سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 9 (آیات 58 سے 61 تک)

وَإِذْ قُلْنَا ٱدْخُلُوا۟ هَٰذِهِ ٱلْقَرْيَةَ فَكُلُوا۟ مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَٱدْخُلُوا۟ ٱلْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا۟ حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطَٰيَٰكُمْ ۚ وَسَنَزِيدُ ٱلْمُحْسِنِينَ فَبَدَّلَ ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ قَوْلًا غَيْرَ ٱلَّذِى قِيلَ لَهُمْ فَأَنزَلْنَا عَلَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ رِجْزًا مِّنَ ٱلسَّمَآءِ بِمَا كَانُوا۟ يَفْسُقُونَ ۞ وَإِذِ ٱسْتَسْقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِۦ فَقُلْنَا ٱضْرِب بِّعَصَاكَ ٱلْحَجَرَ ۖ فَٱنفَجَرَتْ مِنْهُ ٱثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ ۖ كُلُوا۟ وَٱشْرَبُوا۟ مِن رِّزْقِ ٱللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا۟ فِى ٱلْأَرْضِ مُفْسِدِينَ وَإِذْ قُلْتُمْ يَٰمُوسَىٰ لَن نَّصْبِرَ عَلَىٰ طَعَامٍ وَٰحِدٍ فَٱدْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنۢبِتُ ٱلْأَرْضُ مِنۢ بَقْلِهَا وَقِثَّآئِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا ۖ قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ ٱلَّذِى هُوَ أَدْنَىٰ بِٱلَّذِى هُوَ خَيْرٌ ۚ ٱهْبِطُوا۟ مِصْرًا فَإِنَّ لَكُم مَّا سَأَلْتُمْ ۗ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ ٱلذِّلَّةُ وَٱلْمَسْكَنَةُ وَبَآءُو بِغَضَبٍ مِّنَ ٱللَّهِ ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا۟ يَكْفُرُونَ بِـَٔايَٰتِ ٱللَّهِ وَيَقْتُلُونَ ٱلنَّبِيِّۦنَ بِغَيْرِ ٱلْحَقِّ ۗ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا۟ وَّكَانُوا۟ يَعْتَدُونَ
9

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

پھر یاد کرو جب ہم نے کہا تھا کہ، "یہ بستی جو تمہارے سامنے ہے، اس میں داخل ہو جاؤ، اس کی پیداوار جس طرح چاہو، مزے سے کھاؤ، مگر بستی کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہو ئے داخل ہونا اور کہتے جانا حطۃ حطۃ، ہم تمہاری خطاؤں سے در گزر کریں گے اور نیکو کاروں کو مزید فضل و کرم سے نوازیں گے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qulna odkhuloo hathihi alqaryata fakuloo minha haythu shitum raghadan waodkhuloo albaba sujjadan waqooloo hittatun naghfir lakum khatayakum wasanazeedu almuhsineena

بعض روایات میں اس کی تصریح آتی ہے کہ اس گاؤں سے مراد بیت المقدس ہے ۔ مصر سے خروج کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ وہ اس شہر میں داخل ہوجائیں ۔ اس وقت اس میں عمالقہ آباد تھے ۔ بنی اسرائیل کو یہ حکم تھا کہ وہ ان لوگوں کو نکال دیں۔ لیکن بنی اسرائیل نے اس سے انکار کردیا اور کہا تھا ” اے موسیٰ ! اس شہر میں ایک جبار قوم آباد ہے ۔ ہم تو اس میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک وہ وہاں سے نکل نہیں جاتے ۔ اگر وہ نکل جاتے ہیں تو ہم داخل ہوں گے ۔ “ نیزاسی شہر کے بارے میں انہوں نے اپنے پیغمبر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا ” اے موسیٰ (علیہ السلام) ہم ہرگز اس شہر میں داخل نہ ہوں گے ، جب تک کہ یہ لوگ اس شہر میں موجود ہیں ، جائیں آپ اور آپ کا رب لڑیں ان سے ، ہم توی ہیں بیٹھے ہیں ۔ “ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کی یہ سزا دی کہ وہ چالیس سال تک بھٹکتے پھرے ۔ ان کی موجودہ نسل سب مرگئی ، ایک جدید نسل تیار ہوگئی اور اس نے حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں اس شہر کو فتح کیا اور یہ لوگ شہر میں داخل ہوئے ۔ لیکن اس طویل سز ا کے بعد بھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا کہ خشوع و خضوع اور تواضع سے جھک کر شہر میں داخل ہوں اور حطۃ حطۃ پکاریں ، انہوں نے ویسا نہ کیا ۔ شہر میں داخلے کی جو صورت اللہ تعالیٰ نے تجویز کی تھی اس کے مطابق داخل نہ ہوئے ، نیز وہ لفظ بھی ادانہ کئے جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا۔

