سورۃ البقرہ: آیت 26 - ۞ إن الله لا يستحيي... - اردو

آیت 26 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

۞ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَسْتَحْىِۦٓ أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ فَيَقُولُونَ مَاذَآ أَرَادَ ٱللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِۦ كَثِيرًا وَيَهْدِى بِهِۦ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِۦٓ إِلَّا ٱلْفَٰسِقِينَ

اردو ترجمہ

ہاں، اللہ اس سے ہرگز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں، وہ انہی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو ان کے رب ہی کی طرف سے آیا ہے، اور جو ماننے والے نہیں ہیں، وہ انہیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی تمثیلوں سے اللہ کو کیا سروکار؟ اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہ راست دکھا دیتا ہے اور گمراہی میں وہ انہی کو مبتلا کرتا ہے، جو فاسق ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Inna Allaha la yastahyee an yadriba mathalan ma baAAoodatan fama fawqaha faamma allatheena amanoo fayaAAlamoona annahu alhaqqu min rabbihim waamma allatheena kafaroo fayaqooloona matha arada Allahu bihatha mathalan yudillu bihi katheeran wayahdee bihi katheeran wama yudillu bihi illa alfasiqeena

آیت 26 کی تفسیر

اس سے قبل سورت کی ابتداء میں قرآن مجید یہود ومشرکین سے تعلق رکھنے والے منافقین کو اس شخص سے تشبیہ دی تھی جو آگ جلاتا ہے یا اس شخص کے ساتھ جو آسمانی بادلوں کی تاریکی اور گرج وچمک میں گھرا ہوا ہے ، نیز اس سے پہلے مکی دور کے نازل شدہ قرآن کریم میں بھی کئی تمثیلیں بیان کی گئی ہیں اور جو مدینہ میں عام طور پر پڑھی جاتی تھیں ۔ مثلاً جو لوگ رب العالمین کا انکار کرتے ہیں انہیں مکڑی سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا گیا تھا ” ان کی مثال اس مکڑی کی طرح ہے کو اپنا گھر بناتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ سب گھروں میں کمزور گھر مکڑی کا جالاہوتا ہے ۔ کاش کے یہ لوگ جانتے ۔ “ ایک جگہ کہا گیا تھا جن کو یہ پکارتے ہیں ، ان کے عجز وماندگی کا حال یہ ہے ” وہ لوگ جو اللہ کے سوا پکارے جاتے ہیں ان کا حال یہ ہے کہ اگر وہ سب بھی جمع ہوجائیں تو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکیں گے ۔ بلکہ اگر ان سے مکھی کوئی چیز لے بھاگے تو وہ اس سے چھڑا نہیں سکتے ۔ کیا براحال ہے طالب اور مطلوب دونوں کا ؟ “

یہ آیات بتارہی ہیں کہ منافقین جن میں یہود ومشرکین دونوں شریک تھے ، ایسی تشبیہات پر اعتراض کرتے تھے کہ ان تشبیہات میں منافقین کا مذاق اڑایا گیا ہے ۔ ان میں مکھیوں اور مکڑیوں جیسی حقیر چیزوں کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ جل شانہ کی مقدس ذات اس سے برتر وبالا ہے ۔ یہ اعتراض مشرکین مکہ اور منافقین مدینہ کے پھیلائے ہوئے شبہات اور انتشار کے مختلف پہلوؤں اور تدبیروں میں سے ایک ہے۔

چناچہ ان آیات میں ان شبہات کی تردید کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ تمثیلوں کے بیان سے اللہ کا مقصد کیا ہے کفار کو اس بات سے ڈرایا جاتا ہے کہ وہ اس فریب کاری سے باز آجائیں اور مومنین کو اطمینان دلایا جاتا ہے کہ ان مثالوں سے ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہوگا۔

