سورۃ البقرہ: آیت 6 - إن الذين كفروا سواء عليهم... - اردو

آیت 6 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ ءَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ

اردو ترجمہ

جن لوگوں نے (اِن باتوں کو تسلیم کرنے سے) انکار کر دیا، اُن کے لیے یکساں ہے، خواہ تم انہیں خبردار کرو یا نہ کرو، بہرحال وہ ماننے والے نہیں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena kafaroo sawaon AAalayhim aanthartahum am lam tunthirhum la yuminoona

آیت 6 کی تفسیر

درس 2 ایک نظر میں

1۔ آیات کا یہ حصہ ، اس عظیم سورت کا افتتاحیہ ہے ، اس میں یہودیوں کے سوا ان تمام عناصر (Pressure Groups) سے ہم متعارف ہوجاتے ہیں جن کا مقابلہ مدینہ طیبہ میں تحریک اسلامی کو کرنا پڑا ۔ اس میں یہودیوں کی طرف ایک مختصرسا اشارہ پایا جاتا ہے۔ قرآن انہیں منافقین کو ” شیاطین “ کا لقب دیتا ہے ، یہ لفظ ہی ان کی بیشتر صفات کو ظاہر کردیتا ہے ۔ اور بتا دیتا ہے کہ تحریک اسلامی کی مخالفت میں ان کا کردار کیا رہا ۔ اگرچہ یہ اشارہ مختصر ہے لیکن ابتداء میں ان کی حقیقت کے اظہار کے لئے کافی ہے بعد میں ان کے کردار پر تفصیلی تبصرہ ہوتا ہے۔

2۔ ان خصوصیات کی نقشہ کشی کے دوران ہم قرآن مجید کی تعبیری خصوصیات (Style of expression) سے بھی متعارف ہوتے ہیں منظرکشی کے لے خطوط والو ان کی جگہ یہاں حسین الفاظ کا انتخاب پایا جاتا ہے ۔ ان الفاظ کو پڑھتے ہی اصل مناظرآنکھوں کے سامنے جلوہ گر ہوجاتے ہیں ۔ یہ مناظر اور یہ تصورات بڑی تیزی سے حرکت پذیر ہوتے ہیں اور زندگی کی تگ وتاز سے بھرپور نظر آتے ہیں ۔

3۔ سورت کے آغازہی میں ہلکے پھلکے ، عام فہم اور مختصر الفاظ میں تین قسم کے انسانوں کی عجیب تصویر کشی کی گئی ہے ۔ ان میں سے ہر نوع ایسی ہے کہ انسانی افراد اور مجموعوں کی ایک عظیم الشان تعداد کا زندہ جاوید نمونہ ہے ۔ یہ مجموعے حد درجہ حقیقی اور گہرے ہیں اور ہر زمان ومکان میں باربار وجود میں آتے ہیں اور قرآن کریم کے اعجاز کا یہ ایک خاص پہلو ہے کہ انسانیت کی طویل ترین تاریخ میں روز اول سے لے کر آج تک پوری انسانیت انہی تین گروہوں میں منقسم نظر آتی ہے ۔

4۔ ان مختصر کلمات اور معدودے چند جملوں کے ذریعہ ، ان طبقوں کے حقیقی خدوخال اس طرح واضح اور مکمل صورت میں لوح دماغ پر منقش ہوجاتے ہیں کہ یہ طبقے زندہ ومتحرک ، ممتاز ومشخص اور اپنے حقیقی خدوخال کے ساتھ صاف صاف آنکھوں کے سامنے چلتے پھرتے نظر آتے ہیں ۔ یہ بےساختہ جملے اس قدر موزوں اور متناسب اور اپنے اندر اس قدر مترنم صوتی ہم آہنگی رکھتے ہیں کہ کوئی طویل ترین کلام اور کوئی مفصل ترین بیان بھی اس کی گرد تک نہیں پہنچ سکتا ۔

5۔ جب ان طبقوں کی منظرکشی ختم ہوجاتی ہے تو پھر قرآن کریم تمام بنی نوع انسان کو یہ دعوت دیتا ہے کہ وہ پہلے طبقے میں شامل ہوں ۔ وہ انہیں پکارتا ہے کہ ایک اللہ ایک خالق اور ایک رازق کی بندگی اور غلامی کی طرف لوٹ آئیں ، جس کے ساتھ کوئی شریک نہیں اور اس کا کوئی ہمسر نہیں ۔ اس کے بعدنبی ﷺ کی صداقت اور رسالت اور آپ پر نزول قرآن کے بارے میں جو لوگ متشکک ہیں انہیں چیلنج دیا جاتا ہے کہ وہ ایک ایسی سورت توبنالائیں ۔ اگر وہ اس چیلنج کو قبول نہیں کرسکتے تو پھر دردناک اور خوفناک عذاب کے لئے تیار ہوجائیں ۔ اس کے برعکس مومنین اور منیبین کو خوشخبری دی جاتی ہے کہ ان کے لئے نہ ختم ہونے والاانعام واکرام ہے ۔ اور الفاظ کے آئینے کی جھلک بھی دکھادی جاتی ہے ۔

