سورۃ البقرہ: آیت 255 - الله لا إله إلا هو... - اردو

آیت 255 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

ٱللَّهُ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلْحَىُّ ٱلْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُۥ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَّهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ ۗ مَن ذَا ٱلَّذِى يَشْفَعُ عِندَهُۥٓ إِلَّا بِإِذْنِهِۦ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَىْءٍ مِّنْ عِلْمِهِۦٓ إِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ ۖ وَلَا يَـُٔودُهُۥ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ ٱلْعَلِىُّ ٱلْعَظِيمُ

اردو ترجمہ

اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اونگھ لگتی ہے زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے کون ہے جو اُس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اُس کی معلومات میں سے کوئی چیز اُن کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی الّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی اُن کو دینا چاہے اُس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allahu la ilaha illa huwa alhayyu alqayyoomu la takhuthuhu sinatun wala nawmun lahu ma fee alssamawati wama fee alardi man tha allathee yashfaAAu AAindahu illa biithnihi yaAAlamu ma bayna aydeehim wama khalfahum wala yuheetoona bishayin min AAilmihi illa bima shaa wasiAAa kursiyyuhu alssamawati waalarda wala yaooduhu hifthuhuma wahuwa alAAaliyyu alAAatheemu

آیت 255 کی تفسیر

اس آیت میں جن صفات کو گنوایا گیا ہے ان میں ہر ایک اسلامی تصور کائنات کے اساسی اصولوں میں کسی ایک اصول پر مشتمل ہے ۔ اگرچہ اسلامی نظریہ حیات اور اسلام کے اساسی عقائد پر مکی دور میں نازل ہونے والی آیات میں تفصیلی بحث کی گئی ہے ۔ تاہم اس اہم اور اساسی موضوع پر مدینہ میں نازل ہونے والی آیات میں بھی بعض اوقات بحث کی گئی ہے ۔ اس لئے کہ ان عقائد و تصورات پر ہی اسلامی نظام زندگی کی بنیادرکھی گئی ہے اور جب تک اساس ٹھیک نہ ہو ، پوری دیوار درست نہیں ہوسکتی ۔ نہ اس نظام کی تشریح ہوسکتی اور نہ یہ نظام نفس انسانی کے مسلمہ حقائق سے ہم آہنگ ہوسکتا ہے ۔ نہ اس کی کوئی معقول اور پر از تعین تعبیر کی جاسکتی ہے ۔

اس کتاب کے حصہ اول میں ، تفسیر سورة فاتحہ کے ضمن میں ، میں نے اس گمراہی پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔ اور یہ کہا ہے کہ ذات باری کے بارے میں انسانی ضمیر اور عقیدہ کی تطہیر کی بڑی ضرورت ہے ۔ انسانی ضمیر جاہلیت کی تہہ بہ تہہ افکار کے نیچے محض اس لئے دبا ہوا تھا کہ انسان کے ذہن میں تصور الٰہ اپنی صاف و شفاف اور واضح شکل میں نہ تھا ۔ یہ عقیدہ خرافات اور دیومالائی عقائد کے نیچے دبا ہوا تھا۔ یہاں تک کے بڑے بڑے فلاسفر کے ہاں بھی تصور خدا واضح اور صاف نہ تھا ۔ یہاں تک کہ جب اسلامی نظریہ حیات آیا اور اس نے ذات باری کو اپنے صحیح تصور کے ساتھ پیش کیا اور انسانی ضمیر کو ان ناقابل یقین مروجہ تصورات کے بوجھ کے نیچے سے نکال دیا اور انسان جس اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں ماررہا تھا ، اس سے اسے نجات ملی۔

غرض اس آیت میں جو صفات بھی بیان کی گئی ہیں وہ اسلامی تصور کائنات کے لئے ایک عمومی اساس ہیں اور اس طرح یہ صفات پھر اسلام کے تفصیلی نظام زندگی کے لئے ماخذ ہیں۔

اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ........ ” اللہ ، جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ۔ “ یہ ایک فیصلہ کن وحدانیت ہے جس میں کسی قسم کے انحراف کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، اور اس میں وہ شرکیہ شائبے بھی نہیں ہیں جو سابقہ ادیان کے تصور الٰہ پر طاری ہوگئے تھے ۔ مثلاً تثلیث کا خودساختہ عقیدہ جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے بعد اہل کلیسا نے اختیار کیا ........ یا وہ عقائد جن کی قدیم مصری اقوام قائل تھیں ۔ جو کسی وقت ایک خدا کے قائل تھے لیکن ازمنہ مابعد میں اس ایک خدا کو سورج کی ٹکیا کی شکل میں متمثل کردیا گیا اور بعدہ ، اس بڑے سورج الٰہ کے تحت بہت سے چھوٹے الٰہ گھڑلئے گئے ۔

یہ فیصلہ کن وحدانیت ، اسلامی تصورات و عقائد کی اساس ہے جس سے اسلامی نظام زندگی اپنی مفصل صورت میں متشکل ہوتا ہے۔ یہی تصور اللہ ہے جس کے نتیجے میں ہم اپنی عبادات اور اطاعات میں صرف اللہ کی جانب متوجہ ہوتے ہیں اس کے مطابق کوئی انسان اللہ کے سوا کسی کا مطیع فرمان اور کسی کا غلام نہیں ہوسکتا ۔ وہ صرف اللہ کی عبادت کرسکتا ہے ۔ صرف اللہ کی اطاعت اس پر فرض ہے جس کا اللہ نے اطاعت کرنے کا واضح حکم دیا ہے ۔ اسی تصور خدا سے یہ اصول پھوٹتا ہے کہ حاکمیت صرف اللہ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اس لئے صرف وہی قانون ساز ہوسکتا ہے اور انسان اپنے قواعد و ضوابط صرف شریعت کی روشنی میں وضع کرسکتا ہے ۔ اسی تصور الٰہ سے یہ بات نکلتی ہے کہ انسان اپنے لئے اقدار حیات صرف اللہ سے اخذ کرسکتا ہے ۔ زندگی کی کوئی قدر اگر اللہ کے ترازو میں کوئی وزن نہیں رکھتی تو اس کا کوئی وزن نہ ہوگا۔ کوئی قانون ، کوئی رواج اور کوئی تنظیم جو اللہ کے نظام کے خلاف ہے بالکل کالعدم ہے ۔ غرض عقیدہ توحید کے نتیجے میں انسانی ضمیر میں ایک شعور پیدا ہوتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں ایک تفصیلی نقشہ حیات مرتب ہوتا ہے۔

الْحَيُّ الْقَيُّومُ........ ” زندہ جاوید اور سنبھالنے والا “ جس حیات کی نسبت یہاں ذات باری کی طرف کی گئی ہے ۔ وہ ذاتی صفت ہے ۔ وہ ایسی حیات نہیں ہے جو مثلاً ایک مخلوق اپنے خالق سے مستعار لیتی ہے ۔ اس معنی میں صرف اللہ ہی زندہ جاوید ہے ۔ وہ ازلی اور ابدی زندہ ہے ۔ نہ اس کا کوئی نقطہ آغاز ہے اور نہ نقطہ انتہا ہے ۔ حیات الٰہیہ زمان ومکان کے اس تصور سے پاک ہے جو مخلوقات کی زندگی کا ایک لازمہ ہے ۔ جس کا ایک نقطہ سے آغاز ہوتا ہے اور ایک یونٹ پر وہ جاکر ختم ہوجاتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں هُوَ الْحَيُّ........ کہا گیا کہ صرف وہی زندہ ہے ۔ اس مفہوم کے ساتھ اور کوئی زندہ نہیں ہے ۔ پھر حیات باری ان تصوراتی لوازم سے پاک ہے ۔ جن کے ساتھ ایک انسان زندگی کا کوئی تصور کرسکتا ہے ۔ اس لئے کہ اللہ جیسا کوئی نہیں ہے لَیسَ کَمِثلِہٖ شَیئیٌ........ یہی وجہ ہے کہ عام زندگی کے مفہوم کے ساتھ جو خصائص وابستہ ہیں اللہ تعالیٰ کی زندگی میں ان کا شائبہ تک نہیں ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی حیات ایک مطلق اور بےقید حیات ہے اور ان خصوصیات سے پاک ہے جو انسانی زندگی کا لازمہ ہیں ۔ لہٰذا اس سے ان تمام تصوراتی دیومالائی مفاہیم کی نفی ہوجاتی ہے جو لوگوں نے اللہ کی جانب منسوب کر رکھے ہیں۔

