سورۃ البقرہ: آیت 284 - لله ما في السماوات وما... - اردو

آیت 284 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

لِّلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ ۗ وَإِن تُبْدُوا۟ مَا فِىٓ أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ ٱللَّهُ ۖ فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَآءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَآءُ ۗ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ

اردو ترجمہ

آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، سب اللہ کا ہے تم اپنے دل کی باتیں خواہ ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ بہرحال ان کا حساب تم سے لے لے گا پھر اسے اختیار ہے، جسے چاہے، معاف کر دے اور جسے چاہے، سزا دے وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lillahi ma fee alssamawati wama fee alardi wain tubdoo ma fee anfusikum aw tukhfoohu yuhasibkum bihi Allahu fayaghfiru liman yashao wayuAAaththibu man yashao waAllahu AAala kulli shayin qadeerun

آیت 284 کی تفسیر

قرآن کریم کا یہ انداز ہے کہ وہ خالص قانون سازی کرنے والی آیات کے خاتمہ کلام پر بھی خالص وجدانی اور اخلاقی راہنمائی کرتا ہے ۔ یوں وہ دنیاوی زندگی کے لئے ضابطہ بندی کا تعلق بھی خالق کائنات سے جوڑ دیتا ہے ۔ اور یہ رابطہ ایک مستحکم رابطہ ہوتا ہے۔ جس میں ایک طرف تو اللہ خوفی کا تصور ہوتا ہے اور دوسری جانب مالک ارض وسما کی مغفرت اور رحمت کی امیداواری ہوتی ہے ۔ یہی اخلاقی ضمانت ہے جو اسلامی نظام قانون کو حاصل ہوتی ہے ۔ اور جو اسے دوسرے نظامہائے قانون سے ممتاز اور ممیز کردیتی ہے ۔ اور ایک اسلامی معاشرے میں ایک مسلمان کے دل میں اسلامی قانون کا بےحد احترام پایا جاتا ہے ۔ یہ اخلاقی گارنٹی اور قانون سازی اسلامی معاشرہ میں متوازی طور پر چلتی ہیں ۔ اسلام ان دونوں کی اخلاقی تربیت کا بھی انتظام کرتا ہے جس کے لئے وہ قانون سازی کرتا ہے ۔ نیز اسلام اس معاشرے کی اخلاقی تربیت بھی کرتا ہے جس کے لئے وہ قانون سازی کرتا ہے ۔ اور یہ کام صرف اللہ تعالیٰ کی مکمل اور متوازن حکمت عملی پر مبنی ہوتا ہے ۔ کہ ایک طرف افراد ومعاشرہ کی اخلاقی تربیت ہورہی ہوتی ہے ، اور دوسری جانب ان کے لئے حکیمانہ قانون سازی ہورہی ہوتی ہے ۔ اللہ کا خوف اور قانون کا خوف ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔ اور انسان کے کے لئے قانون وہی ہوتا ہے جو انسان کے خالق نے اس کے لئے تجویز کیا ہوتا ہے ۔ اس لئے اس کے مقابلے میں اہل زمین کے قوانین ، اہل دنیا کی ضابطہ بندیاں ، اہل زمین کے نظام کیسے چل سکتے ہیں ۔ انسان کی کوتاہ سوچ ، انسان کا محدود علم ، انسان کی محدود فکر ، اس کا مقابلہ کیسے کرسکتی ہے ۔ انسان کی خواہشات آئے دن بدلتی رہتی ہیں ۔ کبھی وہ انسان کسی بات پر متفق نہیں ہوتے ۔ انسان کی کسی رائے کو قرار وثبات حاصل نہیں ہوتا ۔ اس کی معلومات آئے دن بدلتی رہتی ہیں ۔ ایسے حالات میں انسانیت کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنے خالق سے جداہوکر ماری ماری پھر رہی ہے ۔ حالانکہ اللہ وہ ذات ہے جس نے انسان کو پیدا کیا ۔ وہ جانتا ہے کہ اس نے جس چیز کی تخلیق کی ہے اس کی فطرت کیا ہے ۔ اس کی مصلحت کیا ہے ، ہر آن اور ہر جگہ اس کے بدلتے ہوئے مصالح اور ضروریات کیا ہیں ۔

