سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 3 (آیات 6 سے 16 تک)

إِنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ ءَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ خَتَمَ ٱللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰٓ أَبْصَٰرِهِمْ غِشَٰوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَقُولُ ءَامَنَّا بِٱللَّهِ وَبِٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ يُخَٰدِعُونَ ٱللَّهَ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّآ أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ ٱللَّهُ مَرَضًا ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌۢ بِمَا كَانُوا۟ يَكْذِبُونَ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ قَالُوٓا۟ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ أَلَآ إِنَّهُمْ هُمُ ٱلْمُفْسِدُونَ وَلَٰكِن لَّا يَشْعُرُونَ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ ءَامِنُوا۟ كَمَآ ءَامَنَ ٱلنَّاسُ قَالُوٓا۟ أَنُؤْمِنُ كَمَآ ءَامَنَ ٱلسُّفَهَآءُ ۗ أَلَآ إِنَّهُمْ هُمُ ٱلسُّفَهَآءُ وَلَٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ وَإِذَا لَقُوا۟ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ قَالُوٓا۟ ءَامَنَّا وَإِذَا خَلَوْا۟ إِلَىٰ شَيَٰطِينِهِمْ قَالُوٓا۟ إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُونَ ٱللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِى طُغْيَٰنِهِمْ يَعْمَهُونَ أُو۟لَٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ ٱشْتَرَوُا۟ ٱلضَّلَٰلَةَ بِٱلْهُدَىٰ فَمَا رَبِحَت تِّجَٰرَتُهُمْ وَمَا كَانُوا۟ مُهْتَدِينَ
3

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

جن لوگوں نے (اِن باتوں کو تسلیم کرنے سے) انکار کر دیا، اُن کے لیے یکساں ہے، خواہ تم انہیں خبردار کرو یا نہ کرو، بہرحال وہ ماننے والے نہیں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena kafaroo sawaon AAalayhim aanthartahum am lam tunthirhum la yuminoona

آیت 6 اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْھِمْ ءَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ ”اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا“ سے مراد یہاں وہ لوگ ہیں جو اپنے کفر پر اڑ گئے۔ اس کو ہم تاویل عام میں نہیں لے سکتے۔ اس لیے کہ اس صورت میں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ جس شخص نے کسی بھی وقت کفر کیا اب وہ ہدایت پر آہی نہیں سکتا ! یہاں یہ بات مراد نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص کسی مغالطہ کی بنا پر یا عدم توجہی کی بنا پر کفر میں ہے ‘ حق اس پر واضح نہیں ہوا ہے تو انذار وتبشیر سے اسے فائدہ ہوجائے گا۔ آپ اسے وعظ و نصیحت کریں تو وہ اس کا اثر قبول کرے گا۔ لیکن جو لوگ حق کو حق سمجھنے اور پہچاننے کے باوجود محض ضد ‘ ہٹ دھرمی اور تعصبّ کی وجہ سے یا تکبرّ اور حسد کی وجہ سے کفر پر اڑے رہے تو ان کی قسمت میں ہدایت نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کا معاملہ یہ ہے کہ اے نبی ﷺ ! ان کے لیے برابر ہے خواہ آپ ﷺ انہیں سمجھائیں یا نہ سمجھائیں ‘ ڈرائیں یا نہ ڈرائیں ‘ انذار فرمائیں یا نہ فرمائیں ‘ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ اس لیے کہ سوتے کو تو جگایا جاسکتا ہے ‘ جاگتے کو آپ کیسے جگائیں گے ؟ یہ گویا مکہ کے سرداروں کی طرف اشارہ ہو رہا ہے کہ ان کے دل اور دماغ گواہی دے چکے ہیں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور قرآن ان پر اتمام حجت کرچکا ہے اور وہ مان چکے ہیں کہ قرآن کا مقابلہ ہم نہیں کرسکتے ‘ یہ محمد ﷺ کا مکمل معجزہ ہے ‘ اس کے باوجود وہ ایمان نہیں لائے۔

اردو ترجمہ

اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے وہ سخت سزا کے مستحق ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Khatama Allahu AAala quloobihim waAAala samAAihim waAAala absarihim ghishawatun walahum AAathabun AAatheemun