القیوم کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کانگہبان ہے اور تمام موجودات اس کی وجہ سے موجود ہیں ۔ اور تمام موجودات اپنے وجود اور قیام کے لئے اس کے محتاج ہیں اور اس کے زیر تدبیر ہیں ۔ یہ بات نہیں ہے کہ اللہ تخلیق کے بعد اپنی مخلوقات کے بارے میں کوئی فکر نہیں کرتا جیسا کہ ارسطو کا قول ہے ۔ ارسطو کا یہ خیال تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے علاوہ کسی کے بارے میں فکر مند نہیں ہوسکتا ۔ وہ سمجھتا ہے کہ قیومیت کے اس تصور میں مکمل پاکی اور عظمت پائی جاتی ہے ۔ حالانکہ اس کے اس تصور کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ جل شانہ کا رابطہ اپنی مخلوق کے ساتھ کٹ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ مخلوق کو ترک کردیتے ہیں ۔ اس کے مقابلے میں اللہ کا اسلامی تصور ایک مثبت تصور ہے اس میں سلبیت نہیں ہے ۔ وہ اس اساس پر قائم ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا نگہبان ہے اور دنیا کی ہر ہستی اپنے وجود میں اللہ کے وجود اور تدبیر کی محتاج ہے ۔ یوں ایک مسلم مومن کا ضمیر و شعور ، اس کی پوری زندگی اور اس کا پورا وجود ، اس کے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات کا وجود اللہ جل شانہ کے وجود کے ساتھ مربوط اور متعلق ہوجاتا ہے۔ اور وہ اللہ ہی ہے جو اس مومن ومسلم کی زندگی میں متصرف ہے اور پھر وہی ذات اس کے اردگرد پھیلی ہوئی کائنات میں بھی متصرف ہے اور یہ تصرف ذات باری تعالیٰ نہایت ہی حکیمانہ اور مدبرانہ ہے ۔ اسی منہاج سے وہ اپنی اقدار حیات اور حسن وقبیح کے پیمانے اخذ کرتا ہے ۔ اور اس پوری زندگی میں اور اس پورے عمل میں اللہ تعالیٰ انسان کا نگہبان رہتا ہے۔

لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ................ ” زمین و آسمان میں جو کچھ ہے ، اسی کا ہے ۔ “ یہ ایک ہمہ گیر ملکیت ہے اور بےقید ملکیت ہے ۔ کسی شرط کے ساتھ مشروط نہیں ۔ کسی حد میں محدود نہیں ہے ۔ نہ اس میں کوئی شریک ہے اور نہ یہ ملکیت کبھی ختم ہوتی ہے ۔ یہ وحدہٗ لاشریک الٰہ واحد ہے معانی میں سے ایک معنی ہے ۔ وہ واحد اللہ ہے ۔ صرف وہی الحی ہے ۔ صرف وہی نگہبان ہے ۔ صرف وہی مالک ہے ۔ اس سے ان تمام شرکیہ عقائد کی نفی کردی گئی جو بھی انسانی عقل میں در آسکتے ہیں ۔ اس دنیا میں ملکیت اور حاکمیت کے نظریہ کی بھی وضاحت ہوجاتی ۔ جب اللہ ہی حاکم ومالک ٹھہرا تو پھر اس دنیا میں بھی حق ملکیت کسی کو حاصل نہ ہوگا ۔ انسان حاکم نہ ہوگا بلکہ وہ اسی وحدہ لاشریک حاکم کا خلیفہ ہوگا۔ اور وہ نظام خلافت میں ان تمام حدود وقیود کا پابند ہوگا جو حدود وقیود خلیفہ گیرندہ نے استخلاف کے وقت اپنی شریعت میں خلیفہ پر عائد کی ہیں ۔ اس لئے کوئی خلیفہ شریعت کی حدود وقیود سے آزاد نہ ہوسکے گا ۔ اور اگر کوئی خلیفہ ان قیود کی پابندی نہ کرے گا جو خلافت کے منصب کی وجہ سے اس پر عائد ہیں تو سرے سے اس کی خلافت ہی کالعدم ہوجائے۔ اور اہل ایمان کا یہ فرض ہوگا کہ وہ اس خلیفہ کے خلاف شریعت اقدامات کو مسترد کردیں ۔ اسلامی شریعت میں یہی اسلامی نظریہ کارفرما ہے نیز اس شریعت پر مبنی جو عملی زندگی تشکیل ہوتی ہے ۔ اس کی تہہ میں بھی یہی نظریہ کارفرما ہے۔ جب اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں یہ فرماتے ہیں لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأرْضِ........ ” اور اسی کے لئے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔ “ تو اس سے محض عقیدہ اور نظریہ یا محض خیال مراد نہیں ہوتا ۔ یہ فقرہ دراصل انسان کی پوری زندگی کے لئے ایک دستوری دفعہ ہوتی ہے ۔ نیز دنیاوی زندگی میں باہم جو رابطے قائم ہوتے ہیں ، وہ بھی اسی اساس پر ہیں کہ جو اس دنیا میں ہے وہ اللہ کا ہے ۔

جب یہ حقیقت انسانی ضمیر میں جاگزیں ہوجائے ۔ جب انسان اپنے مالک حقیقی کا صحیح شعور اپنالیتا ہے کہ وہ زمین و آسمان کا مالک ہے اور جب انسان اپنے دل و دماغ سے یہ غلط خیال نکال لیتا ہے کہ جسے وہ اپنی ملکیت سمجھتا ہے وہ تو اس کی ملکیت ہی نہیں ہے اور جب وہ شعوری طور پر اپنی جملہ مقبوضات کو مالک حقیقی کی ملکیت سمجھتا ہے اور جب انسان کے ذہن میں صرف یہ احساس پیدا ہوجاتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں جو کچھ ہے وہ تو عارضی طور پر مانگا ہوا ہے ۔ اور اسے مالک حقیقی کی جانب سے ایک محددود وقت کے لئے دیا ہوا ہے تو ان حقائق کا محض ادراک اور احساس ہی انسان کے دل سے اس کی سرتیزی ، لالچ ، حرص ، بخل اور رات دن جمع کرنے کی فکر کی شدت کو کم کردیتا ہے۔ اس تصور حیات اور ان احساسات کی وجہ سے انسان کے اندر صبر ، تمنا اور قناعت اور راضی برضا ہونے کی صفات پیدا ہوجاتی ہیں ۔ وہ فیاض اور سخی ہوجاتا ہے ۔ اس کے دل میں سکون اور طمانیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ چاہے وہ امیر ہو یا غریب اس کی چال ڈھال میں ایک قسم کا سکون و اطمینان اور قرار پیدا ہوجاتا ہے ۔ اگر اسے کچھ نہ ملے تو اسے حسرت نہیں ہوتی اور اگر اسے اس کا مطلوب حاصل نہیں ہوتا تو وہ اپنے دل میں جلن یا گھٹن نہیں پاتا۔

مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلا بِإِذْنِهِ................ ” کون ہے جو اس کے ہاں ، اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرتا ہے ؟ “ یہ صفات باری میں سے ایک دوسری صفت ہے ۔ اس سے مقام الوہیت اور مقام عبدیت کی اچھی طرح وضاحت ہوجاتی ہے ۔ بندے سب کے سب اللہ تعالیٰ کے دربار میں مقام عبودیت میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے اس مقام سے نہ آگے بڑھ سکتے ہیں اور نہ تجاوز کرسکتے ہیں ۔ وہ بندے کے مقام پر خشوع و خضوع کی حالت میں ایستادہ ہوتے ہیں ۔ جو نہ رب کی طرف آگے بڑھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کے ہاں سفارش کی جرأت کرسکتا ہے ۔ الایہ کہ اسے پیشگی اجازت مل گئی ہو تو وہ اس صورت میں اس اجازت کی حدود میں سفارش کرسکتا ہے ۔ ہاں یہ بندے اور غلام خود اپنے درمیان ضرور فرق مراتب رکھتے ہیں اور خود اللہ کے ہاں بھی ان کے درجات ومقامات میں ضرور تفاوت ہے۔ لیکن جناب باری تعالیٰ میں ان کے لئے ایک حد عبدیت ہے جس سے انہیں آگے بڑھنے کی نہ اجازت ہے اور نہ صلاحیت۔

اللہ تعالیٰ کی شان کبریائی ، اس کی جلالت شان اور اس کے رعب ودبدبے کی طرف یہاں ایک اشارہ کیا گیا ہے اور استفہام انکاری کا فقرہ استعمال کرکے اس اشارے کو مزید مؤثر بنادیا گیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ اور اگر ایسا ہوا تو وہ ناپسندیدہ ہوگا ۔ لہٰذا کون ہے جو جناب باری تعالیٰ میں ایسی جرأت کرسکے ؟ ہاں اگر اس کی اجازت ہو تو ........

