سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 10 (آیات 62 سے 69 تک)

إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَٱلَّذِينَ هَادُوا۟ وَٱلنَّصَٰرَىٰ وَٱلصَّٰبِـِٔينَ مَنْ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ وَعَمِلَ صَٰلِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَٰقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ ٱلطُّورَ خُذُوا۟ مَآ ءَاتَيْنَٰكُم بِقُوَّةٍ وَٱذْكُرُوا۟ مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُم مِّنۢ بَعْدِ ذَٰلِكَ ۖ فَلَوْلَا فَضْلُ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُۥ لَكُنتُم مِّنَ ٱلْخَٰسِرِينَ وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ ٱلَّذِينَ ٱعْتَدَوْا۟ مِنكُمْ فِى ٱلسَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا۟ قِرَدَةً خَٰسِـِٔينَ فَجَعَلْنَٰهَا نَكَٰلًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِۦٓ إِنَّ ٱللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تَذْبَحُوا۟ بَقَرَةً ۖ قَالُوٓا۟ أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا ۖ قَالَ أَعُوذُ بِٱللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ ٱلْجَٰهِلِينَ قَالُوا۟ ٱدْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا هِىَ ۚ قَالَ إِنَّهُۥ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌۢ بَيْنَ ذَٰلِكَ ۖ فَٱفْعَلُوا۟ مَا تُؤْمَرُونَ قَالُوا۟ ٱدْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا لَوْنُهَا ۚ قَالَ إِنَّهُۥ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَآءُ فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ ٱلنَّٰظِرِينَ
10

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

یقین جانو کہ نبی عربی کو ماننے والے ہوں یا یہودی، عیسائی ہوں یا صابی، جو بھی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا، اُس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور اس کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena amanoo waallatheena hadoo waalnnasara waalssabieena man amana biAllahi waalyawmi alakhiri waAAamila salihan falahum ajruhum AAinda rabbihim wala khawfun AAalayhim wala hum yahzanoona

