سورۃ البقرہ: آیت 257 - الله ولي الذين آمنوا يخرجهم... - اردو

آیت 257 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

ٱللَّهُ وَلِىُّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ يُخْرِجُهُم مِّنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ ۖ وَٱلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ أَوْلِيَآؤُهُمُ ٱلطَّٰغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ ٱلنُّورِ إِلَى ٱلظُّلُمَٰتِ ۗ أُو۟لَٰٓئِكَ أَصْحَٰبُ ٱلنَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَٰلِدُونَ

اردو ترجمہ

جو لوگ ایمان لاتے ہیں، اُن کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں، اُن کے حامی و مدد گار طاغوت ہیں اور وہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allahu waliyyu allatheena amanoo yukhrijuhum mina alththulumati ila alnnoori waallatheena kafaroo awliyaohumu alttaghootu yukhrijoonahum mina alnnoori ila alththulumati olaika ashabu alnnari hum feeha khalidoona

آیت 257 کی تفسیر

اب سلسلہ کلام اور آگے بڑھتا ہے ۔ ایک متحرک اور محسوس انداز میں منظر کشی کی جاتی ہے ۔ ہدایت کا صراط مستقیم اور گمراہی اور ضلالت کے راستے صاف صاف آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں ۔ نظر آتا ہے کہ ہدایت کیا ہے اور ضلالت کیسی ہے ؟ اسکرین پر نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ہاتھ سے پکڑ کر اندھیروں سے نکالتے ہیں اور روشنی میں لاتے ہیں جبکہ طاغوت جو کفار کے مددگار ہیں اہل کفر کا ہاتھ تھامے ہوئے انہیں نور ایمان سے ظلمات کفر میں لے جاتے ہیں ۔

یہ ایک عجیب پر کیف زندہ منظر ہے ۔ رہوار خیال کبھی ایک منظر کی طرف سرپٹ دوڑ رہا ہے اور کبھی دوسرے کی طرف ۔ ادہر سے واپس ہوتا ہے تو ادہر بھاگ کھڑا ہوتا ہے ۔ یہ انداز گفتگو ایسے جامد اور غیر متحرک انداز میں کلام کی جگہ اختیار کرتا ہے جو را ہوار خیال کو مہمیز نہیں دے سکتا ۔ نہ اس سے انسانی احساس لطف اندوز ہوسکتا ہے نہ شعور ووجدان میں طلاطم آتا ہے۔ اور جو صرف ذہن انسانی سے بذریعہ الفاظ ہی خطاب کرسکتا ہے ۔

اگر ہم کلام الٰہی کی عظمت کا صحیح اندازہ کرنا چاہیں تو اسی مفہوم کو ہم مختلف الفاظ میں لفظ اور معانی کا اظہار کرسکتے ہیں مثلاً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ مسلمانوں کا دوست ہے وہ انہیں راہ ایمان کی طرف لاتا ہے اور وہ لوگ جو کفر اختیار کرتے ہیں ، وہ انہیں راہ کفر کی طرف کھینچتے ہیں ۔ “ دیکھئے یہ الفاظ اور انداز کلام ہمارے سامنے مردہ پڑا ہے ۔ اس میں وہ گرمی ، وہ حرکت اور القاء نہیں ہے جو کلام الٰہی میں ہے (تفصیل کے لئے دیکھئے میری کتاب التصویر الفنی فی القرآن کی فصل طریقہ قرآن)

لیکن اس حسی اور القائی تصویر کشی کے ساتھ قرآن کریم کا حسن تعبیر اور حقیقت پسندانہ اظہار مفہوم دیکھئے ۔

اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ................ ” جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں ان کے حامی و مددگار طاغوت ہیں اور وہ انہیں تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔ “

حقیقت یہ ہے ایمان نور ہے ۔ وہ اپنے مزاج اور حقیقت کے اعتبار سے ایک منفرد نور ہے ۔ اور بیشک کفر اندھیرے ہیں اور یہ اپنے مزاج اور حقیقت کے اعتبار سے متعدد اور متنوع ہیں لیکن ہیں سب کے سب اندھیرے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان کی تعبیر نور کے ساتھ اور کفر کی تعبیر ظلمات کے ساتھ ایک بہترین تعبیر ہے ۔ یہ نہایت ہی حقیقت پسندانہ انداز تعبیر ہے ۔

