سورۃ البقرہ: آیت 38 - قلنا اهبطوا منها جميعا ۖ... - اردو

آیت 38 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

قُلْنَا ٱهْبِطُوا۟ مِنْهَا جَمِيعًا ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّى هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

اردو ترجمہ

ہم نے کہا کہ، "تم سب یہاں سے اتر جاؤ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میر ی ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qulna ihbitoo minha jameeAAan faimma yatiyannakum minnee hudan faman tabiAAa hudaya fala khawfun AAalayhim wala hum yahzanoona

آیت 38 کی تفسیر

یہاں آکر یہ معرکہ اپنے اصلی میدان ‘ زمین کی طرف منتقل ہوجاتا ہے اور اس وقت سے شروع ہے ۔ لمحہ بھر کے لئے بھی ٹھنڈا نہیں ہوتا ۔ اور یوں انسان ‘ آغاز انسانیت سے یہ راز پالیتا ہے کہ اگر وہ اس دنیا میں سرخروئی اور کامرانی چاہتا ہے تو اس کے حصول کا طریقہ کیا ہے ؟ اور اگر وہ ذلت و خواری چاہتا ہے تو اس کی راہ کون سی ہے ؟

٭ ........ ٭ ........ ٭

لمحہ بھر کے لئے ذرا پیچھے کی طرف لوٹئے اور ابتدائی انسانیت کی اس کی دلچسپ کہانی کے بعض پہلوؤں کا جائزہ لیجئے ! اللہ تعالیٰ خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔” میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ۔ معلوم ہوا کہ آدم پہلے ہی اس زمین کے لئے پیدا کئے گئے تھے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے کیوں اسے جنت دکھائی گئی ہے ؟ کیوں ایک درخت کو حرام قرار دیا گیا ؟ اسے ابتلا ‘ میں ڈالا گیا ‘ یوں اسے زمین کی طرف اتارا گیا حالانکہ وہ طے شدہ پروگرام کے مطابق پیداہی اس لئے کیا گیا تھا کہ زمین پر فریضہ خلافت سر انجام دے ؟

میں سمجھتا ہوں کہ کشمکش آدم وابلیس کا یہ پہلا تجربہ کرایا ہی اس لئے گیا تھا کہ اس کے ذریعے سے آدم (علیہ السلام) کو کاربار خلافت کے چلانے کے لئے تیار کیا جائے ۔ اس طرح آدم (علیہ السلام) کی پوشیدہ قوتوں کو جگادیا گیا ۔ اسے لغزش کا تجربہ کرایا گیا اور اس کے نتائج سے دوچار کیا گیا۔ اس کے بعد ندامت و شرمندگی ‘ توبہ ‘ دشمن کی پہچان اور اللہ کی مامون پناہ گاہ میں آنے کا طریقہ سکھایا گیا۔

شجر ممنوعہ کی کہانی ‘ اس کے چکھنے کے لئے شیطان کی وسوسہ اندازی ‘ انسان اول کا نسیان عہد ‘ نسیان کے بعد ہوش میں آنا ‘ پشیمانی اور استغفار ۔ یہ سب کیفیات دو اروات ایسی ہیں جن کا تجربہ ہر انسان کو ہر لحظہ ہوتا رہتا ہے۔

اس انسان پر اللہ کی رحمت اور شفقت کا یہ تقاضا تھا کہ وہ اپنے دارالخلافہ میں تمام ایسے تجربات سے آراستہ ہو کر اترے جس کا پیش آنا اس کی زندگی کا ایک اہم حصہ تھا ۔ تاکہ وہ اس وہ اس طویل اور نہ ختم ہونے والی کشمکش (کشمکش آدم وابلیس) کے لئے تیار ہو اور یہ تجربہ اس کے لئے نصیحت آموز اور سامان عبرت ہو۔

آپ دوبارہ یہ سوال کرسکتے ہیں کہ پھر یہ تجربہ کہاں ہوا ؟ وہ جنت کون سی ہے جس میں آدم وحوا کچھ عرصے کے لئے قیام پذیر ہوئے ؟ فرشتے کیا ہیں ؟ ابلیس کی حقیقت کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے انہیں کیونکر خطاب کیا ؟ اور انہوں نے کیونکرجواب دیا ؟

بھائی ! یہ اور ایسی تمام دوسری باتیں جو قرآن کریم میں مذکور ہیں دراصل اللہ کے ان بھیدوں اور اسرار میں ہیں ۔ جن کی حقیقت کا علم صرف اللہ ہی کو ہے ‘ اللہ تعالیٰ جو علیم و حکیم ہے ‘ وہ جانتا ہے تھا کہ ان چیزوں کی حقیقی معرفت اور ان کی ماہیت معلوم کرنے سے انسان کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ “ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انسان کو ان چیزوں کی حقیقت معلوم کرنے اور ان کی اصلیت کا ادراک کرنے کی صلاحیت ہی نہیں دی ۔ وہ ان کی ماہیت کا احاطہ کر ہی نہیں سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مدرکات دیئے ہیں وہ صرف اس لئے دیئے ہیں کہ ان کے ذریعے انسان اس زمین میں کاروبار خلافت سرانجام دے ۔ یہ مدرکات حقیقت مغیبات کا علم حاصل کرنے کے لئے استعمال ہی نہیں ہوسکتے ۔ نیز فریضہ ٔ خلافت کے یہ ضروری بھی نہیں ہے کہ ہم ان مغیبات کی حقیقت کو بھی جانتے ہوں ۔ اللہ کے قوانین قدرت کو کس قدر انسان نے مسخر کیا ہے ۔ انسان کو کائنات کے و رموز کا کتنا علم دیا گیا ہے ؟ کتنے اسرار غیبیہ ہیں ‘ جو اس کی نظروں سے اوجھل ہیں ؟ یہ ایسی باتیں ہیں جن کے علم وادراک کی حضرت انسان کو قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انسان کی حالت یہ ہے کہ اس کائنات کے بیشمار اسرار کان پردہ فاش کرنے کے باوجود ‘ وہ اب بھی ان تمام واقعات و حوادث سے مطلقاً بیخبر ہے جو اگلے لمحہ نمودار ہونے والے ہیں ۔ تمام مہیا او میسرہ آلات ........ اور ذرائع کے علم کے باوجودجو اسے میسر ہیں ‘ وہ کچھ نہیں جانتا کہ اگلے لمحہ میں کیا ہونے والا ہے ۔ اسے معلوم نہیں کہ وہ جو سانس لے رہا ہے وہ آخری سانس لے رہا ہے یا اس کے بعد وہ دوسرا سانس بھی لے سکے گا ۔ پردہ غیب میں جو حقائق پوشیدہ ہیں یہ ان میں سے ایک ادنیٰ مثال ہے۔ غرض فریضہ خلافت کی ادائیگی کے لئے اسے ان مغیبات میں سے کسی چیزکا جاننا بھی ضروری نہیں ہے ‘ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اگر انسان پر بعض اسرار کھول دیئے جائیں تو وہ اس کی کارکردگی پر الٹا اثر ڈالیں گے ۔ چناچہ ایسے پوشیدہ اسرار و رموز کی کئی قسمیں جو پردہ غیب میں مستور ہیں اور اللہ کے سوا ان کا علم کسی کو بھی نہیں ہے ۔

