سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر بیان القرآن (ڈاکٹر اسرار احمد) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 43 (آیات 257 سے 259 تک)

ٱللَّهُ وَلِىُّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ يُخْرِجُهُم مِّنَ ٱلظُّلُمَٰتِ إِلَى ٱلنُّورِ ۖ وَٱلَّذِينَ كَفَرُوٓا۟ أَوْلِيَآؤُهُمُ ٱلطَّٰغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ ٱلنُّورِ إِلَى ٱلظُّلُمَٰتِ ۗ أُو۟لَٰٓئِكَ أَصْحَٰبُ ٱلنَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَٰلِدُونَ أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِى حَآجَّ إِبْرَٰهِۦمَ فِى رَبِّهِۦٓ أَنْ ءَاتَىٰهُ ٱللَّهُ ٱلْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَٰهِۦمُ رَبِّىَ ٱلَّذِى يُحْىِۦ وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا۠ أُحْىِۦ وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَٰهِۦمُ فَإِنَّ ٱللَّهَ يَأْتِى بِٱلشَّمْسِ مِنَ ٱلْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ ٱلْمَغْرِبِ فَبُهِتَ ٱلَّذِى كَفَرَ ۗ وَٱللَّهُ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّٰلِمِينَ أَوْ كَٱلَّذِى مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍ وَهِىَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىٰ يُحْىِۦ هَٰذِهِ ٱللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۖ فَأَمَاتَهُ ٱللَّهُ مِا۟ئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُۥ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۖ قَالَ بَل لَّبِثْتَ مِا۟ئَةَ عَامٍ فَٱنظُرْ إِلَىٰ طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ ۖ وَٱنظُرْ إِلَىٰ حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ ءَايَةً لِّلنَّاسِ ۖ وَٱنظُرْ إِلَى ٱلْعِظَامِ كَيْفَ نُنشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا ۚ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُۥ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
43

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (تفسیر بیان القرآن: ڈاکٹر اسرار احمد)

اردو ترجمہ

جو لوگ ایمان لاتے ہیں، اُن کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں، اُن کے حامی و مدد گار طاغوت ہیں اور وہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allahu waliyyu allatheena amanoo yukhrijuhum mina alththulumati ila alnnoori waallatheena kafaroo awliyaohumu alttaghootu yukhrijoonahum mina alnnoori ila alththulumati olaika ashabu alnnari hum feeha khalidoona

آیت 257 اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْالا ایمان درحقیقت اللہ اور بندے کے درمیان ایک دوستی کا رشتہ قائم کرتا ہے۔ یہ ولایت باہمی یعنی دو طرفہ دوستی ہے۔ ایک طرف مطلوب یہ ہے کہ بندہ اللہ کا ولی بن جائے : اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآء اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ یونس یاد رکھو ‘ اللہ کے دوستوں کے لیے نہ تو کسی طرح کا خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور انہوں نے تقویٰ اختیار کیا۔ دوسری طرف اللہ بھی اہل ایمان کا ولی ہے ‘ یعنی دوست ہے ‘ پشت پناہ ہے ‘ مددگار ہے ‘ کارساز ہے۔یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط وہ انہیں نکالتا رہتا ہے تاریکیوں سے نور کی ‘ طرف۔ آپ نوٹ کریں گے کہ قرآن میں نور ہمیشہ واحد آتا ہے۔ اَنوار کا لفظ قرآن میں نہیں آیا ‘ اس لیے کہ نور ایک حقیقت واحدہ ہے۔ لیکن ظُلُمٰت ہمیشہ جمع میں آتا ہے ‘ اس لیے کہ تاریکی کے ‘ shades مختلف ہیں۔ ایک بہت گہری تاریکی ہے ‘ ایک ذرا اس سے کم ہے ‘ پھر اس سے کمتر ہے۔ کفر ‘ شرک ‘ الحاد ‘ مادہ پرستی ‘ لا ادریت ‘ Agnosticism وغیرہ مختلف قسم کی تاریکیاں ہیں۔ تو جتنے بھی غلط فلسفے ہیں ‘ جتنے بھی غلط نظریات ہیں ‘ جتنی بھی عمل کی غلط راہیں ہیں ‘ ان سب کے اندھیاروں سے نکال کر اللہ اہل ایمان کو ایمان کی روشنی کے اندر لاتا رہتا ہے۔وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَوْلِیٰٓءُہُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَہُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ط اگر کہیں نو رکی تھوڑی بہت رمق انہیں ملی بھی تھی تو اس سے انہیں محروم کر کے انہیں تاریکیوں کی طرف دھکیلتے رہتے ہیں۔ اُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِج ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ ۔ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْ عِبَادِکَ الْمُؤْمِنِیْنَ ‘ اَللّٰھُمَّ اَخْرِجْنَا مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ۔ آمین یا رب العالمین !اس کے بعد حضرت ابراہیم اور حضرت عزیر علیہ السلام کی زندگی کے کچھ واقعات بیان کیے جا رہے ہیں۔

