سورۃ البقرہ: آیت 88 - وقالوا قلوبنا غلف ۚ بل... - اردو

آیت 88 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

وَقَالُوا۟ قُلُوبُنَا غُلْفٌۢ ۚ بَل لَّعَنَهُمُ ٱللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلًا مَّا يُؤْمِنُونَ

اردو ترجمہ

وہ کہتے ہیں، ہمارے دل محفوظ ہیں نہیں، اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہے، اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqaloo quloobuna ghulfun bal laAAanahumu Allahu bikufrihim faqaleelan ma yuminoona

آیت 88 کی تفسیر

یہاں آکر قرآن کریم کا انداز بیان عنیف وشدید ہوجاتا ہے اور بعض مقامات پر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا بجلی گررہی ہے یا آگ برس رہی ہے ۔ قرآن کریم ، کود ان کے اقوال اور ان کے تاریخی افعال میں ان کے سامنے رکھ کر ، انہیں اس طرح آڑے ہاتھوں لیتا ہے کہ بیچارے بالکل لاجواب ہوجاتے ہیں ۔ ان کے پاس کوئی حجت نہیں رہتی ۔ نہ ہی وہ کوئی معذرت پیش کرسکتے ہیں ۔ درحقیقت تو وہ ازروئے استکبار سچائی قبول کرنے سے اعراض کرتے تھے ۔ ان کے دلوں میں اسلام کے خلاف بغض بھرا ہوا تھا ، وہ مسلمانوں کو حقیر سمجھ کر ان سے دوری اختیار کئے ہوئے تھے ، انہیں یہ بات بےحد پسند تھی کہ ان کے علاوہ کوئی بھی یہ مقام بلند پائے اور ان کے دلوں کو یہ حسد کھائے جارہا تھا کہ اللہ کا یہ فضل وکرم مسلمانوں پر کیوں ہورہا ہے ؟ لیکن لوگوں کو دکھانے کی خاطر اسلام قبول کرنے کی مذکورہ بالاوجوہات بیان کرتے تھے ۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے سختی سے ردّ کردیا کیونکہ اللہ اور رسول کے مقابلے میں ان کے منکرانہ اور متمرادانہ موقف کا یہی علاج تھا۔

وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلا مَا يُؤْمِنُونَ ” اور وہ کہتے ہیں کہ ” ہمارے دل محفوظ ہیں۔ “ اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہے ۔ اس لئے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔ “

وہ کہتے تھے کہ ہمارے دلوں کے اوپر غلاف چڑھے ہوئے ہیں ۔ ان تک کوئی جدید دعوت نہیں پہنچ سکتی ۔ نہ ہی کسی نئے داعی کی پکار سننے کے لئے تیار ہیں ۔ یہ بات وہ اس لئے کہتے تھے کہ نبی ﷺ اور مسلمانوں کو مایوس کردیں تاکہ وہ انہیں اس دین جدید کی طرف بلانا ہی چھوڑ دیں ، نیز وہ یہ باتیں نبی ﷺ کی دعوت قبول نہ کرنے کی علت کے طور پر کہتے تھے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ ان کی ان باتوں کو رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ بَلْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ ” بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان اللہ کی پھٹکار پڑی ہے۔ “ یعنی ان کے مسلسل انکار کی وجہ سے اللہ نے انہیں بطور سزا ہدایت سے بہرہور ہونے سے محروم کردیا اور اس روشنی کے درمیان پردے حائل ہوگئے ۔ فَقَلِيلا مَا يُؤْمِنُونَ ” اس لئے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں ۔ “

یعنی چونکہ اپنے مسلسل کفر اور قدیم گمراہی کی وجہ سے وہ راہ حق سے دور جاپڑے ہیں ۔ اور اللہ نے بطور سزا انہیں محروم بھی کردیا ہے ۔ اس لئے وہ ہم ہی ایمان لاتے ہیں ۔ نیز اس آیت کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے ۔” چونکہ وہ کافرانہ روش اختیار کئے ہوئے ہیں ، اس لئے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔ “ یعنی یہ ان کی مستقل روش ہے جس پر وہ قائم ہیں ۔ دونوں مفہوم سیاق کلام سے مناسبت رکھتے ہیں ۔