جب دل مومن میں پہلے پہل ایمان کی چنگاری سلگتی ہے تو اس کے ذریعہ مومن کی پوری شخصیت نور سے بھرجاتی ہے ۔ اس کی روح روشن ہوتی ہے اور اسے تشفی ہوجاتی ہے ۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک مومن کی روح اپنے ماحول میں روشنی پھیلاتی ہے ۔ اس کا ماحول روشن اور واضح ہوجاتا ہے ۔ اس نور سے تمام موجودات کی حقیقت سامنے آجاتی ہے ۔ تمام اقدار کی تشریح ہوجاتی ہے ۔ تمام تصورات حیات کی اصلیت سامنے آجاتی ہے ۔ مومن کا دل و دماغ ان تمام حقائق کو بغیر کسی ملاوٹ کے واضح طو رپر پالیتا ہے ۔ وہ ہر قدر کو اپنی جگہ دیکھتا ہے اور اسے اس کا صحیح مقام دیتا ہے۔

ایمان ایک ایسا نور ہوتا ہے جس کے ذریعہ ایک مومن اس کائنات میں رائج قانون قدرت کو پالیتا ہے ۔ اب یہ مومن اپنے طرز عمل کو اس کائنات میں رائج قانون قدرت کے ساتھ ہم آہنگ کرلیتا ہے ۔ جو اس کے ارد گرد جاری وساری ہوتا ہے ۔ اور وہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ پروقار طریقے سے اپنی راہ پر آگے بڑھتا ہے ۔ وہ اپنی راہ کو چونکہ اچھی طرح پالیتا ہے اس لئے وہ نہ کہیں گمراہ ہوتا ہے اور نہ ہی اپنی راہ میں غیر اہم رکاوٹوں کے ساتھ الجھتا ہے ۔

یہ ایک ایسی روشنی ہے جو صرف ایک اور منفرد راستہ دکھاتی ہے ۔ کفر کی گمراہیاں تو وہ مختلف قسم کی تاریکیاں ہیں ۔ شہوت وخود سری کی تاریکی ، فسق وفجور کی تاریکی ، کبر و غرور اور سرکشی کی تاریکی ، غلامی اور ضعیفی کی تاریکی ، ریاکاری اور نفاق کی تاریکی ، لالچ اور نفع اندوزی کی تاریکی ، شک اور بےچینی کی تاریکی ، غرض بیشمار اور لاتعداد ظلمات ہیں جو سب کے سب کفر وگمراہی کی تاریکیاں ہیں اور سب کا مزاج یہ ہے کہ ان میں گھرا ہوا انسان اللہ کی راہ سے بےطرف ہوجاتا ہے۔ وہ غیر اللہ سے ہدایت حاصل کرتا ہے اور غیر اسلامی نظام زندگی کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے اور جونہی ایک انسان اللہ کے اس منفرد نور اس واحد حقیقت پسندانہ اور واضح روشنی کو ترک کردیتا ہے ، وہ کفر کے مختلف اندھیروں میں سے کسی اندھیرے میں پھنس جاتا ہے ۔ یہ اندھیرے متنوع ہیں اور سب ہپی اندھیرے ہیں ۔ اور ان اندھیروں کا انجام کیا ہے ؟ جو لوگ ان اندھیروں میں زندگی بسر کرتے ہیں أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ................ ” یہ لوگ آگ والے ہیں اور یہ ہمیشہ آگ میں رہنے والے ہیں ۔ “ اگر یہ لوگ اسلام کی روشنی میں راہ پانے کی کوشش نہیں کرتے تو وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ہمیشہ آگ میں رہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ سچائی ایک اور منفرد حقیقت ہے ۔ سچائیاں دو نہیں ہوسکتیں اور گمراہی کی مختلف انواع و اقسام ہیں اور حق وصداقت کے علاوہ جو کچھ ہے وہ سب گمراہی ہے ۔

اس سے پہلے کہ ہم اس سبق پر بات ختم کرکے آگے بڑھیں ، مناسب یہ ہے کہ ہم اس قاعدے یعنیلاإِكْرَاهَ فِي الدِّينِ................ کے بارے میں ایک اصولی بات کردیں ۔ اس قاعدہ کلیہ کے ساتھ ساتھ اسلام میں فرضیت جہاد کا بھی حکم دیا گیا ہے اور ایسے مواقع پیش آئے ہیں جن میں اسلام نے جہاد میں حصہ لیا ہے ۔ حالانکہ ایک سابقہ آیت میں کہا گیا ہے ۔ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ................ (بقرہ 193) ” اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے اور نظام زندگی اللہ کا ہوجائے ۔ “

