سورۃ البقرہ: آیت 277 - إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات... - اردو

آیت 277 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّٰلِحَٰتِ وَأَقَامُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَوُا۟ ٱلزَّكَوٰةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

اردو ترجمہ

ہاں، جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، اُن کا اجر بے شک ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna allatheena amanoo waAAamiloo alssalihati waaqamoo alssalata waatawoo alzzakata lahum ajruhum AAinda rabbihim wala khawfun AAalayhim wala hum yahzanoona

آیت 277 کی تفسیر

نظامِ ربا کے صفحہ بالمقابل کا بنیادی عنصر زکوٰۃ ہے اور زکوٰۃ کی ماہیت یہ ہے کہ وہ ایک قسم کا خرچ اور انفاق ہے ، جس کا کوئی عوض اس جہاں میں نہیں ہے نہ اس خرچ کے نتیجے میں کچھ واپس ہوتا ہے اور سیاق کلام میں زکوٰۃ کے ذکر سے مقصد یہ ہے کہ یہاں مومنین کی اس اہم صفت کو بیان کردیا جائے نیز اسلامی معاشرہ کی اس اہم صفت کو بیان کردیا جائے اور یہ بتایاجائے کہ سودی معاشرہ کے مقابلے میں اس ایمانی معاشرہ میں اطمینان قلب ، امن وامان ، اللہ کی رضامندی اور برکات الٰہی کے کیا کیا نظارے ہیں اور کس قدر پر کیف منظر ہے اس معاشرہ کا ۔

زکوٰۃ دراصل ایک ایسے معاشرے کا اصل الاصول ہے جو باہم تضامن اور باہم کفالت پر مبنی ہوتا ہے اور اس معاشرے کے کسی بھی شعبے اور کسی بھی پہلو میں سودی اقتصادیات کانہ وجود ہوتا ہے اور نہ وہ اقتصادیات سے کوئی ضمانت طلب کرتا ہے ۔

امت اسلامیہ کے احساس اور خود ہمارے احساسات میں زکوٰۃ کی اصل صورت پریشان اور گم ہوگئی ہے ۔ امت مسلمہ کی بدبخت نسلوں نے صدیاں گزرگئیں کہ اسلام کے اقتصادی نظام کو عملاً چلتا ہوا نہیں دیکھا ہے۔ اس نے اسلامی نظام زندگی کا عملی مشاہدہ نہیں کیا کہ وہ خالص ایمانی تصور حیات ، خالص نظریاتی تربیت اور نظریاتی اخلاق کی اساس پر قائم ہوا ہو اور وہ انسانیت کو اور انسانی نفسیات کو ایک خاص نہج پر ڈھال رہا ہو اور خود یہ نظام اس طرح ہو کہ اس میں اس کے صحیح تصورات زندہ ہوں ، پاک اخلاق نظام رائج ہو اور اونچی اقدار حیات قائم ہوں اور اس میں اسلام کے اقتصادی نظام کا مرکزی نکتہ زکوٰۃ ہو جبکہ اس کے مقابلے میں تمام دوسرے نظام عملاً ربا کی اساس پر قائم ہوں اور پھر امت دیکھے کہ انسانی زندگی نشو ونما پارہی ہو اور اقتصادی نظام انفرادی سعی وجدوجہد پر قائم ہو اور اگر باہم تعاون کی کوئی اجتماعی شکل ہو تو وہ ربا سے پاک ہو ۔

زکوٰۃ کی اصل شکل و صورت ہمارے دور کی بدبخت اور ہدایت سے محروم نسلوں کے دل و دماغ میں مشتبہ ہوگئی ہے ، اس لئے کہ ان نسلوں نے انسانیت کی وہ بلندو برتر خوبصورت تصویر دیکھی ہی نہیں جو نظام زکوٰۃ کے نتیجے میں سامنے آتی ہے۔ موجودہ نسلیں جدید مادی نظام کے اندر پیدا ہوئیں اور اسی کے سائے میں پروان چڑھیں اور یہ جدید نظام خالص سودی تصور پر قائم ہے ۔ ان نسلوں نے صرف بخل اور کنجوسی ، حرص و لالچ اور انفرادیت اور خود غرضی ہی دیکھی ہے جو دورجدید میں ہر کسی کے دلوں پر حکمران ہے ۔ اس دور میں دولت محتاجوں اور غریبوں تک صرف قابل نفرت سودی نظام ہی کے ذریعے پہنچ رہی ہے ۔ لوگ بغیر کسی اجتماعی کفالتی نظام کے زندگی بسر کررہے ہیں ۔ صرف اس صورت میں انہیں تحفظ ملتا ہے جب وہ خود سرمایہ رکھتے ہوں یا انہوں نے اپنی دولت کا ایک معتدبہ حصہ خرچ کرکے موجودہ سودی نظام کے تحت اپنے آپ کو انشور کرالیا ہو ۔ آج صنعت اور تجارت کو صرف اس صورت میں سرمایہ دستیاب ہوتا ہے۔ جب وہ اسے سودی نظام کے واسطہ سے لیں ، اس لئے جدید نسلوں کے دل و دماغ پر یہ بات چھاگئی ہے کہ ماسوائے سودی نظام اقتصادیات کے اور کوئی اقتصادی نظام سرے سے موجود ہی نہیں ہے اور یہ کہ صرف اسی نظام کے تحت زندگی بسر ہوسکتی ہے۔

