سورۃ الفرقان (25): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Furqaan کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الفرقان کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ الفرقان کے بارے میں معلومات

Surah Al-Furqaan
سُورَةُ الفُرۡقَانِ
صفحہ 360 (آیات 3 سے 11 تک)

وَٱتَّخَذُوا۟ مِن دُونِهِۦٓ ءَالِهَةً لَّا يَخْلُقُونَ شَيْـًٔا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِأَنفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَمْلِكُونَ مَوْتًا وَلَا حَيَوٰةً وَلَا نُشُورًا وَقَالَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ إِنْ هَٰذَآ إِلَّآ إِفْكٌ ٱفْتَرَىٰهُ وَأَعَانَهُۥ عَلَيْهِ قَوْمٌ ءَاخَرُونَ ۖ فَقَدْ جَآءُو ظُلْمًا وَزُورًا وَقَالُوٓا۟ أَسَٰطِيرُ ٱلْأَوَّلِينَ ٱكْتَتَبَهَا فَهِىَ تُمْلَىٰ عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا قُلْ أَنزَلَهُ ٱلَّذِى يَعْلَمُ ٱلسِّرَّ فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۚ إِنَّهُۥ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا وَقَالُوا۟ مَالِ هَٰذَا ٱلرَّسُولِ يَأْكُلُ ٱلطَّعَامَ وَيَمْشِى فِى ٱلْأَسْوَاقِ ۙ لَوْلَآ أُنزِلَ إِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُونَ مَعَهُۥ نَذِيرًا أَوْ يُلْقَىٰٓ إِلَيْهِ كَنزٌ أَوْ تَكُونُ لَهُۥ جَنَّةٌ يَأْكُلُ مِنْهَا ۚ وَقَالَ ٱلظَّٰلِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلًا مَّسْحُورًا ٱنظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا۟ لَكَ ٱلْأَمْثَٰلَ فَضَلُّوا۟ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلًا تَبَارَكَ ٱلَّذِىٓ إِن شَآءَ جَعَلَ لَكَ خَيْرًا مِّن ذَٰلِكَ جَنَّٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَٰرُ وَيَجْعَل لَّكَ قُصُورًۢا بَلْ كَذَّبُوا۟ بِٱلسَّاعَةِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لِمَن كَذَّبَ بِٱلسَّاعَةِ سَعِيرًا
360

سورۃ الفرقان کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ الفرقان کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

لوگوں نے اُسے چھوڑ کر ایسے معبود بنا لیے جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں، جو خود اپنے لیے بھی کسی نفع یا نقصان کا اختیار نہیں رکھتے، جو نہ مار سکتے ہیں نہ جِلا سکتے ہیں، نہ مرے ہوئے کو پھر اٹھا سکتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waittakhathoo min doonihi alihatan la yakhluqoona shayan wahum yukhlaqoona wala yamlikoona lianfusihim darran wala nafAAan wala yamlikoona mawtan wala hayatan wala nushooran

اردو ترجمہ

جن لوگوں نے نبیؐ کی بات ماننے سے انکار کر دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ فرقان ایک من گھڑت چیز ہے جسے اِس شخص نے آپ ہی گھڑ لیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اِس کام میں اس کی مدد کی ہے بڑا ظلم اور سخت جھوٹ ہے جس پر یہ لوگ اتر آئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqala allatheena kafaroo in hatha illa ifkun iftarahu waaAAanahu AAalayhi qawmun akharoona faqad jaoo thulman wazooran

(وقال الذین کفروا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غفورا رحیما) (4 تا 6) ” “۔ “۔

یہ تھا وہ جھوٹ جو اہل قریش نبی ﷺ پر باندھتے تھے۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ بہت ہی بڑا افتراء ہے۔ کیونکہ قریش کے کبراء عوام کو جن باتوں کی تعلیم دیتے تھے ‘ ان سے یہ بات کس طرح مخفی رہ سکتی تھی کہ حضرت محمد ﷺ جس قرآن کی تلاوت فرما رہے ہیں وہ بشری اسالیب کلام سے بالکل ایک مختلف کلام ہے۔ وہ اس بات کو اپنے دل میں اچھی طرح محسوس کرتے تھے کیونکہ وہ انسانی اسالیب کلام سے اچھی طرح واقف تھے۔ جب وہ قرآن سنتے تھے تو وہ خود بھی اس سے بےحد متاثر ہوجاتے تھے۔ پھر بعثت سے قبل حضرت محمد ﷺ کے بارے میں ان کو پورا پورا یقین تھا کہ حضرت محمد ﷺ صادق اور امین ہیں۔ وہ نہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔ نہ خیانت کرنے والے تھے۔ پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ اللہ پر جھوٹ باندھیں۔ ایک بات اللہ نے نہیں کہی اور حضرت محمد ﷺ یہ کہیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔

وہ ایک توعناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ الزام لگاتے تھے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں کو دوسرے عرب کے مقابلے میں مکہ میں ایک قسم کی دینی سیادت حاصل تھی اور اس کی وجہ سے عربوں میں ان کا ممتاز مقام تھا ‘ اس وجہ سے وہ عام عربوں میں یہ الزام پھیلاتے تھے کیونکہ عام عرب اسالیب کلام سے واقف نہ تھے۔ اور نہ وہ قرآن اور عام کلام میں فرق کرسکتے تھے۔ اس لیے وہ کہتے۔

