سورۃ البقرہ: آیت 31 - وعلم آدم الأسماء كلها ثم... - اردو

آیت 31 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

وَعَلَّمَ ءَادَمَ ٱلْأَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى ٱلْمَلَٰٓئِكَةِ فَقَالَ أَنۢبِـُٔونِى بِأَسْمَآءِ هَٰٓؤُلَآءِ إِن كُنتُمْ صَٰدِقِينَ

اردو ترجمہ

اس کے بعد اللہ نے آدمؑ کو ساری چیزوں کے نام سکھائے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا "اگر تمہارا خیال صحیح ہے (کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا) تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاؤ"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

WaAAallama adama alasmaa kullaha thumma AAaradahum AAala almalaikati faqala anbioonee biasmai haolai in kuntum sadiqeena

آیت 31 کی تفسیر

دیکھئے ! اب ہم چشم بصیرت سے نہایت بلند روشنیوں میں عالم بالا کے کسی مقام پر فرشتوں کی ایک جمعیت کا مشاہدہ کررہے ہیں اس تقریب میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ انسانیت کا منصب خلافت سپرد کیا جارہا ہے اور یوں ہیں اس عظیم راز سے آگاہ کردیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی اس انسانی مخلوق کی ذات میں ودیعت فرمایا ہے۔ وہ راز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مفاہیم کے اظہار کے لئے ان کے نام رکھنے کی صلاحیت دی اور اس طرح انسان ان ناموں کے ذریعہ اظہار مافی الضمیر کرتے ہیں ۔ ناموں کی حقیقت کیا ہے ؟ صرف یہ کہ وہ مختلف قسم کی آوازیں ہیں جو اپنے منہ سے نکالتا ہے اور جو ان محسوسات اور اشخاص پر دلالت کرتی ہیں جنہیں انسان دیکھتا ہے ۔ اس زمین پر حیات انسانی کو آسان بنانے کے لئے یہ ایک اہم صلاحیت ہے جو اللہ نے انسان کو دی ہے ۔ اس کی افادیت کا صحیح تصور اس وقت ہی ہوسکتا ہے جب ہم تھوڑی دیر کے لئے یہ فرض کرلیں کہ انسان .... کے اندر اشیاء کے نام رکھنے اور استعمال کرنے کی قدرت نہیں ہے ۔ اب دیکھئے ایک دوسرے کو سمجھنے میں اور باہم معاملات طے کرنے میں کیا مشکلات ہیں ؟ جن سے اچانک یہ دوچار ہوگئے ۔ اگر کوئی کسی کے ساتھ کسی چیز کے بارے میں کوئی معاملہ کرنا چاہتا ہے تو خود اس چیز کا حاضر کرنا ضروری ہوجاتا ہے تاکہ وہ اس کے بارے میں کوئی مفاہمت کرسکیں ۔ اگر کسی درخت کا معاملہ درپیش ہے تو ضروری ہے کہ درخت سامنے ہو۔ اگر کسی پہاڑ اور قطعہ زمین کے بارے میں جو کچھ طے کرنا ہے تو ضروری ہے کہ سب لوگ وہاں جائیں ۔ اگر کسی فرد بشرکا معاملہ ہے تو ضروری ہے کہ اسے سامنے لایاجائے ۔ ذرا سوچئے مشکلات کا ایک طوفان برپا ہوگیا ہے اور جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ غرض اگر اللہ تعالیٰ حضرت انسان کو یہ راز نہ بتاتے کہ ہر معنی ومفہوم کا اظہار ان ناموں کے ذریعے ہوسکتا ہے تو ہماری زندگی دوقدم بھی آگے نہ بڑھ سکتی۔

