سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 9 (آیات 58 سے 61 تک)

وَإِذْ قُلْنَا ٱدْخُلُوا۟ هَٰذِهِ ٱلْقَرْيَةَ فَكُلُوا۟ مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَٱدْخُلُوا۟ ٱلْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا۟ حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطَٰيَٰكُمْ ۚ وَسَنَزِيدُ ٱلْمُحْسِنِينَ فَبَدَّلَ ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ قَوْلًا غَيْرَ ٱلَّذِى قِيلَ لَهُمْ فَأَنزَلْنَا عَلَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوا۟ رِجْزًا مِّنَ ٱلسَّمَآءِ بِمَا كَانُوا۟ يَفْسُقُونَ ۞ وَإِذِ ٱسْتَسْقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِۦ فَقُلْنَا ٱضْرِب بِّعَصَاكَ ٱلْحَجَرَ ۖ فَٱنفَجَرَتْ مِنْهُ ٱثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا ۖ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ ۖ كُلُوا۟ وَٱشْرَبُوا۟ مِن رِّزْقِ ٱللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا۟ فِى ٱلْأَرْضِ مُفْسِدِينَ وَإِذْ قُلْتُمْ يَٰمُوسَىٰ لَن نَّصْبِرَ عَلَىٰ طَعَامٍ وَٰحِدٍ فَٱدْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنۢبِتُ ٱلْأَرْضُ مِنۢ بَقْلِهَا وَقِثَّآئِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا ۖ قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ ٱلَّذِى هُوَ أَدْنَىٰ بِٱلَّذِى هُوَ خَيْرٌ ۚ ٱهْبِطُوا۟ مِصْرًا فَإِنَّ لَكُم مَّا سَأَلْتُمْ ۗ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ ٱلذِّلَّةُ وَٱلْمَسْكَنَةُ وَبَآءُو بِغَضَبٍ مِّنَ ٱللَّهِ ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا۟ يَكْفُرُونَ بِـَٔايَٰتِ ٱللَّهِ وَيَقْتُلُونَ ٱلنَّبِيِّۦنَ بِغَيْرِ ٱلْحَقِّ ۗ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا۟ وَّكَانُوا۟ يَعْتَدُونَ
9

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

پھر یاد کرو جب ہم نے کہا تھا کہ، "یہ بستی جو تمہارے سامنے ہے، اس میں داخل ہو جاؤ، اس کی پیداوار جس طرح چاہو، مزے سے کھاؤ، مگر بستی کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہو ئے داخل ہونا اور کہتے جانا حطۃ حطۃ، ہم تمہاری خطاؤں سے در گزر کریں گے اور نیکو کاروں کو مزید فضل و کرم سے نوازیں گے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qulna odkhuloo hathihi alqaryata fakuloo minha haythu shitum raghadan waodkhuloo albaba sujjadan waqooloo hittatun naghfir lakum khatayakum wasanazeedu almuhsineena