اس لئے عقل انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اس میدان میں سعی لاحاصل کرے ۔ کیونکہ اس کے پاس وہ ذرائع اور آلات ہی نہیں جو اس میدان میں کام آتے ہیں ۔ جو شخص بھی اس میدان میں جدوجہد کرے گا ‘ اور اپنی قوتیں کھپائے گا ‘ اس کی جدوجہد اکارت جائے گی ۔ بالکل ضائع اور لاحاصل۔

جب عقل انسانی وہ ذرائع ہی حاصل نہیں جن کے ذریعے وہ عالم مغیبات کے بارے میں کسی چیز کا ادراک کرسکے تو پھر اسے کوئی حق نہیں کہ وہ محض ہٹ دھرمی کرکے غیبی حقائق کا انکار کرے ۔ کیونکہ کسی چیز کا انکار کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اس کے وجود کا علم حاصل ہو۔ اور مغیبات کا علم وادراک عقل کا کام ہی نہیں ہے ۔ نہ اس کے حیطہ قدرت اور دائرہ کار میں یہ چیزیں آتی ہیں ۔ اس کے پاس ان کے ادراک کے نہ وسائل ہیں اور نہ ہی عقل کو ان کے ادراک کی ضرورت ہے ۔ اور نہ ہی عقل انسانی کا یہ دینی فریضہ ہے کہ وہ ان کا ادراک کرے۔

ہمیں یہ تسلیم ہے کہ وہمیات و خرافات کو تسلیم کرنا نہایت ہی خطرناک اور مضربات ہے ‘ لیکن یہ بات اس سے بھی بدرجہا زیادہ مضر اور خطرناک ہے کہ انسان ایک ایسی چیز کا انکار کرے جو اس کے علم کے دائرہ رسائی ہی سے باہر ہے ۔ یا کسی حقیقت کو محض اس لئے مستعبد سمجھاجائے کہ وہ انسان کے حدادراک اور حدود قدرت سے باہر ہے ۔ اگر ہم علم ویقین کا یہ معیار مقرر کرلیں تو یہ ایک حیوانی معیار ہوگا۔ گویا انسانیت پیچھے لوٹ کر دوبارہ حیوانیت کے مقام تک پہنچے گی ۔ جہاں عالم محسوسات سے آگے کوئی چیز نہیں ہوتی اور جس کے لئے محسوسات کی چار دیواری سے نکل کر وجود مطلق تک پہنچنے کا امکان ہی نہیں ہوتا۔

لہٰذا ہمارے لئے بہتر یہی ہے کہ ہم اس عالم غیب کو اس ذات ہی کے حوالے کردیں جو اس دنیا کا مالک ہے ‘ اور ہمارے لئے وہی کافی ہے جس کی اطلاع وہ ہمیں دے دے ۔ صرف اسی قدر کی ہمیں اس دنیا میں ضرورت ہے جس سے ہماری روحانی اور مادی اصلاح ہوجائے اور بس !

اب ہم اس قصے کے ان پہلوؤں کو لیتے ہیں جو بعض انسانی اور تکوینی حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ عالم موجودات کا تصور ‘ اس کا باہم ربط ‘ انسانی مزاج اور اس کا معیار حسن قبیح وغیرہ۔ کیونکہ انہی پہلوؤں میں بشریت کی ہدایت اور منفعت کا سامان ہے ۔

یہاں ظلال القرآن کی مناسبت سے ‘ اختصار کے ساتھ ہم ان اشارات ‘ تصورات اور حقائق پر ایک اچٹتی نظر ڈالنا چاہتے ہیں۔

1۔ اس قصے سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ مقام اور حیثیت ہے جو اسلامی تصور حیات ‘ خود انسان کو عطا کرتا ہے یعنی اس کائنات میں اس کی اہمیت ‘ ان اقدار کی اہمیت جن سے اسے پرکھا جاتا ہے اور زمین پر اس کے کردار کی اہمیت وغیرہ ۔ پھر یہ کہ اسلامی تصور حیات انسان اور عہد ربانی کے درمیان تعلق کی کیفیت کیا ہے ؟ اور اس عہد کی حقیقت کیا ہے جس کی بنیاد پر انسان خلیفۃ اللہ فی الارض ہے ۔

چناچہ ملاء اعلیٰ میں تکریم انسانیت کی جو تقریب منعقد ہوتی ہے اور اس کے بعد جو عظیم الشان اعلان ہوتا ہے اس سے صاف صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلامی تصور حیات کے مطابق حضرت انسان کی قدر و قیمت کیا ہے ؟ یعنی وہ ایک ایسی مخلوق ہے جسے زمین میں خلیفۃ اللہ ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ اس کا نہایت ہی واضح اظہار اس منظر سے ہوتا ہے جس میں ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کا حکم ہوتے ہی سب کروبی اس بندہ خاکی کے آگے سربسجود ہوجاتے ہیں ۔ اس تقریب میں ابلیس استکبار کرتا ہے اور راندہ درگاہ ہوجاتا ہے ۔ اور یہ سب آغاز سے انجام تک خاص ذات کبریائی کی نگرانی میں ہوتا ہے۔

انسان کے بارے میں جب یہ نقطہ نظر اختیار کیا جاتا ہے تو نظریاتی دنیا اور عملی دنیا میں انسان کے اس تصور کے عظیم الشان اور گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔

سب سے پہلا تصور یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان اس زمین کا مالک ہے ۔ یہ اسی کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ اس کائنات کی تمام چیزیں بھی اس انسان کے لئے پیدا کی گئی ہیں ۔ اس لئے وہ ہر مادی چیز سے زیادہ معزز زیادہ قیمتی اور زیادہ عزیز ہے ۔ وہ دنیا کی تمام مادی اقدار سے بلند تر ہے ۔ لہٰذا یہاں اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ کسی بڑے سے بڑے مادی مفاد ‘ یا عظیم سے عظیم مادی ترقیات کے لئے انسان کو ذلیل و خوار ہونے دیاجائے۔ لہٰذا کسی قسم کی مادی تحقیقات وفتوحات ‘ کسی قسم کی مادی پیداوار یا مادی عناصر میں سے کسی عنصر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ۔ کیونکہ تمام مادیات اور تمام مصنوعات ‘ صرف انسان کی خاطر پیدا کی گئی ہیں ۔ اس لئے کہ اس کی انسانیت پروان چڑھے اور بحیثیت انسان یہاں اس کی زندگی قائم رہ سکے ۔ لہٰذا اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ محض انسانی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے اس کی اعلیٰ اقدار اور اس کی کرامت اور شرافت کے عناصر ترکیبی ہی کو خیرباد کہہ دیں اور انہیں ضائع کردیں۔

