت میں ظاہر ہوتی ہے ۔ یہی جہنم رسید کرتی ہیں۔ جب اللہ نے مومنین کو برائیوں سے بچالیا تو وہ جہنم سے ہی بچ گئے اور برے نتائج سے بھی ۔ یہی رحمت خداوندی کا عروج ہوگا اس مشکل وقت میں ۔ اور

وذٰلک ھوالفوز العظیم (40: 9) ” یہی بڑی کامیابی ہے “۔ کہ کوئی برائیوں سے بچ جائے۔

ایک طرف عرش کے حاملین اپنے مومنین بھائیوں کے لیے دعا گو ہیں ، دوسری جانب کفار کی حالت یہ ہے کہ وہ سخت مصیبت میں پھنس گئے ہیں ، کسی مدد گار کی تلاش میں ہیں اور کوئی مددگار نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے اور پوری کائنات کے درمیان کوئی ربط نہیں رہا ہے۔ ہر طرف سے ان پر پھٹکار اور لعنت و ملامت ہے۔ دنیا کے استکبار کے بعد اب یہاں وہ سخت ذلت میں ہیں۔ اور بےیار مددگار ہیں ، لیکن پھر بھی موہوم امیدوں کے سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں ، لیکن کہاں ہے منزل مراد !

آیت 7 { اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ } ”وہ فرشتے جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ جو ان کے ارد گرد ہیں“ اس آیت کو پڑھتے ہوئے سورة الزمر کی آخری آیت کو ذہن میں رکھیے جس میں میدانِ حشر میں عدالت ِالٰہی کا اختتامی منظر دکھایا گیا تھا : { وَتَرَی الْمَلٰٓئِکَۃَ حَآفِّیْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْج } ”اور تم دیکھو گے فرشتوں کو کہ وہ گھیرے ہوئے ہوں گے عرش کو اور اپنے ربّ کی تسبیح بیان کر رہے ہوں گے حمد کے ساتھ“۔ چناچہ یہاں ان حاملین عرش اور ان کے ساتھی ملائکہ کا ذکر دوبارہ ہو رہا ہے کہ : { یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیُؤْمِنُوْنَ بِہٖ } ”وہ سب تسبیح کر رہے ہوتے ہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ اور اس پر پورا یقین رکھتے ہیں“ { وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا } ”اور اہل ایمان کے لیے استغفار کرتے ہیں۔“ { رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلَّ شَیْئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا } ”اے ہمارے پروردگار ! تیری رحمت اور تیرا علم ہرچیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے“ { فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَکَ } ”پس بخش دے ُ تو ان لوگوں کو جنہوں نے توبہ کی اور تیرے راستے کی پیروی کی“ اے پروردگار ! ہم تجھ سے کیا عرض کریں ؟ تجھے ہر شے کا علم ہے ‘ تیری رحمت پہلے ہی ہرچیز کو اپنی گود میں لیے ہوئے ہے۔ پھر بھی ہم تجھ سے تیری رحمت کی درخواست کرتے ہیں اور اہل زمین میں سے جو مومنین اور نیک لوگ ہیں ان کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ اے پروردگار ! تو ان کی خطائیں بخش دے اور ان کے گناہوں سے درگزر فرما ! اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن مومنین کے حق میں فرشتے بھی شفاعت کریں گے۔ یہ شفاعت ِحقہ ّہے۔ { وَقِہِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ } ”اور ان کو جہنم کے عذاب سے بچا لے۔“