(ان ھذا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قوم اخرون) (25 : 4) ” یہ فرقان ایک من گھڑت چیز ہے اور اس پر اسے خود گھڑ لیا ہے اور اس پر کچھ دوسرے لوگوں نے اس کی مدد کی ہے “۔ روایات میں تین یا زیادہ عجمی غلاموں کے نام لیے گئے ہیں کہ قوم اخرون (25 : 4) میں یہ لوگ اس طرف اشارہ کرتے تھے۔ یہ بات کس قدر بےتکی تھی۔ یہ اس قابل ہی نہ تھی کہ اس پر کوئی بحث کی جائے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس قسم کا کلام چند عجمی غلاموں کی امداد سے بنایا جاسکتا تھا تو آخر انہوں نے اس کے جواب میں کیوں ایسا کلام نہ بتایا۔ اس طرح تو وہ بڑی آسانی کے ساتھ حضرت محمد ﷺ کے دعوائے نبوت کو باطل کرسکتے تھے جبکہ قرآن کریم نے ان کو بار با چیلنج بھی کیا اور وہ بار بار ایسا کلام لانے میں ناکام بھی رہے۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے یہاں ان کی اس بات کا کوئی جواب ہی نہیں دیا بلکہ اس کی واضح تردید کردی۔

فقد جآء و اظلما وزورا (25 : 4) ” بڑا ظلم اور سخت جھوٹ ہے جس پر یہ لوگ اتر آئے ہیں “۔ یہ سچائی پر ظلم کرتے ہیں۔ حضرت محمد ﷺ پر ظلم کرتے ہیں ‘ اپنے نفوس پر ظلم کرتے ہیں ‘ ان کا جھوٹ واضح ہے اور بادی النظر میں باطل ہے۔ جس کی تردید کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

مزید الزامات حضور اکرم ﷺ پر اور قرآن مجید کے متعلق

(وقالوا۔۔۔۔۔۔۔ واصیلا) (25 : 5) ” کہتے ہیں کہ یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں “ قرآن کریم نے اقوام سابقہ کے قصص نقل کیے ہیں۔ یہ عبرت ‘ نصیحت ‘ تربیت اور ہدایت کی خاطر۔ ان سچے قصوں کے بارے میں وہ کہتے ہیں۔

اساطیرالآ ولین (25 : 5) کہ یہ پرانے لوگوں کی کہانیاں ہیں اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے کہا کہ یہ اس کے لیے نوٹ کرلی جائیں تاکہ اس پر صبح و شام پڑھی جائیں کیونکہ حضور ﷺ خود تو امی تھے ‘ لکھ پڑھ نہ سکتے تھے اور خود حضور اکرم ﷺ ان کہانیوں کو پھر خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے تھے۔ ان کے اس دعویٰ کے اندر ہی شکست پوشیدہ ہے کیونکہ ان کا دعویٰ ہی بےبنیاد ہے۔ اس قدر پوچ کہ اس پر بحث کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ قرآن کریم نے قصص کو جس انداز میں پیش کیا ہے۔ وہ جس مقصد کے لیے لائے جاتے ہیں۔ ان سے جو استدلال کیا جاتا ہے اور جس طرح نفاست کے ساتھ وہ اپنے مقصد کو پورا کرتے ہیں اور ان سے جس گہرائی کے ساتھ مقاصد عالیہ ثابت ہوتے ہیں ‘ ان میں اور پرانے قصے کہانیوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ کیونکہ پرانے قصوں میں کوئی فکر اور کوئی نظر یہ نہیں ہوتا ‘ نہ ان قصوں کے پیش نظر کچھ مقاصد ہوتے ہیں۔ یہ قصے محض تفریح کی لیے اور فارغ اوقات میں اپنے آپ کو مصروف کرنے کے لیے ‘ لکھے اور پڑھے جاتے ہیں فقط۔ (تفصیلات کے لیے دیکھئے ” التصویر الغنی فی القرآن “ کا فصل ” القصہ “۔

انہوں نے قرآن کریم کو اساطیر الاولین (25 : 5) کہا ہے ‘ اشارہ اس طرف ہے کہ یہ قصے بہت ہی پرانے زمانے کے ہیں۔ لہذا محمد ﷺ پر لازماً وہ لوگ پڑھتے ہوں گے۔ ان کا علم حاصل کرنے چلے آتے ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ ان کے اس الزام کا رد یوں کرتا ہے کہ بیشک حضرت محمد ﷺ پر ان کا نزول اس ذات کی طرف سے ہورہا ہے جو ہر علم والے سے زیادہ علیم ہے۔ وہ تمام اسرار و رموز کا جاننے والا ہے یعنی اللہ اور اللہ پر اولین اور آخرین کا کوئی علم پوشیدہ نہیں ہے۔