اسلام کے بعض مفاد پرست دشمنوں نے یہ الزام لگایا ہے کہ لاإِكْرَاهَ فِي الدِّينِ................ کے اصولی قاعدہ کے ساتھ ساتھ جہاد کی فرضیت کا حکم دینا ایک متضاد بات ہیں۔ اس سوال کے جواب میں بعض لوگوں نے بظاہر اسلام کی مدافعت کرتے ہوئے اور بباطن اسلام کے ساتھ دشمنی کرتے ہوئے مسلمانوں کے شعور سے جذبہ جہاد ختم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ایسے لوگ فریضہ جہاد کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اسلام کے قیام اور اس کی نشرواشاعت میں فریضہ جہاد نے بہت اہم رول ادا کیا ہے ۔ ایسے لوگ بڑی مکاری سے ، نہایت ہی نرم انداز سے اور نہایت ہی حکیمانہ انداز سے مسلمانوں کے دل میں یہ بات بٹھانا چاہتے ہیں کہ آج جہاد کی ضرورت باقی نہیں رہی اور نہ آئندہ کبھی فریضہ جہاد کی ضرورت پیش آسکتی ہے ۔ بظاہر یہ لوگ یہ بات اسلام کی مدافعت میں کرتے ہیں (دیکھئے آرنلڈ کی کتاب ” دعوت اسلامی “ ترجمہ ڈاکٹر ابراہیم حسن وبرادرز)

یہ دونوں قسم کے لوگ مستشرقین ہیں ۔ جو ایک ہی میدان میں کام کرتے ہیں ۔ یہ دونوں اسلام کے خلاف برسرپیکار ہیں ۔ یہ اسلامی منہاج میں تحریف کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ لوگ اس شعور کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو نظام جہاد ایک مسلمان کے نفس میں پیدا کردیتا ہے۔ یہ لوگ اسلام کے شعور جہاد سے خائف ہیں ۔ اس لئے کہ میدان جہاد میں وہ کبھی بھی اسلام کا مقابلہ نہیں کرسکے ۔ اس لئے اس شعور کو مٹاکر یہ اپنے لئے امن و اطمینان پیدا کرنا چاہتے ہیں اور جب سے انہوں نے دل مسلم سے جہاد ختم کیا ہے یا اسے الجھا دیا ہے ، انہوں نے امت مسلمہ کے جسم پر مختلف پہلوؤں سے ضرب ہائے کاری لگائی ہیں اور ہر میدان میں اسے شکست دے دی ہے ۔ یہ لوگ امت مسلمہ کو یہ سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ مسلم اقوام اور استعماری قوم کی جنگ فقط معاشی اور تجارتی منڈیوں کی جنگ ہے ۔ لہٰذا اس جنگ میں امت مسلمہ کو جذبہ جہاد کو بیچ میں نہیں لاناچا ہئے جو فقط نظریاتی جنگ میں کارآمد ہوتا ہے ۔ اس لئے اس دور جدید میں جہاد کی بات بلاجواز ہے ۔

