سورۃ البقرہ: آیت 80 - وقالوا لن تمسنا النار إلا... - اردو

آیت 80 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

وَقَالُوا۟ لَن تَمَسَّنَا ٱلنَّارُ إِلَّآ أَيَّامًا مَّعْدُودَةً ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ ٱللَّهِ عَهْدًا فَلَن يُخْلِفَ ٱللَّهُ عَهْدَهُۥٓ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ

اردو ترجمہ

وہ کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں اِلّا یہ کہ چند روز کی سز ا مل جائے تو مل جائے اِن سے پوچھو، کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے لیا ہے، جس کی خلاف ورزی وہ نہیں کرسکتا؟ یا بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ اُس نے ان کا ذمہ لیا ہے؟ آخر تمہیں دوزخ کی آگ کیوں نہ چھوئے گی؟

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waqaloo lan tamassana alnnaru illa ayyaman maAAdoodatan qul attakhathtum AAinda Allahi AAahdan falan yukhlifa Allahu AAahdahu am taqooloona AAala Allahi ma la taAAlamoona

آیت 80 کی تفسیر

یہاں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایک ایسی دلیل اور حجت کی تلقین کرتے ہیں جو باطل کا سر کچل دیتی ہیں۔” کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے لیا ہے ، جس کی خلاف ورزی وہ نہیں کرسکتا ؟ “ اگر کوئی ایسا عہد تم نے لے رکھا ہے تو بتاؤ وہ کہاں ہے ؟” یا بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہوتا۔ “ یہ سوالیہ انداز بات کو اور مضبوط بنانے کے لئے اختیار کیا گیا ہے ۔ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کے پاس اللہ کا کوئی عہد نہیں ہے ۔ سوالیہ انداز میں ناپسندیدگی اور زجر وتوبیخ کے معانی بھی مضمر ہوتے ہیں ۔

یہاں اب اس سلسلے میں ، انہیں ایک فیصلہ کن بات بتادی جاتی ہے کہ ان کے اس دعوے کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ بات جزاء وسزا کے متعلق اسلام کے عالمگیر تصور ہی سے ماخوذ ہے اور بطور قاعدہ کلیہ بتادیا جاتا ہے کہ جزا عمل کے مطابق ہوگی ۔ جیسا کروگے ویسا بھروگے ۔

آیت 80 وَقَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّار الاَّ اَیَّامًا مَّعْدُوْدَۃ ً ط ”۔“ گویاصرف دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ہمیں چند دن کی سزا دے دی جائے گی کہ کوئی اعتراض نہ کردے کہ ”اے اللہ ! ہمیں آگ میں پھینکا جا رہا ہے اور انہیں نہیں پھینکا جا رہا ‘ جبکہ یہ کردار میں ہم سے بھی بدتر تھے“۔ چناچہ ان کا منہ بند کرنے کے لیے شاید ہمیں چند دن کے لیے آگ میں ڈال دیا جائے ‘ پھر فوراً نکال لیا جائے گا۔ قُلْ اَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللّٰہِ عَہْدًا ‘ کیا تمہارا اللہ سے کوئی قول وقرار ہوگیا ہے ؟فَلَنْ یُّخْلِفَ اللّٰہُ عَہْدَہٗ اَمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَ “ حقیقت یہی ہے کہ تم اللہ کی طرف اس بات کی نسبت کر رہے ہو جس کے لیے تمہارے پاس کوئی علم نہیں ہے۔بنی اسرائیل کی فرد قرارداد جرم کے دوران گاہ بگاہ جو اہم ترین ابدی حقائق بیان ہو رہے ہیں ‘ ان میں سے ایک عظیم حقیقت اگلی آیت میں آرہی ہے۔ فرمایا :

چالیس دن کا جہنم حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہودی لوگ کہا کرتے تھے کہ دنیا کل مدت سات ہزار سال ہے۔ ہر سال کے بدلے ایک دن ہمیں عذاب ہوگا تو صرف سات دن ہمیں جہنم میں رہنا پڑے گا اس قول کی تردید میں یہ آیتیں نازل ہوئیں، بعض کہتے ہیں یہ لوگ چالیس دن تک آگ میں رہنا مانتے تھے کیونکہ ان کے بڑوں نے چالیس دن تک بچھڑے کی پوجا کی تھی بعض کا قول ہے کہ یہ دھوکہ انہیں اس سے لگا تھا کہ وہ کہتے تھے کہ توراۃ میں ہے کہ جہنم کے دونوں طرف زقوم کے درخت تک چالیس سال کا راستہ ہے تو وہ کہتے تھے کہ اس مدت کے بعد عذاب اٹھ جائیں گے ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ کے سامنے آ کر کہا کہ چالیس دن تک تو ہم جہنم میں رہیں گے پھر دوسرے لوگ ہماری جگہ آجائیں گے یعنی آپ کی امت آپ نے ان کے سروں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا نہیں بلکہ تم ہی تم ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں پڑے رہو گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں فتح خیبر کے بعد حضور کے خدمت میں بطور ہدیہ بکری کا پکا ہوا زہر آلود گوشت آیا آپ نے فرمایا۔ یہاں کے یہودیوں کو جمع کرلو پھر ان سے پوچھا تمہارا باپ کون ہے انہوں نے کہا فلاں آپ نے فرمایا جھوٹے ہو بلکہ تمہارا باپ فلاں ہے انہوں نے کہا بجا ارشاد ہوا وہی ہمارا باپ ہے آپ نے فرمایا دیکھو اب میں کچھ اور پوچھتا ہوں سچ سچ بتانا انہوں نے کہا اسے ابو القاسم ﷺ اگر جھوٹ کہیں گے تو آپ کے سامنے نہ چل سکے گا ہم تو آزما چکے آپ نے فرمایا بتاؤ جہنمی کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا کچھ دن تو ہم ہیں پھر آپ کی امت آپ نے فرمایا غلو ہرگز نہیں پھر فرمایا اچھا بتلاؤ اس گوشت میں تم نے زہر ملایا ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں اگر آپ سچے ہیں تو یہ زہر آپ کو ہرگز ضرر نہ دے گا اور اگر جھوٹے ہیں تو ہم آپ سے نجات حاصل کرلیں گے۔ (مسند احمد بخاری نسائی)

آیت 80 - سورۃ البقرہ: (وقالوا لن تمسنا النار إلا أياما معدودة ۚ قل أتخذتم عند الله عهدا فلن يخلف الله عهده ۖ أم تقولون...) - اردو