سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 49 (آیات 283 سے 286 تک)

۞ وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا۟ كَاتِبًا فَرِهَٰنٌ مَّقْبُوضَةٌ ۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ ٱلَّذِى ٱؤْتُمِنَ أَمَٰنَتَهُۥ وَلْيَتَّقِ ٱللَّهَ رَبَّهُۥ ۗ وَلَا تَكْتُمُوا۟ ٱلشَّهَٰدَةَ ۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُۥٓ ءَاثِمٌ قَلْبُهُۥ ۗ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ لِّلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ ۗ وَإِن تُبْدُوا۟ مَا فِىٓ أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ ٱللَّهُ ۖ فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَآءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَآءُ ۗ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ ءَامَنَ ٱلرَّسُولُ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِۦ وَٱلْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَمَلَٰٓئِكَتِهِۦ وَكُتُبِهِۦ وَرُسُلِهِۦ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِۦ ۚ وَقَالُوا۟ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ ٱلْمَصِيرُ لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا ٱكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ إِن نَّسِينَآ أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُۥ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِۦ ۖ وَٱعْفُ عَنَّا وَٱغْفِرْ لَنَا وَٱرْحَمْنَآ ۚ أَنتَ مَوْلَىٰنَا فَٱنصُرْنَا عَلَى ٱلْقَوْمِ ٱلْكَٰفِرِينَ
49

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور دستاویز لکھنے کے لیے کوئی کاتب نہ ملے، تو رہن بالقبض پر معاملہ کرو اگر تم میں سے کوئی شخص دوسرے پر بھروسہ کر کے اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرے، تو جس پر بھروسہ کیا گیا ہے، اسے چاہیے کہ امانت ادا کرے اور اللہ، اپنے رب سے ڈرے اور شہادت ہرگز نہ چھپاؤ جو شہادت چھپاتا ہے، اس کا دل گناہ میں آلودہ ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain kuntum AAala safarin walam tajidoo katiban farihanun maqboodatun fain amina baAAdukum baAAdan falyuaddi allathee itumina amanatahu walyattaqi Allaha rabbahu wala taktumoo alshshahadata waman yaktumha fainnahu athimun qalbuhu waAllahu bima taAAmaloona AAaleemun

آیت 283 وَاِنْ کُنْتُمْ عَلٰی سَفَرٍ وَّلَمْ تَجِدُوْا کَاتِبًا اگر دوران سفر کوئی لین دین کا یا قرض کا معاملہ ہوجائے اور کوئی کاتب نہ مل سکے۔فَرِہٰنٌ مَّقْبُوْضَۃٌ ط قرض لینے والا اپنی کوئی شے قرض دینے والے کے حوالے کر دے کہ میری یہ شے آپ کے قبضے میں رہے گی ‘ آپ اتنے پیسے مجھے دے دیجیے ‘ میں جب یہ واپس کر دوں گا آپ میری چیز مجھے لوٹا دیجیے گا۔ یہ رہن بالقبضہ ہے۔ لیکن رہن گروی رکھی ہوئی چیز سے کوئی فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں ہے ‘ وہ سود ہوجائے گا۔ مثلاً اگر مکان رہن رکھا گیا ہے تو اس پر قبضہ تو قرض دینے والا کا ہوگا ‘ لیکن وہ اس سے استفادہ نہیں کرسکتا ‘ اس کا کرایہ نہیں لے سکتا ‘ کرایہ مالک کو جائے گا۔ فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُکُمْ بَعْضًا یعنی ایک شخص دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے بغیر رہن کے اسے قرض دے دیتا ہے۔ فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَہٗ ایک شخص کے پاس رہن دینے کو کچھ نہیں تھا یا یہ کہ دوسرے بھائی نے اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس سے کوئی شے رہن نہیں لی اور اس کو قرض دے دیا تو یہ مال جو اس نے قرض لیا ہے یہ اس کے پاس قرض دینے والے کی امانت ہے ‘ جس کا واپس لوٹانا اس کے ذمے فرض ہے۔ ّ وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ ط وَلاَ تَکْتُمُوا الشَّہَادَۃَ ط وَمَنْ یَّکْتُمْہَا فَاِنَّہٗ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ ط بعض گناہوں کا اثر انسان کے ظاہری اعضاء تک محدود ہوتا ہے ‘ جبکہ بعض کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ شہادت کا چھپانا بھی اسی نوعیت کا گناہ ہے۔ اور اگر کسی کا دل داغ دار ہوگیا تو باقی کیا رہ گیا ؟