آیت 58 وَاِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا ہٰذِہِ الْقَرْیَۃَ فَکُلُوْا مِنْہَا حَیْثُ شِءْتُمْ رَغَدًا وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْ لَکُمْ خَطٰیٰکُمْ ط وَسَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ بنی اسرائیل کے صحرائے سینا میں آنے اور تورات عطا کیے جانے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی کے زمانے میں انہیں جہاد اور قتال کا حکم ہوا ‘ لیکن اس سے پوری قوم نے انکار کردیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ سزاّ مسلط کردی کہ یہ چالیس برس تک اسی صحرا میں بھٹکتے پھریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر یہ ابھی جہاد اور قتال کرتے تو ہم پورا فلسطین ان کے ہاتھ سے ابھی فتح کرا دیتے ‘ لیکن چونکہ انہوں نے بزدلی دکھائی ہے لہٰذا اب ان کی سزا یہ ہے : فَاِنَّھَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْھِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ج یَتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ ط المائدۃ : 26 یعنی ارض فلسطین جو ان کے لیے ارض موعود تھی وہ ان پر چالیس سال کے لیے حرام کردی گئی ہے ‘ اب یہ چالیس سال تک اسی صحرا میں بھٹکتے پھریں گے۔ صحرا نوردی کے اس عرصے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بھی انتقال ہوگیا اور حضرت ہارون علیہ السلام کا بھی۔ اس عرصے میں ایک نئی نسل پیدا ہوئی اور وہ نسل جو مصر سے غلامی کا داغ اٹھائے ہوئے آئی تھی وہ پوری کی پوری ختم ہوگئی۔ غلامی کا یہ اثر ہوتا ہے کہ غلام قوم کے اندر اخلاق و کردار کی کمزوریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ صحرا نوردی کے زمانے میں جو نسل پیدا ہوئی اور صحرا ہی میں پروان چڑھی وہ ایک آزاد نسل تھی جو ان کمزوریوں سے پاک تھی اور ان میں ایک جذبہ تھا۔ بنی اسرائیل کی اس نئی نسل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ یوشع بن نون [ تورات میں ان کا نام یشوع Joshua آیا ہے ] کی قیادت میں قتال کیا اور پہلا شہر جو فتح ہوا وہ ”اریحا“ تھا۔ یہ شہر آج بھی جریکو Jericho کے نام سے موجود ہے۔ یہاں پر اس فتح کے بعد کا تذکرہ ہو رہا ہے کہ یاد کرو جبکہ ہم نے تم سے کہا تھا کہ اس شہر میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوجاؤ اور پھر جو کچھ نعمتیں یہاں ہیں ان سے متمتعّ ہو ‘ خوب کھاؤ پیو ‘ لیکن شہر کے دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا۔ مراد یہ ہے کہ جھک کر ‘ سجدۂ شکر بجا لاتے ہوئے داخل ہونا۔ ایسا نہ ہو کہ تکبر کی وجہ سے تمہاری گردنیں اکڑ جائیں۔ اللہ کا احسان مانتے ہوئے گردنیں جھکا کر داخل ہونا۔ یہ نہ سمجھنا کہ یہ فتح تم نے بزور بازو حاصل کی ہے۔ اس کا نقشہ ہمیں ٌ محمد رسول اللہ ﷺ کی شخصیت میں نظر آتا ہے کہ جب فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو جس سواری پر آپ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے آپ ﷺ کی پیشانی مبارک اس کی گردن کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ یہ وقت ہوتا ہے جبکہ ایک فاتح تکبرّ اور تعلّی کا مظاہرہ کرتا ہے ‘ لیکن بندۂ مؤمن کے لیے یہی وقت تواضع کا اور جھکنے کا ہے۔اس کے ساتھ ہی انہیں حکم دیا گیا : وََقُوْلُوْا حِطَّۃٌ ”اور کہتے جاؤ مغفرت مغفرت“۔ حِطَّۃٌ کا وزن فِعْلَۃٌ اور مادہ ”ح ط ط“ ہے۔ حَطَّ یَحُطُّ حَطًّا کے متعدد معنی ہیں ‘ جن میں سے ایک ”پتے جھاڑنا“ ہے۔ مثلاً کہیں گے حَطَّ وَرَقَ الشَّجَرِ اس نے درخت کے ّ پتے جھاڑ دیے۔ حِطَّۃٌ کے معنی ”استغفار ‘ طلب مغفرت اور توبہ“ کے کیے جاتے ہیں۔ گویا اس میں گناہوں کو جھاڑ دینے اور خطاؤں کو معاف کردینے کا مفہوم ہے۔ چناچہ ”وَقُوْلُوْا حِطَّۃٌ“ کا مفہوم یہ ہوگا کہ مفتوح بستی میں داخل ہوتے وقت جہاں تمہاری گردنیں عاجزی کے ساتھ جھکی ہونی چاہئیں وہیں تمہاری زبان پر بھی استغفار ہونا چاہیے کہ اے اللہ ہمارے گناہ جھاڑ دے ‘ ہماری مغفرت فرما دے ‘ ہماری خطاؤں کو بخش دے ! اگر تم ہمارے اس حکم پر عمل کرو گے تو ہم تمہاری خطائیں معاف فرما دیں گے ‘ اور تم میں جو محسن اور نیکوکار ہوں گے انہیں مزید فضل و کرم اور انعام و اکرام سے نوازیں گے۔

اردو ترجمہ

مگر جو بات کہی گئی تھی، ظالموں نے اُسے بدل کر کچھ اور کر دیا آخر کار ہم نے ظلم کرنے والوں پر آسمان سے عذاب نازل کیا یہ سزا تھی ان نافرمانیوں کی، جو وہ کر رہے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fabaddala allatheena thalamoo qawlan ghayra allathee qeela lahum faanzalna AAala allatheena thalamoo rijzan mina alssamai bima kanoo yafsuqoona

