سورۃ البقرہ: آیت 68 - قالوا ادع لنا ربك يبين... - اردو

آیت 68 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

قَالُوا۟ ٱدْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا هِىَ ۚ قَالَ إِنَّهُۥ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌۢ بَيْنَ ذَٰلِكَ ۖ فَٱفْعَلُوا۟ مَا تُؤْمَرُونَ

اردو ترجمہ

بولے اچھا، اپنے رب سے درخواست کرو کہ وہ ہمیں گائے کی کچھ تفصیل بتائے موسیٰؑ نے کہا، اللہ کا ارشاد ہے کہ وہ ایسی گائے ہونی چاہیے جو نہ بوڑھی ہو نہ بچھیا، بلکہ اوسط عمر کی ہو لہٰذا جو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo odAAu lana rabbaka yubayyin lana ma hiya qala innahu yaqoolu innaha baqaratun la faridun wala bikrun AAawanun bayna thalika faifAAaloo ma tumaroona

آیت 68 کی تفسیر

ان کے لئے یہ ممکن تھا ، جب کہ حکم بالکل آسان تھا ، کہ وہ کسی گائے کو پکڑتے اور ذبح کر ڈالتے ، اور اس طرح بسہولت وہ اللہ کے حکم پر عمل پیرا ہوجاتے اور اپنے لیڈر اور اپنے نبی کا اشارہ ملتے ہی اسے نافذ کردیتے ۔ لیکن اس وقت ان کی فطرت حیلہ ساز جاگ اٹھتی ہے ، اور اپنے موروثی مزاج سے مغلوب ہوکر وہ پوچھنے لگتے ہیں قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ ” بولے ! اچھا ، اپنے رب سے درخواست کرو کہ وہ ہمیں اس گائے کی کچھ تفصیل بتائے ۔ “ انہوں نے اپنا سوال جن الفاظ میں بیان کیا ، وہ الفاظ ہی یہ ظاہر کررہے ہیں کہ انہیں اب بھی اس بارے میں شک ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مذاق کررہے ہیں ۔ یہ سنجیدہ ہیں وہ پہلے تو کہتے ہیں کہ اپنے رب سے درخواست کرو گویا موسیٰ (علیہ السلام) کا رب صرف اسی کا ہے اور وہ ان کا رب نہیں ہے ۔ یا گویا ، اس سوال کا تعلق صرف موسیٰ ہی سے ہے ، انہیں اس سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے ۔ یہ صرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور آپ کے رب کا معاملہ ہے ۔ پھر وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے معلوم کرکے بتائے کہ وہ گائے ” کیا ہے “ یہاں مقصد تو یہ تھا کہ گائے کیسی ہو ، لیکن بطور استہزا اور انکار پوچھتے ہیں کہ ” گائے ! گائے کیا چیز ہوتی ہے ؟ “ گویا وہ گائے کی ماہیت سے واقف نہیں۔ گائے کیسی ہو ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں صاف صاف بتادیا تھا کہ وہ گائے ذبح کریں تعمیل حکم کے لئے وہ کافی ہوگی ۔ اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے سوال کو نظرانداز کرکے انہیں صحیح جواب دیتے ہیں اور انہیں راست پر لانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ ان کے اصلی سوال کا جواب دے کر ان کے ساتھ گائے کی ماہیت پر فلسفیانہ بحث و مباحثہ نہیں شروع کرتے ، بلکہ انہیں اس طرح جواب دیتے ہیں جس طرح ایک مصلح اور مربی ، ایسے لوگوں کو دیا کرتا جبکہ اللہ تعالیٰ ایسے احمقوں اور فاسقوں کو راہ ہدایت پر لانے کے مشکل کام میں لگا کر آزماتا ہے ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) انہیں گائے کے بارے میں کہتے ہیں قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لا فَارِضٌ وَلا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَلِكَ کہا کہ اللہ کا ارشاد ہے کہ وہ ایسی گائے ہونی چاہئے جو نہ بوڑھی ہو نہ بچھیا ہو ، بلکہ اوسط عمر کی ہو ۔ “ یعنی نہ بہت بوڑھی ہو اور نہ بالکل جوان ہو بلکہ اقوسط درجے کی ہو ، لیکن اس مجمل بیان کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پھر انہیں نصیحت کرتے ہیں اور بتاکید انہیں کہتے ہیں ۔ فَافْعَلُوا مَا تُؤْمَرُونَ ” بس جو حکمدیا جارہا ہے اس کی تعمیل کرو۔ “

