سورۃ الفرقان: آیت 7 - وقالوا مال هذا الرسول يأكل... - اردو

آیت 7 کی تفسیر, سورۃ الفرقان

وَقَالُوا۟ مَالِ هَٰذَا ٱلرَّسُولِ يَأْكُلُ ٱلطَّعَامَ وَيَمْشِى فِى ٱلْأَسْوَاقِ ۙ لَوْلَآ أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُۥ نَذِيرًا

اردو ترجمہ

کہتے ہیں "یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے؟ کیوں نہ اس کے پاس کوئی فرشتہ بھیجا گیا جو اس کے ساتھ رہتا اور (نہ ماننے والوں کو) دھمکاتا؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqaloo mali hatha alrrasooli yakulu alttaAAama wayamshee fee alaswaqi lawla onzila ilayhi malakun fayakoona maAAahu natheeran

آیت 7 کی تفسیر

(وقالوا مال۔۔۔۔۔۔۔ قصورا) (7 تا 10)

یہ کیسا رسول ہے جو کھاتا پیتا ‘ چلتا پھرتا انسان ہے اور تمام تصرفات و حرکات انسانوں جیسے کرتا ہے۔ یہ وہی گھسا پٹا اعتراض ہے جو لوگ ہمیشہ رسولوں پر کرتے چلے آئے ہیں کہ فلاں شخص نے رسول ہونے کا دعویٰ کردیا ہے۔ دیکھو بھائی فالاں کا بیٹا بھی اب رسول بن گیا۔ یہ تو ہم جیسا انسان ہے جس طرح ہم کھاتے پیتے ہیں اور چلتے پھرتے ہیں۔ یہ بھی ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ ہو اور اللہ کی طرف سے اس پر وحی آرہی ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کا اتصال اور رابطہعالم بالا سے ہوجائے۔ اور یہ عالم بالا سے ہدایات لے رہا ہو۔ جبکہ وہ ہمارے جی اس گوشت و پوست کا بنا ہوا انسان ہے۔ آخر ہماری طرف وحی کیوں نہیں آتی۔ اور وہ جس علم کا دعویٰ کرتا ہے وہ ہمارے پاس کیوں نہیں آتا۔ جبکہ ہمارے اور اس رسول کے درمیان کوئی بات ایسی نہیں ہے جو امتیازی ہو۔

اس لحاظ سے یہ بات واقعی انوکھی معلوم ہوتی ہے اور مسعبد نظر آتی ۔ لیکن دوسرے لحاظ سے طبعی اور معقول ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کے اندر اپنی روح پھونکی ہے اور اسی روح کی وجہ سے انسان ‘ انسان بنا ہے اور اسی وجہ سے اللہ نے اسے خلافت ارضی سپرد کی ہے حالانکہ انسان ایک محدود علم رکھتا ہے۔ اس کا تجربہ محدود ہے اور اس کے پاس بہت کم وسائل ہیں اس لیے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ انسان کو یہ عظیم فریضہ ادا کرنے کے لیے بےآسرا اور بغیر معاونت کے چھوڑ دے اور بغیر ہدایت اور راہنمائی کے یوں ہی چھوڑ دے۔ جبکہ اس کے اندر اللہ نے یہ صلاحیت بھی رکھی کہ وہ عالم بالا سے تعلق بھی قائم کرسکتا ہے۔ چناچہ یہ بات تعجب خیز نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے کسی ایک انسان کو اس مقصد کے لیے چن لے کہ وہ عالم بالا کی ہدایات اخذ کرے اور لوگوں تک پہنچائے۔ اور اس شخص کو اللہ اس مقصد کے لیے خصوصی استعداد بھی دے تاکہ جب بھی ان پر کوئی مسئلہ مشتبہ ہو تو یہ شخص اللہ کی ہدایت کی روشنی میں اسے حل کر دے اور جب بھی راہ ہدایت کے اختیار کرنے میں ان کو ضرورت ہو وہ ان کی معاونت کرے۔