اسلام نے پہلے پہل جہاد اس وقت شروع کیا جس وقت مسلمانوں پر مظالم توڑے جارہے تھے تاکہ ان کی جان ، مال اور نظریہ حیات کو محفوظ کیا جاسکے ۔ یعنی جہاد برائے قیام امن ۔ اس تفسیر کے حصہ دوئم میں اس اصول کی تشریح آیت وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ................ ” اور فتنہ و فساد قتل سے زیادہ شدید ہیں “ کی تفسیر کے موقع پر کرچکے ہیں ۔ اس اصول کے مطابق اسلام نے نظریاتی تشدد اور اس کی وجہ سے جسمانی اذیت اور اہل نظریہ پر بوجہ نظریہ ظلم وتشدد کو قتل سے زیادہ شدید قرار دیا ۔ اس اصول کے مطابق نظریات کی قدر و قیمت انسانی زندگی سے بھی زیادہ ہے ۔ اگر ایک مسلمان کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنے مال اور اپنی جان کی حفاظت میں ہتھیار اٹھاسکتا ہے تو اسے بطریق اولیٰ اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنے دین ، عقیدے اور نظریہ کی حفاظت اور دفاع میں ہتھیار اٹھائے ۔ اس وقت مسلمان محض اپنے عقیدے کی وجہ سے ظلم وتشدد کی چکی میں پس رہے تھے ۔ ان کے سامنے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار ہی نہ تھا کہ وہ اپنی عزیز ترین دولت یعنی دولت ایمان کی مدافعت میں ہتھیار اٹھائیں ۔ ان پر یہ تشدد محض ان کے عقیدے کی وجہ سے ہورہا تھا اور کرہ ارض کے مختلف حصوں میں ان پر یہ مظالم ڈھائے جارہے تھے ۔ سرزمین اندلس نے ان وحشیانہ مظالم کو دیکھا ہے ۔ وہ اس اجتماعی قتل و غارت کی گواہ ہے ۔ جو مسلمانوں پر محض ان کے دین اور عقیدے کی وجہ سے ڈھائے گئے ۔ پھر یہ سرزمین ان مظالم کی بھی گواہ ہے جو وہاں عیسائیوں کے کیتھولک فرقے نے دوسرے فرقوں کے خلاف روا رکھے تاکہ انہیں زبردستی کیتھولک بنایاجائے۔ آج اسپین کی حالت یہ ہے کہ وہاں سے مسلمان اور دوسرے عیسائی فرقوں کا نام ونشان مٹادیا گیا ہے ۔ پھر بیت المقدس اور اس کے اردگرد کے اسلامی علاقے صلیبی حملوں سے بھی بخوبی واقف ہیں ۔ جن کا ہدف صرف اسلامی نظریہ حیات اور دین اسلام پر غلبہ پانا تھا ۔ ان جنگوں کا دفاع بھی اہل اسلام نے اسلامی نظریہ حیات کے پلیٹ فارم سے کیا اور وہ اس میں بہت اچھی طرح کامیاب رہے ۔ اور اس علاقے کو اندلس کے انجام بد سے بچالیا ۔ آج بھی اشتراکی علاقوں ، بت پرست علاقوں ، یہودی علاقوں اور مسیحی علاقوں میں مسلمانوں پر ظلم ڈھائے جارہے ہیں اور یہ محض اس لئے کہ وہ مسلمان ہیں ۔ لہٰذا اگر صحیح معنوں میں مسلمان ہیں تو آج بھی ان پر جہاد فرض ہے جس طرح پہلے فرض تھا تاکہ مسلمانوں کے خلاف ان مظالم کو بند کیا جاسکے ۔

اسلام کے نظریہ جہاد کی پشت پر دوسرا محرک یہ تھا کہ نظریاتی آزادی کے بعد نظریاتی دعوت وتبلیغ کی آزادی کے لئے بھی مواقع پیدا کئے جائیں ۔ اس لئے اسلام انسانی زندگی اور اس کائنات کا ایک بہترین حل پیش کرتا ہے ۔ وہ اس کرہ ارض پر انسانی زندگی کی نشوونما کے لئے ایک بہترین نظام تجویز کرتا ہے ۔ وہ اس بہترین عقیدے اور مکمل نظام کو پوری انسانیت تک پہنچانا چاہتا ہے ۔ تاکہ وہ اسے سنیں اور سمجھیں ۔ اور سننے اور سمجھنے کے بعد پھر وہ آزاد ہیں کہ وہ اسے قبول کرلیں یا رد کردیں ۔ اس لئے کہ دین وہ عقیدے کے بارے میں وہ کسی جبر واکراہ کا قائل نہیں ہے ۔ لیکن مکمل نظریاتی آزادی سے پہلے اس امر کی ضرورت ہے کہ تمام انسانوں تک اسلامی پیغام کے پہنچنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ۔ اس لئے کہ اللہ کی جانب سے یہ پیغام تمام انسانوں کے لئے بھیجا گیا ہے ۔ لہٰذا وہ تمام رکاوٹیں دور ہونی چاہئیں جو عوام الناس کو اس پیغام کے سننے ، اسے قبول کرنے اور اگر وہ چاہیں تو قافلہ ہدایت یافتگان میں شامل ہونے کی راہ میں حائل ہیں ۔ ان رکاوٹوں میں سب سے بڑی رکاوٹ اس کرہ ارض پر قائم طاغوتی نظام زندگی ہوتا ہے ۔ یہ نظام عوام الناس اور اس پیغام کی راہ میں حائل ہوتا ہے ۔ اور جو لوگ کسی طرح اس عقیدے اور پیغام کو سن کر اپنالیتے ہیں۔ یہ طاغوتی نظام ان پر تشدد شروع کردیتا ہے ۔ لہٰذا اسلام نے جب بھی جہاد کیا ہے اس نے ایسے باطل اور طاغوتی نظامہائے زندگی کا قلع قمع کیا ہے ۔ اور اس نے ایسے نظاموں کی جگہ ایسا عادلانہ نظام زندگی قائم کیا ہے جس میں ہر جگہ دعوت حق اور داعی حق کو پوری پوری آزادی حاصل ہو ۔ یہ مقصد اور ہدف آج بھی قائم ہے ۔ لہٰذا آج بھی مسلمانوں پر جہاد فرض ہے تاکہ وہ اس پیغام کو عام کرسکیں بشرطیکہ مسلمان ، مسلمان ہوں۔

