سورۃ البقرہ: آیت 30 - وإذ قال ربك للملائكة إني... - اردو

آیت 30 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَٰٓئِكَةِ إِنِّى جَاعِلٌ فِى ٱلْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوٓا۟ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ ٱلدِّمَآءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّىٓ أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ

اردو ترجمہ

پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ "میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں" انہوں نے عرض کیا: "کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقر ر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں" فرمایا: "میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qala rabbuka lilmalaikati innee jaAAilun fee alardi khaleefatan qaloo atajAAalu feeha man yufsidu feeha wayasfiku alddimaa wanahnu nusabbihu bihamdika wanuqaddisu laka qala innee aAAlamu ma la taAAlamoona

آیت 30 کی تفسیر

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأرْضِ خَلِيفَةً ” پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو ، جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ “ تو معلوم ہوا کہ یہ عالم بالا کی خاص مشیئت ہے کہ اس کائنات میں پیدا کئے جانے والے اس نئے موجود (انسان ) کو اس زمین کے تمام اختیارات دے دیئے جائیں ۔ اسے اس دنیا میں آزاد چھوڑ دیا جائے اور اس کائنات کے مقصد تخلیق اور اسے عدم سے وجود میں لانے کی غرض وغایت کا اظہار اور اس کے بروئے کار لانے کا کام اس انسان کے سپرد کردیا جائے اور اس انسان کو اس زمین کی تحلیل و ترکیب ، اس کی تبدیلی اور ترقی ، اس کے اندر پوشیدہ خزانوں کا کھوج لگانے اور اس خام ذخائر کا پتہ لگانے اور انہیں مسخر کرنے کے کام میں لگادیاجائے۔ یہ سب کام اللہ کے حکم سے ہو اور انسان کی اس عظیم مہم کا ایک حصہ ہو جو اللہ تعالیٰ نے اس انسان کے سپرد کی ۔

نیز استخلاف آدم سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ نے اس جدید مخلوق (انسان) کے اندر ایسی پوشیدہ قوتیں ودیعت کی ہیں اور اسے ایسی استعداددی ہے جس کے ذریعے وہ اس زمین کے اندر پوشیدہ تمام قوتوں ، تمام مفید ذخیروں اور خام مواد کو کام میں لاسکتا ہے ۔ اسے اللہ تعالیٰ نے ایسی اندرونی اور خفیہ طاقتیں دی ہیں جن کے ذریعے وہ اس منشاء خداوندی کو بروئے کار لاسکتا ہے۔

نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کائنات پر حاوی ہونے والے قوانین قدرت اور نوامیس فطرت اور اس انسان اور اس کی قوتوں پر نافذ ہونے والے قوانین شریعت کے درمیان مکمل توافق اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے تاکہ ان دونوں قوانین کے درمیان تصادم اور تضاد نہ ہو اور انسانی طاقت اور قوتیں اس عظیم کائنات کے قوانین قدرت اور نوامیس فطرت سے ٹکرا کر پاش پاش نہ ہوجائے۔

نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک اعزاز ہے جو اس کائنات کے اندر اور اس پورے کرہ ارض پر حضرت انسان کو دیا گیا ۔ یہ وہ شرف ہے جو انسان کے خالق رحیم اور خداوند کریم نے اس کے لئے پسند فرمایا اور کیا ہی بلند ہے یہ مقام ! اور تمام باتیں عالم بالا کے اس جلیل القدر اشارے سے معلوم ہوتی ہیں کہ ” میں زمین پر اپناخلیفہ بنانے والا ہوں۔ “ بالخصوص جبکہ آج ہم چشم سر اور بصیرت دونوں سے عیاں دیکھ رہے ہیں کہ انسان نے اس کائنات میں یہ کام کیا اور اس نے اللہ تعالیٰ کی اس زمین میں یہتکوینی مقصد پورا کیا جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا تھا اور اس وسیع مملکت میں اسے اپنا خلیفہ بنایا گیا تھا۔

قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ” انہوں نے عرض کیا ، کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس کے نظام کو بگاڑ دے اور خونریزیاں کرے گا ؟ آپ کی حمد وثناکے ساتھ ساتھ تسبیح اور آپ کے لئے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں ۔ “ ملائکہ کی اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یا تو اس وقت موجودہ صورتحال سے آنے والی مخلوق کے بارے میں اندازہ کرلیا تھا یا اس سے پہلے زمین میں جو مخلوق بسائی گئی تھی اس کے تجربات کی روشنی میں انہوں نے یہ بات کہی ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے اپنی خداد بصیرت کے ذریعے معلوم کرلیا ہو کہ آنے والی مخلوق کسی ہوگی ؟ نیز یہ بھی ہوسکتا ہے کہ زمین میں انسانی زندگی کے لئے جو ضروری تقاضے تھے اس سے انہوں نے اس مخلوق کی فطرت کا اندازہ لگالیاہو۔ اس لئے وہ جانتے تھے یا کم ازکم انہیں یہ توقع تھی کہ آنے والی یہ نئی مخلوق زمین میں فساد برپاکرے گی اور یہاں خونریزیاں ہوں گی ۔ انہوں نے یہ سوال اس لئے بھی اٹھایا کہ اپنی پاک فطرت اور معصومیت کی وجہ سے وہ خیر مطلق اور ہمہ جہت امن وامان کا ہی تصور کرسکتے تھے ۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اس کائنات کا مقصد وجود اور سبب تخلیق صرف یہ ہے کہ اللہ کی حمد وثنا کے ساتھ اس کی تقدیس کی جائے اور یہ بات ان کی موجودگی سے پوری طرح سرانجام دی جارہی تھی ۔ کیونکہ یہ فرشتے ہر وقت اللہ کی حمد وثناکے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتے رہتے تھے اور کسی وقت بھی اس کی بندگی اور اطاعت سے منہ نہ موڑتے تھے ۔

لیکن اس زمین کی ساخت وپرداخت اور اس کی اندر زندگی کی بوقلمونیوں کے بروئے کار لانے میں جو گہری اور دوررس مصلحت کارفرماتھی وہ ان کی نظر سے اوجھل تھی ۔ مشیت الٰہی یہ تھی کہ اللہ کا یہ خلیفہ جو اگرچہ کبھی کبھار فساد پھیلائے گا ، خونزریزیاں بھی کرے گا ، اس زمین کو مسخر کرے ، اسے ترقی دے ، اس کی ساخت کو بدلے تاکہ اللہ کا منشاپورا ہو اور اس معمولی اور جزوی شر و فساد کے ہوئے وہ عظیم بھلائیاں پروان چڑھیں جو عمومی اور سب کائنات کو شامل ہیں ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی اس وسیع کائنات میں دائمی نشوونما ، مسلسل تہذیب کی ترقی ، تخریب وتعمیر کا دائمی عمل ، پیہم جدوجہد ، نہ رکنے والی جستجو ، مسلسل تغیر وتبدیلی کے ذریعہ یہ عظیم تربھلائی اور بہبود بروئے کارلائی جائے ۔

چناچہ ان کے اس سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عالم الغیب اور علیم وخبیر ہے یہ فیصلہ صادر ہوتا ہے۔ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لا تَعْلَمُونَ ” میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۔ “

