سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ تفسیر ابن کثیر (حافظ ابن کثیر) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 42 (آیات 253 سے 256 تک)

۞ تِلْكَ ٱلرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ ٱللَّهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَٰتٍ ۚ وَءَاتَيْنَا عِيسَى ٱبْنَ مَرْيَمَ ٱلْبَيِّنَٰتِ وَأَيَّدْنَٰهُ بِرُوحِ ٱلْقُدُسِ ۗ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَا ٱقْتَتَلَ ٱلَّذِينَ مِنۢ بَعْدِهِم مِّنۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ ٱلْبَيِّنَٰتُ وَلَٰكِنِ ٱخْتَلَفُوا۟ فَمِنْهُم مَّنْ ءَامَنَ وَمِنْهُم مَّن كَفَرَ ۚ وَلَوْ شَآءَ ٱللَّهُ مَا ٱقْتَتَلُوا۟ وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ أَنفِقُوا۟ مِمَّا رَزَقْنَٰكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِىَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَٰعَةٌ ۗ وَٱلْكَٰفِرُونَ هُمُ ٱلظَّٰلِمُونَ ٱللَّهُ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلْحَىُّ ٱلْقَيُّومُ ۚ لَا تَأْخُذُهُۥ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ۚ لَّهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلْأَرْضِ ۗ مَن ذَا ٱلَّذِى يَشْفَعُ عِندَهُۥٓ إِلَّا بِإِذْنِهِۦ ۚ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۖ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَىْءٍ مِّنْ عِلْمِهِۦٓ إِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ ۖ وَلَا يَـُٔودُهُۥ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ ٱلْعَلِىُّ ٱلْعَظِيمُ لَآ إِكْرَاهَ فِى ٱلدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ ٱلرُّشْدُ مِنَ ٱلْغَىِّ ۚ فَمَن يَكْفُرْ بِٱلطَّٰغُوتِ وَيُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱسْتَمْسَكَ بِٱلْعُرْوَةِ ٱلْوُثْقَىٰ لَا ٱنفِصَامَ لَهَا ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
42

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (تفسیر ابن کثیر: حافظ ابن کثیر)

اردو ترجمہ

یہ رسول (جو ہماری طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہوئے) ہم نے ان کو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مرتبے عطا کیے ان میں کوئی ایسا تھا جس سے خدا خود ہم کلام ہوا، کسی کو اس نے دوسری حیثیتوں سے بلند درجے دیے، اور آخر میں عیسیٰ ابن مریمؑ کو روشن نشانیاں عطا کیں اور روح پاک سے اس کی مدد کی اگر اللہ چاہتا، تو ممکن نہ تھا کہ اِن رسولوں کے بعد جو لوگ روشن نشانیاں دیکھ چکے تھے، وہ آپس میں لڑتے مگر (اللہ کی مشیت یہ نہ تھی کہ وہ لوگوں کو جبراً اختلاف سے روکے، اس وجہ سے) انہوں نے باہم اختلاف کیا، پھر کوئی ایمان لایا اور کسی نے کفر کی راہ اختیار کی ہاں، اللہ چاہتا، تو وہ ہرگز نہ لڑتے، مگر اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Tilka alrrusulu faddalna baAAdahum AAala baAAdin minhum man kallama Allahu warafaAAa baAAdahum darajatin waatayna AAeesa ibna maryama albayyinati waayyadnahu biroohi alqudusi walaw shaa Allahu ma iqtatala allatheena min baAAdihim min baAAdi ma jaathumu albayyinatu walakini ikhtalafoo faminhum man amana waminhum man kafara walaw shaa Allahu ma iqtataloo walakinna Allaha yafAAalu ma yureedu

ذِکر مدارج الانبیاء یہاں یہ وضاحت ہو رہی ہے کہ رسولوں میں بھی مراتب ہیں، جیسا اور جگہ فرمایا ولقد فضلنا بعض النبیین علی بعض و اتینا داؤد زبورا ہم نے بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت دی اور حضرت داؤد کو ہم نے زبور دی، یہاں بھی اسی کا ذکر کرکے فرماتا ہے ان میں سے بعض کو شرف ہم کلامی بھی نصیب ہوا جیسا حضرت موسیٰ اور حضرت محمد ﷺ اور حضرت آدم۔ صحیح ابن حبان میں حدیث ہے جس میں معراج کے بیان کے ساتھ یہ بھی وارد ہوا ہے کہ کسی نبی کو آپ نے الگ الگ کس آسمان میں پایا جو ان کے مرتبوں کے کم و بیش ہونے کی دلیل ہے، ہاں ایک حدیث میں ہے کہ ایک مسلمان اور یہودی کی کچھ بات چیت ہوگئی تو یہودیوں نے کہا قسم ہے اس اللہ کی جس نے موسیٰ کی تمام جہان والوں پر فضیلت دی تو مسلمان سے ضبط نہ ہوسکا، اس نے اٹھا کر ایک تھپڑ مارا اور کہا خبیث کیا ہمارے نبی محمد ﷺ سے بھی وہ افضل ہیں ؟ یہودی نے سرکار نبوی ﷺ میں آکر اس کی شکایت کی، آپ ﷺ نے فرمایا مجھے نبیوں پر فضیلت نہ دو ، قیامت کے دن سب بیہوش ہونگے سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا تو دیکھوں گا کہ حضرت موسیٰ اللہ تعالیٰ کے عرش کا پایہ تھامے ہوئے ہوں گے، مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے یا سرے سے بیہوش ہی نہیں ہوئے تھے ؟ اور طور کی بیہوشی کے بدلے یہاں کی بیہوشی سے بچا لئے گئے، پس مجھے نبیوں پر فضیلت نہ دو ، ایک اور روایت میں ہے کہ پیغمبروں کے درمیان فضیلت نہ دو ، پس یہ حدیث بظاہر قرآن کریم کی اس آیت کے خلاف معلوم ہوتی ہے لیکن دراصل کوئی تعارض نہیں، ممکن ہے کہ حضور ﷺ کا یہ فرمان اس سے پہلے ہو کہ آپ کو فضیلت کا علم نہ ہوا ہو، لیکن یہ قول ذرا غور طلب ہے، دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ آپ نے محض تواضع اور فروتنی کے طور پر فرمایا ہے نہ کہ حقیقت کے طور پر، تیسرا جواب یہ ہے کہ ایسے جھگڑے اور اختلاف کے وقت ایک کو ایک پر فضیلت دینا دوسرے کی شان گھٹانا ہے اس لئے آپ نے منع فرما دیا، چوتھا جواب یہ ہے کہ تم فضیلت نہ دو یعنی صرف اپنی رائے، اپنے خیال اور اپنے ذہنی تعصب سے اپنے نبی کو دوسرے نبی پر فضیلت نہ دو ، پانچواں جواب یہ ہے کہ فضیلت و تکریم کا فیصلہ تمہارے بس کا نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے وہ جسے فضیلت دے تم مان لو، تمہارا کام تسلیم کرنا اور ایمان لانا ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے حضرت عیسیٰ کو واضح دلیلیں اور پھر ایسی حجتیں عطا فرمائی تھیں جن سے بنی اسرائیل پر صاف واضح ہوگیا کہ آپ کی رسالت بالکل سچی ہے اور ساتھ ہی آپ کی یہ حیثیت بھی واضح ہوگئی کہ مثل اور بندوں کے آپ بھی اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے اور بےکس غلام ہیں، اور روح القدس یعنی حضرت جبرائیل سے ہم نے ان کی تائید کی۔ پھر فرمایا کہ بعد والوں کے اختلاف بھی ہمارے قضا و قدر کا نمونہ کا نمونہ ہیں، ہماری شان یہ ہے کہ جو چاہیں کریں، ہمارے کسی ارادے سے مراد جدا نہیں۔