یہ تو انسان کے لیے ‘ اس پہلو سے ‘ اور اس شکل میں ایک بہت بڑا اعزاز ہے لیکن بعض لوگ ایسے ہیں جو اس اعزاز کو سمجھتے نہیں ہیں۔ نہ وہ انسان کے اس اعزاز اور تکریم کی قدر کرتے ہیں۔ اس لیے جن لوگوں کے ذہن میں یہ بات نہیں بیٹھتی وہ اس اعزاز کا انکار کرتے ہیں کہ انسانوں میں سے کوئی شخص کس طرح رسول ہو سکتا ہے۔ انسانوں کے مقابلے میں اس مقصد کے لیے فرشتہ زیادہ موزوں تھا۔

(لو لآ انزل۔۔۔۔۔۔۔۔ نذیرا) (25 : 7) ” کیوں نہ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجا گیا جو اس کے ساتھ ساتھ چلتا اور نہ ماننے والوں کو دھمکاتا “۔ جبکہ اللہ نے تمام فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ وہ انسان کو سجدہ کریں کیونکہ اللہ نے انسان کو اس کی بعض خصوصیات کی وجہ سے مکرم بنایا تھا اور یہ خصائص خود انسان کے اندر عالم بالا کی طرف سے پھونکی ہوئی روحانیت کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے ۔

پھر ایک انسان کو انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجنے کی ایک اور حکمت بھی ہے۔ ایک انسان انسانوں جیسے احساسات رکھتا ہے وہ انسان جیسا ذوق رکھتا ہے۔ پھر اس کے تجرباتا بھی ایسے ہوتے ہیں جو دوسرے انسانوں جیسے ہوتے ہیں۔ وہ ان کے دکھ درد اور ان کی خواہشتا کو انسان ہونے کے ناطے سمجھ سکتا ہے۔ وہ ان کے جذبات اور میلانات کو بھی سمجھ سکتا ہے۔ وہ انسانوں کی ضروریات اور ان کی ذمہ داریوں سے بھی واقف ہوتا ہے۔ چناچہ وہ ان کی کمزوریوں اور نقائص کا خیال کرتا ہے ‘ وہ ان کی قوت اور ان کی استعداد سے پر امید بھی ہوتا ہے۔ اور ان کو لے کر قدم بقدم آگے چلتا ہے ‘ وہ ان کے تاثرات اور ان کے ردعمل سے اچھی طرح باخبر ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ اور انہی کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے مبعوث ہا ہے اور اللہ کی ہدایت اور امداد سے ان کی راہنمائی کررہا ہے۔

پھر ان لوگوں کے لیے بھی ممکن ہے کہ وہ حضرت رسول اکرم ﷺ کی پیروی کریں کیونکہ وہ انہی جیسا انسان ہے۔ وہ ان انسانوں کو لے کر آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہے۔ وہ ان کے اندر رہ کر ایک اخلاقی نمونہ پیش کرتا ہے۔ اور ان کو عملاً ان اخلاق و فرائض کی تعلیم دیتا ہے جو اللہ نے ان پر فرض کیے ہیں اور جن کا اللہ ان سے مطالبہ فرماتا ہے۔ گویا وہ اس نظریہ اور عمل کا ایک نمونہ ہوتا ہے جسے وہ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اس کی زندگی ‘ اس کے اعمال اور اس کی تمام حرکات ایک کھلی کتاب ہوتی ہے ‘ جسے وہ ان کے سامنے پیش کرتا ہے اور وہ اس کتاب کی ایک ایک سطر کو نقل کرتے ہیں۔ اور اس کتاب کے ایک ایک لفظ کو حقیقت کا روپ عطا کرتے ہیں اور وہ دیکت ہیں کہ ان کا رسول ہر بات کو عملاً پیش کرتا ہے تو وہ بھی اس کی تقلید کرتے ہیں کیونکہ یہ نظریہ اور ہدایت ایک شخص کی زندگی میں عملاً نظر آتی ہے۔ اگر رسول کوئی فرشتہ ہوتا تو لوگ نہ اس کے عمل دیکھ سکتے اور نہ اس کی تقلید کے بارے میں سوچ سکتے۔ کیونکہ ان کے اندر آغاز ہی سے یہ بات آجاتی کہ وہ تو ایک فرشتہ ہے۔ اس کا مزاج ہی ایسا ہے اور ہم ضعیف انسان ہیں۔ ہم اس جیسا طرز عمل کب اختیار کرسکتے ہیں۔ یا ہم اس کی تقلید کس طرح کرسکتے ہیں یا اس جیسا نمونہ وہ کس طرح پیش کرسکتے ہیں۔