فرماں برداروں کے لئے بشارت اوپر چونکہ نافرمانوں کے عذاب کا ذکر تھا تو یہاں ان میں جو لوگ نیک تھے ان کے ثواب کا بیان ہو رہا ہے نبی کی تابعداری کرنے والوں کے لئے یہ بشارت تاقیامت ہے کہ نہ مستقبل کا ڈر نہ یہاں حاصل نہ ہونے والی اشیاء کا افسوس و حسرت۔ آیت (اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ) 10۔ یونس :62) یعنی اللہ کے دوستوں پر کوئی خوف و غم نہیں اور وہ فرشتے جو مسلمان کی روح نکلنے کے وقت آتے ہیں یہی کہتے ہیں آیت (اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ) 41۔ فصلت :30) تم ڈرو نہیں تم اداس نہ ہو تمہیں ہم اس جنت کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا تھا حضرت سلمان فارسی ؓ فرماتے ہیں میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے سے پہلے جن ایمان والوں سے ملا تھا ان کی عبادت اور نماز روزے وغیرہ کا ذکر کیا تو یہ آیت اتری (ابن ابی حاتم) ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت سلمان نے ان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ نمازی روزہ دار ایماندار اور اس بات کے معتقد تھے کہ آپ مبعوث ہونے والے ہیں آپ نے فرمایا کہ وہ جہنمی ہیں، حضرت سلمان کو اس سے بڑا رنج ہوا وہیں یہ آیت نازل ہوئی لیکن یہ واضح رہے کہ یہودیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو توراۃ کو مانتا ہو اور سنت موسیٰ ؑ کا عامل ہو لیکن جب حضرت عیسیٰ ؑ آجائیں تو ان کی تابعداری نہ کرے تو پھر بےدین ہوجائے گا اسی طرح نصرانیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو انجیل کو کلام اللہ مانے شریعت عیسوی پر عمل کرے اور اگر اپنے زمانے میں پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو پالے تو آپ کی تابعداری اور آپ کی نبوت کی تصدیق کرے اگر اب بھی وہ انجیل کو اور اتباع عیسوی کو نہ چھوڑے اور حضور ﷺ کی رسالت کو تسلیم نہ کرے تو ہلاک ہوگا۔ (ابن ابی حاتم) سدی نے یہی روایت کی ہے اور سعید بن جبیر بھی یہی فرماتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ ہر نبی کا تابعدار اس کا ماننے والا ایماندار اور صالح ہے اور اللہ کے ہاں نجات پانے والا لیکن جب دوسرا نبی آئے اور وہ اس سے انکار کرے تو کافر ہوجائے گا۔ قرآن کی ایک آیت تو یہ جو آپ کے سامنے ہے اور دوسری وہ آیت جس میں بیان ہے آیت (وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَھُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ) 3۔ آل عمران :85) یعنی جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہو اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والا ہوگا۔ ان دونوں آیتوں میں یہی تطبیق ہے کسی شخص کا کوئی عمل کوئی طریقہ مقبول نہیں تاوقتیکہ وہ شریعت محمدیہ ﷺ کے مطابق نہ ہو مگر یہ اس وقت ہے جب کہ آپ مبعوث ہو کر دنیا میں آگئے آپ سے پہلے جس نبی کا جو زمانہ تھا اور جو لوگ اس زمانہ میں تھے ان کے لئے ان کے زمانے کے نبی کی تابعداری اور اس کی شریعت کی مطابقت شرط ہے۔ یہود کون ہیں ؟ لفظ یہود ہوداۃ سے ماخوذ ہے جس کے معنی مودۃ اور دوستی کے ہیں یا یہ ماخوذ ہے تہود سے جس سے کے معنی توبہ کے ہیں جیسے قرآن میں ہے آیت (انا ھدنا الیک) حضرت موسیٰ ؑ فرماتے ہیں ہم اے اللہ تیری طرف توبہ کرتے ہیں پس انہیں ان دونوں وجوہات کی بنا پر یہود کہا گیا ہے یہودا حضرت یعقوب کے بڑے لڑکے کا نام تھا ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ توراۃ پڑھتے وقت ہلتے تھے۔ اس بنا پر انہیں یہود یعنی حرکت کرنے والا کہا گیا ہے جب حضرت عیسیٰ ؑ کی نبوت کا زمانہ آیا تو نبی اسرائیل پر آپ کی نبوت کی تصدیق اور آپ کے فرمان کی اتباع واجب ہوئی تب ان کا نام نصاریٰ ہوا کیونکہ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کی نصرت یعنی تائید اور مدد کی تھی انہیں انصار بھی کہا گیا ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کا قول ہے آیت (مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَار اللّٰهِ) 3۔ آل عمران :52) اللہ کے دین میں میرا مددگار کون ہے ؟ حواریوں نے کہا ہم ہیں بعض کہتے ہیں یہ لوگ جہاں اترتے تھے اس زمین کا نام ناصرہ تھا اس لئے انہیں نصاریٰ کہا گیا قتادہ اور ابن جریج کا یہی قول ہے ابن عباس سے بھی مروی ہے واللہ اعلم۔ نصاریٰ نصران کی جمع ہے جیسے نشوان کی جمع نشاوی اور سکران کی جمع سکاری اس کا مونث نصراتہ آتا ہے اب جبکہ خاتم الانبیاء ﷺ کا زمانہ آیا اور آپ تمام دنیا کی طرف رسول و نبی بنا کر بھیجے گئے تو ان پر بھی اور دوسرے سب پر بھی آپ کی تصدیق و اتباع واجب قرار دی گئی اور ایمان و یقین کی پختگی کی وجہ سے آپ کی امت کا نام مومن رکھا گیا اور اس لئے بھی کہ ان کا ایمان تمام اگلے انبیاء پر بھی ہے اور تمام آنے والی باتوں پر بھی۔ صابی کے معنی ایک تو بےدین اور لامذہب کئے گئے ہیں اور اہل کتاب کے ایک فرقہ کا نام بھی یہ تھا جو زبور پڑھا کرتے تھے اسی بنا پر ابوحنیفہ اور اسحاق کا مذہب ہے کہ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ ہمارے لئے حلال ہے اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنا بھی۔ حضرت حسن اور حضرت حکم فرماتے ہیں یہ گروہ مجوسیوں کے مانند ہے یہ بھی مروی ہے کہ یہ لوگ فرشتوں کے پجاری تھے۔ زیاد نے جب یہ سنا تھا کہ یہ لوگ پانچ وقت نماز قبلہ کی جانب رخ کر کے پڑھا کرتے ہیں تو ارادہ کیا کہ انہیں جزیہ معاف کر دے لیکن ساتھ ہی معلوم ہوا کہ وہ مشرک ہیں تو اپنے ارادہ سے باز رہے۔ ابو الزناد فرماتے ہیں یہ لوگ عراقی ہیں۔ بکوثی کے رہنے والے سب نبیوں کو مانتے ہیں ہر سال تیس روزے رکھتے ہیں اور یمن کی طرف منہ کر کے ہر دن میں پانچ نماز ہیں پڑھتے ہیں وہب بن منبہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یہ لوگ جانتے ہیں لیکن کسی شریعت کے پابند نہیں اور کفار بھی نہیں عبدالرحمن بن زید کا قول ہے کہ یہ بھی ایک مذہب ہے جزیرہ موصل میں یہ لوگ تھے آیت (لا الہ الا اللہ) پڑھتے تھے اور کسی کتاب یا نبی کو نہیں مانتے تھے اور نہ کوئی خاص شرع کے عامل تھے مشرکین اسی بنا پر آنحضور ﷺ اور آپ کے صحابہ کو لا الہ اللہ صابی کہتے تھے یعنی کہنے کی بنا پر،۔ ان کا دین نصرانیوں سے ملتا جلتا تھا ان کا قبلہ جنوب کی طرف تھا یہ لوگ اپنے آپ کو حضرت نوح کے دین پر بتاتے تھے ایک قول یہ بھی ہے کہ یہود مجوس کے دین کا خلط ملط یہ مذہب تھا ان کا ذبیحہ کھانا اور کی عورتوں سے نکاح کرنا ممنوع ہے قرطبی فرماتے ہیں مجھے جہاں تک معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ موحد تھے لیکن تاروں کی تاثیر اور نجوم کے معتقد تھے ابو سعید اصطخری نے ان پر کفر کا فتویٰ صادر کیا ہے رازی فرماتے ہیں یہ ستارہ پرست لوگ تھے کشرانبین میں سے تھے جن کی جانب حضرت ابراہیم ؑ بھیجے گئے تھے حقیقت حال کا علم تو محض اللہ تعالیٰ کو ہے مگر بظاہر یہی قول اچھا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ نہ یہودی تھے نہ نصرانی نہ مجوسی نہ مشرک بلکہ یہ لوگ فطرت پر تھے کسی خاص مذہب کے پابند نہ تھے اور اسی معنی میں مشرکین اصحاب رسول اللہ ﷺ کو صابی کہا کرتے تھے یعنی ان لوگوں نے تمام مذاہب ترک کر دئیے تھے بعض علماء کا قول ہے کہ صابی وہ ہیں جنہیں کسی نبی کی دعوت نہیں پہنی۔ واللہ اعلم۔