جدید دور کے انسانوں کے ذہن سے زکوٰۃ کا حقیقی تصور یوں مٹ گیا ہے کہ وہ اسے صرف ایک انفرادی احسان اور نیکی سمجھنے لگے ہیں اور یہ کہ اس کی اساس پر کوئی اجتماعی نظام استوار نہیں ہوسکتا لیکن یہ لوگ حاصلات زکوٰۃ کے عظیم حجم کا تصور بھی نہیں کرسکتے کہ اڑھائی فیصد زکوٰۃ اصل سرمایہ اور منافع دونوں پر واجب ہے اور وہ لوگ بڑی خوشی سے یہ شرح ادا کرتے ہیں جن کی تربیت اسلام نے کی ہوئی ہوتی ہے اور اپنے مخصوص انداز میں کی ہوئی ہوتی ہے۔ وعظ و ارشاد کے ذریعہ ، قانون سازی کے ذریعہ اور ایک ایسے نظام زندگی کے ذریعے جس کا تصور ان کے دل و دماغ پر چھایا ہوتا ہے اور اس شرح زکوٰ ۃ کو ایک اسلامی حکومت بطور ایک لازمی حق کے وصول کرتی ہے ، یوں نہیں کہ کوئی چیز بطور خیرات یہ حق ادا کرے اور اس عظیم فنڈ سے ان تمام لوگوں کی کفالت ہوتی ہے ، جن کے لیے اپنے ذاتی وسائل ناکافی ہوجائیں اور حالت یہ ہوتی ہے کہ کہ معاشرے کا ہر فرد یہ ضمانت پالیتا ہے کہ اس کی زندگی اور اس کی اولاد کی زندگی محفوظ ہے اور ہر حالت میں محفوظ ہے ۔ اس فنڈ میں سے ان لوگوں کے قرضے بھی ادا کئے جاتے ہیں جو قرضوں کے بوجھ تلے دب جائیں چاہے یہ تجارتی قرضے ہوں یا غیر تجارتی ہوں۔

اسلام میں اہمیت اس بات کو حاصل نہیں ہے کہ کسی نظام کی ظاہری شکل و صورت کیسی ہے ۔ اہمیت اس بات کو حاصل ہے کہ کسی نظام کی روح کیسی ہے ۔ اسلام اپنی تربیت اور ہدایت ، اپنے قانونی نظام اور ضابطہ بندی اور اپنے پورے نظام کے ذریعہ جس قسم کی سوسائٹی وجود میں لانا چاہتا ہے ۔ وہ سوسائٹی اسکے نظام کی شکل و صورت ، اس کے اجزاء اور اداروں اور اس کی حکمت عملی کے ساتھ مکمل طور پر متناسب اور متناسق ہوتی ہے ۔ وہ سوسائٹی اس کے قانون کا تکملہ ہوتی ہے ۔ اس سوسائٹی کے افراد کے ضمیر کی گہرائیوں میں سے ایک اجتماعی کفالتی نظام وجود میں آتا ہے ۔ اس کے تمام ادارے اور حکمت عملیاں ایک اجتماعی کفالت وجود میں لاتی ہیں ۔ اس نظام میں فرد اور ادارہ باہم معاون اور باہم کفیل ہوتے ہیں ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ان لوگوں کے فہم وادراک سے بہت بلند ہے جو جدید مادی نظام زندگی میں پروان چڑھے ہیں لیکن یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہم مسلمان بخوبی جانتے ہیں ۔ اور ہمارا ذوق ایمانی اس کی مٹھاس محسوس کرتا ہے ۔ جبکہ جدید دور کے باسی اپنی بدبختی اور بد ذوقی کی وجہ سے یہ مٹھاس نہیں محسوس کرتے ۔ جدید دور کا انسان اس محرومی اور بدبختی میں اس لئے مبتلا ہے کہ اس کی باگ دوڑ اس جدید مادی نظام کے ہاتھ میں ہے ۔ خدا کرے یہ اسی طرح محروم ہوں اور یہ اس خیر سے دور ہی رہیں جس کی خوشخبری اللہ ان الفاظ میں دیتے ہیں ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ............... ” جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں ، ان کا اجر بیشک ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقعہ نہیں “ ایسے لوگ جو ان آسمانی ہدایات سے محروم ہیں ۔ وہ قلبی اطمینان اور سکون سے بھی محروم رہیں گے ۔ جبکہ اجر وثواب سے تو وہ محروم ہیں ہی۔ اس لئے کہ وہ اپنی جہالت ، اپنی جاہلیت ، اپنی ضلالت اور اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے تو وہ محروم ہیں ۔

اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے پختہ عہد کرتا ہے کہ جو لوگ اپنی زندگی کو ایمان اور عمل صالح پر استوار کریں گے ۔ باہم اقتصادی تعاون کرکے اپنی معیشت کو درست کریں گے ۔ ان کا اجر اللہ کے ہاں محفوظ ہے ۔ وہ امن میں رہیں گے ، وہ کسی خوف و خطرے سے دوچار نہ ہوں گے ۔ وہ خوش قسمت ہیں ۔ محروم نہیں ہیں ۔ اس لئے وہ ہر قسم کے اندیشوں سے محفوظ ہوں گے لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ............... ” ان کا اجر بیشک ان کے رب کے پاس ہے ، ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ “

ایسے حالات میں جبکہ ایک سودی نظام اقتصادیات والی سوسائٹی اللہ کے قہر وغضب کی مستحق قرار پاتی ہے ۔ اس کے افراد مخبوط الحواس اور گم کردہ راہ ہوتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں وہ روحانی خوف اور رنج والم کا شکار ہوتے ہیں ۔

انسانی تاریخ میں انسانیت نے صحیح اسلامی معاشرہ میں یہ نظام امن و سکون بچشم سر دیکھا ہے ۔ اور وہ رنج والم اور خوف وبے اطمینانی کی عام فضاء وہ جدید سودی معاشرہ میں بھی دیکھ رہی ہے ۔ اے کاش کہ ہم ہر حساس دل کو پکڑ کر جھنجھوڑ سکتے ۔ تو اسے خوب جھنجھوڑتے اور وہ خواب غفلت سے بیدار ہوکر اس حقیقت کو پالیتا ۔ اے کاش ! کہ اگر ممکن ہوتا تو ہم سوتی آنکھ کو جگاتے ۔ اسے کھولتے اور وہ اس عظیم حقیقت کو پالیتی ۔

افسوس کے ہمارے پاس وہ قوت نہیں ہے ۔ اگر ہوتی تو ہم ایسا کر گزرتے ........ ہم صرف حقیقت کی طرف اشارہ ہی کرسکتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ اللہ اس گم کردہ راہ اور بدنصیب انسانیت کو اس طرف متوجہ کردیں ۔ اور دل تو اللہ تعالیٰ کی دوانگلیوں کے درمیان ہیں وہ جدہر چاہے پھیردے ۔ اور ہدایت تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ ہی میں ہے جسے چاہے عطاکرے ۔ ان حالات میں امن وفراوانی ، جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے ایک اسلامی سوسائٹی کے ساتھ کررہا ہے ۔ جو اپنی زندگی سے ربا کو نکال دیتی ہے ۔ یوں وہ گویا کفر اور معصیت کو اپنی زندگی سے نکال پھینکتی ہے ۔ اور اپنی زندگی کو ایمان ، عمل صالح اور اللہ کی بندگی اور نظام زکوٰۃ پر قائم کرتی ہے ۔ غرض ایسے حالات میں امن وفراوانی میں اللہ تعالیٰ اپنی جانب لوگوں کو پکارتے ہیں ۔ جو ایمان لے آئے ہیں اور یہ پکار دراصل آخری وارننگ ہے ۔ انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو نجس اور مفلس سودی اقتصادی نظام سے پاک کردیں اور اگر وہ اس کام کے لئے تیار نہیں ہیں تو یہ گویا ان کی جانب سے اللہ اور رسول ﷺ کے خلاف اعلان جنگ ہے ۔ بغیر کسی نرمی کے ، بغیر مہلت کے اور بغیر کسی تاخیری حربے کے۔