2۔ اس کہانی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس زمین پر انسان ہی اول درجے کی موثر طاقت ہے۔ وہی ہے جو اس زمین کے رنگ ڈھنگ بدلتا ہے اور انسان کی معاشرتی زندگی میں وہی باہمی ربط وتعلق کی نوعیت متعین کرتا ہے ۔ وہی ہے جو قافلہ حیات کا قائد وسالار ہے اور سمت سفر کا تعین کرتا ہے ذرائع پیداوار یا پیداوار کی تقسیم کے کسی نظام کو اس انسان کی قیادت کا مقام حاصل نہیں ہے ۔ یوں کہ انسان کی نکیل ان کے ہاتھ میں ہو اور وہ ذلیل و خوار ایک حیوان کی طرح ان کے پیچھے پیچھے عالم بےبسی میں چلتا ہو جیسا کہ آج کل کے بعض مادی فلسفے اس کی ایسی ہی تصویر کھینچتے ہیں ۔ اور جن کا نظریہ انسانیت یہ ہے کہ اس کی زندگی میں ........ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ ان نظاموں میں جوں جوں مشین کی قدروقیمت میں اضافہ ہوتا ہے ‘ انسان کی انسانیت پامال ہوتی جاتی ہے ۔

یہ بات شک وشبہ سے بالا ہے کہ انسان کے لئے جو نظام زندگی تجویز کرتا ہے یا تو وہ اس اسلامی نظریہ کے مطابق تجویز ہوتا ہے یا پھر اس مادی نقطہ نظر کے مطابق تشکیل پاتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں بلند انسانی اقدار کو یا تو عروج نصیب ہوتا ہے یا تو وہ پامال ہوتی ہیں ۔ انسان اشرف المخلوقات بن جاتا ہے یا ایک حقیر مشین اور آلہ ۔ آج کی اس مادی دنیا میں محض مادی ترقی اور کثرت پیداوار کی خاطر ہر قسم کی انسانی آزادیوں ‘ انسانی شرافتوں اور انسان کی انسانیت کو جو پامال اور برباد کیا جارہا ہے ‘ وہ صرف اسی نقطہ نظر کا فطری نتیجہ ہے جو مادی نظامہائے حیات اس انسان کی حقیقیت اور دنیا میں اس کی اہمیت کے بارے میں رکھتے ہیں۔

لیکن اس مادی دنیا کے برعکس انسان کی حقیقت اور اس کے مقصد تخلیق کے بارے میں اسلام جو تصور دیتا ہے ‘ اس کے ترازو اور معیار میں آداب انسانیت کی قدریں بلند ہوجاتی ہیں ‘ اخلاقی فضائل و محاسن اہمیت اختیار کرلیتے ہیں ‘ انسان کی زندگی میں ایمان ‘ نیکی اور اخلاص جیسی صفات اہمیت اختیار کرلیتی ہیں کیونکہ اسلامی تصور حیات کے مطابق یہی وہ اعلیٰ اقدار ہیں جن پر خلافت فی الارض کی ذمہ داری موقوف ہے۔

فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ ” پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے ‘ تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ‘ ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا۔ “ غرض یہ اقدار تمام مادی اقدار سے زیادہ قیمتی اور برتر ہیں ۔ لیکن یہ بات بھی ہمارے ذہن میں رہنی چاہئے کہ ان مادی اقدار کا حصول بھی مقاصد خلافت فی الارض میں داخل ہے ۔ اس حد تک یہ مادی اقدار اعلیٰ اخلاقی اور روحانی اقدار کے تابع ہوں اور بذات خود اصل مقاصد نہ بننے پائیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام انسانی ضمیر کو پاک وصاف اور ایک اعلیٰ زندگی بسر کرنے پر آمادہ کرتا ہے ‘ جبکہ تمام دوسرے مادی نظریات تمام روحانی اقدار کو حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں ۔ اور مادیت کے لئے آداب انسانیت تک کو قربان کردیتے ہیں ۔ اور یہ سب قربانی کس لئے دی جاتی ہے ؟ محض ضروریات زندگی سامان تعیش کی فراوانی اور حیوانوں کی طرح شکم پروری کی خاطر) تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سید محمد قطب کی کتاب انسان اسلام اور مادیت)

اسلام کا تصور انسان کس قدر بلند ہے ؟ ذرا اس کے اس پہلو پر غور کیجئے کہ اس کی رو سے انسان ایک بااختیار اور صاحب عزم واراہ مخلوق ہے ۔ کیونکہ اگر ہو بااختیار اور ذی عزم نہیں تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے معاہدے کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے ۔ کیونکہ اختیار ہی کی اساس پر انسان مکلف ہے اور جزاء وسزا کا مستحق ہے ۔ اگر وہ اپنے ارادے کا پکا اور خواہشات نفسانیہ پر قابوپالیتا ہے تو اس طرح وہ فرشتوں سے بھی ارفع مقام حاصل کرسکتا ہے ۔ اور ہر اس کجروی سے بچ سکتا ہے جس سے اسے سابقہ درپیش ہو ۔ لیکن اگر اس عزم پر خواہشات نفسانیہ غلبہ پالیں ‘ اس کی زندگی میں ہدایت پر ظلمت غالب آجائے اور وہ اپنے اس عہد الست کو بھول جائے جو اس نے اپنے خالق سے باندھا تھا تو وہ اس بلند مقام سے گر بھی سکتا ہے اور اپنے لئے شقاوت ونکبت کے تمام سامان بھی فراہم کرسکتا ہے ۔

اسلامی نظام زندگی نے ‘ اس کائنات میں انسان کو برتری اور شرافت کے جو اصول دیئے ہیں اس قصے میں ان کی صرف ایک جھلک دکھائی گئی ہے ۔ انسان کو یاددلایا گیا ہے کہ سعادت وشقاوت ‘ بلندی و پستی ‘ ایک بااختیار بلند مرتبت انسان اور مقید ومجبور حیوان جو قعر مذلت میں گرپڑا ہو ‘ ان دونوں کی راہیں کہاں سے جدا ہوتی ہیں ۔