یہ تھی اللہ کی حکمت جس نے ہر چیز کی تخلیق کی اور اسے پوری پوری طرح برابر کیا۔ یہ اس کی حکمت تھی کہ اس نے انسانوں کی ہدایت کے لیے ایک انسان کو رسول بنا کر بھیجا تاکہ وہ ان کی قیادت کرسکے اور رسول کے بشر ہونے پر اعتراض دراصل اس حکمت سے جہالت کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ پھر اس میں اللہ کی طرف سے انسان کی عزت افزائی بھی ہے اور جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں وہ انسان کی تکریم کی نفی کرتے ہیں۔

ان کا دوسرا اعتراض اس سے بھی زیادہ سادگی اور جہالت پر مبنی تھا کہ یہ رسول بازاروں میں پھرتا ہے اور اپنی ضرورت کی چیزیں حاصل کرتا ہے اور محنت کرتا ہے تو کیوں اللہ نے اسے اس قدر دولت نہ دی کہ وہ اپنی ضروریات کی طرف سے بےغم ہوجائے۔ اور بغیر محنت کے اسے ضروریات ملتی رہیں۔

او یلقی الیہ کنز او تکون لہ جنۃ یا کل منھا (25 : 8) ” یا اس کے لیے کوئی خزانہ ہوتا یا اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ روزی حاصل کرتا “۔ اللہ نے یہ نہ چاہا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کوئی خزانہ ہوتا یا آپ ﷺ کسی بڑے باغ کے مالک ہوتے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو رسول اللہ ﷺ کو اپنی امت کے لیے ایک نمونہ بنارہا تھا تاکہ آپ ﷺ رسالت کے منصب کے فرائض کو اٹھائیں اور ان فرائض کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ اپنی امت کے دوسرے انسانوں کی طرح بطور انسان اپنی ذمہ داریاں خود اٹھائیں۔ اپنے رزق کے لیے خود سعی کریں تاکہ امت میں سے کوئی شخص یہ اعتراض نہ کرسکے کہ یہ شخص کوئی کاروبار کررہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ ‘ قناعت اختیار کرنے والے تھے۔ اس لیے آپ کو ضروریات زندگی کے لیے بہت زیادہ جدوجہد نہیں کرنی پڑتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ مبلغ رسالت کے فرائض کی ادائیگی کے لیے فارغ ہوگئے تھے۔ لہٰذا اس سلسلے میں آپ ﷺ کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں آئی۔ چناچہ آپ اپنی ضروریات کے لیے بھی بقدر ضرورت جدوجہد فرماتے تھے۔ اور رسالت کے فرائض بھی سرانجام دیتے تھے تاکہ آپ ﷺ کو نمونہ بنا کر آپ کی امت کا ہر فرد تبلیغ رسالت کے فرائض کا کچھ حصہ اپنے ذمہ لے اور اپنی ضروریات کے لیے بھی جدوجہد کرے۔ بعد کے ادوار میں دولت کا ایک سیلاب آپ ﷺ کے قدموں میں جاری ہوگیا۔ اور اللہ نے رسول کی زندگی کو اس پہلو سے بھی آزمایا تاکہ لوگوں کے لیے یہ پہلو بھی نمونہ ہو۔ چناچہ آپ نے کبھی دولت کے اس سیلاب کی طرف توجہ نہیں دی۔ آپ ﷺ ہوا کے طوفان کی طرح سخی تھے۔ چناچہ آپ ﷺ نے دولت مندی کے فتنے پر بھی قابو پایا۔ یوں لوگوں کے دلوں سے دولت مندی کی ہوس کو بھی نکال دیا۔ تاکہ لوگ یہ اعتراض نہ کریں کہ محمد ﷺ پیغام لے کر نکلے ‘ ایک غریب آدمی تھے ‘ آپ کی کوئی مالی سرگرمی نہ تھی ‘ نہ مالی حیثیت تھی اور اب آپ لاکھوں اربوں میں کھیل رہے ہیں۔ ہر طرف سے آپ پر مال و دولت کی بارش ہے لیکن حضور ﷺ نے دولت کے اس سیلاب کو بھی اپنے آپ سے دور رکھا اور دعوت اسلامی کے کام میں اسی طرح مشغول ہوگئے جس طرح کہ وہ زمانہ فقر میں مشغول تھے۔