اردو ترجمہ

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو کچھ مال متاع ہم نے تم کو بخشا ہے، اس میں سے خرچ کرو، قبل اس کے کہ وہ دن آئے، جس میں نہ خریدو فروخت ہوگی، نہ دوستی کام آئے گی اور نہ سفارش چلے گی اور ظالم اصل میں وہی ہیں، جو کفر کی روش اختیار کرتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Ya ayyuha allatheena amanoo anfiqoo mimma razaqnakum min qabli an yatiya yawmun la bayAAun feehi wala khullatun wala shafaAAatun waalkafiroona humu alththalimoona

آج کے صدقات قیامت کے دن شریک غم ہوں گے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم کرتا ہے کہ وہ بھلائی کی راہ میں اپنا مال خرچ کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کے پاس ان کا ثواب جمع رہے، اور پھر فرماتا ہے کہ اپنی زندگی میں ہی خیرات و صدقات کرلو، قیامت کے دن نہ تو خریدو فروخت ہوگی نہ زمین بھر کر سونا دینے سے جان چھوٹ سکتی ہے، نہ کسی کا نسب اور دوستی و محبت کچھ کام آسکتی ہے، جیسے اور جگہ ہے آیت (فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ وَّلَا يَتَسَاۗءَلُوْنَ) 23۔ المؤمنون :101) یعنی جب صور پھونکا جائے گا اس دن نہ تو نسب رہے گا نہ کوئی کسی کا پرسان حال ہوگا، اور اس دن سفارشیوں کی سفارش بھی کچھ نفع نہ دیگی۔ پھر فرمایا کافر ہی ظالم ہیں یعنی پورے اور پکے ظالم ہیں وہ جو کفر کی حالت ہی میں اللہ سے ملیں، عطا بن دینار کہتے ہیں شکر ہے اللہ نے کافروں کو ظالم فرمایا لیکن ظالموں کو کافر نہیں فرمایا۔

اردو ترجمہ

اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اونگھ لگتی ہے زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے کون ہے جو اُس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اُس کی معلومات میں سے کوئی چیز اُن کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی الّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی اُن کو دینا چاہے اُس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Allahu la ilaha illa huwa alhayyu alqayyoomu la takhuthuhu sinatun wala nawmun lahu ma fee alssamawati wama fee alardi man tha allathee yashfaAAu AAindahu illa biithnihi yaAAlamu ma bayna aydeehim wama khalfahum wala yuheetoona bishayin min AAilmihi illa bima shaa wasiAAa kursiyyuhu alssamawati waalarda wala yaooduhu hifthuhuma wahuwa alAAaliyyu alAAatheemu