اردو ترجمہ

کیا تم نے اُس شخص کے حال پر غور نہیں کیا، جس نے ابراہیمؑ سے جھگڑا کیا تھا؟ جھگڑا اِس بات پر کہ ابراہیمؑ کا رب کون ہے، اور اس بنا پر کہ اس شخص کو اللہ نے حکومت دے رکھی تھی جب ابراہیمؑ نے کہا کہ "میرا رب وہ ہے، جس کے اختیار میں زندگی اور موت ہے، تو اُس نے جواب دیا: "زندگی اور موت میرے اختیار میں ہے"ابراہیمؑ نے کہا: "اچھا، اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو ذرا اُسے مغرب سے نکال لا" یہ سن کر وہ منکر حق ششدر رہ گیا، مگر اللہ ظالموں کو راہ راست نہیں دکھایا کرتا

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alam tara ila allathee hajja ibraheema fee rabbihi an atahu Allahu almulka ith qala ibraheemu rabbiya allathee yuhyee wayumeetu qala ana ohyee waomeetu qala ibraheemu fainna Allaha yatee bialshshamsi mina almashriqi fati biha mina almaghribi fabuhita allathee kafara waAllahu la yahdee alqawma alththalimeena

آیت 258 اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْ حَآجَّ اِبْرٰھٖمَ فِیْ رَبِّہٖٓ اَنْ اٰتٰٹہ اللّٰہُ الْمُلْکَ 7 یہ بابل عراق کا بادشاہ نمرود تھا۔ یہ ذہن میں رکھیے کہ نمرود اصل میں لقب تھا ‘ کسی کا نام نہیں تھا۔ جیسے فرعون ج فراعنہ مصر کے بادشاہوں کا لقب ہوتا تھا اسی طرح نمرود ج نماردہ بابل عراق کے بادشاہوں کا لقب تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش ار میں ہوئی تھی جو بابل ‘ Babylonia کا ایک شہر تھا اور وہاں نمرود کی بادشاہت تھی۔ جیسے فرعون نے مصر میں اپنی بادشاہت اور اپنی خدائی کا دعویٰ کیا تھا اسی طرح کا دعویٰ نمرود کا بھی تھا۔ فرعون اور نمرود کا خدائی کا دعویٰ درحقیقت سیاسی بادشاہت اور اقتدار کا دعویٰ تھا کہ اختیار مطلق ہمارے ہاتھ میں ہے ‘ ہم جس چیز کو چاہیں غلط قرار دے دیں اور جس چیز کو چاہیں صحیح قرار دے دیں۔ یہی اصل میں خدائی اختیار ہے جو انہوں نے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ تحلیل و تحریم اللہ تعالیٰ کا حق ہے ‘ کسی شے کو حلال کرنے یا کسی شے کو حرام کرنے کا اختیار واحد اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور جس شخص نے بھی قانون سازی کا یہ اختیار اللہ کے قانون سے آزاد ہو کر اپنے ہاتھ میں لے لیا وہی طاغوت ہے ‘ وہی شیطان ہے ‘ وہی نمرود ہے ‘ وہی فرعون ہے۔ ورنہ فرعون اور نمرود نے یہ دعویٰ تو نہیں کیا تھا کہ یہ دنیا ہم نے پیدا کی ہے۔ اِذْ قَالَ اِبْرٰہٖمُ رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ لا قال اَنَا اُحْیٖ وَاُمِیْتُ ط نمرود نے جیل سے سزائے موت کے دو قیدی منگوائے ‘ ان میں سے ایک کی گردن وہیں اڑا دی اور دوسرے کی سزائے موت معاف کرتے ہوئے اسے رہا کردیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہنے لگا کہ دیکھو ‘ میں نے جس کو چاہا زندہ رکھا اور جس کو چاہا مار دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا کہ یہ کٹ حجتی پر اترا ہوا ہے ‘ اسے ایسا جواب دیا جانا چاہیے جو اس کو چپ کرا دے۔ قَالَ اِبْرٰہٖمُ فَاِنَّ اللّٰہَ یَاْتِیْ بالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِہَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُہِتَ الَّذِیْ کَفَرَ ط اب اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ یہ بات سن کر بھونچکا اور ششدر ہو کر رہ گیا۔وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ اللہ نے اسے راہ یاب نہیں کیا ‘ لیکن وہ چپ ہوگیا ‘ اس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بات کا کوئی جواب نہیں بن پڑا۔ اس کے بعد اس نے بت کدے کے پجاریوں کے مشورے سے یہ فیصلہ کیا کہ ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں جھونک دیا جائے۔

