سورۃ البقرہ: آیت 34 - وإذ قلنا للملائكة اسجدوا لآدم... - اردو

آیت 34 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَٰٓئِكَةِ ٱسْجُدُوا۟ لِءَادَمَ فَسَجَدُوٓا۟ إِلَّآ إِبْلِيسَ أَبَىٰ وَٱسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ ٱلْكَٰفِرِينَ

اردو ترجمہ

پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدمؑ کے آگے جھک جاؤ، تو سب جھک گئے، مگر ابلیس نے انکار کیا وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qulna lilmalaikati osjudoo liadama fasajadoo illa ibleesa aba waistakbara wakana mina alkafireena

آیت 34 کی تفسیر

آخرکار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹادیا اور انہیں اس حالت سے نکلواکر چھوڑا جس میں وہ تھے ۔ ہم نے حکم دیا کہ ” اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ ‘ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے ۔ “ اس وقت آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی جس کو اس کے رب نے قبول کرلیا کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ “

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلائِكَةِ اسْجُدُوا لآدَمَ فَسَجَدُوا ” پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے جھک جاؤ تو سب جھک گئے ۔ اب ذرا اس مفسد اور خوں آشام مخلوق کی عزت افزائی دیکھئے کہ وہ کروبیوں کی مسجود ہورہی ہے ۔ فرشتوں سے بھی بلند ہوجاتی ہے ۔ کیوں ؟ اس لئے ایک تو اسے معرفت الٰہی کا راز بخشا گیا دوسرے یہ کہ اسے ایک صاحب ارادہ مخلوق بنایا گیا ہے ۔ انسان جس راہ کو اختیار کرنا چاہے آزادانہ اختیار کرسکتا ہے ۔ غرض فطرت انسانی کی یہ دورنگی اپنے ارادے پر اس کا اختیار اور اس کے ذریعے اپنے لئے راہ حیات کے تعین کی آزادی اور اپنی خاص کوششوں اور جدوجہد سے ہداقیت انسانیت کی ذمہ داری اور اس فریضے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی قدرت وغیرہ ہی وہ چیزیں ہیں جن میں اس کے اس عظیم اعزاز کا راز پوشیدہ ہے ۔

چناچہ اس تقریب میں باری تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سب فرشتے آدم خاکی کے سامنے سربسجود ہوجاتے ہیں إِلا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ ” مگر ابلیس نے انکار کیا وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑگیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا “

اس تقریب میں شریر مخلوق مجسم ہوکر سامنے آجاتی ہے خود ذات اقدس کی بارگاہ میں باری تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہے اور صاحب فضیلت کے فضل اور اعزاز کا انکار کیا جاتا ہے ۔ یہ شریر مخلوق گناہ پر مصر ہے اور فہم و فراست کے تمام دروازے اس کے لئے بند ہوجاتے ہیں ۔