اردو ترجمہ

یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے طُور کو تم پر اٹھا کر تم سے پختہ عہد لیا تھا اور کہا تھا کہ "جو کتاب ہم تمہیں دے رہے ہیں اسے مضبوطی کے ساتھ تھامنا اور جو احکام و ہدایات اس میں درج ہیں انہیں یاد رکھنا اسی ذریعے سے توقع کی جاسکتی ہے کہ تم تقویٰ کی روش پر چل سکو گے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith akhathna meethaqakum warafaAAna fawqakumu alttoora khuthoo ma ataynakum biquwwatin waothkuroo ma feehi laAAallakum tattaqoona

عہد شکن یہود ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو ان کے عہد و پیمان یاد دلا رہا ہے کہ میری عبادت اور میرے نبی کی اطاعت کا وعدہ میں تم سے لے چکا ہوں اور اس وعدے کو پورا کرانے اور منوانے کے لئے میں نے طور پہاڑ کو تمہارے سروں پر لا کر کھڑا کردیا تھا جیسے اور جگہ ہے آیت (وَاِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَاَنَّهٗ ظُلَّـةٌ وَّظَنُّوْٓا اَنَّهٗ وَاقِعٌۢ بِهِمْ) 7۔ الاعراف :171) جب ہم نے ان کے سروں پر سائبان کی طرح پہاڑ لا کر کھڑا کیا اور وہ یقین کرچکے کہ اب پہاڑ ان پر گر کر انہیں کچل ڈالے گا اس وقت ہم نے کہا ہماری دی ہوئی چیز کو مضبوط تھامو اور اس میں جو کچھ ہے اسے یاد کرو تو بچ جاؤ گے " طور " سے مراد پہاڑ ہے جیسے سورة اعراف کی آیت میں ہے اور جیسے صحابہ اور تابعین نے اس کی تفسیر کی ہے ثابت یہی ہے کہ طور اس پہاڑ کو کہتے ہیں جس پر سبزہ اگتا ہو۔ حدیث فتون میں بروایت ابن عباس مروی ہے کہ جب انہوں نے اطاعت سے انکار کرنے کے باعث ان کے سر پر پہاڑ آگیا لیکن اسی وقت یہ سب سجدے میں گرپڑے اور مارے ڈر کے کنکھیوں سے اوپر کی طرف دیکھتے رہے اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور پہاڑ ہٹا لیا اسی وجہ سے وہ اسی سجدے کو پسند کرتے ہیں کہ آدھا دھڑ سجدے میں ہو اور دوسری طرف سے اونچے دیکھ رہے ہوں۔ جو ہم نے دیا اس سے مراد توراۃ ہے قوت سے مراد طاعت ہے یعنی توراۃ پر مضبوطی سے جم کر عمل کرنے کا وعدہ کرو ورنہ پہاڑ تم پر گرا دیا جائے گا اور اس میں جو ہے اسے یاد کرو اور اس پر عمل کرو یعنی توراۃ پڑھتے پڑھاتے رہو۔ لیکن ان لوگوں نے اتنے پختہ میثاق اتنے اعلیٰ عہد اور اس قدر زبردست وعدے کے بعد بھی کچھ پرواہ نہ کی۔ اور عہد شکنی کی اب اگر اللہ تعالیٰ کی کرم فرمائی اور رحمت نہ ہوتی اگر وہ توبہ قبول نہ فرماتا اور نبیوں کے سلسلہ کو برابر جاری نہ رکھتا تو یقینا تمہیں زبردست نقصان پہنچتا اس وعدے کو توڑنے کی بنا پر دنیا اور آخرت میں تم برباد ہوجاتے۔

اردو ترجمہ

مگر اس کے بعد تم اپنے عہد سے پھِر گئے اس پر بھی اللہ کے فضل اور اس کی رحمت نے تمہارا ساتھ نہ چھوڑا، ورنہ تم کبھی کے تباہ ہو چکے ہوتے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Thumma tawallaytum min baAAdi thalika falawla fadlu Allahi AAalaykum warahmatuhu lakuntum mina alkhasireena

اردو ترجمہ

پھر تمہیں اپنی قوم کے اُن لوگوں کا قصہ تو معلوم ہی ہے جنہوں نے سبت کا قانون توڑا تھا ہم نے انہیں کہہ دیا کہ بندر بن جاؤ اور اس حال میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دھتکار پھٹکار پڑے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Walaqad AAalimtumu allatheena iAAtadaw minkum fee alssabti faqulna lahum koonoo qiradatan khasieena