ایک دوسرا مقصد جس کے لئے اسلام نے جہاد کو روا رکھا ہے وہ اسلامی نظام زندگی کا قیام اور اس کی حفاظت ہے۔ یہ واحد نظام زندگی ہے جو ایک انسان کو اپنے دوسرے انسان بھائی تک رسائی حاصل کرنے کی آزادی عطا کرتا ہے۔ اور اس میں ہر انسان دوسرے انسان کی نسبت سے بالکل آزاد بھی ہے ۔ اس نظام میں بندگی صرف خدائے واحد بلندو برتر کے لئے مخصوص ہے ۔ اور یہ نظام اس دنیا سے انسان کی جانب سے دوسرے انسان کے لئے ہر قسم کی غلامی کا قلع قمع کردیتا ہے ۔ اس نظام میں کوئی فرد ، کوئی طبقہ اور کوئی قوم دوسرے انسان کے لئے قانون سازی کا کام نہیں کرسکتی ۔ اور نہ اس قانون سازی کے ذریعہ انسانوں کو کوئی اپنا غلام اور زیر دست بناسکتا ہے ۔ اس نظام میں سب انسانوں کا ایک ہی رب ہے ۔ وہ تمام انسانوں کے قانون وضع کرتا ہے بالکل مساوات کے ساتھ ۔ اور تمام انسان صرف اس رب کی بارگاہ میں خضوع اور خشوع کے ساتھ سجدہ ریز ہوتے ہیں ، صرف اس رب واحد کی بندگی کرتے ہیں اور صرف اس پر ایمان لاتے ہیں ۔ اس نظام میں انسان کی جانب سے کسی دوسرے انسان کی اطاعت صرف ایک ہی صورت میں کی جاتی ہے کہ وہ اللہ کی شریعت کا نافذ کنندہ ہو۔ اور امت کی جانب سے نفاذ شریعت کا کام اس کے سپرد کردیا گیا ہو ۔ نفاذ شریعت کا کام بھی کوئی از خود نہیں کرسکتا۔ اس لئے کہ قانون سازی صرف اللہ کا کام ہے ۔ انسانی زندگی میں شریعت شان خداوندی کا اظہار ہے ۔ اس لئے کوئی انسان اس بات کا مستحق نہیں ہے کہ وہ اپنے لئے شریعت سازی کا کام مخصوص کرسکے حالانکہ وہ صرف ایک بندہ اللہ ہے ۔

یہ اسلامی نظام حیات کا اصل الاصول ہے اور اس اصول ودستور کے نتیجے میں ایک ایسا پاک اخلاقی نظام زندگی پرورش پاتا ہے جس میں تمام بنی نوع انسان کو کامل حریت اور آزادی حاصل ہوتی ہے ۔ ان انسانوں کو بھی جو اسلامی عقیدہ حیات کو سرے سے قبول ہی نہیں کرتے ۔ اس نظام میں ہر شخص کی عزت محفوظ ہوتی ہے ، یہاں تک کہ جو لوگ اسلامی نظام زندگی کو قبول ہی نہیں کرتے ہر اس باشندے کے حقوق محفوظ ہوتے ہیں جو کسی اسلامی ملک میں رہائش پذیر ہوتا ہے ۔ چاہے اس کا عقیدہ جو بھی ہو ۔ اس نظام میں کسی بھی شخص کو اسلامی عقیدہ اپنانے پر مجبور نہیں کیا جاتا ۔ اس میں دین کے بارے میں کسی کو مجبور نہیں کیا جاتا ۔ اس میں صرف تبلیغ کی آزادی ہوتی ہے۔