اللہ کی بزرگی اور پاکی بیان کرنے پر مامور فرشتے۔عرش کو اٹھانے والے فرشتے اور اس کے آس پاس کے تمام بہترین بزرگ فرشتے ایک طرف تو اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں تمام عیوب اور کل کمیوں اور برائیوں سے اسے دور بتاتے ہیں، دوسری جانب اسے تمام ستائشوں اور تعریفوں کے قابل مان کر اس کی حمد بجا لاتے ہیں۔ غرض جو اللہ میں نہیں اس کا انکار کرتے ہیں اور جو صفتیں اس میں ہیں انہیں ثابت کرتے ہیں۔ اس پر ایمان و یقین رکھتے ہیں۔ اس سے پستی اور عاجزی ظاہر کرتے ہیں اور کل ایمان دار مردوں عورتوں کیلئے استغفار کرتے رہتے ہیں۔ چونکہ زمین والوں کا ایمان اللہ تعالیٰ پر اسے دیکھے بغیر تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب فرشتے ان گناہوں کی معافی طلب کرنے کیلئے مقرر کردیئے جو ان کے بن دیکھے ہر وقت ان کی تقصیروں کی معافی طلب کیا کرتے ہیں، صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب مسلمان اپنے مسلمان بھائی کیلئے اس کی غیر حاضری میں دعا کرتا ہے تو فرشتہ اس کی دعا پر آمین کہتا ہے اور اس کیلئے دعا کرتا ہے کہ اللہ تجھے بھی یہی دے جو تو اس مسلمان کیلئے اللہ سے مانگ رہا ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ امیہ بن صلت کے بعض اشعار کی رسول اللہ ﷺ نے تصدیق کی جیسے یہ شعر ہے زحل و ثور تحت وجل یمینہ والنسر للاخری و لیث مرصد یعنی حاملان عرش چار فرشتے ہیں دو ایک طرف دو دوسری طرف۔ آپ نے فرمایا سچ ہے پھر اس نے کہا والشمس تطلع کل اخر لیلتہ حمراء یصبح لونھا یتورد تابی فما تطلع لنا فی رسلھا الا معذبتہ والا تجلد یعنی سورج سرخ رنگ طلوع ہوتا ہے پھر گلابی ہوجاتا ہے، اپنی ہیئت میں کبھی صاف ظاہر نہیں ہوتا بلکہ روکھا پھیکا ہی رہتا ہے، آپ نے فرمایا سچ ہے۔ اس کی سند بہت پختہ ہے اور اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت حاملان عرش چار فرشتے ہیں، ہاں قیامت کے دن عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائیں گے۔ جیسے قرآن مجید میں ہے (وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ ثَمٰنِيَةٌ 17؀ۭ) 69۔ الحاقة :17) ہاں اس آیت کے مطلب اور اس حدیث کے استدلال میں ایک سوال رہ جاتا ہے کہ ابو داؤد کی ایک حدیث میں ہے کہ بطحا میں رسول کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کی ایک جماعت سے ایک ابر کو گزرتے ہوئے دیکھ کر سوال کیا کہ اس کا کیا نام ہے ؟ انہوں نے کہا سحاب۔ آپ ﷺ نے فرمایا اور اسے مزن بھی کہتے ہیں ؟ کہا ہاں ! فرمایا عنان بھی ؟ عرض کیا ہاں ! پوچھا جانتے ہو آسمان و زمین میں کس قدر فاصلہ ہے ؟ صحابہ نے کہا نہیں، فرمایا اکہتر یا بہتر یا تہتر سال کا راستہ پھر اس کے اوپر کا آسمان بھی پہلے آسمان سے اتنے ہی فاصلے پر اسی طرح ساتوں آسمان ساتویں آسمان پر ایک سمندر ہے جس کی اتنی ہی گہرائی ہے پھر اس پر آٹھ فرشتے پہاڑی بکروں کی صورت کے ہیں جن کے کھر سے گھٹنے کا فاصلہ بھی اتنا ہی ہے ان کی پشت پر اللہ تعالیٰ کا عرش ہے جس کی اونچائی بھی اسی قدر ہے۔ پھر اس کے اوپر اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔ ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی اسے غریب بتاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرش اللہ اس وقت آٹھ فرشتوں کے اوپر ہے۔ حضرت شہر بن حوشب کا فرمان ہے کہ حاملان عرش آٹھ ہیں جن میں سے چار کی تسبیح تو یہ ہے (سبحانک اللھم وبحمد لک الحمد علی حملک بعد عملک) یعنی اے باری تعالیٰ تیری پاک ذات ہی کیلئے ہر طرح کی حمد وثناء ہے کہ تو باوجود علم کے پھر بردباری اور علم کرتا ہے۔ اور دوسرے چار کی تسبیح یہ ہے (سبحانک اللھم وبحمدک لک الحمد علی عفوک بعد قدرتک) یعنی اے اللہ باوجود قدرت کے تو جو معافی اور درگذر کرتا رہتا ہے اس پر ہم تیری پاکیزگی اور تیری تعریف بیان کرتے ہیں۔ اسی لئے مومنوں کے استغفار میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ تیری رحمت و علم نے ہر چیز کو اپنی وسعت و کشادگی میں لے لیا ہے۔ بنی آدم کے تمام گناہ ان کی کل خطاؤں پر تیری رحمت چھائے ہوئے ہے، اسی طرح تیرا علم بھی ان کے جملہ اقوال و افعال کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ ان کی کل حرکات و سکنات سے تو بخوبی واقف ہے۔ پس تو ان کے برے لوگوں کو جب وہ توبہ کریں اور تیری طرف جھکیں اور گناہوں سے باز آجائیں اور تیرے احکام کی تعمیل کریں نیکیاں کریں بدیاں چھوڑیں بخش دے، اور انہیں جہنم کے دردناک گھبراہٹ والے عذابوں سے نجات دے۔ انہیں مع ان کے والدین بیویوں اور بچوں کے جنت میں لے جا تاکہ ان کی آنکھیں ہر طرح ٹھنڈی رہیں۔ گو ان کے اعمال ان جتنے نہ ہوں تاہم تو ان کے درجات بڑھا کر اونچے درجے میں پہنچا دے۔ جیسے باری تعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے (وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّــتُهُمْ بِاِيْمَانٍ اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ ۭ كُلُّ امْرِی بِمَا كَسَبَ رَهِيْنٌ 21؀) 52۔ الطور :21) ، یعنی جو لوگ ایمان لائیں اور ان کے ایمان کی اتباع ان کی اولاد بھی کرے ہم ان کی اولاد کو بھی ان سے ملا دیں گے اور ان کا کوئی عمل کم نہ کریں گے۔ درجے میں سب کو برابری دیں گے۔ تاکہ دونوں جانب کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں۔ اور پھر یہ نہ کریں گے کہ درجوں میں بڑھے ہوؤں کو نیچا کردیں نہیں بلکہ نیچے والوں کو صرف اپنی رحمت و احسان کے ساتھ اونچا کردیں گے۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں مومن جنت میں جاکر پوچھے گا کہ میرا باپ میرے بھائی میری اولاد کہاں ہے ؟ جواب ملے گا کہ ان کی نیکیاں اتنی نہ تھیں کہ وہ اس درجے میں پہنچتے، یہ کہے گا کہ میں نے تو اپنے لئے اور ان سب کیلئے عمل کئے تھے چناچہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی ان کے درجے میں پہنچا دے گا۔ پھر آپ نے اسی آیت (رَبَّنَا وَاَدْخِلْهُمْ جَنّٰتِ عَدْنِۨ الَّتِيْ وَعَدْتَّهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَاۗىِٕـهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيّٰــتِهِمْ ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ۙ) 40۔ غافر :8) کی تلاوت فرمائی۔ حضرت مطرف بن عبداللہ ؓ کا فرمان ہے کہ ایمانداروں کی خیر خواہی فرشتے بھی کرتے ہیں پھر آپ نے یہی آیت پڑھی۔ اور شیاطین ان کی بدخواہی کرتے ہیں۔ تو ایسا غالب ہے جس پر کوئی غالب نہیں اور جسے کوئی روک نہیں سکتا۔ جو تو چاہتا ہوتا ہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوسکتا۔ تو اپنے اقوال و افعال شریعت و تقدیر میں حکمت والا ہے، تو انہیں برائیوں کے کرنے سے دنیا میں اور ان کے وبال سے دونوں جہان میں محفوظ رکھ، قیامت کے دن رحمت والا وہی شمار ہوسکتا ہے جسے تو اپنی سزا سے اور اپنے عذاب سے بچالے حقیقتاً بڑی کامیابی پوری مقصد دری اور ظفریابی یہی ہے۔

آیت 7 - سورہ غافر: (الذين يحملون العرش ومن حوله يسبحون بحمد ربهم ويؤمنون به ويستغفرون للذين آمنوا ربنا وسعت كل شيء رحمة وعلما فاغفر...) - اردو