صورتیں مسخ کردی گئیں اس واقعہ کا بیان تفصیل کے ساتھ سورة اعراف میں ہے جہاں فرمایا آیت (وَسْــــَٔـلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِيْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ) 7۔ الاعراف :163) وہیں اس کی تفسیر بھی پوری بیان ہوگی۔ انشاء اللہ تعالیٰ یہ ایلہ بستی کے باشندے تھے ان پر ہفتہ کے دن تعظیم ضروری کی گئی تھی اس دن کا شکار منع کیا گیا تھا۔ اور حکم باری تعالیٰ سے مچھلیاں اسی دن بکثرت آیا کرتی تھیں تو انہوں نے مکاری کی۔ گڑھے کھود لئے۔ رسیاں اور کانٹے ڈال دئیے۔ ہفتہ والے دن وہ آگئیں۔ یہاں پھنس گئیں۔ اتوار کی رات کو جا کر پکڑ لیا۔ اس جرم پر اللہ نے ان کی شکلیں بدل دیں۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں صورتیں نہیں بدلی تھیں بلکہ دل مسخ ہوگئے تھے یہ صرف بطور مثال کے ہے جیسے عمل نہ کرنے والے علماء کو گدھوں سے مثال دی ہے لیکن یہ قول غریب ہے اور عبارت قرآن کے ظاہر الفاظ کے بھی خلاف ہے اس آیت پر پھر سورة اعراف کی آیت آیت (واسالھم) الخ اور آیت (وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَـنَازِيْرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوْتَ) 5۔ المائدہ :60) پر نظر ڈالو حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جوان لوگ بندر بن گئے اور بوڑھے سور بنا دئیے گئے۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں یہ تمام مرد اور عورت دم والے بندربنا دئیے گئے۔ آسمانی آواز آئی کہ تم سب بندر بن جاؤ چناچہ سب کے سب بندر بن گئے جو لوگ انہیں اس مکروہ حیلہ سے روکتے تھے وہ اب آئے اور کہنے لگے دیکھو ہم پہلے سے تمہیں منع کرتے تھے ؟ تو وہ سر ہلاتے تھے یعنی ہاں۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں تھوڑی مدت میں وہ سب ہلاک ہوگئے ان کی نسل نہیں ہوئی تین دن سے زیادہ کوئی مسخ شدہ قوم زندہ نہیں رہتی یہ سب بھی تین دن میں ہی یونہی ناک رگڑتے رگڑتے مرگئے کھانا پینا اور نسل سب منقطع ہوگئی۔ یہ بندر جواب ہیں اور جو اس وقت بھی تھے یہ تو جانور ہیں جو اسی طرح پیدا کئے گئے تھے اللہ تعالیٰ جو چاہے اور جس طرح چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے جس طرح کا چاہے بنا دیتا ہے (اللہ اپنے غضب و غصہ سے اور اپنی پکڑ دھکڑ سے اور اپنے دینوی اور اخروی عذاب سے نجات دے آمین) خاسین کے معنی ذلیل اور کمینہ۔ ان کا واقعہ تفصیل کے ساتھ حضرت ابن عباس وغیرہ نے جو بیان کیا ہے وہ سب سن لیجئے۔ ان پر جمعہ کی عزت و ادب کو فرض کیا گیا لیکن انہوں نے جمعہ کے دن کو پسند نہ کیا اور ہفتہ کا دن رکھا اس دن کی عظمت کے طور پر ان پر شکار کھیلنا وغیرہ اس دن حرام کردیا گیا۔ ادھر اللہ کی آزمائش کی بنا پر ہفتہ والے دن تمام مچھلیاں اوپر آ جایا کرتی تھیں اور کودتی اچھلتی رہتی تھیں لیکن باقی دنوں میں کوئی نظر ہی نہیں آتی تھی۔ ایک مدت تک تو یہ لوگ خاموش رہے اور شکار کرنے سے رکے رہے۔ بعد ازاں ان میں سے ایک شخص نے یہ حیلہ نکالا کہ ہفتہ والے دن مچھلی کو پکڑ لیا اور پھندے میں پھانس کر ڈوری کو کنارے پر کسی چیز سے باندھ دیا اتوار والے دن جا کر نکال لایا اور پکا کر کھائی۔ لوگوں نے خوشبو پا کر پوچھا تو اس نے کہا میں نے تو آج اتوار کو شکار کیا ہے آخر یہ راز کھلا تو اور لوگوں نے بھی اس حیلہ کو پسند کیا اور اس طرح وہ سب مچھلیوں کا شکار کرنے لگے پھر تو بعض نے دریا کے آس پاس گڑھے کھود لئے ہفتہ والے دن جب مچھلیاں اس میں آ جاتیں تو اسے بند کردیتے اور اتوار والے دن پکڑ لاتے کچھ لوگ جو ان میں نیک دل اور سچے مسلمان تھے وہ انہیں روکتے اور منع کرتے رہے لیکن ان کا جواب یہی ہوتا تھا کہ ہم ہفتہ کو شکار ہی نہیں کھیلتے ہم تو اتوار والے دن پکڑتے ہیں ان شکار کھیلنے والوں اور ان کو منع کرنے والوں کے سوا ایک گروہ ان میں اور بھی تھا جو مصلحت وقت برتنے والا اور دونوں فرقوں کو راضی رکھنے والا وہ تو پورا ساتھ دیتا تھا۔ ان کا نہ شکار کھیلتے تھے نہ شکاریوں کو روکتے تھے بلکہ روکنے والوں سے کہتے تھے کہ اس قوم کو کیوں وعظ و نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرے گا یا سخت عذاب کرے اور تم اپنا فرض بھی ادا کرچکے انہیں منع کرچکے جب نہیں مانتے تو اب انہیں چھوڑو۔ یہ جواب دیتے کہ ایک تو اللہ کے ہاں ہم معذور ہوجائیں اس لئے اور دوسرے لئے بھی کہ شاید آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں یہ مان جائیں اور عذاب اللہ سے نجات پائیں بالآخر اس مسلم جماعت نے اس حیلہ کو جو فرقہ کا بالکل بائیکاٹ کردیا اور ان سے بالکل الگ ہوگئے۔ بستی کے درمیان ایک دیوار کھینچ لی اور دروازے اپنے آنے جانے کا رکھا اور ایک دروازہ ان حیلہ جو نافرمانوں کے لئے اس پر بھی ایک مدت اسی طرح گزر گئی ایک دن صبح مسلمان جاگے دن چڑھ گیا لیکن اب تک ان لوگوں نے اپنا دروازہ نہیں کھولا تھا اور نہ ان کی آوازیں آرہی تھیں یہ لوگ متحیر تھے کہ آج کیا بات ہے ؟ آخر جب زیادہ دیر لگ گئی تو ان لوگوں نے دیوار پر چڑھ کر دیکھا تو وہاں عجب منظر نظر آیا دیکھا کہ وہ تمام لوگ مع عورتوں بچوں کے بندر بن گئے ہیں ان کے گھر جو راتوں کو بند تھے اسی طرح بند ہیں اور اندر وہ کل انسان بندر کی صورتوں میں ہیں جن کی دمیں نکلی ہوئی ہیں۔ بچے چھوٹے بندروں کی شکل میں مرد بڑے بندروں کی صورت میں عورتیں بندریاں بنی ہوئی ہیں اور ہر ایک پہچانا جاتا ہے کہ یہ فلاں مرد ہے یہ فلاں عورت ہے یہ فلاں بچہ ہے وغیرہ یہ بھی یاد رہے کہ جب یہ عتاب آیا تو نہ صرف وہی ہلاک ہوئے جو شکار کھیلتے تھے بلکہ ان کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہوئے جو انہیں منع نہ کرتے تھے اور خاموش بیٹھے ہوئے تھے اور میل جول ترک نہ کیا تھا صرف وہ بچے جو انہیں منع کرتے رہے اور ان سے الگ تھلگ ہوگئے تھے یہ تمام اقوال اور قرآن کریم کی کئی ایک آیتیں وغیرہ شاہد ہیں کہ صحیح بات یہی ہے کہ ان کی صورتیں بدل دی گئی تھیں سچ مچ بندر بنا دئیے گئے نہ یہ کہ معنوی مسخ تھا یعنی ان کے دل بندروں جیسے ہوگئے تھے جیسے کہ مجاہد کا قول ہے ٹھیک تفسیر یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سور اور بندر بنادیا تھا اور ظاہری صورتیں بھی ان کی ان بدجانوروں جیسی ہوگئیں۔ واللہ اعلم۔ فجعلناھا میں ھا کی ضمیر کا مرجع قردہ ہے یعنی ہم نے ان بندروں کو سبب عبرت بنایا اس کا مرجع حیتان ہے یعنی ان مچھلیوں کو یا اس کا مرجع عقوبتہ ہے یعنی اس سزا کو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس مرجع کا قریہ ہے یعنی اس بستی کو ہم نے اگلے پچھلوں کے لئے عبرتناک امر واقعہ بنادیا اور صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ قریہ مراد ہے اور قریہ سے مراد اہل قریہ میں نکال کہتے ہیں عذاب و سزا کو جیسے اور جگہ ہے آیت (فَاَخَذَهُ اللّٰهُ نَكَالَ الْاٰخِرَةِ وَالْاُوْلٰى) 79۔ النازعات :25) اس کو عبرت کا سبب بنایا آگے پیچھے والی بستیوں کے لئے جیسے اور جگہ ہے آیت (وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَصَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ) 46۔ الاحقاف :27) ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیوں کو ہلاک کیا اور اپنی نشانیاں بیان فرمائیں تاکہ وہ لوگ لوٹ آئیں اور ارشاد ہے آیت (اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَاْتِي الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا) 13۔ الرعد :41) اور یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اس وقت کے موجود لوگوں کے لئے اور بعد میں آنے والوں کے لئے یہ عبرت ناک واقعہ دلیل راہ بن جائے گو بعض لوگوں کے یہ بھی کہا ہے کہ اگلوں بعد میں آنے والوں کے لئے یہ واقعہ گو کتنا ہی زبردست عبرتناک ہو دلیل نہیں بن سکتا اس لئے کہ وہ تو گزر چکے تو ٹھیک قول یہی ہے کہ یہاں مراد مکان اور جگہ ہے یعنی آس پاس کی بستیاں اور یہی تفسیر ہے حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت سعید بن جیر رحمۃ اللہ کی۔ واللہ اعلم۔ اور یہ بھی معنی بیان کئے گئے ہیں کہ ان کے اگلے گناہ اور ان کے بعد آنے والے لوگوں کو ایسے ہی گناہوں کے لئے ہم نے اس سزا کو عبرت کا سبب بنایا، لیکن صحیح قول وہی ہے جس کی صحت ہم نے بیان کی، یعنی آس پاس کی بستیاں، قرآن فرماتا ہے آیت (وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَصَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ) 46۔ الاحقاف :27) اور فرمان ہے آیت (وَلَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ حَتّٰى تَاْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً اَوْ يَاْتِيَهُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيْمٍ) 22۔ الحج :55) اور فرمان ہے آیت (ۭاَفَلَا يَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِي الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا ۭ اَفَـهُمُ الْغٰلِبُوْنَ) 21۔ الانبیآء :44) غرض یہ عذاب ان کے زمانے والوں کے لئے اور بعد میں آنے والوں کے لئے ایک سبق ہے اور اسی لئے فرمایا آیت (وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ) 2۔ البقرۃ :66) یعنی یہ جو بعد میں آئیں گے ان پرہیزگاروں کے لئے موجب نصیحت ہو۔ موجب نصیحت یہاں تک کہ امت محمد ﷺ کے لئے بھی کہ یہ لوگ ڈرتے رہیں کہ جو عذاب و سزائیں ان پر ان کے حیلوں کی وجہ سے، ان کے مکرو فریب سے حرام کو حلال کرلینے کے باعث نازل ہوئیں ان کے بعد بھی جو ایسا کریں گے ایسا نہ ہو کہ وہی سزا اور وہی عذاب ان پر بھی آجائیں۔ ایک صحیح حدیث امام ابو عبد اللہ بن بطہ نے وارد کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا حدیث (لا ترتکبوا ما ارتکبت الیھود فستحلوا محارم اللہ بادنی الحیل) یعنی تم وہ نہ کرو جو یہودیوں نے کیا یعنی حیلے حوالوں سے اللہ کے حرام کو حلال نہ کرلیا کرو۔ یعنی شرعی احکام میں حیلہ جوئی سے بچو۔ یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس کے سب راوی ثقہ ہیں واللہ اعلم۔

اردو ترجمہ

اس طرح ہم نے اُن کے انجام کو اُس زمانے کے لوگوں اور بعد کی آنے والی نسلوں کے لیے عبرت اور ڈرنے والوں کے لیے نصیحت بنا کر چھوڑا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

FajaAAalnaha nakalan lima bayna yadayha wama khalfaha wamawAAithatan lilmuttaqeena

اردو ترجمہ

پھر وہ واقعہ یاد کرو، جب موسیٰؑ نے اپنے قوم سے کہا کہ، اللہ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے کہنے لگے کیا تم ہم سے مذاق کرتے ہو؟ موسیٰؑ نے کہا، میں اس سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qala moosa liqawmihi inna Allaha yamurukum an tathbahoo baqaratan qaloo atattakhithuna huzuwan qala aAAoothu biAllahi an akoona mina aljahileena

قاتل کون ؟ اس کا پورا واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص بہت مالدار اور تونگر تھا اس کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی صرف ایک لڑکی تھی اور ایک بھیتجا تھا بھتیجے نے جب دیکھا کہ بڈھا مرتا ہی نہیں تو ورثہ کے لالچ میں اسے خیال آیا کہ میں ہی اسے کیوں نہ مار ڈالوں ؟ اور اس کی لڑکی سے نکاح بھی کرلوں قتل کی تہمت دوسروں پر رکھ کر دیت بھی وصول کروں اور مقتول کے مال کا مالک بھی بن جاؤں اس شیطانی خیال میں وہ پختہ ہوگیا اور ایک دن موقع پا کر اپنے چچا کو قتل کر ڈالا۔ بنی اسرائیل کے بھلے لوگ ان کے جھگڑوں بکھیڑوں سے تنگ آ کر یکسو ہو کر ان سے الگ ایک اور شہر میں رہتے تھے شام کو اپنے قلعہ کا پھاٹک بند کردیا کرتے تھے اور صبح کھولتے تھے کسی مجرم کو اپنے ہاں گھسنے بھی نہیں دیتے تھے، اس بھتیجے نے اپنے چچا کی لاش کو لے جا کر اس قلعہ کے پھاٹک کے سامنے ڈال دیا اور یہاں آ کر اپنے چچا کو ڈھونڈنے لگا پھر ہائے دہائی مچا دی کہ میرے چچا کو کسی نے مار ڈالا۔ آخر کار ان قلعہ والوں پر تہمت لگا کر ان سے دیت کا روپیہ طلب کرنے لگا انہوں نے اس قتل سے اور اس کے علم سے بالکل انکار کیا، لیکن یہ اڑ گیا یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں کو لے کر ان سے لڑائی کرنے پر تل گیا یہ لوگ عاجز آ کر حضرت موسیٰ ؑ کے پاس آئے اور واقعہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ شخص خواہ مخواہ ہم پر ایک قتل کی تہمت لگا رہا ہے حالانکہ ہم بری الذمہ ہیں۔ موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی وہاں سے وحی نازل ہوئی کہ ان سے کہو ایک گائے ذبح کریں انہوں نے کہا اے اللہ کے نبی کہاں قاتل کی تحقیق اور کہاں آپ گائے کے ذبح کا حکم دے رہے ہیں ؟ کیا آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں ؟ موسیٰ ؑ نے فرمایا اعوذ باللہ (مسائل شرعیہ کے موقع پر) مذاق جاہلوں کا کام ہے اللہ عزوجل کا حکم یہی ہے اب اگر یہ لوگ جا کر کسی گائے کو ذبح کردیتے تو کافی تھا لیکن انہوں نے سوالات کا دروازہ کھولا اور کہا وہ گائے کیسی ہونی چاہئے ؟ اس پر حکم ہوا کہ وہ نہ بہت بڑھیا ہے نہ بچہ ہے جوان عمر کی ہے انہوں نے کہا حضرت ایسی گائیں تو بہت ہیں یہ بیان فرمائیے کہ اس کا رنگ کیا ہے ؟ وحی اتری کہ اس کا رنگ بالکل صاف زردی مائل ہے باہر دیکھنے والے کی آنکھوں میں اترتی جاتی ہے پھر کہنے لگے حضرت ایسی گائیں بھی بہت سی ہیں کوئی اور ممتاز وصف بیان فرمائیے وحی نازل ہوئی کہ وہ کبھی ہل میں نہیں جوتی گئی، کھیتوں کو پانی نہیں پلایا ہر عیب سے پاک ہے یک رنگی ہے کوئی داغ دھبہ نہیں جوں جوں وہ سوالات بڑھاتے گئے حکم میں سختی ہوتی گئی۔ احترام والدین پر انعام الٰہی اب ایسی گائے ڈھونڈنے کو نکلے تو وہ صرف ایک لڑکے کے پاس ملی۔ یہ بچہ اپنے ماں باپ کا نہایت فرمانبردار تھا ایک مرتبہ جبکہ اس کا باپ سویا ہوا تھا اور نقدی والی پیٹی کی کنجی اس کے سرہانے تھی ایک سوداگر ایک قیمتی ہیرا بیچتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ میں اسے بیچنا چاہتا ہوں لڑکے نے کہا میں خریدوں گا قیمت ستر ہزار طے ہوئی لڑکے نے کہا ذرا ٹھہرو جب میرے والد جاگیں گے تو میں ان سے کنجی لے کر آپ کو قیمت ادا کر دونگا اس نے کہا ابھی دے دو تو دس ہزار کم کردیتا ہوں اس نے کہا نہیں حضرت میں اپنے والد کو جگاؤں گا نہیں تم اگر ٹھہر جاؤ تم میں بجائے ستر ہزار کے اسی ہزار دوں گا یونہی ادھر سے کمی اور ادھر سے زیادتی ہونی شروع ہوتی ہے یہاں تک کہ تاجر تیس ہزار قیمت لگا دیتا ہے کہ اگر تم اب جگا کر مجھے روپیہ دے دو میں تیس ہزار میں دیتا ہوں لڑکا کہتا ہے اگر تم ٹھہر جاؤ یا ٹھہر کر آؤ میرے والد جاگ جائیں تو میں تمہیں ایک لاکھ دوں گا آخر وہ ناراض ہو کر اپنا ہیرا واپس لے کر چلا گیا باپ کی اس بزرگی کے احساس اور ان کے آرام پہنچانے کی کوشش کرنے اور ان کا ادب و احترام کرنے سے پروردگار اس لڑکے سے خوش ہوجاتا ہے اور اسے یہ گائے عطا فرماتا ہے جب بنی اسرائیل اس قسم کی گائے ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو سوا اس لڑکے کے اور کسی کے پاس نہیں پاتے اس سے کہتے ہیں کہ اس ایک گائے کے بدلے دو گائیں لے لو یہ انکار کرتا ہے پھر کہتے ہیں تین لے لو چار لے لو لیکن یہ راضی نہیں ہوتا دس تک کہتے ہیں مگر پھر بھی نہیں مانتا یہ آ کر حضرت موسیٰ سے شکایت کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں جو یہ مانگے دو اور اسے راضی کر کے گائے خریدو آخر گائے کے وزن کے برابر سونا دیا گیا تب اس نے اپنی گائے بیچی یہ برکت اللہ نے ماں باپ کی خدمت کی وجہ سے اسے عطا فرمائی جبکہ یہ بہت محتاج تھا اس کے والد کا انتقال ہوگیا تھا اور اس کی بیوہ ماں غربت اور تنگی کے دن بسر کر رہی تھی غرض اب یہ گائے خرید لی گئی اور اسے ذبح کیا گیا اور اس کے جسم کا ایک ٹکڑا لے کر مقتول کے جسم سے لگایا گیا تو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ مردہ جی اٹھا اس سے پوچھا گیا کہ تمہیں کس نے قتل کیا ہے اس نے کہا میرے بھتیجے نے اس لئے کہ وہ میرا مال لے لے اور میری لڑکی سے نکاح کرلے بس اتنا کہہ کر وہ پھر مرگیا اور قاتل کا پتہ چل گیا اور بنی اسرائیل میں جو جنگ وجدال ہونے والی تھی وہ رک گئی اور یہ فتنہ دب گیا اس بھتیجے کو لوگوں نے پکڑ لیا اس کی عیاری اور مکاری کھل گئی اور اسے اس کے بدلے میں قتل کر ڈالا گیا یہ قصہ مختلف الفاظ سے مروی ہے بہ ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بنی اسرائیل کے ہاں کا واقعہ ہے جس کی تصدیق، تکذیب ہم نہیں کرسکتے ہاں روایت جائز ہے تو اس آیت میں یہی بیان ہو رہا ہے کہ اے بنی اسرائیل میری اس نعمت کو بھی نہ بھولو کہ میں نے عادت کے خلاف بطور معجزے کے ایک گائے کے جسم کو لگانے سے ایک مردہ کو زندہ کردیا اس مقتول نے اپنے قاتل کا پتہ بتادیا اور ایک ابھرنے والا فتنہ دب گیا۔