آیت 59 فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلاً غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَہُمْ “ان میں سے جو ظالم تھے ‘ بدکردار تھے انہوں نے ایک اور قول اختیار کرلیا اس قول کی جگہ جو ان سے کہا گیا تھا۔ ان سے کہا گیا تھا کہ ”حِطَّۃٌ حِطَّۃٌ“ کہتے ہوئے داخل ہونا ‘ لیکن انہوں نے اس کی بجائے ”حِنْطَۃٌ حِنْطَۃٌ“ کہنا شروع کردیا ‘ یعنی ہمیں تو گیہوں چاہیے ‘ گیہوں چاہیے ! اگلے رکوع میں یہ بات آجائے گی کہ مَنّ وسلویٰ کھاتے کھاتے بنی اسرائیل کی طبیعتیں بھر گئی تھیں ‘ ایک ہی چیز کھا کھا کر وہ اکتا گئے تھے اور اب وہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں زمین کی روئیدگی اور پیداوار میں سے کوئی چیز کھانے کو ملنی چاہیے۔ اس خواہش کا اظہار ان کی زبانوں پر ”حِنْطَۃٌ حِنْطَۃٌ“ کی صورت میں آگیا۔ اس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا استہزاء و تمسخر کیا جو انہیں ”وَقُوْلُوْا حِطَّۃٌ“ کے الفاظ میں دیا گیا تھا۔ اسی طرح شہر میں سجدہ ریز ہوتے ہوئے داخل ہونے کی بجائے انہوں نے اپنے سرینوں پر پھسلنا شروع کیا۔فَاَنْزَلْنَا عَلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ “ جن ظالموں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کا استہزاء و تمسخر کیا تھا ان پر آسمان سے ایک بہت بڑا عذاب نازل ہوا۔ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ اریحا شہر میں پہنچنے کے بعد انہیں طاعون کی وبا نے آلیا اور جنہوں نے یہ حرکت کی تھی وہ سب کے سب ہلاک ہوگئے۔بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ ”“ یہ ان نافرمانیوں اور حکم عدولیوں کی سزا تھی جو وہ کر رہے تھے۔

اردو ترجمہ

یاد کرو، جب موسیٰؑ نے اپنی قوم کے لیے پانی کی دعا کی تو ہم نے کہا کہ فلاں چٹان پر اپنا عصا مارو چنانچہ اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر قبیلے نے جان لیا کہ کونسی جگہ اس کے پانی لینے کی ہے اُس وقت یہ ہدایت کر دی گئی تھی کہ اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ پیو، اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waithi istasqa moosa liqawmihi faqulna idrib biAAasaka alhajara fainfajarat minhu ithnata AAashrata AAaynan qad AAalima kullu onasin mashrabahum kuloo waishraboo min rizqi Allahi wala taAAthaw fee alardi mufsideena

اب یہاں پھر صحراء سینا کے واقعات بیان ہو رہے ہیں۔ ان واقعات میں ترتیب زمانی نہیں ہے۔ اریحا کی فتح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ہوئی ‘ جس کا ذکر گزشتہ آیات میں ہوا ‘ لیکن ‘ اب یہاں پھر اس دور کے واقعات آ رہے ہیں جب بنی اسرائیل صحرائے تیہہ میں بھٹک رہے تھے۔ آیت 60 وَاِذِ اسْتَسْقٰی مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ ط“ صحرائے سینا میں چھ لاکھ سے زائد بنی اسرائیل پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے اور وہاں پانی نہیں تھا۔ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پانی طلب کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اپنی قوم کے لیے پانی کی دعا کی تو انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اپنے عصا سے چٹان پر ضرب لگاؤ۔فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا ط ’“ ”فَجَرَ“ کہتے ہیں کوئی چیز پھٹ کر اس سے کسی چیز کا برآمد ہونا۔ فجر کے وقت کو فجراسی لیے کہتے ہیں کہ اس وقت رات کی تاریکی کا پردہ چاک ہوتا ہے اور سپیدۂ سحر نمودار ہوتا ہے۔ قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَہُمْ ط“ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے ‘ اگر ان کے لیے علیحدہ علیحدہ گھاٹ نہ ہوتا تو ان میں باہم لڑائی جھگڑے کا معاملہ ہوتا۔ انہیں بارہ چشمے اسی لیے دیے گئے تھے کہ آپس میں لڑائی جھگڑا نہ ہو۔ پانی تو بہت بڑی چیز ہے اور قبائلی زندگی میں اس کی بنیاد پر جنگ و جدل کا آغاز ہوسکتا ہے۔ ؂کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا کہیں گھوڑا آگے بڑھانے پہ جھگڑا تو اس اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے یہ سہولت مہیا کی کہ بارہ چشمے پھوٹ بہے اور ہر قبیلے نے اپنا گھاٹ معین کرلیا۔ ّ کُلُوْا وَاشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰہِ “ وَلاَ تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ “ صحرا میں ان کے لیے پینے کو پانی بھی مہیا کردیا گیا اور کھانے کے لیے مَن وسلویٰ اتار دیا گیا ‘ لیکن انہوں نے ناشکری کا معاملہ کیا ‘ جس کا ذکر ملاحظہ ہو۔