اس حقیقت کی روشنی میں وہ تمام باطل تصورات واضح ہوجاتے ہیں ۔ جو انبیاء ورسل کے بعد میں آنے والے لوگوں میں پیدا ہوگئے تھے جن کے حاملین نے حقیقت الٰہیہ اور حقیقت عبدیت کے درمیان التباس پیدا کردیا تھا ۔ ان لوگوں نے یہ عقیدہ اختیار کرلیا تھا کہ اللہ کا بیٹا ہے جو اس کے ساتھ بوجہ تعلق ابنیت کسی نہ کسی شکل میں شریک اور خلیط ہے ۔ پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسے لوگوں کا شریک بنالیا تھا جو اللہ کے ہاں سفارش کرتے ہیں اور وہ لازماً ان کی سفارش کو تسلیم کرتے ہیں یا پھر انہوں نے انسانوں میں سے بعض کو اللہ کا جانشین مقرر کردیا تھا جو اللہ سے اپنی قرابت کی وجہ سے اختیارات حاصل کرچکے تھے لیکن اس حقیقت کے اظہار کے بعد اللہ کے ہاں کوئی شفیع نہیں ہے ۔ یہ تمام تصورات باطل اور ناپسندیدہ ٹھہرتے ہیں ۔ اور انسانی ذہن انہیں قبول ہی نہیں کرتا ۔ انسانی ضمیر اس کا انکار کرتا ہے اور وہ ایک مومن کے رخ خیال پر آتے ہی نہیں ۔

یہ اسلامی تصور حیات کا ایک جلا ہے کہ اس میں کوئی وہم وتلبیس نہیں ہے ۔ اسلامی سوچ میں کوئی لچک نہیں ہے ۔ خدائی ، خدائی ہے اور بندگی ، بندگی ہے۔ ان دوحقائق میں کوئی ذاتی التقاء ممکن نہیں ہے ۔ رب ، رب ہے اور بندہ ، بندہ ہے ۔ ان کے مزاج اور طبیعت میں اشتراک ممکن نہیں ہے اور نہ ہی ان کا آپس میں ملاپ اور ایکا ممکن ہے ۔

ہاں بندے کا اپنے رب کے ساتھ ایک تعلق ہوتا ہے ۔ رب کی جانب سے بندے پر رحمت کا نزول ہوتا ہے ۔ قرب ، محبت اور اعانت ہوتی ہے ۔ اسلام اس تعلق کو تسلیم کرتا ہے اور تعلق باللہ سے نفس انسانی کو شرابور کردیتا ہے ۔ اس سے دل مومن بھرجاتا ہے اور اس پر فیضان رحمت و محبت ہوتا ہے اور مومن رحمت رب کی خوشگوار چھاؤں میں زندگی بسر کرتا ہے ۔ بغیر اس کے ذات الٰہی اور ذات انسانی کے درمیان اختلاط ہو کوئی تصور پیش کیا جائے ۔ بغیر اس کے کہ ہم حق و باطل کی کوئی آمیزش کریں یا افکار باطلہ کا ڈھیر لگاکر کوئی ایسا فکری انتشار و اضطراب پیدا کریں ، جس میں صداقت اور سچائی کوئی واضح اور صاف و شفاف صورت نظر نہ آئے۔

يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلا بِمَا شَاءَ................ ” جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ ان سے اوجھل ہے اس سے بھی وہ واقف ہے ۔ اور اس کی معلومات میں سے کوئی چیز بھی ان کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی ۔ الایہ کہ کسی چیز کا علم ہو خود انہیں دینا چاہے۔ “ اس حقیقت کے دومتقابل پہل وہیں ۔ ایک جانب اس سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ ایک مسلم کا تصور الٰہ کیا ہے ؟ دوسری جانب اس کا اظہار ہوتا ہے کہ اس الٰہ کے سامنے بندہ مسلم کا مقام کیا ہے ؟ اللہ کا مقام یہ ہے کہ وہ ہر ظاہر و باطن ، حاضر و غائب کے بارے میں مکمل علم رکھتا ہے ۔ وہ علیم وخبیر ہے ۔ اس کا علم ، کامل ، جزئیات پر حاوی اور تمام موجودات پر مشتمل ہے ۔ وہ انسان کی موجود حاضر پر بھی حاوی ہے ۔ اور ان سے پوشیدہ ماضی اور آنے والے مستقبل پر بھی حاوی ہے ۔ وہ ان امور پر بھی حاوی ہے جنہیں انسان جانتا ہے اور ان پر بھی حاوی جن کے بارے میں اسے کوئی علم نہیں ہے ۔ غرض ان فقیروں میں اللہ تعالیٰ کے علم کی شمولیت اور استقصاء کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ رہے انسان تو وہ صرف اس قدر جانتے ہیں جس قدر انہیں اللہ تعالیٰ جاننے کی اجازت دیتے ہیں ۔

حقیقت کا پہلاحصہ یہ ہے کہ اللہ ہر ظاہر و باطن کا عالم ہے ۔ یہ حقیقت نفس انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے انسان اور اس کا ضمیر باری تعالیٰ کے سامنے بالکل ننگا ہوجاتا ہے۔ باری تعالیٰ ظاہر و باطن کا علیم وبصیر ہے ۔ جس حقیقت کا انسان کو علم ہے اور وہ اس کا اظہار کررہا ہے وہ بھی اس کے سامنے ہے اور جس چیزکو وہ نہیں جانتا وہ بھی اس کے سامنے ہے ۔ وہ ماضی ، حال اور مستقبل مستور کو بھی جانتا ہے۔ جس کے بارے میں نفس انسانی بےعلم ہوتا ہے ۔ جب انسان کو اس حقیقت کا صحیح شعور ہوجائے تو اس کے جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے ۔ کیونکہ اسے یقین ہوتا ہے کہ وہ تو باری تعالیٰ کے سامنے بالکل ننگا کھڑا ہے ۔ نیز اس تصور سے نفس انسانی میں تسلیم ورضا اور خدا خوفی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اس لئے کہ وہ علیم وبصیر ہے۔

دوسرا پہلو اس حقیقت کا یہ ہے کہ انسان کا علم صرف اس حد تک محیط ہے جس حد تک اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو ۔ انسانوں کو اس حقیقت پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہئے ۔ خصوصاً اس دور میں جبکہ انہوں نے اس کائنات کے طبیعی اور تخلیقی شعبے میں قدرے معلومات حاصل کرلی ہیں ۔

وَلا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلا بِمَا شَاءَ................ ” اور وہ اللہ کے علم میں سے کسی چیز کا ادراک نہیں کرسکتے الا یہ کہ خود اللہ چاہے ۔ “ صرف اللہ ہی ہر چیز کا مکمل علم رکھتا ہے جو کامل اور شامل ہے ۔ اور اس کا علم بےقید ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ کی اجازت ہی سے انسانوں پر بعض علوم منکشف ہوجاتے ہیں ۔ اور یہ انکشافات اللہ تعالیٰ اس لئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا وعدہ فرمایا ہوا ہے اور اس کا وعدہ ہمیشہ سچا ہوتا ہے ۔ فرماتے ہیں سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ................ ” عنقریب ہم ان کو اپنے نشانات دکھائیں گے جو آفاق میں بھی ہیں اور خود ان کے نفسوں میں بھی ہیں ، تاکہ ان پر یہ حقیقت واضح ہوجائے کہ وہ حق ہیں۔ “ لیکن انسان اس بات کو بھول جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان پر جن علوم وحقائق کا انکشاف کردیتے ہیں وہ ان کے لئے فتنہ بن جاتے ہیں ۔ چاہے اس انکشاف کا تعلق قوانین فطرت کائنات سے ہو یا اس کا تعلق ان پوشیدہ معلومات سے ہو جسے وہ چند لحظوں کے لئے ایک متعین حد کے اندر اندر رہ کر جان لیتے ہیں ۔ ان دونوں حقائق اور عطاکردہ معلومات سے انسان فتنے اور گمراہی میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور وہ اس حقیقت کو فراموش کردیتا ہے کہ ان انکشافات کا اصل داتا تو اللہ ہے۔ اس فتنے اور گمراہی کی وجہ سے وہ نہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور نہ ذکر الٰہی ان کے دل میں ہوتا ہے بلکہ وہ خود سر ہوجاتے ہیں اور پھول جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات کفر تک کی نوبت پہنچ جاتی ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے جب چاہا کہ انسان کو اس کرہ ارض پر اپنا خلیفہ بنائے تو اس نے انسان کو اپنی معرفت سے نوازا ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے ساتھ یہ وعدہ کیا کہ وہ عنقریب تمہیں انفس اور تمہارے آفاق میں تمہیں بعض نشانات راہ دکھائے گا ۔ اللہ کا وعدہ ہمیشہ سچا ہوتا ہے۔ اور اللہ نے اسے یوں سچا کر دکھایا کہ آئے دن انسان پر نئے نئے رازوں کا انکشاف ہوتا ہے۔ نسلوں کے بعد نسلوں میں ان اکتشافات کا گراف مسلسل اوپر چلا جارہا ہے ۔ ان انکشافات میں قدرتی توانائیاں ، اور اس کائنات کے طبیعی اصول شامل ہیں جو فریضہ خلافت ارضی ادا کرنے کے لئے انسان کے لئے ضروری ہیں تاکہ وہ اصولوں کی دریافت کے نتیجے میں ان درجات بلند تک پہنچ سکے جو اس کے لئے اللہ نے مقدر کر رکھے ہیں ۔