اردو ترجمہ

بولے اچھا، اپنے رب سے درخواست کرو کہ وہ ہمیں گائے کی کچھ تفصیل بتائے موسیٰؑ نے کہا، اللہ کا ارشاد ہے کہ وہ ایسی گائے ہونی چاہیے جو نہ بوڑھی ہو نہ بچھیا، بلکہ اوسط عمر کی ہو لہٰذا جو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo odAAu lana rabbaka yubayyin lana ma hiya qala innahu yaqoolu innaha baqaratun la faridun wala bikrun AAawanun bayna thalika faifAAaloo ma tumaroona

حجت بازی کا انجام بنی اسرائیل کی سرکشی سرتابی اور حکم اللہ امر الٰہی وضاحت کے ساتھ کا یہاں بیان ہو رہا ہے کہ حکم پاتے ہیں اس پر عمل نہ کر ڈالا بلکہ شقیں نکالنے اور بار بار سوال کرنے لگے ابن جریج فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ حکم ملتے ہی وہ اگر کسی گائے کو بھی ذبح کر ڈالتے تو کافی تھا لیکن انہوں نے پے درپے سوالات شروع کئے اور کام میں سختی بڑھتی گئی یہاں تک کہ آخر میں وہ انشاء اللہ نہ کہتے تو کبھی بھی سختی نہ ٹلتی اور مطلوبہ گائے ملنا اور مشکل ہوجاتی پہلے سوال کے جواب میں کہا گیا کہ نہ تو وہ بڑھیا ہے نہ بالکل کم عمر ہے۔ بلکہ درمیانی عمر کی ہے پھر دوسرے سوال کے جواب میں اس کا رنگ بیان کیا گیا کہ وہ زرد اور چمکدار رنگ کی ہے جو دیکھنے والوں کے دل کو بہت پسند آئے حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ جو زرد جوتی پہنے وہ ہر قیمت خوش و خرم رہے گا اور اس جملہ سے استدلال کیا ہے تسر الناظرین بعض نے کہا ہے کہ مراد سخت سیاہ رنگ ہے لیکن اول قول ہی صحیح ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ ہم یوں کہیں کہ اسی کی شوخی اور چمکیلے پن سے وہ مثل کالے رنگ کے لگتا تھا وہب بن منبہ کہتے ہیں اس کا رنگ اس قدر شوخ اور گہرا تھا کہ یہ معلوم ہوتا تھا گویا سورج کی شعائیں اس سے اٹھ رہی ہیں توراۃ میں اس کا رنگ سرخ بیان کیا گیا ہے لیکن شاید عربی کرنے والوں کی غلطی ہے واللہ اعلم چونکہ اس رنگ اور اس عمر کی گائیں بھی انہیں بکثرت نظر آئیں تو انہوں نے پھر کہا اے اللہ کے نبی کوئی اور نشانی بھی پوچھئے تاکہ شبہ مٹ جائے انشاء اللہ اب ہمیں رستہ مل جائے گا اگر یہ انشاء اللہ نہ کہتے تو انہیں قیامت تک پتہ نہ چلتا اور اگر یہ سوالات ہی نہ کرتے تو اتنی سختی ان پر عائد نہ ہوتی بلکہ جس گائے کو ذبح کردیتے کفایت ہوجاتی یہ مضمون ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے لیکن اس کی سند غریب ہے صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ حضرت ابوہریرہ کا اپنا کلام ہے واللہ اعلم اب کی مرتبہ اس کے اوصاف بیان کئے گئے کہ وہ ہل میں نہیں جتی، پانی نہیں سینچا، اس کے چمڑے پر کوئی داغ دھبہ نہیں، یکرنگی ہے، سارے بدن میں کہیں دوسرا رنگ نہیں۔ اس کے ہاتھ پاؤں اور کل اعضاء بالکل درست اور توانا ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ گائے کام کرنے والی نہیں ہاں کھیتی کا کام کرتی ہے لیکن پانی نہیں پلاتی مگر یہ قول غلط ہے اس لئے کہ ذلول کی تفسیر یہ ہے کہ وہ ہل نہیں جو تتی اور نہ پانی پلاتی ہے اس میں نہ کوئی داغ دھبہ ہے اب اتنی بڑی کدوکاوش کے بعد بادل ناخواستہ وہ اس کی قربانی کی طرف متوجہ ہوئے اسی لئے فرمایا کہ یہ ذبح کرنا نہیں چاہتے تھے اور ذبح نہ کرنے کے بہانے تلاش کرتے تھے کسی نے کہا ہے اس لئے کہ انہیں اپنی رسوائی کا خیال تھا کہ نہ جانیں کون قاتل ہو بعض کہتے ہیں اس کی قیمت سن کر گھبرا گئے تھے لیکن بعض روایتوں میں آیا ہے کہ کل تین دینار اس کی قیمت لگی تھی لیکن یہ تین دینار والی گائے کے وزن کے برابر سونے والی دونوں روایتیں بنی اسرائیل روایتیں ہیں۔ ٹھیک بات یہی ہے کہ ان کا ارادہ حکم کی بجا آوری کا تھا ہی نہیں لیکن اب اس قدر وضاحت کے بعد اور قتل کا مقدمہ ہونے کی وجہ سے انہیں یہ حکم ماننا ہی پڑا۔ واللہ اعلم۔ اس آیت سے اس مسئلہ پر بھی استدلال ہوسکتا ہے کہ جانوروں کو دیکھے بغیر ادھار دینا جائز ہے اس لئے کہ صفات کا حصر کردیا گیا اور اوصاف پورے بیان کردیئے گئے، جیسے کہ حضرت امام مالک امام اوزاعی امام لیث امام شافعی امام احمد صفات کا حضر کردیا گیا اور اوصاف پورے بیان کردیئے گئے، جیسے کہ حضرت امام مالک امام اوزاعی امام لیت امام شافعی امام احمد اور جمہور علماء کا مذہب ہے اسلاف اور متاخرین کا بھی اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی یہ حدیث بھی ہے کہ کوئی عورت کسی اور عورت کے اوصاف اس طرح اپنے خاوند کے سامنے بیان نہ کرے کہ گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے ایک حدیث میں نبی ﷺ نے دیت کے اونٹوں کے اوصاف بھی بیان فرمائے ہیں قتل خطا اور وہ قتل جو مشابہ " عمد " کے ہے ہاں امام ابوحنیفہ اور دوسرے کوفی اور امام ثوری وغیرہ بیع مسلم کے قائل نہیں وہ کہتے ہیں کہ جانوروں کے اوصاف و احوال پوری طرح ضبط نہیں ہوسکتے اسی طرح کی حکایت ابن مسعود حذیفہ بن یمان اور عبدالرحمٰن بن سمرہ وغیرہ سے بھی کی جاتی ہے۔

اردو ترجمہ

پھر کہنے لگے اپنے رب سے یہ اور پوچھ دو کہ اُس کا رنگ کیسا ہو موسیٰؑ نے کہا وہ فرماتا ہے زرد رنگ کی گائے ہونی چاہیے، جس کا رنگ ایسا شوخ ہو کہ دیکھنے والوں کا جی خوش ہو جائے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo odAAu lana rabbaka yubayyin lana ma lawnuha qala innahu yaqoolu innaha baqaratun safrao faqiAAun lawnuha tasurru alnnathireena
10