اس قصے میں بیان کردہ ‘ واقعات کی تصویر کشی کے دوران یہ یاد دلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ معرکہ آدم وابلیس کی نوعیت کیا ہے ؟ ایک طرف بندے اور خدا کا پیمان ہے اور دوسری طرف شیطان کی فتنہ انگیزی ہے۔ ایک طرف ایمان ہے اور دوسری جاب کفر ہے ‘ ایک محاذ پر حق ہے اور دوسرے پر باطل ہے ۔ “ ایک صفت اہل ہدایت کی ہے اور دوسری اہل ضلال کی ۔ لیکن میدان جنگ کہاں ہے ؟ انسان اور اس کی زندگی ۔ فاتح بھی انسان اور مفتوح بھی انسان ۔ سود و زیاں کا یہ بازار خود اس کے ضمیر میں ہے ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ اسے متنبہ کرتے ہیں کہ وہ ہر وقت چوکنا رہے کیونکہ وہ ہر وقت میدان کارزار میں ہے ۔ صورتیں دو ہی ہیں یا تو وہ لٹ جائے اور یا مال غنیمت لے کر ظفریاب ہوگا۔

اس قصے میں اسلام کے تصور خطا اور توبہ کی وضاحت بھی کردی جاتی ہے ۔ گناہ چونکہ ایک فرد سے سرزد ہوتا ہے ۔ لہٰذا توبہ بھی ایک انفرادی عمل ہے ۔ یہ ایک ایسا واضح اور صاف نظریہ ہے جس میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے۔ اہل کنیسا کی طرح یہاں کسی ایسے تصور کی گنجائش نہیں ہے کہ انسان پیدا ہونے سے پہلے خطاکا مرتکب بن جاتا ہو۔ اسلام میں کسی لاہوتی کفارہ معاصی کا کوئی تصور نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) انسان کو آدم (علیہ السلام) کے گناہ سے پاک کرنے کے لئے مصلوب ہوئے ۔ یہ ایک غلط تصور ہے ۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کی ایک لغزش ایک انفرادی عمل تھا۔ اور اس سے چھٹکارا پانے کا طریقہ بھی انفرادی عمل ندامت اور توبہ تھا جو بالکل واضح اور صاف اور قابل فہم ہے ۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہر ایک خود اپنے کئے کا ذمہ دار ہے ۔ اور سب کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا ہے ۔ صاف اور سادہ اور آسان

صدبار اگر توبہ شکستی بازآ

ذرا غو رکیجئے کہ کس قدر واضح اور دل لگتا تصور ہے یہ ۔ ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اپنا بوجھ اٹھائے ۔ یہ تصور ہر انسان کو بھلائی کے حصول کی جدوجہد پر آمادہ کرتا ہے اور وہ یاس وقنوط کا شکار نہیں ہوتاکیون کہ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُوہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ “

اشارات قصہ آدم کا یہ صرف ایک پہلو ہے فی ظلال القرآن کے اس مقام پر ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں ۔ صرف اس ایک پہلو ہی میں بےبہا حقائق اور صحت مند تصورات کا ایک عظیم خزانہ موجود ہے ۔ اس قصے میں قیمتی اشارات وہدایات کا ایک وافر ذخیرہ ہے ۔

اس میں اسلام کے تصور اجتماع اور طرز معاشرت کی بنیادیں متعین کردی گئیں ہیں ۔ اور جنہیں بھلائی ‘ اخلاق اور دوسرے فضائل کے ذریعے استحکام بخشا گیا ہے ۔ جب ہم اس پہلو پر غور وفکر کرتے ہیں تو ہمیں قرآنی قصوں کی اہمیت اور مقصدیت کا احساس ہوتا ہے کہ یہ قصے کس طرح اسلامی تصور حیات کی بنیادوں کو مضبوط کرتے ہیں ۔ اور ان اعلیٰ اقدار کی وضاحت کرتے ہیں جو ان بنیادوں پر قائم ہوتی ہیں جس کائنات کو اللہ نے پیدا کیا ہے اور جو اللہ ہی کی طرف متوجہ ہے ‘ اور جسے آخر کار اللہ ہی کی طرف جانا ہے ‘ وہ اس بات کی مستحق ہے کہ اس میں وہی اقدار بلند ہوں جو اللہ کے ہاں بلند ہیں ۔

معاہدہ خلافت انسانی دراصل ربانی ہدایت پہ قائم ہے ۔ اس کی اہم شرط یہ ہے کہ انسان اسلامی نظام حیات کے مطابق زندگی بسر کرے گا۔ اس معاہدے کے بعد پوزیشن یہ ہوجاتی ہے کہ انسان ایک ذی ارادہ مخلوق کی حیثیت سے ایک دورا ہے پر کھڑا ہے ۔ ایک طرف اسے خدا پکاررہا ہے ‘ اور وہ سن رہا ہے ۔ اگر وہ فیصلہ کرتا ہے تو صراط مستقیم پر چل پڑتا ہے ۔ دوسری جانب اسے شیطان پکار رہا ہے ۔ وہ ضلالت ........ یا حق ہے اور یا باطل ........ اور یا فلاح ہے اور یا خسران ........ یہ ہے حقیقت اور اسے قرآن کریم ہمیشہ بطور حقیقت اولیہ پیش کرتا ہے ۔ عالم انسان کے سارے نظریات و تصورات اور طرز ہائے زندگی بس صرف اس ایک حقیقت پر قائم ہیں ۔

درس 4 ایک نظر میں

یہاں آکر گفتگو کا رخ بنی اسرائیل کی طرف مڑجاتا ہے ۔ مدینہ طیبہ میں صرف انہوں نے دعوت اسلامی کا سختی سے مقابلہ کیا تھا۔ انہوں نے ظاہری اور خفیہ دونوں قسم کی تدبیروں کے ذریعے دعوت اسلامی کو ختم کرنے کوشش کی اور اس کا مقابلہ کیا ۔ وہ تحریک اسلامی کے خلاف پے درپے سازشیں کرتے رہے اور ظہور اسلام سے لے کر دعوت کے اس مرحلے تک ایک لمحہ بھر ان کی ریشہ دوانیوں میں کوئی کمی نہ آئی ۔ انہیں اس بات کا یقین ہوچلا تھا کہ اقتدار کی کنجیاں ایک ایک کرکے مسلمانوں کے ہاتھوں میں منتقل ہورہی ہیں ۔ جب سے اوس و خزرج کی لڑائیاں بند ہوئیں اور وہ راستے بند ہوئے جن کے ذریعے یہود مشرکین مدینہ کے اندر اثر ورسوخ پیدا کرتے اور ان پر اثر انداز ہوتے تھے ‘ پھر جب مسلمانوں کے لئے ‘ اس نئی کتاب کی بنیاد پر ایک نئے نظام زندگی کی تشکیل شروع ہوئی تو یہودیوں کو یہ احساس شدت سے ہورہا تھا کہ اس نئی تحریک نے انہیں ادب و ثقافت اور معیشت واقتصاد دونوں کے اہم شعبوں سے باہر نکال پھینکا ہے ۔

