سورۃ البقرہ: آیت 29 - هو الذي خلق لكم ما... - اردو

آیت 29 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ لَكُم مَّا فِى ٱلْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ ٱسْتَوَىٰٓ إِلَى ٱلسَّمَآءِ فَسَوَّىٰهُنَّ سَبْعَ سَمَٰوَٰتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ

اردو ترجمہ

وہی تو ہے، جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پید ا کیں، پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کیے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Huwa allathee khalaqa lakum ma fee alardi jameeAAan thumma istawa ila alssamai fasawwahunna sabAAa samawatin wahuwa bikulli shayin AAaleemun

آیت 29 کی تفسیر

اس پہلی چمک کے متصلاً بعد روشنی کی ایک دوسری کرن آتی ہے جو پہلی کے لئے تکمیل کا درجہ رکھتی ہے ۔ هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الأرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ” وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کی ساری چیزیں پیدا کی ہیں ، پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کئے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے ۔ “ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کے بارے میں مفسرین اور متکلمین نے طویل بحثیں کی ہیں ، قبلیت ، وبعدیت اور استوا اور تسویہ اور دوسری کلامی بحثیں یہاں کی جاتی ہیں ۔ لیکن یہ حضرات اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ قبل وبعد ، محض انسانی اصطلاحات ہیں ، اللہ تعالیٰ کے لئے ان کا کوئی مفہوم نہیں ہے ۔ یہ حضرات اس بات کو بھی سامنے نہیں رکھتے کہ استوا اور تسویہ انسانی لغی اصطلاحات ہیں جو لامحدود ذات کو انسان کے محدود تصور کے قریب لے آتی ہیں ۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں ۔ قرآن کی ایسی تعبیروں پر علمائے اسلام نے جو طویل بحثیں کیں ، وہ اس مصیبت اور آفت کا نتیجہ تھیں جو یونانی فلسفہ اور یہود ونصاریٰ کی لاہوتی بحثوں کی صورت میں امت مسلمہ پر نازل ہوئی۔ یہ بحثیں تب پیداہوئیں جب اس فلسفہ اور ان لاہوتی بحثوں نے عربوں کی سادہ ذہنیت اور مسلمانوں کے پاکیزہ خیالات کو گدلا کردیا تھا۔ اب ہمارے لئے یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ ہم بھی اس مصیبت میں خواہ مخواہ گرفتار ہوجائیں اور منطقی اور کلامی جدلیات میں قرآن کریم کے حسن و جمال کو گم کردیں ۔

اس لئے ہمیں چاہئے کہ ان مصنوعی تعبیرات واصطلاحات سے آزاد ہوکر یہ دیکھیں کہ پوری کائنات کو انسان کے لئے پیدا کرنے کی حقیقت کیا ہے ؟ اس حقیقت سے کس چیز کا اظہارہورہا ہے ۔ اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے وجود انسانی کا کیا مقصد قرار پاتا ہے ۔ اس زمین پر انسان کے کیا فرائض ہیں ۔ اللہ کے ہاں انسان کی قدر و قیمت کیا ہے ۔ نیز اسلامی تصورحیات اور تصور کائنات میں انسان کی کیا قدر و قیمت ہے اور اسلامی نظام زندگی میں انسان کا مقام کیا ہے ؟

هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الأرْضِ جَمِيعًا ” اللہ تو وہی ہے جس نے تمہاری زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں۔ “ یہاں لفظ لکم یعنی ” تمہارے لئے “ اپنے گہری معنویت لئے ہوئے ہے ۔ یہ اس گہری حقیقت کا اظہار کررہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس انسان کو ایک عظیم مقصد کے لئے پیدا کیا ہے ۔ اس کی پیدائش کا مقصد یہ ہے کہ وہ زمین پر اللہ کانائب اور خلیفہ ہو ۔ زمین کے اندر جو کچھ ہو وہ اس کی ملکیت ہو اور وہ اس میں مؤثر اور متصرف ہو ۔ کیونکہ اللہ کی اس طویل و عریض کائنات میں وہی اعلیٰ مخلوق ہے ۔ وہ اس وسیع میراث کا پہلا وارث ہے ۔ لہٰذا اس زمین کے حالات اور اس کے انقلابات کے اندر اس کا کردار بھی اول درجے کا ہے ۔ وہ جس طرح اس زمین کا سردار ہے اسی طرح اس کے آلات کا بھی سردار ہے۔ وہ آلات پیداوار کے ہاتھ میں مقید اور بےبس نہیں ہے ، جس طرح آج کی مادی دنیا میں انسان ان آلات کے ہاتھوں بےبس ہوچکا ہے ۔ نیز وہ ان تبدیلیوں اور تغیرات کا بھی تابع نہیں ہے جو انسان اور انسان کے باہم روابط میں ان آلات کی پیدا کردہ ہیں جیسا کہ آج کل کے مادہ پرستانہ تصور حیات میں انسان اور اس کے کردار کو حقیر تر سمجھا جاتا ہے اور اسے بےجان اور بےشعور آلات کا غلام بنادیا جاتا ہے ۔ حالانکہ وہ ان سے برتر اور ان کا سردار ہے ۔ قرآن کی رو سے ساری اقدار میں سے کوئی بھی ایسی نہیں ہے کہ اسے انسانیت کی قدر و قیمت سے برتری حاصل ہو۔ انسان تو اس کے سامنے ذلیل و خوار ہو اور وہ اس کے مقابلے میں بلند وبالا ہو۔ وہ تمام مقاصد جن کے نتیجے میں انسان کی انسانیت کی تذلیل ہو ۔ وہ انسان کے مقصد وجود ہی کے خلاف ہیں اور اس لئے معیوب ہیں ، چاہے ان کے نتیجے میں بیشمار مادی فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔ چناچہ اسلامی تصور حیات کے مطابق انسان کی شرافت اور انسان کی برتری وہ پہلی قدر ہے جو سب اقدار سے اولیت رکھتی ہے ۔ تمام مادی قدریں اس کے تابع ہیں اور ان کا درجہ بعد میں آتا ہے ۔

یہاں اللہ تعالیٰ اپنی جس نعمت کا ذکر فرما رہے ہیں اور اس کے کفران پر نکیر ہورہی ہے وہ صرف یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین کی تمام نعمتوں سے نوازا بلکہ یہ بھی ہے کہ انسان ان تمام چیزوں کا مالک اور متصرف بھی ہے اور یہ کہ انسان کی قدر و قیمت ان تمام مادی اقدار سے برتر ہے جن پر یہ زمین حاوی ہے ۔ جس انعام کا یہاں ذکر ہے ملکیت کائنات اور زمین کے ذخائر سے انتفاع سے بھی آگے ، وہ انسانی شرافت اور انسان کی برتری کی نعمت ہے۔

ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ” پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کئے۔ “ یہاں اس بات کی ضرورت نہیں کہ استواء الی السماء کی حقیقت وماہیت کیا ہے ؟ ہمارے لئے یہ جاننا کافی ہے کہ آسمان کی طرف متوجہ ہونے سے مراد کیا ہے ؟ استوا الی السماء قدرت الٰہی کے اظہار کا ایک پیرایہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے تخلیق وتکوین کا ارادہ فرمایا۔ اسی طرح سات آسمانوں کی حقیقت اور ان کی شکل اور حدود اربعہ کے تعین کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ آیت کے اس اصولی اور عام مفہوم کا سمجھ لینا ہی کافی ہے۔ کفار چونکہ کائنات کے خالق ونگہبان کے منکر تھے ، اس لئے یہاں یہ بیان کیا گیا کہ اللہ ہی زمین و آسمان کا خالق ہے ۔ اس نے انسانوں کے لئے زمین کی تمام مخلوق کو مسخر کرلیا ہے اور آسمانوں کے اندر اس طرح نظم اور ربط پیدا کیا ہے جس کی وجہ سے اس کرہ ارض پر زندگی کا باقی رہنا آسان اور سہل ہوگیا ہے ۔

وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ” اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ “ وہی سب کا خالق اور سب کا مدبر ہے ، لہٰذا ظاہر ہے کہ وہ ہر چیز کا علم بھی رکھتا ہے ۔ پوری کائنات کی تدبیر کے ساتھ ساتھ پوری کائنات کا علم بھی رکھنا ایک ایسی حقیقت ہے جو اس کائنات کے خالق وحدہ لاشریک پر ایمان لانے کے مہمیز کا کام دیتی ہے ۔ اس سے انسان اس وحدہ لاشریک مدبر کی بندگی کی طرف متوجہ ہوتا ہے ۔ اور بطور شکر نعمت اپنے رازق اور منعم کی بندگی بجالاتا ہے ۔

یہاں آکر سورت کی ابتدائی بحثیں ختم ہوجاتی ہیں ۔ اس پوری بحث میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ لوگ ایمان لے آئیں اور مومنین ومتقین کے اختیار کردہ راستے کو اپنالیں ۔

درس 3 ایک نظر میں

قرآن کریم میں مختلف مواقع پر قصص کا بیان ہوتا ہے۔ موقع ومحل خود بتا دیتا ہے کہ یہاں اس قصے کے بیان سے غرض وغایت کیا ہے ‘ سلسلہ کلام کی کون سی کڑی سے تعرض کیا جارہا ہے ؟ کس شکل و صورت میں قصہ پیش ہورہا ہے اور وہ طرز ادا کیا ہے جس میں وہ قصہ بیان ہورہا ہے ........ اس اسلوب کلام سے روحانی ‘ فکری اور فنی فضا میں ہم آہنگی پیدا ہوجاتی ہے ۔ ایک تو موضوع کلام کا حق ادا ہوجاتا ہے دوسری طرف بیان قصہ کی نفسیاتی اغراض بھی پوری ہوجاتی ہیں اور قصہ کو لانے سے جو اثرات پیدا کرنے مطلوب ہوتے ہیں وہ ہوجاتے ہین۔

بعض لوگوں یہ وہم ہوا ہے کہ قرآنی قصص میں تکرار ہے کیونکہ ایک ہی قصہ مختلف شکلوں میں کئی جگہ دہرایا گیا ہے ۔ لیکن گہری نظر سے مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوجاتا ہے کہ جن قصوں کا کوئی ایک حصہ یا پورے قصے کو کسی جگہ دہرایا گیا ہے تو وہاں وہ اپنی سابقہ شکل و صورت میں ہی نہیں بیان ہوا بلکہ دونوں مقامات پر قصے کی مقدار اور سیاق کلام اور طرز ادا بالکل مختلف ہوتی ہے ۔ جہاں بھی قصے کا کوئی حصہ دہرایا جاتا ہے وہاں ایک نئی بات کہنی مطلوب ہوتی ہے لہٰذا فی الحقیقت قرآن کریم میں بیان قصص میں کوئی تکرار نہیں ہے ۔

بعض کج فہم لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ قرآن کریم کے بیان کردہ بعض واقعات تخلیقی ہیں یا ان کے بیان میں تصرف کیا گیا ہے یعنی محض مقاصد اور تحسین کلام کے لئے یہ قصے لائے گئے ہیں ۔ لیکن جو شخص بھی فطرت سلیم رکھتا ہو اور کھلی آنکھوں سے قرآن کا مطالعہ کرتا ہو وہ اس حقیقت کو بسہولت پالیتا ہے کہ ہر جگہ موضوع بحث کی مناسبت سے کوئی قصہ یا اس کا حصہ لایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انداز بیان اور طرز ادا بھی موقع ومحل کی مناسبت سے بالکل جدا ہوتی ہے ۔ قرآن کریم ایک دعوتی کتاب ہے ۔ ایک نظام زندگی ہے اور ایک نظام زندگی کا دستور بھی ہے ۔ وہ تسکین ذوق کی حکایت یا تاریخ کی کتاب نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دعوت دین کے دوران منتخب قصے بھی بیان کئے جاتے ہیں ۔ قصوں کے اسلوب بیان اور ان کے مقدار کا فیصلہ سیاق کلام اور مناسبت حال کے لحاظ سے کیا جاتا ہے ۔ بیان قصص میں صرف حسن ادا کی بہترین خوبیوں ہی کا لحاظ رکھا جاتا ہے ۔ زور کلام کی خاطر کہیں بھی واقعات میں اضافہ نہیں کیا گیا ہاں ہر جگہ واقعات کو بالکل ایک انوکھے انداز میں پیش کیا گیا ہے اور اثر انگیزی کے لئے صرف سچائی کی قوت اور حسن ادا پر ہی اعتماد کیا گیا ہے۔

