سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 12 (آیات 77 سے 83 تک)

أَوَلَا يَعْلَمُونَ أَنَّ ٱللَّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ ٱلْكِتَٰبَ إِلَّآ أَمَانِىَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ ٱلْكِتَٰبَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَٰذَا مِنْ عِندِ ٱللَّهِ لِيَشْتَرُوا۟ بِهِۦ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ وَقَالُوا۟ لَن تَمَسَّنَا ٱلنَّارُ إِلَّآ أَيَّامًا مَّعْدُودَةً ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ ٱللَّهِ عَهْدًا فَلَن يُخْلِفَ ٱللَّهُ عَهْدَهُۥٓ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَٰطَتْ بِهِۦ خَطِيٓـَٔتُهُۥ فَأُو۟لَٰٓئِكَ أَصْحَٰبُ ٱلنَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَٰلِدُونَ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ أُو۟لَٰٓئِكَ أَصْحَٰبُ ٱلْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَٰلِدُونَ وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَٰقَ بَنِىٓ إِسْرَٰٓءِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا ٱللَّهَ وَبِٱلْوَٰلِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِى ٱلْقُرْبَىٰ وَٱلْيَتَٰمَىٰ وَٱلْمَسَٰكِينِ وَقُولُوا۟ لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتُوا۟ ٱلزَّكَوٰةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَ
12

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اور کیا یہ جانتے نہیں ہیں کہ جو کچھ یہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں، اللہ کو سب باتوں کی خبر ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Awala yaAAlamoona anna Allaha yaAAlamu ma yusirroona wama yuAAlinoona

چناچہ قرآن کریم آگے بڑھنے سے پہلے ان کی اس طرز فکر اور طرز عمل پر تعجب کا اظہار کئے بغیر نہیں رہتا ۔

أَوَلا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ” اور کیا یہ جانتے نہیں ہیں کہ وہ کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ۔ اللہ کو سب باتوں کی خبر ہے۔ “

اب قرآن کریم ایک دوسرے پہلو سے مسلمانوں کے سامنے بنی اسرائیل کے حالات پیش کرتا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ ان میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں ۔ ایک طبقہ تو ان جاہلوں اور ان پڑھ لوگوں کا ہے جو ان پر نازل ہونے والی کتاب الٰہی کا کوئی علم نہیں رکھتا۔ اس دماغ میں صرف اوہام و خرافات اور ظن وتخمین اور خوش آئند آرزوئیں ہی بسی ہوئی ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ کی پسندیدہ اور برگزیدہ قوم ہیں اور جو برے عمل بھی وہ کریں اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام گناہ معاف کردئیے ہیں ، اس لئے یہ اپنے ذہن میں بسہولت نجات پاجانے کی امید لئے بیٹھے ہیں۔

دوسرا وہ فریق ہے جو اس جہالت سے خوب ناجائز فائدہ اٹھارہا ہے ، وہ بےدھڑک اپنی جانب سے آیات ونصوص گھڑتا ہے ۔ اپنی مفید مطلب تاویلات کرکے اللہ کے مفہوم کو کچھ سے کچھ بنا دیتا ہے ۔ جس چیز کو چاہتا ہے ، چھپالیتا ہے ۔ اور جس چیز کو چاہتا ہے لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دیتا ہے ۔ خود اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی باتوں کے بارے میں یہ مشہور کرتا ہے کہ وہ اللہ کا کلام ہے اور یہ سب کام وہ دنیا کے ختم ہوجانے والے منافع اور ذاتی مفادات کے لئے کرتا ہے یا اس لئے کرتا ہے کہ اس کی پیشوائی اور برتری برقرار رہے ۔

اردو ترجمہ

ان میں ایک دوسرا گروہ امّیوں کا ہے، جو کتاب کا تو علم رکھتے نہیں، بس اپنی بے بنیاد امیدوں اور آرزوؤں کو لیے بیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جا رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waminhum ommiyyoona la yaAAlamoona alkitaba illa amaniyya wain hum illa yathunnoona