یہاں اللہ تعالیٰ ، ان کی اس تاریخی نافرمانی کو نقل کرکے ان کے سامنے رکھتے ہیں ۔ نیز تاریخی لحاظ سے یہ واقعہ پیش بھی ، موضوع زیربحث میں یعنی خروج بنی اسرائیل کے متصلاً بعد آیا تھا ۔ اس لئے یہاں اس کا بھی ذکر ہوا ۔ قرآن کریم کا یہ انداز بتارہا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کی پوری تاریخ کو ایک اکائی تصور کرتا ہے جس کا آغاز ، وسط اور انتہابالکل یکساں ہے ۔ کیونکہ یہ لوگ ہمیشہ اپنی پوری تاریخ میں ، مخالف حق ، سرکش ، نافرمان اور راہ راست سے بھٹکے ہوئے نظر آتے ہیں۔

تاریخی طور پر یہ واقعہ جو بھی ہو اس کا کوئی یقینی علم ہمیں نہیں ہے۔ البتہ قرآن کریم ان کے سامنے جو واقعہ پیش کررہا ہے ۔ اس کا انہیں علم ہے ۔ وہ اس بات کو جانتے ہیں جس کی طرف یہاں اشارہ کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کی تھی اور وہ اس خاص شہر میں داخل ہوئے تھے ۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ تھا کہ خضوع اور خشوع کی حالت میں ، اس شہر میں داخل ہوں اور اللہ سے دعا کریں کہ وہ ان کی ان غلطیوں کو معاف کرے ۔ نیز اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کی غلطیوں کو معاف کردے گا ۔ اور نیکی کرنے والوں پر اپنا مزید فضل وکرم کرے گا ۔ لیکن ان لوگوں نے اپنی عادت مستمرہ کے مطابق اس حکم کی بھی خلاف ورزی ہی کی فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ ” مگر جو بات کہی گئی تھی ظالموں نے اسے بدل کر کچھ اور کردیا “

اردو ترجمہ

مگر جو بات کہی گئی تھی، ظالموں نے اُسے بدل کر کچھ اور کر دیا آخر کار ہم نے ظلم کرنے والوں پر آسمان سے عذاب نازل کیا یہ سزا تھی ان نافرمانیوں کی، جو وہ کر رہے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fabaddala allatheena thalamoo qawlan ghayra allathee qeela lahum faanzalna AAala allatheena thalamoo rijzan mina alssamai bima kanoo yafsuqoona

یہاں اللہ تعالیٰ بالخصوص ان لوگوں کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم ونصیحت کو بدل دیا تھا۔ یعنی الَّذِينَ ظَلَمُوایا تو اس لئے کہ بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ نے یہ کام کیا تھا اور یا اس لئے کہ یہ ثابت کردیا جائے کہ بنی اسرائیل سب کے سب ظالم ہیں اور ان سب نے اس کریہہ فعل کا ارتکاب کیا۔

فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ ” آخر کار ہم نے ظلم کرنے والوں پر آسمان سے عذاب نازل کیا ۔ یہ سزا تھی ان نافرمانیوں کی ، جو وہ کررہے تھے ۔ “

الرجز کے معنی ہیں عذاب اور فسق کے معنی ہیں حکم کی مخالفت اور دائرہ حق سے خروج ۔ اور یہ دونوں صفات بنی اسرائیل کی منجملہ اور صفات کے ان میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔

اللہ تعالیٰ نے ، جس طرح صحرا کی تپش میں بنی اسرائیل کے لئے سائے کا انتظام کیا اور بےآب وگیاہ چٹیل میدان میں ان کے طعام کا بندوبست کیا ، اسی طرح ان کے پینے کے لئے پانی کا بھی خاص بندوبست کیا اور بندوبست بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے تمام دوسرے معجزات کی طرح معجزانہ انداز میں کیا ۔ اس واقعہ کو بھی قرآن کریم یہاں بطور احسان بیان کرتا ہے اور اس کے بعد بتاتا ہے کہ اس احسان اور انعام کا جو اب ان لوگوں نے کس شکل میں دیا ۔