قل انزلہ الذی یعلم السر فی السموت والارض (25 : 6) ” اے نبی ﷺ ان سے کہو کہ اسے نازل کیا ہے ‘ اس نے جو زمین و آسمان کا بھید جانتا ہے “۔ قصص گویا ن دنیا کہاں اور وہ علیم وخبیر کہاں۔ انسان کا محدود علم اور ارض و سما کے وسیع علم رکھنے والے اللہ کے علم کامل و شامل کا مقابلہ ہی کیا ہے۔ یاک حقیر قطرے اور ایک بحرنا پیدا کنار کا کیا مقابلہ ہوسکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ بڑی غلطی کررہے ہیں جو رسول اللہ ﷺ پر یہ بوگس اور پوچ الزام عائد کرتے ہیں جبکہ وہ اللہ کے ساتھ شرک کے قائل ہیں حالانکہ اللہ نے ان کی تخلیق کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود توبہ کا دروازہ کھلا ہے اور اس عظیم گناہ سے وہ باز آسکتے ہیں۔ اللہ جو زمین و آسمانوں کے بھیدوں کا واقف ہے۔ وہ ان کی افتراء پر دازیوں اور ان کی سازشوں سے خوب خبردار ہے لیکن اس کے باوجود وہ غفور و رحیم ہے۔ انہ کان غفورا رحیما (25 : 6)

اسی موضوع پر بات مزید آگے بڑھتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ان کے مزید اعتراضات کہ آپ بشر کیوں ہیں اور دسرے لفو مطالبات کو یہاں بیان کیا جاتا ہے۔

اردو ترجمہ

کہتے ہیں یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کرتا ہے اور وہ اِسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqaloo asateeru alawwaleena iktatabaha fahiya tumla AAalayhi bukratan waaseelan

اردو ترجمہ

اے محمدؐ، ان سے کہو کہ "اِسے نازل کیا ہے اُس نے جو زمین اور آسمانوں کا بھید جانتا ہے" حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا غفور رحیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qul anzalahu allathee yaAAlamu alssirra fee alssamawati waalardi innahu kana ghafooran raheeman

اردو ترجمہ

کہتے ہیں "یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے؟ کیوں نہ اس کے پاس کوئی فرشتہ بھیجا گیا جو اس کے ساتھ رہتا اور (نہ ماننے والوں کو) دھمکاتا؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqaloo mali hatha alrrasooli yakulu alttaAAama wayamshee fee alaswaqi lawla onzila ilayhi malakun fayakoona maAAahu natheeran

(وقالوا مال۔۔۔۔۔۔۔ قصورا) (7 تا 10)

یہ کیسا رسول ہے جو کھاتا پیتا ‘ چلتا پھرتا انسان ہے اور تمام تصرفات و حرکات انسانوں جیسے کرتا ہے۔ یہ وہی گھسا پٹا اعتراض ہے جو لوگ ہمیشہ رسولوں پر کرتے چلے آئے ہیں کہ فلاں شخص نے رسول ہونے کا دعویٰ کردیا ہے۔ دیکھو بھائی فالاں کا بیٹا بھی اب رسول بن گیا۔ یہ تو ہم جیسا انسان ہے جس طرح ہم کھاتے پیتے ہیں اور چلتے پھرتے ہیں۔ یہ بھی ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ ہو اور اللہ کی طرف سے اس پر وحی آرہی ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کا اتصال اور رابطہعالم بالا سے ہوجائے۔ اور یہ عالم بالا سے ہدایات لے رہا ہو۔ جبکہ وہ ہمارے جی اس گوشت و پوست کا بنا ہوا انسان ہے۔ آخر ہماری طرف وحی کیوں نہیں آتی۔ اور وہ جس علم کا دعویٰ کرتا ہے وہ ہمارے پاس کیوں نہیں آتا۔ جبکہ ہمارے اور اس رسول کے درمیان کوئی بات ایسی نہیں ہے جو امتیازی ہو۔

اس لحاظ سے یہ بات واقعی انوکھی معلوم ہوتی ہے اور مسعبد نظر آتی ۔ لیکن دوسرے لحاظ سے طبعی اور معقول ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کے اندر اپنی روح پھونکی ہے اور اسی روح کی وجہ سے انسان ‘ انسان بنا ہے اور اسی وجہ سے اللہ نے اسے خلافت ارضی سپرد کی ہے حالانکہ انسان ایک محدود علم رکھتا ہے۔ اس کا تجربہ محدود ہے اور اس کے پاس بہت کم وسائل ہیں اس لیے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ انسان کو یہ عظیم فریضہ ادا کرنے کے لیے بےآسرا اور بغیر معاونت کے چھوڑ دے اور بغیر ہدایت اور راہنمائی کے یوں ہی چھوڑ دے۔ جبکہ اس کے اندر اللہ نے یہ صلاحیت بھی رکھی کہ وہ عالم بالا سے تعلق بھی قائم کرسکتا ہے۔ چناچہ یہ بات تعجب خیز نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں میں سے کسی ایک انسان کو اس مقصد کے لیے چن لے کہ وہ عالم بالا کی ہدایات اخذ کرے اور لوگوں تک پہنچائے۔ اور اس شخص کو اللہ اس مقصد کے لیے خصوصی استعداد بھی دے تاکہ جب بھی ان پر کوئی مسئلہ مشتبہ ہو تو یہ شخص اللہ کی ہدایت کی روشنی میں اسے حل کر دے اور جب بھی راہ ہدایت کے اختیار کرنے میں ان کو ضرورت ہو وہ ان کی معاونت کرے۔

