لیکن اس ظاہری ضمانت کے ساتھ شارع اہل ایمان کے ضمیر کے اندر اللہ خوفی کا جذبہ پیدا کرکے انہیں آمادہ کرتا ہے کہ وہ امانت دار بنیں ، اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ، اس لئے کہ ظاہری ضمانت کے مقابلے میں اللہ خوفی وہ آخری ضمانت ہے جو کسی معاملے میں کارگر ثابت ہوسکتی ہے ۔ اور جس کی اساس پر کسی قانون پر صحیح طرح عمل کیا جاسکتا ہے۔ اور جس کی وجہ سے کسی حق دار تک اس کا حق اچھی طرح پہنچ سکتا ہے ۔ اور سب کے حقوق محفوظ ہوسکتے ہیں۔
مدیون پر بھروسہ کیا جاتا ہے کہ وہ قرضہ پوری طرح ادا کرے گا اور مقروض پر یہ اعتماد کیا گیا ہے کہ وہ مرہون چیز کو اپنی اصلی حالت میں واپس کرے گا ۔ دونوں کو یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ خدا خوفی کا رویہ اختیار کرکے اپنے اپنے فرائض سر انجام دیں ۔ اس لئے کہ اللہ ہی ہے جو ان دونوں کا رب ہے ۔ وہی دونوں کا نگہبان ، مربی ، سربراہ ، حکم اور قاضی ہے ۔ یہ تمام تصورات ، معاملات اور فرائض وذمہ داریوں کی ادائیگی کے معاملے میں بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ بعض مفسرین نے یہ کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس نے امانتداری کے معاملے میں آیت کتابت کو مسنوخ کردیا ہے ۔ لیکن یہ رائے درست نہیں ہے ۔ اس لئے کہ صرف حالت سفر میں معاملات کے اندر تحریر نہ کرنے کی رخصت ہے اور یہ امانت داری اور قرض مکفول کا تعلق بھی سفر کی حالت سے ہے اور سفر میں قرض خواہ اور قرض دار دونوں ہی ایک دوسرے پر بھروسہ کرکے معاملہ کرتے ہیں ۔ غرض تقویٰ و طہارت پر ابھارتے ہوئے یہاں شہادت کے سلسلے میں بات اختتام تک پہنچتی ہے ۔ اور یہاں شہادت سے مراد وہ شہادت نہیں ہے جو بوقت کتابت کسی تحریر پر ڈالی جاتی ہے بلکہ اس سے مراد ہو شہادت ہے جو عدالت میں دی جاتی ہے ۔ اس لئے کہ یہ شہادت گواہ کے پاس ایک قسم کی امانت ہوتی ہے ۔
یہاں بات کی نسبت قلب مومن کی طرف کی جاتی ہے ۔ اور گناہ کا استناد قلب مؤمن کی طرف کیا جاتا ہے ۔ یوں شہادت کا چھپانا دراصل اپنے ضمیر میں گناہ کا چھپانا ہے ۔ دونوں باتوں کا تعلق دل و دماغ کی گہرائیوں سے ہے۔ چناچہ خاتمہ کلام ایک دہمکی آمیز فقرے سے کیا جاتا ہے۔ جس میں یہ توجہ دلائی جاتی ہے کہ
اور وہ اپنے علم کے مطابق پوشیدہ قلبی اعمال پر بھی جزاء وسزادے گا۔ “
انہی ہدایات کی مزید تاکید اگلی آیت میں بھی جاری ہے ۔ مالک ارض وسماوات کے خوف پر دلوں کو ابھارا جاتا ہے ۔ جو اس کائنات کی تمام چیزوں کا مالک حقیقی ہے ۔ جو تمام دلی بھیدوں کا بھی جاننے والا ہے اور تمام ظاہری باتوں سے بھی خبردار ہے ۔ اور وہ تمام اعمال پر سزا اور جزاء بھی دینے والا ہے ۔ وہی ہے جو تمام بندوں کے معاملات پر فیصلے کرتا ہے۔ کسی اس کی رحمت نازل ہوتی ہے اور کوئی اس کے عذاب میں گرفتار ہوتا ہے۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے اور ہر چیز اس کی مشیئت کے تابع ہے ۔ اور اللہ کی مشیئت بےقید ہے ۔
آیت 283 وَاِنْ کُنْتُمْ عَلٰی سَفَرٍ وَّلَمْ تَجِدُوْا کَاتِبًا اگر دوران سفر کوئی لین دین کا یا قرض کا معاملہ ہوجائے اور کوئی کاتب نہ مل سکے۔فَرِہٰنٌ مَّقْبُوْضَۃٌ ط قرض لینے والا اپنی کوئی شے قرض دینے والے کے حوالے کر دے کہ میری یہ شے آپ کے قبضے میں رہے گی ‘ آپ اتنے پیسے مجھے دے دیجیے ‘ میں جب یہ واپس کر دوں گا آپ میری چیز مجھے لوٹا دیجیے گا۔ یہ رہن بالقبضہ ہے۔ لیکن رہن گروی رکھی ہوئی چیز سے کوئی فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں ہے ‘ وہ سود ہوجائے گا۔ مثلاً اگر مکان رہن رکھا گیا ہے تو اس پر قبضہ تو قرض دینے والا کا ہوگا ‘ لیکن وہ اس سے استفادہ نہیں کرسکتا ‘ اس کا کرایہ نہیں لے سکتا ‘ کرایہ مالک کو جائے گا۔ فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُکُمْ بَعْضًا یعنی ایک شخص دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے بغیر رہن کے اسے قرض دے دیتا ہے۔ فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَہٗ ایک شخص کے پاس رہن دینے کو کچھ نہیں تھا یا یہ کہ دوسرے بھائی نے اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس سے کوئی شے رہن نہیں لی اور اس کو قرض دے دیا تو یہ مال جو اس نے قرض لیا ہے یہ اس کے پاس قرض دینے والے کی امانت ہے ‘ جس کا واپس لوٹانا اس کے ذمے فرض ہے۔ ّ وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ ط وَلاَ تَکْتُمُوا الشَّہَادَۃَ ط وَمَنْ یَّکْتُمْہَا فَاِنَّہٗ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ ط بعض گناہوں کا اثر انسان کے ظاہری اعضاء تک محدود ہوتا ہے ‘ جبکہ بعض کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ شہادت کا چھپانا بھی اسی نوعیت کا گناہ ہے۔ اور اگر کسی کا دل داغ دار ہوگیا تو باقی کیا رہ گیا ؟
مسئلہ رہن، تحریر اور گواہی یعنی بحالت سفر اگر ادھار کا لین دین ہو اور کوئی لکھنے والا نہ ملے یا ملے مگر قلم و دوات یا کاغذ نہ ہو تو رہن رکھ لیا کرو اور جس چیز کو رہن رکھنا ہو اسے حقدار کے قبضے میں دے دو۔ مقبوضہ کے لفظ سے استدلال کیا گیا ہے کہ رہن جب تک قبضہ میں نہ آجائے لازم نہیں ہوتا، جیسا کہ امام شافعی اور جمہور کا مذہب ہے اور دوسری جماعت نے استدلال کیا ہے کہ رہن کا مرتہن کے ہاتھ میں مقبوض ہونا ضروری ہے۔ امام احمد اور ایک دوسری جماعت میں یہی منقول ہے، ایک اور جماعت کا قول ہے کہ رہن صرف میں ہی مشروع ہے، جیسے حضرت مجاہد وغیرہ لیکن صحیح بخاری صحیح مسلم شافعی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جس وقت فوت ہوئے اس وقت آپ کی زرہ مدینے کے ایک یہودی ابو الشحم کے پاس تیس وسق جو کے بدلے گروی تھی جو آپ ﷺ نے اپنے گھر والوں کے کھانے کیلئے لئے تھے۔ ان مسائل کے بسط و تفصیل کی جگہ تفسیر نہیں بلکہ احکام کی بڑی بڑی کتابیں وللہ الحمد والمنتہ و بہ المستعان اس سے بعد کے جملے (آیت فان امن) سے حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ اس کے پہلے کا حکم منسوخ ہوگیا ہے، شعبی فرماتے ہیں جب نہ دینے کا خوف ہو تو نہ لکھنے اور نہ گواہ رکھنے کی کوئی حرج نہیں۔ جسے امانت دی جائے اسے خود اللہ رکھنا چاہئے، رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ادا کرنے کی ذمہ داری اس ہاتھ پر ہے جس نے کچھ لیا۔ ارشاد ہے شہادت کو نہ چھپاؤ نہ اس میں خیانت کرو نہ اس کے اظہار کرنے سے رکو، ابن عباس وغیرہ فرماتے ہیں جھوٹی شہادت دینی یا شہادت کو چھپانا گناہ کبیرہ ہے، یہاں بھی فرمایا اس کا چھپانے والا خطا کار دل والا ہے جیسے اور جگہ ہے آیت (وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ ۙاللّٰهِ اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِيْنَ) 5۔ المائدہ :106) یعنی ہم اللہ کی شہادت کو نہیں چھپاتے، اگر ہم ایسا کریں گے تو یقینا ہم گنہگاروں میں سے ہیں، اور جگہ فرمایا ایمان والو عدل و انصاف کے ساتھ اللہ کے حکم کی تعمیل یعنی گواہیوں پر ثابت قدم رہو، گو اس کی برائی خود تمہیں پہنچے یا تمہارے ماں باپ کو یا رشتے کنبے والوں کو اگر وہ مالدار ہو تو اور فقیر ہو تو اللہ تعالیٰ ان دونوں سے اولیٰ ہے، خواہشوں کے پیچھے پڑ کر عدل سے نہ ہٹو اور اگر تم زبان دباؤ گے یا پہلو تہی کرو گے تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے اعمال سے خبردار ہے، اسی طرح یہاں بھی فرمایا کہ گواہی کو نہ چھپاؤ اس کا چھپانے والا گنہگار دل والا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو خوب جانتا ہے۔