سیاق کلام سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ابلیس اگرچہ فرشتوں کے ساتھ رہتا تھا لیکن وہ ملائکہ میں سے نہ تھا کیونکہ اگر وہ فرشتوں میں سے ہوتا تو اسے سرتابی کی مجال نہ ہوتی کیونکہ فرشتوں کی صفت اور خاصیت یہ ہے کہ لَا یَعۡصُوۡنَ مَا اَمَرَھُمۡ وَیَفۡعَلُوۡنَ مَا یُوۡمَرُوۡنَ ” اللہ جو انہیں حکم دیتا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ انہیں جو حکم دیا جاتا ہے وہ اسے کر گزرتے ہیں ۔ “ اگرچہ یہ استثنائی جملہ کہ ” سب فرشتوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے “ بظاہر یہ بتاتا ہے کہ ابلیس فرشتوں میں سے تھا لیکن وہ چونکہ فرشتوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا اسی لئے سلسلہ کلام میں ایسی استثناء لائی گئی ۔ عرب کہتے ہیں جَاءَ بَنُوا فُلَانٍ اِلَّا اَحۡمَدٌ فلاں قوم کے سب لوگ آگئے مگر احمد حالانکہ احمد ان میں سے نہیں ہوتا بلکہ وہ ان کے جوار میں رہتا ہے ۔ دوسری جگہ قرآن مجید اس کی تصریح کرتا ہے کہ ابلیس جنوں میں سے تھا اور جنوں کو اللہ تعالیٰ نے آگ کے شعلے سے پیدا کیا ہے۔ اس سے یہ بات قطعیت کے ساتھ معلوم ہوجاتی ہے کہ وہ فرشتوں میں سے نہ تھا۔

آیت 34 وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلآءِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَط یہاں ایک بات تو یہ سمجھئے کہ آدم علیہ السلام ‘ کو تمام ملائکہ کے سجدے کی ضرورت کیا تھی ؟ کیا یہ صرف تعظیماً تھا ؟ اور اگر تعظیماً تھا تو کیا آدم خاکی کی تعظیم مقصود تھی یا کسی اور شے کی تعظیم تھی ؟ مکی سورتوں میں یہ بات دو جگہ بایں الفاظ واضح کی گئی ہے : فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ الحجر : 29 و صٓ: 72 ”پھر جب میں اس آدم کی تخلیق مکمل کرلوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں تب گرپڑنا اس کے سامنے سجدے میں“۔ چناچہ تعظیم اگر ہے تو آدم خاکی کی نہیں ہے ‘ اس کے اندر موجود ”روحِ رّبانی“ کی ہے ‘ جو ایک Divine Element یا Divine Spark ہے ‘ جسے خود خالق نے ”مِنْ رُّوْحِیْ“ سے تعبیر فرمایا ہے۔ دوسرے یہ کہ اس سجدے کی حکمت کیا ہے ؟ اس کی علت اور غرض وغایت کیا ہے ؟ جیسا کہ میں نے عرض کیا ‘ اس کائنات یعنی اس آفاقی حکومت کے کارندے تو فرشتے ہیں اور خلیفہ بنایا جا رہا ہے انسان کو۔ لہٰذا جب تک یہ ساری سول سروس اس کے تابع نہ ہو وہ خلافت کیسے کرے گا ! جب ہم کسی کام کا ارادہ کرتے ہیں اور کوئی فعل کرنا چاہتے ہیں تو اس فعل کے پورا ہونے میں ‘ اس کے ظہور پذیر ہونے میں نمعلوم کون کون سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں اور فطرت کی کون کون سی قوتیں forces ہمارے ساتھ موافقت کرتی ہیں تو ہم وہ کام کرسکتے ہیں ‘ اور ان سب پر فرشتے مأمور ہیں۔ ہر ایک کی اپنی اقلیم domain ہے۔ اگر وہ انسان کے تابع نہ ہوں تو خلافت کے کوئی معنی ہی نہیں ہیں۔ اسے خلافت دی گئی ہے ‘ یہ جدھر جانا چاہتا ہے جانے دو ‘ یہ نماز کے لیے مسجد میں جانا چاہتا ہے جانے دو ‘ یہ چوری کے لیے نکلا ہے نکلنے دو۔ انسان کو جو اختیار دیا گیا ہے اس کے استعمال میں یہ تمام قوتیں اس کے ساتھ موافقت کرتی ہیں تب ہی اس کا کوئی ارادہ ‘ خواہ اچھا ہو یا برا ‘ پایۂ تکمیل کو پہنچ سکتا ہے۔ اس موافقت کی علامت کے طور پر تمام فرشتوں کو انسان کے آگے جھکا دیا گیا۔