یہاں تک جو گفتگو ہوئی ، اگر بنی اسرائیل حکم کی تعمیل چاہتے تو یہ کافی وشافی تھی ۔ اس گفتگو سے انہیں تسلی ہوجانی چاہئے تھی ، دومرتبہ یہ جلیل القدر پیغمبر انہیں جادہ مستقیم پر لاچکے اور بارگاہ اقدس میں سوال و جواب اور وہاں سے استفادہ کرنے کے آداب بھی انہیں سمجھا چکے ، دوبارہ انہیں بتاچکے کہ بس آگے بڑھیں اور اپنی گائیوں میں سے کسی اوسط درجے کی گائے ذبح کرڈالیں ۔ نہ بوڑھی ہو اور نہ ہی بہت چھوٹی ، ادھیڑ عمر کی ہو ، اس طرح وہ اس فرض کی ادائیگی سے جلدبری الذمہ ہوجائیں اور اسے ذبح کرکے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرڈالیں اور اپنے آپ کو مزید قیود وحدود اور تنگی ومشقت میں نہ ڈالیں ........ لیکن وائے ناکام ! بنی اسرائیل بہرحال بنی اسرائیل تھے !

حجت بازی کا انجام بنی اسرائیل کی سرکشی سرتابی اور حکم اللہ امر الٰہی وضاحت کے ساتھ کا یہاں بیان ہو رہا ہے کہ حکم پاتے ہیں اس پر عمل نہ کر ڈالا بلکہ شقیں نکالنے اور بار بار سوال کرنے لگے ابن جریج فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ حکم ملتے ہی وہ اگر کسی گائے کو بھی ذبح کر ڈالتے تو کافی تھا لیکن انہوں نے پے درپے سوالات شروع کئے اور کام میں سختی بڑھتی گئی یہاں تک کہ آخر میں وہ انشاء اللہ نہ کہتے تو کبھی بھی سختی نہ ٹلتی اور مطلوبہ گائے ملنا اور مشکل ہوجاتی پہلے سوال کے جواب میں کہا گیا کہ نہ تو وہ بڑھیا ہے نہ بالکل کم عمر ہے۔ بلکہ درمیانی عمر کی ہے پھر دوسرے سوال کے جواب میں اس کا رنگ بیان کیا گیا کہ وہ زرد اور چمکدار رنگ کی ہے جو دیکھنے والوں کے دل کو بہت پسند آئے حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ جو زرد جوتی پہنے وہ ہر قیمت خوش و خرم رہے گا اور اس جملہ سے استدلال کیا ہے تسر الناظرین بعض نے کہا ہے کہ مراد سخت سیاہ رنگ ہے لیکن اول قول ہی صحیح ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ ہم یوں کہیں کہ اسی کی شوخی اور چمکیلے پن سے وہ مثل کالے رنگ کے لگتا تھا وہب بن منبہ کہتے ہیں اس کا رنگ اس قدر شوخ اور گہرا تھا کہ یہ معلوم ہوتا تھا گویا سورج کی شعائیں اس سے اٹھ رہی ہیں توراۃ میں اس کا رنگ سرخ بیان کیا گیا ہے لیکن شاید عربی کرنے والوں کی غلطی ہے واللہ اعلم چونکہ اس رنگ اور اس عمر کی گائیں بھی انہیں بکثرت نظر آئیں تو انہوں نے پھر کہا اے اللہ کے نبی کوئی اور نشانی بھی پوچھئے تاکہ شبہ مٹ جائے انشاء اللہ اب ہمیں رستہ مل جائے گا اگر یہ انشاء اللہ نہ کہتے تو انہیں قیامت تک پتہ نہ چلتا اور اگر یہ سوالات ہی نہ کرتے تو اتنی سختی ان پر عائد نہ ہوتی بلکہ جس گائے کو ذبح کردیتے کفایت ہوجاتی یہ مضمون ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے لیکن اس کی سند غریب ہے صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ حضرت ابوہریرہ کا اپنا کلام ہے واللہ اعلم اب کی مرتبہ اس کے اوصاف بیان کئے گئے کہ وہ ہل میں نہیں جتی، پانی نہیں سینچا، اس کے چمڑے پر کوئی داغ دھبہ نہیں، یکرنگی ہے، سارے بدن میں کہیں دوسرا رنگ نہیں۔ اس کے ہاتھ پاؤں اور کل اعضاء بالکل درست اور توانا ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ گائے کام کرنے والی نہیں ہاں کھیتی کا کام کرتی ہے لیکن پانی نہیں پلاتی مگر یہ قول غلط ہے اس لئے کہ ذلول کی تفسیر یہ ہے کہ وہ ہل نہیں جو تتی اور نہ پانی پلاتی ہے اس میں نہ کوئی داغ دھبہ ہے اب اتنی بڑی کدوکاوش کے بعد بادل ناخواستہ وہ اس کی قربانی کی طرف متوجہ ہوئے اسی لئے فرمایا کہ یہ ذبح کرنا نہیں چاہتے تھے اور ذبح نہ کرنے کے بہانے تلاش کرتے تھے کسی نے کہا ہے اس لئے کہ انہیں اپنی رسوائی کا خیال تھا کہ نہ جانیں کون قاتل ہو بعض کہتے ہیں اس کی قیمت سن کر گھبرا گئے تھے لیکن بعض روایتوں میں آیا ہے کہ کل تین دینار اس کی قیمت لگی تھی لیکن یہ تین دینار والی گائے کے وزن کے برابر سونے والی دونوں روایتیں بنی اسرائیل روایتیں ہیں۔ ٹھیک بات یہی ہے کہ ان کا ارادہ حکم کی بجا آوری کا تھا ہی نہیں لیکن اب اس قدر وضاحت کے بعد اور قتل کا مقدمہ ہونے کی وجہ سے انہیں یہ حکم ماننا ہی پڑا۔ واللہ اعلم۔ اس آیت سے اس مسئلہ پر بھی استدلال ہوسکتا ہے کہ جانوروں کو دیکھے بغیر ادھار دینا جائز ہے اس لئے کہ صفات کا حصر کردیا گیا اور اوصاف پورے بیان کردیئے گئے، جیسے کہ حضرت امام مالک امام اوزاعی امام لیث امام شافعی امام احمد صفات کا حضر کردیا گیا اور اوصاف پورے بیان کردیئے گئے، جیسے کہ حضرت امام مالک امام اوزاعی امام لیت امام شافعی امام احمد اور جمہور علماء کا مذہب ہے اسلاف اور متاخرین کا بھی اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی یہ حدیث بھی ہے کہ کوئی عورت کسی اور عورت کے اوصاف اس طرح اپنے خاوند کے سامنے بیان نہ کرے کہ گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے ایک حدیث میں نبی ﷺ نے دیت کے اونٹوں کے اوصاف بھی بیان فرمائے ہیں قتل خطا اور وہ قتل جو مشابہ " عمد " کے ہے ہاں امام ابوحنیفہ اور دوسرے کوفی اور امام ثوری وغیرہ بیع مسلم کے قائل نہیں وہ کہتے ہیں کہ جانوروں کے اوصاف و احوال پوری طرح ضبط نہیں ہوسکتے اسی طرح کی حکایت ابن مسعود حذیفہ بن یمان اور عبدالرحمٰن بن سمرہ وغیرہ سے بھی کی جاتی ہے۔

آیت 68 - سورۃ البقرہ: (قالوا ادع لنا ربك يبين لنا ما هي ۚ قال إنه يقول إنها بقرة لا فارض ولا بكر عوان بين...) - اردو