قرآنی قصے درحقیقت قافلہ ایمان کے طویل اور مسلسل سفر کی داستان اور روئیداد ہوتے ہیں اور قرآن میں دعوت دین کی طویل کہانی کو سمودیا گیا ہے جو نسلاً بعد نسل لوگوں کے سامنے پیش کی جاتی رہی اور لوگ اسے قبول کرتے رہے ۔ یہ قصے ایک طرف تو انسانوں کی ان برگزیدہ ہستیوں کی کیفیت ایمان کو پیش کرتے ہیں جنہیں اس کام کے لئے منتخب کیا گیا اور دوسری طرف یہ بتاتے ہیں کہ ان برگزیدہ ہستیوں اور رب العالمین کے درمیان تعلق کی نواعیت کیا تھی ؟ ان قصوں کے ذریعہ ہم دیکھتے ہیں کہ یوں یہ قافلہ اہل کرم اس طویل شاہراہ پر چلاآتا ہے ۔ دل کی روشنی نور اور طہارت سے بھرتے ہوئے وہ دل کے اندر اس قیمتی متاع ‘ ایمان اور اس کائنات میں اس کی اہمیت کا شعور بیدار کرتے ہوئے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ وہ ایمانی تصور حیات کو تمام دوسرے عارضی تصورات زندگی سے ممیز کرتے ہوئے اسے انسان کے حس و شعور میں بٹھاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید جو کتاب دعوت ہے اس کا ایک بڑاحصہ ایسے ہی قصص پر مشتمل ہے۔

اب ہمیں چاہئے کہ ان تصریحات کی روشنی میں قصہ آدم کا مطالعہ کریں جیسا کہ سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے ۔ اس سے پہلے قافلہ حیات انسانی کی زندگی سے بحث کی گئی ہے بلکہ اس پوری کائنات کے وجود سے بحث کی گئی ۔ اس کے بعد انسان پر اپنی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے اس کرہ ارض کا ذکر ہوا اور بتایا گیا کہ اس زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ اللہ نے انسانوں کے لئے پیدا کیا ہے ۔ اس ضمن میں اس زمین پر حضرت آدم (علیہ السلام) کو منصب خلافت عطاکئے جانے کا قصہ شروع ہوجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ زمین کے اختیارات حضرت آدم (علیہ السلام) کے سپرد کردیتے ہیں لیکن اختیارات کی یہ سپردگی مشروط ہے اور حضرت آدم کے ساتھ ایک معاہدہ ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ حضرت آدم (علیہ السلام) کو علم ومعرفت کی وہ ضروری مقدار بھی عطا کرتے ہیں جو بار خلافت اٹھانے کے لئے ضروری تھی نیز بعد میں چونکہ اللہ تعالیٰ نے منصب خلافت کا معاہدہ بنی اسرائیل سے کیا۔ اس لئے قصہ آدم اس کے لئے تمہید کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد بنی اسرائیل کو اس خلافت سے معزول کردیا اور قلمدان خلافت اس امت مسلمہ کے حوالے کردی جاتی ہے جو اللہ کے عہد کو اچھی طرح پورا کرنے والی ہے ۔ اس طرح یہ قصہ سیاق وسباق سے پوری طرح ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔ اب ہمیں چاہئے کہ لمحی بھر آغاز انسانیت کے احوال پڑھیں اور دیکھیں کہ ان کے پس منظر میں کس قدر قیمتی ہدایات پوشیدہ ہیں ۔

