سورۃ الفرقان: آیت 4 - وقال الذين كفروا إن هذا... - اردو

آیت 4 کی تفسیر, سورۃ الفرقان

وَقَالَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ إِنْ هَٰذَآ إِلَّآ إِفْكٌ ٱفْتَرَىٰهُ وَأَعَانَهُۥ عَلَيْهِ قَوْمٌ ءَاخَرُونَ ۖ فَقَدْ جَآءُو ظُلْمًا وَزُورًا

اردو ترجمہ

جن لوگوں نے نبیؐ کی بات ماننے سے انکار کر دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ فرقان ایک من گھڑت چیز ہے جسے اِس شخص نے آپ ہی گھڑ لیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اِس کام میں اس کی مدد کی ہے بڑا ظلم اور سخت جھوٹ ہے جس پر یہ لوگ اتر آئے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqala allatheena kafaroo in hatha illa ifkun iftarahu waaAAanahu AAalayhi qawmun akharoona faqad jaoo thulman wazooran

آیت 4 کی تفسیر

(وقال الذین کفروا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غفورا رحیما) (4 تا 6) ” “۔ “۔

یہ تھا وہ جھوٹ جو اہل قریش نبی ﷺ پر باندھتے تھے۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ بہت ہی بڑا افتراء ہے۔ کیونکہ قریش کے کبراء عوام کو جن باتوں کی تعلیم دیتے تھے ‘ ان سے یہ بات کس طرح مخفی رہ سکتی تھی کہ حضرت محمد ﷺ جس قرآن کی تلاوت فرما رہے ہیں وہ بشری اسالیب کلام سے بالکل ایک مختلف کلام ہے۔ وہ اس بات کو اپنے دل میں اچھی طرح محسوس کرتے تھے کیونکہ وہ انسانی اسالیب کلام سے اچھی طرح واقف تھے۔ جب وہ قرآن سنتے تھے تو وہ خود بھی اس سے بےحد متاثر ہوجاتے تھے۔ پھر بعثت سے قبل حضرت محمد ﷺ کے بارے میں ان کو پورا پورا یقین تھا کہ حضرت محمد ﷺ صادق اور امین ہیں۔ وہ نہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔ نہ خیانت کرنے والے تھے۔ پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ اللہ پر جھوٹ باندھیں۔ ایک بات اللہ نے نہیں کہی اور حضرت محمد ﷺ یہ کہیں کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔

وہ ایک توعناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ الزام لگاتے تھے اور دوسری وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں کو دوسرے عرب کے مقابلے میں مکہ میں ایک قسم کی دینی سیادت حاصل تھی اور اس کی وجہ سے عربوں میں ان کا ممتاز مقام تھا ‘ اس وجہ سے وہ عام عربوں میں یہ الزام پھیلاتے تھے کیونکہ عام عرب اسالیب کلام سے واقف نہ تھے۔ اور نہ وہ قرآن اور عام کلام میں فرق کرسکتے تھے۔ اس لیے وہ کہتے۔

(ان ھذا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قوم اخرون) (25 : 4) ” یہ فرقان ایک من گھڑت چیز ہے اور اس پر اسے خود گھڑ لیا ہے اور اس پر کچھ دوسرے لوگوں نے اس کی مدد کی ہے “۔ روایات میں تین یا زیادہ عجمی غلاموں کے نام لیے گئے ہیں کہ قوم اخرون (25 : 4) میں یہ لوگ اس طرف اشارہ کرتے تھے۔ یہ بات کس قدر بےتکی تھی۔ یہ اس قابل ہی نہ تھی کہ اس پر کوئی بحث کی جائے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس قسم کا کلام چند عجمی غلاموں کی امداد سے بنایا جاسکتا تھا تو آخر انہوں نے اس کے جواب میں کیوں ایسا کلام نہ بتایا۔ اس طرح تو وہ بڑی آسانی کے ساتھ حضرت محمد ﷺ کے دعوائے نبوت کو باطل کرسکتے تھے جبکہ قرآن کریم نے ان کو بار با چیلنج بھی کیا اور وہ بار بار ایسا کلام لانے میں ناکام بھی رہے۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے یہاں ان کی اس بات کا کوئی جواب ہی نہیں دیا بلکہ اس کی واضح تردید کردی۔