اردو ترجمہ

یاد کرو، جب تم نے کہا تھا کہ، "اے موسیٰؑ، ہم ایک ہی طرح کے کھانے پر صبر نہیں کرسکتے اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لیے زمین کی پیداوار ساگ، ترکاری، کھیرا، ککڑی، گیہوں، لہسن، پیاز، دال وغیرہ پیدا کرے" تو موسیٰؑ نے کہا: "کیا ایک بہتر چیز کے بجائے تم ادنیٰ درجے کی چیزیں لینا چاہتے ہو؟ اچھا، کسی شہری آبادی میں جا رہو جو کچھ تم مانگتے ہو، وہاں مل جائے گا" آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت و خواری اور پستی و بد حالی اُن پر مسلط ہو گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے یہ نتیجہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیات سے کفر کرنے لگے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرنے لگے یہ نتیجہ تھا ان کی نافرمانیوں کا اور اس بات کا کہ وہ حدود شرع سے نکل نکل جاتے تھے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qultum ya moosa lan nasbira AAala taAAamin wahidin faodAAu lana rabbaka yukhrij lana mimma tunbitu alardu min baqliha waqiththaiha wafoomiha waAAadasiha wabasaliha qala atastabdiloona allathee huwa adna biallathee huwa khayrun ihbitoo misran fainna lakum ma saaltum waduribat AAalayhimu alththillatu waalmaskanatu wabaoo bighadabin mina Allahi thalika biannahum kanoo yakfuroona biayati Allahi wayaqtuloona alnnabiyyeena bighayri alhaqqi thalika bima AAasaw wakanoo yaAAtadoona