پردہ اٹھتا ہے اور سب سے پہلے ہم عالم بالا کے اسٹیج پر پہنچ جاتے ہیں ۔ بلندیوں کی چمک اور روشنیوں کے نور بصیرت کے ذریعہ ہم انسانیت کے آغاز کی کہانی کو یوں اسٹیج ہوتے دیکھ رہے ہیں۔

آیت 29 ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ق اس آیت میں خلافت کا مضمون شروع ہوگیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے : اِنَّ الدُّنْیَا خُلِقَتْ لَکُمْ وَاَنْتُمْ خُلِقْتُمْ لِلْآخِرَۃِ 4 ”یہ دنیا تمہارے لیے بنائی گئی ہے اور تم آخرت کے لیے بنائے گئے ہو۔“ اگلی آیت میں حضرت آدم علیہ السلام کی خلافت ارضی کا ذکر ہے۔ گویا زمین میں جو کچھ بھی پیدا کیا گیا ہے وہ انسان کی خلافت کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَآءِ فَسَوّٰٹھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ ط یہ آیت تاحال آیات متشابہات میں سے ہے۔ سات آسمانوں کی کیا حقیقت ہے ‘ ہم ابھی تک پورے طور پر اس سے واقف نہیں ہیں۔ وَھُوَ بِکُلِّ شَیْ ءٍ عَلِیْمٌ اسے ہر شے کا علم حقیقی حاصل ہے۔

