سورۃ البقرہ: آیت 81 - بلى من كسب سيئة وأحاطت... - اردو

آیت 81 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَٰطَتْ بِهِۦ خَطِيٓـَٔتُهُۥ فَأُو۟لَٰٓئِكَ أَصْحَٰبُ ٱلنَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَٰلِدُونَ

اردو ترجمہ

جو بھی بدی کمائے گا اور اپنی خطا کاری کے چکر میں پڑا رہے گا، وہ دوزخی ہے او ر دوزخ ہی میں وہ ہمیشہ رہے گا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Bala man kasaba sayyiatan waahatat bihi khateeatuhu faolaika ashabu alnnari hum feeha khalidoona

آیت 81 کی تفسیر

یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ اس مخصوص اصول جزاء وسزا اور اس ذہنی مفہوم کو قرآن نے جس معجزانہ اور فنکارانہ انداز میں بیان کیا ہے اور جس طرح اس کی تصویر کھینچ کر رکھ دی ہے ، ہم قدرے توقف کرکے اس پر غور کریں اور اللہ کے اٹل حکم اور ابدی اصول کے اسباب و اسرار معلوم کرنے کی کوشش کریں۔

” ہاں جو بھی بدی کمائے اور خطاکاری کے چکر میں پڑا رہے گا گویا بدی ایک قسم کی کمائی ہے ۔ یہاں معنی مطلوب صرف غلطی کا ارتکاب ہے لیکن جن الفاظ سے اس کی تعبیر کی گئی ہے وہ معروف نفسیاتی حالت کی عکاسی کرتے ہیں ۔ جو لوگ مصیبت میں مبتلاہوتے ہیں ، وہ اس کے عادی ہوجاتے ہیں اور اس کے ارتکاب میں انہیں مزا آتا ہے ۔ اور وہ اس سے لذات اندوز ہوتے ہیں ۔ اور اسے اپنی کمائی سمجھنے لگتے ہیں۔ کیونکہ اگر وہ اسے مکروہ اور ناپسندیدہ سمجھتے تو اس کا ارتکاب نہ کرتے ۔ نیز اگر وہ سمجھتے کہ یہ ایک قسم کا خسارہ ہے تو وہ اس جوش و خروش سے اس کا ارتکاب نہ کرتے نیز وہ اس برائی کو اپنے اوپر اس طرح غالب نہ کرتے کہ ان کی پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آجائے اور وہ پوری طرح اس کے چکر میں پھنس جائیں کیونکہ یہ لوگ اگر اسے ناپسند کرتے اور اس کے اندر جو خسارہ تھا ، اسے محسوس کرتے تو اس کے سائے سے بھی دور بھاگتے۔ اگرچہ طبعًا وہ اس کے ارتکاب کی طرف مائل ہوتے ۔ نیز وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے اور اس گناہ کے دائرہ اثر سے نکل کر کسی اور کے دامن میں پناہ لیتے ، اس صورت میں یہ برائی انہیں گھیر نہ سکتی اور نہ ہی ان پر چھاسکتی تھی اور ان کے لئے توبہ اور تلافی مافات کے دروازے بند نہ ہوجاتے وَاَحَاطَت بِہٖ خَطِئَتُہُ اور اس کی خطاکاری نے اسے گھیر لیا۔ “ یہ ایک ایسی تعبیر ہے جو اس کیفیت اور معنی کو مجسم شکل میں پیش کرتی ہے ۔ قرآن کریم کی فنی خوبیوں اور خصوصیات میں سے یہ ایک اہم خصوصیت ہے نیز قرآن کریم کی مخصوص طرز تعبیر کی اہم نشانی ہے ۔ اس طرز تعبیر کا انسان کے ذہن پر ایک خاص اثر پڑتا ہے ، جو خالص مفہومات ومعانی کا نہیں پڑتا۔ وہ معنوی تعبیریں جو متحرک شکل میں نہ ہوں ایسا اثر پیدا نہیں کرسکتیں ۔ معصیت پر اصرار کی معنوی کیفیت کی اس سے اور مستحسن تعبیر کیا ممکن ہے کہ معصیت کا مرتکب خود معصیت کے دائرے میں قید ہو ، اس کے حدود کے اندر ہی زندگی بسر کررہا ہو ، وہ اس مصیبت ہی کا ہوکررہ گیا ہو ، اس کے بغیر اس کے لئے زندگی کا ایک سانس لینا بھی ممکن نہ رہا ہو۔

اور جب انسان کسی معصیت کے چکر میں اس طرح پڑجاتا ہے وہ ہر طرف سے محصور ہوجاتا ہے اور اس کے لئے توبہ کے تمام دروازے بند ہوجاتے ہیں تو اس وقت اللہ تعالیٰ کا یہ عادلانہ اور اٹل فیصلہ صادر ہوتا ہے فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ” ایسے لوگ دوزخی ہیں اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے ۔ “