إِنَّ اللَّهَ لا يَسْتَحْيِي أَنْ يَضْرِبَ مَثَلا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ” اللہ اس بات سے ہرگز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اس سے بھی کسی حقیر ترچیز کی تمثیلیں دے ۔ “ کیونکہ اللہ جس طرح چھوٹی چیز کا رب ہے اسی طرح بڑی چیزوں کا بھی رب ہے۔ مچھر کا بھی خالق ہے اور ہاتھی کا بھی خالق ہے ۔ جس طرح ہاتھی کی تخلیق ایک اعجاز ہے اسی طرح مچھر کی تخلیق بھی ایک اعجاز ہے اور ان دونوں کی زندگی ایک ایسا راز سربستہ ہے ، جس کا علم اللہ کے سوا آج تک کسی کو نہیں ہے ۔ پھر تمثیل تو ایک پیرایہ اظہار ہوتا ہے اور اس کی غرض وغایت صرف یہ ہوتی ہے کہ اس کی مدد سے مدعا کو اچھی طرح کھول کر ذہن نشین کرایا جائے ، نہ یہ کہ جس چیز سے تشبیہ دی جارہی ہے وہ کوئی عظیم الشان چیز ہی ہو ۔ ضرب الامثال میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا تذکرہ معیوب ہو۔ بلکہ ان تمثیلات کے بیان کے ذریعہ تو اللہ تعالیٰ دلوں کو آزماتا اور نفوس کو پرکھنا چاہتا ہے۔

فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ ” جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں وہ انہی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو ان کے رب کی طرف سے آیا ہے ۔ “ اپنے ایمان کی بدولت وہ اللہ جل شانہ سے اس طرح ہدایت لیتے ہیں جس طرح ان کی شان ہے ۔ نیز وہ جانتے ہیں کہ ان تمثیلوں میں کیا حکمت پوشیدہ ہے ۔ ان کا نور سے لبریز ہے ۔ ان کی روح حساس ہے ، ان کا دل و دماغ اس ہدایت کے لئے کھلا ہے ۔ ان کے پاس اللہ جو حکم آتا ہے ، اللہ کی جو بات ان تک پہنچتی ہے ، وہ اس کی حکمت اور اس کے پس منظر کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔

وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَذَا مَثَلا ” اور جو ماننے والے نہیں ہیں ، وہ انہیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی تمثیلوں سے اللہ کو کیا سروکار ؟ “ یہ اس شخص کا سوال ہے جس کی نظروں سے اللہ کا نور اور اس کی حکمت اوجھل ہے ۔ وہ سنت الٰہی اور تدبیر الٰہی کو نہیں جانتا ۔ ایسا سوال وہ لوگ کرتے ہیں جن کے دلوں میں اللہ کا کوئی احترام نہیں ہوتا اور وہ اللہ تعالیٰ کے تصرفات کو ان نظروں سے نہیں دیکھتے جن سے انہیں اللہ کا ایک بندہ اور فرمانبردار غلام دیکھتا ہے ۔ ایسے لوگ کبھی تو بطور اعتراض اور ناپسندیدگی ایسی باتیں کرتے ہیں ، یا وہ ایسی باتیں اس لئے کرتے ہیں کہ انہیں اس بات کا یقین نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ بھی ایسی باتیں کرسکتا ہے۔

ان کی اس روش پر تہدید اور تنبیہ کی صورت میں انہیں جواب دیا جاتا ہے کہ ان تمثیلوں کے پیچھے اللہ کی ایک خاص تدبیر کام کررہی ہے ۔ یہ تمثیلیں لوگوں کی تقدیرکا فیصلہ کررہی ہیں ۔

يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلا الْفَاسِقِينَ ” اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کردیتا ہے اور بہتوں کو راہ راست دکھا دیتا ہے اور گمراہی میں ان ہی کو مبتلا کردیتا ہے جو فاسق ہیں ۔ “ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون قدرت ہے کہ وہ انسانوں کو امتحان اور ابتلا میں ڈالتا ہے ان آزمائشوں اور ابتلاؤں میں ہر انسان متقضائے طبیعت و استعداد کے مطابق طرز عمل اختیار کرتا ہے ۔ ہر شخص کی روش اس طریق حیات کے مطابق ہوتی ہے جو اس نے اپنے لئے پسند کیا ہوتا ہے۔ آزمائش ایک ہی ہوتی ہے لیکن مختلف نظام ہائے زندگی اختیار کرنے والے لوگوں پر اس کے اثرات مختلف ہوتے ہیں ۔ مثلاً مصیبت اور تکلیف ہی کو لے لیجئے ۔ سب لوگ مصائب میں مبتلاہوتے ہیں ۔ مومن بھی اور فاسق بھی ۔ ایک صالح جو اللہ کی رحمتوں اور حکمتوں پر پختہ یقین رکھتا ہے وہ جب مصیبت میں مبتلاہوتا ہے تو وہ زیادہ خشیت زیادہ عاجزی اور تضرع سے اللہ کے سامنے ملتجی ہوتا ہے ۔ لیکن اگر ایک فاسق تکلیف میں مبتلا ہو تو اس کے قدم اکھڑجاتے ہیں ، وہ اللہ سے اور بعید ہوجاتا ہے ۔ وہ مومنین کی صفوں سے نکل جاتا ہے ۔ اسی طرح خوشحالی اور تکاثر کو لے لیجئے کہ .... بعض لوگ اس آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ لیکن ایک مومن جب زیادہ انعامات اور اکرامات پاتا ہے تو وہ زیادہ بیدار ہوجاتا ہے ۔ وہ شکر الٰہی میں پہلے سے بھی زیادہ حساس ہوجاتا ہے ۔ لیکن جب ایک فاس کو سہولتیں ملتی ہیں تو وہ اسے برباد کردیتی ہیں۔ وہ غرور میں مبتلا ہوجاتا ہے اور گمراہی کی روش اختیار کرتا ہے ۔ اسی طرح اللہ نے لوگوں کے لئے جو تمثیلیں بیان کیں ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا ” ان سے بھی وہ بہتوں کو گمراہ کرتا ہے “ اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ کی طرف سے آنے والی ہدایت کو اچھی طرح قبول نہیں کرتے ۔ وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ” اور بہتوں کو راہ ہدایت دکھا دیتا ہے ۔ “ اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو حکمت باری کو جانتے ہوتے ہیں۔

وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلا الْفَاسِقِينَ ” اور گمراہی میں انہی کو مبتلا کرتا ہے جو فاسق ہیں ۔ “ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے دل پہلے سے فاسق ہوجاتے ہیں ۔ چناچہ یہ لوگ ہدایت اور اصلاح کی روش سے نکل جاتے ہیں لہٰذا ان کا صلہ یہی ہے کہ ان کی اس ضلالت میں اور اضافہ کردیاجائے۔