عظیم تر آیت تعارف اللہ بزبان اللہ یہ آیت آیت الکرسی ہے، جو بڑی عظمت والی آیت ہے۔ حضرت ابی بن کعب سے رسول اللہ ﷺ دریافت فرماتے ہیں کہ کتاب اللہ میں سب سے زیادہ عظمت والی آیت کون سی ہے ؟ آپ جواب دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول ہی کو اس کا سب سے زیادہ علم ہے۔ آپ پھر یہی سوال کرتے ہیں، بار بار کے سوال پر جواب دیتے ہیں کہ آیت الکرسی، حضور ﷺ فرماتے ہیں ابو المنذر اللہ تعالیٰ تجھے تیرا علم مبارک کرے، اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس کی زبان ہوگی اور ہونٹ ہوں گے اور یہ بادشاہ حقیقی کی تقدیس بیان کرے گی اور عرش کے پایہ سے لگی ہوئی ہوگی (مسند احمد) صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے لیکن یہ پچھلا قسمیہ جملہ اس میں نہیں، حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں میرے ہاں ایک کھجور کی بوری تھی۔ میں نے دیکھا کہ اس میں سے کھجوریں روز بروز گھٹ رہی ہیں، ایک رات میں جاگتا رہا اس کی نگہبانی کرتا رہا، میں نے دیکھا ایک جانور مثل جوان لڑکے کے آیا، میں نے اسے سلام کیا اس نے میرے سلام کا جواب دیا، میں نے کہا تو انسان ہے یا جن ؟ اس نے کہا میں جن ہوں، میں نے کہا ذرا اپنا ہاتھ تو دے، اس نے ہاتھ بڑھا دیا، میں نے اپنے ہاتھ میں لیا تو کتے جیسا ہاتھ تھا اور اس پر کتے جیسے ہی بال تھے، میں نے کہا کیا جنوں کی پیدائش ایسی ہی ہے ؟ اس نے کہا تمام جنات میں سب سے زیادہ قوت طاقت والا میں ہی ہوں، میں نے کہا بھلا تو میری چیز چرانے پر کیسے دلیر ہوگیا ؟ اس نے کہا مجھے معلوم ہے کہ تو صدقہ کو پسند کرتا ہے، ہم نے کہا پھر ہم کیوں محروم رہیں ؟ میں نے کہا تمہارے شر سے بچانے والی کون سی چیز ہے ؟ اس نے کہا آیت الکرسی۔ صبح کو جب میں سرکار محمدی ﷺ میں حاضر ہوا تو میں نے رات کا سارا واقعہ بیان کیا، آپ ﷺ نے فرمایا خبیث نے یہ بات تو بالکل سچ کہی (ابو یعلی) ایک بار مہاجرین کے پاس آپ ﷺ گئے تو ایک شخص نے کہا حضور ﷺ قرآن کی آیت کون سی بڑی ہے، آپ نے یہی آیت الکرسی پڑھ کر سنائی (طبرانی) آپ ﷺ نے ایک مرتبہ صحابہ میں سے ایک سے پوچھا تم نے نکاح کرلیا ؟ اس نے کہا حضرت میرے پاس مال نہیں، اس لئے نکاح نہیں کیا، آپ ﷺ نے فرمایا قل ھو اللہ یاد نہیں ؟ اس نے کہا وہ تو یاد ہے، فرمایا چوتھائی قرآن تو یہ ہوگیا، کیا قل یا ایھا الکافرون یاد نہیں، کہا ہاں وہ بھی یاد ہے، فرمایا چوتھائی قرآن یہ ہوا، پھر پوچھا کیا اذا زلزلت بھی یاد ہے ؟ کہا ہاں، فرمایا چوتھائی قرآن یہ ہوا، کیا اذا جاء نصر اللہ بھی یاد ہے ؟ کہا ہاں، فرمایا چوتھائی یہ، کہا آیت الکرسی یاد ہے ؟ کہا ہاں، فرمایا چوتھائی قرآن یہ ہوا (مسند احمد) حضرت ابوذر فرماتے ہیں میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ﷺ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے، میں آ کر بیٹھ گیا، آپ ﷺ نے پوچھا کیا تم نے نماز پڑھ لی ؟ میں نے کہا نہیں، فرمایا اٹھو نماز ادا کرلو۔ میں نے نماز پڑھی پھر آ کر بیٹھا تو آپ ﷺ نے فرمایا ابوذر شیطان انسانوں اور جنوں سے پناہ مانگ، میں نے کہا حضور کیا انسانی شیطان بھی ہوتے ہیں ؟ فرمایا ہاں، میں نے کہا حضور ﷺ کی نماز کی نسبت کیا ارشاد ہے ؟ فرمایا وہ سراسر خیر ہے جو چاہے کم حصہ لے جو چاہے زیادہ، میں نے کہا حضور روزہ ؟ فرمایا کفایت کرنے والا فرض ہے اور اللہ کے نزدیک زیادتی ہی، میں نے کہا صدقہ ؟ فرمایا بہت زیادہ اور بڑھ چڑھ کر بدلہ دلوانے والا، میں نے کہا سب سے افضل صدقہ کون سا ہے ؟ فرمایا کم مال والے کا ہمت کرنا یا پوشیدگی سے محتاج کی احتیاج پوری کرنا، میں نے سوال کیا سب سے پہلے نبی کون ہیں ؟ فرمایا حضرت آدم، میں نے کہا وہ نبی تھے ؟ فرمایا نبی اور اللہ سے ہمکلام ہونے والے، میں نے پوچھا رسولوں کی تعداد کیا ہے ؟ فرمایا تین سو اور کچھ اوپر دس بہت بڑی جماعت، ایک روایت میں تین سو پندرہ کا لفظ ہے، میں نے پوچھا حضور ﷺ آپ پر سب سے زیادہ بزرگی والی آیت کون سی اتری ؟ فرمایا آیت الکرسی اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم الخ، (مسند احمد) حضرت ابو ایوب انصاری فرماتے ہیں کہ میرے خزانہ میں سے جنات چرا کرلے جایا کرتے تھے، میں نے آنحضرت ﷺ سے شکایت کی، آپ ﷺ نے فرمایا جب تو اسے دیکھے تو کہنا بسم اللہ اجیبی رسول اللہ جب وہ آیا میں نے یہی کہا، پھر اسے چھوڑ دیا۔ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ﷺ نے فرمایا وہ پھر بھی آئے گا، میں نے اسے اسی طرح دو تین بار پکڑا اور اقرار لے لے کر چھوڑا دیا، میں نے حضور ﷺ سے ذکر کیا اور آپ ﷺ نے ہر دفعہ یہی فرمایا کہ وہ پھر بھی آئے گا، آخر مرتبہ میں نے کہا اب میں تجھے نہ چھوڑوں گا، اس نے کہا چھوڑ دے میں تجھے ایک ایسی چیز بتاؤں گا کہ کوئی جن اور شیطان تیرے پاس ہی نہ آسکے، میں نے کہا اچھا بتاؤ، کہا وہ آیت الکرسی ہے۔ میں نے آکر حضور ﷺ سے ذکر کیا آپ ﷺ نے فرمایا اس نے سچ کہا، گو وہ جھوٹا ہے (مسند احمد) صحیح بخاری شریف میں کتاب فضائل القرآن اور کتاب الوکالہ اور صفۃ ابلیس کے بیان میں بھی یہ حدیث حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے اس میں ہے کہ زکوٰۃ رمضان کے مال پر میں پہرہ دے رہا تھا جو یہ شیطان آیا اور سمیٹ سمیٹ کر اپنی چادر میں جمع کرنے لگا، تیسری مرتبہ اس نے بتایا کہ اگر تو رات بستر پر جا کر اس آیت کو پڑھ لے گا تو اللہ کی طرف سے تجھ پر حافظ مقرر ہوگا اور صبح تک شیطان تیرے قریب بھی نہ آسکے گا (بخاری) دوسری روایت میں ہے کہ یہ کھجوریں تھیں اور مٹھی بھر وہ لے گیا تھا اور آپ نے فرمایا تھا کہ اگر اسے پکڑنا چاہے تو جب وہ دروازے کھولے کہنا سبحان من سخرک محمد شیطان نے عذر یہ بتایا تھا کہ ایک فقیر جن کے بال بچوں کیلئے میں یہ لے جا رہا تھا (ابن مردویہ) پس یہ واقعہ تین صحابہ کا ہوا، حضرت ابی بن کعب کا، حضرت ابو ایوب انصاری کا اور حضرت ابوہریرہ کا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ایک انسان کی ایک جن سے ملاقات ہوئی جن نے کہا مجھ سے کشتی کرے گا ؟ اگر مجھے گرا دے گا تو میں تجھے ایک ایسی آیت سکھاؤں گا کہ جب تو اپنے گھر جائے اور اسے پڑھ لے تو شیطان اس میں نہ آسکے، کشتی ہوئی اور اس آدمی نے جن کو گرا دیا، اس شخص نے جن سے کہا تو تو نحیف اور ڈرپوک ہے اور تیرے ہاتھ مثل کتے کے ہیں، کیا جنات ایسے ہی ہوتے ہیں یا صرف تو ہی ایسا ہے ؟ کہا میں تو ان سب میں سے قوی ہوں، پھر دوبارہ کشتی ہوئی اور دوسری مرتبہ بھی اس شخص نے گرا دیا تو جن نے کہا جو آیت میں نے سکھانے کیلئے کہا تھا وہ آیت الکرسی ہے، جو شخص اپنے گھر میں جاتے ہوئے اسے پڑھ لے تو شیطان اس گھر سے گدھے کی طرح چیختا ہوا بھاگ جاتا ہے۔ جس شخص سے کشتی ہوئی تھی وہ شخص عمر تھے (کتاب الغریب) رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں سورة بقرہ میں ایک آیت ہے جو قرآن کریم کی تمام آیتوں کی سردار ہے جس گھر میں وہ پڑھی جائے وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔ وہ آیت آیت الکرسی ہے (مستدرک حاکم) ترمذی میں ہے ہر چیز کی کوہان اور بلندی ہے اور قرآن کی بلندی سورة بقرہ ہے اور اس میں بھی آیت الکرسی تمام آیتوں کی سردار ہے۔ حضرت عمر کے اس سوال پر کہ سارے قرآن میں سب سے زیادہ بزرگ آیت کون سی ہے ؟ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا مجھے خوب معلوم ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ وہ آیت آیت الکرسی ہے (ابن مردویہ) حضور ﷺ فرماتے ہیں ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے۔ ایک تو آیت الکرسی، دوسری آیت الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم (مسند احمد) اور حدیث میں ہے کہ وہ اسم اعظم جس نام کی برکت سے جو دعا اللہ تعالیٰ سے مانگی جائے وہ قبول فرماتا ہے۔ وہ تین سورتوں میں ہے، سورة بقرہ، سورة آل عمران اور سورة طہ (ابن مردویہ) ہشام بن عمار خطیب دمشق فرماتے ہیں سورة بقرہ کی آیت آیت الکرسی ہے اور آل عمران کی پہلی ہی آیت اور طہ کی آیت و عنت الوجوہ للحی القیوم ہے اور حدیث میں ہے جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھ لے اسے جنت میں جانے سے کوئی چیز نہیں روکے گی سوائے موت کے (ابن مردویہ) اس حدیث کو امام نسائی نے بھی اپنی کتاب عمل الیوم واللیلہ میں وارد کیا ہے اور ابن حبان نے بھی اسے اپنی صحیح میں وارد کیا ہے اس حدیث کی سند شرط بخاری پر ہے لیکن ابو الفرج بن جوزی اسے موضوع کہتے ہیں واللہ اعلم، تفسیر ابن مردویہ میں بھی یہ حدیث ہے لیکن اس کی اسناد بھی ضعیف ہے۔ ابن مردویہ میں کی ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ بن عمران کی طرف وحی کی کہ ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھ لیا کرو، جو شخص یہ کرے گا میں اسے شکرگزار دل اور ذکر کرنے والی زبان دوں گا۔ اور اسے نبیوں کا ثواب اور صدیقوں کا عمل دوں گا۔ جس عمل کی پابندی صرف انبیاء اور صدیقین سے ہی ہوتی ہے یا اس بندے سے جس کا دل میں نے ایمان کیلئے آزما لیا ہو یا اسے اپنی راہ میں شہید کرنا طے کرلیا ہو، لیکن یہ حدیث بہت منکر ہے۔ ترمذی کی حدیث میں ہے جو شخص سورة حم المومنین کو الیہ المصیر تک اور آیت الکرسی کو صبح کے وقت پڑھ لے گا وہ شام تک اللہ کی حفاظت میں رہے گا اور شام کو پڑھنے والے کی صبح تک حفاظت ہوگی لیکن یہ حدیث بھی غریب ہے۔ اس آیت کی فضیلت میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں لیکن ایک تو اس لئے کہ ان کی سندیں ضعیف ہیں اور دوسرے اس لئے بھی کہ ہمیں اختصار مدنظر ہے، ہم نے انہیں وارد نہیں کیا۔ اس مبارک آیت میں دس مستقل جملے، پہلے جملے میں اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کا بیان ہے کہ کل مخلوق کا وہی ایک اللہ ہے۔ دوسرے جملے میں ہے کہ وہ خود زندہ ہے جس پر کبھی موت نہیں آئے گی، دوسروں کو قائم رکھنے والا ہے۔ قیوم کی دوسری نشانی قرأت قیام بھی ہے پس تمام موجودات اس کی محتاج ہے اور وہ سب سے بےنیاز ہے، کوئی بھی بغیر اس کی اجازت کے کسی چیز کا سنبھالنے والا نہیں، جیسے اور جگہ ہے (وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ تَــقُوْمَ السَّمَاۗءُ وَالْاَرْضُ بِاَمْرِهٖ) 30۔ الروم :25) یعنی اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ آسمان و زمین اسی کے حکم سے قائم ہیں، پھر فرمایا نہ تو اس پر کوئی نقصان آئے نہ کبھی وہ اپنی مخلوق سے غافل اور بیخبر ہو، بلکہ ہر شخص کے اعمال پر وہ حاضر، ہر شخص کے احوال پر وہ ناظر، دل کے ہر خطرے سے وہ واقف، مخلوق کا کوئی ذرہ بھی اس کی حفاظت اور علم سے کبھی باہر نہیں، یہی پوری " قیومیت " ہے۔ اونگھ، غفلت، نیند اور بیخبر ی سے اس کی ذات مکمل پاک ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ کھڑے ہو کر صحابہ کرام کو چار باتیں بتائیں، فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ سوتا نہیں، نہ نیند اس کی ذات کے لائق ہے، وہ ترازو کا حافظ ہے جس کیلئے چاہے جھکا دے، جس کیلئے چاہے نہ جھکائے، دن کے اعمال رات سے پہلے اور رات کے اعمال دن سے پہلے اس کی طرف لے جائے جاتے ہیں، اس کے سامنے نور یا آگ کے پردے ہیں اگر وہ ہٹ جائیں تو اس کے چہرے کی تجلیاں ان تمام چیزوں کو جلا دیں جن تک اس کی نگاہ پہنچے، عبدالرزاق میں حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ موسیٰ نے فرشتوں سے پوچھا کہ کیا اللہ تعالیٰ سوتا بھی ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی بھیجی کہ حضرت موسیٰ کو تین راتوں تک بیدار رکھیں، انہوں نے یہی کیا، تین راتوں تک سونے نہ دیا، اس کے بعد دو بوتلیں ان کے ہاتھوں میں دے دیں گئیں اور کہہ دیا کہ انہیں تھامے رہو خبردار یہ گرنے اور ٹوٹنے نہ پائیں، آپ نے انہیں تھام لیا لیکن جاگا ہوا تھا، نیند کا غلبہ ہوا، اونگھ آنے لگی، آنکھ بند ہوجاتی لیکن پھر ہوشیار ہوجاتے مگر کب تک ؟ آخر ایک مرتبہ ایسا جھکولا آیا کہ بوتلیں ٹوٹ گئیں، گویا انہیں بتایا گیا کہ جب ایک اونگھنے اور سونے والا دو بوتلوں کو نہیں سنبھال سکتا تو اللہ تعالیٰ اگر اونگھے یا سوئے تو زمین و آسمان کی حفاظت کس طرح ہو سکے ؟ لیکن یہ بنی اسرائیل کی بات ہے اور کچھ دل کو لگتی بھی نہیں اس لئے کہ یہ ناممکن ہے کہ موسیٰ جیسے جلیل القدر عارف باللہ اللہ جل شانہ کی اس صفت سے ناواقف ہوں اور انہیں اس میں تردد ہو کہ اللہ ذوالجلال والا کرام جاگتا ہی رہتا ہے یا سو بھی جاتا ہے اور اس سے بھی بہت زیادہ غرابت والی وہ حدیث ہے جو ابن حریر میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس واقعہ کو منبر پر بیان فرمایا۔ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس کا فرمان پیغمبر ہونا ثابت نہیں بلکہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے یہ سوال کیا تھا اور پھر آپ کو بوتلیں پکڑوائی گئیں اور وہ بوجہ نیند کے نہ سنبھال سکے، اور حضور ﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی، آسمان و زمین کی تمام چیزیں اس کی غلامی میں اور اس کی ماتحتی میں اور اس کی سلطنت میں ہیں جیسے فرمایا کل ممن فی السموات والارض الخ، یعنی زمین و آسمان کی کل چیزیں رحمن کی غلامی میں حاضر ہونے والی ہیں، ان سب کو رب العالمین نے ایک ایک کرکے گن رکھا ہے۔ ساری مخلوق تنہا تنہا اس کے پاس حاضر ہوگی، کوئی نہیں جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے سفارش یا شفاعت کرسکے، جیسے ارشاد ہے و کم من ملک فی السموات الخ، یعنی آسمانوں میں بہت سے فرشتے ہیں لیکن ان کی شفاعت بھی کچھ فائدہ نہیں دے سکتی، ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی منشای اور مرضی سے ہو، اور جگہ ہے ولایشفعون الا لمن ارتضی کسی کی وہ شفاعت نہیں کرتے مگر اس کی جس سے اللہ خوش ہو، پس یہاں بھی اللہ تعالیٰ کی عظمت اس کا جلال اور اس کی کبریائی بیان ہو رہی ہے، کہ بغیر اس کی اجازت اور رضامندی کے کسی کی جرات نہیں کہ اس کے سامنے کسی کی سفارش میں زبان کھولے، حدیث شفاعت میں بھی ہے کہ میں اللہ کے عرش کے نیچے جاؤں گا اور سجدے میں گر پڑوں گا اللہ تعالیٰ مجھے سجدے میں ہی چھوڑ دے گا جب تک چاہے، پھر کہا جائے گا کہ اپنا سر اٹھائو، کہو، سنا جائے گا، شفاعت کرو، منظور کی جائے گی، آپ فرماتے ہیں پھر میرے لئے حد مقرر کردی جائے گی اور میں انہیں جنت میں لے جاؤں گا وہ اللہ تمام گزشتہ موجودہ اور آئندہ کا عالم ہے اس کا علم تمام مخلوق کا احاطہ کئے ہوئے ہے جیسے اور جگہ فرشتوں کا قول ہے کہ مانتنزل الا بامر ربک الخ، ہم تیرے رب کے حکم کے بغیر اتر نہیں سکتے ہمارے آگے پیچھے اور سامنے سب کی چیزیں اسی کی ملکیت ہیں اور تیرا رب بھول چوک سے پاک ہے۔ کرسی سے مراد حضرت عبداللہ بن عباس سے علم منقول ہے، دوسرے بزرگوں سے دونوں پاؤں رکھنے کی جگہ منقول ہے، ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی مروی ہے، حضرت ابوہریرہ سے بھی مرفوعاً یہی مروی ہے لیکن رفع ثابت نہیں، ابو مالک فرماتے ہیں کرسی عرش کے نیچے ہے، سدی کہتے ہیں آسمان و زمین کرسی کے جوف میں اور کرسی عرش کے سامنے، ابن عباس فرماتے ہیں ساتوں زمینیں اور ساتوں آسمان اگر پھیلا دئیے جائیں اور سب کو ملا کر بسیط کردیا جائے تو بھی کرسی کے مقابلہ میں ایسے ہوں گے جیسے ایک حلقہ کسی چٹیل میدان میں، ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ساتوں آسمان کرسی میں ایسے ہی ہوں گے جیسے ایک حلقہ کسی چٹییل میدان میں، ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ساتوں آسمان کرسی میں ایسے ہی ہیں جیسے سات درہم ڈھال میں اور حدیث میں کرسی عرش کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے ایک لوہے کا حلقہ چٹیل میدان میں، ابو ذرغفاری نے ایک مرتبہ کرسی کے بارے میں سوال کیا تو حضور ﷺ نے قسم کھا کر یہی فرمایا اور فرمایا کہ پھر عرش کی فضیلت کرسی پر بھی ایسی ہی ہے، ایک عورت نے آن کر حضور ﷺ سے درخواست کی کہ میرے لئے دعا کیجئے کہ اللہ مجھے جنت میں لے جائے، آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی کرسی نے آسمان و زمین کو گھیر رکھا ہے مگر جس طرح نیا پالان چرچراتا ہے وہ کرسی عظمت پروردگار سے چرچرا رہی ہے، گو یہ حدیث بہت سی سندوں سے بہت سی کتابوں میں مروی ہے لیکن کسی سند میں کوئی راوی غیر مشہور ہے کسی میں ارسال ہے، کوئی موقوف ہے، کسی میں بہت کچھ غریب زبادتی ہے، کسی میں حذف ہے اور ان سب سے زیادہ غریب حضرت جسیر والی حدیث ہے جو ابو داؤد میں مروی ہے۔ اور وہ روایات بھی ہیں جن میں قیامت کے روز کرسی کا فیصلوں کیلئے رکھا جانا مروی ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ اس آیت میں یہ ذکر نہیں واللہ اعلم، مسلمانوں کے ہئیت دان متکلمین کہتے ہیں کہ کرسی آٹھواں آسمان ہے جسے فلک ثوابت کہتے ہیں اور جس پر نواں آسمان ہے اور جسے فلک اثیر کہتے ہیں اور اطلس بھی، لیکن دوسرے لوگوں نے اس کی تردید کی ہے، حسن بصری فرماتے ہیں کرسی ہی عرش ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ کرسی اور ہے اور عرش اور ہے، جو اس سے بڑا ہے جیسا کہ آثار احادیث میں وارد ہوا ہے، علامہ ابن جریر تو اس بارے میں حضرت عمر والی روایت پر اعتماد کئے ہوئے ہیں لیکن میرے نزدیک اس کی صحت میں کلام ہے واللہ اعلم، پھر فرمایا کہ اللہ پر ان کی حفاظت بوجھل اور گراں نہیں بلکہ سہل اور آسان ہے۔ وہ ساری مخلوق کے اعمال پر خبردار تمام چیزوں پر نگہبان کوئی چیز اس سے پوشیدہ اور انجان نہیں بلکہ سہل اور آسان ہے، تمام مخلوق اس کے سانے حقیر متواضح ذلیل پست محتاج اور فقیر، وہ غنی وہ حمید وہ جو کچھ چاہے کر گزرنے والا، کوئی اس پر حاکم نہیں بازپرس کرنے والا، ہر چیز پر وہ غالب، ہر چیز کا حافظ اور مالک، وہ علو، بلندی اور رفعت والا وہ عظمت بڑائی اور کبریائی والا، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، نہ اس کے سوا کوئی خبرگیری کرنے والا نہ پالنے پوسنے والا وہ کبریائی والا اور فخر والا ہے، اسی لئے فرمایا وھو العلی العظیم بلندی اور عظمت والا وہی ہے۔ یہ آیتیں اور ان جیسی اور آیتیں اور صحیح حدیثیں جتنی کچھ ذات و صات باری میں وارد ہوئی ہیں ان سب پر ایمان لانا بغیر کیفیت معلوم کئے اور بغیر تشبیہ دئیے جن الفاظ میں وہ وارد ہوئی ہیں ضروری ہے اور یہی طریقہ ہمارے سلف صالحین رضوان اللہ علیھم اجمعین کا تھا۔

