سورۃ البقرہ: آیت 58 - وإذ قلنا ادخلوا هذه القرية... - اردو

آیت 58 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

وَإِذْ قُلْنَا ٱدْخُلُوا۟ هَٰذِهِ ٱلْقَرْيَةَ فَكُلُوا۟ مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَٱدْخُلُوا۟ ٱلْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا۟ حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطَٰيَٰكُمْ ۚ وَسَنَزِيدُ ٱلْمُحْسِنِينَ

اردو ترجمہ

پھر یاد کرو جب ہم نے کہا تھا کہ، "یہ بستی جو تمہارے سامنے ہے، اس میں داخل ہو جاؤ، اس کی پیداوار جس طرح چاہو، مزے سے کھاؤ، مگر بستی کے دروازے میں سجدہ ریز ہوتے ہو ئے داخل ہونا اور کہتے جانا حطۃ حطۃ، ہم تمہاری خطاؤں سے در گزر کریں گے اور نیکو کاروں کو مزید فضل و کرم سے نوازیں گے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qulna odkhuloo hathihi alqaryata fakuloo minha haythu shitum raghadan waodkhuloo albaba sujjadan waqooloo hittatun naghfir lakum khatayakum wasanazeedu almuhsineena

آیت 58 کی تفسیر

بعض روایات میں اس کی تصریح آتی ہے کہ اس گاؤں سے مراد بیت المقدس ہے ۔ مصر سے خروج کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حکم دیا تھا کہ وہ اس شہر میں داخل ہوجائیں ۔ اس وقت اس میں عمالقہ آباد تھے ۔ بنی اسرائیل کو یہ حکم تھا کہ وہ ان لوگوں کو نکال دیں۔ لیکن بنی اسرائیل نے اس سے انکار کردیا اور کہا تھا ” اے موسیٰ ! اس شہر میں ایک جبار قوم آباد ہے ۔ ہم تو اس میں اس وقت تک داخل نہیں ہوسکتے جب تک وہ وہاں سے نکل نہیں جاتے ۔ اگر وہ نکل جاتے ہیں تو ہم داخل ہوں گے ۔ “ نیزاسی شہر کے بارے میں انہوں نے اپنے پیغمبر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا ” اے موسیٰ (علیہ السلام) ہم ہرگز اس شہر میں داخل نہ ہوں گے ، جب تک کہ یہ لوگ اس شہر میں موجود ہیں ، جائیں آپ اور آپ کا رب لڑیں ان سے ، ہم توی ہیں بیٹھے ہیں ۔ “ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کی یہ سزا دی کہ وہ چالیس سال تک بھٹکتے پھرے ۔ ان کی موجودہ نسل سب مرگئی ، ایک جدید نسل تیار ہوگئی اور اس نے حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں اس شہر کو فتح کیا اور یہ لوگ شہر میں داخل ہوئے ۔ لیکن اس طویل سز ا کے بعد بھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا کہ خشوع و خضوع اور تواضع سے جھک کر شہر میں داخل ہوں اور حطۃ حطۃ پکاریں ، انہوں نے ویسا نہ کیا ۔ شہر میں داخلے کی جو صورت اللہ تعالیٰ نے تجویز کی تھی اس کے مطابق داخل نہ ہوئے ، نیز وہ لفظ بھی ادانہ کئے جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا۔

یہاں اللہ تعالیٰ ، ان کی اس تاریخی نافرمانی کو نقل کرکے ان کے سامنے رکھتے ہیں ۔ نیز تاریخی لحاظ سے یہ واقعہ پیش بھی ، موضوع زیربحث میں یعنی خروج بنی اسرائیل کے متصلاً بعد آیا تھا ۔ اس لئے یہاں اس کا بھی ذکر ہوا ۔ قرآن کریم کا یہ انداز بتارہا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کی پوری تاریخ کو ایک اکائی تصور کرتا ہے جس کا آغاز ، وسط اور انتہابالکل یکساں ہے ۔ کیونکہ یہ لوگ ہمیشہ اپنی پوری تاریخ میں ، مخالف حق ، سرکش ، نافرمان اور راہ راست سے بھٹکے ہوئے نظر آتے ہیں۔