آیت 30 وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلآءِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط خلیفہ درحقیقت نائب کو کہتے ہیں۔ عام طور پر لوگوں کو مغالطہ لاحق ہوتا ہے کہ خلیفہ اور جانشین کسی کی موت کے بعد مقرر ہوتا ہے ‘ زندگی میں نہیں ہوتا۔ لیکن اس دنیا میں انسان کی اصل حقیقت کو سمجھنے کے لیے وائسرائے کا تصور ذہن میں رکھیے۔ 1947 ء سے پہلے ہم انگریز کے غلام تھے۔ ہمارا اصل حاکم بادشاہ یا ملکہ انگلستان میں تھا ‘ جبکہ دہلی میں وائسرائے ہوتا تھا۔ وائسرائے کا کام یہ تھا کہ His Majesty یا Her Majesty کی حکومت کا جو بھی حکم موصول ہو اسے بلا چون و چرا بغیر کسی تغیر اور تبدلّ کے نافذ کرے۔ البتہ وائسرائے کو اختیار حاصل تھا کہ اگر کسی معاملے میں انگلستان سے حکم نہ آئے تو وہ یہاں کے حالات کے مطابق اپنی بہترین رائے قائم کرے۔ وہ غور و فکر کرے کہ یہاں کی مصلحتیں کیا ہیں اور جو چیز بھی سلطنت کی مصلحت میں ہو اس کے مطابق فیصلہ کرے۔ بعینہٖ یہی رشتہ کائنات کے اصل حاکم اور زمین پر اس کے خلیفہ کے مابین ہے۔ کائنات کا اصل حاکم اور مالک اللہ تعالیٰ ہے ‘ لیکن اس نے اپنے آپ کو غیب کے پردے میں چھپالیا ہے۔ زمین پر انسان اس کا خلیفہ ہے۔ اب انسان کا کام یہ ہے کہ جو ہدایت اللہ کی طرف سے آرہی ہے اس پر تو بےچون و چرا عمل کرے اور جس معاملے میں کوئی واضح ہدایت نہیں ہے وہاں غور و فکر اور سوچ بچار کرے اور استنباط و اجتہاد سے کام لیتے ہوئے جو بات روح دین سے زیادہ سے زیادہ مطابقت رکھنے والی ہو اسے اختیار کرے۔ یہی درحقیقت رشتۂخلافت ہے جو اللہ اور انسان کے مابین ہے۔ یہ حیثیت تمام انسانوں کو دی گئی ہے اور بالقوۃ potentially ہر انسان اللہ کا خلیفہ ہے ‘ لیکن جو اللہ کا باغی ہوجائے ‘ جو خود حاکمیت کا مدعی ہوجائے تو وہ اس خلافت کے حق سے محروم ہوجاتا ہے۔ اگر کسی بادشاہ کا ولی عہد اپنے باپ کی زندگی ہی میں بغاوت کر دے اور حکومت حاصل کرنا چاہے تو اب وہ واجب القتل ہے۔ اسی طرح جو لوگ بھی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کے منکر ہو کر خود حاکمیت کے مدعی ہوگئے اگرچہ وہ واجب القتل ہیں ‘ لیکن دنیا میں انہیں مہلت دی گئی ہے۔ اس لیے کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ انہیں فوراً ختم نہیں کرتا۔ ازروئے الفاظ قرآنی : وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ الآی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیْنَہُمْ ط الشوریٰ : 14 ”اور اگر ایک بات پہلے سے طے نہ ہوچکی ہوتی ایک وقت معینّ تک تمہارے رب کی طرف سے تو ان کے درمیان فیصلہ چکا دیا جاتا“۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک وقت معینّ تک کے لیے مہلت دی ہے لہٰذا انہیں فوری طور پر ختم نہیں کیا جاتا ‘ لیکن کم از کم اتنی سزا ضرور ملتی ہے کہ اب وہ خلافت کے حق سے محروم کردیے گئے ہیں۔ گویا کہ اب دنیا میں خلافت صرف خلافت المسلمین ہوگی۔ صرف وہ شخص جو اللہ کو اپنا حاکم مطلق مانے ‘ وہی خلافت کا اہل ہے۔ تو یہ چند باتیں خلافت کی اصل حقیقت کے ضمن میں یہیں پر سمجھ لیجیے۔ وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلآءِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط ”اور یاد کرو جب تمہارے رب نے کہا تھا فرشتوں سے کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔“ قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآءَ ج وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ ط قَالَ اِنِّیْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فرشتوں کو انسان کے بارے میں یہ گمان یا یہ خیال کیسے ہوا ؟ اس کے ضمن میں دو آراء ہیں۔ ایک تو یہ کہ انسان کی تخلیق سے پہلے اس زمین پرّ جنات موجود تھے اور انہیں بھی اللہ نے کچھ تھوڑا سا اختیار دیا تھا اور انہوں نے یہاں فساد برپا کر رکھا تھا۔ ان ہی پر قیاس کرتے ہوئے فرشتوں نے سمجھا کہ انسان بھی زمین میں فساد مچائے گا اور خون ریزی کرے گا۔ ایک دوسری اصولی بات یہ کہی گئی ہے کہ جب خلافت کا لفظ استعمال ہوا تو فرشتے سمجھ گئے کہ انسان کو زمین میں کوئی نہ کوئی اختیار بھی ملے گا۔ جناتّ کے بارے میں خلافت کا لفظ کہیں نہیں آیا ‘ یہ صرف انسان کے بارے میں آ رہا ہے۔ اور خلیفہ بالکل بےاختیار نہیں ہوتا۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا جہاں واضح حکم ہے اس کا کام اس کی تنفیذ ہے اور جہاں نہیں ہے وہاں اپنے غور و فکر اور سوچ بچار کی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اسے بہتر سے بہتر رائے قائم کرنا ہوتی ہے۔ ظاہر بات ہے جہاں اختیار ہوگا وہاں اس کے صحیح استعمال کا بھی امکان ہے اور غلط کا بھی۔ پولٹیکل سائنس کا تو یہ مسلمہ اصول axiom ہے : " Authority tends to corrupt and absolute authority corrupts absolutely."چنانچہ اختیار کے اندر بدعنوانی کا رجحان موجود ہے۔ اس بنا پر انہوں نے قیاس کیا کہ انسان کو زمین میں اختیار ملے گا تو یہاں فساد ہوگا ‘ خون ریزی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اپنی حکمتوں سے میں خود واقف ہوں۔ میں انسان کو خلیفہ کیوں بنا رہا ہوں ‘ یہ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔

خلافت آدم کا مفہوم اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو دیکھو کہ اس نے آدم کو پیدا کرنے سے پہلے فرشتوں میں ان کا ذکر کیا جس کا بیان اس آیت میں ہے۔ فرماتا ہے کہ اے نبی تم یاد کرو اور اپنی امت کو یہ خبر پہنچاؤ۔ ابو عبیدہ تو کہتے ہیں کہ لفظ " اذ " یہاں زائد ہے لیکن ابن جریر وغیرہ مفسرین اس کی تردید کرتے ہیں خلیفہ سے مراد یہ ہے کہ ان کے یکے بعد دیگرے بعض کے بعض جانشین ہوں گے اور ایک زمانہ کے بعد دوسری زمانہ میں یونہی صدیوں تک یہ سلسلہ رہے گا۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے۔ آیت (هُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ فِي الْاَرْضِ) 35۔ فاطر :39) دوسری جگہ فرمایا آیت (وَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ) 27۔ النمل :62) یعنی تمہیں اس نے زمین کا خلیفہ بنادیا اور ارشاد ہے کہ ان کے بعد ان کے خلیفہ یعنی جانشین برے لوگ ہوئے۔ ایک شاذ قرأت میں خلیفہ بھی ہے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ خلیفہ سے مراد صرف حضرت آدم ہیں لیکن اس بارے میں تفسیر رازی کے مفسر نے اختلاف کو ذکر کیا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مطلب نہیں۔ اس کی ایک دلیل تو فرشتوں کا یہ قول ہے کہ وہ زمین میں فساد کریں گے اور خون بہائیں گے تو ظاہر ہے کہ انہوں نے اولاد آدم کی نسبت یہ فرمایا تھا نہ کہ خاص حضرت آدم کی نسبت۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا علم فرشتوں کو کیونکر ہوا ؟ یا تو کسی خاص ذریعہ سے انہیں یہ معلوم ہوا یا بشری طبیعت کے اقتضا کو دیکھ کر انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہوگا کیونکہ یہ فرما دیا گیا تھا کہ اس کی پیدائش مٹی سے ہوگی یا لفظ خلیفہ کے مفہوم سے انہوں نے سمجھ لیا ہوگا کہ وہ فیصلے کرنے والا مظالم کی روک تھام کرنے والا اور حرام کاموں اور گناہوں کی باتوں سے روکنے والا ہوگا یا انہوں نے پہلی مخلوق کو دیکھا تھا اسی بنا پر اسے بھی قیاس کیا ہوگا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ فرشتوں کی یہ عرض بطور اعتراض نہ تھی نہ بنی آدم سے حسد کے طور پر تھی۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے وہ قطعی غلطی کر رہے ہیں۔ فرشتوں کی شان میں قرآن فرماتا ہے آیت (لَا يَسْبِقُوْنَهٗ بالْقَوْلِ وَهُمْ بِاَمْرِهٖ يَعْمَلُوْنَ) 21۔ الانبیآء :27) یعنی جس بات کے دریافت کرنے کی انہیں اجازت نہ ہو اس میں وہ لب نہیں ہلاتے (اور یہ بھی ظاہر ہے کہ فرشتوں کی طبیعت حسد سے پاک ہے) بلکہ صحیح مطلب یہ ہے کہ یہ سوال صرف اس حکمت معلوم کرنے کے لئے اور اس راز کے ظاہر کرانے کے لئے تھا جو ان کی سمجھ سے بالاتر تھا۔ یہ تو جانتے تھے کہ اس مخلوق میں فسادی لوگ بھی ہوں گے تو اب با ادب سوال کیا کہ پروردگار ایسی مخلوق کے پیدا کرنے میں کونسی حکمت ہے ؟ اگر عبادت مقصود ہے تو عبادت تو ہم کرتے ہی ہیں، تسبیح و تقدیس وتحمید ہر وقت ہماری زبانوں پر ہے اور پھر فساد وغیرہ سے پاک ہیں تو پھر اور مخلوق جن میں فسادی اور خونی بھی ہوں گے کس مصلحت پر پیدا کی جا رہی ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال کا جواب دیا کہ باوجود اس کے فساد کے اسے جن مصلحتوں اور حکمتوں کی بنا پر میں پیدا کر رہا ہوں انہیں میں ہی جانتا ہوں تمہارا علم ان تک حکمتوں نہیں پہنچ سکتا میں جانتا ہوں کہ ان میں انبیاء اور رسول ہوں گے ان میں صدیق اور شہید ہوں گے۔ ان میں عابد، زاہد، اولیاء، ابرار، نیکوکار، مقرب بارگاہ، علماء، صلحاء، متقی، پرہیزگار، خوف الٰہی، حب باری تعالیٰ رکھنے والے بھی ہوں گے۔ میرے احکام کی بسر و چشم تعمیل کرنے والے، میرے نبیوں کے ارشاد پر لبیک پکارنے والے بھی ہوں گے۔ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ دن کے فرشتے صبح صادق کے وقت آتے ہیں اور عصر کو چلے جاتے ہیں۔ تب رات کے فرشتے آتے ہیں اور صبح کو جاتے ہیں۔ آنے والے جب آتے ہیں تب بھی اور جب جاتے ہیں تب بھی صبح کی اور عصر کی نماز میں لوگوں کو پاتے ہیں اور دربار الٰہی میں پروردگار کے سوال کے جواب میں دونوں جماعتیں یہی کہتی ہیں کہ گئے تو نماز میں پایا اور آئے تو نماز میں چھوڑ کر آئے یہی وہ مصلحت اللہ ہے جسے فرشتوں کو بتایا گیا کہ میں جانتا ہوں اور تم نہیں جانتے۔ ان فرشتوں کو اسی چیز کو دیکھنے کے لئے بھیجا جاتا ہے اور دن کے اعمال رات سے پہلے اور رات کے دن سے پہلے الہ العالمین کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ غرض تفصیلی حکمت جو پیدائش انسان میں تھی اس کی نسبت فرمایا کہ یہ میرے مخصوص علم میں ہے۔ جو تمہیں معلوم نہیں بعض کہتے ہیں یہ جواب فرشتوں کے اس قول کا ہے کہ ہم تیری تسبیح وغیرہ کرتے رہتے ہیں تو انہیں فرمایا گیا کہ میں ہی جانتا ہوں تم جیسا سب کو یکساں سمجھتے ہو ایسا نہیں بلکہ تم میں ایک ابلیس بھی ہے۔ ایک تیسرا قول یہ ہے کہ فرشتوں کا یہ سب کہنا دراصل یہ مطلب رکھتا تھا کہ ہمیں زمین میں بسایا جائے تو جواباً کہا گیا کہ تمہاری آسمانوں میں رہنے کی مصلحت میں ہی جانتا ہوں اور مجھے علم ہے کہ تمہارے لائق جگہ یہی ہے واللہ اعلم۔ حسن قتادہ وغیرہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو خبر دی۔ سدی کہتے ہیں مشورہ لیا۔ لیکن اس کے معنی بھی خبر دینے کے ہوسکتے ہیں۔ اگر نہ ہوں تو پھر یہ بات بےوزن ہوجاتی ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب مکہ سے زمین پھیلائی اور بچھائی گئی تو بیت اللہ شریف کا طواف سب سے پہلے فرشتوں نے کیا اور زمین میں خلیفہ بنانے سے مراد مکہ میں خلیفہ بنانا ہے۔ یہ حدیث مرسل ہے پھر اس میں ضعف ہے اور مدرج ہے یعنی زمین سے مراد مکہ لینا راوی کا اپنا خیال ہے واللہ اعلم۔ بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین سے ساری زمین مراد ہے۔ فرشتوں نے جب یہ سنا تو پوچھا تھا کہ وہ خلیفہ کیا ہوگا ؟ اور جواب میں کہا گیا تھا کہ اس کی اولاد میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو زمین میں فساد کریں، حسد و بغض کریں، قتل و خون کریں ان میں وہ عدل و انصاف کرے گا اور میرے احکام جاری کرے گا تو اس سے مراد حضرت آدم ہیں۔ جو ان کے قائم مقام اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور مخلوق میں عدل و انصاف کرنے کی بنا پر فساد پھیلانے اور خون بہانے والے خلیفہ نہیں۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہاں مراد خلافت سے ایک زمانہ جو دوسرے زمانہ کے بعد آتا ہے۔ خلیفہ فعیلہ کے وزن پر ہے۔ جب ایک کے بعد دوسرا اس کے قائم مقام ہو تو عرب کہتے ہیں۔ خلف فلان فلانا فلاں شخص کا خلیفہ ہوا جیسے قرآن میں ہے کہ ہم ان کے بعد تمہیں زمین کا خلیفہ بنا کر دیکھتے ہیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو اور اسی لئے سلطان اعظم کو خلیفہ کہتے ہیں اس لئے کہ وہ اگلے بادشاہ کا جانشین ہوتا ہے محمد بن اسحاق کہتے ہیں مراد یہ ہے کہ زمین کا ساکن اس کی آبادی کرنے والا ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں پہلے زمین میں جنات بستے تھے۔ انہوں نے اس میں فساد کیا اور خون بہایا اور قتل و غارت کیا ابلیس کو بھیجا گیا اس نے اور اس کے ساتھیوں نے انہیں مار مار کر جزیروں اور پہاڑوں میں بھگا دیا حضرت آدم ؑ کو پیدا کر کے زمین میں بسایا تو گویا یہ ان پہلے والوں کے خلیفہ اور جانشین ہوئے۔ پس فرشتوں کے قول سے مراد اولاد آدم ہیں جس وقت ان سے کہا گیا کہ میں زمین کو اور اس میں بسنے والی مخلوق کو پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت زمین تھی لیکن اس میں آبادی نہ تھی۔ بعض صحابہ سے یہ بھی مروی ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معلوم کروا دیا تھا کہ اولاد آدم ایسے ایسے کام کرے گی تو انہوں نے یہ پوچھا اور یہ بھی مروی ہے کہ جنات کے فساد پر انہوں نے بنی آدم کے فساد کو قیاس کر کے یہ سوال کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ آدم ؑ سے دو ہزار سال پہلے سے جنات زمین میں آباد تھے۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں فرشتے بدھ کے دن پیدا ہوئے اور جنات کو جمعرات کے دن پیدا کیا اور جمعہ کے دن آدم ؑ پیدا ہوئے حضرت حسن اور حضرت قتادہ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی تھی کہ ابن آدم ایسا ایسا کریں گے اس بنا پر انہوں نے سوال کیا ابو جعفر محمد بن علی فرماتے ہیں سجل نامی ایک فرشتہ ہے جس کے ساتھی ہاروت ماروت تھے۔ اسے ہر دن تین مرتبہ لوح محفوظ پر نظر ڈالنے کی اجازت تھی۔ ایک مرتبہ اس نے آدم ؑ کی پپدائش اور دیگر امور کا جب مطالعہ کیا تو چپکے سے اپنے ان دونوں ساتھیوں کو بھی اطلاع کردی۔ اب جو اللہ تعالیٰ نے اپنا ارادہ ظاہر فرمایا تو ان دونوں نے یہ سوال کیا لیکن یہ روایت غریب ہے اور صبح مان لینے پر بھی ممکن ہے کہ ابو جعفر نے اسے اہل کتاب یہود و نصاریٰ سے اخذ کیا ہو۔ بہر صورت یہ ایک واہی تواہی روایت ہے اور قابل تردید ہے۔ واللہ اعلم۔ پھر اس روایت میں ہے کہ دو فرشتوں نے یہ سوال کیا۔ یہ قرآن کی روانی عبارت کے بھی خلاف ہے۔ یہ بھی روایت مروی ہے کہ یہ کہنے والے فرشتے دس ہزار تھے اور وہ سب کے سب جلا دئیے گئے۔ یہ بھی بنی اسرائیلی روایت ہے اور بہت ہی غریب ہے امام ابن جریر فرماتے ہیں اس سوال کی انہیں اجازت دی گئی تھی اور یہ بھی معلوم کرا دیا گیا تھا کہ یہ مخلوق نافرمان بھی ہوگی تو انہوں نے نہایت تعجب کے ساتھ اللہ کی مصلحت معلوم کرنے کے لئے یہ سوال کیا نہ کہ کوئی مشورہ دیا یا انکار کیا یا اعتراض کیا ہو۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب آدم ؑ کی پیدائش شروع ہوئی تو فرشتوں نے کہا ناممکن ہے کہ کوئی مخلوق ہم سے زیادہ بزرگ اور عالم ہو تو اس پر یہ امتحان اللہ کی طرف سے آیا اور کوئی مخلوق ہم سے زیادہ بزرگ اور عالم ہو تو اس پر یہ امتحان اللہ کی طرف سے آیا اور کوئی مخلوق امتحان سے نہیں چھوٹی۔ زمین اور آسمان پر بھی امتحان آیا تھا اور انہوں نے سرخم کر کے اطاعت الٰہیہ کے لئے آمادگی ظاہر کی فرشتوں کی تسبیح و تقدیس سے مراد اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرنا نماز پڑھنا بےادبی سے بچنا، بڑائی اور عظمت کرنا ہے۔ فرماں برداری کرنا سبوح قدوس وغیرہ پڑھنا ہے۔ قدس کے معنی پاک کے ہیں۔ پاک زمین کو مقدس کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ سے سوال ہوتا ہے کہ کونسا کلام افضل ہے جواب دیتے ہیں وہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے لئے پسند فرمایا سبحان اللہ وبحمدہ (صحیح مسلم) حضور ﷺ نے معراج والی رات آسمانوں پر فرشتوں کی یہ تسبیح سنی سبحان العلی الاعلی سبحانہ خلیفہ کے فرائض اور خلافت کی نوعیت ٭٭ امام قرطبی وغیرہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ہے تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرے، ان کے جھگڑے چکائے، مظلوب کا بدلہ ظالم سے لے، حدیں قائم کرے، برائیوں کے مرتکب لوگوں کو ڈانٹے ڈپٹے وغیرہ، وہ بڑے بڑے کام جو بغیر امام کے انجام نہیں پاسکتے۔ چونکہ یہ کام واجب ہیں اور یہ بغیر امام کے پورے نہیں ہوسکتے اور جس چپز کے بغیر واجب پورا نہ ہو وہ بھی واجب ہوجاتی ہے لہذا خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ثابت ہوا۔ امامت یا تو قرآن و حدیث کے ظاہری لفظوں سے ملے گی جیسے کہ اہل سنت کی ایک جماعت کا حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی نسبت خیال ہے کہ ان کا نام حضور ﷺ نے خلافت کے لئے لیا تھا یا قرآن و حدیث سے اس کی جانب اشارہ ہو۔ جیسے اہل سنت ہی کی دوسری جماعت کا خلیفہ اول کی بابت یہ خیال ہے کہ اشارۃً ان کا ذکر حضور ﷺ نے خلافت کے لئے کیا۔ یا ایک خلیفہ اپنے بعد دوسرے کو نامزد کر جائے جیسے حضرت صدیق اکبر ؓ نے حضرت عمر ؓ کو اپنا جانشین مقرر کردیا تھا۔ یا وہ صالح لوگوں کی ایک کمیٹی بنا کر انتخاب کا کام ان کے سپرد کر جائے جیسے کہ حضرت عمر ؓ نے کیا تھا یا اہل حل و عقد (یعنی بااثر سرداران لشکر علماء و صلحاء وغیرہ) اس کی بیعت پر اجماع کرلیں یا ان میں سے کوئی اس کی بیعت کرلے تو جمہور کے نزدیک اس کا لازم پکڑنا واجب ہوجائے گا۔ امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے واللہ العلم۔ یا کوئی شخص لوگوں کو بزور و جبر اپنی ماتحتی پر بےبس کر دے تو بھی واجب ہوجاتا ہے کہ اس کے ہاتھ پر بیعت کرلیں تاکہ پھوٹ اور اختلاف نہ پھیلے۔ امام شافعی نے صاف لفظوں میں فیصلہ کیا ہے۔ اس بیعت کے وقت گواہوں کی موجودگی کے واجب ہونے میں اختلافات ہے بعض تو کہتے ہیں یہ شرط نہیں، بعض کہتے ہیں شرط ہے اور دو گواہ کافی ہیں۔ جبائی کہتا ہے بیعت کرنے والے اور جس کے ہاتھ پر بیعت ہو رہی ہے ان دونوں کے علاوہ چار گواہ چاہئیں۔ جیسے کہ حضرت عمر ؓ نے شوریٰ کے چھ ارکان مقرر کئے تھے پھر انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کو مختار کردیا اور آپ نے حضرت عثمان ؓ کے ہاتھ پر باقی چاروں کی موجودگی میں بیعت کی لیکن اس استدلال میں اختلاف ہے۔ واللہ اعلم۔ امام کا مرد ہونا، آزاد ہونا، بالغ ہونا، عقلمند ہونا، مسلمان ہونا، عادل ہونا، مجتہد ہونا، آنکھوں والا ہونا، صحیح سالم اعضاء والا ہونا، فنون جنگ سے اور رائے سے خبردار ہونا، قریشی ہونا واجب ہے اور یہی صحیح ہے۔ ہاں ہاشمی ہونا اور خطا سے معصوم ہونا شرط نہیں۔ یہ دونوں شرطیں متشدد رافضی لگاتے ہیں امام اگر فاسق ہوجائے تو اسے معزول کردینا چاہیے یا نہیں ؟ اس میں اخلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ معزول نہ کیا جائے کیونکہ حدیث میں آچکا ہے کہ جب تک ایسا کھلا کفر نہ دیکھ لو جس کے کفر ہونے کی ظاہر دلیل اللہ کی طرف سے تمہارے پاس ہو، اسی طرح خود امام اپنے آپ معزول ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ اس میں بھی اختلاف ہے۔ حضرت حسن بن علی ؓ خودبخود آپ ہی معزول ہوگئے تھے اور امر امامت حضرت معاویہ ؓ کو سونپ دیا تھا لیکن یہ عذر کے باعث تھا جس پر ان کی تعریف کی گئی ہے۔ روئے زمین پر ایک سے زیادہ امام ایک وقت میں نہیں ہوسکتے۔ آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے کہ جب تم میں اتفاق ہو اور کوئی اگر تم میں جدائی ڈالنی چاہے تو اسے قتل کردو خواہ کوئی بھی ہو۔ جمہور کا یہی مذہب ہے اور بہت سے بزرگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے جن میں سے ایک امام الحرمین ہیں۔ کر امیہ (شیعہ) کا قول ہے کہ دو اور زیادہ بھی ایک وقت میں امام ہوسکتے ہیں جیسے کہ حضرت علی اور حضرت معاویہ ؓ دونوں اطاعت کے لائق تھے۔ یہ گروہ کہتا ہے کہ جب ایک وقت میں دو دو اور زیادہ نبیوں کا ہونا جائز ہے تو اماموں کا جائز ہونا جائز کیوں نہ ہو ؟ نبوت کا مرتبہ تو یقینا امامت کے مرتبے سے بہت زیادہ ہے (لیکن صحیح مسلم والی حدیث آپ ابھی اوپر چڑھ چکے ہیں کہ دوسرے کو قتل کر ڈالو۔ اس لئے صحیح مذہب وہی ہے جو پہلے بیان ہوا) امام الحرمین نے استاذ ابو اسحاق سے بھی حکایت کی ہے کہ وہ دو اور زیادہ اماموں کا مقرر کرنا اس وقت جائز جانتے ہیں جب مسلمانوں کی سلطنت بہت بڑی وسیع ہو اور چاروں طرف پھیلی ہوئی ہو اور دو اماموں کے درمیان کئی ملکوں کا فاصلہ ہو۔ امام الحرمین اس میں ترود میں ہیں، خلفائے بنی عباس کا عراق میں اور خلفائے بنی فاطمہ کا مصر میں اور خاندان بنی امیہ کا مغرب میں میرے خیال سے یہی حال تھا۔ اس کی بسط و تفصیل انشاء اللہ کتاب الاحکام کی کسی مناسب جگہ ہم کریں گے۔

آیت 30 - سورۃ البقرہ: (وإذ قال ربك للملائكة إني جاعل في الأرض خليفة ۖ قالوا أتجعل فيها من يفسد فيها ويسفك الدماء ونحن نسبح...) - اردو