فقد جآء و اظلما وزورا (25 : 4) ” بڑا ظلم اور سخت جھوٹ ہے جس پر یہ لوگ اتر آئے ہیں “۔ یہ سچائی پر ظلم کرتے ہیں۔ حضرت محمد ﷺ پر ظلم کرتے ہیں ‘ اپنے نفوس پر ظلم کرتے ہیں ‘ ان کا جھوٹ واضح ہے اور بادی النظر میں باطل ہے۔ جس کی تردید کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

مزید الزامات حضور اکرم ﷺ پر اور قرآن مجید کے متعلق

(وقالوا۔۔۔۔۔۔۔ واصیلا) (25 : 5) ” کہتے ہیں کہ یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں “ قرآن کریم نے اقوام سابقہ کے قصص نقل کیے ہیں۔ یہ عبرت ‘ نصیحت ‘ تربیت اور ہدایت کی خاطر۔ ان سچے قصوں کے بارے میں وہ کہتے ہیں۔

اساطیرالآ ولین (25 : 5) کہ یہ پرانے لوگوں کی کہانیاں ہیں اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگوں سے کہا کہ یہ اس کے لیے نوٹ کرلی جائیں تاکہ اس پر صبح و شام پڑھی جائیں کیونکہ حضور ﷺ خود تو امی تھے ‘ لکھ پڑھ نہ سکتے تھے اور خود حضور اکرم ﷺ ان کہانیوں کو پھر خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے تھے۔ ان کے اس دعویٰ کے اندر ہی شکست پوشیدہ ہے کیونکہ ان کا دعویٰ ہی بےبنیاد ہے۔ اس قدر پوچ کہ اس پر بحث کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ قرآن کریم نے قصص کو جس انداز میں پیش کیا ہے۔ وہ جس مقصد کے لیے لائے جاتے ہیں۔ ان سے جو استدلال کیا جاتا ہے اور جس طرح نفاست کے ساتھ وہ اپنے مقصد کو پورا کرتے ہیں اور ان سے جس گہرائی کے ساتھ مقاصد عالیہ ثابت ہوتے ہیں ‘ ان میں اور پرانے قصے کہانیوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ کیونکہ پرانے قصوں میں کوئی فکر اور کوئی نظر یہ نہیں ہوتا ‘ نہ ان قصوں کے پیش نظر کچھ مقاصد ہوتے ہیں۔ یہ قصے محض تفریح کی لیے اور فارغ اوقات میں اپنے آپ کو مصروف کرنے کے لیے ‘ لکھے اور پڑھے جاتے ہیں فقط۔ (تفصیلات کے لیے دیکھئے ” التصویر الغنی فی القرآن “ کا فصل ” القصہ “۔

انہوں نے قرآن کریم کو اساطیر الاولین (25 : 5) کہا ہے ‘ اشارہ اس طرف ہے کہ یہ قصے بہت ہی پرانے زمانے کے ہیں۔ لہذا محمد ﷺ پر لازماً وہ لوگ پڑھتے ہوں گے۔ ان کا علم حاصل کرنے چلے آتے ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ ان کے اس الزام کا رد یوں کرتا ہے کہ بیشک حضرت محمد ﷺ پر ان کا نزول اس ذات کی طرف سے ہورہا ہے جو ہر علم والے سے زیادہ علیم ہے۔ وہ تمام اسرار و رموز کا جاننے والا ہے یعنی اللہ اور اللہ پر اولین اور آخرین کا کوئی علم پوشیدہ نہیں ہے۔

قل انزلہ الذی یعلم السر فی السموت والارض (25 : 6) ” اے نبی ﷺ ان سے کہو کہ اسے نازل کیا ہے ‘ اس نے جو زمین و آسمان کا بھید جانتا ہے “۔ قصص گویا ن دنیا کہاں اور وہ علیم وخبیر کہاں۔ انسان کا محدود علم اور ارض و سما کے وسیع علم رکھنے والے اللہ کے علم کامل و شامل کا مقابلہ ہی کیا ہے۔ یاک حقیر قطرے اور ایک بحرنا پیدا کنار کا کیا مقابلہ ہوسکتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ بڑی غلطی کررہے ہیں جو رسول اللہ ﷺ پر یہ بوگس اور پوچ الزام عائد کرتے ہیں جبکہ وہ اللہ کے ساتھ شرک کے قائل ہیں حالانکہ اللہ نے ان کی تخلیق کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود توبہ کا دروازہ کھلا ہے اور اس عظیم گناہ سے وہ باز آسکتے ہیں۔ اللہ جو زمین و آسمانوں کے بھیدوں کا واقف ہے۔ وہ ان کی افتراء پر دازیوں اور ان کی سازشوں سے خوب خبردار ہے لیکن اس کے باوجود وہ غفور و رحیم ہے۔ انہ کان غفورا رحیما (25 : 6)