رہے فرشتے تو انہیں اس قابلیت کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ ان کے کام اور ان کی ڈیوٹی کی جو نوعیت تھی اس کے لئے اس کی ضرورت ہی نہ تھی کہ وہ ہر چیز کے نام کو جانیں ۔ اس لئے اللہ نے اس وقت فرشتوں کو یہ رازنہ بتایا تھا۔ جب اللہ نے آدم کو یہ راز بتایا اور فرشتوں کے سامنے جب یہ چیزیں پیش کی گئیں تو وہ ان کے نام نہ بتاسکے ۔ وہ یہ نہ جانتے تھے کہہ مختلف چیزوں اور اشخاص کا نام رکھ کر الفاظ کے ذریعے انہیں بسہولت سمجھا جاسکتا ہے ۔ چناچہ انہوں نے اپنی اس ناکامی کو دیکھ کر اللہ کی حمد وثنابیان کی اور اپنے عجز ودرماندگی کا اقرار کیا اور کہہ دیا ان کا علم تو صرف انہی چیزوں تک محدود ہے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دی ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کا تعارف کرایا اور آخر میں نتیجہ بحث کے طور پر یوں انہیں اللہ تعالیٰ کی حکمت اور وسعت علم کی راہنمائی کی ۔” میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ آسمانوں اور زمینوں کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں ۔ جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اسے بھی میں جانتا ہوں۔ “

دیکھئے ! اب چشم بصیرت سے نہایت بلند روشنیوں میں عالم بالا کے کسی مقام پر فرشتوں کی کسی جمعیت کا مشاہدہ کررہے ہیں اس تقریب میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ انسانیت کو منصب خلافت سپرد کیا جارہا ہے اور یوں ہمیں اس عظیم راز سے آگاہ کردیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی اس انسانی مخلوق کی ذات میں ودیعت فرمایا ہے۔ وہ راز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مفاہیم کے اظہار کے لئے ان کے نام رکھنے کی صلاحیت دی ہے اور اس طرح انسان ان ناموں کے ذریعہ اظہار مافی الضمیر کرتے ہیں۔ ناموں کی حقیقت کیا ہے ؟ صرف یہ کہ وہ مختلف قسم کی آوازیں ہیں جو انسان اپنے منہ سے نکالتا ہے اور جو ان محسوسات اور اشخاص پر دلالت کرتی ہیں جنہیں انسان دیکھتا ہے ۔ اس زمین پر حیات انسانی کو آسان بنانے کے لئے یہ ایک اہم صلاحیت ہے جو اللہ نے انسان کو دی ہے ۔ اس کی افادیت کا صحیح تصور اس وقت ہی ہوسکتا ہے جب ہم تھوڑی دیر کے لئے یہ فرض کرلیں کہ انسان۔۔۔۔۔ کہ اندر اشیاء کے نام رکھنے اور استعمال کرنے کی قدرت نہیں ہے۔ ایک دیکھئے ایک دوسرے کو سمجھنے میں اور باہم معاملات طے کرنے میں کرنے میں کیا مشکلات ہیں ؟ جن سے اچانک یہ دوچار ہوگئے۔ اگر کسی کے ساتھ کسی چیز کے بارے میں کوئی معاملہ کرنا چاہتا ہے تو خود اس چیز کا حاضر کرنا ضروری ہوجاتا ہے تاکہ وہ اس کے بارے میں کوئی مفاہمت کرسکیں ۔ اگر کسی درخت کا معاملہ درپیش ہے تو ضروری ہے درخت سامنے ہو ۔ اگر کسی پہاڑ اور قطعہ زمین کے بارے میں کچھ طے کرنا ہے تو ضروری ہے کہ سب لوگ وہاں جائیں ۔ اگر کسی فرد بشر کا معاملہ ہے تو ضروری ہے کہ اسے سامنے لایاجائے ۔ ذرا سوچئے مشکلات کا ایک طوفان برپا ہوگیا ہے اور جینا دوبھر ہوگیا ہے ۔ غرض اگر اللہ تعالیٰ حضرت انسان کو یہ راز نہ بتاتے کہ ہر معنی ومفہوم کا اظہار ناموں کے ذریعے ہوسکتا ہے تو ہماری زندگی دوقدم بھی آگے نہ بڑھ سکتی ۔

