سورۃ البقرہ: آیت 82 - والذين آمنوا وعملوا الصالحات أولئك... - اردو

آیت 82 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ أُو۟لَٰٓئِكَ أَصْحَٰبُ ٱلْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَٰلِدُونَ

اردو ترجمہ

اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے وہی جنتی ہیں اور جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena amanoo waAAamiloo alssalihati olaika ashabu aljannati hum feeha khalidoona

آیت 82 کی تفسیر

اس فیصلے اور نتیجے کے بعد دوسرا اور مقابل صورت کا حکم بھی یہاں بیان کیا جاتا ہے ۔

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ” اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے وہی جنتی ہیں اور جنت میں ہمیشہ رہیں گے ۔ اور نیک عمل کریں گے۔ “

یعنی ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ دل سے عمل صالح کی شکل میں پھوٹ کر باہر نکل آئے ۔ جو لوگ ایمان کے دعوے دار ہیں ، انہیں چاہئے کہ اس حقیقت پر ذرا غور کرلیں نیز وہ تمام مسلمان بھی جو اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں ، اور ہم بھی ان میں شامل ہیں ، اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اس حقیقت کے بارے میں اچھی طرح تسلی کرلیں ۔ ایمان کا وجود اس وقت تک متصور نہ ہوگا جب تک اس کے نتیجے میں عمل صالح پیدا نہ ہو ، رہے وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں ، پھر زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور نیکی اور بھلائی کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ زمین پر اسلامی نظام حیات کے قیام اور اسلامی شریعت کے نفاذ کو روکتے ہیں اور اس کا انکار کرتے ہیں ۔ اسلامی اخلاق کے خلاف برسر پیکار رہتے ہیں ۔ تو ایسے لوگوں کے لئے دولت ایمان کا ایک ذرہ بھی نہیں ہے ، ان کے لئے اللہ کے ہاں کوئی اجر نہیں ہے ۔ انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہے ۔ اگرچہ وہ ایسی خوش آئند امیدیں اور آرزوئیں اپنے دلوں کے اندر رکھتے ہیں جیسی یہود رکھتے تھے ، اور جن کا اوپر اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا۔ پس سب کے لئے یہی حکم ہے۔

اس کے بعد بنی اسرائیل کے کچھ اور حالات مسلمانوں کے سامنے رکھے جاتے ہیں ، مختلف اوقات میں ان کے طرز عمل ، معصیت ، کجروی ، گمراہی اور عہد و پیمان کی خلاف ورزی کے مختلف واقعات بیان کئے جاتے ہیں اور یہودیوں کے یہ سیاہ کارنامے مسلمانوں کے سامنے ، ان پر کھولے جاتے ہیں ۔

آیت 82 وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اب نیک عمل کے بارے میں ہر شخص نے اپنا ایک تصور اور نظریہ بنا رکھا ہے۔ جبکہ نیک عمل سے قرآن مجید کی مراد دین کے سارے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ محض کوئی خیراتی ادارہ یا کوئی یتیم خانہ کھول دینا یا بیواؤں کی فلاح و بہبود کا انتظام کردینا اور خود سودی لین دین اور دھوکہ فریب پر مبنی کاروبار ترک نہ کرنا نیکی کا مسخ شدہ تصور ہے۔ جبکہ نیکی کا جامع تصور یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ تمام فرائض کی بجاآوری ہو ‘ دین کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں ‘ اپنے مال اور جان کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد اور مجاہدہ کیا جائے اور اس کے دین کو قائم اور سربلند کرنے کی جدوجہد کی جائے۔ ّ ُ اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ج ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ

آیت 82 - سورۃ البقرہ: (والذين آمنوا وعملوا الصالحات أولئك أصحاب الجنة ۖ هم فيها خالدون...) - اردو