آیت 277 اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ لَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ ج نیک عمل میں ظاہر بات ہے جو شے حرام ہے اس کا چھوڑ دینا بھی لازم ہے۔

سود خور قابل گردن زنی ہیں اور قرض کے مسائل ان آیات میں اللہ تعالیٰ ایماندار بندوں کو تقوے کا حکم دے رہا ہے اور ایسے کاموں سے روک رہا ہے جن سے وہ ناراض ہو اور لوگ اس کی قربت سے محروم ہوجائیں تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا لحاظ کرو اور اپنے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور تمہارا سود جن مسلمانوں پر باقی ہے خبردار اس سے اب نہ لو جبکہ وہ حرام ہوگیا، یہ آیت قبیلہ ثقیف بن عمرو بن عمیر اور بنو مخزوم کے قبیلے بنو مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جاہلیت کے زمانہ میں ان کا سودی کاروبار تھا، اسلام کے بعد بنو عمرہ نے بنو مغیرہ سے اپنا سود طلب کیا اور انہوں نے کہا کہ اب ہم اسے اسلام لانے کے بعد ادا نہ کریں گے آخر جھگڑا بڑھا حضرت عتاب بن اسید جو مکہ شریف کے نائب تھے انہوں نے نبی ﷺ کو یہ لکھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور حضور ﷺ نے یہ لکھوا کر بھیج دی اور انہیں قابل وصول سود لینا حرام قرا دیا چناچہ وہ تائب ہوئے اور اپنا سود بالکل چھوڑ دیا، اس آیت میں ہے ان لوگوں پر جو سود کی حرمت کا علم ہونے کے باوجود بھی اس پر جمے رہیں، زبردست وعید ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں سودخور سے قیامت کے دن کہا جائے گا، لے اپنے ہتھیار لے لے اور اللہ سے لڑنے کیلئے آمادہ ہوجا، آپ فرماتے ہیں امام وقت پر فرض ہے کہ سودخور لوگ جو اسے نہ چھوڑیں ان سے توبہ کرائے اور اگر نہ کریں تو ان کی گردن مار دے، حسن اور ابن سیرین کا فرمان بھی یہی ہے، حضرت قتادہ فرماتے ہیں دیکھو اللہ نے انہیں ہلاکت کی دھمکی دی انہیں ذلیل کئے جانے کے قابل ٹھہرایا، خبردار سود سے اور سودی لین دین سے بچتے رہو حلال چیزوں اور حلال خریدو فروخت بہت کچھ ہے، فاقے گزرتے ہوں تاہم اللہ کی معصیت سے رکو، وہ روایت بھی یاد ہوگی جو پہلے گزر چکی کہ حضرت عائشہ نے ایک ایسے معاملہ کی نسبت جس میں سود تھا، حضرت زید بن ارقم کے بارے میں فرمایا تھا کہ ان کا جہاد بھی برباد ہوگیا اس لئے کہ جہاد اللہ کے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کا نام ہے اور سود خوری خود اللہ سے مقابلہ کرنا ہے لیکن اس کی اسناد کمزور ہے، پھر ارشاد ہوتا ہے اگر توبہ کرلو تو اصل مال جو کسی پر فرض ہے بیشک لے لو۔ نہ تم تول میں زیادہ لے کر اس پر ظلم کرو نہ کم دے کر یا نہ دے کر وہ تم پر ظلم کرے، نبی ﷺ نے حجۃ الوداع کے خطبے میں فرمایا جاہلیت کا تمام سود میں برباد کرتا ہوں۔ اصلی رقم لے لو، سود لے کر نہ کسی پر ظلم کرو نہ کوئی تمہارا مال مار کر تم پر زیادتی کرے، حضرت عباس بن عبدالمطلب کا تمام سود میں ختم کرتا ہوں۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اگر تنگی والا شخص اور اس کے پاس تمہارے قرض کی ادائیگی کے قابل مال نہ ہو تو اسے مہلت دو کہ کچھ اور مدت کے بعد ادا کردے یہ نہ کرو کہ سود در سود لگائے چلے جاؤ کہ مدت گزر گئی، اب اتنا اتنا سود لیں گے، بلکہ بہتر تو یہ بات ہے کہ ایسے غرباء کو اپنا قرض معاف کردو، طبرانی کی حدیث میں ہے کہ جو شخص قیامت کے دن اللہ کے عرش کا سایہ چاہتا ہے وہ یا تو ایسے تنگی والے شخص کو مہلت دے یا معاف کردے، مسند احمد کی حدیث میں ہے جو شخص مفلس آدمی پر اپنا قرض وصول کرنے میں نرمی کرے اور اسے ڈھیل دے اس کو جتنے دن وہ قرض کی رقم ادا نہ کرسکے اتنے دنوں تک ہر دن اتنی رقم خیرات کرنے کا ثواب ملتا ہے، اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا ہر دن اس سے دگنی رقم کے صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا، یہ سن کر حضرت بریدہ نے فرمایا حضور ﷺ پہلے تو آپ نے ہر دن اس کے مثل ثواب ملنے کا فرمایا تھا آج دو مثل فرماتے ہیں، فرمایا ہاں جب تک معیاد ختم نہیں ہوئی مثل کا ثواب اور معیاد گزرنے کے بعد دو مثل کا، حضرت ابو قتادہ کا قرض ایک شخص کے ذمہ تھا وہ تقاضا کرنے کو آتے لیکن یہ چھپ رہتے اور نہ ملتے، ایک دن آئے گھر سے ایک بچہ نکلا، آپ نے اس سے پوچھا اس نے کہا ہاں گھر میں موجود ہیں کھانا کھا رہے ہیں، اب حضرت ابو قتادہ نے اونچی آواز سے انہیں پکارا اور فرمایا مجھے معلوم ہوگیا کہ تم گھر میں موجود ہو، آؤ باہر آؤ، جواب دو۔ وہ بیچارے باہر نہیں نکلے آپ نے کہا کیوں چھپ رہے ہو ؟ کہا حضرت بات یہ ہے کہ میں مفلس ہوں اس وقت میرے پاس رقم نہیں بوجہ شرمندگی کے آپ سے نہیں ملتا، آپ نے کہا قسم کھاؤ، اس نے قسم کھالی، آپ روئے اور فرمانے لگے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے جو شخص نادار قرضدار کو ڈھیل دے یا اپنا قرضہ معاف کردے وہ قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سائے تلے ہوگا (صحیح مسلم) ابو لیلیٰ نے ایک حدیث روایت کی ہے حضور ﷺ فرماتے ہیں قیامت کے دن ایک بندہ اللہ کے سامنے لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے سوال کرے گا کہ بتا میرے لئے تو نے کیا نیکی ہے ؟ وہ کہے گا اے اللہ ایک ذرے کے برابر بھی کوئی ایسی نیکی مجھ سے نہیں ہوئی جو آج میں اس کی جزا طلب کرسکوں، اللہ اس سے پھر پوچھے گا وہ پھر یہی جواب دے گا پھر پوچھے گا پھر یہی کہے گا، پروردگار ایک چھوٹی سی بات البتہ یاد پڑتی ہے کہ تو نے اپنے فضل سے کچھ مال بھی مجھے دے رکھا تھا میں تجارت پیشہ شخص تھا، لوگ ادھار سدھار لے جاتے تھے، میں اگر دیکھتا کہ یہ غریب شخص ہے اور وعدہ پر قرض نہ ادا کرسکا تو میں اسے اور کچھ مدت کی مہلت دے دیتا، عیال داروں پر سختی نہ کرتا، زیادہ تنگی والا اگر کسی کو پاتا تو معاف بھی کردیتا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا پھر میں تجھ پر آسانی کیوں نہ کروں، میں تو سب سے زیادہ آسانی کرنے والا ہوں، جا میں نے تجھے بخشا جنت میں داخل ہوجا، مستدرک حاکم میں ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے غازی کی مدد کرے یا قرض دار بےمال کی اعانت کرے یا غلام جس نے لکھ کردیا ہو کہ اتنی رقم دے دوں تو آزاد ہوں، اس کی مدد کرے اللہ تعالیٰ اسے اس دن سایہ دے گا جس دن اس کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔ مسند احمد میں ہے جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی دعائیں قبول کی جائیں اور اس کی تکلیف و مصیبت دور ہوجائے اسے چاہئے کہ تنگی والوں پر کشادگی کرے، عباد بن ولید فرماتے ہیں کہ میں اور میرے والد طلب علم میں نکلے اور ہم نے کہا کہ انصاریوں سے حدیثیں پڑھیں، سب سے پہلے ہماری ملاقات حضرت ابو الیسر سے ہوئی، ان کے ساتھ ان کے غلام تھے جن کے ہاتھ میں ایک دفتر تھا اور غلام وآقا کا ایک ہی لباس تھا، میرے باپ نے کہا چچا آپ تو اس وقت غصہ میں نظر آتے ہیں، فرمایا ہاں سنو فلاں شخص پر میرا کچھ قرض تھا، مدت ختم ہوچکی تھی، میں قرض مانگنے گیا، سلام کیا اور پوچھا کہ کیا وہ مکان پر ہیں، گھر میں سے جواب ملا کہ نہیں، اتفاقاً ایک چھوٹا بچہ باہر آیا میں نے اس سے پوچھا تمہارے والد کہاں ہیں ؟ اس نے کہا آپ کی آواز سن کر چارپائی تلے جا چھپے ہیں، میں نے پھر آواز دی اور کہا تمہارا اندر ہونا مجھے معلوم ہوگیا ہے اب چھپو نہیں باہر آؤ جواب دو ، وہ آئے میں نے کہا کیوں چھپ رہے ہو، کہا محض اس لئے کہ میرے پاس روپیہ تو اس وقت ہے نہیں، آپ سے ملوں گا تو کوئی جھوٹا عذر حیلہ بیان کروں گا یا غلط وعدہ کروں گا، اس لئے سامنے ہونے سے جھجھکتا تھا، آپ رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں، آپ سے جھوٹ کیا کہوں ؟ میں نے کہا سچ کہتے ہو، اللہ کی قسم تمہارے پاس روپیہ نہیں، اس نے کہا ہاں سچ کہتا ہوں اللہ کی قسم کچھ نہیں، تین مرتبہ میں نے قسم کھلائی اور انہوں نے کھائی، میں نے اپنے دفتر میں سے ان کا نام کاٹ دیا اور رقم جمع کرلی اور کہہ دیا کہ جاؤ میں نے تمہارے نام سے یہ رقم کاٹ دی ہے، اب اگر تمہیں مل جائے تو دے دینا ورنہ معاف۔ سنو میری دونوں آنکھوں نے دیکھا اور میرے ان دونوں کانوں نے سنا اور میرے اس دل نے اسے خوب یاد رکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص کسی سختی والے کو ڈھیل دے یا معاف کردے، اللہ تعالیٰ اسے اپنے سایہ میں جگہ دے گا، مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد آتے ہوئے زمین کی طرف اشارہ کرکے فرمایا جو شخص کسی نادار پر آسانی کردے یا اسے معاف کردے اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی گرمی سے بچا لے گا، سنو جنت کے کام مشقت والے ہیں اور خواہش کیخلاف ہیں، اور جہنم کے کام آسانی والے اور خواہش نفس کے مطابق ہیں، نیک بخت وہ لوگ ہیں جو فتنوں سے بچ جائیں، وہ انسان جو غصے کا گھونٹ پی لے اس کو اللہ تعالیٰ ایمان سے نوازتا ہے، طبرانی میں ہے جو شخص کسی مفلس شخص پر رحم کرکے اپنے قرض کی وصولی میں اس پر سختی نہ کرے اللہ بھی اس کے گناہوں پر اس کو نہیں پکڑتا یہاں تک کہ وہ توبہ کرے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو نصیحت کرتا ہے، انہیں دنیا کے زوال، مال کے فنا، آخرت کا آنا، اللہ کی طرف لوٹنا، اللہ کو اپنے اعمال کا حساب دینا اور ان تمام اعمال پر جزا و سزا کا ملنا یاد دلاتا ہے اور اپنے عذابوں سے ڈراتا ہے، یہ بھی مروی ہے کہ قرآن کریم کی سب سے آخری آیت یہی ہے، اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نبی ﷺ صرف نو راتوں تک زندہ رہے اور ربیع الاول کی دوسری تاریخ کو پیر کے دن آپ ﷺ کا انتقال ہوگیا۔ ابن عباس سے ایک روایت میں اس کے بعد حضور ﷺ کی زندگی اکتیس دن کی بھی مروی ہے، ابن جریح فرماتے ہیں کہ سلف کا قول ہے کہ اس کے بعد حضور ﷺ نو رات زندہ رہے ہفتہ کے دن سے ابتدا ہوئی اور پیر والے دن انتقال ہوا۔ الغرض قرآن کریم میں سب سے آخر یہی آیت نازل ہوئی ہے۔

آیت 277 - سورۃ البقرہ: (إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات وأقاموا الصلاة وآتوا الزكاة لهم أجرهم عند ربهم ولا خوف عليهم ولا هم يحزنون...) - اردو