سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 44 (آیات 260 سے 264 تک)

وَإِذْ قَالَ إِبْرَٰهِۦمُ رَبِّ أَرِنِى كَيْفَ تُحْىِ ٱلْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِى ۖ قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ ٱلطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ ٱجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ٱدْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا ۚ وَٱعْلَمْ أَنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ مَّثَلُ ٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَٰلَهُمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِى كُلِّ سُنۢبُلَةٍ مِّا۟ئَةُ حَبَّةٍ ۗ وَٱللَّهُ يُضَٰعِفُ لِمَن يَشَآءُ ۗ وَٱللَّهُ وَٰسِعٌ عَلِيمٌ ٱلَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَٰلَهُمْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَآ أَنفَقُوا۟ مَنًّا وَلَآ أَذًى ۙ لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ۞ قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِّن صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَآ أَذًى ۗ وَٱللَّهُ غَنِىٌّ حَلِيمٌ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تُبْطِلُوا۟ صَدَقَٰتِكُم بِٱلْمَنِّ وَٱلْأَذَىٰ كَٱلَّذِى يُنفِقُ مَالَهُۥ رِئَآءَ ٱلنَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ ۖ فَمَثَلُهُۥ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُۥ وَابِلٌ فَتَرَكَهُۥ صَلْدًا ۖ لَّا يَقْدِرُونَ عَلَىٰ شَىْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا۟ ۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْكَٰفِرِينَ
44

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

اور وہ واقعہ بھی پیش نظر رہے، جب ابراہیمؑ نے کہا تھا کہ: "میرے مالک، مجھے دکھا دے، تو مُردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے" فرمایا: "کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟" اُس نے عرض کیا "ایمان تو رکھتا ہوں، مگر دل کا اطمینان درکار ہے" فرمایا: "اچھا تو چار پرندے لے اور ان کو اپنے سے مانوس کر لے پھر ان کا ایک ایک جز ایک ایک پہاڑ پر رکھ دے پھر ان کو پکار، وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے خوب جان لے کہ اللہ نہایت با اقتدار اور حکیم ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waith qala ibraheemu rabbi arinee kayfa tuhyee almawta qala awalam tumin qala bala walakin liyatmainna qalbee qala fakhuth arbaAAatan mina alttayri fasurhunna ilayka thumma ijAAal AAala kulli jabalin minhunna juzan thumma odAAuhunna yateenaka saAAyan waiAAlam anna Allaha AAazeezun hakeemun

اس کے بعد حقیقت موت وحیات کے سلسلے میں ایک تیسرا تجربہ بیان کیا جاتا ہے۔ یہ تجربہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کرایا گیا ۔ جو امت مسلمہ کے ترنبی گزرے ہیں۔

یہ قدر الٰہیہ کی کاریگریوں تک رسائی کا ایک شوق ہے ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جو نہایت ہی حلیم الطبع اور مطیع فرمان اولوالعزم نبی تھے ان کی جانب سے شوق اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ بعض اوقات اللہ کے برگزیدہ اور اقرب المقربین بندوں کے دل میں بھی یہ امنگ پیدا ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کاریگریوں کے راز ہائے پس پردہ تک رسائی حاصل کریں ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جیسے راضی برضا ، خشوع و خضوع کرنے والے اور عبادت گزار بندے کی جانب سے اس خواہش کا اظہار دراصل اسی قسم کی امنگ کا نتیجہ ہے ۔

اس امنگ کا تعلق ایمان ، کمال ایمان یا ایمان کی پختگی اور ثبوت وقرار کے ساتھ نہیں ہے ۔ اس امنگ کے ذریعہ حضرت ابراہیم کسی قوی دلیل کا مطالبہ نہ کررہے تھے یا ایمان کی کمزوری دور کرکے اس میں پختگی حاصل نہ کرنا چاہتے تھے ۔ یہ چیزیں تو انہیں پہلے سے حاصل تھیں ۔ راز ہائے درون پردہ تک رسائی دراصل ایک دوسرا ہی ذوق ہے ۔ یہ ایک قسم کا روحانی شوق ہے ۔ بندہ مومن راز ہائے الٰہیہ کے ساتھ منسلک ہونا چاہتا ہے ۔ عملاً ان واقعات کو رونما ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے۔ وجود انسانی میں یہ ذوق وشوق ایک فطری امر ہے ۔ اس کا تعلق ایمان بالغیب سے نہیں ہے۔ ایمان بالغیب کمال درجہ میں موجود ہوتا ہے ۔ پھر بھی یہ جذبہ کمال درجہ موجود ہوتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ذات باری سے ہمکلام ہیں ۔ رب کریم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ہمکلام ہیں ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس ہمکلامی سے زیادہ کس ایمان کی ضرورت تھی ، کس دلیل وبرہان کی ضرورت تھی ؟ وہ جو چیز دیکھنا چاہتے تھے وہ یہ تھی کہ کارخانہ قدرت میں قدرت کو کام کرتے ہوئے دیکھیں تاکہ ان کے اس جذبہ حصول رازہائے دروں کو تسکین حاصل ہو ۔ وہ ان رازوں کے ہم نفس ہوجائیں ۔ اور ان میں گھل مل جائیں ۔ یہ ایک ایسی بات ہے جس نفس ایمان سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ کیونکہ نبی کے ایمان کے لئے کوئی اور ایمان درکار نہیں ہوتا وہ تو درجہ کمال میں ہوتا ہے۔

جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی گفتگو اور ان کا یہ تجربہ مکمل ہوتا ہے تو پھر پتہ چلتا ہے کہ ایمان کے نتیجے میں قلب مومن میں متعدد قسم کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔ اور مومن کامل کے دل میں پیدا ہونے والی یہ امنگیں اسے مجبور کرتی ہیں کہ وہ حریم قدرت کے اندر جھانکنے کی کوشش کرے۔

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي

” جب ابراہیم نے کہا ” مجھے دکھادے تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے ؟ “ فرمایا :” کیا تو ایمان نہیں رکھتا ؟ “ اس نے عرض کیا ” ایمان تو رکھتا ہوں مگر دل اک اطمینان درکار ہے ۔ “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مطلب یہ تھا کہ قلبی اطمینان تب حاصل ہوتا جب وہ دست قدرت کو کام کرتے دیکھ لیں ۔ اور جذبہ افشائے راز ہاں درون خانہ کی تسکین تب ہوتی ہے جب انسان ان رازوں کو کھول دیتا ہے اور وہ اس پر عیاں ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو اچھی طرح علم تھا کہ اس کا بندہ اور دوست پکا مومن ہے لیکن اس کا یہ سوال محض تسکین شوق اور اعلان ذوق کی خاطر ہے ۔ سوال و جواب کا یہ سلسلہ اللہ کریم کی جانب سے اپنے اس مطیع فرمان اور حلیم الطبع بندے کے ساتھ ایک قسم کا اظہار لطف وکرم تھا اور ذرہ نوازی تھی ۔

غرض اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے اس شوق تجسس کی تسکین کا سامان فراہم فرمادیا۔ اور اس کو راہ راست ایک ذاتی تجربے سے دوچار کردیا۔

قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ

” فرمایا تو چار پرندے لے لے اور ان کو اپنے سے مانوس کرلے ۔ پھر ان کا ایک جزء ایک پہاڑ پر رکھ دے ۔ پھر ان کو پکار ، وہ تیرے پاس دوڑتے چلے آئیں گے ۔ خوب جان لے کہ اللہ نہایت بااقتدار اور حکیم ہے ۔ “

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اب چار پرندے لیں ۔ ان کو اپنے ساتھ مانوس کرلیں ۔ ان کی خصوصیات اور ان کی نشانیاں اچھی طرح جان لیں تاکہ انہیں جاننے میں غلطی واقعہ نہ ہو ۔ پھر انہیں ذبح کرکے ٹکڑے ٹکڑے کردیں اور ان کے اجزاء کو ارد گرد کے پہاڑوں پر بکھیر دیں ۔ اور پھر ان کو پکاریں ۔ اب ان کے یہ متفرق اعضاء دوبارہ صحیح ہونے لگیں گے ۔ ان میں زندگی لوٹ آئے گی اور دوڑ کر وہ تمہاری طرف لوٹ آئیں گے ۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے راز تخلیق کو عیاں پایا۔ یہ وہ راز ہے جو ہر لحظہ دہرایا جارہا ہے ۔ لیکن لوگ اس راز کی تکمیل کے بعد صرف اس کے آثار دیکھ سکتے ہیں ۔ یہ راز عطائے حیات کا راز تھا ۔ یہ وہ حیات ہے جو اس کائنات کو عطا کی گئی جبکہ پہلے کچھ نہ تھا ۔ اور اب وہ ہر زندہ مخلوق کی شکل میں دہرائی جارہی ہے ۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی آنکھوں سے اس راز کو دیکھ لیا ۔ چند پرندے تھے ، جن سے زندگی الگ ہوگئی تھی ۔ ان کا قیمہ مختلف مقامات پر بکھیر دیا گیا ۔ اب ان کے اجزاء جمع ہورہے ہیں اور ان میں دوبارہ زندگی ڈالی جارہی ہے ۔ اور وہ آکر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک پہنچ جاتے ہیں ۔

یہ کیونکر ہوا ؟ یہی تو وہ راز ہے جس کا ادراک اس بشر کے حیطہ قدرت سے وراء ہے ۔ کبھی انسان اس راز کو اسی طرح دیکھتا ہے جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دیکھا ۔ وہ اس کی تصدیق اس طرح کرتا ہے جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس کی تصدیق فرمائی۔ لیکن وہ اس کی حقیقت کا ادراک نہیں کرسکتا ۔ اس کا طریقہ واردات اسے معلوم نہیں ہے ۔ یہ امر الٰہی ہے ۔ اور لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ علوم الٰہیہ میں سے ایک محدود مقدار کو جان اور پاسکتے ہیں ، وہ جسے وہ چاہے دے دے لیکن راز حیات سے اس کسی کو آگاہ نہیں کیا ۔ اس لئے کہ وہ انسان کی قدرت اور طاقت کے مقابلے میں بہت بڑا راز ہے ۔ اس نے کسی کو آگاہ نہیں کیا ۔ اس لئے کہ وہ انسان کی قدرت اور طاقت کے مقابلے میں بہت ہی بڑا راز ہے ۔ اس کو عبث ہمارے حس وادراک کی نوعیت سے مختلف ہے ۔ اور اس کرہ ارض پر ادائیگی فریضہ خلافت کے سلسلے میں انہیں اس تکوینی علم کی قدرت بھی نہیں ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص شان ہے اور مخلوقات کا شملہ علم اس کے مقابلے میں بہت ہی کوتاہ ہے اور اگر انسان دروازہ مستورات میں جھانکنے کی سعی بھی کرے تو اسے پردے ہی پردے نظر آئیں گے اور حجاب در حجاب نظر آئے گا ۔ اس کی یہ سعیٔ لاحاصل ہوگی اور علم الغیب کا دائرہ علوم النبوت تک ہی محدود رہے گا ۔

اردو ترجمہ

جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں صرف کرتے ہیں، اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں اِسی طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے، افزونی عطا فرماتا ہے وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Mathalu allatheena yunfiqoona amwalahum fee sabeeli Allahi kamathali habbatin anbatat sabAAa sanabila fee kulli sunbulatin miatu habbatin waAllahu yudaAAifu liman yashao waAllahu wasiAAun AAaleemun

درس نمبر 19 ایک نظر میں

اس پارے میں سابقہ تینوں سبق مجموعی طور پر بعض اساسی ایمانی تصورات کے بارے میں تھے ۔ اور ان میں اس تصور حیات کے بارے میں بعض وضاحتیں کی گئی تھیں ۔ اور مختلف پہلوؤں سے اس کی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ یہ اس طویل سورت کی اس لائن کا ایک مرحلہ تھا ، جس پر یہ پوری سورت جارہی ہے یعنی انسانیت کی قیادت کے نصب العین کی راہ میں امت مسلمہ پر جو فرائض عائد ہوتے ہیں ان سے عہدہ برآ ہونے کے لئے امت کو تیار کرنا جیسا کہ اس سے قبل ہم بات کی تشریح کرچکے ہیں۔

یہاں سے لے کر تقریباً اس سورت کے اختتام تک اب بیان کا رخ ان اساسی معاشی اصولوں کے بیان کی طرف ہے جن پر امت مسلمہ کے اجتماعی نظام کی نیو اٹھائی جانی مقصود ہے ۔ اور جن کے مطابق جماعت مسلمہ کی تنظیم بھی مقصود تھی ۔ اور یہ اجتماعی نظام دراصل باہم تعاون اور تکافل پر مبنی ہے اور جس کی تشکیل عشر وزکوٰۃ اور خیرات وصدقات پر مبنی ہے ۔ اور یہ معاشی نظام اس سودی نظام سے بالکل مختلف ہے ۔ جو اس دور جاہلیت میں رائج تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں صدقہ کی فضیلت اور آداب کا بیان کیا جاتا ہے اور ربا کی مذمت کی جاتی ہے ۔ اور اگلے اسباق میں آپ پڑھیں گے کہ قرضہ اور تجارت کے اساسی اصول بیان کئے گئے ہیں اور مجموعی طور پر یہ سب چیزیں اسلام کے اقتصادی نظام کا حصہ ہیں اور اسلام کی اجتماعی زندگی ان پر قائم ہے ۔ آگے آنے والے تینوں اسباق باہم مربوط ہیں ۔ یہ سب دراصل ایک موضوع (اقتصادیات) کے مختلف پہلو ہیں یعنی اسلام کا اقتصادی نظام۔