اردو ترجمہ

آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، سب اللہ کا ہے تم اپنے دل کی باتیں خواہ ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ بہرحال ان کا حساب تم سے لے لے گا پھر اسے اختیار ہے، جسے چاہے، معاف کر دے اور جسے چاہے، سزا دے وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lillahi ma fee alssamawati wama fee alardi wain tubdoo ma fee anfusikum aw tukhfoohu yuhasibkum bihi Allahu fayaghfiru liman yashao wayuAAaththibu man yashao waAllahu AAala kulli shayin qadeerun

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم سورة البقرۃ کے آخری رکوع پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ عظیم الشان رکوع تین آیات پر مشتمل ہے۔ قبل ازیں ہم اسی طرح کا ایک عظیم رکوع پڑھ آئے ہیں جس کی چار آیات ہیں اور اس میں آیت الکرسی بھی ہے۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں رکوع اپنی عظمت اور اپنے مقام کے اعتبار سے ایک دوسرے کے ہم پلہّ ہیں۔ آیت الکرسی توحید کے موضوع پر قرآن حکیم کی جامع ترین آیت ہے ‘ اور اس رکوع کی آخری آیت جامع ترین دعا پر مشتمل ہے۔آیت 284 لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط۔ آپ دیکھیں گے کہ اکثر و بیشتر اس طرح کے الفاظ سورتوں کے اختتام پر آتے ہیں۔وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اللّٰہُ ط۔ تمہاری نیتیں اس کے علم میں ہیں۔ ایک حدیث میں الفاظ آتے ہیں : اِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَاَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنْ یَنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَاَعْمَالِکُمْ 36 یقیناً اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں کو اور تمہارے مال و دولت کو نہیں دیکھتا ‘ بلکہ تمہارے دلوں کو اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔ تو تمہارے دل میں جو کچھ ہے خواہ اسے کتنا ہی چھپالو اللہ کے محاسبے سے نہیں بچ سکو گے۔فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ ط۔ اختیار مطلق اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارے ہاں اہل سنت کا عقیدہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ پر لازم نہیں ہے کہ نیکوکار کو اس کی جزا ضرور دے اور بدکار کو اس کی سزا ضرور دے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اللہ ایسا کرے گا ‘ لیکن اللہ کی شان اس سے بہت اعلیٰ وارفع ہے کہ اس پر کسی شے کو لازم قرار دیا جائے۔ اس کا اختیار مطلق ہے ‘ وہ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ البروج کی شان کا حامل ہے۔ سورة الحج میں الفاظ آئے ہیں : اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یَشَاءُ یقیناً اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اہل تشیع کا موقف یہ ہے کہ اللہ پر عدل واجب ہے۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ اللہ عدل کرے گا ‘ جزاء و سزا میں عدل ہوگا ‘ لیکن عدل کرنا اس پر واجب نہیں ہے ‘ بلکہ اللہ نے جو شے اپنے اوپر واجب کی ہے وہ رحمت ہے۔ ازروئے الفاظ قرآنی : کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ ط الانعام : 12 اور : کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَلا الانعام : 54 تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر واجب کرلیا ہے۔

اردو ترجمہ

رسول اُس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اِس رسول کے ماننے والے ہیں، انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اوراس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ: "ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے، ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی مالک! ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Amana alrrasoolu bima onzila ilayhi min rabbihi waalmuminoona kullun amana biAllahi wamalaikatihi wakutubihi warusulihi la nufarriqu bayna ahadin min rusulihi waqaloo samiAAna waataAAna ghufranaka rabbana wailayka almaseeru

