سورۃ البقرہ: آیت 32 - قالوا سبحانك لا علم لنا... - اردو

آیت 32 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

قَالُوا۟ سُبْحَٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَآ إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَآ ۖ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْعَلِيمُ ٱلْحَكِيمُ

اردو ترجمہ

انہوں نے عرض کیا: "نقص سے پاک تو آپ ہی کی ذات ہے، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qaloo subhanaka la AAilma lana illa ma AAallamtana innaka anta alAAaleemu alhakeemu

آیت 32 کی تفسیر

آیت 32 قَالُوْا سُبْحٰنَکَ آپ ہر نقص سے ‘ ہر عیب سے ‘ ہر ضعف سے ‘ ہر احتیاج سے مبرا اور منزہ ہیں ‘ اعلیٰ اور ارفع ہیں۔ ّ لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ط اس کی یہی تعبیر بہتر معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس کائناتی حکومت میں ملائکہ کی حیثیت درحقیقت اس کے کارندوں یا civil servants کی ہے۔ چناچہ ہر ایک کو صرف اس کے شعبے کے مطابق علم دیا گیا ہے ‘ ان کا علم جامع نہیں ہے اور ان کے پاس تمام چیزوں کا مجموعی علم حاصل کرنے کی استعداد نہیں ہے۔ مثلاً کوئی فرشتہ بارش کے انتظام پر ماموؤ ہے ‘ کوئی پہاڑوں پر مامور ہے ‘ جس کا ذکر سیرت میں آتا ہے کہ جب طائف میں رسول اللہ ﷺ پر پتھراؤ ہوا تو اس کے بعد ایک فرشتہ حاضر ہوا کہ میں ملک الجبال ہوں ‘ اللہ نے مجھے پہاڑوں پر مامور کیا ہوا ہے ‘ اگر آپ ﷺ فرمائیں تو میں ان دو پہاڑوں کو آپس میں ٹکرا دوں جن کے درمیان طائف کی یہ وادی واقع ہے اور اس طرح اہل طائف پس کر سرمہ بن جائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں ‘ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ ان کی آئندہ نسلوں کو ہدایت دے دے۔ تو فرشتے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف خدمات پر مامور ہیں اور ان کو جو علم دیا گیا ہے وہ صرف ان کے اپنے فرائضِ منصبی اور ان کے اپنے اپنے شعبے سے متعلق دیا گیا ہے ‘ جبکہ حضرت آدم علیہ السلام کو علم کی جامعیتّ بالقوۃ potentially دے دی گئی ‘ جو بڑھتے بڑھتے اب ایک بہت تناور درخت بن چکا ہے۔ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ آپ ہی کی ذات ہے جو کلُ کے کل علم کی مالک ہے اور جس کی حکمت بھی کامل ہے۔ باقی تو مخلوق میں سے ہر ایک کا علم ناقص ہے۔

آیت 32 - سورۃ البقرہ: (قالوا سبحانك لا علم لنا إلا ما علمتنا ۖ إنك أنت العليم الحكيم...) - اردو