6۔ اس کے بعد پھر یہود ومنافقین کی فتنہ پردازی کا جائزہ لیا جاتا ہے جو یہ کہتے تھے کہ قرآن کریم میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کو تمثیلات دی گئی ہیں ۔ لہٰذا یہ منزل کتاب نہیں ہے ۔ انہوں نے اس مسئلے کو آڑ بناکر شکوک و شبہات پھیلانے کا ایک وسیع کاروبار شروع کردیا تھا ۔ ان کو بتایا گیا کہ یہ مثالیں گہری حکمت پر مبنی ہیں اور یہ کہ انہیں پڑھ کر ایک شخص گمراہ بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ وہ ہوئے اور دوسری طرف ان سے مومنین کا گروہ ایمان میں اور پختہ ہوجاتا ہے ۔ اس کے بعد ان پر نکیر کی جاتی ہے کہ وہ اس خالق ومدبر ، علیم وبصیر اور جلانے والے اور مارنے والے کا انکار کیوں کر کرتے ہیں ؟ حالانکہ وہی تو ہے جس نے انسان کے لئے پوری کائنات کو پیدا کیا ، انہیں یہاں یہ طویل و عریض مملکت دے کر اپنا خلیفہ وخود مختار بنایا اور انہیں بیشمار انعامات و اکرامات سے نوازا۔

” جن لوگوں نے (ان باتوں کو تسلیم کرنے سے ) انکار کردیا ، ان کے لئے یکساں ہے ، خواہ تم انہیں خبردار کرو یا نہ کروبہرحال وہ ماننے والے نہیں ہیں ۔ اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑگیا ہے ۔ وہ سخت سزا کے مستحق ہیں ۔ “

یہاں متقین اور کافرین بالکل ایک دوسرے کے بالمقابل کھڑے نظر آتے ہیں ۔ یہ کتاب متقین کے لئے تو ہدایت اور نور بصیرت ہے لیکن کفار کا حال یہ ہے کہ خواہ انہیں خبردار کیا جائے یا نہ کیا جائے ، وہ ہر حال میں روش کفر پر جمے ہوئے ہیں ۔ مومنین کے دلوں میں ہدایت ربانی کے جو دریچے سداوا ہوتے ہیں اور وہ روابط جن کی وجہ سے وہ ہر وقت اس پوری کائنات ، اس کے خالق ، اس کے ظاہروباطن اور اس کے عالم غیب وشہادت سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں ، رشد وہدایت کے یہ سب دریچے کفار کے لئے بند نظر آتے ہیں ، اسی منظر میں انسان اور خالق کائنات کے درمیان وہ تمام رابطے بالکل کٹے ہوئے ہیں ، جو مومنین اور خالق کائنات کے درمیان قائم ودوائم ہوتے ہیں ۔

آیت 6 اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْھِمْ ءَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ”اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا“ سے مراد یہاں وہ لوگ ہیں جو اپنے کفر پر اڑ گئے۔ اس کو ہم تاویل عام میں نہیں لے سکتے۔ اس لیے کہ اس صورت میں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جس شخص نے کسی بھی وقت کفر کیا اب وہ ہدایت پر آہی نہیں سکتا ! یہاں یہ بات مراد نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کسی مغالطہ کی بنا پر یا عدم توجہی کی بنا پر کفر میں ہے ‘ حق اس پر واضح نہیں ہوا ہے تو انذار وتبشیر سے اسے فائدہ ہوجائے گا۔ آپ اسے وعظ و نصیحت کریں تو وہ اس کا اثر قبول کرے گا۔ لیکن جو لوگ حق کو حق سمجھنے اور پہچاننے کے باوجود محض ضد ‘ ہٹ دھرمی اور تعصبّ کی وجہ سے یا تکبرّ اور حسد کی وجہ سے کفر پر اڑے رہے تو ان کی قسمت میں ہدایت نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ اے نبی ﷺ ! ان کے لیے برابر ہے خواہ آپ ﷺ انہیں سمجھائیں یا نہ سمجھائیں ‘ ڈرائیں یا نہ ڈرائیں ‘ انذار فرمائیں یا نہ فرمائیں ‘ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ اس لیے کہ سوتے کو تو جگایا جاسکتا ہے ‘ جاگتے کو آپ کیسے جگائیں گے ؟ یہ گویا مکہ کے سرداروں کی طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ ان کے دل اور دماغ گواہی دے چکے ہیں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور قرآن ان پر اتمام حجت کرچکا ہے اور وہ مان چکے ہیں کہ قرآن کا مقابلہ ہم نہیں کرسکتے ‘ یہ محمد ﷺ کا مکمل معجزہ ہے ‘ اس کے باوجود وہ ایمان نہیں لائے۔