آیت 61 وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ “ من وسلویٰ کھا کھا کر اب ہم اکتا گئے ہیں۔ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ “ یعنی زمین کی پیداوار میں سے ‘ نباتات ارضی میں سے ہمیں رزق دیا جائے۔مِنْم بَقْلِہَا وَقِثَّآءِھَا“ یہ لفظ کھیرے اور ککڑی وغیرہ سب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔وَفُوْمِہَا فُوم کا ایک ترجمہ گیہوں کیا گیا ہے ‘ لیکن میرے نزدیک زیادہ صحیح ترجمہ لہسن ہے۔ عربی میں اس کے لیے بالعموم لفظ ”ثُوم“ استعمال کیا جاتا ہے۔ لہسن کو فارسی میں توم اور پنجابی ‘ سرائیکی اور سندھی میں ”تھوم“ کہتے ہیں اور یہ فوم اور ثوم ہی کی بدلی ہوئی شکل ہے ‘ اس لیے کہ عربوں کی آمد کے باعث ان کی زبان کے بہت سے الفاظ سندھی اور سرائیکی زبان میں شامل ہوگئے ‘ جو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ کافی تعداد میں اب بھی موجود ہیں۔وَعَدَسِہَا وَبَصَلِہَا ط“ اب جو سالن کے چٹخارے ان چیزوں سے بنتے ہیں ان کی زبانیں وہ چٹخارے مانگ رہی تھیں۔ بنی اسرائیل صحرائے سینا میں ایک ہی طرح کی غذا ”مَنّ وسلویٰ“ کھاتے کھاتے اکتا گئے تھے ‘ لہٰذا وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے کہ ہمیں زمین سے اگنے والی چٹخارے دار چیزیں چاہئیں۔قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ہُوَ اَدْنٰی بالَّذِیْ ہُوَ خَیْرٌ ط ”“ مَن وسلویٰ نباتات ارضی سے کہیں بہتر ہے جو اللہ کی طرف سے تمہیں دیا گیا ہے۔ تو اس سے تمہارا جی بھر گیا ہے اور اس کو ہاتھ سے دے کر چاہتے ہو کہ یہ ادنیٰ چیزیں تمہیں ملیں ؟اِہْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَکُمْ مَّا سَاَلْتُمْ ط ”“ لفظ ”اِہْبِطُوْا“ پر آیت 38 کے ذیل میں بات ہوچکی ہے کہ اس کا معنی بلندی سے اترنے کا ہے۔ ظاہر بات ہے یہاں یہ لفظ آسمان سے زمین پر اترنے کے لیے نہیں آیا ‘ بلکہ اس کا صحیح مفہوم یہ ہوگا کہ کسی بستی میں جا کر آباد ہوجاؤ ! settle down somewhere اگر تمہیں زمین کی پیداوار میں سے یہ چیزیں چاہئیں تو کہیں آباد settle ہوجاؤ اور کاشت کاری کرو ‘ یہ ساری چیزیں تمہیں مل جائیں گی۔ وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُق“ وَبَآءُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ط“ وہ اللہ کے غضب میں گھرگئے۔بنی اسرائیل وہ امت تھی جس کے بارے میں فرمایا گیا : وَاَ نِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ البقرۃ اسی امت کا پھر یہ حشر ہوا تو کیوں ہوا ؟ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے ! انہیں کتاب دی گئی تھی کہ اس کی پیروی کریں اور اسے قائم کریں۔ سورة المائدۃ میں فرمایا گیا :وَلَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰٹۃَ وَالْاِنْجِیْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ ط آیت 66”اگر یہ اہل کتاب تورات اور انجیل اور ان دوسری کتابوں کو قائم کرتے جو ان کی جانب ان کے رب کی طرف سے اتاری گئیں تو کھاتے اپنے اوپر سے اور اپنے قدموں کے نیچے سے۔“یعنی ان کے سروں کے اوپر سے بھی نعمتوں کی بارش ہوتی اور زمین بھی ان کے لیے نعمتیں اگلتی۔ لیکن انہوں نے اس کو چھوڑ کر اپنی خواہشات ‘ اپنے نظریات ‘ اپنے خیالات ‘ اپنی عقل اور اپنی مصلحتوں کو مقدمّ کیا ‘ اور اپنے تمرد ‘ اپنی سرکشی اور اپنی حاکمیت کو بالاتر کیا۔ جو قوم دنیا میں اللہ کے قانون ‘ اللہ کی ہدایت اور اللہ کی کتاب کی امین ہوتی ہے وہ اللہ کی نمائندہ representative ہوتی ہے ‘ اور اگر وہ اپنے عمل سے غلط نمائندگی misrepresent کرے تو وہ اللہ کے نزدیک کافروں سے بڑھ کر مغضوب اور مبغوض ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ کافروں کو دین پہنچانا تو اس مسلمان امت کے ذمہّ تھا۔ اگر یہ خود ہی دین سے منحرف ہوگئے تو کسی اور کو کیا دین پہنچائیں گے ؟ آج اس مقام پر موجودہ امت مسلمہ کھڑی ہے کہ تعداد میں سوا ارب یا ڈیڑھ ارب ہونے کے باوجود ان کے حصے میں عزت نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ دنیا کے سارے معاملات G- 7 اور G- 15 ممالک کے ہاتھ میں ہیں۔ سکیورٹی کونسل کے مستقل ارکان کو ویٹو کا حق حاصل ہے ‘ لیکن کوئی مسلمان ملک نہ تو سکیورٹی کونسل کا مستقل رکن ہے اور نہ ہی G- 7 ‘ G- 9 یا G- 15 میں شامل ہے۔ گویا ع ”کس نمی پرسد کہ بھیا کیستی !“ ہماری اپنی پالیسیاں کہیں اور طے ہوتی ہیں ‘ ہمارے اپنے بجٹ کہیں اور بنتے ہیں ‘ ہماری صلح اور جنگ کسی اور کے اشارے سے ریموٹ کنٹرول انداز میں ہوتی ہیں۔ یہ ذلت اور مسکنت ہے جو آج ہم پر تھوپ دی گئی ہے۔ ہم کہتے ہیں کشمیر ہماری شہ رگ ہے ‘ لیکن اس کے لیے جنگ کرنے کو ہم تیار نہیں ہیں۔ یہ خوف نہیں ہے تو کیا ہے ؟ یہ مسکنت نہیں ہے تو کیا ہے ؟ اگر اللہ پر یقین ہے اور اپنے حق پر ہونے کا یقین ہے تو اپنی شہ رگ دشمن کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے ہمت کرو۔ لیکن نہیں ‘ ہم میں یہ ہمت موجود نہیں ہے۔ ہمارے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر خبریں آتی رہیں گی کہ قابض بھارتی فوج نے ریاستی دہشت گردی کی کارروائیوں میں اتنے کشمیریوں کو شہید کردیا ‘ اتنی مسلمان عورتوں کی بےحرمتی کردی ‘ لیکن ہم یہاں اپنے اپنے دھندوں میں ‘ اپنے اپنے کاروبار میں ‘ اپنی اپنی ملازمتوں میں اور اپنے اپنے کیریئرز میں مگن ہیں۔ بہرحال متذکرہ بالا الفاظ اگرچہ بنی اسرائیل کے لیے آئے ہیں کہ ان پر ذلت و خواری اور محتاجی و کم ہمتی مسلطّ کردی گئی ‘ لیکن اس میں آج کی امت مسلمہ کا نقشہ بھی موجود ہے ؂ ّ َ خوشتر آں باشد کہ سر دلبراں گفتہ آید در حدیث دیگراں !ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَیَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ط“ ّ ہمارے ہاں بھی مجددین امت کو ‘ قتل بھی کیا گیا اور ان میں سے کتنے ہیں جو جیلوں میں ڈالے گئے۔ متعدد صحابہ کرام رض اور سینکڑوں تابعین مستبد حکمرانوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ ائمۂ دین کو ایسی ایسی مار پڑی ہے کہ کہا جاتا ہے کہ ہاتھی کو بھی ایسی مار پڑے تو وہ برداشت نہ کرسکے۔ امام احمد بن حنبل رح کے ساتھ کیا کچھ ہوا ! امام ابوحنیفہ رح نے جیل میں انتقال کیا اور وہاں سے ان کا جنازہ اٹھا۔ امام دار الہجرت امام مالک رح کے کندھے کھینچ دیے گئے اور منہ کالا کر کے انہیں اونٹ پر بٹھا کر پھرایا گیا۔ حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رح ‘ کو پس دیوار زنداں ڈالا گیا۔ سید احمد بریلوی رح اور ان کے ساتھیوں کو خود مسلمانوں نے شہید کروا دیا۔ ہماری تاریخ ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ اب نبی تو کوئی نہیں آئے گا۔ ان کے ہاں نبی تھے ‘ ہمارے ہاں مجددین ہیں ‘ علماء حق ہیں۔ انہوں نے جو کچھ انبیاء علیہ السلام کے ساتھ کیا وہی ہم نے مجددین کے ساتھ کیا۔ ّ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ”“ ان کو یہ سزا ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے اور حد سے تجاوز کرنے کی وجہ سے دی گئی۔ اللہ تعالیٰ تو ظالم نہیں ہے نعوذ باللہ ‘ اللہ تعالیٰ نے تو انہیں اونچا مقام دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی ”خیر امت“ قراردیا۔ ہم نے بھی جب اپنا مشن چھوڑ دیا تو ذلت اور مسکنت ہمارا مقدر بن گئی۔ اللہ کا قانون اور اللہ کا عدل بےلاگ ہے۔ یہ سب کے لیے ایک ہے ‘ ہر امت کے لیے الگ الگ نہیں ہے۔ اللہ کی سنت بدلتی نہیں۔ چناچہ بنی اسرائیل کی بداعمالیوں کے سبب ان کا جو حشر ہوا آج وہ ہمارا ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں میری کتاب ”سابقہ اور موجودہ مسلمان امتوں کا ماضی ‘ حال اور مستقبل“ کے نام سے موجود ہے ‘ اس کا مطالعہ کیجیے !

9