انسانیت جان لے کہ اس کی یہ عظیم بدبختی ہے کہ وہ اللہ کی شریعت اور اللہ کے منہاج زندگی سے روگردانی اختیار کئے ہوئے ہے ۔ یاد رہے کہ الٰہی نظام زندگی سے فرار اور بغاوت کا آغاز مغرب میں اس وقت شروع ہوا ، جب لوگوں ظالم اور باغی کلیسا کا جؤا اپنی گردن سے اتارنا چہا ۔ مغرب میں لوگوں نے کنیسا کے تصور خدا اور تصور الٰہ کے خلاف بغاوت کی تھی ۔ جس کی طرف کنیسا لوگوں بلاتا تھا۔ اور جس تصور کے مطابق لوگوں کے لئے غور وفکر کرنا اور عقل سے کام لینا حرام تھا ۔ اور کلیسا نے مغرب میں عوام پر بھاری ٹیکس عائد کر رکھے تھے ۔ اور ان پر ایک ظالمانہ استبدادی نظام مسلط کررکھا تھا ، جس سے عوام کے اندر سخت نفرت پیدا ہوگئی تھی ۔ جب لوگوں نے اس جبر و استبداد سے گلوخاصی چاہی تو انہوں نے سوچا کہ جب تک وہ کنیسا کے خلاف اعلان جنگ نہ کریں گے اور اس جبر و استبداد سے گلو خاصی حاصل نہیں کرسکتے ۔ لیکن اس معاملے میں اہل مغرب حد اعتدال پر قائم نہ رہے ، انہوں نے اہل کنیسا سے آزادی حاصل کرنے پر اکتفا نہ کیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ خدا اور خدا کے اقتدار اعلیٰ سے بھی اپنے آپ کو آزاد کرلیا۔ اس طرح انہوں نے کرہ ارض پر سے ہر اس دین کو مٹادیا جس کی دعوت یہ ہو کہ لوگ اللہ کے نظام زندگی کے مطابق زندگی بسر کریں ۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری انسانیت پر ایک عظیم تباہی نازل ہوئی اور اس پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹے۔