کچھ اور دلائل اوپر کی آیات میں ان دلائل قدرت کا بیان تھا جو خود انسان کے اندر ہیں اب اس مبارک آیت میں ان دلائل کا بیان ہو رہا ہے جو روز مرہ آنکھوں کے سامنے ہیں۔ " استوا " یہاں قصد کرنے اور متوجہ ہونے کے معنی میں ہے اس لئے کہ اس کا صلہ " الی " ہے " سوھن " کے معنی درست کرنے اور ساتوں آسمان بنانے کے ہیں سماء اسم جنس ہے۔ پھر بیان فرمایا کہ اس کا علم محیط کل ہے جیسے ارشاد آیت (اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ) 67۔ الملک :14) وہ بےعلم ہو کیسے سکتا ہے جو خالق ہو ؟ سورة سجدہ کی آیت (ائنکم لتکفرون) گویا اس آیت کی تفصیل ہے جس میں فرمایا ہے کیا تم اس اللہ کے ساتھ کفر کرتے ہو ؟ جس نے زمین کو صرف دو دن میں پیدا کیا تم اس کے لئے شریک ٹھہراتے ہو ؟ جو رب العالمین ہے جس نے زمین میں مضبوط پہاڑ اوپر سے گاڑ دئیے جس نے زمین میں برکتیں اور روزیاں رکھیں اور چار دن میں زمین کی سب چیزیں درست کردیں۔ جس میں دریافت کرنے والوں کی تشفی ہے پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہو کر جو دھویں کی شکل میں تھے فرمایا کہ اے زمینو اور آسمانو خوشی یا ناخوشی سے آؤ تو دونوں نے کہا باری تعالیٰ ہم تو برضا و خوشی حاضر ہیں۔ دو دن میں ان ساتوں آسمانوں کو پورا کردیا اور ہر آسمان میں اس کا کام بانٹ دیا اور دنیا کے آسمان کو ستاروں کے ساتھ مزین کردیا اور انہیں (شیطانوں سے) بچاؤں کا سبب بنایا۔ یہ ہے اندازہ اس اللہ کا جو بہت بڑا غالب اور بہت بڑے علم والا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلے زمین پیدا کی پھر ساتوں آسمان۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر عمارت کا یہی قاعدہ ہے کہ پہلے نیچے کا حصہ بنایا جائے پھر اوپر کا مفسرین نے بھی اس کی تصریح کی ہے جس کا بیان بھی ابھی آئے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ لیکن یہ سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ آیت (ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ ۭ بَنٰىهَا) 79۔ النازعات :27) تمہاری پیدائش مشکل ہے یا آسمانوں کی ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے خلا کو بلند کر کے اسے ٹھیک ٹھاک کیا اور ان میں سے رات دن پیدا کئے پھر اس کے بعد زمین پھیلائی اس سے پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑوں کو گاڑا جو سب تمہارے اور تمہارے جانوروں کے کام کی چیزیں ہیں۔ اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ زمین کی پیدائش آسمان کے بعد ہے تو بعض بزرگوں نے تو فرمایا ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں " ثم " صرف عطف خبر کے لئے ہے عطف فعل کے لئے نہیں یعنی یہ مطلب نہیں کہ زمین کے بعد آسمان کی پیدائش شروع کی بلکہ صرف خبر دینا مقصود ہے کہ آسمانوں کو بھی پیدا کیا اور زمینوں کو بھی۔ عرب شاعروں کے اشعار میں یہ موجود ہے کہ کہیں " ثم " صرف خبر کا خبر پر عطف ڈالنے کے لئے ہوتا ہے تقدیم تاخیر مراد نہیں ہوتی۔ اور بعض بزرگوں نے فرمایا ہے کہ آیت " ءانتم " میں آسمانوں کی پیدائش کے بعد زمین کا پھیلانا اور بچھانا وغیرہ بیان ہوا ہے نہ کہ پیدا کرنا۔ تو ٹھیک یہ ہے کہ پہلے زمین کو پیدا کیا پھر آسمان کو پھر زمین کو ٹھیک ٹھاک کیا اس طرح دونوں آیتیں ایک دوسرے کے مخالف نہ رہیں گی۔ اس عیب سے اللہ کا کلام بالکل محفوظ ہے۔ ابن عباس ؓ نے یہی معنی بیان فرمائے ہیں (یعنی پہلے زمین کی درستی وغیرہ یہ بعد کی چیز ہے) حضرت ابن مسعود حضرت ابن عباس اور دیگر صحابہ سے مروی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا اور کسی چیز کو پیدا نہیں کیا تھا جب اور مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو پانی سے دھواں بلند کیا وہ اونچا چڑھا اور اس سے آسمان بنائے پھر پانی خشک ہوگیا اور اس کی زمین بنائی پھر اس کو الگ الگ کر کے سات زمینیں بنائیں اتوار اور پیر کے دو دن میں یہ ساتوں زمینیں بن گئیں۔ زمین مچھلی پر ہے اور مچھلی وہ ہے جس کا ذکر قرآن مجید کی اس آیت میں ہے آیت (ن والقلم مچھلی پانی میں ہے اور پانی صفاۃ پر ہے اور صفاۃ فرشتے پر اور فرشتے پتھر پر زمین کانپنے لگی تو اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو گاڑ دیا اور وہ ٹھہر گئی یہی معنی میں اللہ تعالیٰ کے فرمان آیت (وَجَعَلْنَا فِي الْاَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيْدَ بِهِمْ) 21۔ الانبیآء :38) زمین نہ ہلے اس لئے ہم نے اس میں پہاڑ جما دئیے ہیں۔ پہاڑ زمین کی پیداوار درخت وغیرہ زمین کی کل چیزیں منگل اور بدھ کے دو دنوں میں پیدا کیں اسی کا بیان آیت (قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ) 41۔ فصلت :9) والی آیت میں ہے پھر آسمان کی طرف توجہ فرمائی جو دھواں تھا آسمان بنایا پھر اسی میں ساتھ آسمان بنائے جمعرات اور جمعہ کے دو دنوں میں جمعہ کے دن کو اس لئے جمعہ کہا جاتا ہے کہ اس میں زمین و آسمان کی پیدائش جمع ہوگئی ہر آسمان میں اس نے فرشتوں کو پیدا کیا اور ان ان چیزوں کو جن کا علم اس کے سوا کسی کو نہیں کہ دنیا آسمان کو ستاروں کے ساتھ زینت دی اور انہیں شیطان سے حفاظت کا سبب بنایا ان تمام چیزوں کو پیدا کر کے پروردگار نے عرش عظیم پر قرار پکڑا جسے فرماتا ہے۔ آیت (خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ) 7۔ الاعراف :54) یعنی چھ دن میں آسمانوں اور زمین کو پیدا کر کے پھر عرش پر مستوی ہوگیا اور جگہ فرمایا آیت (كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا) 21۔ الانبیآء :30) یعنی یہ دونوں دھواں سے تھے ہم نے انہیں پھاڑا اور پانی سے ہر چیز کو زندگی دی (تفسیر سدی) یہ موقوف قول جس میں کئی قسم کا احتمال ہے بہ ظاہراً ایسی اہم بات میں حجت تامہ نہیں ہوسکتا۔ واللہ اعلم) ابن جریر میں ہے حضرت عبداللہ بن سعید ؓ فرماتے ہیں کہ اتوار سے مخلوق کی پیدائش شروع ہوئی۔ دو دن میں زمینیں پیدا ہوئیں دو دن میں ان میں موجود تمام چیزیں پیدا کیں اور دو دن میں آسمانوں کو پیدا کیا جمعہ کے دن آخری وقت ان کی پیدائش ختم ہوئی اور اسی وقت حضرت آدم ؑ کو پیدا کیا اور اسی وقت میں قیامت قائم ہوگی۔ مجاہد فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو آسمان سے پہلے پیدا کیا اس سے جو دھواں اوپر چڑھا اس کے آسمان بنائے جو ایک پر ایک اس طرح سات ہیں اور زمینیں ایک نیچے ایک اوپر اس طرح سات ہیں۔ اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی پیدائش آسمانوں سے پہلے ہے جیسے سورة سجدہ کی آیت میں ہے۔ علماء کی اس پر متفق ہیں۔ صرف قتادہ فرماتے ہیں کہ آسمان زمین سے پہلے پیدا ہوئے ہیں۔ قرطبی اس میں توقف کرتے ہیں آیت (والنازعات) کی آیت کی وجہ سے یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں آسمان کی پیدائش کا ذکر زمین سے پہلے ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت ابن عباس سے جب یہ سوال ہوا تو آپ نے جواب دیا کہ زمین پیدا تو آسمانوں سے پہلے کی گئی ہے لیکن بعد میں پھیلائی گئی ہے۔ یہی جواب اگلے پچھلے علماء کا ہے۔ سورة نازعات کی تفسیر میں بھی اس کا بیان آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ حاصل امر یہ ہے کہ زمین کا پھیلانا اور بچھانا بعد میں ہے اور دحھا کا لفظ قرآن میں ہے اور اس کے بعد جو پانی چارہ پہاڑ وغیرہ کا ذکر ہے یہ گویا اس لفظ کی تشریح ہے جن جن چیزوں کی نشوونما کی قوت اس زمین میں رکھی تھی ان سب کو ظاہر کردیا اور زمین کی پیداوار طرح طرح کی مختلف شکلوں اور مختلف قسموں میں نکل آئی۔ اسی طرح آسمان میں بھی ٹھہرے رہنے والے چلنے والے ستارے وغیرہ بنائے۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔ صحیح مسلم اور نسائی میں حدیث میں ہے حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا مٹی کو اللہ تعالیٰ نے ہفتہ والے دن پیدا کیا، پہاڑوں کو اتوار کے دن، درختوں کو پیر کے دن، برائیوں کو منگل کے دن نور کو، بدھ کے دن، جانوروں کو جمعرات کے دن، آدم کو جمعہ کے دن اور عصر کے بعد جمعہ کی آخری ساعت میں عصر کے بعد سے رات تک۔ یہ حدیث غرائب میں سے ہے۔ امام ابن مدینی امام بخاری وغیرہ نے اس پر بحث کی ہے اور فرمایا ہے کہ کعب کا اپنا قول اور حضرت ابوہریرہ نے کعب کا یہ قول سنا ہے اور بعض راویوں نے اسے غلطی سے مرفوع حدیث قرار دے لیا ہے۔ امام بیہقی کہتے ہیں۔

آیت 29 - سورۃ البقرہ: (هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا ثم استوى إلى السماء فسواهن سبع سماوات ۚ وهو بكل شيء عليم...) - اردو