یہ تو انسان کے لیے ‘ اس پہلو سے ‘ اور اس شکل میں ایک بہت بڑا اعزاز ہے لیکن بعض لوگ ایسے ہیں جو اس اعزاز کو سمجھتے نہیں ہیں۔ نہ وہ انسان کے اس اعزاز اور تکریم کی قدر کرتے ہیں۔ اس لیے جن لوگوں کے ذہن میں یہ بات نہیں بیٹھتی وہ اس اعزاز کا انکار کرتے ہیں کہ انسانوں میں سے کوئی شخص کس طرح رسول ہو سکتا ہے۔ انسانوں کے مقابلے میں اس مقصد کے لیے فرشتہ زیادہ موزوں تھا۔

(لو لآ انزل۔۔۔۔۔۔۔۔ نذیرا) (25 : 7) ” کیوں نہ اس کے پاس ایک فرشتہ بھیجا گیا جو اس کے ساتھ ساتھ چلتا اور نہ ماننے والوں کو دھمکاتا “۔ جبکہ اللہ نے تمام فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ وہ انسان کو سجدہ کریں کیونکہ اللہ نے انسان کو اس کی بعض خصوصیات کی وجہ سے مکرم بنایا تھا اور یہ خصائص خود انسان کے اندر عالم بالا کی طرف سے پھونکی ہوئی روحانیت کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے ۔

پھر ایک انسان کو انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجنے کی ایک اور حکمت بھی ہے۔ ایک انسان انسانوں جیسے احساسات رکھتا ہے وہ انسان جیسا ذوق رکھتا ہے۔ پھر اس کے تجرباتا بھی ایسے ہوتے ہیں جو دوسرے انسانوں جیسے ہوتے ہیں۔ وہ ان کے دکھ درد اور ان کی خواہشتا کو انسان ہونے کے ناطے سمجھ سکتا ہے۔ وہ ان کے جذبات اور میلانات کو بھی سمجھ سکتا ہے۔ وہ انسانوں کی ضروریات اور ان کی ذمہ داریوں سے بھی واقف ہوتا ہے۔ چناچہ وہ ان کی کمزوریوں اور نقائص کا خیال کرتا ہے ‘ وہ ان کی قوت اور ان کی استعداد سے پر امید بھی ہوتا ہے۔ اور ان کو لے کر قدم بقدم آگے چلتا ہے ‘ وہ ان کے تاثرات اور ان کے ردعمل سے اچھی طرح باخبر ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ اور انہی کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے مبعوث ہا ہے اور اللہ کی ہدایت اور امداد سے ان کی راہنمائی کررہا ہے۔

پھر ان لوگوں کے لیے بھی ممکن ہے کہ وہ حضرت رسول اکرم ﷺ کی پیروی کریں کیونکہ وہ انہی جیسا انسان ہے۔ وہ ان انسانوں کو لے کر آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہے۔ وہ ان کے اندر رہ کر ایک اخلاقی نمونہ پیش کرتا ہے۔ اور ان کو عملاً ان اخلاق و فرائض کی تعلیم دیتا ہے جو اللہ نے ان پر فرض کیے ہیں اور جن کا اللہ ان سے مطالبہ فرماتا ہے۔ گویا وہ اس نظریہ اور عمل کا ایک نمونہ ہوتا ہے جسے وہ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اس کی زندگی ‘ اس کے اعمال اور اس کی تمام حرکات ایک کھلی کتاب ہوتی ہے ‘ جسے وہ ان کے سامنے پیش کرتا ہے اور وہ اس کتاب کی ایک ایک سطر کو نقل کرتے ہیں۔ اور اس کتاب کے ایک ایک لفظ کو حقیقت کا روپ عطا کرتے ہیں اور وہ دیکت ہیں کہ ان کا رسول ہر بات کو عملاً پیش کرتا ہے تو وہ بھی اس کی تقلید کرتے ہیں کیونکہ یہ نظریہ اور ہدایت ایک شخص کی زندگی میں عملاً نظر آتی ہے۔ اگر رسول کوئی فرشتہ ہوتا تو لوگ نہ اس کے عمل دیکھ سکتے اور نہ اس کی تقلید کے بارے میں سوچ سکتے۔ کیونکہ ان کے اندر آغاز ہی سے یہ بات آجاتی کہ وہ تو ایک فرشتہ ہے۔ اس کا مزاج ہی ایسا ہے اور ہم ضعیف انسان ہیں۔ ہم اس جیسا طرز عمل کب اختیار کرسکتے ہیں۔ یا ہم اس کی تقلید کس طرح کرسکتے ہیں یا اس جیسا نمونہ وہ کس طرح پیش کرسکتے ہیں۔