اس سبق میں انفاق فی سبیل اللہ اور دولت کے خرچ کرنے پر زور دیا گیا ہے ۔ اور اسلام کے ایک اقتصادی پہلو یعنی صدقہ اور اجتماعی کفالتی نظام کے بارے میں زور دیا گیا ہے ۔ یہ بتایا گیا ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ دراصل جہاد کی ایک قسم ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ امت مسلمہ پر فرض کیا گیا ہے ۔ اس لئے کہ اللہ کی جانب سے امت مسلمہ پر یہ ڈیوٹی عائد کی گئی ہے کہ وہ پوری دنیا میں اس دعوت کو پھیلائے ۔ پوری دنیا تک اس پیغام کو پہنچائے ۔ پوری دنیا میں اہل ایمان کی حمایت کرے اور پوری دنیا سے شر و فساد اور ظلم و زیادتی کو ختم کردے اور ان تمام قوتوں کو پاش پاش کردے جو اہل اسلام کے مقابلے میں غالب ہیں اور جو زمین پر فساد پھیلاتی ہیں اور اہل دنیا کو اللہ کی سیدھی راہ اپنانے میں رکاوٹ بن رہی ہیں ۔ اور باالفاظ دیگر دنیا کو اس خیر عظیم سے محروم رکھنا چاہتے ہیں ۔ جس کا حامل اسلامی نظام حیات ہے۔ دنیا کو اس خیر سے محروم کرنا اس قدر بڑا جرم ہے اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ اور انسانی روح اور انسانی جسم اور مال کے خلاف اس سے بڑی دست درازی اور کوئی فرق نہیں ہے ۔

اس سورت میں بار بار انفاق فی سبیل اللہ کی دعوت دی گئی ہے لیکن یہاں انفاق فی سبیل اللہ کے اصول وآداب کو ذرا تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے ۔ یہاں دستور انفاق کی تصویر کشی بڑے ہی پیارے اور مانوس پرتو سے کی جاتی ہے۔ اس کے اجتماعی اصول اور آداب و اثرات اور نفسیاتی مضمرات سے تفصیلاً بحث کی جاتی ہے ۔ ایسے آداب جن کی وجہ سے خود انفاق کرنے والے کی نفسیاتی اصلاح ہوجاتی ہے ۔ اور دوسری جانب صدقہ وصول کرنے والے کے لئے وہ مفید بن جاتا ہے ۔ اور اس کے نتیجہ میں معاشرتی انقلاب یوں برپا ہوتا ہے کہ یہ معاشرہ اجتماعی طور پر باہم متعاون اور متکافل (Socally Sacure) معاشرہ بن جاتا ہے ۔ اور اس کے افراد میں باہم محبت اور ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اس کی وجہ سے انسانیت ایک بلند مقام تک جاپہنچتی ہے ۔ اور جس میں دہندہ اور گیرندہ بالکل ایک ہی سطح کے لوگ بن جاتے ہیں۔

اس حققیت کے باوجود کہ اس سبق میں جو ہدایات دی گئی ہیں وہ عمومی ہیں اور کسی زمان ومکان کی قید کے ساتھ مقید نہیں ہیں ۔ اور ایک دائمی دستور کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ لیکن یہ بات ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے کہ اس وقت جماعت مسلمہ کے اندر ایسے حالات موجود تھے جن کی اصلاح کے لئے یہ ہدایات اتاری گئیں۔ اور یہ بات بھی عین ممکن ہے کہ آنے والے ادوار میں بھی یہ بات ممکن تھی کہ مستقبل کا اسلامی معاشرہ بھی ایسی ہدایات کا محتاج ہو۔ اس وقت اسلامی معاشرہ میں ایسے اشخاص موجود تھے جن کی نظروں میں مال ہی سب کچھ تھا اور جن کی اصلاح کے لئے ایسی ضربات کی ضرورت تھی اور جن کے لئے اس طرح کی موثر اثر اندازی کی ضرورت تھی ۔ انہیں ضرورت تھی کہ ضرب الامثال کے ذریعہ حقائق کو ان کے مشاہدے میں لایا جائے اور یہ بات ان کی دلی گہرائیوں تک اتر جائے ۔

اس وقت کے معاشرے میں اگر ایک طرف ایسے لوگ تھے جو سود خوری کے بغیر کسی کو مال دینا تصور نہ کرسکتے تھے تو دوسری طرف اس معاشرے میں ایسے لوگ بھی تھے جو بادل ناخواستہ خرچ کرنے والے تھے یا محض دکھاوے کے لئے خرچ کرتے تھے ۔ بعض ایسے بھی تھے جو خرچ کرکے مسلسل احسان جتاتے تھے اور یوں دوسروں کے لئے باعث اذیت ہوتے تھے ۔ بعض ایسے تھے جو ردی اور بیکار مملوکات اللہ کے نام پر دیتے تھے اور ان کے ساتھ ساتھ بہرحال مخلصانہ طور پر اللہ کی راہ میں بھی انفاق کرنے والے موجود تھے جو اپنے بہترین اموال خرچ کیا کرتے تھے جو اگر موقعہ ومحل کا تقاضا خفیہ طور پر خرچ کرنے کا ہو تو خفیہ خرچ کرتے تھے اور اگر موقعہ ومحل علی الاعلان خرچ کرنے کا ہو تو اعلانیہ خرچ کرتے تھے ۔ یہ خرچ خالص اللہ کے لئے ، بالکل پاک اور ستھرا ہوتا تھا۔

اور مذکورہ بالا دونوں قسم کے افراد جماعت مسلمہ میں اس موجود تھے ۔ ہمیں اس حقیقت پر غور کرنا چاہئے اور اگر اسے پالیں تو یہ ہمارے لئے نہایت مفید ہوگی۔

اس حقیقت سے پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم اس کتاب کی حقیقت کو صحیح طرح پاسکیں گے ۔ اور اس کے مقاصد ہم پر واضح ہوں گے ۔ ہمیں یوں نظر آئے گا کہ قرآن کریم ایک زندہ اور متحرک حقیقت ہے ۔ ان واقعات کی روشنی میں وہ ہمیں مسلسل سرگرم اور متحرک نظر آتا ہے اور قرآن کریم کی یہ تحریک جماعت مسلمہ کے اندر نظر آتی ہے ۔ اس کا مقابلہ واقعی حالات سے ہے ۔ وہ بعض اوقات اور حقائق کو برقرار رکھتا ہے اور بعض حالات کو تبدیل کررہا ہے ۔ یوں یہ جماعت قدم بقدم آگے بڑھ رہی ہے۔ اور قرآن ان حالات کا مقابلہ کررہا ہے ۔ وہ مسلسل فعال اور متحرک ہے ۔ اس کی حرکت میں تسلسل اور دوام ہے ۔ وہ زندگی کے عملی میدان میں برسرپیکار ہے ۔ قرآن کریم ہی اس معاشرہ میں واحد ترقی پسند ، محرک اور عملی میدان میں آگے بڑھنے والا عنصر ہے۔