اس آیت میں ”اِلَّآ اِبْلِیْسَ“ سوائے ابلیس کے سے یہ مغالطہ پیدا ہوسکتا ہے کہ شاید ابلیس بھی فرشتہ تھا۔ اس لیے کہ سجدے کا حکم تو فرشتوں کو دیا گیا تھا۔ اس مغالطے کا ازالہ سورة الکہف میں کردیا گیا جو سورة البقرۃ سے بہت پہلے نازل ہوچکی تھی۔ وہاں الفاظ آئے ہیں : کَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ ط آیت 50 ”وہ جنوں میں سے تھا ‘ پس اس نے سرکشی کی اپنے رب کے حکم سے“۔ فرشتوں میں سے ہوتا تو نافرمانی کر ہی نہ سکتا۔ فرشتوں کی شان تو یہ ہے کہ وہ اللہ کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرسکتے۔ ازروئے الفاظ قرآنی : لَا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ التحریم ”وہ اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں“۔ جناتّ بھی انسانوں کی طرح ایک ذی اختیار مخلوق ہے جسے ایمان و کفر اور طاعت و معصیت دونوں کی قدرت بخشی گئی ہے۔ چناچہ جنات میں نیک بھی ہیں بد بھی ہیں ‘ اعلیٰ بھی ہیں ادنیٰ بھی ہیں ‘ جیسے انسانوں میں ہیں۔ لیکن یہ ”عزازیل“ جو جن تھا ‘ علم اور عبادت دونوں کے اعتبار سے بہت بلند ہوگیا تھا اور فرشتوں کا ہم نشین تھا۔ یہ فرشتوں کے ساتھ اس طور پر شامل تھا جیسے بہت سے انسان بھی اگر اپنی بندگی میں ‘ زُہد میں ‘ نیکی میں ترقی کریں تو ان کا عالم ارواح کے ساتھ ‘ عالم ملائکہ کے ساتھ اور ملأ اعلیٰ کے ساتھ ایک رابطہ قائم ہوتا ہے۔ اسی طرح عزازیل بھی جن ہونے کے باوجود اپنی نیکی ‘ عبادت ‘ پارسائی اور اپنے علم میں فرشتوں سے بہت آگے تھا ‘ اس لیے ”مُعَلِّمُ الْمَلَکوت“ کی حیثیت اختیار کرچکا تھا اور اسے اپنی اس حیثیت کا بڑازعم تھا۔جیسا کہ عرض کیا گیا ‘ قرآن حکیم میں قصۂ آدم و ابلیس کے ضمن میں یہ بات سات مرتبہ آئی ہے کہ فرشتوں کو حکم ہوا کہ آدم کو سجدہ کرو ‘ سب جھک گئے مگر ابلیس نے سجدے سے انکار کردیا۔ آیات زیر مطالعہ میں قصہ آدم و ابلیس ساتویں مرتبہ آ رہا ہے۔ اگرچہ مصحف میں یہ پہلی مرتبہ آرہا ہے لیکن ترتیب نزولی کے اعتبار سے یہاں ساتویں مرتبہ آ رہا ہے۔ آدم و ابلیس کا یہ قصہ سورة البقرۃ کے بعد سورة الاعراف میں ‘ پھر سورة الحجر میں ‘ پھر سورة بنی اسرائیل میں ‘ پھر سورة الکہف میں ‘ پھر سورة طٰہٰ میں اور پھر سورة صٓ میں آئے گا۔ یعنی یہ قصہ قرآن حکیم میں چھ مرتبہ مکی سورتوں میں آیا ہے اور ایک مرتبہ مدنی سورت سورة البقرۃ میں۔ ابلیس کا اصل نام ”عزازیل“ تھا ‘ ابلیس اب اس کا صفاتی نام ہے۔ اس لیے کہ اَبْلَسَ ‘ یُبْلِسُ کے معنی ہوتے ہیں مایوس ہوجانا۔ یہ اللہ کی رحمت سے بالکل مایوس ہے اور جو اللہ کی رحمت سے مایوس ہوجائے وہ شیطان ہوجاتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اب میرا تو چھٹکارا نہیں ہے ‘ میری تو عاقبت خراب ہو ہی چکی ہے ‘ لہٰذا میں اپنے ساتھ اور جتنوں کو برباد کرسکتا ہوں کرلوں۔ ع ”ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے !“ اب وہ شیطان اس معنی میں ہے کہ انسان کی عداوت اس کی گھٹی میں پڑگئی۔ اس نے اللہ سے اجازت بھی لے لی کہ مجھے مہلت دے دے قیامت کے دن تک کے لیے اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ تو میں ثابت کر دوں گا کہ یہ آدم اس رتبے کا حق دار نہ تھا جو اسے دیا گیا۔ اَبٰی وَاسْتَکْبَرَز قرآن حکیم میں دوسرے مقامات پر اس کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں : اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ ج خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ الاعراف : 12 و صٓ: 76 ”میں اس سے بہتر ہوں ‘ تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے گارے سے بنایا“۔ درحقیقت یہی وہ تکبرّ ہے جس نے اسے راندۂ درگاہِ حق کردیا ؂تکبر عزازیل را خوار کرد کہ در طوق لعنت گرفتار کرد وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ ۔ یا ”اور تھا وہ کافروں میں سے۔“ کَانَعربی زبان میں دو طرح کا ہوتا ہے : ”تامہ“ اور ”ناقصہ“۔ کَانَناقصہ کے اعتبار سے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ اپنے اس استکبار اور انکار کی وجہ سے وہ کافروں میں سے ہوگیا۔ جبکہ کان تامہّ کے اعتبار سے یہ معنی ہوں گے کہ وہ تھا ہی کافروں میں سے۔ یعنی اس کے اندر سرکشی چھپی ہوئی تھی ‘ اب ظاہر ہوگئی۔ ایسا معاملہ کبھی ہمارے مشاہدے میں بھی آتا ہے کہ کسی شخص کی بدنیتی پر نیکی اور زہد کے پردے پڑے رہتے ہیں اور کسی خاص وقت میں آکر وہ ننگا ہوجاتا ہے اور اس کی باطنی حقیقت سامنے آجاتی ہے۔

حضرت آدم ؑ پر اللہ تعالیٰ کے احسانات حضرت آدم ؑ کی اس بہت بڑی بزرگی کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے انسانوں پر اپنا بہت بڑا احسان فرمایا اور خبر دی کہ اس نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم ؑ کو سجدہ کریں۔ اس کی تصدیق میں بہت سی حدیثیں ہیں ایک تو حدیث شفاعت جو ابھی بیان ہوئی۔ دوسری حدیث میں ہے کہ موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ میری ملاقات حضرت آدم ؑ سے کرا دیجئے جو خود بھی جنت سے نکلے اور ہم سب کو بھی نکالا۔ جب دونوں پیغمبر جمع ہوئے تو موسیٰ ؑ نے کہا کہ تم وہ آدم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی روح تم میں بھی پھونکی اور اپنے فرشتوں سے تمہیں سجدہ کرایا (آخر تک) پوری حدیث عنقریب بیان ہوگی انشاء اللہ تعالیٰ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ابلیس فرشتوں کے ایک قبیلہ میں سے تھا جنہیں جن کہتے تھے جو آگ کے شعلوں سے پیدا ہوئے تھے۔ اس کا نام حارث تھا اور جنت کا خازن تھا۔ اس قبیلے کے سوا اور فرشتے سب کے سب نوری تھے۔ قرآن نے بھی ان جنوں کی پیدائش کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے آیت (وَخَلَقَ الْجَاۗنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ) 55۔ الرحمن :15) آگ کے شعلے کی جو تیزی سے بلند ہوتے ہیں اسے مارج کہتے ہیں جس سے جن پیدا کئے گئے تھے اور انسان مٹی سے پیدا کیا گیا۔ زمین میں پہلے جن بستے تھے۔ انہوں نے فساد اور خون ریزی شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو فرشتوں کا لشکر دے کر بھیجا انہی کو " جن " کہا جاتا تھا۔ ابلیس نے لڑ بھڑ کر مارتے اور قتل کرتے ہوئے انہیں سمندر کے جزیروں اور پہاڑوں کے دامنوں میں پہنچا دیا اور ابلیس کے دل میں یہ تکبر سما گیا کہ میں نے وہ کام کیا ہے جو کسی اور سے نہ ہوسکا۔ چونکہ دل کی اس بدی اور اس پوشیدہ خودی کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو تھا۔ جب پروردگار نے فرمایا کہ زمین میں خلیفہ پیدا کرنا چاہتا ہوں تو ان فرشتوں نے عرض کیا کہ ایسے کو کیوں پیدا کرتا ہے جو اگلی قوم کی طرح فساد و خونریزی کریں تو انہیں جواب دیا گیا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے یعنی ابلیس کے دل میں جو کبرو غرور ہے اس کا مجھی کو علم ہے تمہیں خبر نہیں پھر آدم ؑ کی مٹی اٹھائی گئی جو چکنی اور اچھی تھی۔ جب اس کا خمیر اٹھا تب اس سے حضرت آدم ؑ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور چالیس دن تک وہ یونہی پتلے کی شکل میں رہے ابلیس آتا تھا اور اس پر لاتا مار کر دیکھتا تھا تو وہ بجتی مٹی ہوتی جیسے کوئی کھوکھلی چیز ہو پھر منہ کے سوراخ سے گھس کر پیچھے کے سوراخ سے اور اس کے خلاف آتا جاتا رہا اور کہتا رہا کہ درحقیقت یہ کوئی چیز نہیں اور اگر میں اس پر مسلط کیا گیا تو اسے برباد کر کے چھوڑ دوں گا اور اسے مجھ پر مسلط کیا گیا تو اسے برباد کر کے چھوڑ دوں گا اور اسے مجھ پر مسلط کیا گیا تو میں ہرگز تسلیم نہ کروں گا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان میں روح پھونکی اور وہ سر کی طرف سے نیچے کی طرف آئی تو جہاں جہاں تک پہنچتی گئی خون گوشت بنتا گیا۔ جب ناف تک روح پہنچی تو اپنے جسم کو دیکھ کر خوش ہوئے اور فوراً اٹھنا چاہا لیکن نیچے کے دھڑ میں روح نہیں پہنچتی تھی اس لئے اٹھ نہ سکے اسی جلدی کا بیان اس آیت میں ہے آیت (وَكَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا) 17۔ الاسرآء :11) یعنی انسان بےصبرا اور جلد باز ہے نہ تو خوشی نہ رنج میں۔ جب روح جسم میں پہنچی اور چھینک آئی تو کہا آیت (الحمد للہ رب العلمین) اللہ تعالیٰ نے جواب دیا دعا (یرحمک اللہ) پھر صرف ابلیس کے ساتھی فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کے سامنے سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا لیکن ابلیس کا وہ غرور وتکبر ظاہر ہوگیا اس نے نہ مانا اور سجدے سے انکار کردیا اور کہنے لگا میں اس سے بہتر ہوں اس سے بڑی عمر والا ہوں۔ اور اس سے قوی اور مضبوط ہوں۔ یہ مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور میں آگ سے بنا ہوں اور آگ مٹی سے قوی ہے۔ اس کے انکار پر اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت سے ناامید کردیا اور اسی لئے اسے ابلیس کہا جاتا ہے۔ اس کی نافرمانی کی سزا میں اسے راندہ درگاہ شیطان بنادیا پھر حضرت آدم ؑ کو انسان جانور زمین سمندر پہاڑ وغیرہ کے نام بتا کر ان کو ان فرشتوں کے سامنے پیش کیا جو ابلیس کے ساتھی تھے اور آگ سے پیدا شدہ تھے اور ان سے فرمایا کہ اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ میں زمین میں اسے خلیفہ نہ بناؤں تو ذرا مجھے ان چیزوں کے نام تو بتادو۔ جب ان فرشتوں نے دیکھا کہ ہماری اگلی بات سے الہ العالمین ناراض ہے تو وہ کہنے لگے کہ اللہ عزوجل تو اس بات سے پاک ہے کہ تیرے سوا کوئی اور غیب کو جانے ہماری توبہ ہے اور اقرار ہے کہ ہم غیب داں نہیں۔ ہم تو صرف وہی جان سکتے ہیں جس کا علم تو ہمیں دے دے۔ جیسے تو نے ان کے نام صرف حضرت آدم ؑ کو ہی سکھائے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ سے فرمایا کہ تم انہیں ان تمام چیزوں کے نام بتادو چناچہ انہوں نے بتا دئیے تو فرمایا اے فرشتو ! کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ آسمان و زمین کے غیب کا جاننے والا صرف میں اکیلا ہی ہوں اور کوئی نہیں۔ میں ہر پوشیدہ چیز کو بھی ویسا ہی جانتا ہوں جیسے ظاہر کو اور تم سب اس سے بیخبر ہو لیکن یہ قول بھی غریب ہے اور اس میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن میں خامیاں ہیں ہم اگر انہیں الگ الگ بیان کریں تو مضمون بہت بڑھ جائے گا اور ابن عباس تک اس اثر کی سند بھی وہی ہے جس سے ان کی مشہور تفسیر مروی ہے۔ ایک اور حدیث میں بھی اسی طرح مروی ہے جس کے متن میں کچھ کمی زیادتی بھی ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ زمین کی مٹی لینے کے لئے جب حضرت جبرائیل گئے تو زمین نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتی ہوں کہ تو مجھ میں سے کچھ گھٹائے وہ واپس چلے گئے پھر ملک الموت کو بھیجا۔ زمین نے ان سے بھی یہی کہا لیکن انہوں نے جواب دیا کہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اللہ کا حکم پورا کئے بغیر واپس چلا جاؤں چناچہ انہوں نے تمام روئے زمین سے ایک ایک مٹھی مٹی لی۔ چونکہ مٹی کا رنگ کہیں سرخ تھا کہیں سفید کہیں سیاہ اسی وجہ سے انسانوں کی رنگتیں بھی طرح طرح کی ہوئیں لیکن یہ روایت بھی بنو اسرائیل کی روایات سے ماخوذ ہے غالباً اس میں بہت سی باتیں نیچے کے لوگوں کی ملائی گئی ہیں۔ صحابی کا بیان ہی نہیں اگر صحابی کا قول بھی ہو تو بھی انہوں نے بعض اگلی کتابوں سے لیا ہوگا واللہ اعلم۔ تعارف ابلیس حاکم اپنی مستدرک میں بہت سی ایسی روایتیں لائے ہیں اور ان کی سند کو بخاری سے مشروط کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم حضرت آدم کو سجدہ کرو تو اس خطاب میں ابلیس بھی داخل تھا اس لئے کہ گو وہ ان میں سے نہ تھا لیکن ان ہی جیسا اور ان ہی جیسے کام کرنے والا تھا اس لئے اس خطاب میں داخل تھا اور پھر نافرمانی کی سزا بھگتی۔ اس کی تفصیل انشاء اللہ تعالیٰ آیت (کان من الجن) کی تفسیر میں آئے گی۔ ابن عباس کہتے ہیں نافرمانی سے پہلے وہ فرشتوں میں تھا۔ عزازیل اس کا نام تھا زمین پر اس کی رہائش تھی اجتہاد اور علم میں بہت بڑا تھا اور اسی وجہ سے دماغ میں رعونت تھی اور اس کی جماعت کا اور اس کا تعلق جنوں سے تھا۔ اس کے چار پر تھے۔ جنت کا خازن تھا زمین اور آسمان دونوں کا سلطان تھا۔ حضرت حسن فرماتے ہیں۔ ابلیس کبھی فرشتہ نہ تھا اس کی اصل جنات سے ہے جیسے کہ آدم کی اصل انس سے ہے اس کی اسناد صحیح ہے۔ عبدالرحمن بن زید بن اسلم اور شہر بن حوشب کا بھی یہی قول ہے۔ سعد بن مسعود کہتے ہیں کہ فرشتوں نے جنات کو جب مارا تب اسے قید کیا تھا اور آسمان پر لے گئے تھے وہاں کی عبادت کی وجہ سے رہ پڑا۔ ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ پہلے ایک مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا انہیں حضرت آدم کو سجدہ کرنے کو کہا۔ انہوں نے انکار کیا جس پر وہ جلا دئیے گئے پھر دوسری مخلوق پیدا کی ان کا بھی یہی حشر ہوا پھر تیسری مخلوق پیدا کی انہوں نے تعمیل ارشاد کی لیکن یہ اثر بھی غریب ہے اور اس کی اسناد بھی تقریباً غیر صحیح ہے۔ اس میں ایک راوی مبہم ہے اس وجہ سے یہ روایت قابل حجت نہیں کافرین سے مراد نافرمان ہے۔ ابلیس کی ابتداء آفرینش ہی کفر و ضلالت پر تھی کچھ دن ٹھیک ٹھاک رہا لیکن پھر اپنی اصلیت پر آگیا۔ سجدہ کرنے کا حکم بجا لانا اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور آدم ؑ کا اکرام تھا۔ بعض لوگوں کا قول ہے کہ یہ سجدہ سلام اور عزت و اکرام کا تھا جیسے کہ حضرت یوسف ؑ کے بارے میں فرمان ہے۔ کہ انہوں نے اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھا لیا اور سب کے سب سجدہ میں گرپڑے اور حضرت یوسف ؑ نے فرمایا ابا یہی میرے اس خواب کی تعبیر ہے جسے میرے رب نے سچا کر دکھایا۔ اگلی امتوں میں سجدہ تعظیم جائز تھا لیکن ہمارے دین میں یہ منسوخ ہوگیا۔ حضرت معاذ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے شامیوں کو اپنے سرداروں اور علماء کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تھا تو حضور ﷺ سے گزارش کی کہ حضور ﷺ آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ کو سجدہ کیا جائے تو آپ نے فرمایا کہ اگر میں کسی انسان کو کسی انسان کے سامنے سجدہ کرنے کی اجازت دینے والا ہوتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوندوں کو سجدہ کریں کیونکہ ان کا ان پر بہت بڑا حق ہے۔ امام رازی نے اسی کو ترجیح دی ہے بعض کہتے ہیں کہ سجدہ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے تھا۔ حضرت آدم بطور قبلہ (یعنی سمت) کے تھے جیسے قرآن کریم میں ہے آیت (اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ) 17۔ الاسرآء :78) لیکن اس میں بھی اختلاف ہے اور پہلے ہی قول کا زیادہ صحیح ہونا اچھا معلوم ہوتا ہے۔ یہ سجدہ حضرت آدم کے اکرام بڑائی احترام اور سلام کے طور پر تھا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ماتحت تھا کیونکہ اس کا حکم تھا جس کی بجا آوری ضروری تھی۔ امام رازی نے بھی اسی قول کو قوی قرار دیا ہے اور اس کے سوا دوسرے اقوال کو ضعیف قرار دیا ہے ایک تو حضرت آدم ؑ کا بطور قبلہ کے ہونا جس میں کوئی بڑا شرف ظاہر نہیں ہوتا۔ دوسرے سجدے سے مراد پست عاجز ہونا نہ کہ زمین میں ماتھا ٹکا کر حقیقی سجدہ کرنا لیکن یہ دونوں تاویلیں ضعیف ہیں۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں سب سے پہلا گناہ یہی تکبر ہے جو ابلیس سے سرزد ہوا۔ صحیح حدیث میں ہے جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ اسی تکبر کفر وعناد کی وجہ سے ابلیس کے گلے میں طوق لعنت پڑا اور رحمت سے مایوس ہو کر جناب باری سے دھتکارا گیا۔ یہاں " کان صار " کے معنی میں بتلایا گیا ہے جیسے کہ آیت (فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِيْنَ) 11۔ ہود :43) اور آیت (فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ) 7۔ الاعراف :19) شاعروں کے شعروں میں بھی اس کا ثبوت ہے تو معنی یہ ہوئے کہ وہ کافر ہوگیا ابن فورک کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں کافروں میں سے تھا۔ قرطبی اسی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہاں ایک مسئلہ بیان فرماتے ہیں کہ کسی شخص کے ہاتھ سے کچھ کرامتیں سرزد ہوجانا اس کے ولی اللہ ہونے کی دلیل نہیں گو بعض صوفی اور رافضی اس کے خلاف بھی کہتے ہیں کہ اس لئے کہ ہم اس بات کا کسی کے لئے فیصلہ نہیں کرسکتے کہ وہ ایمان ہی کی حالت میں اللہ سے جا ملے گا اسی شیطان کو دیکھئے ولی ہی نہیں بلکہ فرشتہ بنا ہوا تھا لیکن آخر سردار کفر و کفار ہوگیا۔ علاوہ ازیں ایسی خلاف عادت و عقل باتیں جو بظاہر کرامات نظر آتی ہیں اولیاء اللہ کے سوا اور لوگوں کے ہاتھوں سے بھی سرزد ہوتی ہیں بلکہ فاسق فاجر مشرک کافر سے بھی ظاہر ہوجاتی ہیں۔ مثلاً رسول اللہ ﷺ نے آیت (فَارْتَـقِبْ يَوْمَ تَاْتِي السَّمَاۗءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ) 44۔ الدخان :10) کی آیت دل میں سوچ کر جب ابن صیاد کافر سے پوچھا کہ میں نے کیا سوچا ہے تو اس نے کہا تھا دخ۔ بعض روایات میں ہے کہ غصہ کے وقت وہ اتنا پھول جاتا کہ اس کے جسم سے تمام راستہ رک جاتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمرنے اسے مارا۔ دجال کی تو ایسی بہت سی باتیں احادیث میں وارد ہیں مثلاً اس کا آسمان سے بارش برسانا زمین سے پیداوار اگانا زمین کے خزانوں کا اس کے پیچھے لگنا ایک نوجوان کو قتل کر کے پھر جلانا وغیرہ وغیرہ۔ حضرت لیث بن سعد اور حضرت امام شافعی ؒ فرماتے ہیں اگر تم کسی کو پانی پر چلتے ہوئے اور ہواؤں میں اڑتے ہوئے دیکھو تو اسے ولی نہ سمجھ بیٹھو جب تک کہ اس کے تمام اعمال و افعال قرآن و حدیث کے مطابق نہ پاؤ۔ اس سجدے کا حکم زمین و آسمان کے تمام فرشتوں کو تھا گو ایک جماعت کا قول یہ بھی ہے کہ صرف زمین کے فرشتوں کو یہ حکم تھا لیکن یہ ٹھیک نہیں قرآن کریم میں ہے آیت (فَسَجَدَ الْمَلٰۗىِٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَ 30؀ۙ اِلَّآ اِبْلِيْسَ) 15۔ الحجر :3130) یعنی ابلیس کے سوا تمام فرشتوں نے سجدہ کیا پس اول تو جمع کا صیغہ لانا پھر " کلھم " سے تاکید کرنا پھر " اجمعون " کہنا اس کے بعد صرف ابلیس کا استثناء کرنا ان چاروں وجوہات سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حکم عام تھا واللہ اعلم۔

آیت 34 - سورۃ البقرہ: (وإذ قلنا للملائكة اسجدوا لآدم فسجدوا إلا إبليس أبى واستكبر وكان من الكافرين...) - اردو