یہ تھی اللہ کی حکمت جس نے ہر چیز کی تخلیق کی اور اسے پوری پوری طرح برابر کیا۔ یہ اس کی حکمت تھی کہ اس نے انسانوں کی ہدایت کے لیے ایک انسان کو رسول بنا کر بھیجا تاکہ وہ ان کی قیادت کرسکے اور رسول کے بشر ہونے پر اعتراض دراصل اس حکمت سے جہالت کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ پھر اس میں اللہ کی طرف سے انسان کی عزت افزائی بھی ہے اور جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں وہ انسان کی تکریم کی نفی کرتے ہیں۔

ان کا دوسرا اعتراض اس سے بھی زیادہ سادگی اور جہالت پر مبنی تھا کہ یہ رسول بازاروں میں پھرتا ہے اور اپنی ضرورت کی چیزیں حاصل کرتا ہے اور محنت کرتا ہے تو کیوں اللہ نے اسے اس قدر دولت نہ دی کہ وہ اپنی ضروریات کی طرف سے بےغم ہوجائے۔ اور بغیر محنت کے اسے ضروریات ملتی رہیں۔

او یلقی الیہ کنز او تکون لہ جنۃ یا کل منھا (25 : 8) ” یا اس کے لیے کوئی خزانہ ہوتا یا اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ روزی حاصل کرتا “۔ اللہ نے یہ نہ چاہا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کوئی خزانہ ہوتا یا آپ ﷺ کسی بڑے باغ کے مالک ہوتے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ تو رسول اللہ ﷺ کو اپنی امت کے لیے ایک نمونہ بنارہا تھا تاکہ آپ ﷺ رسالت کے منصب کے فرائض کو اٹھائیں اور ان فرائض کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ اپنی امت کے دوسرے انسانوں کی طرح بطور انسان اپنی ذمہ داریاں خود اٹھائیں۔ اپنے رزق کے لیے خود سعی کریں تاکہ امت میں سے کوئی شخص یہ اعتراض نہ کرسکے کہ یہ شخص کوئی کاروبار کررہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ ‘ قناعت اختیار کرنے والے تھے۔ اس لیے آپ کو ضروریات زندگی کے لیے بہت زیادہ جدوجہد نہیں کرنی پڑتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ مبلغ رسالت کے فرائض کی ادائیگی کے لیے فارغ ہوگئے تھے۔ لہٰذا اس سلسلے میں آپ ﷺ کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں آئی۔ چناچہ آپ اپنی ضروریات کے لیے بھی بقدر ضرورت جدوجہد فرماتے تھے۔ اور رسالت کے فرائض بھی سرانجام دیتے تھے تاکہ آپ ﷺ کو نمونہ بنا کر آپ کی امت کا ہر فرد تبلیغ رسالت کے فرائض کا کچھ حصہ اپنے ذمہ لے اور اپنی ضروریات کے لیے بھی جدوجہد کرے۔ بعد کے ادوار میں دولت کا ایک سیلاب آپ ﷺ کے قدموں میں جاری ہوگیا۔ اور اللہ نے رسول کی زندگی کو اس پہلو سے بھی آزمایا تاکہ لوگوں کے لیے یہ پہلو بھی نمونہ ہو۔ چناچہ آپ نے کبھی دولت کے اس سیلاب کی طرف توجہ نہیں دی۔ آپ ﷺ ہوا کے طوفان کی طرح سخی تھے۔ چناچہ آپ ﷺ نے دولت مندی کے فتنے پر بھی قابو پایا۔ یوں لوگوں کے دلوں سے دولت مندی کی ہوس کو بھی نکال دیا۔ تاکہ لوگ یہ اعتراض نہ کریں کہ محمد ﷺ پیغام لے کر نکلے ‘ ایک غریب آدمی تھے ‘ آپ کی کوئی مالی سرگرمی نہ تھی ‘ نہ مالی حیثیت تھی اور اب آپ لاکھوں اربوں میں کھیل رہے ہیں۔ ہر طرف سے آپ پر مال و دولت کی بارش ہے لیکن حضور ﷺ نے دولت کے اس سیلاب کو بھی اپنے آپ سے دور رکھا اور دعوت اسلامی کے کام میں اسی طرح مشغول ہوگئے جس طرح کہ وہ زمانہ فقر میں مشغول تھے۔

مال کیا چیز ہے ‘ خزانوں کی حقیقت کیا ہے ؟ باغات کی کیا حیثیت ہے۔ جب ایک ضعیف اور فانی انسان خدا تک رسائی حاصل کرلیتا ہے تو پھر اس کے لیے اس پورے کرئہ ارض اور ما فیہا کی کوئی وقعت نہیں ہوتی بلکہ اس کے نزدیک اس پوری کائنات میں بسنے والی اس پوری مخلوقات کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ لیکن اس کی یہ حالت تب ہوتی ہے کہ جب اس نے خالق کائنات تک رسائی حاصل کرلی جو قلیل و کثیر کا بخشنے والا ہے لیکن اس وقت لوگ اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر تھے۔

وقال الظلمون ان تتبعون الا رجلا مسحورا (25 : 8) ” اور یہ ظالم کہتے ہیں تم تو ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے لگ گئے “۔ یہ وہ ظالمانہ بات ہے جو اللہ نے ان لوگوں کی زبان سے نقل کیا ہے۔ سورت اسرا میں بھی ان لوگوں کا یہ الزام لفظاً اللہ نے نقل فرمایا ہے۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ جواب دیا۔