آیت 7 خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَعَلٰی سَمْعِھِمْ ط ایسا کیوں ہوا ؟ ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر ابتدا ہی میں نہیں لگا دی گئی ‘ بلکہ جب انہوں نے حق کو پہچاننے کے بعدردّکر دیا تو اس کی پاداش میں اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر کردی اور ان کی سماعت پر بھی۔ وَعَلٰی اَبْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌز یہ مضمون سورة یٰسٓ کے شروع میں بہت شرح و بسط کے ساتھ دوبارہ آئے گا۔ وَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ‘ یہ دوسرے گروہ کا تذکرہ ہوگیا۔ ایک رکوع کل سات آیات میں دو گروہوں کا ذکر سمیٹ لیا گیا۔ ایک وہ گروہ جس نے قرآن کریم کی دعوت سے صحیح صحیح استفادہ کیا ‘ ان میں طلب ہدایت کا مادہ موجود تھا ‘ ان کی فطرتیں سلیم تھیں ‘ ان کے سامنے دعوت آئی تو انہوں نے قبول کی اور قرآن کے بتائے ہوئے راستے پر چلے۔ وہ گلستان محمدی ﷺ کے گل سرسبد ہیں۔ وہ شجرۂ قرآنی کے نہایت مبارک اور مقدس پھل ہیں۔ دوسرا گروہ وہ ہے جس نے حق کو پہچان بھی لیا ‘ لیکن اپنے تعصبّ یا ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس کو ردّ کردیا۔ ان کا ذکر بھی بہت اختصار کے ساتھ آگیا۔ ان کا تفصیلی ذکر آپ کو مکی سورتوں میں ملے گا۔ اب آگے تیسرے گروہ کا ذکر آ رہا ہے۔

اردو ترجمہ

بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں، حالانکہ در حقیقت وہ مومن نہیں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wamina alnnasi man yaqoolu amanna biAllahi wabialyawmi alakhiri wama hum bimumineena

آیت 8 وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا باللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ یہاں ایک بات سمجھ لیجیے ! اکثر و بیشتر مفسرین نے اس تیسری قسم category کے بارے میں یہی رائے قائم کی ہے کہ یہ منافقین کا تذکرہ ہے ‘ اگرچہ یہاں لفظ منافق یا لفظ نفاق نہیں آیا۔ لیکن مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے اس کے بارے میں ایک رائے ظاہر کی ہے جو بڑی قیمتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں ایک کردار کا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے ‘ غور کرنے والے غور کرلیں ‘ دیکھ لیں کہ وہ کس پر چسپاں ہو رہا ہے۔ اور جب یہ آیات نازل ہو رہی تھیں تو ان میں شخصیات کی کردار نگاری کا یہ جو نقشہ کھینچا جا رہا ہے یہ بالفعل دو طبقات کے اوپر راست آ رہا تھا۔ ایک طبقہ علماء یہود کا تھا۔ وہ بھی کہتے تھے کہ ہم بھی اللہ کو مانتے ہیں ‘ آخرت کو بھی مانتے ہیں۔ اسی لیے یہاں رسالت کا ذکر نہیں ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر سوا لاکھ نبی آئے ہیں تو ان سوا لاکھ کو تو ہم مانتے ہیں ‘ بس ایک محمد ﷺ کو ہم نے نہیں مانا اور ایک عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانا ‘ تو ہمیں بھی تسلیم کیا جانا چاہیے کہ ہم مسلمان ہیں۔ اور واقعہ یہ ہے کہ یہاں جس انداز میں تذکرہ ہو رہا ہے اس سے ان کا کردار بھی جھلک رہا ہے اور روئے سخن بھی ان کی طرف جا رہا ہے۔ مجھے یاد ہے دسویں جماعت کے زمانے میں دہلی میں میں نے جوتوں کی ایک دکان پر دیکھا تھا کہ ایک بہت بڑا جوتا لٹکایا ہوا تھا اور ساتھ لکھا تھا : Free to Whom it Fits. یعنی جس کے پاؤں میں یہ ٹھیک ٹھیک آجائے وہ اسے مفت لے جائے ! تو یہاں بھی ایک کردار کا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے۔ اب یہ کردار جس کے اوپر بھی فٹ بیٹھ جائے وہ اس کا مصداق شمار ہوگا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا ‘ زیادہ تر مفسرینّ کی رائے تو یہی ہے کہ یہ منافقین کا تذکرہ ہے۔ لیکن یہ کردار بعینہٖ یہود کے علماء پر بھی منطبق ہو رہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی نوٹ کر لیجیے کہ مدینہ منورہ میں نفاق کا پودا ‘ بلکہ صحیح تر الفاظ میں نفاق کا جھاڑ جھنکاڑ جو پروان چڑھا ہے وہ یہودی علماء کے زیراثر پروان چڑھا ہے۔ جیسے جنگل کے اندر بڑے بڑے درخت بھی ہوتے ہیں اور ان کے نیچے جھاڑیاں بھی ہوتی ہیں۔ تو یہ نفاق کا جھاڑ جھنکاڑ دراصل یہودی علماء کا جو بہت بڑا پودا تھا اس کے سائے میں پروان چڑھا ہے اور ان دونوں میں معنوی ربط بھی موجود ہے۔

