سورۃ البقرہ: آیت 59 - فبدل الذين ظلموا قولا غير... - اردو

آیت 59 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

فَبَدَّلَ ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ قَوْلًا غَيْرَ ٱلَّذِى قِيلَ لَهُمْ فَأَنزَلْنَا عَلَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ رِجْزًا مِّنَ ٱلسَّمَآءِ بِمَا كَانُوا۟ يَفْسُقُونَ

اردو ترجمہ

مگر جو بات کہی گئی تھی، ظالموں نے اُسے بدل کر کچھ اور کر دیا آخر کار ہم نے ظلم کرنے والوں پر آسمان سے عذاب نازل کیا یہ سزا تھی ان نافرمانیوں کی، جو وہ کر رہے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fabaddala allatheena thalamoo qawlan ghayra allathee qeela lahum faanzalna AAala allatheena thalamoo rijzan mina alssamai bima kanoo yafsuqoona

آیت 59 کی تفسیر

یہاں اللہ تعالیٰ بالخصوص ان لوگوں کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم ونصیحت کو بدل دیا تھا۔ یعنی الَّذِينَ ظَلَمُوایا تو اس لئے کہ بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ نے یہ کام کیا تھا اور یا اس لئے کہ یہ ثابت کردیا جائے کہ بنی اسرائیل سب کے سب ظالم ہیں اور ان سب نے اس کریہہ فعل کا ارتکاب کیا۔

فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ ” آخر کار ہم نے ظلم کرنے والوں پر آسمان سے عذاب نازل کیا ۔ یہ سزا تھی ان نافرمانیوں کی ، جو وہ کررہے تھے ۔ “

الرجز کے معنی ہیں عذاب اور فسق کے معنی ہیں حکم کی مخالفت اور دائرہ حق سے خروج ۔ اور یہ دونوں صفات بنی اسرائیل کی منجملہ اور صفات کے ان میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔

اللہ تعالیٰ نے ، جس طرح صحرا کی تپش میں بنی اسرائیل کے لئے سائے کا انتظام کیا اور بےآب وگیاہ چٹیل میدان میں ان کے طعام کا بندوبست کیا ، اسی طرح ان کے پینے کے لئے پانی کا بھی خاص بندوبست کیا اور بندوبست بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تمام دوسرے معجزات کی طرح معجزانہ انداز میں کیا ۔ اس واقعہ کو بھی قرآن کریم یہاں بطور احسان بیان کرتا ہے اور اس کے بعد بتاتا ہے کہ اس احسان اور انعام کا جو اب ان لوگوں نے کس شکل میں دیا ۔

آیت 59 فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلاً غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَہُمْ “ان میں سے جو ظالم تھے ‘ بدکردار تھے انہوں نے ایک اور قول اختیار کرلیا اس قول کی جگہ جو ان سے کہا گیا تھا۔ ان سے کہا گیا تھا کہ ”حِطَّۃٌ حِطَّۃٌ“ کہتے ہوئے داخل ہونا ‘ لیکن انہوں نے اس کی بجائے ”حِنْطَۃٌ حِنْطَۃٌ“ کہنا شروع کردیا ‘ یعنی ہمیں تو گیہوں چاہیے ‘ گیہوں چاہیے ! اگلے رکوع میں یہ بات آجائے گی کہ مَنّ وسلویٰ کھاتے کھاتے بنی اسرائیل کی طبیعتیں بھر گئی تھیں ‘ ایک ہی چیز کھا کھا کر وہ اکتا گئے تھے اور اب وہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں زمین کی روئیدگی اور پیداوار میں سے کوئی چیز کھانے کو ملنی چاہیے۔ اس خواہش کا اظہار ان کی زبانوں پر ”حِنْطَۃٌ حِنْطَۃٌ“ کی صورت میں آگیا۔ اس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا استہزاء و تمسخر کیا جو انہیں ”وَقُوْلُوْا حِطَّۃٌ“ کے الفاظ میں دیا گیا تھا۔ اسی طرح شہر میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہونے کی بجائے انہوں نے اپنے سرینوں پر پھسلنا شروع کیا۔فَاَنْزَلْنَا عَلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ “ جن ظالموں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کا استہزاء و تمسخر کیا تھا ان پر آسمان سے ایک بہت بڑا عذاب نازل ہوا۔ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ اریحا شہر میں پہنچنے کے بعد انہیں طاعون کی وبا نے آلیا اور جنہوں نے یہ حرکت کی تھی وہ سب کے سب ہلاک ہوگئے۔بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ”“ یہ ان نافرمانیوں اور حکم عدولیوں کی سزا تھی جو وہ کر رہے تھے۔

آیت 59 - سورۃ البقرہ: (فبدل الذين ظلموا قولا غير الذي قيل لهم فأنزلنا على الذين ظلموا رجزا من السماء بما كانوا يفسقون...) - اردو