اب جبکہ انہوں نے اور رسول اللہ ﷺ نے دیکھ لیا کہ ان لوگوں نے افترائ ‘ تکذیب اور استہزاء کی انتہا کردی ہے اور یہاں تک انہوں نے رسول اللہ کی بشریت ‘ اس کی بازاروں میں چلت پھرت اور کھانے پینے پر بھی اعتراض کردیا ہے ‘ تو حضور اکرم کی طرف روئے سخن پھرجاتا ہے اور آپ کو تسلی دی جاتی ہے اور آپ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ صرف آپ ہی کو رسول ایسا نہیں بنایا گیا کہ ان لوگوں کو تعجب ہو رہا ہے بلکہ تمام رسول ایسے ہی تھے جس طرح آپ ہیں اور ان کے حالات بھی ایسے تھے جس طرح آپ کے ہیں۔
وما ارسلنا۔۔۔۔۔۔ ربک بصیرا اگر یہ لوگ اعتراضات کر رہے ہیں تو یہ آپ کی ذات پر معترض نہیں ہیں۔ یہ تو ان کی ایک سنت اور اللہ کے ایک مستقل طریقہ کا رپر یہ لوگ معترض ہیں۔ یہ طریق کار طے شدہ ہے۔ مقرر اور متعین ہے۔ اور اس کا ایک متعین انجام ہے۔
وجعلنا ۔۔۔۔ فتنتہ (25 : 20) ” دراصل ہم نے تم لوگوں کو ایک دوسرے کے لیے آزمائش کا ذریعہ بنادیا ہے “۔ تاکہ جو لوگ اللہ کی حکمت اور تدبیر کو نہیں جانتے۔ وہ اعتراض کرتے رہیں اور جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں اور اس کی حکمت اور اس کے تصرفات کو جانتے ہیں وہ صبر کرتے رہیں اور دعوت اسلامی غالب ہو اور غلبے کا مقابلہ کرنے اور اس مقابلے اور کشمکش میں انسانی وسائل استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ اس کشمکش میں جو شخص ثابت قدم رہے وہ کامیاب ہوئے۔
اتصبرون (25 : 20) ” کیا تم صبر کرتے ہو ؟ “ یعنی کیا تم مشکلات پر صبر کروگے۔ تو
وکان ربک بصیرا (25 : 20) ” تمہارا رب سب کچھ دیکھتا ہے “۔ وہ تمام لوگوں کے مزاج کو دیکھ رہا ہے۔ تمام دلوں کو دیکھ رہا ہے ‘ اور تمام لوگوں کے حالات اور انجام کا اسے علم ہے۔ تمہارا پورا اجر ملے گا۔
وکان ربک (25 : 20) میں اللہ نے اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کا رب کہہ کر پکارا ہے۔ اس انداز بیان سے دل پر خوب اثر ہوتا ہے۔ دل تروتازہ ہوجاتا ہے۔ اسے تسلی ہوتی ہے اور سکون ملتا ہے۔ اور وہ ازسر نو جدوجہد کے لیے تیار ہوتا ہے۔ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اے محمد ہم دیکھ رہے ہیں ‘ تمہارے ساتھ ہیں ‘ فکر مت کرو ‘ نہ صرف یہ کہ ظاہری حالات ہماری نظر میں ہیں بلکہ نہایت خفیہ اور دلوں کی بات بھی ہماری نظر میں ہے۔ اس انداز بیان سے اللہ اپنے آپ کو اپنے بندوں کے قریب بتاتا ہے۔
اَتَصْبِرُوْنَج وَکَانَ رَبُّکَ بَصِیْرًا ”اس مصلحت کو سمجھ لینے کے بعد اب تمہارے لیے صبر و استقامت کی روش ناگزیر ہے۔
کافر جو اس بات پر اعتراض کرتے تھے کہ نبی کو کھانے پینے اور تجارت بیوپار سے کیا مطلب ؟ اس کا جواب ہو رہا ہے کہ اگلے سب پیغمبر بھی انسانی ضرورتیں بھی رکھتے تھے کھانا پینا ان کے ساتھ بھی لگا ہوا تھا۔ بیوپار، تجارت اور کسب معاش وہ بھی کیا کرتے تھے یہ چیزیں نبوت کے خلاف نہیں۔ ہاں اللہ تعالیٰ عزوجل اپنی عنایت خاص سے انہیں وہ پاکیزہ اوصاف نیک خصائل عمدہ اقوال مختار افعال ظاہر دلیلیں اعلیٰ معجزے دیتا ہے کہ ہر عقل سلیم والا ہر دانا بینا مجبور ہوجاتا ہے کہ ان کی نبوت کو تسلیم کرلے اور ان کی سچائی کو مان لے۔ اسی آیت جیسی اور آیت (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ اِلَيْهِمْ فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ 43ۙ) 16۔ النحل :43) ، ہے۔ یعنی تجھ سے پہلے بھی جتنے نبی آئے سب شہروں میں رہنے والے انسان ہی تھے۔ اور آیت میں ہے۔ (وَمَا جَعَلْنٰهُمْ جَسَدًا لَّا يَاْكُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوْا خٰلِدِيْنَ) 21۔ الأنبیاء :8) ، ہم نے انہیں ایسے جثے نہیں بنا رہے تھے کہ کھانے پینے سے وہ آزاد ہوں۔ ہم تو تم میں سے ایک ایک کی آزمائش ایک ایک سے کرلیا کرتے ہیں تاکہ فرمانبردار اور نافرمان ظاہر ہوجائیں۔ صابر اور غیر صابر معلوم ہوجائیں۔ تیرا رب دانا وبینا ہے خوب جانتا ہے کہ مستحق نبوت کون ہے ؟ جیسے فرمایا آیت (اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ۭسَيُصِيْبُ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَعَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا كَانُوْا يَمْكُرُوْنَ01204) 6۔ الانعام :124) منصب رسالت کی اہلیت کس میں ہے ؟ اسے اللہ ہی بخوبی جانتا ہے۔ اسی کو اس کا علم ہے کہ مستحق ہدایت کون ہیں ؟ اور کون نہیں ؟ چونکہ اللہ کا ارادہ بندوں کا امتحان لینے کا ہے اس لئے نبیوں کو عموما معمولی حالت میں رکھتا ہے ورنہ اگر انہیں بکثرت دنیا دیتا ہے تو ان کے مال کے لالچ میں بہت سے ان کے ساتھ ہوجاتے ہیں تو پھر سچے جھوٹے مل جاتے۔ صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں خود تجھے اور تیری وجہ سے اور لوگوں کو آزمانے والا ہوں۔ مسند میں ہے آپ فرماتے ہیں اگر میں چاہتا تو میرے ساتھ سونے چاندی کے پہاڑ چلتے رہتے اور صحیح حدیث شریف میں ہے کہ آنحضرت ﷺ کو نبی اور بادشاہ بننے میں اور نبی بننے میں اختیار دیا گیا ہے تو آپ نے بندہ اور نبی بننا پسند فرمایا۔ فصلوات اللہ وسلامہ علیہ وعلی الہ واصحابہ اجمعین