آج ہمیں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہم اس نہج پر قرآن کریم کا احساس کریں اور دیکھیں کہ قرآن کریم ایک زندہ حقیقت ، متحرک اور آگے بڑھنے کے لئے اقدام کرنے والا ایک فیکٹر ہے ۔ اس لئے آج تحریک اسلامی ، اسلامی نظام زندگی ، اور اسلامی معاشرہ کے ناپید ہوئے ایک طویل عرصہ گزرچکا ہے ۔ قرآن کریم ، جس طرح ہم نے اسے محسوس کیا ہے اور سمجھا ہے وہ انسانی تاریخ کے زندہ دھارے سے الگ تھلگ ایک کتاب ہے ۔ آج قرآن کریم کو جس طرح ہم نے سمجھا ہے وہ اس نظام زندگی کا کوئی نقشہ پیش نہیں کرتا جو کبھی یہی قرآن عملاً اس کرہ ارض پر وجود میں لایا تھا اور جو جماعت مسلمہ کی تاریخ میں کبھی زندہ حقیقت تھی ۔ اور اب ہمیں یہ سبق یاد نہیں رہا ہے کہ اس وقت کے مسلم مجاہد اول کے لئے قرآن حکم الیوم (Order of the day) تھا۔ یعنی ان کے لئے قرآن کریم ایسی ہدایات تھا جن پر عمل ضروری تھا ۔ ان پر فرض تھا کہ وہ ہر روز کی ہدایات کو عملاً نافذ کردیں ۔ ہمارے فہم وادراک میں وہ عملی قرآن گویا مر گیا ہے یا وہ سو گیا ہے ۔ اور ہم قرآن کریم کو اس طرح سمجھنے اور محسوس کرنے کی کوشش نہیں کرتے جس طرح اسے دور اول کے مسلمانوں نے سمجھا اور محسوس کیا ۔

ہمارا طرز عمل یہ بن گیا ہے کہ ہم قرآن کریم کو نہایت ہی خوش الحانی اور گلوکاری کے ساتھ پڑھتے ہیں اور جھومتے ہیں یا ہمارا وجدان اس سے کچھ چالو ، مجمل اور ناقابل فہم وناقابل تاویل تاثرات لیتا ہے یا ہم اس کی تلاوت اوراد کرتے ہیں ، جس سے مومنین صادقین کے دل میں وجد ، خوشی اور قلبی اطمینان کی ایک مبہم اور مجمل سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ تلاوت قرآن میں یہ سب فائدے بھی موجود ہیں لیکن ان تمام فوائد کے ساتھ ساتھ اصل مطلوب یہ ہے کہ قرآن قلب مومن میں فہم و فراست اور عمل و حرکت پیدا کردے ۔ اسے زندہ کردے ۔ اعلیٰ ترین مقصد یہ ہے کہ مسلمان کے دل و دماغ میں ایسی کیفیت پیدا ہوجائے کہ وہ قرآن کریم کی ہدایات کے ساتھ ساتھ ایک زندہ اور عملی زندگی لے کر چلتا رہے ، ایسی زندگی جسے قرآن یہاں رائج کرنا چاہتا ہے اور جس کے لئے اس کا نزول ہوا ہے ۔ ایسی زندگی جسے مومن اس عرصہ کاروزار میں اور اس میدان کشمکش میں پائے ، جس کے لئے ایک مومن اپنے آپ کو ہمیشہ تیار رکھتا ہے ۔ کیونکہ امت مسلمہ کی زندگی میں یہ کشمکش ایک لابدی امر ہے ۔ مطلوب یہ ہے کہ ایک مسلمان قرآن کریم کی طرف اس نیت سے متوجہ ہوکر وہ اس سے اپنی زندگی کا لائحہ عمل اخذ کرنا چاہتا ہے ۔ بعینہ اس طرح جس طرح ” مسلم اول “ کرتا تھا ، وہ آج کی زندگی ، آج کے واقعات ، آج کے مسائل جو اس کے ارد گرد رواں دواں ہیں ، ان کے بارے میں قرآنی ہدایات واشارات کا طلبگار ہو ۔ اسے چاہئے کہ وہ امت مسلمہ کی تاریخ کی تشریح بھی قرآنی ہدایات کی روشنی میں کرے ۔ قرآنی کلمات واشارات کو اسلامی تاریخ کی تشریح قرار دے ۔ اور یوں محسوس کرے کہ اسلامی تاریخ قرآن کریم سے کوئی علیحدہ تاریخ نہیں ہے ۔ اسلامی تاریخ قرآن کی تاریخ ہے ۔ اور آج امت مسلمہ جس صورت حالات سے دوچار ہے ، وہ بھی قرآنی تاریخ ایک حصہ ہے ۔ آج کے حالات ان حالات کا منطقی نتیجہ ہیں جو اس امت کے اسلاف کو پیش آئے ۔ اس وقت بھی قرآن ان حالات و حوادث میں ایک معین تبدیلی کا خواہاں تھا اور آج بھی یہ قرآن ویسی ہی تبدیلیاں چاہتا ہے ۔ اس لئے ایک مومن یہ محسوس کرتا ہے کہ جس طرح یہ قرآن اس امت کے لئے کتاب عمل تھی ، آج میرے لئے بھی کتاب عمل ہے۔ آج بھی وہ چاہتا ہے کہ اپنے شب وروز کے معاملات میں ، پیش آمد حادثات میں قرآن کی طرف رجوع کرے گا۔ وہ اس کے تصورات اور اس کی فکر کا اصول اساسی ہے ۔ وہ آج بھی اس کی تگ و دو اور اس کی جہد وعمل کا حقیقی محرک ہے ۔ وہ کل بھی اس کے لئے محرک ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کی زندگی کا محور ہے۔

اس حقیقت کے سمجھ لینے کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ اس سے ہمیں انسانی فطرت اور انسانی مزاج کی حقیقت اور ماہیت کا واضح ادراک ہوجاتا ہے ۔ دعوت اسلامی اور اس کے عائد کردہ فرائض اور واجبات کو ہمیشہ اس انسانی فطرت سے واسطہ پڑا ہے۔ ان آیات میں پہلی اسلامی جماعت کے حوالے سے ، انسانی فطرت کا جو واضح نقشہ کھینچا گیا ہے اس سے انسانی فطرت اپنی اصلی شکل اور ماہیت میں واضح ہوتی ہے ۔ اس پہلی جماعت پر قرآن نازل ہورہا تھا۔ اس جماعت کے نگران ومربی خود رسول اکرم ﷺ تھے ۔ اس جماعت کی صفوں میں بعض کمزور پہلو تھے ۔ جن کی اصلاح کی ضرورت تھی ، جن کی طرف مستقلاً توجہ دینے کی ضرورت تھی ۔ اور جن کی نشاندہی اور جن کی رعایت کی ضرورت تھی ۔ یاد رہے کہ صحابہ کرام ؓ کی اصلاح کرنا اس بات کے منافی نہیں کہ وہ امت کے تمام طبقات سے برگزیدہ تھے ۔ اس حقیقت کا ادراک ہمارے لئے بہت ہی مفید ہے ۔ یوں ہم ایک انسانی جماعت اور تنظیم کی حقیقت وماہیت بغیر افراط وتفریط کے سمجھ سکیں گے ۔ بغیر اس کے کہ اس مصنوعی خول چڑھائے ہوئے ہوں۔ بغیر اس کے کہ اس کے بارے میں کسی قسم کے گمراہ کن تصورات قائم کئے جائیں ۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے ہمارے دل و دماغ سے مایوسی کے بادل چھٹ جاتے ہیں ۔ کیونکہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام انسانیت کے لئے جو مقام بلند تجویز کرتا ہے ہم اس سے بہت دور ہیں ۔ لہٰذا ہمارے لئے کافی ہے کہ ہم اس راہ پر چلتے رہیں ۔ اس مقام بلند تک پہنچنے کی جدوجہد جاری رکھیں ۔ اس سے ہمیں ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم اس حقیقت کو پالیتے ہیں کہ لوگوں کو مقام بلند اور کمال کے اعلیٰ درجوں تک پہنچانے کے لئے مسلسل دعوت کی ضرورت ہے ۔ اس میں کسی وقت بھی کمی ، سستی ، مایوسی اور وقفہ نہیں ہونا چاہئے ۔ اگرچہ بعض نفوس میں نقص اور عیب پایا جاتا ہو کیونکہ انسان تو ہوتا ہی ایسا ہے ۔ انسان مسلسل دعوت اور اصلاحی جدوجہد کے نتیجے میں اصلاح پذیری کی راہ پر آہستہ آہستہ چلتا ہے ۔ اسے قرآن کے مقام بلند تک پہنچانے کے لئے مسلسل دعوت کی ضرورت ہے ۔ اسے ہمیشہ بھلائی کی یاد دہانی کی ضرورت ہے ۔ ہمیشہ اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کے سامنے بھلائی کو اچھی صورت میں اور شر کو قبیح صورت میں مسلسل پیش کیا جاتا رہے ۔ اور کردار کی کمزوری ، اور نقائص سے اس کے دل میں مسلسل نفرت بٹھانا چاہئے ۔ اور جب بھی وہ بےراہ روی اختیار کرے ، اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے صحیح راہ پر ڈال دیا جانا چاہئے ۔ کیونکہ زندگی کا یہ سفر بہت ہی طویل اور کٹھن ہے۔

اس سے ہمیں تیسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہم اس سادہ حقیقت کو اچھی طرح پالیتے ہیں جس سے بارہا ہم غافل ہوجاتے ہیں ۔ یہ کہ انسان بہرحال انسان ہے ۔ دعوت اسلامی بہرحال اسلام کی طرف بلاوا ہے ۔ اور یہ معرکہ بہرحال انسانوں کا معرکہ اور انسانی جدوجہد ہے ۔ یہ معرکہ سب سے پہلے اپنی ذات کی کمزوریوں ، اپنے ذاتی نقائص اور نفس انسانی میں پوشیدہ جذبات حرص اور بخل کے خلاف ہے ۔ اس کے بعد انسان کے اردگرد پھیلی ہوئی زندگی میں باطل ، شر ، ظلم اور گمراہی کے خلاف معرکہ ہے ۔ یہ ایک قسم کی دوطرفہ جنگ ہے جو ایک داعی کو کرنی ہے ۔ اور اس کرہ ارض پر جماعت مسلمہ کی لیڈر شپ کو یہ دو طرفہ جنگ لازماً لڑنا پڑے گی ۔ جس طرح قرآن کریم کو پہلی مرتبہ یہ جنگ لڑنا پڑی تھی اور رسول کریم ﷺ کو سب سے پہلے یہ جنگ لڑنا پڑی تھی اور اس مسلسل معرکہ کے دوران یہ امر لازمی ہے کہ کچھ غلطیاں بھی ہوں ، لغزشیں بھی ہوں اور اس کٹھن راہ کے مختلف مراحل میں بعض نقائص اور بعض کمزوریوں کا ظہور بھی ہو۔ اور نئے واقعات اور نئے تجربوں کے دوران ان نقائص اور لغزشوں کی اصلاح بھی ہوتی رہتی رہے ۔ اور اصلاح وہدایت کے معاملے میں قرآن کریم نے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے ، اس کے مطابق لوگوں کے دل و دماغ کی اصلاح بھی ہوتی رہے۔ یہاں میں پھر یہ بات کہوں گا جو پہلے کہہ چکا ہوں کہ ہم تمام حالات ، اور اپنی زندگی کی تمام تگ ودو میں قرآن مجید کو اپنا مشیر اور ہادی بنادیں ۔ یوں نظر آئے کہ ہمارے خیالات سوشعور میں ہماری عملی زندگی میں اور ہمارے تمام معاملات میں قرآن کریم یوں جاری وساری ہے جس طرح پہلی جماعت مسلمہ کی زندگی میں وہ پوری طرح جاری وساری تھا۔

اسلامی نظام زندگی کا آغاز فرائض واجبات سے نہیں ہوتا ۔ اسلام اپنے کام کا آغاز ، محبت ، تالیف قلب اور نیکی کی تحریک سے کرتا ہے ۔ وہ انسانی شعور کو جگاتا ہے اور انسانی زندگی میں زندہ جاوید جذبات پیدا کرتا ہے ۔ وہ انسان کے مطالعہ اور مشاہدہ کے لئے زندگی کی ایک ایسی تصویر پیش کرتا ہے جو پھوٹتی ہے ، بڑھتی ہے اور آخر کار ایک مفید پھل دیتی ہے ۔ انسان اس سے ثمرہ حاصل کرتا ہے۔ وہ انسان کے سامنے فصل کی مثال پیش کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور زمین کا ایک عام عطیہ ہے ۔ کھیتی ایک دانہ لیتی ہے لیکن سینکڑوں دانے واپس دیتی ہے تخم اور بیج کی نسبت سے وہ کئی گناحاصلات دیتی ہے ۔ قرآن کریم میں یہ زندہ منظر ان لوگوں کے سامنے رکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی کمائی خرچ کرتے ہیں ۔

مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ

” جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، ان کے خرچ کی مثال ایسی ہے ، جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اس کی سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔ “

تعبیر کا یہ تصوراتی انداز حساب و کتاب کے عمل پر جاپہنچتا ہے ۔ ایک دانہ بڑھ کر سات سو دانے بن جاتا ہے لیکن اس مفہوم کو قرآن مجید ، جس زندہ وتابندہ انداز میں پیش کرتا ہے وہ نہایت ہی حسین و جمیل ہے ۔ اس سے انسانی شعور میں ایک قسم کا جوش و خروش پیدا ہوتا ہے ۔ انسانی ضمیر جاگ اٹھتا ہے ۔ ایک زندہ اور بڑھنے والی فصل کا منظر سامنے آتا ہے ۔ ایک زندہ طبیعت ظاہر ہوتی ہے ۔ پیداوار دینے والا ایک ہر ابھرا کھیت نظروں کے سامنے آتا ہے ۔ عام نباتات کا ایک عام اور عجیب بیش پا افتادہ تجربہ سامنے آتا ہے۔ ایک نال پر سات بالیں ہیں اور ہر بال میں سودانے ہیں ۔

اس زندہ اور نامی منظر کے سامنے انسانی ضمیر بھی بذل وعطا کی طرف متوجہ ہوتا ہے لیکن دراصل وہ دیتا نہیں کچھ لیتا ہی ہے ۔ یو یہ عطا اور دادوہش ایک ایسے راستے پر جاتی ہے جس میں وہ کئی گنا نشو ونماپاتی ہے ۔ یوں انسان کا جذبہ دادوہش کئی گنا زیادہ ہوجاتا ہے ۔ اور وہ فصل کی طرح کئی گنا زیادہ حاصلات لاتا ہے ۔ اور اللہ جسے چاہتا ہے ، اس سے زیادہ حاصلات دیتا ہے ۔ بغیر حساب دیتا ہے اور بیشمار دیتا ہے ۔

