سورۃ البقرہ: آیت 280 - وإن كان ذو عسرة فنظرة... - اردو

آیت 280 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا۟ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ

اردو ترجمہ

تمہارا قرض دار تنگ دست ہو، تو ہاتھ کھلنے تک اُسے مہلت دو، اور جو صدقہ کر دو، تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اگر تم سمجھو

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain kana thoo AAusratin fanathiratun ila maysaratin waan tasaddaqoo khayrun lakum in kuntum taAAlamoona

آیت 280 کی تفسیر

یہ وہ خوشگوار دادوہش ہے جسے اسلامی نظام انسانیت کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ وہ یہ گھنی چھاؤں ہے جس میں ، خود غرضی ، لالچ ، بخل اور مفاد پرستی کی تپش میں تھکی ماندی انسانیت پناہ لیتی ہے اور سکون کا سانس لیتی ہے ۔ یہ قرضدار کے لئے بھی رحمت ہے اور قرض خواہ کے لئے بھی رحمت ہے ۔ اور اس پورے معاشرہ کے لئے بھی رحمت و شفقت ہے ۔ جس میں یہ دونوں رہتے ہیں ۔

ہمیں یقین ہے دور حاضر کی مادی جاہلیت کے زیر سایہ پلنے والے جدید مفلوک الحال لوگ ہماری یہ باتیں لایعنی تصور کریں گے اور یہ باتیں انہیں نامعقول نظر آئیں گی ۔ ان کے منہ کا بگڑا ہوا ذائقہ ، ان باتوں کے مٹھاس کا احساس ہر گز نہیں کرسکتا ۔ خصوصاً وہ وحشی سود خوارجو اس کرہ ارض کے کونے کونے پر پھیلے ہوئے ہیں ۔ جو اپنے شکار کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں ۔ جو ایسے محتاجوں اور مفلوک الحال لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں جن پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ چکے ہیں ۔ جو روٹی کپڑے اور علاج معالجے کے ضرورت مند ہیں ۔ تاکہ ان کا استحصال کریں ۔ بعض اوقات ان کے پاس اس قدر رقم نہیں ہوتی کہ وہ اپنے مردے دفن کرسکیں اور ان لوگوں کو اس کنجوس اور بخیل دنیا میں کوئی نہیں ملتا ۔ جو ان کے لئے بےلوث معاون ثابت ہو ۔ اس لئے وہ مجبور ہوکر ان وحشی سودخوروں کے جال میں پھنس جاتے ہیں ۔ ان کی حالت ایک ایسے شکار جیسی ہوتی ہے جو خودچل کر دام میں اپنے آپ کو پھنساتا ہے ۔ ضرورتمندی اور مجبوری انہیں دھکیل کر ان سودخوروں کی طرف لے جاتی ہے ۔ بعض اوقات یہ سود خور تو ایسے بیت المالوں کی صورت میں منظم ہوتے ہیں جو سرمایہ فراہم کرتے ہیں اور بعض اوقات بینکوں کی شکل میں کام کرتے ہیں ۔ یہ سب کے سب اسلام کی نظر میں برابر ہیں ۔ ہاں فرق صرف اس قدر ہے کہ ان کی پشت پر سود کی اقتصادی نظریات کی قوت ہوتی ہے ۔ بڑی بڑی علمی کتابیں ان کے اس کاروبار کی تائید میں ہوتی ہیں ۔ بڑے بڑے تعلیمی ادارے اور انسٹی ٹیوٹ ان کی حمایت میں لگے ہوتے ہیں ۔ عدالتیں اور بڑی بڑی فوجیں اس نظام کی مؤید ہوتی ہیں ۔ یہ تمام ادارے جرم سود خوری کے لئے جواز فراہم کرتے ہیں ، ان کے حامی ان کو تحفظ دینے کے لئے ایک وسیع قانونی نظام اور ضابطے کا کررہے ہوتے ہیں اور مددگار ہوتے ہیں ۔ اور جو لوگ انہیں سود ادا نہیں کرتے ۔ اس قانونی نظام کے ذریعہ وہ ان کی پکڑ دھکڑ شروع کردیتے ہیں ۔ اور یہ سب داروگیر نصاف کے نام پر ہوتی ہے ۔