اردو ترجمہ

یاد کرو، جب موسیٰؑ نے اپنی قوم کے لیے پانی کی دعا کی تو ہم نے کہا کہ فلاں چٹان پر اپنا عصا مارو چنانچہ اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر قبیلے نے جان لیا کہ کونسی جگہ اس کے پانی لینے کی ہے اُس وقت یہ ہدایت کر دی گئی تھی کہ اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ پیو، اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waithi istasqa moosa liqawmihi faqulna idrib biAAasaka alhajara fainfajarat minhu ithnata AAashrata AAaynan qad AAalima kullu onasin mashrabahum kuloo waishraboo min rizqi Allahi wala taAAthaw fee alardi mufsideena

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لئے پانی طلب فرمایا۔ اور انہوں نے یہ درخواست اپنے رب سے کی اور اس نے قبول فرمائی ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ وہ ایک متعین پتھر کو اپنے عصا سے ماریں ۔ آپ نے حکم کی تعمیل کی اور پتھر سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ۔ یہ بارہ چشمے بنی اسرائیل کے بارہ قبائل کی تعداد کے مطابق تھے ۔ کیونکہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے پوتوں کے بعد یہ لوگ بارہ قبیلوں میں تقسیم ہوگئے تھے ۔ حضرت یعقوب کا نام اسرائیل تھا جس کی طرف یہ لوگ نسبت کرتے ہیں ۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے پوتے اسباط کے نام سے مشہور ہیں ، جن کا ذکر باربار قرآن کریم میں آیا ہے ۔ یہ لوگ بنی اسرائیل کے سربراہ تھے ۔ اور قبائلی نظام کے مطابق زندگی بسر کررہے تھے۔ اور قبائلی نظام میں قبیلے کی نسبت اکثر اوقات مورث اعلیٰ کی طرف کردی جاتی ہے۔ چناچہ قرآن کریم کہتا ہے قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ ” ہر قبیلے نے جان لیا کہ کون سی جگہ ہے اس کے پانی لینے کی۔ “ یعنی وہ چشمہ جو بارہ چشموں سے ان کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے۔ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِنْ رِزْقِ اللَّهِ وَلا تَعْثَوْا فِي الأرْضِ مُفْسِدِينَ ” اس وقت انہیں ہدایت کردی گئی تھی کہ اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ پیو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھر۔ “

بنی اسرائیل کی حالت یہ تھی کہ وہ خشک صحرا کی پتھریلی زمین میں تھے ۔ آسمان اوپر سے آگ کے شعلے برسا رہا تھا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے پتھروں سے پانی نکالا ۔ آسمان سے من وسلویٰ ، شہد وپرندوں کا انتظام فرمایا ، لیکن ان کی فاسد اور گری ہوئی ذہنیت اور گری ہوئی فطرت اور عادات نے انہیں اس بلند مقام تک پہنچنے نہ دیا جس کے لئے انہیں مصر سے نکالا گیا تھا۔ اور اس بےآب وگیا صحرا میں ڈال دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے نبی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعے جس ذلت و خواری سے اس لئے نکالا تھا کہ ارض مقدس دوبارہ ان کے اقتدار میں آجائے اور وہ اس ذلت اور خواری کی زندگی سے باہر نکل آئیں ۔ ظاہر ہے کہ حریت وآزادی اور عزت وآبرو کے حصول کے لئے کچھ قربانیاں دینی پڑتی ہیں ۔ جو امانت کبریٰ ان کے حوالے کی جارہی تھی اس کا کسی قدر شکرانہ بھی لینا مقصود تھا۔ لیکن بنی اسرائیل تو ایسے لوگ تھے جو اس کی کوئی قیمت ادا نہ کرنا چاہتے تھے ۔ نہ وہ تکالیف اور آزمائشوں کو انگیز کرسکتے تھے ۔ اس لئے وہ اس مقام رفیع کا کوئی شکرانہ دینے کے لئے بھی تیارنہ تھے ۔ نہ وہ یہ چاہتے تھے کہ مصر میں وہ جس طرح کی پرکیف اور پر آسائش زندگی بسر کررہے تھے اسے چھوڑ دیں ۔ یہاں تک کہ وہ اس بلند مرتبے کے لئے اپنے مالوف کھانوں اور پینے کی چیزوں کو بھی ترک نہ کرسکتے تھے اور کسی طرح بھی آمادہ نہ تھے کہ عزت وشرف اور حریت وآزادی کے حصول کے لئے ، وہ اپنی زندگی کو کسی قدر نئے سانچے میں ڈھالیں ۔ وہ تو وہی کھانے چاہتے ہیں جن کے وہ مصر میں عادی تھے ۔ اور ساگ ، ترکاری ، گیہوں اور لہسن وغیرہ کے دالدادہ تھے ۔ یہاں مدینہ میں قرآن کریم انہیں ان کے پارسائی کے ان طویل و عریض دعو وں کے جواب میں یہ کہتا ہے کہ ذرا اپنی تاریخ کے اوراق توالٹیں اور دیکھیں کہ انہوں نے کیا کیا کارنامے سر انجام دیئے ہیں۔