اس میدان میں اللہ تعالیٰ نے جس قدر علم مناسب سمجھا ، انسان کو عطا کردیا اور اسے اجازت دے دی کہ وہ اس میں کام کرے اور کچھ گوشے ایسے بھی تھے جن کی بابت اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم نہیں دیا ۔ اس لئے کہ منصب خلافت فی الارض کے لئے اسے ان گوشوں کی ضرورت نہ تھی ۔ مثلاً انسان سے خود زندگی کا راز پوشیدہ رکھا گیا جو ابھی تک پوشیدہ ہے اور مستقبل میں بھی وہ ذہن انسانی کے قابو میں آنے والا معلوم نہیں ہوتا ۔ اور ابھی تک پوزیشن یہ ہے کہ اس موضوع پر بحث کرنا اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کے برابر ہے ۔ جبکہ کسی بات پر کوئی بین دلیل نہیں ہوتی ۔ اس طرح انسان سے اگلے لمحے میں ہونے والے واقعات محفوظ اور پوشیدہ رکھے گئے ۔ کیونکہ وہ واقعات غیب ہیں جن تک رسائی کی کوئی سبیل نہیں ہے ۔ اور ان کے آگے اس قدر بھاری دیوار کھڑی کردی گئی ہے کہ انسان اسے دور نہیں کرسکتا۔ ہاں البتہ بعض اوقات اس پردہ مستور کے پیچھے سے اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو ایک جھلک دکھا دیتا ہے ۔ اور پھر پردہ گرجاتا ہے اور خاموشی چھاجاتی ہے ۔ اور انسان کی رفتار ایک حد پر رک جاتی ہے اور وہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا ۔

بہت سے اسرار و رموز انسان سے پوشیدہ رکھے گئے ، جن کے علم کی اسے کوئی حقیقی ضرورت نہ تھی ۔ جن کے بغیر بھی وہ خلافت فی الارض کے فرائض سرانجام دے سکتا تھا۔ اور اس زمین کی حقیقت کیا ہے ؟ یہ تو ایک ذرہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اس وسیع کائنات کی فضا میں تیر رہا ہے۔

اپنے اس علم کی محدودیت کے باوجود اور اس حقیقت کے باوجود کہ اسے جو کچھ دیا گیا ہے وہ اللہ کی جانب سے ہے اور اس کی اجازت ہے ۔ انسان فتنے میں پڑجاتا ہے ۔ وہ اس زمین پر اپنے آپ کو الٰہ سمجھنے لگتا ہے۔ وہ کفر کی راہ اختیار کرتے ہوئے اس کائنات کے لئے کوئی اور الٰہ تسلیم کرنے سے انکار کردیتا ہے ۔ حالانکہ آج بیسویں صدی کے سائنس دان بڑی عاجزی سے یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ ان کا علم محدود ہے ۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس کائنات کے وہ گوشے بہت ہی کم ہیں جن کا وہ ادراک کرسکے ہیں ۔ ہاں بعض جاہل جو اپنے آپ کو سائنس دان سمجھتے ہیں وہ اس غرے میں مبتلا ہیں کہ وہ بہت کچھ جانتے ہیں ۔

وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضَ وَلا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ........ ” اس کی حکومت آسمانوں اور زمینوں پر چھائی ہوئی ہے اور اس کی نگہبانی اس کے لئے تھکادینے والا کام نہیں ہے ۔ “

یہ مقام تو ایسا ہے کہ یہاں اللہ کے اقتدار اعلیٰ کا بیان مجرد طور پر کیا جاتا لیکن یہ قرآن کریم کا ایک خاص انداز بیان ہے کہ وہ مجرد حقائق کو بھی محسوسات کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ اس محسوس تصویر کشی کے انداز بیان سے ذہن انسانی اصل حقیقت کے قریب آجاتا ہے ۔ اور یوں حقیقت انسان کے دل و دماغ میں بیٹھ جاتی ہے ۔ کرسی سے مراد بالعموم اقتدار اعلیٰ ہوتا ہے۔ اور جب یہ کہا گیا کہ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین سے بھی وسیع تر ہے تو گویا آسمانوں اور زمین پر اسی کا اقتدار اعلیٰ قائم ہے ۔ یہ بات تو تصوراتی پہلو سے ہے لیکن ایک محسوس اور ٹھوس انداز تعبیر سے جو تصویر ذہن نشین ہوتی ہے وہ دیرپا اور ٹھوس ہوتی ہے ۔ یہی بات ولا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا میں ہے ۔ اس میں بطو رکنایہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا بیان کیا گیا ہے ۔ لیکن یہ تعبیر بھی محسوس انداز میں پیش کی گئی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو اس عظیم نگہبانی میں نہ کوئی جدوجہد کرنا پڑتی ہے ۔ اور نہ ہی اسے کوئی تھکاوٹ لاحق ہوتی ہے ۔ تعبیر کا یہ انداز قرآن کریم اس لئے اختیار کرتا ہے کہ معانی کی ایسی تصویر کشی کی جائے کہ وہ حس میں اتر جائے اور اس طرح ذہن انسانی میں یہ معانی اچھی طرح بیٹھ جائیں اور یوں نظر آئیں جس طرح محسوسات نظر آتے ہیں۔

جو شخص قرآن کے اس انداز بیان کو سمجھ لیتا ہے اسے ان مباحث اور اعتراضات سے کوئی دلچسپی نہیں رہتی جو قرآن کی اس محسوس انداز تعبیر پر یونانی فلسفہ کے نتیجے میں پیدا ہوئیں اور ان پر طویل عرصے تک جدل وجدال ہوتا رہا ۔ کیونکہ ان مباحث نے قرآن مجید کے سادہ اور فطری انداز تعبیر کو خواہ مخواہ چیستاں بنانے کی کوشش کی اور اس کے حسن سادہ کو ختم کردیا (تفصیلات کے لئے دیکھئے میری کتاب التصویر الفنی فی القرآن میں فصل التصویر الفنی اور طریقتہ القرآن)

یہاں اس قدر کہنا کافی ہے کہ کرسی اور عرش کے بارے میں مجھے کوئی ایسی صحیح حدیث نہیں ملی ہے جس میں کرسی اور عرش کی تفسیر اور توضیح کی گئی ہو ۔ اس لئے میں یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ اس سے زیادہ ان کے بارے میں مزید کچھ نہ کہوں۔

وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ................ ” اور وہ بزرگ و برتر ہے ۔ “ اس آیت میں جو صفات بیان کی گئی ہیں یہ ان میں سے آخری صفات ہیں ۔ جن میں ایک حقیقت کا بیان ہے اور نفس انسانی میں اس حقیقت کا القاء مقصود ہے ۔ یعنی صرف وہ ذات ہی بلند ہے اور صرف وہ ذات ہی عظیم ہے ۔ مفہوم یہ ہے کہ اس کے علاوہ نہ کوئی عظیم ہے اور نہ کوئی سربلند ہے ۔ یہ نہیں کہا گیا کہ ” وہ بزرگ و برتر ہے “ بلکہ یہ کہا گیا کہ ” وہی علی اور وہی عظیم ہے “ پہلی تعبیر میں نص علو و عظمت ثابت ہوتی ہے ۔ دوسری تعبیر میں علو اور عظمت کو ذات باری کے ساتھ مخصوص کردیا گیا ۔ اور یہ اشارہ دیا گیا کہ اس معاملے میں اس کے ساتھ کوئی بھی شریک نہیں ہے ۔