ہمیں پورا یقین ہے کہ ہماری یہ باتیں ہرگز ایسے لوگوں کے دلوں میں نہیں اترتیں ۔ لیکن ہمیں پورا یقین ہے کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ حق ہے اور ہمیں بھی یہ یقین ہے کہ تمام انسانیت کی فلاح اسی میں ہے کہ وہ ان باتوں پر کان دھرے ، اور ان پر عمل کرے یعنی وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ ................ ” تمہارا قرضدار اگر تنگ دست ہو تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو ، اور جو صدقہ کرو تمہارے لئے یہ بہتر ہے ۔ اگر سمجھو۔ “

اسلامی نظام زندگی میں ضابطہ یہ ہے کہ تنگ دست کا تعاقب نہ کیا جائے ۔ نہ تو قرض خواہ یہ کرے گا اور نہ ہی قانون اور عدالتوں کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ تنگ دست مقروض کا تعاقب کریں ۔ بلکہ اسے اس وقت تک مہلت دی جائے گی جب تک اس کے حالات اچھے نہیں ہوجاتے ۔ پھر اسلامی سوسائٹی مقروض کو اپنے حال پر نہیں چھوڑتی ۔ پہلے تو قرض خواہ سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اسے معاف کردے ۔ اگر وہ ایسا کرسکے ۔ وہ خود اس کے لئے بھی بہتر ہے اور مدیوں کے لئے بھی خیر ہے۔ یہ اس سوسائٹی کے لئے بھی بہتر ہے جو اپنے افراد کے لئے تکافل فراہم کرتی ہے ۔ بشرطیکہ داین ومدیون دونوں اس بات کو سمجھیں کہ اللہ کے علم میں جو کچھ ہے وہ ان کے لئے مفید ہے ۔

اگر قرض خواہ کو یہ اجازت دیدی جائے کہ وہ مدیون پر عرصہ حیات تنگ کردے اور اس کا تعاقب کرے تو اس صورت میں تحریم ربا سے جو فوائد مطلوب تھے ، وہ سب فوت ہوجائیں گے ۔ اس لئے کہ مدیون تنگ دست ہے اس کے پاس کچھ نہیں ۔ دوسری جانب سے قرض خواہ ازروئے قانون اسے تنگ کرنے کا مجاز ہے ۔ چناچہ یہاں شرط و جواب شرط کی شکل میں یہ حکم دیا گیا کہ اگر تنگ دست ہے تو اسے اس وقت تک مہلت دی جائے جب تک اس کے مالی حالات اچھے نہیں ہوجاتے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ تنگدستی کی صورت میں قرض خواہ کو یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ اگر وہ ایسی صورت میں کچھ معاف کردے یا سب کچھ معاف کردے تو اس کے لئے یہ بہت اچھا ہے ۔

مہلت کے علاوہ قرآن کریم نے دوسری جگہ ایسے نادار قرض داروں کے لئے زکوٰۃ فنڈ سے بھی ایک مد فراہم کی ہے ، تاکہ وہ اپنا قرضہ ادا کرسکے ۔ اور اس کی زندگی کا بوجھ اترجائے۔ اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلفُقرَآءِ وَالمَسَاکِینِ........ وَالغَارِمِینَ................” بیشک صدقات کے حق دار فقراء مساکین ،........ اور قرضدار ہیں ۔ “ الغارمین سے مراد وہ قرضدار ہیں جو قرضوں کے بوجھ تلے دب گئے ہوں ۔ وہ نہیں جنہوں نے قرضے لے کر عیاشی اور لذت پرستی کی ہو ۔ بلکہ انہوں نے جائز مدات میں اخراجات کئے ہوں یا وہ معقول وجوہ کی بنا پر قرضدار ہوگئے ہوں ۔ اور ان کے حالات خراب ہوگئے ہوں۔