بدقسمت لوگ یعنی جو لوگ حق کو پوشیدہ کرنے یا چھپا لینے کے عادی ہیں اور ان کی قسمت میں یہی ہے کہ انہیں آپ کا ڈرانا سود مند ہے اور نہ ہی ڈرانا۔ یہ کبھی اللہ تعالیٰ کی اس وحی کی تصدیق نہیں کریں گے جو آپ پر نازل ہوئی ہے۔ جیسے اور جگہ فرمایا آیت (اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ 96 ۙ وَلَوْ جَاۗءَتْھُمْ كُلُّ اٰيَةٍ حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ 97؀) 10۔ یونس :96۔ 97) یعنی جن لوگوں پر اللہ کی بات ثابت ہوچکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے اگرچہ تمام آیتیں دیکھ لیں یہاں تک کہ درد ناک عذاب دیکھیں۔ ایسے ہی سرکش اہل کتاب کی نسبت فرمایا آیت (وَلَىِٕنْ اَتَيْتَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ بِكُلِّ اٰيَةٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَكَ) 2۔ البقرۃ :145) یعنی ان اہل کتاب کے پاس اگرچہ تمام دلائل لے آؤ تاہم وہ تمہارے قبلہ کو نہیں مانیں گے۔ یعنی ان بدنصیبوں کو سعادت حاصل ہی نہیں ہوگی۔ ان گمراہوں کو ہدایت کہاں ؟ تو اے نبی ان پر افسوس نہ کر، تیرا کام صرف رسالت کا حق ادا کردینا اور پہنچا دینا ہے۔ ماننے والے نصیب ور ہیں وہ مالا مال ہوجائیں گے اور اگر کوئی نہ مانے تو نہ سہی۔ تیرا فرض ادا ہوگیا ہم خود ان سے حساب لے لیں گے۔ تو صرف ڈرانے والا ہے۔ ہر چیز پر اللہ تعالیٰ ہی وکیل ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کو اس بات کی بڑی ہی حرص تھی کہ تمام لوگ ایمان دار ہوجائیں اور ہدایت قبول کرلیں لیکن پروردگار نے فرمایا کہ یہ سعادت ہر ایک کے حصہ نہیں۔ یہ نعمت بٹ چکی ہے جس کے حصے میں آئی ہے وہ آپ کی مانے گا اور جو بدقسمت ہیں وہ ہرگز ہرگز اطاعت کی طرف نہیں جھکیں گے۔ پس مطلب یہ ہے کہ جو قرآن کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم اگلی کتابوں کو مانتے ہیں انہیں ڈرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لئے کہ وہ تو خود اپنی کتاب کو بھی حقیقتاً نہیں مانتے کیونکہ اس میں تیرے ماننے کا عہد موجود ہے تو جب وہ اس کتاب کو اور اس نبی ﷺ کی نصیحت کو نہیں مانتے جس کے ماننے کا اقرار کرچکے تو بھلا وہ تمہاری باتوں کو کیا مانیں گے ؟ ابو العالیہ کا قول ہے کہ یہ آیت جنگ احزاب کے ان سرداروں کے بارے میں اتری ہے جن کی نسبت فرمان باری ہے آیت (اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ) 14۔ ابراہیم :28) لیکن جو معنی ہم نے پہلے بیان کئے ہیں وہ زیادہ واضح ہیں اور دوسری آیتوں کے مطابق ہیں۔ واللہ اعلم۔ اس حدیث پر جو ابن ابی حاتم کے حوالے سے ابھی بیان ہوئی ہے دوبارہ نظر ڈال جائیے لا یومنون پہلے جملہ کی تاکید ہے یعنی ڈرانا نہ ڈرانا دونوں برابر ہیں، دونوں حالتوں میں ان کا کفر نہ ٹوٹے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ لایومنون خبر ہو اس لئے کہ تقدیر کلام آیت (ان الذین کفروا لا یومنون) ہے اور آیت (سواء علیھم) جملہ معترضہ ہوجائے گا واللہ اعلم۔

آیت 6 - سورۃ البقرہ: (إن الذين كفروا سواء عليهم أأنذرتهم أم لم تنذرهم لا يؤمنون...) - اردو