اردو ترجمہ

وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کر رہے ہیں، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

YukhadiAAoona Allaha waallatheena amanoo wama yakhdaAAoona illa anfusahum wama yashAAuroona

آیت 9 یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاج یُخٰدِعُوْنَباب مفاعلہ ہے۔ اس باب کا خاصہ ہے کہ اس میں ایک کشمکش اور کشاکش موجود ہوتی ہے۔ لہٰذا میں نے اس کا ترجمہ کیا : ”وہ دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔“وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ یہ بات یقینی ہے کہ اپنے آپ کو تو دھوکہ دے رہے ہیں ‘ لیکن یہ اللہ ‘ اس کے رسول ﷺ کو اور اہل ایمان کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔ سورة النساء کی آیت 142 میں منافقین کے بارے میں یہی بات بڑے واضح انداز میں بایں الفاظ آئی ہے : اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ج ”یقیناً منافقین اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں ‘ حالانکہ اللہ ہی انہیں دھوکے میں ڈالنے والا ہے۔“ وَمَا یَشْعُرُوْنَ یہ بات بہت اچھی طرح نوٹ کر لیجیے کہ منافقین کی بھی اکثریت وہ تھی جنہیں اپنے نفاق کا شعور نہیں تھا۔ وہ اپنے تئیں خود کو مسلمان سمجھتے تھے۔ وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے بارے میں کہتے تھے کہ انہوں نے خواہ مخواہ اہل مکہ کے ساتھ لڑائی مول لے لی ہے ‘ اس کی کیا ضرورت ہے ؟ ہمیں امن کے ساتھ رہنا چاہیے اور امن و آشتی کے ماحول میں ان سے بات کرنی چاہیے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہم خیر خواہ ہیں ‘ ہم بھلی بات کہہ رہے ہیں ‘ جبکہ یہ بیوقوف لوگ ہیں۔ دیکھتے نہیں کہ کس سے ٹکرا رہے ہیں ! ہاتھ میں اسلحہ نہیں ہے اور لڑائی کے لیے جا رہے ہیں۔ چناچہ یہ تو بیوقوف ہیں۔ اپنے بارے میں وہ سمجھتے تھے کہ ہم تو بڑے مخلص ہیں۔ جان لیجیے کہ منافقین میں یقیناً بعض لوگ ایسے بھی تھے کہ جو اسلام میں داخل ہی دھوکہ دینے کی خاطر ہوتے تھے اور ان پر پہلے دن سے یہ واضح ہوتا تھا کہ ہم مسلمان نہیں ہیں ‘ ہم نے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لیے اسلام کا محض لبادہ اوڑھا ہے۔ ایسے منافقین کا ذکر سورة آل عمران کی آیت 72 میں آئے گا۔ لیکن اکثر و بیشتر منافقین دوسری طرح کے تھے ‘ جنہیں اپنے نفاق کا شعور حاصل نہیں تھا۔

اردو ترجمہ

ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا، اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں، اس کی پاداش میں ان کے لیے درد ناک سزا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fee quloobihim maradun fazadahumu Allahu maradan walahum AAathabun aleemun bima kanoo yakthiboona