رہے فرشتے تو انہیں اس قابلیت کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ ان کے کام اور ان کی ڈیوٹی کی جو نوعیت تھی اس کے لئے اس کی ضرورت ہی نہ تھی کہ وہ ہر چیز کے نام کو جانیں ۔ اس لئے اللہ نے اس وقت فرشتوں کو یہ راز نہ بتایا تھا ۔ جب اللہ نے آدم کو یہ راز بتایا اور فرشتوں کے سامنے جب چیزیں پیش کی گئیں تو وہ ان کے نام نہ بتاسکے ۔ وہ یہ نہ جانتے تھے کہ مختلف چیزوں اور اشخاص کا نام رکھ کر الفاظ کے ذریعے انہیں بہ سہولت سمجھایا جاسکتا ہے ۔ چناچہ انہوں نے اپنی اس ناکامی کو دیکھ کر اللہ کی حمد وثناء بیان کی اور اپنے عجز اور درماندگی کا اقرار کیا اور کہہ دیا ان کا علم تو صرف انہی چیزوں تک محدود ہے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دی ہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) تعارف کرایا اور آخر میں نتیجہ بحث کے طور پر اور آخر میں نتیجہ بحث کے طور پر یوں انہیں اللہ تعالیٰ کی حکمت اور وسعت علم کی طرف راہنمائی کی ۔” میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں ۔ جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اسے میں جانتا ہوں۔ “

آیت 31 وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّھَا مفسرّین کا تقریباً اجماع ہے کہ اس سے مراد تمام اشیاء کے نام ہیں اور تمام اشیاء کے ناموں سے مراد ان کی حقیقت کا علم ہے۔ آپ انسانی علم Human Knowledge کا تجزیہ کریں تو وہ یہی ہے کہ انسان ایک چیز کو پہچانتا ہے ‘ پھر اس کا ایک نام رکھتا ہے یا اس کے لیے کوئی اصطلاح term قائم کرتا ہے۔ وہ اس نام اور اس اصطلاح کے حوالے سے اس چیز کے بارے میں بہت سے حقائق کو اپنے ذہن میں محفوظ کرتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام نام سکھا دیے۔ گویا کل مادّی کائنات کے اندر جو کچھ وجود میں آنے والا تھا ‘ ان سب کی حقیقت سے حضرت آدم علیہ السلام کو امکانی طور پر potentially آگاہ کردیا۔ یہ انسان کا اکتسابی علم Acquired Knowledge ہے جو اسے سمع و بصر اور عقل و دماغ سے حاصل ہوتا ہے۔ انسان کو حاصل ہونے والے علم کے دو حصے ہیں۔ ایک الہامی علم Revealed Knowledge ہے جو اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے بھیجتا ہے ‘ جبکہ ایک علم بالحواس یا اکتسابی علم Acquired Knowledge ہے جو انسان خود حاصل کرتا ہے۔ اس نے آنکھوں سے دیکھا ‘ کانوں سے سنا ‘ نتیجہ نکالا اور دماغ کے کمپیوٹر نے اس کو پراسیس کر کے اس نتیجے کو کہیں حافظے memory کے اندر محفوظ کرلیا۔ پھر کچھ اور دیکھا ‘ کچھ اور سنا ‘ کچھ چھو کر ‘ کچھ چکھ کر ‘ کچھ سونگھ کر معلوم ہوا اور کچھ اور نتیجہ نکلا تو اسے سابقہ یادداشت کے ساتھ tally کر کے نتیجہ نکالا۔ ازروئے الفاظ قرآنی : اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلاً بنی اسرائیل انسان کو یہ اکتسابی علم Acquired Knowledge تین چیزوں سے حاصل ہورہا ہے : سماعت ‘ بصارت اور عقل۔ عقل اس تمام sense data کو جو اسے مہیا ہوتا ہے ‘ حواس sense organs کے ذریعے سے پراسیس کرتی ہے اور فائدہ اخذ کرتی ہے۔ یہ علم ہے جو بالقوۃ potentially حضرت آدم علیہ السلام کو دے دیا گیا۔ اب اس کی exfoliation ہو رہی ہے اور درجہ بدرجہ وہ علم پھیل رہا ہے ‘ بڑھ رہا ہے۔ بڑھتے بڑھتے یہ کہاں تک پہنچے گا ‘ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ انسان کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے ! اس نصف صدی میں علم انسانی میں جو explosion ہوا ہے میں اور آپ اس کا تصور تک نہیں کرسکتے۔ اکثر بڑے بڑے سائنس دانوں کو بھی اس کا ادراک و شعور نہیں ہے کہ انسانی علم نے کتنی بڑی زقند لگائی ہے۔ اس لیے کہ ایک شخص اپنی لائن کے بارے میں تو جانتا ہے کہ اس میں کیا کچھ ہوگیا۔ مثلاً ایک سائنس دان صرف فزکس یا اس کی بھی کسی شاخ کے بارے میں جانتا ہے ‘ باقی دوسری شاخوں کے بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں۔ یہ دور سپیشلائزیشن کا دور ہے ‘ لہٰذا علم کے میدان میں جو بڑا دھماکہ explosion ہوا ہے اس کا ہمیں کوئی اندازہ نہیں ہے۔ ایک چیز جو آج ایجاد ہوتی ہے چند دنوں کے اندر اندر اس کا نیا version آجاتا ہے اور یہ چیز متروک outdated ہوجاتی ہے۔ ابلاغ اور مواصلات communications کے اندر انقلاب عظیم برپا ہوا ہے۔ آپ یہ سمجھئے کہ اقبال نے جو یہ شعر کبھی کہا تھا ‘ اس کی تعبیر قریب سے قریب تر آرہی ہے ؂ َ عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے !اور یہ ”مہ کامل“ اس وقت بنے گا جب دجّال کی شکل اختیار کرے گا۔ دجّال وہ شخص ہوگا جو ان تمام قواعد طبیعیہ Physical Laws کے اوپر قابو پالے گا۔ جب چاہے گا ‘ جہاں چاہے گا بارش برسائے گا۔ وہ رزق کے تمام خزانے اپنے ہاتھ میں لے لے گا اور اعلان کر دے گا کہ جو اس پر ایمان لائے گا اسی کو رزق ملے گا ‘ کسی اور کو نہیں ملے گا۔ اس کی آواز پوری دنیا میں سنائی دے گی۔ وہ چند دنوں کے اندر پوری دنیا کا چکر لگا لے گا۔ یہ ساری باتیں حدیث میں دجال کے بارے میں آئی ہیں۔ وہ آدم کے اس اکتسابی علم Acquired Knowledge کی اس حد کو پہنچ جائے گا کہ فطرت کے تمام اسرار mysteries اس پر منکشف ہوجائیں اور اسے قواعد طبیعیہ پر تصرفّ حاصل ہوجائے ‘ وہ انہیں harness کرلے ‘ قابو میں لے آئے اور انہیں استعمال کرے۔ انسان نے جو سب سے پہلا ذریعہ توانائی source of energy دریافت کیا وہ آگ تھا۔ آج سے ہزاروں سال پہلے ہمارے کسی جدّ امجد نے دیکھا کہ کوئی چٹان اوپر سے گری ‘ پتھر سے پتھر ٹکرایا تو اس میں سے آگ کا شعلہ نکلا۔ اس کا یہ مشاہدہ آگ پیدا کرنے کے لیے کافی ہوگیا کہ پتھروں کو آپس میں ٹکراؤ اور آگ پیدا کرلو۔ چناچہ آگ اس دور کی سب سے بڑی ایجاد اور اوّلین ذریعۂ توانائی تھی۔ اب وہ توانائی energy کہاں سے کہاں پہنچی ! پہلے اس آگ نے بھاپ کی شکل اختیار کی ‘ پھر ہم نے بجلی ایجاد کی اور اب ایٹمی توانائی Atomic Energy حاصل کرلی ہے اور ابھی نمعلوم اور کیا کیا حاصل ہونا ہے۔ واللہ اعلم ! ان تمام چیزوں کا تعلق خلافت ارضی کے ساتھ ہے۔ لہٰذا فرشتوں کو بتایا گیا کہ آدم کو صرف اختیار ہی نہیں ‘ علم بھی دیا جا رہا ہے۔ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَی الْمَلآءِکَۃِ لا فَقَالَ اَنْبِءُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ ھٰوؤلَآءِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ اگر تمہارا یہ خیال صحیح ہے کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے زمین کا انتظام بگڑ جائے گا۔

آدم ؑ کی وجہ فضیلت یہاں سے اس بات کا بیان ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص علم میں حضرت آدم ؑ کو فرشتوں پر بھی فضیلت دی۔ یہ واقعہ فرشتوں کے سجدہ کرنے کے بعد کا ہے لیکن اللہ کی جو حکمت آپ کے پیدا کرنے میں تھی اور جس کا علم فرشتوں کو نہ تھا اور اس کا اجمالی بیان اوپر کی آیت میں گزرا ہے اس کی مناسبت کی وجہ سے اس واقعہ کو پہلے بیان کیا اور فرشتوں کا سجدہ کرنا جو اس سے پہلے واقعہ ہوا تھا بعد میں بیان کردیا تاکہ خلیفہ کے پیدا کرنے کی مصلحت اور حکمت ظاہر ہوجائے اور یہ معلوم ہوجائے کہ یہ شرافت اور فضیلت حضرت آدم کو اس لئے ملی کہ انہیں وہ علم حاصل ہے جس سے فرشتے خالی ہیں، فرمایا کہ حضرت آدم ؑ کو تمام نام بتائے یعنی ان کی تمام اولاد کے علاوہ سب جانوروں، زمین، آسمان، پہاڑ، تری، خشکی، گھوڑے، گدھے، برتن، چرند، فرشتے، تارے وغیرہ تمام چھوٹی بڑی چیزوں کے نام بتائے گئے۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں کہ فرشتوں اور انسانوں کے نام معلوم کرائے گئے تھے کیونکہ اس کے بعد عرضھم آتا ہے اور یہ ذی عقل لوگوں کے لئے آتا ہے۔ لیکن یہ کوئی ایسی معقول وجہ نہیں جہاں ذی عقل اور غیر ذی عقل جمع ہوتے ہیں وہاں جو لفظ لایا جاتا ہے وہ عقل و ہوش رکھنے والوں کے لئے ہی لایا جاتا ہے جیسے قرآن میں ہے آیت (وَاللّٰهُ خَلَقَ كُلَّ دَاۗبَّةٍ مِّنْ مَّاۗءٍ) 24۔ النور :45) اللہ تعالیٰ نے تمام جانوروں کو پانی سے پیدا کیا جن میں سے بعض تو پیٹ کے بل گھسٹتے ہیں بعض دو پیروں پر چلتے ہیں بعض چارپاؤں پر چلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے پس اس آیت سے ظاہر ہے کہ غیر ذی عقل بھی داخل ہیں مگر صیغے سب ذی عقل کے ہیں۔ علاوہ ازیں عرضھن بھی حضرت عبداللہ بن مسعود کی قرأت میں ہے اور حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں عرضھا بھی ہے۔ صحیح قول یہی ہے کہ تمام چیزوں کے نام سکھائے تھے ذاتی نام بھی صفاتی نام بھی اور کاموں کے نام بھی، جیسے کہ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ گوز کا نام تک بھی بتایا گیا تھا۔ صحیح بخاری کتاب التفسیر میں اس آیت کی تفسیر میں حضرت امام بخاری ؒ یہ حدیث لائے ہیں۔ مسئلہ شفاعت ٭٭ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ ایمان دار قیامت کے دن جمع ہوں گے اور کہیں گے کیا اچھا ہوگا اگر کسی کو ہم اپنا سفارشی بنا کر اللہ کے پاس بھیجیں چناچہ یہ سب کے سب حضرت آدم ؑ کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ آپ ہم سب کے باپ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اپنے فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے سامنے ہماری سفارش لے جائیں۔ جو ہم اس سے راحت پائیں۔ حضرت آدم ؑ یہ سن کر جواب دیں گے کہ میں اس قابل نہیں۔ انہیں اپنا گناہ یاد آجائے گا۔ تم نوح ؑ کے پاس آئیں گے آپ بھی یہی جواب دیں گے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف اپنے بیٹے کے لئے اپنا دعا مانگنا یاد کر کے شرما جائیں گے اور فرمائیں گے تم خلیل الرحمن حضرت ابراہیم ؑ کے پاس جاؤ۔ یہ سب آپ کے پاس آئیں گے لیکن یہاں سے بھی یہی جواب پائیں گے۔ آپ فرمائیں گے تم موسیٰ ؑ کے پاس جاؤ جن سے اللہ نے کلام کیا اور جنہیں تورات عنایت فرمائی۔ یہ سن کر سب کے سب حضرت موسیٰ کے پاس آئیں گے اور آپ سے بھی یہی درخواست کریں گے لیکن یہاں سے بھی جواب پائیں گے آپ کو بھی ایک شخص کو بغیر قصاص کے مار ڈالنا یاد آجائے گا اور شرمندہ ہوجائیں گے اور فرمائیں گے تم حضرت عیسیٰ ؑ کے پاس جاؤ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول اور کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں۔ یہ سب ان کے پاس بھی جائیں گے لیکن یہاں سے بھی یہی جواب ملے گا کہ میں اس لائق نہیں تم محمد رسول اللہ ﷺ کے پاس جاؤ جن کے تمام اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے گئے ہیں۔ اب وہ سارے کے سارے میرے پاس آئیں گے میں آمادہ ہوجاؤں گا اور اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا۔ مجھے اجازت دے دی جائے گی میں اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدے میں گر پڑوں گا جب تک اللہ کو منظور ہوگا سجدے میں ہی پڑا رہوں گا پھر آواز آئے گی کہ سر اٹھائیے سوال کیجئے پورا کیا جائے گا، کہئے سنا جائے گا، شفاعت کیجئے قبول کی جائے گی۔ اب میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور اللہ تعالیٰ کی وہ تعریفیں بیان کروں گا جو اسی وقت اللہ تعالیٰ مجھے سکھائے گا پھر میں شفاعت کروں گا۔ میرے لئے حد مقرر کردی جائے گی میں انہیں جنت میں پہنچا کر پھر آؤں گا۔ پھر اپنے رب کو دیکھ کر اسی طرح سجدہ میں گر پڑوں گا۔ پھر شفاعت کروں گا پھر حد مقرر ہوگی انہیں بھی جنت میں پہنچا کر تیسری مرتبہ آؤں گا پھر چوتھی بار ضرور ہوں گا یہاں تک کہ جہنم میں صرف وہی رہ جائیں گے جنہیں قرآن نے روک رکھا ہو اور جن کے لئے جہنم کی مداومت واجب ہوگئی ہو (یعنی شرک و کفر کرنے والے) صحیح مسلم شریف میں نسائی میں ابن ماجہ وغیرہ میں یہ حدیث شفاعت موجود ہے۔ یہاں اس کے وارد کرنے سے مقصود یہ ہے کہ اس حدیث میں یہ جملہ بھی ہے کہ لوگ حضرت آدم ؑ سے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام چیزوں کے نام سکھائے۔ پھر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور ان سے فرمایا کہ لو اگر تم اپنے قول میں سچے ہو کہ تم ساری مخلوق سے زیادہ علم والے ہو یا اپنی اس بات میں سچے ہو کہ اللہ تعالیٰ زمین میں خلیفہ نہ بنائے گا تو ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ یہ بھی مروی ہے کہ اگر تم اپنی اس بات میں کہ " بنی آدم فساد کریں گے اور خون بہائیں گے " سچے ہو تو ان کے نام بتاؤ۔ لیکن قول پہلا ہی ہے۔ گویا اس میں انہیں ڈانٹا گیا کہ بتاؤ تمہارا قول کہ تم ہی زمین کی خلافت کے لائق ہو اور انسان نہیں۔ تم ہی میرے تسبیح خواں اور اطاعت گزار ہو اور انسان نہیں۔ اگر تم صحیح ہو تو لو یہ چیزیں جو تمہارے سامنے موجود ہیں۔ انہی کے نام بتاؤ۔ اور اگر تم نہیں بتاسکتے تو سمجھ لو کہ جب موجودہ چیزوں کے نام بھی تمہیں معلوم نہیں تو آئندہ آنے والی چیزوں کی نسبت تمہیں علم کیسے ہوگا ؟ فرشتوں نے یہ سنتے ہی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور بڑائی اور اپنے علم کی کمی بیان کرنا شروع کردی اور کہہ دیا کہ جسے جتنا کچھ اے اللہ تو نے سکھا دیا اتنا ہی علم اسے حاصل ہے تمام چیزوں پر احاطہ رکھنے والا علم تو صرف تجھی کو ہے تو ہر چیز کا جاننے والا ہے اپنے تمام احکام میں حکمت رکھنے والا ہے جسے جو سکھائے وہ بھی حکمت سے اور جسے نہ سکھائے وہ بھی حکمت سے تو حکمتوں والا اور عدل والا ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں سبحان اللہ کے معنی اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی کے ہیں کہ وہ ہر برائی سے منزہ ہے۔ حضرت عمر ؓ نے حضرت علی اور اپنے پاس کے دوسرے اصحاب سے ایک مرتبہ سوال کیا کہ آیت (لا الہ الا اللہ) تو ہم جانتے ہیں لیکن دعا (سبحان اللہ) کیا کلمہ ہے ؟ تو حضرت علی نے جواب دیا کہ اس کلمہ کو باری تعالیٰ نے اپنے نفس کے لئے پسند فرمایا ہے اور اس سے وہ خوش ہوتا ہے اور اس کا کہنا اسے محبوب ہے۔ حضرت میمون بن مہران فرماتے ہیں کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم ہے اور تمام برائیوں سے پاکیزگی کا بیان ہے۔ حضرت آدم نے نام بتا دئے کہ تمہارا نام جبرائیل ہے تمہارا نام میکائیل ہے، تم اسرافیل ہو یہاں تک کہ چیل کوے وغیرہ سب کے نام بھی جب ان سے پوچھے گئے تو انہوں نے بتا دئے۔ جب حضرت آدم ؑ کی یہ فضیلت فرشتوں کو معلوم ہوئی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا دیکھو میں نے تم سے پہلے نہ کہا تھا کہ میں ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہوں جیسے اور جگہ ہے آیت (وَاِنْ تَجْــهَرْ بالْقَوْلِ فَاِنَّهٗ يَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰي) 20۔ طہ :7) تم بلند آواز سے کہو (یا نہ کہو) اللہ تو پوشیدہ سے پوشیدہ حیز کو جانتا ہے اور ارشاد فرمایا آیت (الا یسجدوا) الخ کیوں یہ لوگ اس اللہ تعالیٰ کو سجدہ نہیں کرتے جو آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کو نکالتا ہے اور جو تمہارے ہر باطن اور ظاہر کو جانتا ہے اللہ تعالیٰ اکیلا ہی معبود ہے اور وہی عرش عظیم کا رب ہے۔ جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے تھے اسے بھی میں جانتا ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ ابلیس کے دل میں جر تکبر اور غرور تھا اسے میں جانتا تھا۔ فرشتوں کا یہ کہنا کہ زمین میں ایسی شخصیت کو کیوں پیدا کرتا ہے جو فساد کرے اور خون بہائے یہ تو وہ قول تھا جسے انہوں نے ظاہر کیا تھا اور جو چھپایا تھا وہ ابلیس کے دل میں غرور اور تکبر تھا۔ ابن عباس ابن مسعود اور بعض صحابہ اور سعید بن جبیر اور مجاہد اور سدی اور ضحاک اور ثوری کا یہی قول ہے۔ ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں اور ابو العالیہ ربیع بن انس حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ ان کی باطن بات ان کا یہ کہنا تھا کہ جس مخلوق کو اللہ تعالیٰ پیدا کرے گا ہم اس سے زیادہ عالم اور زیادہ بزرگ ہوں گے لیکن بعد میں ثابت ہوگیا اور خود انہوں نے بھی جان لیا کہ آدم ؑ کو علم اور فضیلت دونوں میں ان پر فوقیت حاصل ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن زید بن اسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا جس طرح تم ان چیزوں کے ناموں سے بیخبر ہو اسی طرح تم یہ بھی نہیں جان سکتے کہ ان میں بھلے برے ہر طرح کے ہوں گے۔ فرمانبردار بھی ہوں گے اور نافرمان بھی۔ اور میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ مجھے جنت دوزخ دونوں کو بھرنا ہے لیکن تمہیں میں نے اس کی خبر نہیں دی۔ اب جب کہ فرشتوں نے حضرت آدم کو دیا ہوا علم دیکھا تو ان کی بندگی کا اقرار کرلیا۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں سب سے اولیٰ قول حضرت ابن عباس کا ہے کہ آسمان و زمین کے غیب کا علم تمہارے ظاہر و باطن کا علم مجھے ہے ان کے ظاہری قول کو اور ابلیس کے باطنی عجب و غرور کو بھی جانتا تھا۔ اس میں چھپانے والا صرف ایک ابلیس ہی تھا لیکن صیغہ جمع کا لایا گیا ہے اس لئے کہ عرب میں یہ دستور ہے اور ان کے کلام میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ ایک کے یا بعض کے ایک کام کو سب کی طرف نسبت کردیا کرتے وہ کہتے ہیں کہ لشکر مار ڈالا گیا یا انہیں شکست ہوئی حالانکہ شکست اور قتل ایک کا یا بعض کا ہوتا ہے اور صیغہ جمع کا لاتے ہیں۔ بنو تمیم کے ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کو آپ کے حجرے کے آگے سے پکارا تھا لیکن قرآن میں اس کا بیان ان لفظوں میں ہے کہ آیت (اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَاۗءِ الْحُـجُرٰتِ) 49۔ الحجرات :4) جو لوگ تمہیں اے نبی ﷺ حجروں کے آگے سے پکارتے ہیں تو دیکھئے کہ پکار نے والا ایک تھا اور صیغہ جمع کا لایا گیا۔ اسی طرح آیت (وَاللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ) 2۔ البقرۃ :72) میں بھی اپنے دل میں بدی کو چھپانے والا صرف ایک ابلیس ہی تھا لیکن صیغہ جمع کا لایا گیا۔

آیت 31 - سورۃ البقرہ: (وعلم آدم الأسماء كلها ثم عرضهم على الملائكة فقال أنبئوني بأسماء هؤلاء إن كنتم صادقين...) - اردو