اسی موضوع پر بات مزید آگے بڑھتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں ان کے مزید اعتراضات کہ آپ بشر کیوں ہیں اور دسرے لفو مطالبات کو یہاں بیان کیا جاتا ہے۔

آیت 4 وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ ہٰذَآ اِلَّآ اِفْکُ نِ افْتَرٰٹہُ وَاَعَانَہٗ عَلَیْہِ قَوْمٌ اٰخَرُوْنَ ج ”قرآن مجید میں فراہم کردہ معلومات اور تفصیلات کو دیکھتے ہوئے مشرکین مکہ یہ سمجھتے تھے کہ کوئی بھی اکیلا آدمی ایسا کلام مرتب نہیں کرسکتا۔ چناچہ وہ حضور ﷺ پر یہ الزام لگاتے تھے کہ آپ ﷺ کے پیچھے کچھ اور لوگ بھی ہیں جو خفیہ طور پر اس کتاب کی تصنیف میں آپ ﷺ کی مدد کر رہے ہیں۔ گویا آپ ﷺ نے اس کام کے لیے ایک ادارۂ تحریر تشکیل دے رکھا ہے۔فَقَدْ جَآءُ وْ ظُلْمًا وَّزُوْرًا ”یعنی ایسی باتیں کر کے یہ لوگ یقینی طور پر افترا اور ظلم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