مال کیا چیز ہے ‘ خزانوں کی حقیقت کیا ہے ؟ باغات کی کیا حیثیت ہے۔ جب ایک ضعیف اور فانی انسان خدا تک رسائی حاصل کرلیتا ہے تو پھر اس کے لیے اس پورے کرئہ ارض اور ما فیہا کی کوئی وقعت نہیں ہوتی بلکہ اس کے نزدیک اس پوری کائنات میں بسنے والی اس پوری مخلوقات کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ لیکن اس کی یہ حالت تب ہوتی ہے کہ جب اس نے خالق کائنات تک رسائی حاصل کرلی جو قلیل و کثیر کا بخشنے والا ہے لیکن اس وقت لوگ اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر تھے۔

وقال الظلمون ان تتبعون الا رجلا مسحورا (25 : 8) ” اور یہ ظالم کہتے ہیں تم تو ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے لگ گئے “۔ یہ وہ ظالمانہ بات ہے جو اللہ نے ان لوگوں کی زبان سے نقل کیا ہے۔ سورت اسرا میں بھی ان لوگوں کا یہ الزام لفظاً اللہ نے نقل فرمایا ہے۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ جواب دیا۔

انظر کیف ضربوا لک الامثال فضلوا فلا یستطیعون سبیلا (25 : 9) ” دیکھئے ‘ یہ لوگ آپ کے بارے میں کیسی باتیں کرتے ہیں ‘ یہ گمراہ ہوچکے ہیں ‘ اب ان کی استطاعت ہی میں یہ بات نہیں رہی کہ یہ راہ راست پالیں “۔ اس سورت اور سورة اسرا کا مضمون و موضوع ایک ہی جیسا ہے اور یہ دونوں سورتوں کی بات ایک ہی ماحول میں ہو رہی ہے۔ دونوں جگہ ان لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے ‘ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی ذات پر حملہ کیا ہے اور ذاتی نقص نکالا ہے یعنی وہ لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ اس شخص کی عقل ماری گئی ہے ‘ کیونکہ یہ عجیب و غریب باتیں کرتا ہے ‘ ایک عام نارمل شخص ایسی باتیں نہیں کیا کرتا۔ لیکن اس اعتراض سے ان کے لا شعور سے یہ بات خود بخود باہر رہ گئی کہ رسول اللہ جو باتیں فرماتے ہیں وہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ عام طور پر بڑے سے بڑا عقلمند شخص بھی ایسی باتیں نہیں کرتا۔ یہ باتیں انسانی طاقت سے بالا باتیں ہیں۔ اس لیے ان پر رد کرتے وقت بھی اللہ نے ان کے اس رویے پر صرف تعجب کا اظہار کرنے پر اکتفاء کیا ہے۔