آیت 10 فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ یہ روگ اور بیماری کیا ہے ؟ ایک لفظ میں اس کو ”کردار کی کمزوری“ weakness of character سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ایک شخص وہ ہوتا ہے جو حق کو حق سمجھ کر قبول کرلیتا ہے اور پھر ”ہرچہ بادا باد“ جو ہو سو ہو کی کیفیت کے ساتھ اس کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردینے کو تیار ہوجاتا ہے۔ دوسرا شخص وہ ہے جو حق کو پہچان لینے کے باوجود ردّ کردیتا ہے۔ اسے ”کافر“ کہا جاتا ہے۔ جبکہ ایک شخص وہ بھی ہے جو حق کو حق پہچان کر آیا تو سہی ‘ لیکن کردار کی کمزوری کی وجہ سے اس کی قوت ارادی کمزور ہے۔ ایسے لوگ آخرت بھی چاہتے ہیں لیکن دنیا بھی ہاتھ سے دینے کے لیے تیار نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہاں کا بھی کوئی نقصان نہ ہو اور آخرت کا بھی سارا بھلا ہمیں مل جائے۔ درحقیقت یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کے بارے میں کہا گیا کہ ان کے دلوں میں ایک روگ ہے۔ فَزَادَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًا ج یہ اللہ کی سنت ہے۔ آپ حق پر چلنا چاہیں تو اللہ تعالیٰ حق کا راستہ آپ پر آسان کر دے گا ‘ لیکن اگر آپ برائی کی طرف جانا چاہیں تو بڑی سے بڑی برائی آپ کے لیے ہلکی ہوتی چلی جائے گی۔ آپ خیال کریں گے کہ کوئی خاص بات نہیں ‘ جب یہ کرلیا تو اب یہ بھی کر گزرو۔ اور اگر کوئی بین بین لٹکنا چاہے تو اللہ اس کو اسی راہ پر چھوڑ دیتا ہے۔ ٹھیک ہے ‘ وہ سمجھتے ہیں ہم کامیاب ہو رہے ہیں کہ ہم نے مسلمانوں کو بھی دھوکہ دے لیا ‘ وہ ہمیں مسلمان سمجھتے ہیں اور یہودیوں کو بھی دھوکہ دے لیا ‘ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے ساتھی ہیں۔ تو ان کا یہ سمجھنا کہ ہم کامیاب ہو رہے ہیں ‘ بالکل غلط ہے۔ حقیقت میں یہ کامیابی نہیں ہے ‘ بلکہ اللہ تعالیٰ نے وہ تباہ کن راستہ ان کے لیے آسان کردیا ہے جو انہوں نے خود منتخب کیا تھا۔ ان کے دلوں میں جو روگ موجود تھا اللہ نے اس میں اضافہ فرما دیا۔ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ لا اوپر کفار کے لیے الفاظ آئے تھے : وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ اور یہاں عَذَابٌ اَلِیْمٌ کا لفظ آیا ہے کہ ان کے لیے دردناک اور المناک عذاب ہے۔ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ

اردو ترجمہ

جب کبھی ان سے کہا گیا کہ زمین پر فساد برپا نہ کرو تو انہوں نے یہی کہا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha qeela lahum la tufsidoo fee alardi qaloo innama nahnu muslihoona

آیت 11 وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ لا اس سے مراد یہ ہے کہ جب تم نے محمد ﷺ کو اللہ کا رسول مان لیا تو اب ان کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرو ‘ ان ﷺ کے پیچھے چلو۔ ان ﷺ کا حکم ہے تو جنگ کے لیے نکلو۔ ان ﷺ کی طرف سے تقاضا آتا ہے تو مال پیش کرو۔ اور اگر تم اس سے کتراتے ہو تو پھر جماعتی زندگی کے اندر فتنہ و فساد پھیلا رہے ہو۔قَالُوْآ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ ہم تو صلح کرانے والے ہیں۔ ہماری نظر میں یہ لڑنا بھڑنا کوئی اچھی بات نہیں ہے ‘ ٹکراؤ اور تصادم کوئی اچھے کام تھوڑے ہی ہیں۔ بس لوگوں کو ٹھنڈے ٹھنڈے دعوت دیتے رہو ‘ جو چاہے قبول کرلے اور جو چاہے ردّ کر دے۔ یہ خواہ مخواہ دشمن سے ٹکرانا اور جنگ کرنا کس لیے ؟ اور اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے قربانیاں دینے ‘ مصیبتیں جھیلنے اور مشقتیں برداشت کرنے کے مطالبے کا ہے کے لیے ؟