اردو ترجمہ

دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے صحیح بات غلط خیالات سے ا لگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا، اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ (جس کا سہارا اس نے لیا ہے) سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La ikraha fee alddeeni qad tabayyana alrrushdu mina alghayyi faman yakfur bialttaghooti wayumin biAllahi faqadi istamsaka bialAAurwati alwuthqa la infisama laha waAllahu sameeAAun AAaleemun

جبر اور دعوت اسلام یہاں یہ بیان ہو رہا ہے کہ کسی کو جبراً اسلام میں داخل نہ کر، اسلام کی حقانیت واضح اور روشن ہوچکی اس کے دلائل وبراہین بیان ہوچکے ہیں پھر کسی اور جبر اور زبردستی کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ جسے اللہ رب العزت ہدایت دے گا، جس کا سینہ کھلا ہوا دل روشن اور آنکھیں بینا ہوں گی وہ تو خود بخود اس کا والہ و شیدا ہوجائے گا، ہاں اندھے دل والے بہرے کانوں والے پھوٹی آنکھوں والے اس سے دور رہیں گے پھر انہیں اگر جبراً اسلام میں داخل بھی کیا تو کیا فائدہ ؟ کسی پر اسلام کے قبول کرانے کیلئے جبر اور زبردستی نہ کرو۔ اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ مدینہ کی مشرکہ عورتیں جب انہیں اولاد نہ ہوتی تھی تو نذر مانتی تھیں کہ اگر ہمارے ہاں اولاد ہوئی تو ہم اسے یہود بنادیں گے، یہودیوں کے سپرد کردیں گے، اسی طرح ان کے بہت سے بچے یہودیوں کے پاس تھے، جب یہ لوگ مسلمان ہوئے اور اللہ کے دین انصار بنے، یہودیوں سے جنگ ہوئی اور ان کی اندرونی سازشوں اور فریب کاریوں سے نجات پانے کیلئے سرور رسل ؑ نے یہ حکم جاری فرمایا کہ بنی نضیر کے یہودیوں کو جلا وطن کردیا جائے، اس وقت انصاریوں نے اپنے بچے جو ان کے پاس تھے ان سے طلب کئے تاکہ انہیں اپنے اثر سے مسلمان بنالیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جبر اور زبردستی نہ کرو، ایک روایت یہ بھی ہے کہ انصار کے قبیلے بنوسالم بن عوف کا ایک شخص حصینی نامی تھا جس کے دو لڑکے نصرانی تھے اور خود مسلمان تھا، اس نے نبی ﷺ کی خدمت میں ایک بار عرض کیا کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں ان لڑکوں کو جبراً مسلمان بنا لوں، ویسے تو وہ عیسائیت سے ہٹتے نہیں، اس پر یہ آیت اتری اور ممانعت کردی، اور روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ نصرانیوں کا ایک قافلہ ملک شام سے تجارت کیلئے کشمش لے کر آیا تھا جن کے ہاتھوں پر دونوں لڑکے نصرانی ہوگئے تھے جب وہ قافلہ جانے لگا تو یہ بھی جانے پر تیار ہوگئے، ان کے باپ نے حضور ﷺ سے یہ ذکر کیا اور کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں انہیں اسلام لانے کیلئے کچھ تکلیف دوں اور جبراً مسلمان بنالوں، ورنہ پھر آپ کو انہیں واپس لانے کیلئے اپنے آدمی بھیجنے پڑیں گے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی، حضرت عمر کا غلام اسبق نصرانی تھا، آپ اس پر اسلام پیش کرتے وہ انکار کرتا، آپ کہہ دیتے کہ خیر تیری مرضی اسلام جبر سے روکتا ہے، علماء کی ایک بڑی جماعت کا یہ خیال ہے کہ یہ آیت ان اہل کتاب کے حق میں ہے جو فسخ و تبدیل توراۃ و انجیل کے پہلے دین مسیحی اختیار کرچکے تھے اور اب وہ جزیہ پر رضامند ہوجائیں، بعض اور کہتے ہیں آیت قتال نے اسے منسوخ کردیا، تمام انسانوں کو اس پاک دین کی دعوت دینا ضروری ہے، اگر کوئی انکار کرے تو بیشک مسلمان اس سے جہاد کریں، جیسے اور جگہ ہے آیت (سَـتُدْعَوْنَ اِلٰى قَوْمٍ اُولِيْ بَاْسٍ شَدِيْدٍ تُقَاتِلُوْنَهُمْ اَوْ يُسْلِمُوْنَ) 48۔ الفتح :16) عنقریب تمہیں اس قوم کی طرف بلایا جائے گا جو بڑی لڑاکا ہے یا تو تم اس سے لڑو گے یا وہ اسلام لائیں گے، اور جگہ ہے اے نبی کافروں اور منافقوں سے جہاد کر اور ان پر سختی کر، اور جگہ ہے ایماندارو ! اپنے آس پاس کے کفار سے جہاد کرو، تم میں وہ گھر جائیں اور یقین رکھو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے، صحیح حدیث میں ہے، تیرے رب کو ان لوگوں پر تعجب آتا ہے جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے جنت کی طرف گھسیٹے جاتے ہیں، یعنی وہ کفار جو میدان جنگ میں قیدی ہو کر طوق و سلاسل پہنا کر یہاں لائے جاتے ہیں پھر وہ اسلام قبول کرلیتے ہیں اور ان کا ظاہر باطن اچھا ہوجاتا ہے اور وہ جنت کے لائق بن جاتے ہیں مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص سے حضور ﷺ نے کہا مسلمان ہوجاؤ، اس نے کہا حضرت میرا دل نہیں مانتا آپ ﷺ نے فرمایا گو دل نہ چاہتا ہو، یہ حدیث ثلاثی ہے یعنی آنحضرت ﷺ تک اس میں تین راوی ہیں لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ آپ نے اسے مجبور کیا، مطلب یہ ہے کہ تو کلمہ پڑھ لے، پھر ایک دن وہ بھی آئے گا اللہ تیرے دل کو کھول دے اور تو دل سے بھی اسلام کا دلدادہ ہوجائے گا، حسن نیت اور اخلاص عمل تجھے نصیب ہو، جو شخص بت اور اوثان اور معبودان باطل اور شیطانی کلام کی قبولیت کو چھوڑ دے اللہ کی توحید کا اقراری اور عامل بن جائے وہ سیدھا اور صحیح راہ پر ہے۔ حضرت عمر فاروق فرماتے ہیں جبت سے مراد جادو ہے اور طاغوت سے مراد شیطان ہے، دلیری اور ناموری دونوں اونٹ کے دونوں طرف کے برابر بوجھ ہیں جو لوگوں میں ہوتے ہیں۔ ایک دلیر آدمی تو انجان شخص کی حمایت میں بھی جان دینے پر تل جاتا ہے لیکن ایک بزدل اور ڈرپوک اپنی سگی ماں کی خاطر بھی قدم آگے نہیں بڑھاتا۔ انسان کا حقیقی کرم اس کا دین ہے، انسان کا سچا نسب حسن و خلق ہے گو وہ فارسی ہو یا نبطی، حضرت عمر کا طاغوت کو شیطان کے معنی میں لینا بہت ہی اچھا ہے اس لئے کہ یہ ہر اس برائی کو شامل ہے جو اہل جاہلیت میں تھی، بت کی پوجا کرنا، ان کی طرف حاجتیں لے جانا ان سے سختی کے وقت طلب امداد کرنا وغیرہ۔ پھر فرمایا اس شخص نے مضبوط کڑا تھام لیا، یعنی دین کے اعلیٰ اور قوی سبب کو لے لیا جو نہ ٹوٹے نہ پھوٹے، خوب مضبوط مستحکم قوی اور گڑا ہوا، عروہ وثقف سے مراد ایمان اسلام توحید باری قرآن اور اللہ کی راہ کی محبت اور اسی کیلئے دشمنی کرنا ہے، یہ کڑا کبھی نہ ٹوٹے گا یعنی اس کے جنت میں پہنچتے تک، اور جگہ ہے آیت (اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ) 13۔ الرعد :11) اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بگاڑتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بگاڑ لے، مسند احمد کی ایک حدیث میں ہے حضرت قیس بن عبادہ فرماتے ہیں میں مسجد نبوی میں تھا جو ایک شخص آیا جس کا چہرہ اللہ سے خائف تھا نماز کی دو ہلکی رکعتیں اس نے ادا کیں، لوگ انہیں دیکھ کر کہنے لگے یہ جنتی ہیں، جب وہ باہر نکلے تو میں بھی ان کے پیچھے گیا، باتیں کرنے لگا جب وہ متوجہ ہوئے تو میں نے کہا جب آپ تشریف لائے تھے تب لوگوں نے آپ کی نسبت یوں کہا تھا، کہا سبحان اللہ کسی کو وہ نہ کہنا چاہئے جس کا علم اسے نہ ہو، ہاں البتہ اتنی بات تو ہے کہ میں نے حضور ﷺ کی موجودگی میں ایک خواب دیکھا تھا کہ گویا میں ایک لہلہاتے ہوئے سرسبز گلشن میں ہوں اس کے ایک درمیان لوہے کا ستون ہے جو زمین سے آسمان تک چلا گیا ہے اس کی چوٹی پر ایک کڑا ہے مجھ سے کہا گیا اس پر چڑھ جاؤ، میں نے کہا میں تو نہیں چڑھ سکتا، چناچہ ایک شخص نے مجھے تھاما اور میں باآسانی چڑھ گیا اور اس کڑے کو تھام لیا، اس نے کہا دیکھو مضبوط پکڑے رکھنا، بس اسی حالت میں میری آنکھ کھل گئی کہ وہ کڑا میرے ہاتھ میں تھا، میں نے حضور ﷺ سے یہ اپنا خواب بیان کیا تو آپ نے فرمایا گلشن باغ اسلام ہے اور ستون دین ہے اور کڑا عروہ وثقی ہے تو میرے دم تک اسلام پر قائم رہے گا، یہ شخص حضرت عبداللہ بن سلام ہیں، یہ حدیث بخاری مسلم دونوں میں مروی ہے۔ مسند کی اسی حدیث میں ہے کہ اس وقت آپ بوڑھے تھے اور لکڑی پر ٹیک لگائے ہوئے مسجد نبوی میں آئے تھے اور ایک ستون کے پیچھے نماز پڑھی تھی اور سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ جنت اللہ کی چیز ہے جسے چاہے اس میں لے جائے، خواب کے ذکر میں فرمایا کہ ایک شخص آیا مجھے لے کر چلا گیا جب ہم ایک لمبے چوڑے صاف شفاف میدان میں پہنچے تو میں نے بائیں طرف جانا چاہا تو اس نے کہا تو ایسا نہیں۔ میں دائیں جانب چلنے لگا تو اچانک ایک پھسلتا پہاڑ نظر آیا اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اوپر چڑھا لیا اور میں اس کی چوٹی تک پہنچ گیا، وہاں میں نے ایک اونچا ستون لوہے کا دیکھا جس کے سرے پر ایک سونے کا کڑا تھا مجھے اس نے اس ستون پر چڑھا دیا یہاں تک کہ میں نے اس کڑے کو تھام لیا اس نے پوچھا خوب مضبوط معلوم تھام لیا ہے، میں نے کہاں ہاں، اس نے زور سے ستون پر اپنا پاؤں مارا، وہ نکل گیا اور کڑا میرے ہاتھ میں رہ گیا، جب یہ خواب حضور ﷺ کو میں نے سنایا تو آپ نے فرمایا بہت نیک خواب ہے، میدان محشر ہے، بائیں طرف کا راستہ جہنم کا راستہ ہے تو لوگوں میں نہیں، دائیں جانب کا راستہ جنتیوں کی راہ ہے، پھسلتا پہاڑ شہداء کی منزل ہے، کڑا اسلام کا کڑا ہے مرتے دم تک اسے مضبوط تھام رکھو، اس کے بعد حضرت عبداللہ نے فرمایا امید تو مجھے یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں لے جائے گا۔

42