اب ان دونوں گروہوں میں سے ہم کس سے توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ مشرف بایمان ہوگا۔ حق کی آواز پر لبیک کہے گا اور ہدایت پر قائم ہوجائے گا ۔ اور اپنے آپ کو نازل شدہ کتاب کی ان نصوص کی تحریف سے بچالے گا جو ان کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی تھیں ۔ غرض ایسے لوگوں سے کوئی امید نہیں ہے کہ وہ ایمان لے آئیں گے ۔ مسلمانوں کی بات مان کردیں گے ۔ ان کی قسمت میں تو تباہی اور بربادی لکھی ہوئی ہے اور یہ تباہی اور بربادی جو ان کی نوشتہ تقدیر ہے اس لئے ان کے لئے مقرر کی ہوئی ہے کہ انہوں نے اپنے ہاتھ سے آیات لکھیں اور پھر انہیں اللہ کی طرف منسوب کرڈالا ۔ یہ تباہی اور بربادی خود ان کے ہاتھ کی کمائی ہے ۔ کیونکہ انہی ہاتھوں سے انہوں ان آیات کو تراشا اور اللہ کی طرف منسوب کیا۔

ان کی خواہشات اور باطل آرزوؤں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہ جس قدر بدکاری اور احکام کی جتنی خلاف ورزی بھی کریں بہرحال وہ نجات پانے والوں میں سے ہوں گے۔ وہ جہنم کی آگ میں چند دن رہیں گے اور اس کے بعد جنت کی طرف جانکلیں گے ، ظاہر ہے کہ ان یہ تمنا ان کے نظام عدالت ، اس کی سنت دائمہ اور جزا وسزا کے صحیح تصور کے سراسرخلاف ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان کی اس آرزو کی بنیاد کیا ہے ۔ وہ کس وثیقہ کی بنیاد پر اس وقت کا تعین کرتے ہیں ، گویا اللہ تعالیٰ اور ان کے درمیان کوئی باقاعدہ معاہدہ ہوگیا ہے ۔ اور اس کے اند ران کی تعذیب کی معیاد متعین ہوچکی ہے ۔ یہ خیال جاہل لوگوں کی بےبنیاد آرزو اور خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے اور دوسری جانب سے یہ تصور ان کے فریب کار علماء کے کذب وافتراء کا پلندہ ہے ۔ یہ ایسی آرزوئیں ہیں جن کا سہارا وہ تمام لوگ لیا کرتے ہیں جو صحیح عقیدہ اور نظریہ حیات چھوڑ چکے ہیں ، اس پر ایک عرصہ گزرچکا ہوتا ہے اور اپنے حقیقی دین کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں رہا ہوتا۔ وہ اپنے دین کے صرف نام اور چند ظاہری رسومات کے سوا اور کچھ نہیں جانتے ۔ اور دین کی حقیقت اور اس کے اصل موضوع سے بیخبر ہوجاتے ہیں لیکن چونکہ وہ اپنے آپ کو اس دنیا کی طرف منسوب کرتے ہیں ، اس لئے سمجھتے ہیں کہ بس یہ زبانی نسبت ہی ان کی نجات کے لئے کافی ہوگی۔

اردو ترجمہ

پس ہلاکت اور تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نوشتہ لکھتے ہیں، پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کر لیں ان کے ہاتھوں کا لکھا بھی ان کے لیے تباہی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لیے موجب ہلاکت

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fawaylun lillatheena yaktuboona alkitaba biaydeehim thumma yaqooloona hatha min AAindi Allahi liyashtaroo bihi thamanan qaleelan fawaylun lahum mimma katabat aydeehim wawaylun lahum mimma yaksiboona

اردو ترجمہ

وہ کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں اِلّا یہ کہ چند روز کی سز ا مل جائے تو مل جائے اِن سے پوچھو، کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے لیا ہے، جس کی خلاف ورزی وہ نہیں کرسکتا؟ یا بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ اُس نے ان کا ذمہ لیا ہے؟ آخر تمہیں دوزخ کی آگ کیوں نہ چھوئے گی؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqaloo lan tamassana alnnaru illa ayyaman maAAdoodatan qul attakhathtum AAinda Allahi AAahdan falan yukhlifa Allahu AAahdahu am taqooloona AAala Allahi ma la taAAlamoona