آیت 285 اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط یہ ایک غور طلب بات اور بڑا باریک نکتہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ پر جب وحی آئی تو آپ ﷺ نے کیسے پہچان لیا کہ یہ بدروح نہیں ہے ‘ یہ جبرائیل امین علیہ السلام ہیں ؟ آخر کوئی اشتباہ بھی تو ہوسکتا تھا۔ اس لیے کہ پہلا تجربہ تھا۔ اس سے پہلے نہ تو آپ ﷺ نے کہانت سیکھی اور نہ آپ نے کوئی نفسیاتی ریاضتیں کیں۔ آپ ﷺ تو ایک کاروباری آدمی تھے اور اہل و عیال کے ساتھ بہت ہی بھرپور زندگی گزار رہے تھے۔ آپ ﷺ کا بلند ترین سطح کا امپورٹ ایکسپورٹ کا کاروبار تھا۔ یہ درحقیقت آپ ﷺ کی فطرت سلیمہ تھی جس نے وحی لانے والے فرشتے کو پہچان لیا اور آپ ﷺ اس وحی پر ایمان لے آئے۔ نبی کی فطرت اتنی پاک اور صاف ہوتی ہے کہ اس کے اوپر کسی بدروح وغیرہ کا کوئی اثر ہو ہی نہیں سکتا۔ بہرحال ہمارے لیے بڑی تسکین کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے ایمان کے تذکرے کے ساتھ ہمارے ایمان کا تذکرہ کیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اصحاب ایمان میں شامل فرمائے۔ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ۔کُلٌّ اٰمَنَ باللّٰہِ وَمَلٰٓءِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ قف سورۃ البقرۃ میں یہ دوسرا مقام ہے جہاں ایمان کے اجزاء کو گنا گیا ہے۔ قبل ازیں آیۃ البر آیت 177 میں اجزائے ایمان کی تفصیل بیان ہوچکی ہے۔ لاَ نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ قف۔ یہ بات تیسری مرتبہ آگئی ہے کہ اللہ کے رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی جائے گی۔ سولہویں رکوع میں ہم یہ الفاظ پڑھ چکے ہیں : لاَ نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ صلے وَنَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ ہم ان میں کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اللہ ہی کے فرماں بردار ہیں۔ اور سب سے پہلے آیت 4 میں یہ الفاظ آ چکے ہیں : وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ج وہ لوگ جو ایمان رکھتے ہیں اس پر بھی جو اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر نازل کیا گیا اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا۔ البتہ رسولوں کے درمیان تفضیل ثابت ہے اور ہم یہ آیت پڑھ چکے ہیں : تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ 7 مِنْھُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللّٰہُ وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ ط آیت 253 یہ رسول جو ہیں ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ ان میں سے وہ بھی تھے جن سے اللہ نے کلام کیا اور بعض کے درجے کسی اور اعتبار سے بلند کردیے۔وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَاق غُفْرَانَکَ رَبَّنَا غُفْرَانَکَ مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہے۔ یعنی نَسْءَلُکَ غُفْرَانَکَ اے اللہ ! ہم تجھ سے تیری مغفرت طلب کرتے ہیں ‘ ہم تیری بخشش کے طلب گار ہیں۔ وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ یہاں پر ایمان بالآخرۃ کا ذکر بھی آگیا جو اوپر ان الفاظ میں نہیں آیا تھا : کُلٌّ اٰمَنَ باللّٰہِ وَمَلٰٓءِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ قف۔ اب آخری آیت آرہی ہے۔

اردو ترجمہ

اللہ کسی متنفس پر اُس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اسی پر ہے (ایمان لانے والو! تم یوں دعا کیا کرو) اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے در گزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La yukallifu Allahu nafsan illa wusAAaha laha ma kasabat waAAalayha ma iktasabat rabbana la tuakhithna in naseena aw akhtana rabbana wala tahmil AAalayna isran kama hamaltahu AAala allatheena min qablina rabbana wala tuhammilna ma la taqata lana bihi waoAAfu AAanna waighfir lana wairhamna anta mawlana faonsurna AAala alqawmi alkafireena