آیت 88 وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ ط ان کے اس جواب کو آیت 75 کے ساتھ ملایئے جو ہم پڑھ آئے ہیں۔ وہاں الفاظ آئے ہیں : اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَکُمْ تو اے مسلمانو ! کیا تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمہاری بات مان لیں گے ؟ بعض مسلمانوں کی اس خواہش کے جواب میں یہود کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ ہمارے دل تو غلافوں میں محفوظ ہیں ‘ تمہاری بات ہم پر اثر نہیں کرسکتی۔ اس طرح کے الفاظ آپ کو آج بھی سننے کو مل جائیں گے کہ ہمارے دل بڑے محفوظ ہیں ‘ بڑے مضبوط اور مستحکم ہیں ‘ تمہاری بات ان میں گھر کر ہی نہیں سکتی۔بَلْ لَّعَنَہُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِہِمْ یہ ان کے اس قول پر تبصرہ ہے کہ ہمارے دل محفوظ ہیں اور غلافوں میں بند ہیں۔فَقَلِیْلاً مَّا یُؤْمِنُوْنَ

خلف کے معنی یہودیوں کا ایک قول یہ بھی تھا کہ ہمارے دلوں پر غلاف ہیں یعنی یہ علم سے بھرپور ہیں اب ہمیں نئے علم کی کوئی ضرورت نہیں اس لئے جواب ملا کہ غلاف نہیں بلکہ لعنت الہیہ کی مہر لگ گئی ہے ایمان نصیب ہی نہیں ہوتا خلف کو خلف بھی پڑھا گیا ہے یعنی یہ علم کے برتن ہیں اور جگہ قرآن کریم میں ہے آیت (وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِيْٓ اَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَيْهِ وَفِيْٓ اٰذَانِنَا وَقْرٌ وَّمِنْۢ بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ) 41۔ فصلت :5) یعنی جس چیز کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو اس چیز سے ہمارے دل پردے اور آڑ میں اور ہمارے دلوں کے درمیان پردہ ہے آڑ ہے ان پر مہر لگی ہوئی ہے وہ اسے نہیں سمجھتے اسی بنا پر وہ نہ اس کی طرف مائل ہوتے ہیں نہ اسے یاد رکھتے ہیں ایک حدیث میں بھی ہے کہ بعض دل غلاف والے ہوتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوتا ہے یہ کفار کے دل ہوتے ہیں سورة نساء میں بھی ایک آیت اسی معنی کی ہے آیت (وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ) 2۔ البقرۃ :88) تھوڑا ایمان لانے کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ ان میں سے بہت کم لوگ ایماندار ہیں اور دوسرے معنی یہ بھی ہیں کہ ان کا ایمان بہت کم ہے یعنی قیامت ثواب عذاب وغیرہ کا قائل۔ حضرت موسیٰ پر ایمان رکھنے والے توراۃ کو اللہ تعالیٰ کی کتاب مانتے ہیں مگر اس پیغمبر آخر الزمان ﷺ کو مان کر اپنا ایمان پورا نہیں کرتے بلکہ آپ کے ساتھ کفر کر کے اس تھوڑے ایمان کو بھی غارت اور برباد کردیتے ہیں تیسرے معنی یہ ہیں کہ یہ سرے سے بےایمان ہیں کیونکہ عربی زبان میں ایسے موقعہ پر بھی ایسے الفاظ بولے جاتے ہیں مثلاً میں نے اس جیسا بہت ہی کم دیکھا مطلب یہ ہے کہ دیکھا ہی نہیں۔ واللہ اعلم۔

آیت 88 - سورۃ البقرہ: (وقالوا قلوبنا غلف ۚ بل لعنهم الله بكفرهم فقليلا ما يؤمنون...) - اردو