اردو ترجمہ

خبردار! حقیقت میں یہی لوگ مفسد ہیں مگر انہیں شعور نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ala innahum humu almufsidoona walakin la yashAAuroona

آیت 12 اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَلٰکِنْ لاَّ یَشْعُرُوْنَ یہی تو ہیں جو فساد پھیلانے والے ہیں۔ اس لیے کہ محمد ﷺ کی دعوت تو زمین میں اصلاح کے لیے ہے۔ اس اصلاح کے لیے کچھ آپریشن کرنا پڑے گا۔ اس لیے کہ مریض اس درجے کو پہنچ چکا ہے کہ آپریشن کے بغیر اس کی شفا ممکن نہیں ہے۔ اب اگر تم اس آپریشن کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہو تو درحقیقت تم فساد مچا رہے ہو ‘ لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں۔ آیت کے آخری الفاظ وَلٰکِنْ لاَّ یَشْعُرُوْنَ سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ شعوری نفاق اور شے ہے ‘ جبکہ یہاں سارا تذکرہ غیر شعوری نفاق کا ہو رہا ہے۔

اردو ترجمہ

اور جب ان سے کہا گیا جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں اسی طرح تم بھی ایمان لاؤ تو انہوں نے یہی جواب دیا "کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لائیں؟" خبردار! حقیقت میں تو یہ خود بیوقوف ہیں، مگر یہ جانتے نہیں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha qeela lahum aminoo kama amana alnnasu qaloo anuminu kama amana alssufahao ala innahum humu alssufahao walakin la yaAAlamoona

آیت 13 وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ آخر دیکھو ‘ یہ دوسرے اہل ایمان ہیں ‘ جب بلاوا آتا ہے تو فوراً لبیک کہتے ہوئے حاضر ہوتے ہیں ‘ جبکہ تم نے اور ہی روش اختیار کر رکھی ہے۔ قَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ کَمَآ اٰمَنَ السُّفَھَآءُ ط منافقینّ سچے اہل ایمان کے بارے میں کہتے تھے کہ انہیں تو اپنے نفع کی فکر ہے نہ نقصان کی ‘ نہ خطرات کا کوئی خیال ہے نہ اندیشوں کا کوئی گمان۔ جان ‘ مال اور اولاد کی کوئی پروا نہیں۔ یہ گھر بار کو چھوڑ کر آگئے ہیں ‘ اپنے بال بچے کفار مکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ آئے ہیں کہ سرداران قریش ان کے ساتھ جو چاہیں سلوک کریں ‘ تو یہ تو بیوقوف لوگ ہیں۔ آج کل آپ ایسے لوگوں کو fanatics کہتے ہیں بھئی دیکھ بھال کر چلنا چاہیے ‘ دائیں بائیں دیکھ کر چلنا چاہیے۔ اپنے نفع و نقصان کا خیال کر کے چلنا چاہیے۔ ٹھیک ہے ‘ اسلام دین حق ہے ‘ لیکن بہرحال اپنی اور اپنے اہل و عیال کی مصلحتوں کو بھی دیکھنا چاہیے۔ یہ لوگ تو معلوم ہوتا ہے بالکل دیوانے اور fanatics ہوگئے ہیں۔ اَلَآ اِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَھَآءُ وَلٰکِنْ لاَّ یَعْلَمُوْنَ وہ صادق الایمان جو ایمان کے ہر تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ہر وقت حاضر ہیں ‘ ان سے بڑا عقل مند اور ان سے بڑا سمجھ دار کوئی نہیں۔ انہوں نے یہ جان لیا ہے کہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے ‘ یہ زندگی تو عارضی ہے ‘ تو اگر کل کے بجائے آج ختم ہوجائے یا ابھی ختم ہوجائے تو کیا فرق پڑے گا ؟ یہاں سے جانا تو ہے ‘ آج نہیں تو کل ‘ کل نہیں تو پرسوں ‘ جانا تو ہے۔ تو عقل تو ان کے اندر ہے۔