صرف وہی علی ہے ۔ عظمت میں وہ منفرد ہے ۔ اور بندوں میں سے جو بھی علو اور عظمت کا ادعاء کرتا ہے اللہ اسے ذلیل اور سرنگوں کرتا ہے۔ اور آخرت میں وہ توہین آمیز سزا کا مستحق ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تِلْكَ الدَّارُ الآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الأرْضِ وَلا فَسَادًا ................ ” وہ آخرت کا گھر ان لوگوں کے لئے مخصوص کردیں گے جو زمین پر اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں “ (83 : 28) اور جب فرعون کو ہلاک کیا گیا تو اس پر یہ تبصرہ کیا گیا انہ کان من العالین ................” وہ ان لوگوں میں سے تھا جو اپنی بڑائی چاہتے ہیں۔ “

انسان بہت بلند ہوسکتا ہے ، وہ عظمت وسربلندی کے اونچے مدارج تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کے حدود وقیود سے باہر نہیں نکل سکتا ۔ اور جب قلب مومن میں یہ عقیدہ اچھی طرح بیٹھ جاتا ہے تو وہ اسے مقام عبودیت تک پہنچا دیتا ہے ۔ اور وہ سرکشی اور بڑائی سے محفوظ ہوجاتا ہے ۔ اس کی طبیعت میں جھکاؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ اور اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی ہیبت بیٹھ جاتی ہے ۔ اس کے دل میں اللہ کی عظمت اور جلالت قدر کا شعور پیدا ہوجاتا ہے ۔ اس کا طرز عمل نہایت ہی مؤدبانہ اور پھر وہ اللہ کے بندوں کے مقابلے میں غرور وتکبر کا رویہ بھی اختیار نہیں کرتا ۔ غرض یہ شعور ایک طرف سے ایک عقیدہ اور ایک تصور ہے اور دوسری جانب ایک طرز عمل اور ایک سلوک اور رویہ ہے ۔

اسلامی تصور حیات کے ان دقیق پہلوؤں کی وضاحت اور تشریح اور اس کے بیان کے بعد کہ اس کائنات اور مخلوقات کا اپنے خالق کے ساتھ تعلق کیا ہے اور وضاحت کے بعد کہ خالق کائنات کے اوصاف کیا ہیں ، اب یہاں یہ موضوع لیا جاتا ہے کہ اس ایمانین تصور حیات کو اپنا نصب العین بنانے کے بعد اب اہل ایمان کا طریق کار کیا ہوگا ؟ وہ اس نظریہ کی دعوت کس طرح دیں گے ۔ اور وہ اس گم راہ انسانیت کی ہدایت کے لئے کیا طریقہ اختیار کریں گے ۔

آیت 255 اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ الاَّ ہُوَ ج اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ج ۔ وہ از خود اور باخود زندہ ہے۔ اس کی زندگی مستعار نہیں ہے۔ اس کی زندگی ہماری زندگی کی مانند نہیں ہے ‘ جس کے بارے میں بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا ؂عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں !اللہ تعالیٰ کی زندگی حیات مستعار نہیں ہے ‘ وہ کسی کی دی ہوئی نہیں ہے۔ اس کی زندگی میں کوئی ضعف ‘ کوئی کمزوری اور کوئی احتیاج نہیں ہے۔ وہ خود اپنی جگہ زندہ وجاوید ہستی ہے اور باقی ہر شے کا وجود اس کے حکم سے قائم ہے۔ وہ اَلْقَیُّوْمُ ہے۔ اس کے اذن کے بغیر کوئی شے قائم نہیں ہے۔ سورة الاخلاص میں اللہ تعالیٰ کے لیے دو الفاظ اَلْاَحَدُ اور الصَّمَدُ آئے ہیں۔ وہ اپنی جگہ اَلْاَحَدُ ہے لیکن باقی پوری کائنات کے لیے الصَّمَدُ ہے۔ اسی طرح وہ از خود اَلْحَیُّ ہے اور باقی پوری کائنات کے لیے اَلْقَیُّوْمُ ہے۔لاَ تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلاَ نَوْمٌ ط نہ اس پر اونگھ غالب آتی ہے نہ نیند۔ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط ہر شے کی ملکیت تامہّ اور ملکیت حقیقی اسی کی ہے۔ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ الاَّ بِاِذْنِہٖ ط سورۃ البقرۃ میں قبل ازیں تین مرتبہ قیامت کے روز کسی شفاعت کا دو ٹوک انداز میں انکار ‘ categorical denial کیا گیا ہے کہ کوئی شفاعت نہیں ! یہاں بھی بہت ہی جلالی انداز اختیار کیا گیا ہے : مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ یعنی کس کی یہ حیثیت ہے ‘ کس کا یہ مقام ہے ‘ کس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی حیثیت کی بنیاد پر اللہ کے حضور کسی کی شفاعت کرسکے ؟ اِلاَّ بِاِذْنِہٖ ط ہاں ‘ جس کے لیے اللہ اجازت دے دے ! یہاں پہلی مرتبہ استثناء کے ساتھ شفاعت کا ذکر آیا ہے ‘ ورنہ سورة البقرۃ کے چھٹے رکوع کی دوسری آیت میں ہم الفاظ پڑھ چکے ہیں : وَّلاَ یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ اور نہ اس روز کسی کی طرف سے کوئی شفاعت قبول کی جائے گی۔ اسی طرح پندرہویں رکوع کی دوسری آیت میں الفاظ آئے ہیں : وَّلاَ تَنْفَعُہَا شَفَاعَۃٌ اور نہ اس کو کسی کی شفاعت ہی فائدہ دے گی۔ اور اب اس رکوع کی پہلی آیت میں آچکا ہے : وََلاَ شَفَاعَۃٌ اور نہ کوئی شفاعت مفید ہوگی۔ لیکن یہاں ایک استثناء بیان کیا جا رہا ہے کہ جس کو اللہ کی طرف سے اذن شفاعت حاصل ہوگا وہ اس کے حق میں شفاعت کرسکے گا جس کے لیے اذن ہوگا۔ یہ ذرا باریک مسئلہ ہے کہ شفاعت حقہ کیا ہے اور شفاعت باطلہ کیا ہے۔ دورۂ ترجمہ قرآن کے دوران اس پر تفصیل کے ساتھ بحث نہیں کی جاسکتی۔ اس پر میں اپنے تفصیلی درس ریکارڈ کرا چکا ہوں۔ ّ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ ج۔ عام طور پر دنیا میں ہم کسی کی سفارش کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بھئی میں اس شخص کو بہتر جانتا ہوں ‘ اصل میں یہ جیسا کچھ نظر آتا ہے ویسا نہیں ہے ‘ اس کے بارے میں جو معلومات آپ تک پہنچی ہیں وہ مبنی بر حقیقت نہیں ہیں ‘ اصل حقائق کچھ اور ہیں ‘ وہ میں آپ کو بتاتا ہوں۔ یہ بات اللہ کے سامنے کون کہہ سکتا ہے ؟ جبکہ اللہ تو جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے۔ وَلاَ یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ الاَّ بِمَاشَآءَ ج۔ باقی ہر ایک کے پاس جو علم ہے وہ اللہ کا دیا ہوا ‘ عطائی علم ہے۔ بڑے سے بڑے ولی ‘ بڑے سے بڑے رسول اور بڑے سے بڑے فرشتے کا علم بھی محدود ہے۔ فرشتوں کا قول لَا عِلْمَ لَنَا الاَّ مَا عَلَّمْتَنَا ہم چوتھے رکوع میں پڑھ آئے ہیں۔ وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ج یہاں کرسی کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کا اقتدار ‘ اس کی قدرت اور اس کا اختیار Authority پوری کائنات کے اوپر حاوی ہے۔ نیز یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اقتدار کی علامت کے طور پر واقعتا کوئی مجسمّ شے بھی ہو جس کو ہم کرسی کہہ سکیں۔ اللہ تعالیٰ کے عرش اور کرسی کے بارے میں یہ دونوں باتیں ذہن میں رکھیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی کوئی مجسمّ حقیقت ہو جو ہمارے ذہن اور تخیل سے ماورا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے استعارہ مراد ہو کہ اس کا اختیار اور اقتدار آسمانوں اور زمین پر چھایا ہوا ہے۔وَلاَ یئُوْدُہٗ حِفْظُہُمَا ج۔ آسمانوں اور زمین کی حفاظت اور ان کا تھامنا اس پر ذرا بھی گراں نہیں اور اس سے اس پر کوئی تکان طاری نہیں ہوتی۔وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ ۔ یہ آیۃ الکرسی ہے جو تمام آیات قرآنی کی سردار اور توحید الٰہی کا ایک بہت بڑا خزانہ ہے۔ اس کے بعد آنے والی دو آیات بھی حکمت اور فلسفۂ دین کے اعتبار سے بڑی عظیم آیات ہیں۔