غرض یہ ہے وہ معرکہ جو یہودیوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اول روز سے شروع کیا اور آج تک وہ جوں کا توں قائم ہے ۔ آج بھی وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف وہی اوچھے ہتھیار استعمال کررہے ہیں جو اس وقت کررہے تھے ۔ ہتھیاروں کی شکل اگرچہ مختلف ہے ‘ رنگ ڈھنگ نیا ہے ۔ لیکن ان کی حقیقت اور مزاج بالکل وہی ہے ........ یاد رہے کہ یہودی اسلام و مسلمانوں کے خلاف اس حقیقت کے باوجود یہ معاندانہ روش اختیار کئے ہوئے ہیں کہ انسانی تاریخ میں پوری دنیا اس قوم کو ہمیشہ دھتکارتی رہی ۔ کبھی ادھر سے ادھر اور کبھی ادھر سے ادھر بھگایا جاتارہا ۔ اور یہ لوگ خاک چھانتے پھرے ۔ صدیاں یونہی گزرگئیں لیکن بالآخر انہیں آرام اور چین کی زندگی عالم اسلام ہی میں نصیب ہوئی ‘ جو سب کے لئے کھلا ہے اور جس میں عقیدہ و مذہب کی اساس پر کسی کے خلاف کوئی نفرت نہیں ہوا کرتی ہے ۔ جہاں فرقہ وارانہ اور مذہبی فسادات کو ہمیشہ بری نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور جہاں ہر اس شخص کو آنے کی کھلی اجازت رہی ہے جو اسلام کو اذیت نہ دے اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں نہ کرتا ہو اور مسالم ہوکر رہے۔

توقع تو یہ تھی کہ یہود مدینہ ‘ اس نئے رسول اور اس نئی دعوت کو سب سے پہلے قبول کرتے اور ایمان لاتے ۔ جبکہ قرآن کریم اپنی عمومی حیثیت میں ان تمام تعلیمات کی تصدیق کررہا تھا جو تورات میں بیان کی گئی تھیں ۔ پھر ان کو ایک نئے رسول کی آمد کا انتظار بھی تھا ۔ ان کو اس کے اوصاف بھی معلوم تھے اور ان کے پاس کتب سماوی میں اس کے بارے میں بشارتیں موجود تھیں ۔ اور وہ ہمیشہ اللہ سے دست بدعا ہوا کرتے تھے کہ وہ نبی منتظر کے طفیل انہیں مشرکین عرب پر ظفریاب کرے۔

یہ سبق ‘ بنی اسرائیل کے ساتھ قرآن کی وسیع گفتگو کا پہلا حصہ ہے ۔ بنی اسرائیل کے ساتھ یہ گفتگو درحقیقت ان کے موقف کی تردید اور ان کی سازشوں کو طشت ازبام کرنے کے لئے ان پر ایک گہری تنقیدی حملہ ہے اور یہ بطور مجبوری اور ضرورت اس وقت شروع کیا گیا ہے ۔ جب دعوت اسلامی نے ‘ مدینہ میں آکر ‘ انہیں اسلام کی طرف بلانے میں اپنی پوری قوت صرف کردی ‘ ان پر حجت تمام کردی اور انہیں اس جدید تحریک کی طرف راغب کرنے کے لئے تمام ذرائع استعمال کرلئے گئے۔

اس سبق کا آغاز باری تعالیٰ کی اس جلیل القدر پکار سے ہوتا ہے جس میں باری تعالیٰ انہیں اپنی نعمتیں یاد دلاتا ہے ‘ انہیں پکارا جاتا ہے کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں تاکہ اللہ تعالیٰ اپنے اس عہد کو پورا کرے ‘ جو اس نے ان کے ساتھ کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں بطور تمہید ‘ پہلے خوف خدا اور تقویٰ و طہارت کی طرف بلاتا ہے اور اس کے بعد انہیں دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اس کتاب اور ہدایت کو قبول کرلیں جو ان تمام کتابوں اور ہدایات کی تصدیق کرتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود ان کی طرف اتاریں ۔ انہوں نے قرآن کریم کے بارے میں جو رویہ اختیار کیا اللہ تعالیٰ اس کی مذمت کرتا ہے ‘ اور انہیں اس بات کی نصیحت کرتا ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے نہ ہوں جو سب سے پہلے اس کتاب کے منکر بنے ۔ اس کی اس روش کی بھی مذمت کی جاتی ہے کہ وہ حق کو چھپاتے ہیں اور حق و باطل کو باہم مشتبہ بناتے ہیں تاکہ لوگوں کو راہ راست سے بھٹکائیں ۔ بالخصوص مسلمانوں کو ۔ اور اسلامی جماعت کی صفوں میں فتنہ کھڑاکریں اور انتشار پھیلائیں ۔ نیز جو لوگ نئے نئے حلقہ بگوش اسلام ہورہے تھے ان کے دلوں میں شکوک و شبہات پھیلائیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں مشورہ دیتا ہے کہ وہ ان فتنہ انگیزیوں کو چھوڑ کر اسلامی جماعت میں شریک ہوجائیں ۔ مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھیں ‘ زکوٰۃ ادا کریں اور نظام جماعت قائم کریں اور اپنے آپ کو اس نئے دین میں ضم کردینے کے مشکل کام میں صبر اور نماز سے مددلیں ۔ اللہ ان کی اس روش پر سخت تنقید کرتا ہے کہ وہ مشرکین کو تو یہ کہتے ہیں کہ وہ ایمان لے آئیں لیکن خود ایمان نہیں لاتے اور نہ اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔

اس کے بعدبنی اسرائیل کو وہ نعمتیں یاددلائی جاتی ہیں جن سے انہیں ‘ ان کی پوری تاریخ میں نوازا جاتا رہا تھا۔ دوران گفتگو حاضرین بنی اسرائیل کو یوں مخاطب کیا جاتا ہے کہ گویا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عہد میں خود یہ لوگ وہاں موجود تھے ۔ جو آج مدینہ میں موجود ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل ایک ہی امت ہیں اور صدیوں سے وہ ایک ہی قومیت اور اسی جبلت پر جمے ہوئے ہیں ۔ جیسا کہ اس کے بعد بھی وہ ہر دور میں ویسے ہی رہے اور انہیں خصوصیات کے حامل رہے ۔

اس کے بعد انہیں اس دن یعنی یوم قیامت سے ڈرایا جاتا ہے جہاں کوئی نفس کسی دوسرے کا بدلہ نہ دے سکے گا ۔ کسی کی کوئی سفارش نہ چلے گی نہ کسی سے کسی قسم کا فدیہ اور معاوضہ قبول ہوگا اور اس دن تمام لوگ بےیارو مددگار ہوں گے ‘ اور انہیں قیامت کے عذاب سے بچانے والانہ ہوگا۔