اردو ترجمہ

جب یہ اہل ایمان سے ملتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اور جب علیحدگی میں اپنے شیطانوں سے ملتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ اصل میں تو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ان لوگوں سے محض مذاق کر رہے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waitha laqoo allatheena amanoo qaloo amanna waitha khalaw ila shayateenihim qaloo inna maAAakum innama nahnu mustahzioona

آیت 14 وَاِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْآ اٰمَنَّا ج عام یہودی بھی کہتے تھے کہ ہم بھی تو آخر اللہ کو اور آخرت کو مانتے ہیں ‘ جبکہ منافق تو رسول ﷺ ‘ کو بھی مانتے تھے۔وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِھِمْ لا یہاں ”شیاطین“ سے مرادیہود کے علماء بھی ہوسکتے ہیں اور منافقین کے سردار بھی۔ عبداللہ بن ابی منافقین مدینہ کا سردار تھا۔ اگر وہ کبھی انہیں ملامت کرتا کہ معلوم ہوتا ہے تم تو بالکل پوری طرح سے مسلمانوں میں شامل ہی ہوگئے ہو ‘ تمہیں کیا ہوگیا ہے تم محمد ﷺ کی ہر بات مان رہے ہو ‘ تو اب انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے کہنا پڑتا تھا کہ نہیں نہیں ‘ ہم تو مسلمانوں کو بیوقوف بنا رہے ہیں ‘ ہم ان سے ذرا تمسخر کر رہے ہیں ‘ ہم آپ ہی کے ساتھ ہیں ‘ آپ فکر نہ کریں۔ منافق تو ہوتا ہی دو رخا ہے۔ ”نفق“ کہتے ہیں سرنگ کو ‘ جس کے دو راستے ہوتے ہیں۔ ”نافقاء“ گوہ کے ِ بل کو کہا جاتا ہے۔ گوہ اپنے بل کے دو منہ رکھتا ہے کہ اگر کتا شکار کے لیے ایک طرف سے داخل ہوجائے تو وہ دوسری طرف سے نکل بھاگے۔ تو منافق بھی ایسا شخص ہے جس کے دو رخ ہوتے ہیں۔ سورة النساء میں منافقین کے بارے میں کہا گیا ہے : مُذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ لاآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآءِ وَلَآ اِلٰی ھٰٓؤُلَآءِ ط آیت 143 یعنی کفر و ایمان کے درمیان ڈانوا ڈول ہیں ‘ مذبذب ہو کر رہ گئے ہیں۔ نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے ہیں۔ لفظ ”شَیْطٰن“ کے بارے میں دو رائیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا مادہ ”ش ط ن“ ہے اور دوسری یہ کہ یہ ”ش و ط“ مادہ سے ہے۔ شَطَنَ کے معنی ہیں تَبَعَّدَ یعنی بہت دور ہوگیا۔ پس شیطان سے مراد ہے جو اللہ کی رحمت سے بہت دور ہوگیا۔ جبکہ شاط یَشُوْطُ کے معنی ہیں اِحْتَرَقَ غَضَبًا وَحَسَدًا یعنی کوئی شخص غصے ّ اور حسد کے اندر جل اٹھا۔ اس سے فَعْلَان کے وزن پر ”شیطان“ ہے ‘ یعنی وہ جو حسد اور غضب کی آگ میں جل رہا ہے۔ چناچہ ایک تو شیطان وہ ہے جو جناتّ میں سے ہے ‘ جس کا نام پہلے ”عزازیل“ تھا ‘ اب ہم اسے ابلیس کے نام سے جانتے ہیں۔ پھر یہ کہ دنیا میں جو بھی اس کے پیروکار ہیں اور اس کے مشن میں شریک کار ہیں ‘ خواہ انسانوں میں سے ہوں یا جنوں میں سے ‘ وہ بھی شیاطین ہیں۔ اسی طرح اہل کفر اور اہل زیغ کے جو بڑے بڑے سردار ہوتے ہیں ان کو بھی شیاطین سے تعبیر کیا گیا۔ آیت زیر مطالعہ میں شیاطین سے یہی سردار مراد ہیں۔ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ لا اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَھْزِءُ ‘ وْنَ جب وہ علیحدگی میں اپنے شیطانوں یعنی سرداروں سے ملتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ اصل میں تو ہم آپ کے ساتھ ہیں ‘ ان مسلمانوں کو تو ہم بیوقوف بنا رہے ہیں ‘ ان سے استہزاء اور تمسخر کر رہے ہیں جو ان کے سامنے ”اٰمَنَّا“ کہہ دیتے ہیں کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ہیں۔