آیت 7 وَقَالُوْا مَالِ ہٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاقِ ط ”کہ ایک ایسا شخص اللہ کا بھیجا ہوا رسول کیسے ہوسکتا ہے جس کو کھانے کی حاجت بھی ہو اور وہ عام انسانوں کی طرح بازاروں میں خریدو فروخت بھی کرتا پھرتا ہو۔لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مَلَکٌ فَیَکُوْنَ مَعَہٗ نَذِیْرًا ”ہاں اگر یہ واقعی اللہ کے رسول ہیں تو ان پر آسمان سے کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا جو ہماری آنکھوں کے سامنے پرواز کرتے ہوئے نازل ہوتا ‘ ان کے رسول ہونے کی گواہی دیتا اور پھر یہ جدھر بھی جاتے ‘ وہ فرشتہ لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے ہٹو بچو کا نعرہ لگاتے ہوئے ان کے ساتھ ساتھ چلتا اور نہ ماننے والوں کو دھمکاتا !

مشرکین کی حماقتیں اس حماقت کو ملاحظہ فرمائیے کہ رسول کی رسالت کی انکار کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ کھانے پینے کا محتاج کیوں ہے ؟ اور بازاروں میں تجارت اور لین دین کے لئے آتا جاتا کیوں ہے ؟ اس کے ساتھ ہی کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا ؟ کہ وہ اس کے دعوے کی تصدیق کرتا اور لوگوں کو اس کے دین کی طرف بلاتا اور عذاب الہٰی سے آگاہ کرتا۔ فرعون نے بھی یہی کہا تھا کہ آیت (فَلَوْلَآ اُلْقِيَ عَلَيْهِ اَسْوِرَةٌ مِّنْ ذَهَبٍ اَوْ جَاۗءَ مَعَهُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ مُقْتَرِنِيْنَ 53؀) 43۔ الزخرف :53) ، اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں ڈالے گئے ؟ یا اس کی مدد کے لئے آسمان سے فرشتے کیوں نہیں اتارے گئے۔ چونکہ دل ان تمام کافروں کے یکساں ہیں۔ حضور ﷺ کے زمانے کے کفار نے بھی کہا کہ اچھا یہ نہیں تو اسے کوئی خزانہ ہی دے دیا جاتا کہ یہ خود بہ آرام اپنی زندگی بسر کرتا اور دوسروں کو بھی آسان ہے لیکن سردست ان سب چیزوں کے نہ دینے میں بھی حکمت ہے۔ یہ ظالم مسلمانوں کو بھی بہکاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم ایک ایسے شخص کے پیچھے لگ لئے ہو جس پر کسی نے جادو کردیا ہے۔ دیکھو تو سہی کہ کیسی بےبنیاد باتیں بناتے ہیں، کسی ایک بات پر جم ہی نہیں سکتے، ادھر ادھر کروٹیں لے رہے ہیں کبھی جادوگر کہہ دیا تو کبھی جادو کیا ہوا بتادیا، کبھی شعر کہہ دیا کبھی جن کا سکھایا ہوا کہہ دیا، کبھی کذاب کہا کبھی مجنون۔ حالانکہ یہ سب باتیں محض غلط ہیں اور ان کا غلط ہونا اس سے بھی واضح ہے کہ خود ان میں تضاد ہے کسی ایک بات پر خود ان مشرکین کا اعتماد نہیں۔ گھڑتے ہیں پھر چھوڑتے ہیں پھر گھڑتے ہیں پھر بدلتے ہیں کسی ٹھیک بات پر جمتے ہی نہیں۔ جدھر متوجہ ہوتے ہیں راہ بھولتے اور ٹھوکر کھاتے ہیں۔ حق تو ایک ہوتا ہے اس میں تضاد اور تعارض نہیں ہوسکتا۔ ناممکن ہے کہ یہ لوگ ان بھول بھلیوں سے نکال سکیں۔ بیشک اگر رب چاہے تو جو یہ کافر کہتے ہیں اس سے بہتر اپنے نبی ﷺ کو دنیا میں ہی دے دے وہ بڑی برکتوں والا ہے۔ پتھر سے بنے ہوئے گھر کو عرب قصر کہتے ہیں خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا ہو۔ حضور ﷺ سے تو جناب باری تعالیٰ کی جانب سے فرمایا اور جواب دیا کہ اگر آپ چاہیں تو زمین کے خزانے اور یہاں کی کنجیاں آپ کو دے دی جائیں اور اس قدر دنیا کا مالک بناکر دیا جائے کہ کسی اور کو اتنی ملی نہ ہو ساتھ ہی آخرت کی آپ کی تمام نعمتیں جوں کی توں برقرار ہیں لیکن آپ نے اسے پسند نہ فرمایا اور جواب دیا کہ نہیں میرے لئے تو سب کچھ آخرت ہی میں جمع ہو۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ جو کچھ کہتے ہیں یہ صرف تکبر، عناد، ضد اور ہٹ کے طور پر کہتے ہیں یہ نہیں کہ ان کا کہا ہوا ہوجائے تو یہ مسلمان ہوجائیں گے۔ اس وقت پھر اور کچھ حیلہ بہانہ ٹٹول نکالیں گے۔ ان کے دل میں تو یہ خیال جما ہوا ہے کہ قیامت ہونے کی نہیں۔ اور ایسے لوگوں کے لیے ہم نے بھی عذاب الیم تیار کر رکھا ہے جو ان کے دل کی برداشت سے باہر ہے جو بھڑکانے اور سلگانے والی جھلس دینے والی تیز آگ کا ہے۔ ابھی تو جہنم ان سے سو سال کے فاصلے پر ہوگی جب ان کی نظریں اس پر اور اس کی نگاہیں ان پر پڑیں گی وہیں جہنم پیچ وتاب کھائے گی اور جوش وخروش سے آوازیں نکالے گا۔ جسے یہ بدنصیب سن لیں گے اور ان کے ہوش وحواس خطا ہوجائیں گے، ہوش جاتے رہیں گے، ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے، جہنم ان بدکاروں پر دانت پیس رہی ہوگی کہ ابھی ابھی مارے جوش کے پھٹ پڑے گی۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص میرا نام لے کر میرے ذمے وہ بات کہے جو میں نے نہ کہی ہو وہ جہنم کی دونوں آنکھوں کے درمیان اپنا ٹھکانا بنالے۔ لوگوں نے کہا یارسول اللہ ﷺ کیا جہنم کی بھی آنکھیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں کیا تم نے اللہ کے کلام کی یہ آیت نہیں سنی آیت (اِذَا رَاَتْهُمْ مِّنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ سَمِعُوْا لَهَا تَغَيُّظًا وَّزَفِيْرًا 12؀) 25۔ الفرقان :12) ، ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ حضرت ربیع وغیرہ کو ساتھ لئے ہوئے کہیں جا رہے تھے راستے میں لوہار کی دکان آئی آپ وہاں ٹھہر گئے اور لوہا جو آگ میں تپایا جا رہا تھا اسے دیکھنے لگے حضرت ربیع کا تو برا حال ہوگیا عذاب الہٰی کا نقشہ آنکھوں تلے پھر گیا۔ قریب تھا کہ بیہوش ہو کر گرپڑیں۔ اس کے بعد آپ فرات کے کنارے گئے وہاں آپ نے تنور کو دیکھا کہ اس کے بیچ میں آگ شعلے مار رہی ہے۔ بےساختہ آپ کی زبان سے یہ آیت نکل گئی اسے سنتے ہی حضرت ربیع بیہوش ہو کر گرپڑے چار پائی پر ڈال کر آپ کو گھر پہنچایا گیا صبح سے لے کر دوپہر تک حضرت عبداللہ ؓ ان کے پاس بیٹھے رہے اور چارہ جوئی کرتے رہے لیکن حضرت ربیع کو ہوش نہ آیا۔ ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ جب جہنمی کو جہنم کی طرف گھسیٹا جائے گا جہنم چیخے گی اور ایک ایسی جھر جھری لے گی کہ کل اہل محشر خوف زدہ ہوجائیں گے۔ اور راویت میں ہے کہ بعض لوگوں کو جب دوزخ کی طرف لے چلیں گے دوزخ سمٹ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ مالک ورحمن اس سے پوچھے گا یہ کیا بات ہے ؟ وہ جواب دے گی کہ اے اللہ یہ تو اپنی دعاؤں میں تجھ سے جہنم سے پناہ مانگا کرتا تھا، آج بھی پناہ مانگ رہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا پھر تم کیا سمجھ رہے تھے ؟ یہ کہیں گے یہی کہ تیری رحمت ہمیں چھپالے گی، تیرا کرم ہمارے شامل حال ہوگا، تیری وسیع رحمت ہمیں اپنے دامن میں لے لے گی۔ اللہ تعالیٰ ان کی آرزو بھی پوری کرے گا اور حکم دے گا کہ میرے ان بندوں کو بھی چھوڑ دو۔ کچھ اور لوگ گھسیٹتے ہوئے آئیں گے انہیں دیکھتے ہی جہنم ان کی طرف شور مچاتی ہوئی بڑھے گی اور اس طرح جھر جھری لے گی کہ تمام مجمع محشر خوفزدہ ہوجائے گا۔ حضرت عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ جب جہنم مارے غصے کے تھر تھرائے گی اور شور وغل اور چیخ پکار اور جوش وخروش کرے گی اس وقت تمام مقرب فرشتے اور ذی رتبہ انبیاء کانپنے لگیں گے یہاں تک خلیل اللہ حضرت ابراہیم ؑ بھی اپنے گھٹنوں کے بل گرپڑیں گے اور کہنے لگے اے اللہ میں آج تجھ سے صرف اپنی جان کا بچاؤ چاہتا ہوں اور کچھ نہیں مانگتا۔ یہ لوگ جہنم کے ایسے تنگ و تاریک مکان میں ٹھوس دیئے جائیں گے جیسے بھالا کسی سوراخ میں اور روایت میں حضور ﷺ سے اس آیت کی بابت سوال ہونا اور آپ کا یہ فرمانا مروی ہے کہ جیسے کیل دیوار میں بمشکل گاڑی جاتی ہے اس طرح ان دوزخیوں کو ٹھونسا جائے گا۔ یہ اس وقت خوب جکڑے ہوئے ہونگے بال بال بندھا ہوا ہوگا۔ وہاں وہ موت کو فوت کو ہلاکت کو حسرت کو پکارنے لگیں گے۔ ان سے کہا جائے ایک موت کو کیوں پکارتے ہو ؟ صدہا ہزارہا موتوں کو کیوں نہیں پکارتے ؟ مسند احمد میں ہے سب سے پہلے ابلیس کو جہنمی لباس پہنایا جائے گا یہ اسے اپنی پیشانی پر رکھ کر پیچھے سے گسیٹتا ہوا اپنی ذریت کو پیچھے لگائے ہوئے موت و ہلاکت کو پکارتا ہوا دوڑتا پھرے گا۔ اس کے ساتھ ہی اس کی اولاد بھی سب حسرت و افسوس، موت و غارت کو پکار رہی ہوگی۔ اس وقت ان سے یہ کہا جائے گا۔ ثبور سے مراد موت، ویل، حسرت، خسارہ، بربادی وغیرہ ہے۔ جیسے کہ حضرت موسیٰ ؑ نے فرعون سے کہا تھا آیت (وَاِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا01002) 17۔ الإسراء :102) فرعون میں تو سمجھتا ہوں کہ تو مٹ کر برباد ہو کر ہی رہے گا۔ شاعر بھی لفظ ثبور کو ہلاکت و بربادی کے معنی میں لائے ہیں۔

آیت 7 - سورۃ الفرقان: (وقالوا مال هذا الرسول يأكل الطعام ويمشي في الأسواق ۙ لولا أنزل إليه ملك فيكون معه نذيرا...) - اردو