آیت 286 لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا الاَّ وُسْعَہَا ط یہ آیت اللہ تعالیٰ کے بہت بڑے فضل و کرم کا مظہر ہے۔ میں نے آیت 186 کے بارے میں کہا تھا کہ یہ دنیا میں حقوق انسانی کا سب سے بڑا منشور Magna Carta ہے کہ اللہ اور بندے کے درمیان کوئی فصل نہیں ہے : اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ میں تو ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی اور جہاں بھی وہ مجھے پکارے۔ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ پس انہیں بھی چاہیے کہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں۔ گویا دو طرفہ بات چلے گی ‘ یک طرفہ نہیں۔ میری مانو ‘ اپنی منواؤ ! تم دعائیں کرو گے ‘ ہم قبول کریں گے ! لیکن اگر تم ہماری بات نہیں مانتے تو پھر تمہاری دعا تمہارے منہ پردے ماری جائے گی ‘ خواہ قنوت نازلہ چالیس دن تو کیا اسّی دن تک پڑھتے رہو۔ یہی وجہ ہے کہ تمہاری دعاؤں کے باوجود تمہیں سقوط ڈھا کہ کا سانحہ دیکھنا پڑا ‘ تمہیں یہودیوں کے ہاتھوں شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اگرچہ ان مواقع پر حرمین شریفین میں قنوت نازلہ پڑھی جاتی رہی ‘ لیکن تمہاری دعائیں کیونکر قبول ہوتیں ! تمہارا جرم یہ ہے کہ تم نے اللہ کو پیٹھ دکھائی ہوئی ہے ‘ اس کے دین کو پاؤں تلے روندا ہوا ہے ‘ اللہ کے باغیوں سے دوستی رکھی ہوئی ہے۔ کسی نے ماسکو کو اپنا قبلہ بنا رکھا تھا تو کسی نے واشنگٹن کو۔ لہٰذا تمہاری دعائیں تمہارے منہ پردے ماری گئیں۔لیکن آیت زیر مطالعہ اس اعتبار سے بہت بڑی رحمت کا مظہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اندھے کی لاٹھی والا معاملہ نہیں ہے کہ تمام انسانوں سے محاسبہ ایک ہی سطح پر ہو۔ اللہ جانتا ہے کہ کس کی کتنی وسعت ہے اور اسی کے مطابق کسی کو ذمہّ دارٹھہراتا ہے۔ اور یہ وسعت موروثی اور ماحولیاتی عوامل پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہر شخص کو جو genes ملتے ہیں وہ دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور ان genes کی اپنی اپنی خصوصیات properties اور تحدیدات ‘ limitations ہوتی ہیں۔ اسی طرح ہر شخص کو دوسرے سے مختلف ماحول میسرّ آتا ہے۔ تو ان موروثی عوامل hereditary factors اور ماحولیاتی عوامل environmental factors کے حاصل ضرب سے انسان کی شخصیت کا ایک ہیولیٰ بنتا ہے ‘ جس کو مستری لوگ پاٹن کہتے ہیں۔ جب لوہے کی کوئی شے ڈھالنی مقصود ہو تو اس کے لیے پہلے مٹی یا لکڑی کا ایک سانچہ pattern بنایا جاتا ہے۔ اس کو ہمارے ہاں کاریگر اپنی بولی میں پاٹن کہتے ہیں۔ اب آپ لوہے کو پگھلا کر اس میں ڈالیں گے تو وہ اسی صورت میں ڈھل جائے گا۔ قرآن کی اصطلاح میں یہ شاکلہ ہے جو ہر انسان کا بن جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖط فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ھُوَ اَھْدٰی سَبِیْلاً بنی اسرائیل کہہ دیجیے کہ ہر کوئی اپنے شاکلہ کے مطابق عمل کر رہا ہے۔ پس آپ کا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ کون سیدھی راہ پر ہے۔ اس شاکلہ کے اندر اندر آپ کو محنت کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کس کا شاکلہ وسیع تھا اور کس کا تنگ تھا ‘ کس کے genes اعلیٰ تھے اور کس کے ادنیٰ تھے ‘ کس کے ہاں ذہانت زیادہ تھی اور کس کے ہاں جسمانی قوت زیادہ تھی۔ اسے خوب معلوم ہے کہ کس کو کیسی صلاحیتیں ودیعت کی گئیں اور کیسا ماحول عطا کیا گیا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے ماحولیاتی عوامل اور موروثی عوامل کو ملحوظ رکھ کر اس کی استعدادات کے مطابق حساب لے گا۔ فرض کیجیے ایک شخص کے اندر استعداد ہی 20 درجے کی ہے اور اس نے 18 درجے کام کر دکھایا تو وہ کامیاب ہوگیا۔ لیکن اگر کسی میں استعداد سو درجے کی تھی اور اس نے 50 درجے کام کیا تو وہ ناکام ہوگیا۔ حالانکہ کمیت کے اعتبار سے 50 درجے 18 درجے سے زیادہ ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کا محاسبہ جو ہے وہ انفرادی سطح پر ہے۔ اس لیے فرمایا گیا : وَکُلُّھُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا مریم اور سب لوگ قیامت کے دن اس کے حضور فرداً فرداً حاضر ہوں گے۔ وہاں ہر ایک کا حساب اکیلے اکیلے ہوگا اور وہ اس کی وسعت کے مطابق ہوگا۔ لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا الاَّ وُسْعَہَا ط کے الفاظ میں جو ایک اہم اصول بیان کردیا گیا ہے ‘ بعض لوگ دنیا کی زندگی میں اس کا غلط نتیجہ نکال بیٹھتے ہیں۔ وہ دنیا کے معاملات میں تو خوب بھاگ دوڑ کرتے ہیں لیکن دین کے معاملے میں کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے اندر صلاحیت اور استعداد ہی نہیں ہے۔ یہ محض خود فریبی ہے۔ استعداد و استطاعت اور ذہانت و صلاحیت کے بغیر تو دنیا میں بھی آپ محنت نہیں کرسکتے ‘ کوئی نتائج حاصل نہیں کرسکتے ‘ کچھ کما نہیں سکتے۔ لہٰذا اپنے آپ کو یہ دھوکہ نہ دیجیے اور جو کچھ کرسکتے ہوں ‘ وہ ضرور کیجیے۔ اپنی شخصیت کو کھود کھود کر اس میں سے جو کچھ نکال سکتے ہوں وہ نکالیے ! ہاں آپ نکال سکیں گے اتنا ہی جتنا آپ کے اندر ودیعت ہے۔ زیادہ کہاں سے لے آئیں گے ؟ اور اللہ نے کس میں کیا ودیعت کیا ہے ‘ وہ وہی جانتا ہے۔ تمہارا محاسبہ اسی کی بنیاد پر ہوگا جو کچھ اس نے تمہیں دیا ہے۔ اس مضمون کی اہمیت کا اندازہ کیجیے کہ یہ قرآن مجید میں پانچ مرتبہ آیا ہے۔ لَھَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ ط۔ اس مقام پر بھی ل اور عَلٰی کے استعمال پر غور کیجیے۔ لَھَا مَا کَسَبَتْ سے مراد ہے جو بھی نیکی اس نے کمائی ہوگی وہ اس کے لیے ہے ‘ اس کے حق میں ہے ‘ اس کا اجر وثواب اسے ملے گا۔ وَعَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ ط سے مراد ہے کہ جو بدی اس نے کمائی ہوگی اس کا وبال اسی پر آئے گا ‘ اس کی سزا اسی کو ملے گی۔ اب وہ دعا آگئی ہے جو قرآن مجید کی جامع ترین اور عظیم ترین دعا ہے : رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَاْنَا ج ایمان اور عمل صالح کے راستے پر چلتے ہوئے اپنی شخصیت کے کونوں کھدروں میں سے امکان بھر اپنی باقی ماندہ توانائیوں residual energies کو بھی نکال نکال کر اللہ کی راہ میں لگا لیں ‘ لیکن اس کے بعد بھی اپنی محنت پر ‘ اپنی نیکی ‘ اپنی کمائی اور اپنے کارناموں پر کوئی غرّہ نہ ہو ‘ کوئی غرور نہ ہو ‘ کہیں انسان دھوکہ نہ کھاجائے۔ بلکہ اس کی کیفیت تواضع ‘ عجز اور انکساری کی رہنی چاہیے۔ اور اسے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اے پروردگار ! ہماری بھول چوک پر ہم سے مؤاخذہ نہ فرمانا۔ انسان کے اندر خطا اور نسیان دونوں چیزیں گندھی ہوئی ہیں : اَلْاِنْسَانُ مُرَکَّبٌ مِنَ الْخَطَاأ وَالنِّسْیَانِ خطا یہ ہے کہ آپ نے اپنی امکانی حد تک تو نشانہ ٹھیک لگایا تھا ‘ لیکن نشانہ خطا ہوگیا۔ اس پر آپ کی گرفت نہیں ہوگی ‘ اس لیے کہ آپ کی نیت صحیح تھی۔ ایک اجتہاد کرنے والا اجتہاد کر رہا ہے ‘ اس نے امکانی حد تک کوشش کی ہے کہ صحیح رائے تک پہنچے ‘ لیکن خطا ہوگئی۔ اللہ معاف کرے گا۔ مجتہد مخطی بھی ہو تو اس کو ثواب ملے گا اور مجتہد مصیب ہو ‘ صحیح رائے پر پہنچ جائے تو اس کو دوہرا ثواب ملے گا۔ اور نسیان یہ ہے کہ بھولے سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے : اِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ عَنْ اُمَّتِی الْخَطَأَ وَالنِّسْیَانَ 37 اللہ تعالیٰ نے میری امتّ سے خطا اور نسیان معاف فرما دیا ہے۔رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا ج۔ ایک حمل بوجھ وہ ہوتا ہے جس کو لے کر انسان چلتا ہے۔ اسی سے حمال بنا ہے جو ایک بوری کو یا بوجھ کو اٹھا کر چل رہا ہے۔ جو بوجھ آپ کی طاقت میں ہے اور جسے لے کر آپ چل سکیں وہ حمل ہے ‘ اور جس بوجھ کو آپ اٹھا نہ سکیں اور وہ آپ کو بٹھا دے اس کو اصر کہتے ہیں۔ یہ لفظ سورة الاعراف آیت 157 میں پھر آئے گا : وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط ان الفاظ میں ٌ محمد رسول اللہ ﷺ کی یہ شان بیان ہوئی ہے کہ انہوں نے لوگوں کے وہ بوجھ جو ان کی طاقت سے بڑھ کر تھے ‘ ان کے کندھوں سے اتار دیے۔ ہم سے پہلے لوگوں پر بڑے بھاری بوجھ ڈالے گئے تھے۔ شریعت موسوی ہماری شریعت کی نسبت بہت بھاری تھی۔ جیسے ان کے ہاں روزہ رات ہی سے شروع ہوجاتا تھا ‘ لیکن ہمارے لیے یہ کتنا آسان کردیا گیا کہ روزے سے رات کو نکال دیا گیا اور سحری کرنے کی تاکید فرمائی گئی : تَسَحَّرُوْا فَاِنَّ فِی السُّحُوْرِ بَرَکَۃً 38 سحری ضرور کیا کرو ‘ اس لیے کہ سحریوں میں برکت رکھی گئی ہے۔ پھر رات میں تعلق زن و شو کی اجازت دی گئی۔ ان کے روزے میں خاموشی بھی شامل تھی۔ یعنی نہ کھانا ‘ نہ پینا ‘ نہ تعلق زن و شو اور نہ گفتگو۔ ہمارے لیے کتنی آسانی کردی گئی ہے ! ان کے ہاں یوم سبت کا حکم اتنا سخت تھا کہ پورا دن کوئی کام نہیں کرو گے۔ ہمارے ہاں جمعہ کی اذان سے لے کر نماز کے ادا ہوجانے تک ہر کاروبار دنیوی حرام ہے۔ لیکن اس سے پہلے اور اس کے بعد آپ کاروبار کرسکتے ہیں۔ رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ج وَاعْفُ عَنَّاوقفۃ ہماری لغزشوں کو معاف کرتا رہ !وَاغْفِرْ لَنَاوقفۃ ہماری خطاؤں کی پردہ پوشی فرما دے !مغفرت کے لفظ کو سمجھ لیجیے۔ اس میں ڈھانپ لینے کا مفہوم ہے۔ مِغْفَرْ ’ خود ‘ ہیلمٹ کو کہتے ہیں ‘ جو جنگ میں سر پر پہنا جاتا ہے۔ یہ سر کو چھپا لیتا ہے اور اسے گولی یا تلوار کے وار سے بچاتا ہے۔ تو مغفرت یہ ہے کہ گناہوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ڈھانپ دے ‘ ان کی پردہ پوشی فرما دے۔وَارْحَمْنَآوقفۃ اَنْتَ مَوْلٰٹنَا تو ہمارا پشت پناہ ہے ‘ ہمارا والی ہے ‘ ہمارا حامی و مددگار ہے۔ ہم یہ آیت پڑھ آئے ہیں : اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْالا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط آیت 257۔فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ انہی الفاظ پر وہ دعا ختم ہوئی تھی جو طالوت کے ساتھیوں نے کی تھی۔ اب اہل ایمان کو یہ دعا تلقین کی جا رہی ہے ‘ اس لیے کہ مرحلہ سخت آ رہا ہے۔ گویا : ؂تاب لاتے ہی بنے گی غالب مرحلہ سخت ہے اور جان عزیز !اب کفار کے ساتھ مقابلے کا مرحلہ آ رہا ہے اور اس کے لیے مسلمانوں کو تیار کیا جا رہا ہے۔ یہ درحقیقت غزوۂ بدر کی تمہید ہے۔بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم۔

49