اب ان کے سامنے وہ منظر پیش کیا جاتا ہے کہ جب اللہ نے انہیں فرعون سے نجات دی ۔ یہ منظر کشی ایسی ہی کہ گویا نظارہ آنکھوں کے سامنے ہے ۔ پھر ان انعامات کا ذکر ہوتا ہے جو پے درپے ان پر ہوتے رہے ۔ ان کے سروں پر بادلوں کے سائے کئے جاتے ہیں ۔ من وسلویٰ سے ان کی تواضح کی جاتی ہے اور پتھروں کا دل چیر کر ان کے لئے پانی فراہم کیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد انہیں شرم دلائی جاتی ہے کہ ان انعامات کے بدلے میں وہ پے درپے کیا کیا سرکشیاں اور کیا کیا خرمستیاں کرتے رہے ۔ جب اللہ تعالیٰ ان کی ایک غلطی معاف کرتے تو وہ دوسری میں جاپڑتے ‘ ایک مصیبت سے نجات دیتے تو وہ اپنے لئے دوسری کا سامان کردیتے ۔

لیکن بنی اسرائیل بھی تو بنی اسرائیل تھے ۔ وہی فساد اور کینہ پروری ‘ وہی کجروی اور گمراہی اور اس پر اصرار ۔ ہمیشہ انہوں نے اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کی ۔ امانت میں خیانت کی ۔ عہد کو پختہ باندھنے کے بعد توڑا ۔ اللہ تعالیٰ اور پیغمبروں کے ساتھ کئے ہوئے ہر میثاق کو انہوں نے بالائے طاق رکھا ۔ وہ یہاں تک آگے بڑھے کہ بغیر کسی جواز کے پیغمبروں کو قتل کرنے لگے ۔ رب کی آیات کو جھٹلانے لگے ۔ بچھڑے کو پوجنے لگے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کی گستاخی اس حد تک پہنچ گئی کہ انہوں نے اس وقت تک ایمان لانے سے انکار کردیا جب تک وہ اپنی آنکھوں سے اللہ کو نہ دیکھ لیں ۔ ذرا غور کیجئے ! اس کے بعد یہ لوگ اللہ کے حکم کی صریح خلاف ورزی کرتے ہیں اور گاؤں میں داخل ہوتے وقت وہ الفاظ نہیں ادا کرتے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں بتائے تھے ‘ اور جس کے ادا کرنے کا حکم دیا تھا ۔ احکام سبت کی خلاف ورزی کرتے رہے ۔ عہد طور کو تو صاف بھول گئے ۔ جس گائے کا ذبح کرنے کا اللہ نے حکم دیا تھا ‘ اس میں ٹال مٹول کرنے لگے اور مجادلہ اور مباحثہ شروع کردیا۔

غرض یہ سب کام یہ لوگ اس ادعاء کے ساتھ کرتے رہے کہ بس ہدایت یافتہ امت اگر کوئی ہے تو بس وہ صرف یہودی اور بنی اسرائیل ہی ہیں ۔ قیامت میں اللہ میاں تو صرف بنی اسرائیل سے راضی ہوں گے ۔ تمام دین باطل ہیں ۔ تمام دوسری امتیں گمراہ ہیں ۔ چناچہ قرآن کریم اس پہلی تنقیدی گفتگو ہی میں اس کی تردید کردیتا ہے اور کہتا ہے کہ دوسری امتوں میں سے جو لوگ بھی اللہ تعالیٰ یوم آخرت پر ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے تو ان کے رب کے نزدیک ان کے لئے اجر ہے ۔ ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ انہیں کسی چیز کا حزن وملال ہوگا۔

بنی اسرائیل پر یہ بھرپور وار یا بعد میں سورت کے مباحثے کے ضمن میں آنے والی تنقیدیں ‘ وقت کی اہم ضرورت تھی ۔ اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ بنی اسرائیل کے تمام کھوکھلے دعوؤں کی قلعی کھول دی جائے اور ان کی تمام سازشوں سے پردہ اٹھایا جائے اور مسلمانوں کو ان تمام سازشوں اور مکاریوں سے آگاہ کردیا جائے ‘ جو ان کی جدید سوسائٹی کے خلاف کی جارہی تھیں۔ ان کے دل و دماغ میں وہ اصول بٹھادئیے گئے جن کی بناپر بنی اسرائیل یہ سازشیں کرتے پھرتے ۔ نیز مسلمانوں کو اس خلفشار اور فتنہ انگیزی کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہوجانے کی ترغیب دی گئی۔

تاریخ بنی اسرائیل پر یہ تنقید اس لئے بھی ضروری تھی کہ خود مسلمان متنبہ ہوجائیں ۔ انہیں معلوم ہوجائے کہ خلافت ِ ارضی کے اس نئے منصب میں ان کے سامنے کیا کیا دشواریاں ہیں ؟ کہاں کہاں پھسلنے کا خطرہ ہے ؟ اس سلسلے میں سابقہ مقتدرامتوں سے کیا کیا لغزشیں ہوئیں اور جس کی وجہ سے وہ منصب خلافت سے محروم ہوئیں اور اس زمین میں اللہ کی امانت کے قیام ونگہبانی کا جو شرف انہیں حاصل تھا وہ کس طرح انہوں نے گنوایا ۔ اور انسانی قیادت کا نظام کس طرح اور کن اسباب کی بناء پر ان کے ہاتھوں سے نکل گیا ۔ غرض اس پوری تنقیدی بحث میں کہیں تو کھل کر اور کہیں اشاروں اشاروں میں مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اس راہ اور اس منصب میں ان کے سامنے کیسے کیسے مشکل مقامات آئیں گے ؟ جہاں لغزشوں اور پھسلنے کا سخت اندیشہ ہوگا۔ جیسا کہ اس بحث کے دوسرے حصے میں بھی ایسی ہی تنبی ہیں ہوں گی۔

مدینہ طیبہ میں امت مسلمہ کو ان تنیہات اور ہدایات کی اشد ضرورت تھی ‘ جیسا کہ ہمیشہ اور ہر وقت اور ہر زمانے میں امت مسلمہ کو ان ہدایات کی ضرورت ہے ۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ آنکھیں کھول کر گہرے اور بصیرت افروز احساس کے ساتھ قرآن کریم کا مطالعہ کریں اور بزرگ و برتر قیادت کی ان ہدایات اور تعلیمات کو اپنائیں ۔ جو اس نے اپنے پرانے دشمنوں کے خلاف جنگ کرتے ہوئے مسلمانوں کو دیں ۔ مسلمانوں کو ہمیشہ اچھی طرح یہ معلوم ہونا چاہئے کہ انہوں نے ان جدی دشمنوں کی ان سازشوں اور مکاریوں کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے ‘ جو یہ دشمن نہایت ہی خفیہ ذرائع اور گہرے فریب کارانہ طریقوں سے اسلامی معاشرہ کے خلاف کرتے ہیں ۔ جس شخص کا دل نور ایمان سے منور نہ ہو اور جو ظاہر و باطن اور خفیہ و اعلانیہ غرض اپنی پوری زندگی میں اس بزرگ و برتر قیادت خداوندی سے ہدایات نہیں لیتا ‘ وہ کبھی بھی ان خفیہ راستوں اور ناپاک راستوں اور زیر زمین ذرائع کا پتہ نہیں لگاسکتا جن کے ذریعے یہ خطرناک اور ناپاک سازشیں اسلامی معاشرے میں گھس آتی ہیں۔