وہ اپنی مخلوق کے لئے اس کے رزق میں اس قدر فراوانی کرتا ہے جو بےحد و حساب ہوتی ہے ۔ اس کی رحمت اس قدر وسیع ہے کہ جس کی انتہاؤں کا پتہ نہیں۔ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ................ ” وہ فراخ دست بھی ہے اور علیم بھی ۔ “

وہ اس قدر فراخ دست ہے کہ جس کی عطا میں کوئی تنگی نہیں ہے۔ وہ نہ ختم ہونے والی ہے اور نہ اس کے جوش میں کمی آنے والی ہے وہ علیم ہے ۔ وہ نیتوں کا مالک ہے۔ نیت اور نیکی پر بھی اجر دیتا ہے ۔ اس پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ وہ کون سا انفاق فی سبیل اللہ ہے جو بڑھتا ہے اور نفع بخش ہے اور وہ کون سی جود وکرم ہے ، جسے اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں دوچند کردیتا ہے ؟ جس کے لئے چاہے ۔ یہ انفاق وہ ہے جو انسانی جذبات کو بلند کردے اور انہیں پاک وصاف کردے ۔ وہ انفاق فی سبیل اللہ وہ ہے جو کسی انسان کی شرافت وعزت نفس نہ کچلے ۔ وہ انفاق جسے دلی طہارت اور صفائی کے نتیجے میں روبعمل لایاجائے ۔ وہ محض جذبہ رضائے الٰہی کے تحت کیا جائے ۔ اور اس کے علاوہ کوئی اور مقصد پیش نظر نہ ہو۔

اردو ترجمہ

جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کر کے پھر احسان جتاتے، نہ دکھ دیتے ہیں، اُن کا اجر اُن کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی رنج اور خوف کا موقع نہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allatheena yunfiqoona amwalahum fee sabeeli Allahi thumma la yutbiAAoona ma anfaqoo mannan wala athan lahum ajruhum AAinda rabbihim wala khawfun AAalayhim wala hum yahzanoona

احسان جتلانا ایک مکروہ ، ناپسندیدہ اور گھٹیا درجے کی حرکت ہے ۔ یہ ایک ایسا شعور ہے جو نہایت ہی پست ہے ۔ نفس انسانی صرف اس صورت میں احسان جتلاتا ہے جب وہ جھوٹے احساس برتری میں مبتلاہو اور اسے تعلی کا روگ لگا ہو۔ یا وہ گیرندہ کو ذلیل کرنا چاہتا ہو ، یا وہ دل میں یہ خواہش رکھتا ہو کہ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں اور اس کے اس فعل انفاق کو پسندیدہ نظروں سے دیکھیں ۔ اس صورت میں بھی مطمح نظر لوگ ہیں ۔ اللہ کی ذات نہیں ہے ۔ یہ تمام جذبات ایسے ہیں جو کبھی ایک پاکیزہ دل میں پروان نہیں چڑھ سکتے ۔ اور نہ ایسے جذبات ایک سچے مومن کے دل میں پیدا ہوتے ہیں ۔ پس احسان جتلانا بیک وقت ایک دہندہ کے لئے اور گیرندہ کے لئے موجب اذیت ہے ۔ دہندہ کے لئے اذیت ہے کہ اس کے دل میں کبر و غرور پیدا ہوتا ہے ۔ اس کے دل میں یہ خیال اور یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ ایک بھائی اس کے سامنے ذلیل اور شکستہ حال صورت میں ظاہر ہو ۔ اور خود دہندہ کے دل میں نفاق ، ریا کاری اور اللہ سے دوری کے جذبات پیدا ہوں گے اور گیرندہ کے لئے اذیت یوں ہے کہ وہ اپنے آپ کو کمتر اور شکستہ حال تصور کرتا ہے اور پھر اس کے دل میں حقارت اور انتقام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں ۔ انفاق فی سبیل اللہ سے اسلام کی غرض صرف یہ نہیں ہے کہ ایک خلا کو پر کردیاجائے ، کسی کی حاجت پوری ہو اور بھوکا پیٹ بھر جائے ۔ صرف یہ غرض ہرگز نہیں ہے ۔ اس سے اسلام ایک طرف تو عطا کنندہ کی اخلاقی تطہیر کا بندوبست کرتا ہے اس کے نفس کو پاک کرتا ہے ۔ اس کے اندر ہمدردی کے جذبات کو ابھارتا ہے ۔ اور ایک مسلم بھائی اور بھائی کے درمیان رابطہ پیدا کرکے بحیثیت انسان اور مسلمان صرف رضائے الٰہی کے لئے اسے ایک فقیر کی امداد پر آمادہ کرتا ہے ۔ اسلام ایک دہندہ کو یہ یاد دلاتا ہے کہ اس پر اللہ کا فضل ہے اور اس نے اس فضل کے بارے میں اللہ سے ایک عہد بھی کررکھا ہے ۔ اور وہ عہد یہ ہے کہ وہ اس فضل ونعمت سے بغیر اسراف کے بقدر ضرورت کھائے بھی اور اس سے فی سبیل اللہ خرچ بھی کرے ۔ یعنی بغیر کسی رکاوٹ اور احسان جتلانے کے ۔ دوسری جانب اس سے اللہ تعالیٰ گیرندہ کی دلجوئی اور رضامندی کا سامان بھی کرتے ہیں ۔ اور ایک انسان اور ایک انسان اور ایک مومن اور مومن کے درمیان اچھے تعلقات قائم ہوجاتے ہیں ۔ اور اسلامی معاشرہ میں یہ خطرہ بھی نہیں رہتا کہ اس کے درمیان تعاون وتکافل نہ ہو ۔ یوں ایک اسلامی معاشرہ کی تعمیر وحدت ، اس کے رجحانات میں یکسوئی ، اس کے فرائض وذمہ داریوں میں ہم آہنگی پیدا ہوجاتی ہے ۔ لیکن احسان جتلانے سے یہ تمام فائدے ختم ہوجاتے ہیں اور انفاق فی سبیل اللہ زہر اور آگ بن جاتا ہے ۔ اگرچہ انسان کے ہاتھ اور اس کی زبان سے کسی گیرندہ کو کوئی اذیت نہ پہنچی ہو لیکن مجرد احسان جتلانا ہی بہت بڑی اذیت ہے ۔ یہ بذات خود مجسم اذیت ہے ۔ اس سے انفاق بےاثر ہوجاتا ہے ۔ معاشرہ کے اندر تفرقہ پیدا ہوتا ہے اور افراد معاشرہ کے درمیان دشمنیاں اور نفرتیں پیدا ہوتی ہیں ۔ جدید علوم نفسیات کے ماہرین اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ احسان جتلانے یا احسان کرنے کے نتیجے میں بالآخر محسن اور وہ شخص جس کے ساتھ احسان کیا گیا ، کے درمیان کسی نہ کسی وقت دشمنی ضرور پیدا ہوجاتی ہے ۔ وہ اس سلسلے میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ ایک گیرندہ اپنے دل ہی دل میں احساس کمتری اور معطی کے سامنے اپنے ضعف جذبات اپنے دل میں پیدا کرلیتا ہے ۔ اور یہ شعور ہر وقت اس کے دل میں چبھتا رہتا ہے ۔ اور ایک احسان مند شخص اس شعور پر غلبہ پانے کے لئے ردعمل میں خود احسان کنندہ پر حملہ آور ہوجاتا ہے اور اپنے دل میں اس کی دشمنی کو چھپالیتا ہے ۔ اس لئے کہ احسان کنندہ کی نسبت سے وہ ہمیشہ اپنے آپ کو کمتر سمجھتا ہے اور خود احسان کنندہ بھی یہ شعور اپنے اندر پیدا کرلیتا ہے کہ وہ اس شخص کے مقابلے میں برتر ہے ۔ اور یوں یہ شعور یعنی ایک جانب احساس برتری اور دوسری جانب احساس کمتری ایک دوسرے کی دشمنی میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔

بیشک ماہرین نفسیات کا یہ تجربہ بعض اوقات جاہلی اور غیر اسلامی معاشروں کے درمیان بالکل درست نکلتا ہے ۔ یہ جاہلی معاشرے ایسے ہوتے ہیں ۔ جن میں نہ اسلامی روح ہوتی ہے نہ اس میں اسلامی افکار کی حکمرانی ہوتی ہے ۔ لیکن اسلامی نظام زندگی نے اس مسئلے کو بالکل ایک نئے انداز میں حل کیا ہے ۔ وہ یوں کہ اسلام تمام لوگوں کے دل و دماغ میں یہ حقیقت بٹھاتا ہے کہ مال و دولت دراصل اللہ کی ملکیت ہے جو رزق اور دولت اہل ثروت کے ہاتھوں میں ہے وہ اس کے امین ومحافظ ہیں ۔ اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکارجاہل سے جاہل شخص بھی نہیں کرسکتا ۔ اس لئے کہ دولت و ثروت کے قریبی اور دور کے اسباب اللہ کے پیدا کردہ ہیں ۔ ان اسباب میں سے کوئی سبب بھی انسان کے دائرہ قدرت میں نہیں ہے ۔ یہ سب کچھ اللہ کا دیا ہوا ہے ۔ گندم کا ایک دانہ لیجئے ۔ اس کی پیدائش میں اس کائنات کی کئی قوتیں شریک ہوتی ہیں ۔ سورج سے لے کر زمین تک اور پانی سے لے کر ہواتک ۔ ان میں سے کوئی قوت بھی انسان کے دائرہ قدرت میں نہیں ہے ۔ گندم کے ایک دانے پر تمام دوسری اشیاء کو قیاس کیا جاسکتا ہے ۔ چاہے وہ کپڑے کا ایک ریشہ ہو یا کوئی اور چیز ہو ۔ یوں اس تصور کے ساتھ اگر کوئی صاحب ثروت اگر کوئی چیز خرچ کرتا ہے تو گویا وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی چیز خرچ کرتا ہے ۔ نیز اس تصور کے مطابق اگر کوئی شخص کوئی نیکی کرکے اپنی آخرت کے لئے جمع کرتا ہے تو گویا وہ اللہ تعالیٰ کو قرض دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے اس کا کئی گنا اجر دے گا ۔ البتہ یہ نادار شخص اس مالدار شخص کے اخروی اجر کا ایک سبب بن جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اخذوعطا کے لئے ایسے آداب مقرر فرمائے ہیں جن کو یہاں ہم بیان کررہے ہیں۔ یہ آداب انسانی دل و دماغ میں یہ تصور راسخ کرتے ہیں کہ کوئی دینے والا تعلی نہ کرے اور نہ کوئی لینے والا احساس کمتری کا شکار ہو اور دونوں ان آداب و اصول کا لحاظ رکھیں جو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے لئے وضع فرمائے ہیں ۔ اور ان عہدوں کی پوری پوری پابندی کریں جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لئے ہیں ۔ فرماتے ہیں

وَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ................ ” ان کے لئے کسی خوف کا موقعہ نہ ہوگا۔ “ یعنی ان کے لئے نہ یہ خطرہ ہے کہ ان کے ساتھ دشمنی ہوگی ، نہ یہ خطرہ ہے کہ وہ غریب ہوجائیں گے اور نہ یہ خطرہ ہے کہ ان کا کوئی اجر ضائع ہوگا۔

وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ................ ” اور نہ ان کے لئے رنج وملال کا موقع ہوگا۔ “ یعنی دنیا میں بھی ان کے لئے کوئی رنج نہ ہوگا۔ اور نہ آخرت میں انجام بد سے دوچار ہوکر وہ پریشان ہوں گے ۔

بذل ونفاق کی مذکورہ بالا حکمت کی تائید مزید کے لئے اور اس بات کی مزید وضاحت کے لئے انفاق فی سبیل اللہ سے اصل غرض وغایت تہذیب نفس اور اصلاح القلوب ہے ۔ اور عطاکنندہ اور گیرندہ کے درمیان محض دینی محبت کا قیام ہے ، اگلی آیت میں کہا جاتا ہے۔

اردو ترجمہ

ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اُس خیرات سے بہتر ہے، جس کے پیچھے دکھ ہو اللہ بے نیاز ہے اور بردباری اُس کی صفت ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Qawlun maAAroofun wamaghfiratun khayrun min sadaqatin yatbaAAuha athan waAllahu ghaniyyun haleemun

یہاں یہ فیصلہ کردیا جاتا ہے کہ جس صدقہ کے بعد نادار کو اذیت دی جاتی ہو ، ایسے صدقے کے سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے ۔ اس سے تو ایک میٹھا بول اور ایک نرم بات ہی بہتر ہے ۔ ایک اچھی بات سے دلوں کے زخم جڑجاتے ہیں ۔ اس سے خوشی اور رضاجوئی پیدا ہوتی ہے ، جس سے زخم بھر آتے ہیں ۔ معافی اور چشم پوشی سے دلوں کی میل دور ہوجاتی ہے ۔ اور اس کے بدلے بھائی چارہ اور دوستی پیدا ہوجاتی ہے ۔ ایسے حالات میں میٹھابول اور عفو و درگزر دوستی اور اخوت کے راستے میں خشت اول کا کام دیتے ہیں ۔ اس سے نفوس میں پاکیزگی اور دودلوں میں یگانگت پیدا ہوتی ہے ۔

یہ بات کہنے کے بعد کہ صدقہ عطا کنندہ کی طرف سے گیرندپر کوئی برتری نہیں اس لئے کہ صدقہ کرکے ایک شخص دراصل اللہ تعالیٰ کو قرض دیتا ہے ، تو اس کے بعد کیا جاتا ہے وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ................ ” اور اللہ بےنیاز ہے اور بردباری اس کی صفت ہے ۔ “ وہ عطاکنندہ کی ایسی عطا سے مستغنی ہے جس کے بعد وہ ایک نادار کو اذیت دیتا ہو ، اور وہ برد بار ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے بندوں کو سب کچھ دیتا ہے اور پھر بھی وہ اس کا شکر ادا نہیں کرتے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ انہیں سزا دینے میں عجلت سے کام نہیں لیتے اور نہ ہی شتابی سے انہیں اذیت دیتے ہیں ۔ اللہ اپنے بندوں کو سب کچھ دیتا ہے اور سب کچھ دینے سے پہلے انہیں وجود عطا کرتا ہے ۔ لہٰذا بندوں کو بھی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے بردباری سیکھیں ۔ وہ اگر اللہ کے دیئے میں سے کسی کو کچھ دے بھی دیں تو فوراً ہی اس احسان مند کے درپے آزار نہ ہوجائیں ۔ ایسے حالات میں جبکہ انہیں ان کی کوئی بات پسند نہ ہو یا یہ کہ وہ احسان مند شخص ان کا شکر ادا کررہاہو۔