اردو ترجمہ

اللہ ان سے مذاق کر رہا ہے، وہ ان کی رسی دراز کیے جاتا ہے، اور یہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرح بھٹکتے چلے جاتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allahu yastahzio bihim wayamudduhum fee tughyanihim yaAAmahoona

آیت 15 اَللّٰہُ یَسْتَھْزِئُ بِھِمْ وَیَمُدُّھُمْ فِیْ طُغْیَانِھِمْ یَعْمَھُوْنَ اللہ تعالیٰ سرکشوں کی رسّی دراز کرتا ہے۔ کوئی شخص سرکشی کے راستے پر چل پڑے تو اللہ تعالیٰ اسے فوراً نہیں پکڑتا ‘ بلکہ اسے ڈھیل دیتا ہے کہ چلتے جاؤ جہاں تک جانا چاہتے ہو۔ تو ان کی بھی اللہ تعالیٰ رسّی دراز کر رہا ہے ‘ لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اصل میں مذاق تو اللہ کے نزدیک ان کا اڑ رہا ہے۔ لفظ ”یَعْمَھُوْنَ“ عقل کے اندھے پن کے لیے آیا ہے۔ اس کا مادہ ”ع م ھ“ ہے۔ آگے آیت 18 میں لفظ ”عُمْیٌ“ آ رہا ہے جو ”ع م ی“ سے ہے۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ ”عَمِہَ یَعْمَہُ“ بصیرت سے محرومی کے لیے آتا ہے اور ”عَمِیَ یَعْمٰی“ بصارت سے محرومی کے لیے۔

اردو ترجمہ

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے، مگر یہ سودا ان کے لیے نفع بخش نہیں ہے اور یہ ہرگز صحیح راستے پر نہیں ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Olaika allatheena ishtarawoo alddalalata bialhuda fama rabihat tijaratuhum wama kanoo muhtadeena

آیت 16 اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بالْھُدٰیص یہ بڑا پیارا انداز بیان ہے۔ ان کے سامنے دونوں options تھے۔ ایک شخص نے گمراہی کو چھوڑا اور ہدایت لے لی۔ اسے اس کی بھاری قیمت دینا پڑی۔ اسے تکلیفیں اٹھانی پڑیں ‘ آزمائشوں میں سے گزرنا پڑا ‘ قربانیاں دینا پڑیں۔ اس نے یہ سب کچھ منظور کیا اور ہدایت لے لی۔ جبکہ ایک شخص نے ہدایت دے کر گمراہی لے لی ہے۔ آسانی تو ہوگئی ‘ فوری تکلیف سے تو بچ گئے ‘ دونوں طرف سے اپنے مفادات کو بچالیا ‘ لیکن حقیقت میں سب سے زیادہ گھاٹے کا سودا یہی ہے۔فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُھُمْ وَمَا کَانُوْا مُھْتَدِیْنَ ”رَبِحَ یَرْبَحُ“ کے معنی ہیں تجارت وغیرہ میں نفع اٹھانا ‘ جو ایک صحیح اور جائز نفع ہے ‘ جبکہ ”رب و“ مادہ سے رَبَا یَرْبُوْکے معنی بھی مال میں اضافہ اور بڑھوتری کے ہیں ‘ لیکن وہ حرام ہے۔ تجارت کے اندر جو نفع ہوجائے وہ ”رِبح“ ہے ‘ جو جائز نفع ہے اور اپنا مال کسی کو قرض دے کر اس سے سود وصول کرنا ”رِبا“ ہے جو حرام ہے۔ اب یہاں دو بڑی پیاری تمثیلیں آرہی ہیں۔ پہلی تمثیل کفار کے بارے میں ہے اور دوسری تمثیل منافقین کے بارے میں۔

3