اس صفحہ میں سورہ Al-Furqaan کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ الفرقان کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔
و یوم یحشرھم۔۔۔۔۔ نذقہ عذابا کبیرا
جن لوگوں کی مشرکین بندگی کرتے تھے بعض اوقات تو وہ بت ہوتے تھے ‘ کبھی وہ ملائکہ اور جن ہوتے تھے اور کبھی دوسرے معبود ہوتے تھے۔ جن کو اللہ خوب جانتا ہے ‘ لیکن اس کھلے میدان میں ان سے یہ سوال کرنا جواب طلب کرنا جب کہ سب کو اس مقصد کے لیے جمع کیا گیا ہوگا ‘ زیادہ تشہیر اور شرمندہ کرنے کے لیے ہوگا۔ تشہیر جرم اور شرمندہ کرنا بھہ دراصل ایک قسم کی سزا ہے اور جواب جو آ رہا ہے وہ ان نام نہاد الموں کی طرف سے اللہ کے سامنے مکمل طور پر جھکناثابت کرتا ہے۔ اب یہ اللہ قہار اور مالک الملک کے سامنے مطیع فرمان کھڑے ہیں۔ اور نہ صرف یہ کہ وہ اپنی الوہیت کا انکار کرتے ہیں بلکہ وہ اس بات سے بھی انکار کرتے ہیں کہ ان بیوقوفوں سے ان کی کوئی دوستی یا تعلق تھا۔ اس سے زیادہ مشرکین کے لیے اور شرمندگی کیا ہوگی کہ جن کو وہ الہٰ سمجھتے ہیں وہ ان کے اس تعلق سے بھی منکر ہوں گے۔
قالو اسبحنک۔۔۔۔۔ کانو اقوما بورا (25 : 18) ” وہ عرض کریں گے ” پاک ہے آپ کی ذلت ‘ ہماری تو یہ بھی مجال نہ تھی کہ آپ کے سوا کسی کو اپنا مولیٰ بنائیں۔ مگر آپ نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو خوب سامان زندگی دیا حتیٰ کہ یہ سبق بھول گئے اور شامت زدہ ہو کر رہے “۔ تو زندگی کا یہ مال ومتاع جو مسلسل ان لوگوں کو حاصل رہا ‘ جبکہ ان کو یہ معرفت بھی نہ تھی کہ یہ انعامات دینے والا بھی کوئی ہے اور نہ وہ دینے والے کا کوئی شکر ادا کرتے تھے تو اس غفلت نے ان کے دلوں سے ان انعامات کا احساس ہی دور کردیا۔ یہ لوگ سب کچھ بھول گئے۔ چناچہ ان کے دل اس طرح خشک اور غیر آباد ہوگئے جس طرح خشک سالی کے نتیجے میں زمین غیر آباد ہو کر بےآب وگیاہ ہوجاتی ہے۔ یہاں لفظ بوار استعمال ہوا ہے جو ہلاکت کے معنی میں آتا ہے۔ لیکن ہلاکت کے ساتھ اس کے مفہوم میں خشک سالی اور بےآب وگیاہ ہونا بھی داخل ہے یعنی دلوں کی خشکی اور زندگی کا خلا۔
چناچہ یہاں اس مقام پر انہیں توہین آمیز خطاب کے ذریعہ شرمسار کیا جاتا ہے :
فقد کذبو۔۔۔۔۔ صرفا و نانصرا (25 : 19) ” یوں جھٹلادیں گے وہ (تمہارے معبود) تمہاری ان باتوں کو جو آج تم کہہ رہے ہو ‘ پھر تم نہ اپنی شامت کو ٹال سکو گے نہ کہیں سے مدد پاسکو گے “۔ یعنی نہ اس مصیبت کا منہ کسی اور طرف موڑ سکو گے اور نہ کسی جانب سے تمہیں کوئی امداد مل سکے گی۔
یہ منظر تو آخرت کا چل رہا ہے اور حشر کا میدان ہے لیکن بیچ میں ایک جھلک دنیا کی بھی دکھا دی جاتی ہے۔ یہ مکذبین اب زمین پر اس دنیا ہی میں نظر آتے ہیں۔ اور ان سے کہا جاتا ہے۔