یہاں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایک ایسی دلیل اور حجت کی تلقین کرتے ہیں جو باطل کا سر کچل دیتی ہیں۔” کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے لیا ہے ، جس کی خلاف ورزی وہ نہیں کرسکتا ؟ “ اگر کوئی ایسا عہد تم نے لے رکھا ہے تو بتاؤ وہ کہاں ہے ؟” یا بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہوتا۔ “ یہ سوالیہ انداز بات کو اور مضبوط بنانے کے لئے اختیار کیا گیا ہے ۔ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کے پاس اللہ کا کوئی عہد نہیں ہے ۔ سوالیہ انداز میں ناپسندیدگی اور زجر وتوبیخ کے معانی بھی مضمر ہوتے ہیں ۔

یہاں اب اس سلسلے میں ، انہیں ایک فیصلہ کن بات بتادی جاتی ہے کہ ان کے اس دعوے کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ بات جزاء وسزا کے متعلق اسلام کے عالمگیر تصور ہی سے ماخوذ ہے اور بطور قاعدہ کلیہ بتادیا جاتا ہے کہ جزا عمل کے مطابق ہوگی ۔ جیسا کروگے ویسا بھروگے ۔

اردو ترجمہ

جو بھی بدی کمائے گا اور اپنی خطا کاری کے چکر میں پڑا رہے گا، وہ دوزخی ہے او ر دوزخ ہی میں وہ ہمیشہ رہے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bala man kasaba sayyiatan waahatat bihi khateeatuhu faolaika ashabu alnnari hum feeha khalidoona

یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ اس مخصوص اصول جزاء وسزا اور اس ذہنی مفہوم کو قرآن نے جس معجزانہ اور فنکارانہ انداز میں بیان کیا ہے اور جس طرح اس کی تصویر کھینچ کر رکھ دی ہے ، ہم قدرے توقف کرکے اس پر غور کریں اور اللہ کے اٹل حکم اور ابدی اصول کے اسباب و اسرار معلوم کرنے کی کوشش کریں۔

” ہاں جو بھی بدی کمائے اور خطاکاری کے چکر میں پڑا رہے گا گویا بدی ایک قسم کی کمائی ہے ۔ یہاں معنی مطلوب صرف غلطی کا ارتکاب ہے لیکن جن الفاظ سے اس کی تعبیر کی گئی ہے وہ معروف نفسیاتی حالت کی عکاسی کرتے ہیں ۔ جو لوگ مصیبت میں مبتلاہوتے ہیں ، وہ اس کے عادی ہوجاتے ہیں اور اس کے ارتکاب میں انہیں مزا آتا ہے ۔ اور وہ اس سے لذات اندوز ہوتے ہیں ۔ اور اسے اپنی کمائی سمجھنے لگتے ہیں۔ کیونکہ اگر وہ اسے مکروہ اور ناپسندیدہ سمجھتے تو اس کا ارتکاب نہ کرتے ۔ نیز اگر وہ سمجھتے کہ یہ ایک قسم کا خسارہ ہے تو وہ اس جوش و خروش سے اس کا ارتکاب نہ کرتے نیز وہ اس برائی کو اپنے اوپر اس طرح غالب نہ کرتے کہ ان کی پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آجائے اور وہ پوری طرح اس کے چکر میں پھنس جائیں کیونکہ یہ لوگ اگر اسے ناپسند کرتے اور اس کے اندر جو خسارہ تھا ، اسے محسوس کرتے تو اس کے سائے سے بھی دور بھاگتے۔ اگرچہ طبعًا وہ اس کے ارتکاب کی طرف مائل ہوتے ۔ نیز وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے اور اس گناہ کے دائرہ اثر سے نکل کر کسی اور کے دامن میں پناہ لیتے ، اس صورت میں یہ برائی انہیں گھیر نہ سکتی اور نہ ہی ان پر چھاسکتی تھی اور ان کے لئے توبہ اور تلافی مافات کے دروازے بند نہ ہوجاتے وَاَحَاطَت بِہٖ خَطِئَتُہُ اور اس کی خطاکاری نے اسے گھیر لیا۔ “ یہ ایک ایسی تعبیر ہے جو اس کیفیت اور معنی کو مجسم شکل میں پیش کرتی ہے ۔ قرآن کریم کی فنی خوبیوں اور خصوصیات میں سے یہ ایک اہم خصوصیت ہے نیز قرآن کریم کی مخصوص طرز تعبیر کی اہم نشانی ہے ۔ اس طرز تعبیر کا انسان کے ذہن پر ایک خاص اثر پڑتا ہے ، جو خالص مفہومات ومعانی کا نہیں پڑتا۔ وہ معنوی تعبیریں جو متحرک شکل میں نہ ہوں ایسا اثر پیدا نہیں کرسکتیں ۔ معصیت پر اصرار کی معنوی کیفیت کی اس سے اور مستحسن تعبیر کیا ممکن ہے کہ معصیت کا مرتکب خود معصیت کے دائرے میں قید ہو ، اس کے حدود کے اندر ہی زندگی بسر کررہا ہو ، وہ اس مصیبت ہی کا ہوکررہ گیا ہو ، اس کے بغیر اس کے لئے زندگی کا ایک سانس لینا بھی ممکن نہ رہا ہو۔