رہے ہم جو اسلام کے مدعی ہیں ، تو ہمارے حالات قابل غور ہیں ۔ ہمارا حال یہ ہے ہم نے اسلامی نظام زندگی سے بغاوت حاصل کرلی ہے ۔ اللہ کی شریعت اور اسلامی قانون کو ترک کردیا ہے ۔ اور ہمارے یہ حالات اس حقیقت کے باوجود ہیں کہ ہمارے سیدھے سادھے فطری دین نے ہمیں صرف وہی احکام دئیے ہیں جو ہم سے وہ تمام بوجھ اتارتے ہیں جو عیسائیت نے عائد کئے تھے ۔ وہ تمام بندھن توڑدیئے ہیں جن میں ہم ناجائز طور پر جکڑے ہوئے تھے ۔ اس دین نے ہمارے ساتھ نہایت ہی مشفقانہ رحیمانہ سلوک کیا اور ہمارے لئے راہنمائی ، یسر اور استقامت کا سامان فراہم کیا ۔ اور ایک ایسے راستے پر ہمیں گامزن کیا جو ہر طرف سے ترقی واصلاح کی طرف جاتا ہے ۔ اور جس راستے میں کامیابی ہی کامیابی ہے ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم سورة البقرۃ کے آخری رکوع پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ عظیم الشان رکوع تین آیات پر مشتمل ہے۔ قبل ازیں ہم اسی طرح کا ایک عظیم رکوع پڑھ آئے ہیں جس کی چار آیات ہیں اور اس میں آیت الکرسی بھی ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں رکوع اپنی عظمت اور اپنے مقام کے اعتبار سے ایک دوسرے کے ہم پلہّ ہیں۔ آیت الکرسی توحید کے موضوع پر قرآن حکیم کی جامع ترین آیت ہے ‘ اور اس رکوع کی آخری آیت جامع ترین دعا پر مشتمل ہے۔آیت 284 لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط۔ آپ دیکھیں گے کہ اکثر و بیشتر اس طرح کے الفاظ سورتوں کے اختتام پر آتے ہیں۔وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ ط۔ تمہاری نیتیں اس کے علم میں ہیں۔ ایک حدیث میں الفاظ آتے ہیں : اِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَاَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنْ یَنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَاَعْمَالِکُمْ 36 یقیناً اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو اور تمہارے مال و دولت کو نہیں دیکھتا ‘ بلکہ تمہارے دلوں کو اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔ تو تمہارے دل میں جو کچھ ہے خواہ اسے کتنا ہی چھپالو اللہ کے محاسبے سے نہیں بچ سکو گے۔فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ ط۔ اختیار مطلق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارے ہاں اہل سنت کا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ پر لازم نہیں ہے کہ نیکوکار کو اس کی جزا ضرور دے اور بدکار کو اس کی سزا ضرور دے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اللہ ایسا کرے گا ‘ لیکن اللہ کی شان اس سے بہت اعلیٰ وارفع ہے کہ اس پر کسی شے کو لازم قرار دیا جائے۔ اس کا اختیار مطلق ہے ‘ وہ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ البروج کی شان کا حامل ہے۔ سورة الحج میں الفاظ آئے ہیں : اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یَشَاءُ یقیناً اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اہل تشیع کا موقف یہ ہے کہ اللہ پر عدل واجب ہے۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ اللہ عدل کرے گا ‘ جزاء و سزا میں عدل ہوگا ‘ لیکن عدل کرنا اس پر واجب نہیں ہے ‘ بلکہ اللہ نے جو شے اپنے اوپر واجب کی ہے وہ رحمت ہے۔ ازروئے الفاظ قرآنی : کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ ط الانعام : 12 اور : کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَلا الانعام : 54 تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر واجب کرلیا ہے۔