محض اسلام نے جہاد کو اس لئے فرض کیا ہے کہ وہ دنیا میں مذکورہ بالا ارفع اور اکمل نظام زندگی کو قائم کرے اور اس کی حمایت اور بچاؤ کی تدابیر اختیار کرے ۔ یہ اسلام کا حق تھا کہ وہ بذریعہ جہاد باطل اور فاسد نظام ہائے زندگی کا قلع قمع کردے جو اس اصول پر قائم تھے کہ بعض انسان بعض دوسرے انسانوں کے غلام ہیں اور جن میں بعض انسان خدائی کے مقام کے مدعی ہوتے ہیں جو خدائی فرائض سنبھالتے ہیں ، حالانکہ یہ ان کا حق نہیں ہوتا ۔ اور ظاہر ہے کہ جب اسلام اس نصب العین کو لے کر اٹھتا ہے تو باطل نظامہائے زندگی بھی اس کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور وہ اس کے دشمن ہوجاتے ہیں ۔ لہٰذا اس کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہ تھا کہ اسلام ان طاغوتی نظاموں کا قلع قمع کرکے ان کی جگہ اس کرہ ارض پر اپنے ارفع اور اکمل نظام کا اعلان کردے ۔ اور پھر اس نظام کے زیر سایہ انہیں اپنے مخصوص عقائد کے اندر آزادی عطاکردے اور ان پر صرف اسلام کے اجتماعی سول کوڈ ، اسلامی اخلاقیات اور مملکت کی اقتصادی پالیسی کی پابندی لازم ہو ۔ رہے دینی اور قلبی عقائد ورجحانات تو وہ ان میں مکمل طور پر آزاد ہیں ۔ ان کے شخصی قوانین ومعاملات میں بھی وہ مکمل طور پر آزاد ہیں۔ اپنے عقائد کے مطابق اپنے معاملات طے کریں لیکن اسلامی نظام زندگی ان پر قائم ہو جو ان کی حفاظت کرے ۔ ان کی آزادی اس کے سایہ میں محفوظ ہو ۔ ان کو مکمل آزادی رائے حاصل ہو ۔ ان کی عزت محفوظ ہو اور ان کے مکمل اساسی حقوق انہیں حاصل ہوں لیکن اس نظام کے دائرے کے اندر۔

یہ جہاد اب بھی باقی ہے اور مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اسلامی نظام زندگی کے قیام کے لئے اس جہاد کو قائم رکھیں ۔

حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ................ ” یہاں تک کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور جنس دین اللہ کا ہوجائے۔ “ اور اس دنیا سے انسان کی خدائی ختم ہو اور اللہ کے سوا کسی کی بندگی اور غلامی دنیا میں نہ رہے ۔ (مسئلہ جہاد کی زیادہ وضاحت کے لئے ملاحظہ فرمائیے کتاب الجہاد فی الاسلام مصنفہ المسلم العظیم سید ابوا لاعلیٰ مودودی ۔ نیز میری کتاب ” السلام العالمی فی الاسلام “ (سید قطب)

غرض اسلام نے تلوار اس لئے نہیں اٹھائی کہ وہ لوگوں کو اسلامی اعتقادات اور تصورات اپنانے پر مجبور کردے ۔ نہ دنیا میں اسلام کا پھلاؤ تلوار کے بل بوتے پر ہوا ہے جیسا کہ اسلام کے بعض اعداء اسلام یہ الزام لگاتے ہیں ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے جہاد اس لئے شروع کیا تھا کہ وہ اس کرہ ارض پر ایک پر امن نظام زندگی قائم کردے جس کے سائے میں تمام عقائد اور مختلف دینی تصورات رکھنے والے لوگ امن وآشتی کی زندگی بسر کرسکیں ۔ ہاں وہ اسلام کے سیاسی دائرے عمل میں رہتے ہوئے اپنے عقائد محفوظ رکھیں اور آزادی سے رہیں ۔ اگرچہ وہ اسلامی عقائد قبول نہ کریں۔