اور جب انسان کسی معصیت کے چکر میں اس طرح پڑجاتا ہے وہ ہر طرف سے محصور ہوجاتا ہے اور اس کے لئے توبہ کے تمام دروازے بند ہوجاتے ہیں تو اس وقت اللہ تعالیٰ کا یہ عادلانہ اور اٹل فیصلہ صادر ہوتا ہے فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ” ایسے لوگ دوزخی ہیں اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے ۔ “

اردو ترجمہ

اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے وہی جنتی ہیں اور جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waallatheena amanoo waAAamiloo alssalihati olaika ashabu aljannati hum feeha khalidoona

اس فیصلے اور نتیجے کے بعد دوسرا اور مقابل صورت کا حکم بھی یہاں بیان کیا جاتا ہے ۔

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ” اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے وہی جنتی ہیں اور جنت میں ہمیشہ رہیں گے ۔ اور نیک عمل کریں گے۔ “

یعنی ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ دل سے عمل صالح کی شکل میں پھوٹ کر باہر نکل آئے ۔ جو لوگ ایمان کے دعوے دار ہیں ، انہیں چاہئے کہ اس حقیقت پر ذرا غور کرلیں نیز وہ تمام مسلمان بھی جو اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں ، اور ہم بھی ان میں شامل ہیں ، اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اس حقیقت کے بارے میں اچھی طرح تسلی کرلیں ۔ ایمان کا وجود اس وقت تک متصور نہ ہوگا جب تک اس کے نتیجے میں عمل صالح پیدا نہ ہو ، رہے وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں ، پھر زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور نیکی اور بھلائی کا مقابلہ کرتے ہیں ۔ زمین پر اسلامی نظام حیات کے قیام اور اسلامی شریعت کے نفاذ کو روکتے ہیں اور اس کا انکار کرتے ہیں ۔ اسلامی اخلاق کے خلاف برسر پیکار رہتے ہیں ۔ تو ایسے لوگوں کے لئے دولت ایمان کا ایک ذرہ بھی نہیں ہے ، ان کے لئے اللہ کے ہاں کوئی اجر نہیں ہے ۔ انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہے ۔ اگرچہ وہ ایسی خوش آئند امیدیں اور آرزوئیں اپنے دلوں کے اندر رکھتے ہیں جیسی یہود رکھتے تھے ، اور جن کا اوپر اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا۔ پس سب کے لئے یہی حکم ہے۔

اس کے بعد بنی اسرائیل کے کچھ اور حالات مسلمانوں کے سامنے رکھے جاتے ہیں ، مختلف اوقات میں ان کے طرز عمل ، معصیت ، کجروی ، گمراہی اور عہد و پیمان کی خلاف ورزی کے مختلف واقعات بیان کئے جاتے ہیں اور یہودیوں کے یہ سیاہ کارنامے مسلمانوں کے سامنے ، ان پر کھولے جاتے ہیں ۔