اردو ترجمہ

یا پھر مثال کے طور پر اُس شخص کو دیکھو، جس کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا، جو اپنی چھتوں پر اوندھی گری پڑی تھی اُس نے کہا: "یہ آبادی، جو ہلاک ہو چکی ہے، اسے اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا؟" اس پر اللہ نے اس کی روح قبض کر لی اور وہ سوبرس تک مُردہ پڑا رہا پھر اللہ نے اسے دوبارہ زندگی بخشی اور اس سے پوچھا: "بتاؤ، کتنی مدت پڑے رہے ہو؟" اُس نے کہا: "ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں گا" فرمایا: "تم پر سو برس اِسی حالت میں گزر چکے ہیں اب ذرا اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو کہ اس میں ذرا تغیر نہیں آیا ہے دوسری طرف ذرا اپنے گدھے کو بھی دیکھو (کہ اِس کا پنجر تک بوسید ہ ہو رہا ہے) اور یہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دینا چاہتے ہیں پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے اِس پنجر کو ہم کس طرح اٹھا کر گوشت پوست اس پر چڑھاتے ہیں" اس طرح جب حقیقت اس کے سامنے بالکل نمایاں ہو گئی، تو اس نے کہا: "میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے"

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Aw kaallathee marra AAala qaryatin wahiya khawiyatun AAala AAurooshiha qala anna yuhyee hathihi Allahu baAAda mawtiha faamatahu Allahu miata AAamin thumma baAAathahu qala kam labithta qala labithtu yawman aw baAAda yawmin qala bal labithta miata AAamin faonthur ila taAAamika washarabika lam yatasannah waonthur ila himarika walinajAAalaka ayatan lilnnasi waonthur ila alAAithami kayfa nunshizuha thumma naksooha lahman falamma tabayyana lahu qala aAAlamu anna Allaha AAala kulli shayin qadeerun