ومن یظلم۔۔۔۔۔ کبیرا (25 : 19) ” اور جو تم میں سے ظلم کرے اسے ہم سخت عذاب کا مزہ چکھائیں گے “۔ اور قرآن کریم کا ایک مخصوص اسلوب ہے کہ وہ دلوں کو اس وقت چھوتا ہے جب وہ قبولیت کے لیے تیار ہوتے ہیں اور قیامت کا خوفناک منظر دیکھ کر وہ بات ماننے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں۔
اب جبکہ انہوں نے اور رسول اللہ ﷺ نے دیکھ لیا کہ ان لوگوں نے افترائ ‘ تکذیب اور استہزاء کی انتہا کردی ہے اور یہاں تک انہوں نے رسول اللہ کی بشریت ‘ اس کی بازاروں میں چلت پھرت اور کھانے پینے پر بھی اعتراض کردیا ہے ‘ تو حضور اکرم کی طرف روئے سخن پھرجاتا ہے اور آپ کو تسلی دی جاتی ہے اور آپ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ صرف آپ ہی کو رسول ایسا نہیں بنایا گیا کہ ان لوگوں کو تعجب ہو رہا ہے بلکہ تمام رسول ایسے ہی تھے جس طرح آپ ہیں اور ان کے حالات بھی ایسے تھے جس طرح آپ کے ہیں۔
وما ارسلنا۔۔۔۔۔۔ ربک بصیرا اگر یہ لوگ اعتراضات کر رہے ہیں تو یہ آپ کی ذات پر معترض نہیں ہیں۔ یہ تو ان کی ایک سنت اور اللہ کے ایک مستقل طریقہ کا رپر یہ لوگ معترض ہیں۔ یہ طریق کار طے شدہ ہے۔ مقرر اور متعین ہے۔ اور اس کا ایک متعین انجام ہے۔
وجعلنا ۔۔۔۔ فتنتہ (25 : 20) ” دراصل ہم نے تم لوگوں کو ایک دوسرے کے لیے آزمائش کا ذریعہ بنادیا ہے “۔ تاکہ جو لوگ اللہ کی حکمت اور تدبیر کو نہیں جانتے۔ وہ اعتراض کرتے رہیں اور جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں اور اس کی حکمت اور اس کے تصرفات کو جانتے ہیں وہ صبر کرتے رہیں اور دعوت اسلامی غالب ہو اور غلبے کا مقابلہ کرنے اور اس مقابلے اور کشمکش میں انسانی وسائل استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ اس کشمکش میں جو شخص ثابت قدم رہے وہ کامیاب ہوئے۔
اتصبرون (25 : 20) ” کیا تم صبر کرتے ہو ؟ “ یعنی کیا تم مشکلات پر صبر کروگے۔ تو
وکان ربک بصیرا (25 : 20) ” تمہارا رب سب کچھ دیکھتا ہے “۔ وہ تمام لوگوں کے مزاج کو دیکھ رہا ہے۔ تمام دلوں کو دیکھ رہا ہے ‘ اور تمام لوگوں کے حالات اور انجام کا اسے علم ہے۔ تمہارا پورا اجر ملے گا۔
وکان ربک (25 : 20) میں اللہ نے اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کا رب کہہ کر پکارا ہے۔ اس انداز بیان سے دل پر خوب اثر ہوتا ہے۔ دل تروتازہ ہوجاتا ہے۔ اسے تسلی ہوتی ہے اور سکون ملتا ہے۔ اور وہ ازسر نو جدوجہد کے لیے تیار ہوتا ہے۔ یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اے محمد ہم دیکھ رہے ہیں ‘ تمہارے ساتھ ہیں ‘ فکر مت کرو ‘ نہ صرف یہ کہ ظاہری حالات ہماری نظر میں ہیں بلکہ نہایت خفیہ اور دلوں کی بات بھی ہماری نظر میں ہے۔ اس انداز بیان سے اللہ اپنے آپ کو اپنے بندوں کے قریب بتاتا ہے۔