اسلامی نظام کے وجود ، اس کے پھیلاؤ اور اہل اسلام کے امن و سکون کے لئے اور ان لوگوں کے امن و اطمینان کے لئے جو لوگ اس نظام زندگی میں داخل ہونا چاہتے تھے اسلام کی مسلح قوت کی اشد ضرورت تھی ۔ نیز اقامت دین اور حفاظت دین کے لئے بھی مسلح قوت کا وجود از بس ضروری تھا ۔ اسلامی جہاد کا ادارہ کوئی معمولی اہمیت کا حامل نہ تھا ۔ نہ وہ ایسا تھا کہ اس کی اس وقت کوئی ضرورت نہ ہو یا اس کی ضرورت نہ ہو یا یہ کہ مستقبل میں اس کی ضرورت نہ ہو ۔ مسلمانوں کا بدترین دشمن یہ بات ان کے ذہن نشین کرتے ہیں کہ اب جہاد کی ضرورت نہیں ہے ۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کو ایک اجتماعی نظام کی ضرورت ہے ۔ اس نظام کو ایک اجتماعی قوت کی ضرورت ہے ۔ اور یہ قوت اسلام کے جذبہ جہاد میں مضمر ہے ۔ یہ اسلام کا مزاج ہے جس کے بغیر نہ اسلام قائم ہوسکتا ہے اور نہ ہی وہ قائدانہ کردار ادا کرسکتا ہے۔

لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ................” دین میں جبر نہیں ہے “ لیکن اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید یہ حکم بھی دیتا ہے

وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَمِنْ رِبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِنْ دُونِهِمْ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ

” اور تم لوگ ، جہاں تمہارا بس چلے ، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لئے مہیا رکھو تاکہ اس کے ذریعے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوفزدہ کردو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ “

اسلام کی نظر میں یہ بنیادی نقطہ ہے اور اسی کی روشنی میں مسلمانوں کو اپنے دین کو سمجھنا چاہئے اور اسی نقطہ نظر سے اہل اسلام کو اپنی تاریخ پڑھنا چاہئے ۔ اسلام کے نظریہ جہاد کے بارے میں مسلمانوں کو ایسا موقف اختیارنہ کرنا چاہئے جس میں وہ ایک ملزم کی طرح کھڑے ہوں اور اپنا دفاع کرنے کی کوشش کررہے ہوں ۔ اس سلسلے میں انہیں ایک پر اعتماد ، پر عزم اور خود دار شخص کا موقف اختیار کرنا چاہئے جسے یہ یقین ہو کہ وہ اس دنیا کے تمام تصورات سے بلند تر ہے ۔ اسلامی نظام تمام نظاموں کے مقابلے میں بلند تر ہے ۔ دین اسلام تمام ادیان سے بالاتر ہے۔ اہل اسلام کو ان لوگوں سے دھوکہ نہ کھانا چاہئے جو بظاہر دین اسلام کا دفاع کررہے ہوتے نظر آتے ہیں لیکن دراصل وہ ان کے دل و دماغ سے تصور جہاد کھرچ کھرچ کر نکال رہے ہیں تاکہ وہ خود اسلام دشمن اقوام کو محفوظ کرسکیں ۔ جہاد دراصل ظالم طاغوت کی برتری کو ریزہ ریزہ کرنے والا عمل ہے ۔ اور جہاد میں تمام انسانیت کی بھلائی ہے ۔ اور انسانیت کا سب سے بڑ دشمن وہ شخص ہے جو اسے جہاد سے محروم کرتا ہے اور انسانیت اور جہاد کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے ۔ لہٰذا یہ شخص انسانیت کا دشمن نمبر ایک قرار پاتا ہے۔ اور انسانیت میں اگر رشد وہدایت ہو تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے اس عظیم دشمن انسانیت کا پیچھا کرے ۔ اس لئے کہ اہل ایمان امت مختار ہیں ۔ انہیں دولت ایمان سے برگزیدہ بنایا گیا ہے ۔ اس لئے خود ان کے اپنے نفوس کے لئے بھی اور پوری انسانیت کی خاطر بھی یہ ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ منکر جہاد کا تعاقب کریں اور یہ ان کا ایسا فریضہ ہے جس کے بارے میں ازروئے شریعت وہ عنداللہ مسئول ہیں۔