انظر کیف ضربوا لک الامثال فضلوا فلا یستطیعون سبیلا (25 : 9) ” دیکھئے ‘ یہ لوگ آپ کے بارے میں کیسی باتیں کرتے ہیں ‘ یہ گمراہ ہوچکے ہیں ‘ اب ان کی استطاعت ہی میں یہ بات نہیں رہی کہ یہ راہ راست پالیں “۔ اس سورت اور سورة اسرا کا مضمون و موضوع ایک ہی جیسا ہے اور یہ دونوں سورتوں کی بات ایک ہی ماحول میں ہو رہی ہے۔ دونوں جگہ ان لوگوں نے یہ اعتراض کیا ہے ‘ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی ذات پر حملہ کیا ہے اور ذاتی نقص نکالا ہے یعنی وہ لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ اس شخص کی عقل ماری گئی ہے ‘ کیونکہ یہ عجیب و غریب باتیں کرتا ہے ‘ ایک عام نارمل شخص ایسی باتیں نہیں کیا کرتا۔ لیکن اس اعتراض سے ان کے لا شعور سے یہ بات خود بخود باہر رہ گئی کہ رسول اللہ جو باتیں فرماتے ہیں وہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ عام طور پر بڑے سے بڑا عقلمند شخص بھی ایسی باتیں نہیں کرتا۔ یہ باتیں انسانی طاقت سے بالا باتیں ہیں۔ اس لیے ان پر رد کرتے وقت بھی اللہ نے ان کے اس رویے پر صرف تعجب کا اظہار کرنے پر اکتفاء کیا ہے۔

اردو ترجمہ

یا اور کچھ نہیں تو اِس کے لیے کوئی خزانہ ہی اتار دیا جاتا، یا اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ (اطمینان کی) روزی حاصل کرتا" اور ظالم کہتے ہیں "تم لوگ تو ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے لگ گئے ہو"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aw yulqa ilayhi kanzun aw takoonu lahu jannatun yakulu minha waqala alththalimoona in tattabiAAoona illa rajulan mashooran

اردو ترجمہ

دیکھو، کیسی کیسی عجیب حجتیں یہ لوگ تمہارے آگے پیش کر رہے ہیں، ایسے بہکے ہیں کہ کوئی ٹھکانے کی بات اِن کو نہیں سوجھتی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Onthur kayfa daraboo laka alamthala fadalloo fala yastateeAAoona sabeelan

انظر کیف ضربوا لک الامثال (25 : 9) ” دیکھو ‘ یہ تمہارے بارے میں کیا حجتیں کرتے ہیں “۔

آپ ﷺ کو سحرزدہ لوگوں کے ساتھ مشابہ قرار دیتے ہیں ‘ کبھی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ اپنی طرف سے باتیں بناتے ہیں ‘ کبھی کہتے ہیں کہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں جو آپ لکھواتے ہیں۔ یہ سب گمراہی کی باتیں ہیں۔ اور سچائی سے دور کی باتیں ہیں۔ یہ سچائی کے تمام راستوں سے بےراہ ہوگئے ہیں۔ اور اب ان کے اندر ہدایت کی راہ پانے کی استطاعت ہی نہیں رہی۔

فلایستطیعون سبیلا (25 : 9) اب یہ بحث یوں ختم کی جاتی ہے کہ یہ لوگ جو تجاویز دیتے ہیں وہ احمقانہ ہیں۔ ان کے تصورات دنیا پرستی کے محدود دائرے میں محدود ہیں۔ یہ کنوئیں کے مینڈک کی طرح اپنی دنیا ہی میں مگن ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ رسالت ﷺ کے مقابلے میں چند ٹکٹوں کی قیمت زیادہ ہے لہٰذا رسول ﷺ کے پاس ٹکے ہونے چاہیں۔ اس پر ہدایت الہٰی کے بجائے خزانہ عامرہ نازل ہونا چاہیے تھا ‘ یا اس کے مقابلے میں ایک باغ اس کے پاس ہونا چاہیے تھا جس میں وہ صبح و شام کھاتا ۔ یہ تھی ان کی سوچ ‘ لیکن اگر اللہ چاہتا اور اس کی اسکیم یہ ہوتی تو وہ اپنے رسول ﷺ کو اس سے بھی زیادہ دیتا جس کا یہ کہتے ہیں۔

(تبرک الذی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصورا (25 : 1) ” بڑا بابرکت ہے وہ جو اگر چاہے تو ان کی تجویز کردہ چیزوں سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر تم کو دے سکتا ہے۔ بہت سے باغ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں اور بڑے بڑے محل “۔ لیکن اللہ کی مشیت یہ تھی کہ آپ کو ایسے باغات و محلات سے بھی زیادہ قیمتی دولت دے۔ یعنی باغات اور محلات دینے والے کے ساتھ تعلق اور دوستی۔ یہ شعور کہ محمد اس کی نگرانی میں ہیں۔ اس کے قبضے میں ہیں اس کی ہدایت اور توفیق کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ اور آپ ﷺ اس مٹھاس کو ہر وقت چکھتے رہتے ہیں۔ یہ روحانی غذا آپ کو ہر وقت دی جاتی ہے اور اس کے مقابلے میں جسمانی غذا کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ دنیا کا ما ومنال خواہ کم ہو یا زیادہ ‘ اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اے کاش کہ وہ اس فرق کو سمجھتے کہ آپ کو جو دولت دی گئی ہے وہ کس قدر قیمتی ہے۔ اور اس کے مقابلے میں دنیا کے باغ دراغ کچھ بھی نہیں۔