انسان کے ضمیر سے خطاب یعنی آسمان و زمین کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ چھوٹی بڑی چھپی یا کھلی ہر بات کو وہ جانتا ہے۔ ہر پوشیدہ اور ظاہر عمل کا وہ حساب لینے والا ہے، جیسے اور جگہ فرمایا آیت قُلْ اِنْ تُخْفُوْا مَا فِيْ صُدُوْرِكُمْ اَوْ تُبْدُوْهُ يَعْلَمْهُ اللّٰهُ) 3۔ آل عمران :29) کہہ دے کہ تمہارے سینوں میں جو کچھ ہے اسے خواہ تم چھپاؤ یا ظاہر کرو اللہ تعالیٰ کو اس کا بخوبی علم ہے، وہ آسمان و زمین کی ہر چیز کا علم رکھتا ہے اور ہر چیز پر قادر ہے اور فرمایا وہ ہر چھپی ہوئی اور علانیہ بات کو خوب جانتا ہے، مزید اس معنی کی بہت سی آیتیں ہیں، یہاں اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ وہ اس پر حساب لے گا، جب یہ آیت اتری تو صحابہ بہت پریشان ہوئے کہ چھوٹی بڑی تمام چیزوں کا حساب ہوگا، اپنے ایمان کی زیادتی اور یقین کی مضبوطی کی وجہ سے وہ کانپ اٹھے تو حضور ﷺ کے پاس آکر گھٹنوں کے بل گرپڑے اور کہنے لگے حضرت ﷺ نماز، روزہ، جہاد، صدقہ وغیرہ کا ہمیں حکم ہوا، وہ ہماری طاقت میں تھا ہم نے حتی المقدور کیا لیکن اب جو یہ آیت اتری ہے اسے برداشت کرنے کی طاقت ہم میں نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم یہود و نصاریٰ کی طرح یہ کہنا چاہتے ہو کہ ہم نے سنا اور نہیں مانا، تمہیں چاہئے کہ یوں کہو ہم نے سنا اور مانا، اے اللہ ہم تیری بخشش چاہتے ہیں۔ ہمارے رب ہمیں تو تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔ چناچہ صحابہ کرام نے اسے تسلیم کرلیا اور زبانوں پر یہ کلمات جاری ہوگئے تو آیت (اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ) 2۔ البقرۃ :285) اتری اور اللہ تعالیٰ نے اس تکلیف کو دور کردیا اور آیت لایکلف اللہ نازل ہوئی (مسند احمد) صحیح مسلم میں بھی یہ حدیث ہے اس میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس تکلیف کو ہٹا کر آیت لایکلف اللہ الخ، اتاری اور جب مسلمانوں نے کہا کہ اے اللہ ہماری بھول چوک اور ہماری خطا پر ہمیں نہ پکڑ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا نعم، یعنی میں یہی کروں گا۔ انہوں نے کہا آیت ربنا ولا تحمل علینا الخ، اللہ ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو ہم سے اگلوں پر ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ بھی قبول، پھر کہا ربنا ولاتحملنا اے اللہ ہم پر ہماری طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈال، اسے بھی قبول کیا گیا۔ پھر دعا مانگی اے اللہ ہمیں معاف فرمادے، ہمارے گناہ بخش اور کافروں پر ہماری مدد کر، اللہ تعالیٰ نے اسے بھی قبول فرمایا، یہ حدیث اور بھی بہت سے انداز سے مروی ہے۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت مجاہد کہتے ہیں میں نے حضرت ابن عباس کے پاس جا کر واقعہ بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے اس آیت وان تبدوا کی تلاوت فرمائی اور بہت روئے، آپ نے فرمایا اس آیت کے اترتے یہی حال صحابہ کا ہوا تھا، وہ سخت غمگین ہوگئے اور کہا دلوں کے مالک تو ہم نہیں۔ دل کے خیالات پر بھی پکڑے گئے تو یہ تو بڑی مشکل ہے۔ آپ نے فرمایا سمعنا واطعنا کہو، چناچہ صحابہ نے کہا اور بعد والی آیتیں اتریں اور عمل پر تو پکڑ طے ہوئی لیکن دل کے خطرات اور نفس کے وسوسے سے پکڑ منسوخ ہوگئی، دوسرے طریق سے یہ روایت ابن مرجانہ سے بھی اسی طرح مروی ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ قرآن نے فیصلہ کردیا کہ تم اپنے نیک و بد اعمال پر پکڑے جاؤ گے خواہ زبانی ہوں خواہ دوسرے اعضاء کے گناہ ہوں، لیکن دلی وسو اس معاف ہیں اور بھی بہت سے صحابہ اور تابعین سے اس کا منسوخ ہونا مروی ہے۔ صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دلی خیالات سے درگزر فرما لیا، گرفت اسی پر ہوگی جو کہیں یا کریں، بخاری مسلم میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب میرا بندہ برائی کا ارادہ کرے تو اسے نہ لکھو جب تک اس سے برائی سرزد ہو، اگر کر گزرے تو ایک برائی لکھو اور جب نیکی کا اراد کرے تو صرف ارادہ سے ہی نیکی لکھ لو اور اگر نیکی کر بھی لے تو ایک کے بدلے دس نیکیاں لکھو (مسلم) اور روایت میں ہے کہ ایک نیکی کے بدلے ساتھ سو تک لکھی جاتی ہیں، اور روایت میں ہے کہ جب بندہ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو فرشتے جناب باری میں عرض کرتے ہیں کہ اللہ تیرا یہ بندہ بدی کرنا چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رکے رہو جب تک کر نہ لے، اس کے نامہ اعمال میں نہ لکھو اگر لکھو گے تو ایک لکھنا اور اگر چھوڑ دے تو ایک نیکی لکھ لینا کیونکہ مجھ سے ڈر کر چھوڑتا ہے، حضور ﷺ فرماتے ہیں جو پختہ اور پورا مسلمان بن جائے اس کی ایک ایک نیکی کا ثواب دس سے لے کر سات سو تک بڑھتا جاتا ہے اور برائی نہیں بڑھتی، اور روایت میں ہے کہ سات سو سے بھی کبھی کبھی نیکی بڑھا دی جاتی ہے، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ بڑا بردبار ہونے والا وہ ہے جو باوجود اس رحم و کرم کے بھی برباد ہو، ایک مرتبہ اصحاب نے آکر عرض کیا حضرت کبھی کبھی تو ہمارے دل میں ایس وسوسے اٹھتے ہیں کہ زبان سے ان کا بیان کرنا بھی ہم پر گراں گزرتا ہے۔ آپ نے فرمایا ایسا ہونے لگا ؟ انہوں نے عرض کیا ہاں آپ نے فرمایا یہ صریح ایمان ہے (مسلم وغیرہ) حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ قیامت والے دن جب تمام مخلوق کو اللہ تعالیٰ جمع کرے گا تو فرمائے گا کہ میں تمہیں تمہارے دلوں کے ایسے بھید بتاتا ہوں جس سے میرے فرشتے بھی آگاہ نہیں، مومنوں کو تو بتانے کے بعد پھر معاف فرما دیا جائے گا لیکن منافق اور شک و شبہ کرنے والے لوگوں کو ان کے کفر کی درپردہ اطلاع دے کر بھی ان کی پکڑ ہوگی۔ ارشاد ہے (آیت ولکن یواخذکم بما کسبت قلوبکم یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے دلوں کی کمائی پر ضرور پکڑے گا یعنی دلی شک اور دلی نفاق کی بنا پر، حسن بصری بھی اسے منسوخ نہیں کہتے، امام ابن جریر بھی اسی روایت سے متفق ہیں اور فرماتے ہیں کہ حساب اور چیز ہے عذاب اور چیز ہے۔ حساب لئے جانے اور عذاب کیا جانا لازم نہیں، ممکن ہے حساب کے بعد معاف کردیا جائے اور ممکن ہے سزا ہو، چناچہ ایک حدیث میں ہے کہ ہم طواف کر رہے تھے ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر سے پوچھا کہ تم نے حضور ﷺ سے اللہ تعالیٰ کی سرگوشی کے متعلق کیا سنا ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ایمان والے کو اپنے پاس بلائے گا یہاں تک کہ اپنا بازو اس پر رکھ دے گا پھر اس سے کہے گا بتا تو نے فلاں فلاں گناہ کیا ؟ فلاں فلاں گناہ کیا ؟ وہ غریب اقرار کرتا جائے گا، جب بہت سے گناہ ہونے کا اقرار کرلے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا سن دنیا میں بھی میں نے تیرے ان گناہوں کی پردہ پوشی کی، اور اب آج کے دن بھی میں ان تمام گناہوں کو معاف فرما دیتا ہوں، اب اسے اس کی نیکیوں کا صحیفہ اس کے داہنے ہاتھ میں دے دیا جائے گا، ہاں البتہ کفار و منافق کو تمام مجمع کے سامنے رسوا کیا جائے گا اور ان کے گناہ ظاہر کئے جائیں گے اور پکارا جائے گا کہ یہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر تہمت لگائی، ان ظالموں پر اللہ کی پھٹکار ہے۔ حضرت زید نے ایک مرتبہ اس آیت کے بارے میں حضرت عائشہ سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا جب سے میں نے آنحضرت ﷺ سے اس بارے میں پوچھا ہے تب سے لے کر آج تک مجھ سے کسی شخص نے نہیں پوچھا، مگر آج تو نے پوچھا تو سن اس سے مراد بندے کو دنیاوی تکلیفیں مثلاً بخار وغیرہ تکلیفیں پہنچانا ہے، یہاں تک کہ مثلاً ایک جیب میں نقدی رکھی اور بھول گیا، تھوڑی پریشانی ہوئی مگر دوسری جیب میں ہاتھ ڈالا وہاں سے نقدی مل گی، اس پر بھی اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں، یہاں تک کہ مرنے کے وقت وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جس طرح خالص سرخ سونا ہو۔ ترمذی وغیرہ، یہ حدیث غریب ہے۔

آیت 284 - سورۃ البقرہ: (لله ما في السماوات وما في الأرض ۗ وإن تبدوا ما في أنفسكم أو تخفوه يحاسبكم به الله ۖ فيغفر...) - اردو