عظیم تر آیت تعارف اللہ بزبان اللہ یہ آیت آیت الکرسی ہے، جو بڑی عظمت والی آیت ہے۔ حضرت ابی بن کعب سے رسول اللہ ﷺ دریافت فرماتے ہیں کہ کتاب اللہ میں سب سے زیادہ عظمت والی آیت کون سی ہے ؟ آپ جواب دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول ہی کو اس کا سب سے زیادہ علم ہے۔ آپ پھر یہی سوال کرتے ہیں، بار بار کے سوال پر جواب دیتے ہیں کہ آیت الکرسی، حضور ﷺ فرماتے ہیں ابو المنذر اللہ تعالیٰ تجھے تیرا علم مبارک کرے، اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس کی زبان ہوگی اور ہونٹ ہوں گے اور یہ بادشاہ حقیقی کی تقدیس بیان کرے گی اور عرش کے پایہ سے لگی ہوئی ہوگی (مسند احمد) صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے لیکن یہ پچھلا قسمیہ جملہ اس میں نہیں، حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں میرے ہاں ایک کھجور کی بوری تھی۔ میں نے دیکھا کہ اس میں سے کھجوریں روز بروز گھٹ رہی ہیں، ایک رات میں جاگتا رہا اس کی نگہبانی کرتا رہا، میں نے دیکھا ایک جانور مثل جوان لڑکے کے آیا، میں نے اسے سلام کیا اس نے میرے سلام کا جواب دیا، میں نے کہا تو انسان ہے یا جن ؟ اس نے کہا میں جن ہوں، میں نے کہا ذرا اپنا ہاتھ تو دے، اس نے ہاتھ بڑھا دیا، میں نے اپنے ہاتھ میں لیا تو کتے جیسا ہاتھ تھا اور اس پر کتے جیسے ہی بال تھے، میں نے کہا کیا جنوں کی پیدائش ایسی ہی ہے ؟ اس نے کہا تمام جنات میں سب سے زیادہ قوت طاقت والا میں ہی ہوں، میں نے کہا بھلا تو میری چیز چرانے پر کیسے دلیر ہوگیا ؟ اس نے کہا مجھے معلوم ہے کہ تو صدقہ کو پسند کرتا ہے، ہم نے کہا پھر ہم کیوں محروم رہیں ؟ میں نے کہا تمہارے شر سے بچانے والی کون سی چیز ہے ؟ اس نے کہا آیت الکرسی۔ صبح کو جب میں سرکار محمدی ﷺ میں حاضر ہوا تو میں نے رات کا سارا واقعہ بیان کیا، آپ ﷺ نے فرمایا خبیث نے یہ بات تو بالکل سچ کہی (ابو یعلی) ایک بار مہاجرین کے پاس آپ ﷺ گئے تو ایک شخص نے کہا حضور ﷺ قرآن کی آیت کون سی بڑی ہے، آپ نے یہی آیت الکرسی پڑھ کر سنائی (طبرانی) آپ ﷺ نے ایک مرتبہ صحابہ میں سے ایک سے پوچھا تم نے نکاح کرلیا ؟ اس نے کہا حضرت میرے پاس مال نہیں، اس لئے نکاح نہیں کیا، آپ ﷺ نے فرمایا قل ھو اللہ یاد نہیں ؟ اس نے کہا وہ تو یاد ہے، فرمایا چوتھائی قرآن تو یہ ہوگیا، کیا قل یا ایھا الکافرون یاد نہیں، کہا ہاں وہ بھی یاد ہے، فرمایا چوتھائی قرآن یہ ہوا، پھر پوچھا کیا اذا زلزلت بھی یاد ہے ؟ کہا ہاں، فرمایا چوتھائی قرآن یہ ہوا، کیا اذا جاء نصر اللہ بھی یاد ہے ؟ کہا ہاں، فرمایا چوتھائی یہ، کہا آیت الکرسی یاد ہے ؟ کہا ہاں، فرمایا چوتھائی قرآن یہ ہوا (مسند احمد) حضرت ابوذر فرماتے ہیں میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ﷺ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے، میں آ کر بیٹھ گیا، آپ ﷺ نے پوچھا کیا تم نے نماز پڑھ لی ؟ میں نے کہا نہیں، فرمایا اٹھو نماز ادا کرلو۔ میں نے نماز پڑھی پھر آ کر بیٹھا تو آپ ﷺ نے فرمایا ابوذر شیطان انسانوں اور جنوں سے پناہ مانگ، میں نے کہا حضور کیا انسانی شیطان بھی ہوتے ہیں ؟ فرمایا ہاں، میں نے کہا حضور ﷺ کی نماز کی نسبت کیا ارشاد ہے ؟ فرمایا وہ سراسر خیر ہے جو چاہے کم حصہ لے جو چاہے زیادہ، میں نے کہا حضور روزہ ؟ فرمایا کفایت کرنے والا فرض ہے اور اللہ کے نزدیک زیادتی ہی، میں نے کہا صدقہ ؟ فرمایا بہت زیادہ اور بڑھ چڑھ کر بدلہ دلوانے والا، میں نے کہا سب سے افضل صدقہ کون سا ہے ؟ فرمایا کم مال والے کا ہمت کرنا یا پوشیدگی سے محتاج کی احتیاج پوری کرنا، میں نے سوال کیا سب سے پہلے نبی کون ہیں ؟ فرمایا حضرت آدم، میں نے کہا وہ نبی تھے ؟ فرمایا نبی اور اللہ سے ہمکلام ہونے والے، میں نے پوچھا رسولوں کی تعداد کیا ہے ؟ فرمایا تین سو اور کچھ اوپر دس بہت بڑی جماعت، ایک روایت میں تین سو پندرہ کا لفظ ہے، میں نے پوچھا حضور ﷺ آپ پر سب سے زیادہ بزرگی والی آیت کون سی اتری ؟ فرمایا آیت الکرسی اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم الخ، (مسند احمد) حضرت ابو ایوب انصاری فرماتے ہیں کہ میرے خزانہ میں سے جنات چرا کرلے جایا کرتے تھے، میں نے آنحضرت ﷺ سے شکایت کی، آپ ﷺ نے فرمایا جب تو اسے دیکھے تو کہنا بسم اللہ اجیبی رسول اللہ جب وہ آیا میں نے یہی کہا، پھر اسے چھوڑ دیا۔ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ﷺ نے فرمایا وہ پھر بھی آئے گا، میں نے اسے اسی طرح دو تین بار پکڑا اور اقرار لے لے کر چھوڑا دیا، میں نے حضور ﷺ سے ذکر کیا اور آپ ﷺ نے ہر دفعہ یہی فرمایا کہ وہ پھر بھی آئے گا، آخر مرتبہ میں نے کہا اب میں تجھے نہ چھوڑوں گا، اس نے کہا چھوڑ دے میں تجھے ایک ایسی چیز بتاؤں گا کہ کوئی جن اور شیطان تیرے پاس ہی نہ آسکے، میں نے کہا اچھا بتاؤ، کہا وہ آیت الکرسی ہے۔ میں نے آکر حضور ﷺ سے ذکر کیا آپ ﷺ نے فرمایا اس نے سچ کہا، گو وہ جھوٹا ہے (مسند احمد) صحیح بخاری شریف میں کتاب فضائل القرآن اور کتاب الوکالہ اور صفۃ ابلیس کے بیان میں بھی یہ حدیث حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے اس میں ہے کہ زکوٰۃ رمضان کے مال پر میں پہرہ دے رہا تھا جو یہ شیطان آیا اور سمیٹ سمیٹ کر اپنی چادر میں جمع کرنے لگا، تیسری مرتبہ اس نے بتایا کہ اگر تو رات بستر پر جا کر اس آیت کو پڑھ لے گا تو اللہ کی طرف سے تجھ پر حافظ مقرر ہوگا اور صبح تک شیطان تیرے قریب بھی نہ آسکے گا (بخاری) دوسری روایت میں ہے کہ یہ کھجوریں تھیں اور مٹھی بھر وہ لے گیا تھا اور آپ نے فرمایا تھا کہ اگر اسے پکڑنا چاہے تو جب وہ دروازے کھولے کہنا سبحان من سخرک محمد شیطان نے عذر یہ بتایا تھا کہ ایک فقیر جن کے بال بچوں کیلئے میں یہ لے جا رہا تھا (ابن مردویہ) پس یہ واقعہ تین صحابہ کا ہوا، حضرت ابی بن کعب کا، حضرت ابو ایوب انصاری کا اور حضرت ابوہریرہ کا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ایک انسان کی ایک جن سے ملاقات ہوئی جن نے کہا مجھ سے کشتی کرے گا ؟ اگر مجھے گرا دے گا تو میں تجھے ایک ایسی آیت سکھاؤں گا کہ جب تو اپنے گھر جائے اور اسے پڑھ لے تو شیطان اس میں نہ آسکے، کشتی ہوئی اور اس آدمی نے جن کو گرا دیا، اس شخص نے جن سے کہا تو تو نحیف اور ڈرپوک ہے اور تیرے ہاتھ مثل کتے کے ہیں، کیا جنات ایسے ہی ہوتے ہیں یا صرف تو ہی ایسا ہے ؟ کہا میں تو ان سب میں سے قوی ہوں، پھر دوبارہ کشتی ہوئی اور دوسری مرتبہ بھی اس شخص نے گرا دیا تو جن نے کہا جو آیت میں نے سکھانے کیلئے کہا تھا وہ آیت الکرسی ہے، جو شخص اپنے گھر میں جاتے ہوئے اسے پڑھ لے تو شیطان اس گھر سے گدھے کی طرح چیختا ہوا بھاگ جاتا ہے۔ جس شخص سے کشتی ہوئی تھی وہ شخص عمر تھے (کتاب الغریب) رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں سورة بقرہ میں ایک آیت ہے جو قرآن کریم کی تمام آیتوں کی سردار ہے جس گھر میں وہ پڑھی جائے وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔ وہ آیت آیت الکرسی ہے (مستدرک حاکم) ترمذی میں ہے ہر چیز کی کوہان اور بلندی ہے اور قرآن کی بلندی سورة بقرہ ہے اور اس میں بھی آیت الکرسی تمام آیتوں کی سردار ہے۔ حضرت عمر کے اس سوال پر کہ سارے قرآن میں سب سے زیادہ بزرگ آیت کون سی ہے ؟ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا مجھے خوب معلوم ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ وہ آیت آیت الکرسی ہے (ابن مردویہ) حضور ﷺ فرماتے ہیں ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے۔ ایک تو آیت الکرسی، دوسری آیت الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم (مسند احمد) اور حدیث میں ہے کہ وہ اسم اعظم جس نام کی برکت سے جو دعا اللہ تعالیٰ سے مانگی جائے وہ قبول فرماتا ہے۔ وہ تین سورتوں میں ہے، سورة بقرہ، سورة آل عمران اور سورة طہ (ابن مردویہ) ہشام بن عمار خطیب دمشق فرماتے ہیں سورة بقرہ کی آیت آیت الکرسی ہے اور آل عمران کی پہلی ہی آیت اور طہ کی آیت و عنت الوجوہ للحی القیوم ہے اور حدیث میں ہے جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھ لے اسے جنت میں جانے سے کوئی چیز نہیں روکے گی سوائے موت کے (ابن مردویہ) اس حدیث کو امام نسائی نے بھی اپنی کتاب عمل الیوم واللیلہ میں وارد کیا ہے اور ابن حبان نے بھی اسے اپنی صحیح میں وارد کیا ہے اس حدیث کی سند شرط بخاری پر ہے لیکن ابو الفرج بن جوزی اسے موضوع کہتے ہیں واللہ اعلم، تفسیر ابن مردویہ میں بھی یہ حدیث ہے لیکن اس کی اسناد بھی ضعیف ہے۔ ابن مردویہ میں کی ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ بن عمران کی طرف وحی کی کہ ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھ لیا کرو، جو شخص یہ کرے گا میں اسے شکرگزار دل اور ذکر کرنے والی زبان دوں گا۔ اور اسے نبیوں کا ثواب اور صدیقوں کا عمل دوں گا۔ جس عمل کی پابندی صرف انبیاء اور صدیقین سے ہی ہوتی ہے یا اس بندے سے جس کا دل میں نے ایمان کیلئے آزما لیا ہو یا اسے اپنی راہ میں شہید کرنا طے کرلیا ہو، لیکن یہ حدیث بہت منکر ہے۔ ترمذی کی حدیث میں ہے جو شخص سورة حم المومنین کو الیہ المصیر تک اور آیت الکرسی کو صبح کے وقت پڑھ لے گا وہ شام تک اللہ کی حفاظت میں رہے گا اور شام کو پڑھنے والے کی صبح تک حفاظت ہوگی لیکن یہ حدیث بھی غریب ہے۔ اس آیت کی فضیلت میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں لیکن ایک تو اس لئے کہ ان کی سندیں ضعیف ہیں اور دوسرے اس لئے بھی کہ ہمیں اختصار مدنظر ہے، ہم نے انہیں وارد نہیں کیا۔ اس مبارک آیت میں دس مستقل جملے، پہلے جملے میں اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کا بیان ہے کہ کل مخلوق کا وہی ایک اللہ ہے۔ دوسرے جملے میں ہے کہ وہ خود زندہ ہے جس پر کبھی موت نہیں آئے گی، دوسروں کو قائم رکھنے والا ہے۔ قیوم کی دوسری نشانی قرأت قیام بھی ہے پس تمام موجودات اس کی محتاج ہے اور وہ سب سے بےنیاز ہے، کوئی بھی بغیر اس کی اجازت کے کسی چیز کا سنبھالنے والا نہیں، جیسے اور جگہ ہے (وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ تَــقُوْمَ السَّمَاۗءُ وَالْاَرْضُ بِاَمْرِهٖ) 30۔ الروم :25) یعنی اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ آسمان و زمین اسی کے حکم سے قائم ہیں، پھر فرمایا نہ تو اس پر کوئی نقصان آئے نہ کبھی وہ اپنی مخلوق سے غافل اور بیخبر ہو، بلکہ ہر شخص کے اعمال پر وہ حاضر، ہر شخص کے احوال پر وہ ناظر، دل کے ہر خطرے سے وہ واقف، مخلوق کا کوئی ذرہ بھی اس کی حفاظت اور علم سے کبھی باہر نہیں، یہی پوری " قیومیت " ہے۔ اونگھ، غفلت، نیند اور بیخبر ی سے اس کی ذات مکمل پاک ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ کھڑے ہو کر صحابہ کرام کو چار باتیں بتائیں، فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ سوتا نہیں، نہ نیند اس کی ذات کے لائق ہے، وہ ترازو کا حافظ ہے جس کیلئے چاہے جھکا دے، جس کیلئے چاہے نہ جھکائے، دن کے اعمال رات سے پہلے اور رات کے اعمال دن سے پہلے اس کی طرف لے جائے جاتے ہیں، اس کے سامنے نور یا آگ کے پردے ہیں اگر وہ ہٹ جائیں تو اس کے چہرے کی تجلیاں ان تمام چیزوں کو جلا دیں جن تک اس کی نگاہ پہنچے، عبدالرزاق میں حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ موسیٰ نے فرشتوں سے پوچھا کہ کیا اللہ تعالیٰ سوتا بھی ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی بھیجی کہ حضرت موسیٰ کو تین راتوں تک بیدار رکھیں، انہوں نے یہی کیا، تین راتوں تک سونے نہ دیا، اس کے بعد دو بوتلیں ان کے ہاتھوں میں دے دیں گئیں اور کہہ دیا کہ انہیں تھامے رہو خبردار یہ گرنے اور ٹوٹنے نہ پائیں، آپ نے انہیں تھام لیا لیکن جاگا ہوا تھا، نیند کا غلبہ ہوا، اونگھ آنے لگی، آنکھ بند ہوجاتی لیکن پھر ہوشیار ہوجاتے مگر کب تک ؟ آخر ایک مرتبہ ایسا جھکولا آیا کہ بوتلیں ٹوٹ گئیں، گویا انہیں بتایا گیا کہ جب ایک اونگھنے اور سونے والا دو بوتلوں کو نہیں سنبھال سکتا تو اللہ تعالیٰ اگر اونگھے یا سوئے تو زمین و آسمان کی حفاظت کس طرح ہو سکے ؟ لیکن یہ بنی اسرائیل کی بات ہے اور کچھ دل کو لگتی بھی نہیں اس لئے کہ یہ ناممکن ہے کہ موسیٰ جیسے جلیل القدر عارف باللہ اللہ جل شانہ کی اس صفت سے ناواقف ہوں اور انہیں اس میں تردد ہو کہ اللہ ذوالجلال والا کرام جاگتا ہی رہتا ہے یا سو بھی جاتا ہے اور اس سے بھی بہت زیادہ غرابت والی وہ حدیث ہے جو ابن حریر میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس واقعہ کو منبر پر بیان فرمایا۔ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس کا فرمان پیغمبر ہونا ثابت نہیں بلکہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے یہ سوال کیا تھا اور پھر آپ کو بوتلیں پکڑوائی گئیں اور وہ بوجہ نیند کے نہ سنبھال سکے، اور حضور ﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی، آسمان و زمین کی تمام چیزیں اس کی غلامی میں اور اس کی ماتحتی میں اور اس کی سلطنت میں ہیں جیسے فرمایا کل ممن فی السموات والارض الخ، یعنی زمین و آسمان کی کل چیزیں رحمن کی غلامی میں حاضر ہونے والی ہیں، ان سب کو رب العالمین نے ایک ایک کرکے گن رکھا ہے۔ ساری مخلوق تنہا تنہا اس کے پاس حاضر ہوگی، کوئی نہیں جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے سفارش یا شفاعت کرسکے، جیسے ارشاد ہے و کم من ملک فی السموات الخ، یعنی آسمانوں میں بہت سے فرشتے ہیں لیکن ان کی شفاعت بھی کچھ فائدہ نہیں دے سکتی، ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی منشای اور مرضی سے ہو، اور جگہ ہے ولایشفعون الا لمن ارتضی کسی کی وہ شفاعت نہیں کرتے مگر اس کی جس سے اللہ خوش ہو، پس یہاں بھی اللہ تعالیٰ کی عظمت اس کا جلال اور اس کی کبریائی بیان ہو رہی ہے، کہ بغیر اس کی اجازت اور رضامندی کے کسی کی جرات نہیں کہ اس کے سامنے کسی کی سفارش میں زبان کھولے، حدیث شفاعت میں بھی ہے کہ میں اللہ کے عرش کے نیچے جاؤں گا اور سجدے میں گر پڑوں گا اللہ تعالیٰ مجھے سجدے میں ہی چھوڑ دے گا جب تک چاہے، پھر کہا جائے گا کہ اپنا سر اٹھائو، کہو، سنا جائے گا، شفاعت کرو، منظور کی جائے گی، آپ فرماتے ہیں پھر میرے لئے حد مقرر کردی جائے گی اور میں انہیں جنت میں لے جاؤں گا وہ اللہ تمام گزشتہ موجودہ اور آئندہ کا عالم ہے اس کا علم تمام مخلوق کا احاطہ کئے ہوئے ہے جیسے اور جگہ فرشتوں کا قول ہے کہ مانتنزل الا بامر ربک الخ، ہم تیرے رب کے حکم کے بغیر اتر نہیں سکتے ہمارے آگے پیچھے اور سامنے سب کی چیزیں اسی کی ملکیت ہیں اور تیرا رب بھول چوک سے پاک ہے۔ کرسی سے مراد حضرت عبداللہ بن عباس سے علم منقول ہے، دوسرے بزرگوں سے دونوں پاؤں رکھنے کی جگہ منقول ہے، ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی مروی ہے، حضرت ابوہریرہ سے بھی مرفوعاً یہی مروی ہے لیکن رفع ثابت نہیں، ابو مالک فرماتے ہیں کرسی عرش کے نیچے ہے، سدی کہتے ہیں آسمان و زمین کرسی کے جوف میں اور کرسی عرش کے سامنے، ابن عباس فرماتے ہیں ساتوں زمینیں اور ساتوں آسمان اگر پھیلا دئیے جائیں اور سب کو ملا کر بسیط کردیا جائے تو بھی کرسی کے مقابلہ میں ایسے ہوں گے جیسے ایک حلقہ کسی چٹیل میدان میں، ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ساتوں آسمان کرسی میں ایسے ہی ہوں گے جیسے ایک حلقہ کسی چٹییل میدان میں، ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ساتوں آسمان کرسی میں ایسے ہی ہیں جیسے سات درہم ڈھال میں اور حدیث میں کرسی عرش کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے ایک لوہے کا حلقہ چٹیل میدان میں، ابو ذرغفاری نے ایک مرتبہ کرسی کے بارے میں سوال کیا تو حضور ﷺ نے قسم کھا کر یہی فرمایا اور فرمایا کہ پھر عرش کی فضیلت کرسی پر بھی ایسی ہی ہے، ایک عورت نے آن کر حضور ﷺ سے درخواست کی کہ میرے لئے دعا کیجئے کہ اللہ مجھے جنت میں لے جائے، آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی کرسی نے آسمان و زمین کو گھیر رکھا ہے مگر جس طرح نیا پالان چرچراتا ہے وہ کرسی عظمت پروردگار سے چرچرا رہی ہے، گو یہ حدیث بہت سی سندوں سے بہت سی کتابوں میں مروی ہے لیکن کسی سند میں کوئی راوی غیر مشہور ہے کسی میں ارسال ہے، کوئی موقوف ہے، کسی میں بہت کچھ غریب زبادتی ہے، کسی میں حذف ہے اور ان سب سے زیادہ غریب حضرت جسیر والی حدیث ہے جو ابو داؤد میں مروی ہے۔ اور وہ روایات بھی ہیں جن میں قیامت کے روز کرسی کا فیصلوں کیلئے رکھا جانا مروی ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ اس آیت میں یہ ذکر نہیں واللہ اعلم، مسلمانوں کے ہئیت دان متکلمین کہتے ہیں کہ کرسی آٹھواں آسمان ہے جسے فلک ثوابت کہتے ہیں اور جس پر نواں آسمان ہے اور جسے فلک اثیر کہتے ہیں اور اطلس بھی، لیکن دوسرے لوگوں نے اس کی تردید کی ہے، حسن بصری فرماتے ہیں کرسی ہی عرش ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ کرسی اور ہے اور عرش اور ہے، جو اس سے بڑا ہے جیسا کہ آثار احادیث میں وارد ہوا ہے، علامہ ابن جریر تو اس بارے میں حضرت عمر والی روایت پر اعتماد کئے ہوئے ہیں لیکن میرے نزدیک اس کی صحت میں کلام ہے واللہ اعلم، پھر فرمایا کہ اللہ پر ان کی حفاظت بوجھل اور گراں نہیں بلکہ سہل اور آسان ہے۔ وہ ساری مخلوق کے اعمال پر خبردار تمام چیزوں پر نگہبان کوئی چیز اس سے پوشیدہ اور انجان نہیں بلکہ سہل اور آسان ہے، تمام مخلوق اس کے سانے حقیر متواضح ذلیل پست محتاج اور فقیر، وہ غنی وہ حمید وہ جو کچھ چاہے کر گزرنے والا، کوئی اس پر حاکم نہیں بازپرس کرنے والا، ہر چیز پر وہ غالب، ہر چیز کا حافظ اور مالک، وہ علو، بلندی اور رفعت والا وہ عظمت بڑائی اور کبریائی والا، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، نہ اس کے سوا کوئی خبرگیری کرنے والا نہ پالنے پوسنے والا وہ کبریائی والا اور فخر والا ہے، اسی لئے فرمایا وھو العلی العظیم بلندی اور عظمت والا وہی ہے۔ یہ آیتیں اور ان جیسی اور آیتیں اور صحیح حدیثیں جتنی کچھ ذات و صات باری میں وارد ہوئی ہیں ان سب پر ایمان لانا بغیر کیفیت معلوم کئے اور بغیر تشبیہ دئیے جن الفاظ میں وہ وارد ہوئی ہیں ضروری ہے اور یہی طریقہ ہمارے سلف صالحین رضوان اللہ علیھم اجمعین کا تھا۔

آیت 255 - سورۃ البقرہ: (الله لا إله إلا هو الحي القيوم ۚ لا تأخذه سنة ولا نوم ۚ له ما في السماوات وما في...) - اردو