اس بحث میں قرآن کریم کی طرز ادا کی فنی اور نفسیاتی ہم آہنگی کا ایک خاص پہلو قابل لحاظ ہے ۔ تاریخ بنی اسرائیل کی یہ بحث قصہ خلافت آدم کے اختتام کے متصلاً شروع ہوجاتی ہے ۔ یہ بحث اس ذہنی پس منظر میں شروع ہوتی ہے جس کی طرف ہم نے قصہ آدم وابلیس میں اشارے کئے ہیں ۔ چناچہ قرآن مجید کے اسلوب ادا میں اس بات کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ پیش کئے جانے والے قصے اور اس ماحول کے درمیان مکمل مطابقت اور ہم آہنگی ہو جس میں قصہ پیش ہورہا ہوتا ہے۔

ذرا پیچھے لوٹئے ‘ دوران بحث کہا گیا تھا کہ ” اللہ تعالیٰ نے اس زمین کی تمام مخلوقات کو تم انسانوں کے لئے پیدا کیا ہے۔ “ اس کے بعد زمین میں خلافت آدم کا قصہ شروع ہوتا ہے اور آدم اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ایک اعلانیہ معاہدہ ہوتا ہے ۔ آدم کو فرشتوں پر فضیلت دی جاتی ہے اس کے بعد ‘ آدم کو وصیت کرنا ‘ بھول چوک ‘ توبہ وندامت ‘ ہدایت الٰہی اور مغفرت الٰہی کے مضامین آتے ہیں اور آدم (علیہ السلام) کو جنت ہی میں شر کی قوتوں اور خیر کی قوتوں کی اس طویل اور نہ ختم ہونے والی کشمکش کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے ‘ جو اس دنیا میں تا قیامت جاری رہنی تھی ۔ خیر ‘ اصلاح اور تعمیر کی قوتیں ایک ایسے انسان کی شکل میں پیش ہوتی ہیں جو مومن ہے اور اللہ کی رسی کو تھامے ہوئے ہے اور شر ‘ فساد اور تخریب کی قوتیں ابلیس کی صورت میں مجسم کھڑی ہیں۔

یہ تمام باتیں کرنے کے بعد ‘ اب بنی اسرائیل پر تنقید شروع ہوجاتی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے کس طرح اللہ سے پختہ عہد باندھا اور پھر اسے توڑا ۔ ان پر کن کن نعمتوں کی بارشیں ہوئیں اور انہوں نے ان کی ناشکری کی ۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں زمین میں منصب خلافت سے محروم کردیا اور ذلت ومسکنت کو ان پر مسلط کردیا۔ مومنین کو ان کی مکاریوں سے آگاہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ اپنی تاریخ میں ان سے کیا کیا لغزشیں سرزد ہوئیں ؟ یہاں آکر زمین میں خلیفہ بنانے اور اس کے بعد بنی اسرائیل کو خلیفہ بنانے کے درمیان ایک واضح معنوی ربط پیدا ہوجاتا ہے اور سیاق کلام واضح طور پر باہم مربوط ہوجاتا ہے۔

قرآن کریم کے پیش نظر یہاں یہ مقصد نہیں ہے کہ بنی اسرائیل کی قومی تاریخ پیش کرے بلکہ وہ اس تاریخ کے بعض واقعات کی طرف اشارہ کرتا ہے اور مناسب اختصار یا مناسب بسط سے۔ اس طویل تاریخ کے بعض مناظر پیش کرتا ہے ۔ سورة بقرہ سے پہلے قرآن مجید کی تمام مکی سورتوں میں بھی یہ قصہ باربار آتا ہے۔

لیکن وہاں اس قصے کے بیان سے مطلوب یہ تھا کہ مکی زندگی کے پر آشوب دور میں مسلمانوں کی قلیل جماعت کی ڈھارس بندھائی جائے ۔ اس وقت مطلوب یہ تھا کہ آغاز کائنات سے آج تک قافلہ اہل ایمان کے دعوتی تجربات ‘ مسلمانوں کی اس قلیل جماعت کے سامنے پیش کئے جائیں اور مکہ مکرمہ میں سے جو مرحلہ درپیش تھا ‘ اس کے تقاضوں کے مطابق اسے ہدایات دی جائیں لیکن یہاں (مدینہ میں ) مقصد یہ تھا کہ یہودیوں کی ریشہ دوانیوں اور برے ارادوں سے مسلمانوں کو آگاہ کیا جائے اور اسلامی جماعت کو متنبہ کیا جائے کہ یہودیوں کے ارادے کیا ہیں ؟ اور انہیں بروئے کار لانے کے لئے ان کے پاس وسائل کیا ہیں ؟ نیز امت مسلمہ کو متوجہ کیا جارہا ہے کہ خود وہ بھی انہی کوتاہیوں اور کمزوریوں میں مبتلا نہ ہوجائیں جن میں اس سے قبل یہودی مبتلا ہوچکے تھے ۔ چونکہ مکہ مکرمہ میں اور مدینہ طیبہ میں مقاصد بالکل مختلف تھے ‘ اس لئے قرآن کریم نے یہاں قصہ بنی اسرائیل کو مختلف اسلوب میں اور مختلف پہلوؤں سے پیش کیا ۔ اگرچہ جو حقائق پیش کئے گئے وہ یہاں اور وہاں بالکل ایک ہی تھے ۔ یعنی بنی اسرائیل کی گمراہی اور جادہ مستقیم سے انحراف (جب مکی سورتوں پر بحث ہوگی جو ترتیب نزول کے اعتبار سے بقرہ سے پہلے نازل ہوئیں تو وہاں ہم اس نکتے کی مزید وضاحت کریں گے۔ )

