سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 13 (آیات 84 سے 88 تک)

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَٰقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَآءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَٰرِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ ثُمَّ أَنتُمْ هَٰٓؤُلَآءِ تَقْتُلُونَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِّنكُم مِّن دِيَٰرِهِمْ تَظَٰهَرُونَ عَلَيْهِم بِٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَٰنِ وَإِن يَأْتُوكُمْ أُسَٰرَىٰ تُفَٰدُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ ۚ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ ٱلْكِتَٰبِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْىٌ فِى ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ ٱلْقِيَٰمَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰٓ أَشَدِّ ٱلْعَذَابِ ۗ وَمَا ٱللَّهُ بِغَٰفِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ أُو۟لَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ ٱشْتَرَوُا۟ ٱلْحَيَوٰةَ ٱلدُّنْيَا بِٱلْءَاخِرَةِ ۖ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ ٱلْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ وَلَقَدْ ءَاتَيْنَا مُوسَى ٱلْكِتَٰبَ وَقَفَّيْنَا مِنۢ بَعْدِهِۦ بِٱلرُّسُلِ ۖ وَءَاتَيْنَا عِيسَى ٱبْنَ مَرْيَمَ ٱلْبَيِّنَٰتِ وَأَيَّدْنَٰهُ بِرُوحِ ٱلْقُدُسِ ۗ أَفَكُلَّمَا جَآءَكُمْ رَسُولٌۢ بِمَا لَا تَهْوَىٰٓ أَنفُسُكُمُ ٱسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ وَقَالُوا۟ قُلُوبُنَا غُلْفٌۢ ۚ بَل لَّعَنَهُمُ ٱللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلًا مَّا يُؤْمِنُونَ
13

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

پھر ذرا یاد کرو، ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ ایک دوسرے کو گھر سے بے گھر کرنا تم نے اس کا اقرار کیا تھا، تم خود اس پر گواہ ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith akhathna meethaqakum la tasfikoona dimaakum wala tukhrijoona anfusakum min diyarikum thumma aqrartum waantum tashhadoona

اب اس سے آگے بھی کلام بنی اسرائیل کی طرف ہی ہے ۔ قرآن کریم ان کو مخاطب کرکے بتاتا ہے کہ ان کے موقف میں کیا کیا تضادات پائے جاتے ہیں ۔ اور کہاں کہاں وہ اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنْتُمْ تَشْهَدُونَ (84)

” پھر یاد کرو ! ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ ایک دوسرے کو بےگھر کرنا ۔ تم نے اس کا اقرار کیا تھا اور تم اس پر گواہ ہو ۔ “ پھر اس اقرار اور شہادت اور گواہی کے بعد کیا ہوا ؟

اردو ترجمہ

مگر آج وہی تم ہو کہ اپنے بھائی بندوں کو قتل کرتے ہو، اپنی برادری کے کچھ لوگوں کو بے خانماں کر دیتے ہو، ظلم و زیادتی کے ساتھ ان کے خلاف جتھے بندیاں کرتے ہو، اور جب وہ لڑائی میں پکڑے ہوئے تمہارے پاس آتے ہیں، تو ان کی رہائی کے لیے فدیہ کا لین دین کرتے ہو، حالانکہ انہیں ان کے گھروں سے نکالنا ہی سرے سے تم پر حرام تھا تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں، ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں؟ اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے، جو تم کر رہے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma antum haolai taqtuloona anfusakum watukhrijoona fareeqan minkum min diyarihim tathaharoona AAalayhim bialithmi waalAAudwani wain yatookum osara tufadoohum wahuwa muharramun AAalaykum ikhrajuhum afatuminoona bibaAAdi alkitabi watakfuroona bibaAAdin fama jazao man yafAAalu thalika minkum illa khizyun fee alhayati alddunya wayawma alqiyamati yuraddoona ila ashaddi alAAathabi wama Allahu bighafilin AAamma taAAmaloona