تاریخی طور پر یہ واقعہ جو بھی ہو اس کا کوئی یقینی علم ہمیں نہیں ہے۔ البتہ قرآن کریم ان کے سامنے جو واقعہ پیش کررہا ہے ۔ اس کا انہیں علم ہے ۔ وہ اس بات کو جانتے ہیں جس کی طرف یہاں اشارہ کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کی تھی اور وہ اس خاص شہر میں داخل ہوئے تھے ۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ تھا کہ خضوع اور خشوع کی حالت میں ، اس شہر میں داخل ہوں اور اللہ سے دعا کریں کہ وہ ان کی ان غلطیوں کو معاف کرے ۔ نیز اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کی غلطیوں کو معاف کردے گا ۔ اور نیکی کرنے والوں پر اپنا مزید فضل وکرم کرے گا ۔ لیکن ان لوگوں نے اپنی عادت مستمرہ کے مطابق اس حکم کی بھی خلاف ورزی ہی کی فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ ” مگر جو بات کہی گئی تھی ظالموں نے اسے بدل کر کچھ اور کردیا “

آیت 58 وَاِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا ہٰذِہِ الْقَرْیَۃَ فَکُلُوْا مِنْہَا حَیْثُ شِءْتُمْ رَغَدًا وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوْلُوْا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْ لَکُمْ خَطٰیٰکُمْ ط وَسَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ بنی اسرائیل کے صحرائے سینا میں آنے اور تورات عطا کیے جانے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی کے زمانے میں انہیں جہاد اور قتال کا حکم ہوا ‘ لیکن اس سے پوری قوم نے انکار کردیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ سزاّ مسلط کردی کہ یہ چالیس برس تک اسی صحرا میں بھٹکتے پھریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر یہ ابھی جہاد اور قتال کرتے تو ہم پورا فلسطین ان کے ہاتھ سے ابھی فتح کرا دیتے ‘ لیکن چونکہ انہوں نے بزدلی دکھائی ہے لہٰذا اب ان کی سزا یہ ہے : فَاِنَّھَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْھِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً ج یَتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ ط المائدۃ : 26 یعنی ارض فلسطین جو ان کے لیے ارض موعود تھی وہ ان پر چالیس سال کے لیے حرام کردی گئی ہے ‘ اب یہ چالیس سال تک اسی صحرا میں بھٹکتے پھریں گے۔ صحرا نوردی کے اس عرصے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بھی انتقال ہوگیا اور حضرت ہارون علیہ السلام کا بھی۔ اس عرصے میں ایک نئی نسل پیدا ہوئی اور وہ نسل جو مصر سے غلامی کا داغ اٹھائے ہوئے آئی تھی وہ پوری کی پوری ختم ہوگئی۔ غلامی کا یہ اثر ہوتا ہے کہ غلام قوم کے اندر اخلاق و کردار کی کمزوریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ صحرا نوردی کے زمانے میں جو نسل پیدا ہوئی اور صحرا ہی میں پروان چڑھی وہ ایک آزاد نسل تھی جو ان کمزوریوں سے پاک تھی اور ان میں ایک جذبہ تھا۔ بنی اسرائیل کی اس نئی نسل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ یوشع بن نون [ تورات میں ان کا نام یشوع Joshua آیا ہے ] کی قیادت میں قتال کیا اور پہلا شہر جو فتح ہوا وہ ”اریحا“ تھا۔ یہ شہر آج بھی جریکو Jericho کے نام سے موجود ہے۔ یہاں پر اس فتح کے بعد کا تذکرہ ہو رہا ہے کہ یاد کرو جبکہ ہم نے تم سے کہا تھا کہ اس شہر میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوجاؤ اور پھر جو کچھ نعمتیں یہاں ہیں ان سے متمتعّ ہو ‘ خوب کھاؤ پیو ‘ لیکن شہر کے دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا۔ مراد یہ ہے کہ جھک کر ‘ سجدۂ شکر بجا لاتے ہوئے داخل ہونا۔ ایسا نہ ہو کہ تکبر کی وجہ سے تمہاری گردنیں اکڑ جائیں۔ اللہ کا احسان مانتے ہوئے گردنیں جھکا کر داخل ہونا۔ یہ نہ سمجھنا کہ یہ فتح تم نے بزور بازو حاصل کی ہے۔ اس کا نقشہ ہمیں ٌ محمد رسول اللہ ﷺ کی شخصیت میں نظر آتا ہے کہ جب فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو جس سواری پر آپ ﷺ بیٹھے ہوئے تھے آپ ﷺ کی پیشانی مبارک اس کی گردن کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ یہ وقت ہوتا ہے جبکہ ایک فاتح تکبرّ اور تعلّی کا مظاہرہ کرتا ہے ‘ لیکن بندۂ مؤمن کے لیے یہی وقت تواضع کا اور جھکنے کا ہے۔اس کے ساتھ ہی انہیں حکم دیا گیا : وََقُوْلُوْا حِطَّۃٌ ”اور کہتے جاؤ مغفرت مغفرت“۔ حِطَّۃٌ کا وزن فِعْلَۃٌ اور مادہ ”ح ط ط“ ہے۔ حَطَّ یَحُطُّ حَطًّا کے متعدد معنی ہیں ‘ جن میں سے ایک ”پتے جھاڑنا“ ہے۔ مثلاً کہیں گے حَطَّ وَرَقَ الشَّجَرِ اس نے درخت کے ّ پتے جھاڑ دیے۔ حِطَّۃٌ کے معنی ”استغفار ‘ طلب مغفرت اور توبہ“ کے کیے جاتے ہیں۔ گویا اس میں گناہوں کو جھاڑ دینے اور خطاؤں کو معاف کردینے کا مفہوم ہے۔ چناچہ ”وَقُوْلُوْا حِطَّۃٌ“ کا مفہوم یہ ہوگا کہ مفتوح بستی میں داخل ہوتے وقت جہاں تمہاری گردنیں عاجزی کے ساتھ جھکی ہونی چاہئیں وہیں تمہاری زبان پر بھی استغفار ہونا چاہیے کہ اے اللہ ہمارے گناہ جھاڑ دے ‘ ہماری مغفرت فرما دے ‘ ہماری خطاؤں کو بخش دے ! اگر تم ہمارے اس حکم پر عمل کرو گے تو ہم تمہاری خطائیں معاف فرما دیں گے ‘ اور تم میں جو محسن اور نیکوکار ہوں گے انہیں مزید فضل و کرم اور انعام و اکرام سے نوازیں گے۔