اب آخر میں قرآن کریم ۔ خاتمہ کلام پر ، ایک نہایت موثر اور گہرا اشارہ دیتا ہے جس سے ایک مومن پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے ۔ وہ تمنا کرنے لگتا ہے کہ کاش وہ سب ہی قرضہ معاف کردے ۔ اور قیامت کے دن اللہ کے ہاں فلاح پالے ۔

آیت 280 وَاِنْ کَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍ ط اسے مہلت دو کہ اس کے ہاں کشادگی پیدا ہوجائے تاکہ وہ آسانی سے آپ کا قرض آپ کو واپس کرسکے۔ وَاَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ تمہارا بھائی غریب تھا ‘ اس کو تم نے قرض دیا تھا ‘ اس پر کچھ سود لے کر کھا بھی چکے ہو ‘ باقی سود کو تو چھوڑا ہی ہے ‘ اگر اپنا رأس المال بھی اس کو بخش دو تو یہ انفاق ہوجائے گا ‘ یہ اللہ کو قرض حسنہ ہوجائے گا اور تمہارے لیے ذخیرۂ آخرت بن جائے گا۔ یہ بات سمجھ لیجیے کہ آپ کی جو بچت ہے ‘ جسے میں نے قدر زائد surplus valueکہا تھا ‘ اسلامی معیشت کے اندر اس کا سب سے اونچا مصرف انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دو ‘ صدقہ کر دو۔ اس سے کم تر قرض حسنہ ہے۔ آپ کے کسی بھائی کا کاروبار رک گیا ہے ‘ اس کو قرض دے دو ‘ اس کا کاروبار چل پڑے گا اور پھر وہ تمہیں تمہاری اصل رقم واپس کر دے گا۔ یہ قرض حسنہ ہے ‘ اس کا درجہ انفاق سے کم تر ہے۔ تیسرا درجہ مضاربت کا ہے ‘ جو جائز تو ہے مگر پسندیدہ نہیں ہے۔ اگر تم زیادہ ہی خسیس ہو تو چلو اپنا سرمایہ اپنے کسی بھائی کو مضاربت پردے دو۔ اور مضاربت یہ ہے کہ رقم تمہاری ہوگی اور کام وہ کرے گا۔ اگر بچت ہوجائے تو اس میں تمہارا بھی حصہ ہوگا ‘ لیکن اگر نقصان ہوجائے تو وہ کلُ کا کل تمہارا ہوگا ‘ تم اس سے کوئی تاوان نہیں لے سکتے۔ اس کے بعد ان تین درجوں سے بھی نیچے اتر کر اگر تم کہو کہ میں یہ رقم تمہیں دے رہا ہوں ‘ اس پر اتنے فیصد منافع تو تم نے بہرحال دینا ہی دینا ہے ‘ تو اس سے بڑھ کر حرام شے کوئی نہیں ہے۔ اس آیت میں ہدایت کی جا رہی ہے کہ اگر تمہارا مقروض تنگی میں ہے تو پھر انتظار کرو ‘ اسے اس کی کشائش اور فراخی تک مہلت دے دو۔ اور اگر تم صدقہ ہی کر دو ‘ خیرات کر دو ‘ بخش دو تو وہ تمہارے لیے بہتر ہوگا۔اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ اگر تمہیں اللہ نے حکمت عطا کردی ہے ‘ اگر تم اولو الالباب ہو ‘ اگر تم سمجھ دار ہو تو تم اس بچت کے امیدوار بنو جو اللہ کے ہاں اجر وثواب کی صورت میں تمہیں ملے گی۔ اس کے مقابلے میں اس رقم کی کوئی حیثیت نہیں جو تمہیں مقروض سے واپس ملنی ہے۔اگلی آیت نزول کے اعتبار سے قرآن مجید کی آخری آیت ہے

آیت 280 - سورۃ البقرہ: (وإن كان ذو عسرة فنظرة إلى ميسرة ۚ وأن تصدقوا خير لكم ۖ إن كنتم تعلمون...) - اردو