ثُمَّ أَنْتُمْ هَؤُلاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِمْ بِالإثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِنْ يَأْتُوكُمْ أُسَارَى تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ

” مگر آج وہی تم ہو کہ اپنے بھائی بندوں کو قتل کرتے ہو ۔ اپنی برادری کے کچھ لوگوں کو بےخانماں کردیتے ہو۔ ظلم و زیادتی کرنے کے ساتھ ان کے خلاف جتھا بندیاں کرتے ہو ، اور جب لڑائی میں پکڑے ہوئے تمہارے پاس آتے ہیں تو ان کی رہائی کے لئے فدیہ کا لین دین کرتے ہو ۔ حالانکہ ان کو ان کے گھروں سے نکالنا ہی سرے سے تم پر حرام تھا تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو۔ “

یہ واقعہ جو قرآن کریم ان کے خلاف پیش کررہا ہے ، وہی تھا جو غلبہ اسلام سے کچھ زمانہ پہلے اوس اور خزرج کی جنگوں میں پیش آچکا تھا۔ اوس و خزرج مشرکین یثرب کے دوقبیلے تھے اور ان کے درمیان ایسی شدید دشمنی تھی جس کی مثال پورے عرب میں نہ تھی ۔ یثرب میں یہودیوں کے بھی تین قبائل تھے جن میں سے بعض ایک قبیلے اور بعض دوسرے قبیلے کے حلیف ہوتے تھے ۔ جب ان دوقبائل کے درمیان جنگ ہوتی تو ان کے یہودی حلیف بھی جنگ میں شریک ہوتے ۔ اس طرح بعض اوقات ایک یہودی مدمقابل کے حلیف دوسرے یہودی کو قتل کرتا اور اللہ کے ساتھ انہوں نے جو پختہ عہد باندھا تھا یہ اس کے سراسر خلاف تھا ۔ جب ایک قبیلے کا حلیف غالب آتا تو خود بنی اسرائیل ، بنی اسرائیل کو لوٹتے ۔ انہیں گھروں سے نکالتے ، ان کی عورتوں کو غلام بناتے حالانکہ میثاق کی نص کی رو سے یہ حرکت ان پر حرام تھی ۔ لیکن جب جنگ ختم ہوجاتی تو پھر یہ غالب یہودی مقابل کے مغلوب یہودیوں کا فدیہ دیتے ۔ انہیں قید اور غلامی سے رہائی دلاتے ۔ جہاں جہاں بھی وہ قید ہوتے خواہ اپنے کیمپ میں یا مخالفین کے کیمپ میں ہوتے ۔ اور یہ کام وہ تورات کے اس حکم پر عمل کرتے تھے جس میں کہا گیا تھا ” تجھے بنی اسرائیل کا جو شخص غلام ملے اسے خریدو اور رہا کرو۔ “

یہ تھا ان کی زندگی کا اہم تضاد اور اسے ان کے سامنے رکھ کر قرآن کریم ان سے پوچھتا ہے ،

أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ” تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو۔ “

اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ عہد کی صریح خلاف ورزی ہے ۔ اس لئے انہیں اس بات کی تہدید کی جاتی ہے کہ اس وجہ سے وہ دنیا میں ذلیل و خوار ہوں گے اور آخرت میں اس پر انہیں دردناک عذاب دیا جائے گا ۔ نیز انہیں تنبیہ کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ ان سے غافل ہے اور نہ ہی ایسی صریح غلطیوں کو معاف کرے گا ۔

اردو ترجمہ

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت بیچ کر دنیا کی زندگی خرید لی ہے، لہٰذا نہ اِن کی سزا میں کوئی تخفیف ہوگی اور نہ انہیں کوئی مدد پہنچ سکے گی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Olaika allatheena ishtarawoo alhayata alddunya bialakhirati fala yukhaffafu AAanhumu alAAathabu wala hum yunsaroona

اس کے بعد مسلمانوں کو خصوصاً اور تمام انسانیت کو عموماً خطاب کیا جاتا ہے ۔ اور بتایا جاتا ہے کہ ان یہودیوں کی حقیقت کیا ہے اور ان کے ان اعمال کا انجام کیا ہے ؟ جو وہ کررہے ہیں ۔

أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالآخِرَةِ فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلا هُمْ يُنْصَرُونَ ” یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت بیچ کر دنیا خرید لی ہے ۔ لہٰذا نہ ان کی سزا میں کوئی تخفیف ہوگی اور نہ انہیں کوئی مدد پہنچ سکے گی۔ “

سوال یہ ہے کہ انہوں نے آخرت بیچ کر دنیا کس طرح خرید لی ؟ وہ یوں کہ وہ اللہ کا عہد توڑنے پر محض اس لئے آمادہ ہوئے کہ وہ اپنے دنیاوی مفادات کی خاطر مشرکین کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو نبھائیں اور یہ ایسا عہد ہے جسے نباہنے میں لازماً انہیں اپنے دین اور اللہ کی کتاب کی خلاف ورزی کرنی پڑرہی ہے ۔

یاد رہے کہ دودھڑوں میں بٹ کر دو حلیفوں سے معاہدہ کرلینا ، بنی اسرائیل کا پراناحربہ ہے ۔ یہ ہمیشہ بین بین رہتے ہیں اور احتیاطاً باہم متحارب بلاکوں میں ہر ایک کے ساتھ ہوجاتے ہیں تاکہ جو بلاک بھی کامیاب ہو ، اس کے حاصل ہونے والے مفادات میں ان کا حصہ بہرحال محفوظ ہو ، جو گروہ بھی کامیاب ہو اس کی کامیابی یہودیوں کی کامیابی ہو۔ جن لوگوں کو اللہ پر اعتماد نہیں ہوتا اور جو اللہ کی رسی کو مضبوط تھامے ہوئے نہیں ہوتے ان کا طرز عمل ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے ۔ ایسے لوگ ہمیشہ عیاری اور چالبازی سے کام لیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اللہ کے مقابلے میں انہیں انسانوں کی مدد حاصل رہے ۔ وہ اللہ کے عہد و پیمان سے زیادہ انسان کے عہد و پیمان کو اہمیت دیتے ہیں ۔

لیکن ایمان تو انسان کو ہر اس عہد ومیثاق کے اندر شامل ہونے سے روکتا ہے جو احکام شریعت کے خلاف ہو اور جس سے اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کی خلاف ورزیاں لازم آتی ہیں ۔ کسی مصلحت کی خاطر یا بچاؤ کی کوئی تدبیر اختیار کرنے کی خاطر کوئی ایسا عہد نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ بچاؤ اس میں ہے کہ انسان اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کی پابندی کرے ۔ نیز سب سے بڑی مصلحت یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے احکام بجالائے اور اپنے دین کا اتباع کرے ۔

یہ تھا بنی اسرائیل کا طرز عمل ، ان کے مصلحین اور انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ ! قرآن کریم کے اس طرز عمل کو بالتفصیل بیان کرتا ہے اور مسلمہ واقعات کی روشنی میں اسے ثابت کرتا ہے اور پھر اچانک ان کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے اور نبی آخرالزماں اور اس نئی اور آخری رسالت کے بارے میں ان کے مکروہ طرز عمل پر گرفت کرتا ہے۔ قرآن کریم انہیں بتاتا ہے کہ تمہی تو ہو جنہوں نے انبیائے سابقین کے ساتھ یہ سلوک کیا ۔ ذراغور سے پڑھیئے ؟

اردو ترجمہ

ہم نے موسیٰؑ کو کتاب دی، اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے، آخر کار عیسیٰؑ ابن مریمؑ کو روشن نشانیاں دے کر بھیجا اور روح پاک سے اس کی مدد کی پھر یہ تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمہارے پاس آیا، تو تم نے اس کے مقابلے میں سرکشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad atayna moosa alkitaba waqaffayna min baAAdihi bialrrusuli waatayna AAeesa ibna maryama albayyinati waayyadnahu biroohi alqudusi afakullama jaakum rasoolun bima la tahwa anfusukumu istakbartum fafareeqan kaththabtum wafareeqan taqtuloona