اردو ترجمہ

یاد کرو، اسرائیل کی اولاد سے ہم نے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ، رشتے داروں کے ساتھ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا، لوگوں سے بھلی بات کہنا، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا، مگر تھوڑے آدمیوں کے سو ا تم سب اس عہد سے پھر گئے اور اب تک پھر ے ہوئے ہو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith akhathna meethaqa banee israeela la taAAbudoona illa Allaha wabialwalidayni ihsanan wathee alqurba waalyatama waalmasakeeni waqooloo lilnnasi husnan waaqeemoo alssalata waatoo alzzakata thumma tawallaytum illa qaleelan minkum waantum muAAridoona

گزشتہ سبق میں جہاں بنی اسرائیل کی وعدہ خلافیوں کا ذکر کیا گیا تھا ، اس میثاق کی طرف اشارہ بھی کیا گیا تھا ۔ یہاں اس معاہدہ کی بعض شقوں کی طرف تفصیلی اشارہ کیا جاتا ہے ،

پہلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ساتھ جس معاہدہ کا ذکر کیا ہے وہ وہی معاہدہ ہے جو ان کے ساتھ کوہ طور کو ان کے سروں پر لٹکانے کے بعد طے پایا تھا ۔ اور جس کے بارے میں انہیں تاکید کی گئی تھی کہ وہ اسے مضبوطی سے پکڑیں اور اس کے اندر جو ہدایات انہیں دی گئی ہیں انہیں یاد رکھیں ۔ غالبًا اس کے اندر دین کے اساسی امور کا بیان تھا اور یہ اساسی امور وہی ہیں جواب اسلام نے ان کے سامنے پیش کئے ہیں اور جنہیں وہ کوئی عجیب اور نئی چیز سمجھ کر رد کررہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ جو عہد کیا تھا ، وہ جن امور پر مشتمل تھا ، ان میں سے ایک اہم امر یہ تھا کہ وہ صرف اللہ کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ، یعنی وہ مکمل توحید کا عقیدہ اختیار کریں ۔ اس عہد میں یہ حکم بھی تھا کہ والدین ، رشتہ داروں ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں۔ اس میں یہ بھی تھا کہ وہ لوگوں کو اچھی باتوں کی تلقین کریں اور ظاہر ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اچھی باتوں میں سرفہرست ہے ۔ نیز اس عہد میں نماز فرض کی گئی تھی اور زکوٰٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا تھا ، غرض یہ سب چیزیں ایسی تھیں جو اسلام کے اندر بھی اساسی امور سمجھے جاتے ہیں اور یہ سب باتیں اسلام میں فرض قرار دی گئی ہیں۔

اس عہد کے مطالعے سے کئی باتیں ثابت ہوتی ہیں ۔

ایک یہ کہ اللہ کا دین ہمیشہ ایک ہی رہا ہے جو اسلام ہے اور یہ کہ اسلام اس دین کی آخری کڑی ہے اور اس میں سابقہ شرائط کی تمام اصولی باتوں کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ دوسری حقیقت یہ عیاں ہوتی ہے کہ یہودیوں کو دین اسلام سے بےحد بغض تھا ۔ اسلام انہیں محض انہیں باتوں کی طرف بلارہا تھا جس کا انہوں نے اپنے اللہ سے معاہدہ کررکھا تھا لیکن اس کے باوجود اس کا انکار کررہے تھے۔

ان کے اس شرمناک طرز عمل کی وجہ سے انداز گفتگو غائبانہ کلام سے تبدیل ہوکر خطاب کی شکل اختیار کرلیتا ہے حالانکہ اس سے قبل بنی اسرائیل کو چھوڑ کر مومنین کو خطاب کیا جارہا تھا اور ان کے سامنے ان کے برے کارنامے بیان کئے جارہے تھے۔ ان کے یہ سیاہ کارنامے بیان کرتے کرتے اچانک ان سے مخاطب ہونا ان کے لئے سخت شرمندگی کا باعث ہے ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلا قَلِيلا مِنْكُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ ” مگر تھوڑے آدمیوں کے سوا تم سب اس عہد سے پھرگئے ہو اور اب تک پھرے ہوئے ہو۔ “

اس سے وہ بعض راز معلوم ہوجاتے ہیں کہ اللہ کی اس عجیب کتاب میں واقعات کو بیان کرتے ہوئے ، کلام میں اچانک التفات کیوں ہوتا ہے ۔ اور اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہوتی ہے ؟

12