آیت 81 بَلٰی مَنْ کَسَبَ سَیِّءَۃً ‘ لیکن اس سے مراد کبیرہ گناہ ہے ‘ صغیرہ نہیں۔ سَیِّءَۃً کی تنکیر ”تفخیم“ کا فائدہ بھی دے رہی ہے۔ وَّاَحَاطَتْ بِہٖ خَطِٓیْءَتُہٗ “ مثلاً ایک شخص سود خوری سے باز نہیں آرہا ‘ باقی وہ نماز کا بھی پابند ہے اورّ تہجد کا بھی التزام کر رہا ہے تو اس ایک گناہ کی برائی اس کے گرد اس طرح چھا جائے گی کہ پھر اس کی یہ ساری نیکیاں ختم ہو کر رہ جائیں گی۔ ہمارے مفسرین نے لکھا ہے کہ گناہ کے احاطہ کرلینے سے مراد یہ ہے کہ گناہ اس پر ایسا غلبہ کرلیں کہ کوئی جانب ایسی نہ ہو کہ گناہ کا غلبہ نہ ہو ‘ حتیٰ کہ دل سے ایمان و تصدیق رخصت ہوجائے۔ علماء کے ہاں یہ اصول مانا جاتا ہے کہ ”اَلْمَعَاصِیْ بَرِیْدُ الْکُفْرِ“ یعنی گناہ تو کفر کی ڈاک ہوتے ہیں۔ گناہ پر مداومت کا نتیجہ بالآخر یہ نکلتا ہے کہ دل سے ایمان رخصت ہوجاتا ہے۔ ایک شخص اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہے ‘ لیکن اندر سے ایمان ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ جس طرح کسی دروازے کی چوکھٹ کو دیمک چاٹ جاتی ہے اور اوپر لکڑی کا ایک باریک پرت veneer چھوڑ جاتی ہے۔ فَاُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ج ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ

جہنمی کون ؟ مطلب یہ ہے کہ جس کے اعمال سراسر بد ہیں جو نیکیوں سے خالی ہے وہ جہنمی ہے اور جو شخص اللہ رسول ﷺ پر ایمان لائے اور سنت کے مطابق عمل کرے وہ جنتی ہے۔ جیسے ایک جگہ فرمایا آیت (لَيْسَ بِاَمَانِيِّكُمْ وَلَآ اَمَانِيِّ اَھْلِ الْكِتٰبِ) 4۔ النسآء :123) یعنی نہ تو تمہارے منصوبے چل سکیں گے اور نہ اہل کتاب کے ہر برائی کرنے والا اپنی برائی کا بدلہ دیا جائے گا اور ہر بھلائی کرنے والا ثواب پائے گا اپنی نیکو کاری کا اجر پائے گا مگر برے کا کوئی مددگار نہ ہوگا۔ کسی مرد کا، عورت کا، بھلے آدمی کا کوئی عمل برباد نہ ہوگا۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہاں برائی سے مطلب کفر ہے اور ایک روایت میں ہے کہ مراد شرک ہے ابو وائل ابو العالیہ، مجاہد، عکرمہ، حسن، قتادہ، ربیع بن انس وغیرہ سے یہی مروی ہے۔ سدی کہتے ہیں مراد کبیرہ گناہ ہیں جو تہ بہ تہ ہو کر دل کو گندہ کردیں حضرت ابوہریرہ وغیرہ فرماتے ہیں مراد شرک ہے جس کے دل پر بھی قابض ہوجائے ربیع بن خثیم کا قول ہے جو گناہوں پر ہی مرے اور توبہ نصیب نہ ہو مسند احمد میں حدیث ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں گناہوں کو حقیر نہ سمجھا کرو وہ جمع ہو کر انسان کی ہلاکت کا سبب بن جاتے ہیں دیکھتے نہیں ہو کہ اگر کئی آدمی ایک ایک لکڑی لے کر آئیں تو انبار لگ جاتا ہے پھر اگر اس میں آگ لگائی جائے تو بڑی بڑی چیزوں کو جلا کر خاکستر کردیتا ہے پھر ایمانداروں کا حال بیان فرمایا کہ جو تم ایسے عمل نہیں کرتے بلکہ تمہارے کفر کے مقابلہ میں ان کا ایمان پختہ ہے تمہاری بد اعمالیوں کے مقابلہ میں ان کے پاکیزہ اعمال مستحکم ہیں انہیں ابدی راحتیں اور ہمیشہ کی مسکن جنتیں ملیں گی اور اللہ کے عذاب وثواب دونوں لازوال ہیں۔

آیت 81 - سورۃ البقرہ: (بلى من كسب سيئة وأحاطت به خطيئته فأولئك أصحاب النار ۖ هم فيها خالدون...) - اردو