آیت 257 اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْالا ایمان درحقیقت اللہ اور بندے کے درمیان ایک دوستی کا رشتہ قائم کرتا ہے۔ یہ ولایت باہمی یعنی دو طرفہ دوستی ہے۔ ایک طرف مطلوب یہ ہے کہ بندہ اللہ کا ولی بن جائے : اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآء اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ یونس یاد رکھو ‘ اللہ کے دوستوں کے لیے نہ تو کسی طرح کا خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور انہوں نے تقویٰ اختیار کیا۔ دوسری طرف اللہ بھی اہل ایمان کا ولی ہے ‘ یعنی دوست ہے ‘ پشت پناہ ہے ‘ مددگار ہے ‘ کارساز ہے۔یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط وہ انہیں نکالتا رہتا ہے تاریکیوں سے نور کی ‘ طرف۔ آپ نوٹ کریں گے کہ قرآن میں نور ہمیشہ واحد آتا ہے۔ اَنوار کا لفظ قرآن میں نہیں آیا ‘ اس لیے کہ نور ایک حقیقت واحدہ ہے۔ لیکن ظُلُمٰت ہمیشہ جمع میں آتا ہے ‘ اس لیے کہ تاریکی کے ‘ shades مختلف ہیں۔ ایک بہت گہری تاریکی ہے ‘ ایک ذرا اس سے کم ہے ‘ پھر اس سے کمتر ہے۔ کفر ‘ شرک ‘ الحاد ‘ مادہ پرستی ‘ لا ادریت ‘ Agnosticism وغیرہ مختلف قسم کی تاریکیاں ہیں۔ تو جتنے بھی غلط فلسفے ہیں ‘ جتنے بھی غلط نظریات ہیں ‘ جتنی بھی عمل کی غلط راہیں ہیں ‘ ان سب کے اندھیاروں سے نکال کر اللہ اہل ایمان کو ایمان کی روشنی کے اندر لاتا رہتا ہے۔وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْلِیٰٓءُہُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَہُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ط اگر کہیں نو رکی تھوڑی بہت رمق انہیں ملی بھی تھی تو اس سے انہیں محروم کر کے انہیں تاریکیوں کی طرف دھکیلتے رہتے ہیں۔ اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ ۔ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْ عِبَادِکَ الْمُؤْمِنِیْنَ ‘ اَللّٰھُمَّ اَخْرِجْنَا مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ۔ آمین یا رب العالمین !اس کے بعد حضرت ابراہیم اور حضرت عزیر علیہ السلام کی زندگی کے کچھ واقعات بیان کیے جا رہے ہیں۔

اندھیرے سے اجالے کی طرف اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اس کی رضامندی کے طلبگار کو وہ سلامتی کی راہنمائی کرتا ہے اور شک و شبہ کے کفر و شک کے اندھیروں سے نکال کر نور حق کی صاف روشنی میں لا کھڑا کرتا ہے، کفار کے ولی شیاطین ہیں جو جہالت و ضلالت کو کفر و شرک کو مزین کرکے انہیں ایمان سے اور توحید سے روکتے ہیں اور یوں نور حق سے ہٹا کر ناحق کے اندھیروں میں جھونک دیتے ہیں، یہی کافر ہیں اور ہمیشہ یہ دوزخ میں ہی پڑے رہیں گے، لفظ نور کو واحد لانا اور ظلمات کو جمع لانا اس لئے ہے کہ حق اور ایمان اور سچا راستہ ایک ہی ہے اور کفر کی کئی قسمیں ہیں، کافروں کی بہت سی شاخیں ہیں جو سب کی سب باطل اور ناحق ہیں جیسے اور جگہ ہے آیت (وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ) 6۔ الانعام :153) میری سیدھی راہ یہی ہے تم اسی کی تابعداری کرو اور، اور راستوں پر نہ چلو ورنہ اس راہ سے بھٹک جاؤ گے۔ یہ وصیت تمہیں تمہارے بچاؤ کیلئے کردی اور جگہ ہے آیت (وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ) 6۔ الانعام :1) اور بھی اس قسم کی بہت سی آیتیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حق ایک ہی ہے، اور باطل میں تفرق و انتشار ہے، حضرت ایوب بن خالد فرماتے ہیں، اہل ہوا یا اہل فتنہ کھڑے کئے جائیں گے جس کی چاہت صرف ایمان ہی کی ہو وہ تو روشن صاف اور نورانی ہوگا اور جس کی خواہش کفر کی ہو وہ سیاہ اور اندھیروں والا ہوگا، پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔

آیت 257 - سورۃ البقرہ: (الله ولي الذين آمنوا يخرجهم من الظلمات إلى النور ۖ والذين كفروا أولياؤهم الطاغوت يخرجونهم من النور إلى الظلمات ۗ...) - اردو