آیت 259 اَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَّہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا ج تفاسیر میں اگرچہ اس واقعے کی مختلف تعبیرات ملتی ہیں ‘ لیکن یہ دراصل حضرت عزیر علیہ السلام کا واقعہ ہے جن کا گزر یروشلم شہر پر ہوا تھا جو تباہ و برباد ہوچکا تھا۔ بابل عراق کے بادشاہ بخت نصر Nebuchadnezzar نے 586 ق م میں فلسطین پر حملہ کیا تھا اور یروشلم کو تاخت و تاراج کردیا تھا۔ اس وقت بھی عراق اور اسرائیل کی آپس میں بدترین دشمنی ہے۔ یہ دشمنی درحقیقت ڈھائی ہزار سال پرانی ہے۔ بخت نصر کے حملے کے وقت یروشلم بارہ لاکھ کی آبادی کا شہر تھا۔ بخت نصر نے چھ لاکھ نفوس کو قتل کردیا اور باقی چھ لاکھ کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتا ہوا قیدی بنا کرلے گیا۔ یہ لوگ ڈیڑھ سو برس تک اسیری captivity میں رہے ہیں اور یروشلم اجڑا رہا ہے۔ وہاں کوئی متنفسّ زندہ نہیں بچا تھا۔ بخت نصر نے یروشلم کو اس طرح تباہ و برباد کیا تھا کہ کوئی دو اینٹیں سلامت نہیں چھوڑیں۔ اس نے ہیکل سلیمانی کو بھی مکمل طور پر شہید کردیا تھا۔ یہودیوں کے مطابق ہیکل کے ایک تہہ خانے میں تابوت سکینہ بھی تھا اور وہاں ان کے ربائی بھی موجود تھے۔ ہیکل مسمار ہونے پر وہیں ان کی موت واقع ہوئی اور تابوت سکینہ بھی وہیں دفن ہوگیا۔ تو جس زمانے میں یہ بستی اجڑی ہوئی تھی ‘ حضرت عزیر علیہ السلام کا ادھر سے گزر ہوا۔ انہوں نے دیکھا کہ وہاں کوئی متنفسّ زندہ نہیں اور کوئی عمارت سلامت نہیں۔ قَالَ اَنّٰی یُحْیٖ ہٰذِہِ اللّٰہُ بَعْدَ مَوْتِہَاج ان کا یہ سوال اظہار حیرت کی نوعیت کا تھا کہ اس طرح اجڑی ہوئی بستی میں دوبارہ کیسے احیا ہوسکتا ہے ؟ دوبارہ کیسے اس میں لوگ آکر آباد ہوسکتے ہیں ؟ اتنی بڑی تباہی و بربادی کہ کوئی متنفس باقی نہیں ‘ کوئی دو اینٹیں سلامت نہیں !فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ ماءَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ ط قَالَ کَمْ لَبِثْتَ ط قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ ط۔ ان کو ایسا محسوس ہوا جیسے تھوڑی دیر کے لیے سویا تھا ‘ شاید ایک دن یا دن کا کچھ حصہ میں یہاں رہا ہوں۔قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ ماءَۃَ عَامٍ اللہ تعالیٰ نے فرمایا بلکہ تم پورے سو سال اس حال میں رہے ہو فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ ج۔ ان میں سے کوئی شے گلی سڑی نہیں ‘ ان کے اندر کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی۔وَانْظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ حضرت عزیر علیہ السلام کی سواری کا گدھا اس عرصے میں بالکل ختم ہوچکا تھا ‘ اس کی بوسیدہ ہڈیاں ہی باقی رہ گئی تھیں ‘ گوشت گل سڑ چکا تھا۔ وَلِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ یعنی اے عزیر علیہ السلام ! ہم نے تو خود تمہیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنانا ہے ‘ اس لیے ہم تمہیں اپنی یہ نشانی دکھا رہے ہیں تاکہ تمہیں دوبارہ اٹھائے جانے پر یقین کامل حاصل ہو۔وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُہَا ثُمَّ نَکْسُوْہَا لَحْمًا ط چنانچہ حضرت عزیر علیہ السلام کے دیکھتے ہی دیکھتے ان کے گدھے کی ہڈیاں جمع ہو کر اس کا ڈھانچہ کھڑا ہوگیا اور پھر اس پر گوشت بھی چڑھ گیا۔فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ لا حضرت عزیر علیہ السلام نے بچشم سر ایک مردہ جسم کے زندہ ہونے کا مشاہدہ کرلیا۔قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ انہیں یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ اس اجڑی ہوئی بستی کو بھی دوبارہ آباد کرسکتا ہے ‘ اس کی آبادی اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔حضرت عزیر علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی نشاۃأثانیہ Renaissance کے نقیب کی حیثیت حاصل ہے۔ بابل کی اسارت کے دوران یہود اخلاقی زوال کا شکار تھے۔ جب حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے متذکرہ بالا مشاہدات کرا دیے تو آپ علیہ السلام نے وہاں جا کر یہود کو دین کی تعلیم دی اور ان کے اندر روح دین کو بیدار کیا۔ اس کے بعد ایران کے بادشاہ کیخورس Cyrus نے جب بابل عراق پر حملہ کیا تو یہودیوں کو اسارت captivity سے نجات دی اور انہیں دوبارہ فلسطین میں جا کر آباد ہونے کی اجازت دے دی۔ اس طرح یروشلم کی تعمیر نو ہوئی اور یہ بستی 136 سال بعد دوبارہ آباد ہوئی۔ پھر یہودیوں نے وہاں ہیکل سلیمانی دوبارہ تعمیر کیا جس کو وہ معبد ثانی Second Templeکہتے ہیں۔ پھر یہ ہیکل 70 عیسوی میں رومن جنرل ٹائٹس کے ہاتھوں تباہ ہوگیا اور اب تک دوبارہ تعمیر نہیں ہوسکا۔ دو ہزار برس ہونے کو آئے ہیں کہ ان کا کعبہ زمین بوس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر کے یہودیوں کے دلوں میں آگ سی لگی ہوئی ہے اور وہ مسجد اقصیٰ کو مسمار کر کے وہاں ہیکل سلیمانی معبد ثالث تعمیر کرنے کے لیے بےتاب ہیں۔ اس کے نقشے بھی تیار ہوچکے ہیں۔ بس کسی دن کوئی ایک دھماکہ ہوگا اور خبر آجائے گی کہ کسی جنونی fanatic نے وہاں جا کر بم رکھ دیا تھا ‘ جس کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ شہید ہوگئی ہے۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ ایک جنونی یہودی ڈاکٹر نے مسجد الخلیل میں 70 مسلمانوں کو شہید کر کے خود بھی خود کشی کرلی تھی۔ اسی طرح کوئی جنونی یہودی مسجد اقصیٰ میں بم نصب کر کے اس کو گرا دے گا اور پھر یہودی کہیں گے کہ جب مسجد مسمار ہو ہی گئی ہے تو اب ہمیں یہاں ہیکل تعمیر کرنے دیں۔ جیسے ایودھیا میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد ہندوؤں کا موقف تھا کہ جب مسجد گر ہی گئی ہے تو اب یہاں پر ہمیں رام مندر بنانے دو ! بہرحال یہ حضرت عزیر علیہ السلام کا واقعہ تھا۔ اب اسی طرح کا ایک معاملہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مشاہدہ ہے۔

43