خود فریب مشرک مشرکین ایک جہالت اوپر کی آیتوں میں بیان ہوئی۔ جو ذات الہٰی کی نسبت تھی۔ یہاں دوسری جہالت بیان ہو رہی ہے جو ذات رسول ﷺ کی نسبت ہم وہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو تو اس نے اوروں کی مدد سے خود ہی جھوٹ موٹ گھڑ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ ان کا ظلم اور جھوٹ ہے جس کے باطل ہونے کا خود انہیں بھی علم ہے۔ جو کچھ کہتے ہیں وہ خود اپنی معلومات کے بھی خلاف کہتے ہیں۔ کبھی ہانک لگانے لگتے ہیں کہ اگلی کتابوں کے قصے اس نے لکھوالئے ہیں وہی صبح شام اس کی مجلس میں پڑھے جا رہے ہیں۔ یہ جھوٹ بھی وہ ہے جس میں کسی کو شک نہ ہوسکے اس لئے کہ صرف اہل مکہ ہی نہیں بلکہ دنیا جانتی ہے کہ ہمارے نبی امی تھے نہ لکھنا جانتے تھے نہ پڑھنا چالیس سال کی نبوت سے پہلے کی زندگی آپ کی انہی لوگوں میں گزر رہی تھی اور وہ اس طرح کہ اتنی مدت میں ایک واقعہ بھی آپ کی زندگی کا یا اک لمحہ بھی ایسا نہ تھا جس پر انگلی اٹھا سکے ایک ایک وصف آپ کا وہ تھا جس پر زمانہ شیدا تھا جس پر اہل مکہ رشک کرتے تھے آپ کی عام مقبولیت اور محبوبیت بلند اخلاقی اور خوش معاملگی اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ ہر ایک دل میں آپ کے لئے جگہ تھی۔ عام زبانیں آپ کو محمد ﷺ امین کے پیارے خطاب سے پکارتی تھیں دنیا آپ کے قدموں تلے آنکھیں بچھاتی تھی۔ کو نسا دل تھا جو محمد ﷺ کا گھر نہ ہو کون سی آنکھ تھی جس میں احمد ﷺ کی عزت نہ ہو ؟ کون سا مجمع تھا جس کا ذکر خیر نہ ہو ؟ کون وہ شخص تھا جو آپ کی بزرگی صداقت امانت نیکی اور بھلائی کا قائل نہ ہو ؟ پھر جب کہ اللہ کی بلند ترین عزت سے آپ معزز کئے گئے آسمانی وحی کے آپ امین بنائے گئے تو صرف باپ دادوں کی روش کو پامال ہوتے ہوئے دیکھ کر یہ بیوقوف بےپیندے لوٹے کی طرح لڑھک گئے تھالی کے بینگن کی طرح ادھر سے ادھر ہوگئے، لگے باتیں بنانے، اور عیب جوئی کرنے لیکن جھوٹ کے پاؤں کہاں ؟ کبھی آپ کو شاعر کہتے، کبھی ساحر، کبھی مجنوں اور کبھی کذاب، حیران تھے کہ کیا کہیں اور کس طرح اپنی جاہلانہ روش کو باقی رکھیں اور اپنے معبودان باطل کے جھنڈے اوندھے نہ ہونے دیں اور کس طرح ظلم کدہ دنیا کو نورالہٰی سے نہ جگمگانے دیں ؟ اب انہیں جواب ملتا ہے کہ قرآن کی سچی حقائق پہ مبنی اور سچی خبریں اللہ کی دی ہوئی ہیں جو عالم الغیب ہے، جس سے ایک ذرہ بھی پوشیدہ نہیں۔ اس میں ماضی کے بیان سبھی سچ ہیں۔ جو آئندہ کی خبر اس میں ہے وہ بھی سچ ہے اللہ کے سامنے ہوچکی ہوئی اور ہونے والی بات یکساں ہے۔ وہ غیب کو بھی اسی طرح جانتا ہے جس طرح ظاہر کو۔ اس کے بعد اپنی شان غفاریت کو اور شان رحم وکرم کو بیان فرمایا تاکہ بد لوگ بھی اس سے مایوس نہ ہوں کچھ بھی کیا ہو۔ اب بھی اس کی طرف جھک جائیں۔ توبہ کریں۔ اپنے کئے پر پچھتائیں۔ نادم ہوں۔ اور رب کی رضا چاہیں۔ رحمت رحیم کے قربان جائیے کہ ایسے سرکش ودشمن، اللہ و رسول پر بہتان باز، اس قدر ایذائیں دینے والے لوگوں کو بھی اپنی عام رحمت کی دعوت دیتا ہے اور اپنے کرم کی طرف انہیں بلاتا ہے۔ وہ اللہ کو برا کہیں، وہ رسول ﷺ کو برا کہیں، وہ کلام اللہ پر باتیں بنائیں اور اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت کی طرف رہنمائی کرے اپنے فضل وکرم کی طرف دعوت دے۔ اسلام اور ہدایت ان پر پیش کرے اپنی بھلی باتیں ان کو سجھائے اور سمجھائے۔ چناچہ اور آیت میں عیسائیوں کی تثلیث پرستی کا ذکر کر کے ان کی سزا کا بیان کرتے ہوئے فرمایا آیت (اَفَلَا يَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ وَيَسْتَغْفِرُوْنَهٗ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 74؀) 5۔ المآئدہ :74) یہ لوگ کیوں اللہ سے توبہ نہیں کرتے ؟ اور کیوں اس کی طرف جھک کر اس سے اپنے گناہوں کی معافی طلب نہیں کرتے ؟ وہ تو بڑا ہی بخشنے والا اور بہت ہی مہربان ہے۔ مومنوں کو ستانے اور انہیں فتنے میں ڈالنے والوں کا ذکر کر کے سورة بروج میں فرمایا کہ اگر ایسے لوگ بھی توبہ کرلیں اپنے برے کاموں سے ہٹ جائیں، باز آئیں تو میں بھی ان پر سے اپنے عذاب ہٹالوں گا اور رحمتوں سے نواز دونگا۔ امام حسن بصری ؒ نے کیسے مزے کی بات بیان فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں اللہ کے رحم وکرم کو دیکھو یہ لوگ اس کے نیک چہیتے بندوں کو ستائیں ماریں قتل کریں اور وہ انہیں توبہ کی طرف اور اپنے رحم وکرم کی طرف بلائے ! فسبحانہ ما اعظم شانہ۔

آیت 4 - سورۃ الفرقان: (وقال الذين كفروا إن هذا إلا إفك افتراه وأعانه عليه قوم آخرون ۖ فقد جاءوا ظلما وزورا...) - اردو