بنی اسرائیل کا قصہ قرآن کریم میں جہاں بھی آیا ہے ‘ اس کا بغور مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس سیاق وسباق میں اسے پیش کیا گیا ہے وہ اس سے ہم آہنگ ہے ۔ اور اس مقام کے مقاصد ومطالب اور فکری ہدایات وتوجہات کا تکملہ ہے ۔ یہاں بھی یہ قصہ سیاق وسباق سے پوری طرح ہم آہنگ ہے ۔ یہاں پہلے انسان کے شرف اور اس کی کرامت کا مضمون بیان ہوا ۔ اس کے بعد انسان اور اللہ کے درمیان عہد اور انسان کی جانب سے بھول چوک کے مضامین آئے ‘ جن میں بطور اشارہ یہ بتایا گیا ہے کہ انسانیت ایک اکائی ہے ۔ اس کی جانب آنے والے رسول اور ان کا پیش کردہ دین بھی ایک ہی سرچشمے سے نکلے ہیں ۔ دوران کلام نفس انسانی اور اس کے عناصر ترکیبی کی طرف بھی جابجا اشارہ کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ ان عناصرترکیبی کو نظر انداز کرنے اور ان سے انحراف کرنے کے عواقب ونتائج کیا ہوں گے ؟ جن پر انسان کے خلیفہ اللہ فی الارض ہونے کا دارومدار ہے اور جن کی اہمیت یہ ہے کہ جو شخص ان کا انکار کرے گا ‘ وہ اپنی انسانیت کا منکر بن جائے گا ‘ وہ ان اسباب کو گم کردے گا جن کی بناپر اسے خلافت فی الارض کا منصب ملا ‘ نتیجتاً انسان دوبارہ حیوانیت کے ارذل مقام میں جاگرے گا۔

قرآن کریم میں بنی اسرائیل کا قصہ سب سے زیادہ آیا ہے۔ اس قصے کے مختلف مقامات اور نصیحت آموز پہلو بڑی اہمیت رکھتے ہیں ۔ ان سے اللہ تعالیٰ کا وہ حکیمانہ اسلوب تربیت معلوم ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو خلافت کبریٰ کے منصب کے لئے تیار کرنے اور اس کی تعلیم وتربیت کے مقصد کے لئے اختیار فرمایا۔

اس اجمالی بحث کے بعد ابب ہم چاہتے ہیں کہ قرآنی آیات پر تفصیلی نظر ڈالیں۔

آیت 38 قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًا ج اب یہاں لفظ ”اِھْبِطُوْا“ آیا ہے جو اس سے پہلے بھی آیا ہے۔ جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ تخلیق آدم علیہ السلام آسمانوں پر ہوئی ہے اور وہ جنت بھی آسمانوں پر ہی تھی جہاں حضرت آدم علیہ السلام آزمائش یا تربیت کے لیے رکھے گئے تھے وہ ”اِھْبِطُوْا“ کا ترجمہ کریں گے کہ انہیں آسمان سے زمین پر اترنے کا حکم دیا گیا۔ لیکن جو لوگ سمجھتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر ہی کسی بلند مقام پر رکھا گیا تھا وہ کہتے ہیں کہ ”اِھْبِطُوْا“ سے مراد بلند جگہ سے نیچے اترنا ہے نہ کہ آسمان سے زمین پر اترنا۔ وہ آزمائشی جنت کسی اونچی سطح مرتفع پر تھی۔ وہاں پر حکم دیا گیا کہ نیچے اترو اور جاؤ ‘ اب تمہیں زمین میں ہل چلانا پڑے گا اور روٹی حاصل کرنے کے لیے محنت کرنا پڑے گی۔ یہ نعمتوں کے دستر خوان جو یہاں بچھے ہوئے تھے اب تمہارے لیے نہیں ہیں۔ اس معنی میں اس لفظ کا استعمال اسی سورة البقرۃ کے ساتویں رکوع میں ہوا ہے : اِھْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَکُمْ مَّا سَاَلْتُمْ آیت 61فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ “ یہ ہے علم انسانی کا دوسرا گوشہ ‘ یعنی علم بالوحی Revealed Knowledge۔ اس چوتھے رکوع کا حسن ملاحظہ کیجیے کہ اس کے شروع میں علم بالحواس یا اکتسابی علم Acquired Knowledge کا ذکر ہے جو بالقوّ ۃ potentially حضرت آدم علیہ السلام میں رکھ دیا گیا اور جسے انسان نے پھر اپنی محنت سے ‘ اپنے حواس اور عقل کے ذریعے سے آگے بڑھایا۔ یہ علم مسلسل ترقی پذیر ہے اور آج مغربی اقوام اس میں ہم سے بہت آگے ہیں۔ کبھی ایک زمانے میں مسلمان بہت آگے نکل گئے تھے ‘ لیکن ظاہر ہے کہ اس دنیا میں عروج تو انہی کو ہوگا جنہیں سب سے زیادہ اس کی آگہی حاصل ہوگی۔ البتہ وہ علم جو آسمان سے نازل ہوتا ہے وہ عطائی given ہے ‘ جو وحی پر مبنی ہے۔ اور انسان کے مقام خلافت کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جو احکام اس کے پاس آئیں ‘ وہ جو ہدایات بھی بھیجے ان کی پورے پورے طور پر پیروی کرے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا کہ جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا۔

جنت کے حصول کی شرائط جنت سے نکالتے ہوئے جو ہدایت حضرت آدم حضرت حوا اور ابلیس کو دی گئی اس کا بیان یہاں ہو رہا ہے کہ ہماری طرف سے کتابیں انبیاء اور رسول بھیجے جائیں گے، معجزات ظاہر کئے جائیں گے، دلائل بیان فرمائے جائیں گے، راہ حقوق واضح کردی جائے گی، آنحضرت محمد ﷺ بھی آئیں گے، آپ پر قرآن کریم بھی نازل فرمایا جائے گا، جو بھی اپنے زمانے کی کتاب اور نبی کی تابعداری کرے گا اسے آخرت کے میدان میں کوئی خوف نہ ہوگا اور نہ ہی دنیا کے کھو جانے پر کوئی غم ہوگا۔ سورة طہ میں بھی یہی فرمایا گیا ہے کہ میری ہدایت کی پیروی کرنے والے نہ گمراہ ہوں گے، نہ بدبخت و بےنصیب۔ مگر میری یاد سے منہ موڑنے والے دنیا کی تنگی اور آخرت کے اندھا پن کے عذاب میں گرفتار ہوں گے۔ یہاں بھی فرمایا کہ انکار اور تکذب کرنے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ ابن جریر کی حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ جو اصلی جہنمی ہیں انہیں تو جہنم میں نہ موت آئے گی، نہ ہی خوشگوار زندگی ملے گی، ہاں جن موحد، متبع، سنت لوگوں کو ان کی بعض خطاؤں پر جہنم میں ڈالا جائے گا یہ جل کر کوئلے ہو ہو کر مرجائیں گے اور پھر شفاعت کی وجہ سے نکال لئے جائیں گے۔ صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے کہ بعض تو کہتے ہیں دوسری دفعہ جنت سے نکل جانے کے حکم کو ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ یہاں دوسرے احکام بیان کرنا تھے اور بعض کہتے ہیں پہلی مرتبہ جنت سے آسمان اول اتار دیا گیا تھا دوبارہ آسمان اول سے زمین کی طرف اتارا گیا لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے واللہ اعلم۔

آیت 38 - سورۃ البقرہ: (قلنا اهبطوا منها جميعا ۖ فإما يأتينكم مني هدى فمن تبع هداي فلا خوف عليهم ولا هم يحزنون...) - اردو