یہود کی پھر حکم عدولی جب موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے آئے اور انہیں ارض مقدس میں داخل ہونے کا حکم ہوا جو ان کی موروثی زمین تھی ان سے کہا گیا کہ یہاں جو عمالیق ہیں ان سے جہاد کرو تو ان لوگوں نے نامردی دکھائی جس کی سزا میں انہیں میدان تیہ میں ڈال دیا گیا جیسے کہ سورة مائدہ میں ذکر ہے قریہ سے مراد بیت المقدس ہے۔ سدی، ربیع، قتادہ، ابو مسلم وغیرہ نے یہی کہا ہے، قرآن میں ہے کہ موسیٰ ؑ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم اس پاک زمین میں جاؤ جو تمہارے لئے لکھ دی گئی ہے بعض کہتے ہیں اس سے مراد ریخاء ہے بعض نے کہا ہے مصر مراد ہے لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے کہ مراد اس سے بیت المقدس ہے یہ واقعہ تیہ سے نکلنے کے بعد کا ہے جمعہ کے دن شام کو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس پر فتح عطا کی بلکہ سورج کو ان کے لئے ذرا سی دیر ٹھہرا دیا تھا تاکہ فتح ہوجائے فتح کے بعد انہیں حکم ہوا کہ اس شہر میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں۔ جو اس فتح کی اظہار تشکر کا مظہر ہوگا ابن عباس نے سجدے سے مراد رکوع لیا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ سجدے سے مراد یہاں پر خشوع خضوع ہے کیونکہ حقیقت پر اسے محمول کرنا ناممکن ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں یہ دروازہ قبلہ کی جانب تھا اس کا نام باب الحطہ تھا۔ رازی نے یہ بھی کہا ہے کہ دروازے سے مراد جہت قبلہ ہے۔ بجائے سجدے کے اس قوم نے اپنی رانوں پر کھسکنا شروع کیا اور کروٹ کے بل داخل ہونے لگے سروں کو جھکانے کے بجائے اور اونچا کرلیا حطتہ کے معنی بخشش کے ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ امر حق ہے عکرمہ کہتے ہیں اس سے مراد آیت (لا الہ الا اللہ) کہنا ہے ابن عباس کہتے ہیں ان میں گناہوں کا اقرار ہے حسن اور قتادہ فرماتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں اللہ ہماری خطاؤں کو ہم سے دور کر دے۔ پھر ان سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ اگر تم اسی طرح یہی کہتے ہوئے شہر میں جاؤ گے اور اس فتح کے وقت بھی اپنی پستی اور اللہ کی نعمت اور اپنے گناہوں کا اقرار کرو گے اور مجھ سے بخشش مانگو تو چونکہ یہ چیزیں مجھے بہت ہی پسند ہیں میں تمہاری خطاؤں سے درگزر کرلوں گا۔ فتح مکہ کے موقع پر فرمان الٰہی سورة اذا جاء نازل ہوئی تھی اور اس میں بھی یہی حکم دیا گیا تھا کہ جب اللہ کی مدد آجائے مکہ فتح ہو اور لوگ دین اللہ میں فوج در فوج آنے لگیں تو اپنے نبی ﷺ تم اپنے رب کی تسبیح اور حمد و ثنا بیان کرو اس سے استغفار کرو وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ اس سورت میں جہاں ذکرو استغفار کا ذکر ہے وہاں حضور ﷺ کے آخری وقت کی خبر تھی۔ حضرت ابن عباس نے حضرت عمر کے سامنے اس سورت کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا تھا جسے آپ نے فرمایا تھا جب مکہ فتح ہونے کے بعد حضور ﷺ شہر میں داخل ہوئے تو انتہائی تواضع اور مسکینی کے آثار آپ پر تھے یہاں تک کے سر جھکائے ہوئے تھے اونٹنی کے پالان سے سر لگ گیا تھا۔ شہر میں جاتے ہی غسل کر کے صحیٰ کے وقت آٹھ رکعت نماز ادا کی جو ضحی کی نماز بھی تھی اور فتح کے شکریہ کی بھی دونوں طرح کے قول محدثین کے ہیں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے جب ملک ایران فتح کیا اور کسری کے شاہی محلات میں پہنچے تو اسی سنت کے مطابق آٹھ رکعتیں پڑھیں دو دو رکعت ایک سلام سے پڑھنے کا بعض کا مذہب ہے اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ آٹھ ایک ساتھ ایک ہی سلام سے پڑھیں واللہ اعلم۔ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں بنی اسرائیل کو حکم کیا گیا کہ وہ سجدہ کرتے ہوئے اور حطتہ کہتے ہوئے دروازے میں داخل ہوں لیکن انہوں نے بدل دیا اور اپنی رانوں پر گھسٹتے ہوئے اور حطتہ کے بجائے حبتہ فی شعرۃ کہتے ہوئے جانے لگے۔ نسائی، عبدالرزاق، ابو داؤد، مسلم اور ترمذی میں بھی یہ حدیث بہ اختلاف الفاظ موجود ہے اور سنداً صحیح ہے حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جا رہے تھے۔ ذات الحنطل نامی گھاٹی کے قریب پہنچے تو آپ نے فرمایا کہ اس گھاٹی کی مثال بھی بنی اسرائیل کے اس دروازے جیسی ہے جہاں انہیں سجدہ کرتے ہوئے اور حطتہ کہتے ہوئے داخل ہونے کو کہا گیا تھا اور ان کے گناہوں کی معافی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ حضرت برآء فرماتے ہیں سیقول السففھاء میں سفہاء یعنی جاہلوں سے مراد یہود ہیں جنہوں نے اللہ کی بات کو بدل دیا تھا حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں حطتہ کے بدلے انہوں نے حنطۃ حبتہ حمراء فیھا شعیرۃ کہا تھا ان کی اپنی زبان میں ان کے الفاظ یہ تھے ھطا سمعانا ازبتہ مزبا ابن عباس بھی ان کی اس لفظی تبدیلی کو بیان فرماتے ہیں کہ رکوع کرنے کے بدلے وہ رانوں پر گھسٹتے ہوئے اور حطتہ کے بدلے حنطۃ کہتے ہوئے داخل ہوئے حضرت عطا، مجاہد، عکرمہ، ضحاک، حسن، قتادہ، ربیع، یحییٰ نے بھی یہی بیان کیا ہے مطلب یہ ہے کہ جس قول و فعل کا انہیں حکم دیا گیا تھا انہوں نے مذاق اڑایا جو صریح مخالفت اور معاندت تھی اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا عذاب نازل فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے ظالموں پر ان کے فسق کی وجہ سے آسمانی عذاب نازل فرمایا۔ رجز سے مراد عذاب ہے کوئی کہتا ہے غضب ہے کسی نے طاعون کہا ہے ایک مرفوع حدیث ہے طاعون رجز ہے اور یہ عذاب تم سے اگلے لوگوں پر اتارا گیا تھا۔ بخاری اور مسلم میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ یہ دکھ اور بیماری رجز ہے تم سے پہلے لوگ انہی سے عذاب دئیے گئے تھے۔

آیت 58 - سورۃ البقرہ: (وإذ قلنا ادخلوا هذه القرية فكلوا منها حيث شئتم رغدا وادخلوا الباب سجدا وقولوا حطة نغفر لكم خطاياكم ۚ وسنزيد...) - اردو