یہاں تک تو قرآن نے خدا اور رسول اللہ ﷺ پر ان کے اعتراضات کو نقل فرمایا ‘ اب بات ان کے فکر و نظر کے فساد کے ایک دوسرے میدان میں داخل ہوتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ لوگ ضلال بعید میں مبتلا ہیں اور یہ تو قیام قیامت کے منکر ہیں۔ یہ چونکہ قیامت کی جوابدہی کے منکر ہیں اس لیے یہ اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ باتیں کرتے ہیں۔ ظلم کرتے ہیں افتراء باندھتے ہیں کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق انکو قیامت کی جوابدہی کا کوئی ڈر نہیں ہے۔ اگر ان کے دل میں اللہ کے سامنے حاضر ہونے اور حساب دینے کا ڈر ہوتا تو وہ یہ افتراء پر دازیاں ہر گز نہ کرتے۔ یہاں اب قیامت کے مناظر میں سے ایک ایسا منظر لایا جاتا ہے جو سخت سے سخت دل کو بھی ریزہ ریز کردیتا ہے۔ جسک و دیکھ کر پوری طرح بجھے ہوئے دلوں میں بھی آگ لگ جاتی ہے۔ اور وہ بھی اس دن کی ہولناکی سے کانپ اٹھتے ہیں۔ ان کافروں کے لیے یہ ہولناکی اور اہل ایمان کے لیے یہ حسن انجام۔

اردو ترجمہ

بڑا بابرکت ہے وہ جو اگر چاہے تو ان کی تجویز کردہ چیزوں سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر تم کو دے سکتا ہے، (ایک نہیں) بہت سے باغ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں، اور بڑے بڑے محل

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tabaraka allathee in shaa jaAAala laka khayran min thalika jannatin tajree min tahtiha alanharu wayajAAal laka qusooran

اردو ترجمہ

اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ "اُس گھڑی" کو جھٹلا چکے ہیں اور جو اُس گھڑی کو جھٹلائے اس کے لیے ہم نے بھڑکتی ہوئی آگ مہیا کر رکھی ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bal kaththaboo bialssaAAati waaAAtadna liman kaththaba bialssaAAati saAAeeran

(بل کذبوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سعیرا) (11) اذاراتھم من۔۔۔۔ وعدا مسولا ـ

یعنی وہ کفر اور ضلالت کی حدوں کو پار کرکے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ وہ قیامت کا انکار کر رہے ہیں۔ قرآن کا انداز تعبیر ” بل “ کا لفظ استعمال کر کے ان کی گمراہی یوں مجسم کرتا ہے کہ وہ اس راہ پر بہت دور چلے گئے ہیں یعنی پہلی باتوں کو چھوڑو ‘ انہوں نے تو قیامت کا انکار کردیا ہے۔ اس کے بعد یہ انکشاف کیا جاتا ہے کہ ان فتنہ پر دازون کے لیے کس قدر خوفناک عذاب تیار کیا گیا ہے۔ یہ آگ ہے جو حاضر ہے ‘ دہکائی ہوئی ہے۔

واعتدنا۔۔۔۔ سعیرا (25 : 11) ” اور جو اس گھڑی کو جھٹلائے ‘ اس کے لیے ہم نے بڑھکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے “۔ یہاں قرآن کریم مجسم اور مشخص انداز میں آگ کو پیش کرتا ہے۔ تجسیم اور تشخیص قرآن مجید کا وہ انداز ہے جس میں ایسی اشیاء ایسے معافی اور ایسے مفہومات کو زندہ شخص کے انداز میں پیش کرتا ہے جن کے لیے زندہ ہونا ممکن نہیں ہے۔ چناچہ قرآن مجید مفاہیم و مناظر کو زندہ اشخاص کی شکل میں اس طرح پیش کرتا ہے کہ کلام کے اند اعلیٰ درجے کا اعجاز پیدا ہوجاتا ہے۔

ذرا سوچئے۔ ہم دہکتی ہوئی آگ کے سامنے کھڑے ہیں۔ یہ آگ ہمارے سامنے ایک زندہ غضبناک شخص کا روپ اختیار کرتی ہے کہ یہ دور سے ان مکذبین کو دیکھتی ہے۔ دیکھتے ہی یہ آگ غیض و غضب میں مبتلا ہوجاتی ہے اور یہ لوگ دور سے اس کے اظہار غضب اور سخت کلامی کو پالیتے ہیں گویا وہ دور ہی سے ان پر حملہ آور ہونے کے لیے جوش دکھاتی ہے۔ اور جوش انتقام میں آپے سے باہر ہو رہی ہے حالانکہ یہ لوگ ابھی تک راستے میں ہوتے ہیں ‘ پہنچے نہیں ہوتے۔ غرض یہ ایک نہایت ہی جھنجھوڑنے والا منظر ہے جسے دیکھنے والوں کی ٹانگوں پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔

دیکھئے اب یہ پہنچ گئی اپنی منزل تک۔ اب یہ لوگ کھلے نہیں چھوڑے جاتے کہ ہاتھ پائوں سے یہ آگ کے ساتھ مقابلہ کریں اور آگ انہیں شکست دے دے۔ یہ اس سے بچنے کی کوشش کریں۔ اور وہ انہیں پکڑلے۔ بلکہ انہیں پکڑ کر اس میں پھینک دیا جاتا ہے ، اس حال میں کہ ان کے ہاتھ پائوں زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور ان کو آگ کے کھلے ہال میں بھی نہیں پھینک دیا جاتا بلکہ دوزخ کی آگ کے ایک نہایت ہی تنگ مقام پر ان کو اندر کردیا جاتا ہے۔ جس میں یہ بمشکل سماتے ہیں ‘ اس سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں ہے۔ اب یہ لوگ اس آگ سے رہائی پانے کے بارے میں بےحد مایوس ہوگئے ہیں۔ نہایت یہ کرب میں ہیں۔ اب مایوس ہو کر یہ صرف ہلاکت اور موت کی دعا کرتے ہیں۔

واذا القو۔۔۔۔۔ ھنالک ثبورا (25 : 13) ” اور جب یہ اس میں تنگ جگہ ٹھونسے جائیں گے تو اپنی موت کو پکارنے لگیں گے “۔ لیکن اب جہنم میں موت تو نہ پوری ہونے والی آرزو ہے۔ جبکہ یہ لوگ اس عذاب سے صرف موت کے ذریعہ ہی خلاصی پا سکتے ہیں کیونکہ یہ دردوکرب ناقابل برداشت ہے لیکن ان کو ان کی اس درخواست اور اس تمنا کا جواب بھی استہزاء اور مذاق کے ساتھ دیا جاتا ہے۔ جس طرح وہ رسولوں کے ساتھ مذاق کرتے تھے۔ یہ ایک تلخ مذاق ہے۔

لاتدعوا۔۔۔۔۔ ثبورا کثیرا (25 : 14) ” آج ایک موت کو نہیں بہت سی موتوں کو پکارو “۔ کیونکہ ایک بار کی ہلاکت تو تمہیں کوئی فائدہ نہ دے گی۔ نہ ایک بار کی موت تمہارے لیے کافی ہے۔ تم بار بار مرو گے اور بار بار زندہ ہو گے۔

ان کے اس حال کو پیش کرنے کے بعد اب ان کے بالمقابل متقین مومنین کے انجام کی ایک جھلک بھی دکھائی جاتی ہے ‘ جو اللہ سے ڈرتے تھے جو اللہ کے سامنے حاضر ہونے کی امید رکھتے تھے اور قیامت پر ان کا پختہ ایمان تھا۔ یہ انجام بھی ان کفار کو خطاب کرتے ہوئے نہایت ہی طنزیہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔

قل اذلک۔۔۔۔۔۔ ومصیرا (25 : 15) لھم فیھا۔۔۔۔ مسئولا (25 : 16) ” ان سے پوچھو یہ انجام اچھا ہے یا وہ ابدی جنت جس کا وعدہ خدا ترس پرہیز گاروں سے کیا گیا ہے ‘ جو ان کے عمل کی جزا اور ان کے سفر کی آخری منزل ہوگی ‘ جس میں ان کی ہر خواہش پوری ہوگی ‘ جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ‘ جس کا عطا کرنا تمہارے رب کے ذمے ایک واجب الادا وعدہ ہے “۔ یہ شرمسار کنندہ عذاب بہتر ہے یا وہ باغات دائمی بہتر ہیں جو اللہ نے متقین کے لیے تیار کر رکھے ہیں۔ اللہ نے متقین کو یہ حق دیا ہے کہ یہ اس کا مطالبہ کریں۔ اور یہ طلب کریں کہ اے اللہ اپنا وعدہ پورا کیجئے اور اللہ وعدہ خلافی کرنے والا تو ہے نہیں۔ پھر یہ بھی ان کو اختیار دیا گیا ہے کہ جو چاہیں وہاں طلب کریں۔ کیا ان دونوں مقامات کے درمیان موازنہ کرنے کی بھی کوئی بات ہے کہ ان سے موازنے کے لیے کہا جارہا ہے۔ دراصل یہ ان کے ساتھ نہایت یہ تلخ مذاق ہے اور یہ ان کے اس مذاق کا جواب ہے جو وہ یہاں اس رسول مقبول سے کرتے تھے۔

اب آخرت کا ایک دوسرا منظر جس کی تکذیب کرنے والے تکذیب کرتے تھے۔ یہ مشرکین کا اجتماع ہے ان کے ساتھ ان کے شرکاء بھی موجود ہیں جن کو یہ لوگ الہٰ اور شفیع سمجھتے تھے۔ یہ سب اللہ کے سامنے کھڑے اپنی اپنی جوابدہی کر رہے ہیں۔ سوال ہو رہے ہیں اور وہ جواب دے رہے ہیں۔

360