اردو ترجمہ

وہ کہتے ہیں، ہمارے دل محفوظ ہیں نہیں، اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہے، اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqaloo quloobuna ghulfun bal laAAanahumu Allahu bikufrihim faqaleelan ma yuminoona

یہاں آکر قرآن کریم کا انداز بیان عنیف وشدید ہوجاتا ہے اور بعض مقامات پر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا بجلی گررہی ہے یا آگ برس رہی ہے ۔ قرآن کریم ، کود ان کے اقوال اور ان کے تاریخی افعال میں ان کے سامنے رکھ کر ، انہیں اس طرح آڑے ہاتھوں لیتا ہے کہ بیچارے بالکل لاجواب ہوجاتے ہیں ۔ ان کے پاس کوئی حجت نہیں رہتی ۔ نہ ہی وہ کوئی معذرت پیش کرسکتے ہیں ۔ درحقیقت تو وہ ازروئے استکبار سچائی قبول کرنے سے اعراض کرتے تھے ۔ ان کے دلوں میں اسلام کے خلاف بغض بھرا ہوا تھا ، وہ مسلمانوں کو حقیر سمجھ کر ان سے دوری اختیار کئے ہوئے تھے ، انہیں یہ بات بےحد پسند تھی کہ ان کے علاوہ کوئی بھی یہ مقام بلند پائے اور ان کے دلوں کو یہ حسد کھائے جارہا تھا کہ اللہ کا یہ فضل وکرم مسلمانوں پر کیوں ہورہا ہے ؟ لیکن لوگوں کو دکھانے کی خاطر اسلام قبول کرنے کی مذکورہ بالاوجوہات بیان کرتے تھے ۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے سختی سے ردّ کردیا کیونکہ اللہ اور رسول کے مقابلے میں ان کے منکرانہ اور متمرادانہ موقف کا یہی علاج تھا۔

وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلا مَا يُؤْمِنُونَ ” اور وہ کہتے ہیں کہ ” ہمارے دل محفوظ ہیں۔ “ اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہے ۔ اس لئے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔ “

وہ کہتے تھے کہ ہمارے دلوں کے اوپر غلاف چڑھے ہوئے ہیں ۔ ان تک کوئی جدید دعوت نہیں پہنچ سکتی ۔ نہ ہی کسی نئے داعی کی پکار سننے کے لئے تیار ہیں ۔ یہ بات وہ اس لئے کہتے تھے کہ نبی ﷺ اور مسلمانوں کو مایوس کردیں تاکہ وہ انہیں اس دین جدید کی طرف بلانا ہی چھوڑ دیں ، نیز وہ یہ باتیں نبی ﷺ کی دعوت قبول نہ کرنے کی علت کے طور پر کہتے تھے ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ ان کی ان باتوں کو رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ بَلْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ ” بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان اللہ کی پھٹکار پڑی ہے۔ “ یعنی ان کے مسلسل انکار کی وجہ سے اللہ نے انہیں بطور سزا ہدایت سے بہرہور ہونے سے محروم کردیا اور اس روشنی کے درمیان پردے حائل ہوگئے ۔ فَقَلِيلا مَا يُؤْمِنُونَ ” اس لئے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں ۔ “

یعنی چونکہ اپنے مسلسل کفر اور قدیم گمراہی کی وجہ سے وہ راہ حق سے دور جاپڑے ہیں ۔ اور اللہ نے بطور سزا انہیں محروم بھی کردیا ہے ۔ اس لئے وہ ہم ہی ایمان لاتے ہیں ۔ نیز اس آیت کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے ۔” چونکہ وہ کافرانہ روش اختیار کئے ہوئے ہیں ، اس لئے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔ “ یعنی یہ ان کی مستقل روش ہے جس پر وہ قائم ہیں ۔ دونوں مفہوم سیاق کلام سے مناسبت رکھتے ہیں ۔

13