اردو ترجمہ

یاد کرو، جب تم نے کہا تھا کہ، "اے موسیٰؑ، ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار ساگ، ترکاری، کھیرا، ککڑی، گیہوں، لہسن، پیاز، دال وغیرہ پیدا کرے" تو موسیٰؑ نے کہا: "کیا ایک بہتر چیز کے بجائے تم ادنیٰ درجے کی چیزیں لینا چاہتے ہو؟ اچھا، کسی شہری آبادی میں جا رہو جو کچھ تم مانگتے ہو، وہاں مل جائے گا" آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت و خواری اور پستی و بد حالی اُن پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے یہ نتیجہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے یہ نتیجہ تھا ان کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ وہ حدود شرع سے نکل نکل جاتے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qultum ya moosa lan nasbira AAala taAAamin wahidin faodAAu lana rabbaka yukhrij lana mimma tunbitu alardu min baqliha waqiththaiha wafoomiha waAAadasiha wabasaliha qala atastabdiloona allathee huwa adna biallathee huwa khayrun ihbitoo misran fainna lakum ma saaltum waduribat AAalayhimu alththillatu waalmaskanatu wabaoo bighadabin mina Allahi thalika biannahum kanoo yakfuroona biayati Allahi wayaqtuloona alnnabiyyeena bighayri alhaqqi thalika bima AAasaw wakanoo yaAAtadoona

حضرت موسیٰ ، ان کی طفلانہ درخواست سن کر سخت رنجیدہ ہوئے ۔

” کیا ایک بہتر چیز کے بجائے ، تم ایک ادنیٰ درجے کی چیز لینا چاہتے ہو ؟ “ اللہ تعالیٰ تو تمہارے لئے بلند یاں پسند کرتا ہے اور تم ہو کہ گرے جارہے ہو۔

” اچھا کسی شہری آبادی (یا مصر) میں جارہو ، جو کچھ مانگتے ہو ، وہاں مل جائے گا۔ “

اس کے دومعنی ہوسکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ جو کچھ وہ طلب کررہے ہیں وہ تو بالکل ایک معمولی چیز ہے ۔ اس لئے کوئی لمبی چوڑی درخواست دینے اور دعا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، کسی شہری آبادی میں چلے جائیں وہاں یہ چیزیں بڑی مقدار میں انہیں مل سکتی ہیں ۔ دوسرے یہ کہ تم دوبارہ لوٹ کر مصر چلے جاؤ، جہاں سے تمہیں نکالا گیا تھا۔ اپنی اس مالوف ذلت آمیز اور گھٹیا درجے کی غلامانہ زندگی کو دوبارہ اختیار کرلو ۔ تمہیں کافی مقدار میں ساگ۔ ترکاریاں ، گیہوں ، اور لہسن پیاز وغیرہ سب دستیاب ہوں گے ۔ اور اس بلند نصب العین کو چھوڑ ہی دو جس کے لئے تمہیں چن لیا گیا تھا۔ اگر یہ دوسرا مفہوم لیاجائے تو یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے ایک قسم کی تادیب اور توبیخ ہوگی اور انہیں شرم دلانا مقصود ہوگا۔

اگرچہ بعض مفسرین نے اس دوسرے معنی کو مستبعد سمجھا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس کے بعد آنے والے نتیجے پر غور کیا جائے تو یہی مفہوم زیادہ مناسب ہے ۔ فرمایا جاتا ہے۔

” آخرکار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت و خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط کردی گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے ۔ “