قرآن کریم بار بار لوگوں کے سامنے صفات باری کا ذکر کرتا ہے ۔ اور مطلوب یہ ہے کہ لوگ حتی الوسع اپنے اندر وہ صفات پیدا کریں ۔ اسلامی زندگی کے آداب میں سے یہ ایک اہم طرز عمل ہے کہ ایک مسلم اپنے اندر صفت باری پیدا کرتاہرے اور اس راہ کے مختلف مراحل مسلسل طے کرتا رہے ۔ اور ان صفات میں سے جو حصہ اس کا ہے وہ اسے حاصل کرتا رہے ۔ اپنے مزاج اور اپنی طبیعت کی صلاحتیوں کے مطابق ۔

جب یہ وجدانی تاثر اپنی انتہاؤں کو چھولیتا ہے اور جو لوگ اپنے اموال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، جب ان کے سامنے ترقی پذیر اور مفید زندگی کے طبعی مطاہر پیش کردئیے جاتے ہیں ، اور یہ انفاق ایسا ہوتا ہے کہ اس کے بعد کوئی احسان مندی ، احسان جتلاکر اذیت رسانی نہیں ہوتی اور یہ اشارہ دینے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ کو ایسے انفاق اور ایسے صدقات اور احسانات کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ جن کے بعد ایذا رسانی ہو اور یہ کہ اللہ تعالیٰ رازق اور داتا ہے۔ وہ اپنا قہر وغضب نازل کرنے میں اور اذیت رسانی میں جلد بازی نہیں کرتا ۔ غرض جب یہ وجدانی تاثر اپنی ان اتہاؤں تک جاپہنچتا ہے ۔ تو اب روئے سخن ان لوگوں کی طرف پھرجاتا ہے جو اہل ایمان ہیں کہ وہ احسان جتاکر اور احسان کے بعد اذیت دے کر اپنے صدقات اور نیکیوں کو ضائع نہ کریں ۔

قرآن یہاں ان کے سامنے ایک عجیب صورتحال کی منظر کشی کرتا ہے ۔ یہ وہ مناظر ہیں جو بڑے خوبصورت ہیں ۔ جو پہلے منظر کے ساتھ ایک جگہ چلتے ہیں ۔ پہلا منظر یہ تھا کہ ایک کھیت ہے جو نشوونما پارہا ہے ۔ لیکن ان دونئے مناظر میں اس انفاق فی سبیل اللہ کا مزاج بتایا جارہا ہے جو خالص للّٰہ ہو اور اس انفاق کی حقیقت بھی بتائی جاتی ہے جو احسان مندی اور اذیت رسانی کے ساتھ ہو اور یہ مناظر قرآن کریم کے اسلوب میں ہیں جو وہ فن کارانہ تصویر کشی کے لئے اختیار کرتا ہے یعنی مفہوم اور معنی کو ایک مشخص شکل میں پیدا کیا جاتا ہے اور اس میں کسی عمل کے اثرات متحرک شکل میں ہوتے ہیں اور یہ منظر کشی ایسے حالات میں ہوتی ہے کہ پورا نظارہ ہمارے تخیل کے سامنے ہوتا ہے۔

اردو ترجمہ

اے ایمان لانے والو! اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اُس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو، جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایما ن رکھتا ہے، نہ آخرت پر اُس کے خرچ کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک چٹان تھی، جس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی اس پر جب زور کا مینہ برسا، تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کر کے جو نیکی کماتے ہیں، اس سے کچھ بھی اُن کے ہاتھ نہیں آتا، اور کافروں کو سیدھی راہ دکھانا اللہ کا دستور نہیں ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo la tubtiloo sadaqatikum bialmanni waalatha kaallathee yunfiqu malahu riaa alnnasi wala yuminu biAllahi waalyawmi alakhiri famathaluhu kamathali safwanin AAalayhi turabun faasabahu wabilun fatarakahu saldan la yaqdiroona AAala shayin mimma kasaboo waAllahu la yahdee alqawma alkafireena

یہ ہے وہ پہلا منظر یہ ایک مکمل اور دواجزاء سے مرکب منظر ہے ، جو اپنی شکل وضع اور اپنے نتائج کے اعتبار سے ایک دوسرے کے متضاد مناظر ہیں ۔ ہر منظر کے پھر مختلف اجزاء ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ متناسق ہیں ۔ وہ تعبیر اور مشاہدے کے اعتبار سے بھی باہم متوافق اور ہم رنگ ہیں ۔ اور معانی اور جذبات کے اعتبار سے بھی جو معانی اور جو جذبات اس منظر کشی سے پیدا کرنے مطلوب تھے ۔ جن کا اظہار اس پوری منظرکشی سے مطلوب تھا یا جو شعور ان مناظر کی وجہ سے پیدا کیا جانا مطلوب تھا۔

پہلے منظر میں ہمیں ایک ایسے دل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو پتھر سے بھی سخت ہے۔ كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ................ ” اس شخص کی طرح جو اپنے مال کو محض لوگوں کو دکھاوے کے لئے خرچ کرتا ہے ۔ نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ آخرت پر ۔ “ اسے ایمان کی تروتازگی اور مٹھاس کا شعور نہیں ہوتا لیکن وہ اپنی اس سنگ دلی پر ریاکاری کا پردہ ڈالتا ہے ۔ یہ دل جس پر ریاکاری کا پردہ ہوتا ہے ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹان ہو اور اس پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی ہو ۔ ایک ایسا پتھر جس پر کوئی تروتازگی نہ ہو ، جس میں کوئی نرمی نہ ہو ۔ اس پر مٹی کی ایک ہلکی سی تہہ ہو اور اس کی سختی اور درشتی کو اس تہہ نے چھپارکھا ہو ۔ بعینہ اسی طرح جس طرح ایک شخص اپنی ریاکاری کی وجہ سے اپنے دل کی کیفیت کو چھپالیتا ہے جو ایمان سے خالی ہو۔

فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا ................ ” اس پر زور کا مینہ برسا تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان رہ گئی ۔ “ موسلا دھار بارش نے مٹی کی اس خفیف تہہ کو ختم کردیا۔ چٹان ظاہر ہوگئی اور وہ کیا تھی ؟ ایک سخت اور مضبوط اور کرخت چٹان ۔ جس پر کوئی روئیدگی ممکن نہ تھی۔ نہ اس سے کسی قسم کی پیداوار حاصل ہوسکتی تھی ۔ یہی مثال اس دل کی ہے جو اپنا مال محض ریاکاری کے طور پر خرچ کرتا ہے ۔ جس سے کوئی فائدہ نہ ہوگا دنیا میں اور نہ آخرت میں ۔

44