آیت 26 اِنَّ اللّٰہَ لَا یَسْتَحْیٖٓ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَۃً فَمَا فَوْقَھَا ط کفارّ کی طرف سے قرآن کے بارے میں کئی اعتراضات اٹھائے جاتے تھے۔ وہ کبھی بھی اس چیلنج کا مقابلہ تو نہ کرسکے جو قرآن نے انہیں فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ کے الفاظ میں دیا تھا ‘ لیکن خواہ مخواہ کے اعتراضات اٹھاتے رہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے کسی مصورّ کی تصویر پر اعتراض کرنے والے تو بہت تھے لیکن جب کہا گیا کہ یہ برش لیجیے اور ذرا اس کو ٹھیک کردیجیے تو سب پیچھے ہٹ گئے۔ قرآن کے مقابلے میں کوئی سورت لانا تو ان کے لیے ممکن نہیں تھا لیکن ادھر ادھر سے اعتراضات کرنے کے لیے ان کی زبانیں کھلتی تھیں۔ ان میں سے ان کا ایک اعتراض یہاں نقل کیا جا رہا ہے کہ قرآن مجید میں مکھی کی تشبیہہ آئی ہے ‘ یہ تو بہت حقیر سی شے ہے۔ کوئی اعلیٰ متکلمّ اپنے اعلیٰ کلام میں ایسی حقیر چیزوں کا تذکرہ نہیں کرتا۔ قرآن مجید میں مکڑی جیسی حقیر شے کا بھی ذکر ہے ‘ چناچہ یہ کوئی اعلیٰ کلام نہیں ہے۔ یہاں اس کا جواب دیا جا رہا ہے۔ دراصل تشبیہہ اور تمثیل کے اندر ممثل لہٗ اور ممثل بہٖ میں مناسبت اور مطابقت ہونی چاہیے۔ یعنی کوئی تمثیل یا تشبیہہ بیان کرنی ہو تو جس شے کے لیے تشبیہہ دی جا رہی ہے اس سے مطابقت اور مناسبت رکھنے والی شے سے تشبیہہ دی جانی چاہیے۔ کوئی شے اگر بہت حقیر ہے تو اسے کسی عظمت والی شے سے آخر کیسے تشبیہہ دی جائے گی ؟ اسے تو کسی حقیر شے ہی سے تشبیہہ دی جائے گی تو تشبیہہ کا اصل مقصد پورا ہوگا۔ چناچہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کوئی شرم یا عار کی بات نہیں ہے کہ وہ مچھر کی مثال بیان کرے یا اس چیز کی جو اس سے بڑھ کر ہے۔ لفظ ”فَوْقَھَا“ اس سے اوپر میں دونوں معنی موجود ہیں۔ یعنی کمتر اور حقیر ہونے میں اس سے بھی بڑھ کر یا یہ کہ اس سے اوپر کی کوئی شے۔ اس لیے کہ مکھی یا مکڑی بہرحال مچھر سے ذرا بڑی شے ہے۔ فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَیَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّھِمْ ج وَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَیَقُوْلُوْنَ مَاذَآ اَرَاد اللّٰہُ بِھٰذَا مَثَلًا 7 حق کے منکر ناک بھوں چڑھا رہے ہیں اور اعتراض کر رہے ہیں کہ اس مثال سے اللہ نے کیا مراد لی ہے ؟ اس ضمن میں اگلا جملہ بہت اہم ہے۔یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا لا وَّیَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا ط اِن مثالوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ بہت سوں کو گمراہی میں مبتلا کردیتا ہے اور بہت سوں کو راہ راست دکھا دیتا ہے۔ معلوم ہوا کہ ہدایت اور گمراہی کا دار و مدار انسان کی اپنی داخلی کیفیت subjective condition پر ہے۔ آپ کے دل میں خیر ہے ‘ بھلائی ہے ‘ آپ کی نیت طلب ہدایت اور طلب علم کی ہے تو آپ کو اس قرآن سے ہدایت مل جائے گی ‘ اور اگر دل میں زیغ ہے ‘ کجی ہے ‘ نیت میں ٹیڑھ اور فساد ہے تو اسی کے ذریعے سے اللہ آپ کی گمراہی میں اضافہ کر دے گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا کسی کو ہدایت دینا اور کسی کو گمراہی میں مبتلا کردینا الل ٹپ نہیں ہے ‘ کسی قاعدے اور قانون کے بغیر نہیں ہے۔وَمَا یُضِلُّ بِہٖ الاَّ الْفٰسِقِیْنَ اس سے گمراہی میں وہ صرف انہی کو مبتلا کرتا ہے جن میں سرکشی ہے ‘ تعدیّ ہے ‘ تکبر ہے۔ اگلی آیت میں ان کے اوصاف بیان کردیے گئے۔

اللہ جل شانہ کی مثالیں اور دنیا ابن عباس ابن مسعود اور چند صحابہ ؓ سے روایت ہے کہ جب اوپر کی تین آیتوں میں منافقوں کی دو مثالیں بیان ہوئیں یعنی آگ اور پانی کی تو وہ کہنے لگے کہ ایسی ایسی چھوٹی مثالیں اللہ تعالیٰ ہرگز بیان نہیں کرتا۔ اس پر یہ دونوں آیتیں نازل ہوئیں۔ حضرت قتادہ ؒ فرماتے ہیں جب قرآن پاک میں مکڑی اور مکھی کی مثال بیان ہوئی تو مشرک کہنے لگے بھلا ایسی حقیر چیزوں کے بیان کی قرآن جیسی اللہ کی کتاب میں کیا ضرورت تو جواباً یہ آیتیں اتریں اور کہا گیا کہ حق کے بیان سے اللہ تعالیٰ نہیں شرماتا خواہ وہ کم ہو یا زیادہ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مکہ میں اتری حالانکہ ایسا نہیں واللہ اعلم۔ اور بزرگوں سے بھی اس طرح کا شان نزول مروی ہے۔ ربیع بن انس فرماتے ہیں یہ خود ایک مستقل مثال ہے جو دنیا کے بارے میں بیان کی گئی۔ مچھر جب تک بھوکا ہوتا ہے زندہ رہتا ہے جہاں موٹا تازہ ہوا مرا۔ اسی طرح یہ لوگ ہیں کہ جب دنیاوی نعمتیں دل کھول کر حاصل کرلیتے ہیں وہیں اللہ کی پکڑ آجاتی ہے جیسے اور جگہ فرمایا آیت (فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ) 6۔ الانعام :44) جب یہ ہماری نصیحت بھول جاتے ہیں تو ہم ان پر تمام چیزوں کے دروازے کھول دیتے ہیں یہاں تک کہ اترانے لگتے ہیں اب دفعتہً ہم انہیں پکڑ لیتے ہیں (ابن جریر ابن ابی حاتم) امام ابن جریر نے پہلے قول کو پسند فرمایا ہے اور مناسبت بھی اسی کی زیادہ اچھی معلوم ہوتی ہے واللہ اعلم۔ تو مطلب یہ ہوا کہ مثال چھوٹی سے چھوٹی ہو یا بڑی سے بڑی بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ نہ رکتا ہے نہ جھجھکتا ہے۔ لفظ ما یہاں پر کمی کے معنی بتانے کے لئے ہے اور بعوضۃ کا زیربدلیت کی بنا پر عربی قاعدے کے مطابق ہے جو ادنیٰ سے ادنیٰ چیز پر صادق آسکتا ہے یا " ما " نکرہ موصوفہ ہے اور " بعوضہ " صفت ہے ابن جریر " ما " کا موصولہ ہونا اور " بعوضہ " کا اسی اعراب سے معرب ہونا پسند فرماتے ہیں اور کلام عرب میں یہ بکثرت رائج ہے کہ وہ ما اور من کے صلہ کو انہی دونوں کا اعراف دیا کرتے ہیں اس لئے کہ کبھی یہ نکرہ ہوتے ہیں اور کبھی معرفہ جیسے حسان بن ثابت کے شعروں میں ہے۔ یکفی بنا فضلا علی من غیرنا حب النبی محمدا یانا ہمیں غیروں پر صرف یہی فضیلت کافی ہے کہ ہمارے دل جب نبی ﷺ سے پر ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ " بعوضہ " منصوب ہو حذف جار کی بنا پر اور اس سے پہلے اور بین کا لفظ مقدر مانا جائے۔ کسائی اور قرا اسی کو پسند کرتے ہیں ضحاک اور ابراہیم بن عبلہ " بعوضہ " پڑھتے ہیں۔ ابن جنبی کہتے ہیں یہ " ما " کا صلہ ہوگا اور عائد حذف مانی جائے گی جیسے آیت (تمام علی الذی احسن میں فما فوقھا) کے دو معنی بیان کئے ہیں ایک تو یہ کہ اس سے بھی ہلکی اور ردی چیز۔ جیسے کسی شخص کی بخیلی کا ایک شخص ذکر کرے تو دوسرا کہتا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے تو مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اس سے بھی زیادہ گرا ہوا ہے۔ کسائی اور ابو عبیدہ یہی کہتے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اگر دنیا کی قدر اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔ دوسرے یہ معنی ہیں کہ اس سے زیادہ بڑی اس لئے کہ بھلا مچھر سے ہلکی اور چھوٹی چیز اور کیا ہوگی ؟ قتادہ بن وعامہ کا یہی قول ہے۔ ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ جس کسی مسلمان کو کانٹا چبھے یا اس سے زیادہ تو اس پر بھی اس کے درجے بڑھتے ہیں اور گناہ مٹتے ہیں اس حدیث میں بھی یہی لفظ فوقھا ہے تو مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ ان چھوٹی بڑی چیزوں کے پیدا کرنے سے شرماتا نہیں اور نہ رکتا ہے۔ اسی طرخ انہیں مثال کے طور پر بیان کرنے سے بھی اسے عار نہیں۔ ایک جگہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ اے لوگو ایک مثال بیان کی جاتی ہے کان لگا کر سنو جنہیں اللہ کے سوا پکار سکتے ہو وہ سارے کے سارے جمع ہوجائیں تو بھی ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے بلکہ مکھی اگر ان سے کچھ چھین لے جائے تو یہ اس سے واپس نہیں لے سکتے۔ عابد اور معبود دونوں ہی بیحد کمزور ہیں۔ دوسری جگہ فرمایا ان لوگوں کی مثال جو اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کو مددگار بناتے ہیں مکڑی کے جالے جیسی ہے جس کا گھر تمام گھروں سے زیادہ بودا اور کمزور ہے اور جگہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کی مثال پاک درخت سے دی جس کی جڑ مضبوط ہو اور جس کی شاخیں آسمان میں ہوں جو بحکم اللہ ہر وقت پھل دیتا ہو۔ ان مثالوں کو اللہ تعالیٰ لوگوں کے غورو تدبر کے لئے بیان فرماتا ہے اور ناپاک کلام کی مثال ناپاک درخت جیسی ہے جو زمین کے اوپر اوپر ہی ہو اور جڑیں مضبوط نہ ہوں اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو مضبوط بات کے ساتھ دنیا اور آخرت میں برقرار رکھتا ہے اور ظالموں کو گمراہ کرنا ہے اللہ جو چاہے کرے۔ دوسری جگہ فرمایا اللہ تعالیٰ اس مملوک غلام کی مثال پیش کرتا ہے جسے کسی چیز پر اختیار نہیں۔ اور جگہ فرمایا۔ دو شخصوں کی مثال اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے جن میں سے ایک تو گونگا اور بالکل گرا پڑا بےطاقت ہے جو اپنے آقا پر بوجھ ہے جہاں جائے برائی ہی لے کر آئے اور دوسرا وہ جو عدل و حق کا حکم کرے، کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ؟ دوسری جگہ ہے اللہ تعالیٰ تمہارے لئے خود تمہاری مثال بیان فرماتا ہے کیا تم اپنی چیزوں میں اپنے غلاموں کو بھی اپنا شریک اور برابر کا حصہ دار سمجھتے ہو ؟ اور جگہ ارشاد ہے ان مثالوں کو ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں اور انہیں (پوری طرح) صرف علم والے ہی سمجھتے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی مثالیں قرآن پاک میں بیان ہوئی ہیں۔ بعض سلف صالحین فرماتے ہیں جب میں قرآن کی کسی مثال کو سنتا ہوں اور سمجھ نہیں سکتا تو مجھے رونا آتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ ان مثالوں کو صرف عالم ہی سمجھ سکتے ہیں۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں مثالیں خواہ چھوٹی ہوں خواہ بڑی ایماندار ان پر ایمان لاتے ہیں اور انہیں حق جانتے ہیں اور ان سے ہدایت پاتے ہیں۔ قتادہ کا قول ہے کہ وہ انہیں اللہ کا کلام سمجھتے ہیں۔ " انہ " کی ضمیر کا مرجع مثال ہے یعنی مومن اس مثال کو اللہ کی جانب سے اور حق سمجھتے ہیں اور کافر باتیں بناتے ہیں جیسے سورة مدثر میں آیت (وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰۗىِٕكَةً) 74۔ المدثر :31) یعنی ہم نے آگ والے فرشتوں کی گنتی کو کفار کی آزمائش کا سبب بنایا ہے۔ اہل کتاب یقین کرتے ہیں اور ایماندار ایمان میں بڑھ جاتے ہیں۔ ان دونوں جماعتوں کو کوئی شک نہیں رہتا لیکن بیمار دل اور کفار کہہ اٹھتے ہیں کہ اس مثال سے کیا مراد ؟ اسی طرح اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ یہاں بھی اسی ہدایت و ضلالت کو بیان کیا۔ ایک ہی مثال کے دو ردعمل کیوں ؟ ٭٭ صحابہ کرام سے مروی ہے کہ اس سے گمراہ منافق ہوتے ہیں اور مومن راہ پاتے ہیں۔ گمراہ اپنی گمراہی میں بڑھ جاتے ہیں کیونکہ اس مثال کے درست اور صحیح ہونے کا علم ہونے کے باوجود اسے جھٹلاتے ہیں اور مومن اقرار کر کے ہدایت ایمان کو بڑھا لیتے ہیں۔ فاسقین سے مراد منافق ہیں۔ بعض نے کہا ہے کافر مراد ہیں جو پہچانتے ہیں اور انکار کرتے ہیں۔ حضرت سعد کہتے ہیں مراد خوارج ہیں۔ اگر اس قول کی سند حضرت سعد بن ابی وقاص تک صحیح ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ تفسیر معنوی ہے اس سے مراد خوارج نہیں ہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ فرقہ بھی فاسقوں میں داخل ہے۔ جنہوں نے نہرو ان میں حضرت علی پر چڑھائی کی تھی تو یہ لوگ گو نزول آیت کے وقت موجود نہ تھے لیکن اپنے بدترین وصف کی وجہ سے معناً فاسقوں میں داخل ہیں۔ انہیں خارجی اس لئے کہا گیا ہے کہ امام کی اطاعت سے نکل گئے تھے اور شریعت اسلام کی پابندی سے آزاد ہوگئے تھے۔ لغت میں فاسق کہتے ہیں اطاعت اور فرمانبرداری سے نکل جانے کو۔ جب چھلکا ہٹا کر خوشہ نکلتا ہے تو عرب کہتے ہیں فسقت چوہے کو بھی فویسقہ کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بل سے نکل کر فساد کرتا ہے۔ صحیحین کی حدیث ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پانچ جانور فاسق ہیں حرم میں اور حرم سے باہر کے قتل کر دئیے جائیں۔ کوا، چیل، بچھو، چوہا اور کالا کتا۔ پس لفظ فاسق کافر کو اور ہر نافرمان کو شامل ہے لیکن کافر فسق زیادہ سخت اور زیادہ برا ہے اور آیت میں مراد فاسق سے کافر ہے واللہ اعلم۔ اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ بعد میں ان کا وصف یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا عہد توڑتے ہیں۔ اس کے فرمان کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور یہ سب اوصاف کفار کے ہیں۔ مومنوں کے اوصاف تو اس کے برخلاف ہوتے ہیں جیسے سورة رعد میں بیان ہے کہ آیت (افمن یعلم) الخ کیا پس وہ شخص جو جانتا ہے کہ جو کچھ تیرے رب کی طرف سے تجھ پر اترا وہ حق ہے کیا اس شخص جیسا ہوسکتا ہے جو اندھا ہو ؟ نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں جو اللہ کے وعدوں کو پورا کرتے ہیں اور میثاق نہیں توڑتے اور اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں جوڑتے ہیں اپنے رب سے ڈرتے رہتے ہیں اور حساب کی برائی سے کانپتے رہتے ہیں۔ آگے چل کر فرمایا۔ جو لوگ اللہ کے عہد کو اس کی مضبوطی کے بعد توڑ دیں اور جس چیز کو ملانے کا اللہ کا حکم ہو وہ اسے نہ ملائیں اور زمین میں فساد پھیلائیں ان کے لئے لعنتیں ہیں اور ان کے لئے برا گھر ہے۔ یہاں عہد سے مراد وہ وصیت ہے جو اللہ نے بندوں کو کی تھی جو اس کے تمام احکام بجا لانے اور تمام نافرمانیوں سے بچنے پر مشتمل ہے۔ اس کا توڑ دینا اس پر عمل نہ کرنا ہے۔ بعض کہتے ہیں عہد توڑنے والے اہل کتاب کے کافر منافق اور ہیں اور عہد وہ ہے جو ان سے تورات میں لیا گیا تھا کہ وہ اس کی تمام باتوں پر عمل کریں اور محمد ﷺ کی اتباع کریں جب بھی آپ تشریف لے آئیں آپ کی نبوت کا اقرار کریں اور جو کچھ آپ اللہ کی جانب سے لے کر آئیں اس کی تصدیق کریں اور اس عہد کو توڑ دینا یہ ہے کہ انہوں نے آپ کی نبوت کا علم ہونے کے باوجود الٹا اطاعت سے انکار کردیا اور باوجود عہد کا علم ہونے کے اسے چھپایا دنیاوی مصلحتوں کی بنا پر اس کا الٹ کیا۔ امام ابن جریر اس قول کو پسند کرتے ہیں اور مقاتل بن حیان کا بھی یہی قول ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد کوئی خاص جماعت نہیں بلکہ شک و کفر و نفاق والے سب کے سب مراد ہیں۔ عہد سے مراد توحید اور نبی ﷺ کی نبوت کا اقرار کرانا ہے جن کی دلیل میں کھلی ہوئی نشانیاں اور بڑے بڑے معجزے موجود ہیں اور اس عہد کو توڑ دینا توحید و سنت سے منہ موڑنا اور انکار کرنا ہے یہ قول اچھا ہے زمحشری کا میلان بھی اسی طرح ہے وہ کہتے ہیں عہد سے مراد اللہ تعالیٰ کی توحید ماننے کا اقرار ہے جو فطرت انسان میں داخل ہونے کے علاوہ روز میثاق بھی منوایا گیا ہے۔ فرمایا گیا تھا کہ آیت (اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ) 7۔ الاعراف :172) کیا میں تمہارا رب ہوں ؟ تو سب نے جواب دیا تھا بلٰی بیشک تو ہمارا رب ہے۔ پھر وہ کتابیں دی گئیں ان میں بھی اقرار کرایا گیا جیسے فرمایا آیت (وَاَوْفُوْا بِعَهْدِىْٓ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ) 2۔ البقرۃ :40) میرے عہد کو نبھاؤ میں بھی اپنے وعدے پورے کروں گا۔ بعض کہتے ہیں وہ عہد مراد ہے جو روحوں سے لیا گیا تھا جب وہ حضرت آدم ؑ کی پیٹھ سے نکالی گئی تھیں جیسے فرماتا ہے آیت (وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ) 7۔ الاعراف :172) جب تیرے رب نے اولاد آدم سے وعدہ لیا کہ میں ہی تمہارا رب ہوں اور ان سب نے اقرار کیا۔ اور اس کا توڑنا اس سے انحراف ہے۔ یہ تمام اقوال تفسیر ابن جریر میں منقول ہیں۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں عہد اللہ کو توڑنا منافقوں کا کام ہے جن میں یہ چھ خصلتیں ہوتی ہیں۔ بات کرنے میں جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا، امانت میں خیانت کرنا، اللہ کے عہد کو مضبوطی کے بعد توڑ دینا، اللہ تعالیٰ نے جن رشتوں کے ملانے کا حکم دیا ہے، انہیں نہ ملانا، زمین میں فساد پھیلانا۔ یہ چھ خصلتیں ان کی اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب کہ ان کا غلبہ ہو اور جب وہ مغلوب ہوتے ہیں تو تین اگلے کام کرتے ہیں۔ سدی فرماتے ہیں قرآن کے احکام کو پڑھنا جاننا سچ کہنا پھر نہ ماننا بھی عہد کو توڑنا تھا اللہ تعالیٰ نے جن کاموں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے ان سے مراد صلہ رحمی کرنا، قرابت کے حقوق ادا کرنا وغیرہ ہے جیسے اور جگہ قرآن مجید میں ہے آیت (فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُـقَطِّعُوْٓا اَرْحَامَكُمْ) 47۔ محمد :22) قریب ہے کہ تم اگر لوٹو تو زمین میں فساد کرو اور رشتے ناتے توڑ دو۔ ابن جریر اسی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آیت عام ہے یعنی جسے ملانے اور ادا کرنے کا حکم دیا تھا انہوں نے اسے توڑا اور حکم عدولی کی۔ خاسرون سے مراد آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہیں جیسے فرمان باری ہے۔ آیت (اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ) 13۔ الرعد :25) ان لوگوں کے لئے لعنت ہے اور ان کے لئے برا گھر ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کا فرمان ہے کہ اہل اسلام کے سوا جہاں دوسروں کے لئے یہ لفظ آیا ہے وہاں مراد گنہگار ہیں۔ خاسرون جمع ہے خاسر کی۔ چونکہ ان لوگوں نے نفسیاتی خواہشوں اور دنیوی لذتوں میں پڑ کر رحمت اللہ سے علیحدگی کرلی اس لئے انہیں نقصان یافتہ کہا گیا جیسے وہ شخص جسے اپنی تجارت میں گھاٹا آئے اسی طرح یہ کافرو منافق ہیں یعنی قیامت والے دن جب رحم و کرم کی بہت ہی حاجت ہوگی اس دن رحمت الٰہی سے محروم رہ جائیں گے۔

آیت 26 - سورۃ البقرہ: (۞ إن الله لا يستحيي أن يضرب مثلا ما بعوضة فما فوقها ۚ فأما الذين آمنوا فيعلمون أنه الحق من...) - اردو