سورۃ البقرہ: آیت 264 - يا أيها الذين آمنوا لا... - اردو

آیت 264 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تُبْطِلُوا۟ صَدَقَٰتِكُم بِٱلْمَنِّ وَٱلْأَذَىٰ كَٱلَّذِى يُنفِقُ مَالَهُۥ رِئَآءَ ٱلنَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ ۖ فَمَثَلُهُۥ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُۥ وَابِلٌ فَتَرَكَهُۥ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَىْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا۟ ۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْكَٰفِرِينَ

اردو ترجمہ

اے ایمان لانے والو! اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اُس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو، جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایما ن رکھتا ہے، نہ آخرت پر اُس کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک چٹان تھی، جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی اس پر جب زور کا مینہ برسا، تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں، اس سے کچھ بھی اُن کے ہاتھ نہیں آتا، اور کافروں کو سیدھی راہ دکھانا اللہ کا دستور نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo la tubtiloo sadaqatikum bialmanni waalatha kaallathee yunfiqu malahu riaa alnnasi wala yuminu biAllahi waalyawmi alakhiri famathaluhu kamathali safwanin AAalayhi turabun faasabahu wabilun fatarakahu saldan la yaqdiroona AAala shayin mimma kasaboo waAllahu la yahdee alqawma alkafireena

آیت 264 کی تفسیر

یہ ہے وہ پہلا منظر یہ ایک مکمل اور دواجزاء سے مرکب منظر ہے ، جو اپنی شکل وضع اور اپنے نتائج کے اعتبار سے ایک دوسرے کے متضاد مناظر ہیں ۔ ہر منظر کے پھر مختلف اجزاء ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ متناسق ہیں ۔ وہ تعبیر اور مشاہدے کے اعتبار سے بھی باہم متوافق اور ہم رنگ ہیں ۔ اور معانی اور جذبات کے اعتبار سے بھی جو معانی اور جو جذبات اس منظر کشی سے پیدا کرنے مطلوب تھے ۔ جن کا اظہار اس پوری منظرکشی سے مطلوب تھا یا جو شعور ان مناظر کی وجہ سے پیدا کیا جانا مطلوب تھا۔

پہلے منظر میں ہمیں ایک ایسے دل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو پتھر سے بھی سخت ہے۔ كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ................ ” اس شخص کی طرح جو اپنے مال کو محض لوگوں کو دکھاوے کے لئے خرچ کرتا ہے ۔ نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ آخرت پر ۔ “ اسے ایمان کی تروتازگی اور مٹھاس کا شعور نہیں ہوتا لیکن وہ اپنی اس سنگ دلی پر ریاکاری کا پردہ ڈالتا ہے ۔ یہ دل جس پر ریاکاری کا پردہ ہوتا ہے ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹان ہو اور اس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی ہو ۔ ایک ایسا پتھر جس پر کوئی تروتازگی نہ ہو ، جس میں کوئی نرمی نہ ہو ۔ اس پر مٹی کی ایک ہلکی سی تہہ ہو اور اس کی سختی اور درشتی کو اس تہہ نے چھپارکھا ہو ۔ بعینہ اسی طرح جس طرح ایک شخص اپنی ریاکاری کی وجہ سے اپنے دل کی کیفیت کو چھپالیتا ہے جو ایمان سے خالی ہو۔

فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ................ ” اس پر زور کا مینہ برسا تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان رہ گئی ۔ “ موسلا دھار بارش نے مٹی کی اس خفیف تہہ کو ختم کردیا۔ چٹان ظاہر ہوگئی اور وہ کیا تھی ؟ ایک سخت اور مضبوط اور کرخت چٹان ۔ جس پر کوئی روئیدگی ممکن نہ تھی۔ نہ اس سے کسی قسم کی پیداوار حاصل ہوسکتی تھی ۔ یہی مثال اس دل کی ہے جو اپنا مال محض ریاکاری کے طور پر خرچ کرتا ہے ۔ جس سے کوئی فائدہ نہ ہوگا دنیا میں اور نہ آخرت میں ۔

آیت 264 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بالْمَنِّ وَالْاَذٰیلا کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہٗ رِءَآء النَّاسِ اگرچہ اپنا مال خرچ کر رہا ہے ‘ لوگوں کو صدقات دے رہا ہے ‘ بڑے بڑے خیراتی ادارے قائم کردیے ہیں ‘ لیکن یہ سب کچھ ریاکاری کے لیے ‘ سرکار دربار میں رسائی کے لیے ‘ کچھ اپنے ٹیکس بچانے کے لیے اور کچھ اپنی ناموری کے لیے ہے۔ یہ سارے کام جو ہوتے ہیں اللہ جانتا ہے کہ ان میں کس کی کیا نیت ہے۔وَلاَ یُؤْمِنُ باللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ط جو کوئی ریاکاری کر رہا ہے وہ حقیقت میں اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔ ریا اور ایمان ایک دوسرے کی ضد ہیں ‘ جیسا کہ یہ حدیث ہم متعدد بار پڑھ چکے ہیں : مَنْ صَلّٰی یُرَاءِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ ‘ وَمَنْ صَامَ یُرَاءِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَاءِیْ فَقَدْ اَشْرَکَ 35جس نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا ‘ جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا اس نے شرک کیا ‘ اور جس نے دکھاوے کے لیے لوگوں کو صدقہ و خیرات دیا اس نے شرک کیا۔فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَابٌ اگر کسی چٹان پر مٹی کی تھوڑی سی تہہ جم گئی ہو اور وہاں آپ نے کچھ بیج ڈال دیے ہوں تو ہوسکتا ہے کہ وہاں کوئی فصل بھی اگ آئے ‘ لیکن وہ انتہائی ناپائیدار ہوگی۔فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَکَہٗ صَلْدًا ط بارش کے ایک ہی زوردار چھینٹے میں چٹان کے اوپر جمی ہوئی مٹی کی تہہ بھی بہہ گئی ‘ آپ کی محنت بھی ضائع ہوگئی ‘ آپ کا بیج بھی اکارت گیا اور آپ کی فصل بھی گئی۔ بارش سے دھل کر وہ چٹان اندر سے بالکل صاف اور چٹیل نکل آئی۔ یعنی سب کچھ گیا اور کچھ حاصل نہ ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاکاری کا یہی انجام ہوتا ہے کہ ہاتھ سے مال بھی دیا اور حاصل کچھ نہ ہوا۔ اللہ کے ہاں کسی اجر وثواب کا سوال ہی نہیں۔لاَ یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْءٍ مِّمَّا کَسَبُوْا ط ایسے لوگ اپنے تئیں صدقہ و خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں اس میں سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا۔وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ وہ ناشکروں اور منکرین نعمت کو سیدھی راہ نہیں دکھاتا اور انہیں بامراد نہیں کرتا۔اگلی آیت میں فوری تقابل simultaneous contrast کے طور پر ان لوگوں کے لیے بھی مثال بیان کی جا رہی ہے جو واقعتا اللہ تعالیٰ سے اجر وثواب کی امید رکھتے ہوئے خلوص و اخلاص سے خرچ کرتے ہیں۔

آیت 264 - سورۃ البقرہ: (يا أيها الذين آمنوا لا تبطلوا صدقاتكم بالمن والأذى كالذي ينفق ماله رئاء الناس ولا يؤمن بالله واليوم الآخر ۖ...) - اردو