ان پر ذلت اور خواری کا ہمیشہ کے لئے مسلط ہونا ، اور ان کا اللہ کے غضب میں گھرجانا ، تاریخی لحاظ سے اس مرحلے میں واقع نہیں ہوا۔ یہ لوگ ذلیل و خوار زمانہ مابعد میں ، اس وقت ہوئے جب کہ وہ بہت سی برائیوں میں مبتلا ہوگئے اور جس کا ذکر اس آیت کے آخری حصے میں ہوا۔

” یہ نتیجہ تھا ، اس کا کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے ۔ یہ نتیجہ تھا ان کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ حدود شرع سے نکل جاتے تھے۔ “

اور ان برائیوں کا صدور ، ان سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کے کئی نسلیں بعد ہوا ۔ لیکن یہاں چونکہ انہوں نے ساگ ترکاریوں ، گیہوں اور لہسن پیاز وغیرہ کا

مطالبہ کردیا تھا ، اس لئے ، ان کے مکروہ موقف کی مناسبت سے یہاں ہی بتادیا کہ منجملہ اور اسباب کے ان کی ذلت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ ان چیزوں کا مطالبہ کررہے تھے ۔

اس لئے مناسب یہی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ قول کہ ” کسی شہر میں جاکر آباد ہوجاؤ۔ “ اس پر محمول کیا جائے گا کہ آپ انہیں مصر کی غلامانہ زندگی یاد دلا رہے ہیں اور انہیں بتلاتے ہیں کہ وہ اس زندگی سے چھٹکارا پانے پر شکر ادا کریں ۔ اور ان کی نفسانی ذلیل خواہشات کے پیچھے نہ بھاگیں ، جن کے وہ مصر کی ذلیل و خوار زندگی میں خوگر ہوگئے تھے ۔

راہ ہدایت کی طرف بلانے والے مصلحین اور پیغمبروں پر ، بنی اسرائیل نے جو مظالم ڈھائے اور ان کے ساتھ وہ مسلسل جو وحشیانہ اور سنگدلانہ برتاؤ کرتے رہے ، اس کی مثال کسی دوسری قوم کی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ انہوں نے کئی انبیاء ومصلحین کو ذبح کیا ، قتل کیا بلکہ آرے سے چیر ڈالا کیا ہی بدترین اور وحشیانہ فعل ہے جو ان سے صادر ہوا ........ انہوں نے کفر اور حد سے گزرجانے کی بدترین مثالیں پیش کیں ۔ ظلم و زیادتی کی وحشیانہ مثالوں میں وہ سب سے بازی لے گئے۔ اور سرکشی اور نافرمانی کا ایک ریکارڈ قائم کردیا۔ غرض فسق وفجور کے ان سب میدانوں میں انہوں نے وہ وہ کارہائے نمایاں سر انجام دیئے جو انہی کا حصہ تھے اور ہیں۔

لیکن اس کے باوجود ، پھر بھی وہ طویل و عریض اور بڑے بڑے دعوے کرتے رہے ۔ ان کا ہمیشہ سے یہ دعویٰ تھا کہ صرف وہی ہیں جو ہدایت یافتہ کہلاسکتے ہیں ۔ صرف وہی اللہ کی پسندیدہ قوم ہیں ، وہی اللہ کی جانب سے اجر وثواب کے مستحق ہیں ۔ اللہ کا فضل وکرم ان کے لئے مخصوص ہے اور اس میں ان کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ قرآن کریم یہاں ان کے دعاوی کی تردید کرتے ہوئے ایک قاعدہ بیان کردیتا ہے اور یہ قاعدہ قرآن کریم کے تمام قصص کے درمیان بار بار دہرایا جاتا ہے ۔ کبھی پہلے اور کبھی ان کے آخر میں ۔ یعنی یہ کہ ایمان کی حقیقت ایک ہے۔ صحیح عقیدہ ایک ہی ہے ، بشرطیکہ اس عقیدے کے نتیجے میں انسانی اللہ کے سامنے جھک جائے اور ایمان ایسا ہو کہ اس سے عمل صالح کے چشمے پھوٹ رہے ہوں اور یہ کہ اللہ کا فضل وکرم کوئی محدود چیز نہیں ہے نہ کسی نسل سے مخصوص ہے ۔ وہ تمام مؤمنین کے لئے ہے ۔ تمام لوگ ، چاہے جس زمان ومکان سے بھی تعلق رکھتے ہوں ، اللہ کے اس ازلی ابدی دین کے مطابق اس کے فضل وکرم کے مستحق رہے ہیں اور رہیں گے اور آخر میں آخری دین (محمدی) اور آخری نبوت کے مطابق مومنین کا انجام یہ ہوگا۔

9