سورۃ البقرہ: آیت 229 - الطلاق مرتان ۖ فإمساك بمعروف... - اردو

آیت 229 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

ٱلطَّلَٰقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌۢ بِإِحْسَٰنٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا۟ مِمَّآ ءَاتَيْتُمُوهُنَّ شَيْـًٔا إِلَّآ أَن يَخَافَآ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا ٱفْتَدَتْ بِهِۦ ۗ تِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ ٱللَّهِ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّٰلِمُونَ

اردو ترجمہ

طلاق دو بار ہے پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے اور رخصت کر تے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو، اُس میں سے کچھ واپس لے لو البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے، تو اُن دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کر لے یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں، اِن سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کریں، وہی ظالم ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alttalaqu marratani faimsakun bimaAAroofin aw tasreehun biihsanin wala yahillu lakum an takhuthoo mimma ataytumoohunna shayan illa an yakhafa alla yuqeema hudooda Allahi fain khiftum alla yuqeema hudooda Allahi fala junaha AAalayhima feema iftadat bihi tilka hudoodu Allahi fala taAAtadooha waman yataAAadda hudooda Allahi faolaika humu alththalimoona

آیت 229 کی تفسیر

وہ طلاق جن کے بعد ، فریقین ازدواجی زندگی کا آغاز کرسکتے ہیں دو ہیں ۔ اگر خاوند ان دو سے بھی آگے بڑھ جائے تو پھر ان کے درمیان زادواجی تعلقات صرف اس صورت میں قائم ہوسکتے ہیں ، جس کی تشریح اگلی آیات میں آرہی ہے ۔ یعنی یہ کہ پہلے وہ کسی دوسرے خاوند سے جدا ہوجائے ۔ صرف اس صورت میں پہلے خاوند کے لئے ، جس نے تین طلاقوں کا حق استعمال کرلیا تھا ، یہ جائز ہے کہ اس عورت سے دوبارنکاح کرے بشرطیکہ یہ عورت ازسر نو اس کے ساتھ نکاح کرنے پر راضی ہو۔

اس پابندی کے عائد ہونے کی وجہ کے بارے میں بعض روایات میں آتا ہے کہ اسلامی دور آغاز میں بھی (جاہلیت کی طرح) طلاقوں کی تعداد مقرر نہ تھی ۔ اور مرد کو یہ حق بھی حاصل تھا کہ وہ ہر طلاق کے دوران عدت رجوع کرسکے ۔ چناچہ بعض لوگ اسی طرح طلاق دیتے ، پھر رجوع کرتے اور یوں ہی یہ سلسلہ چلتا رہتا ۔ اسلامی دور میں انصار میں سے ایک صاحب کی اپنی بیوی کے ساتھ ان بن ہوگئی ، اس نے بیوی سے کہا اللہ کی قسم نہ میں تجھے اپنے قریب چھوڑوں گا اور نہ ہی تجھے اپنے سے جدا کروں گا ۔ اس نے کہا کیونکر ہوگا ؟ اس نے کہا میں تجھے طلاق دوں گا ، لیکن جب عدت کا وقت قریب آئے گا تو میں رجوع کرلوں گا ۔ وہ پریشان ہوئی اور اس نے رسول اللہ ﷺ سے یہ شکا یت کی ۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ وحی آئی الطَّلاقُ مَرَّتَانِ ” طلاقیں دو ہیں۔ “

اللہ نے اسلامی نظام کے نزول احکام میں حکیمانہ پالیسی اختیار کی جب بھی کسی حکم کی ضرورت پڑی ، حکم نزال کردیا گیا۔ اور اس طرح بتدریج پورے احکام نازل ہوگئے ۔ اور اسلامی زندگی کے اصول مکمل کرلئے گئے ۔ اب جو کام رہ گیا تھا وہ جزوی اور نئے حالات پر ان اصولی احکام کی تطبیق کا تھا کہ اصول کی روشنی میں جزئیات کے حل معلوم کئے جائیں۔

اس پابندی کے نتیجے میں طلاقوں کی تعداد محدود ہوگئی ۔ اب وہ سابقہ صورت حال باقی نہ رہی کہ خاوند مسلسل طلاق دیتا جائے اور اس کو بازیچہ اطفال بنادے ۔ اب طریق کار یہ ہوگیا کہ جب مرد عورت کو ایک مرتبہ طلاق دے دے تو وہ دوران عدت کسی قانونی پیچیدگی کے بغیر اپنی بیوی سے رجوع کرسکتا ہے ۔ اور اگر یوں ہی عدت گزرجائے تو عورت جدا ہوجائے گی جسے فقہ میں ” بائنہ “ کہتے ہیں ۔ اب بھی عدت کا عرصہ گزرجانے کے بعد وہ محض رجوع سے واپس نہیں لے سکتا ۔ بلکہ اسے ایک نئے نکاح کے ذریعہ ، اور ایک نیا مہر مقرر کرکے عورت کی رضا سے اسے واپس نکاح میں لانا ہوگا ۔ ایک طلاق کے بعد مرد عورت کو دوران عدت میں واپس لے لے ، رجوع کرکے یا عدت گزرنے کے بعد وہ نکاح تازہ کرلے اور جدید مہر کے ساتھ عورت کو واپس کرلے دونوں صورتیں جائز ہیں۔

اس کے بعد اگر دوسری مرتبہ یہ خاوند پھر اسے ایک طلاق دے دیتا ہے تو بھی اسے یہی حق حاصل ہوگا۔ یعنی دوران عدت میں رجوع اور بعد از عدت نکاح جدید ۔ لیکن اگر وہ تیسری مرتبہ طلاق دے دے تو اس صورت میں یہ عورت اس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہوجائے گی ۔ فقہی اصطلاح میں اسے عظیم جدائی (بینونت کبریٰ ) کہتے ہیں ۔ تیسری مرتبہ طلاق دیتے ہی عورت بائن ہوجائے گی یعنی جدا تصور ہوگی ۔ اب یہ مرد دوران عدت رجوع کا حق استعمال نہیں کرسکتا ، نہ وہ نکاح جدید کرسکتا ہے ۔ الایہ کہ اس عورت کا نکاح کسی دوسرے مرد سے ہوجائے اور یہ دوسرا خاوند اپنی ازدواج زندگی کے دوران اسے طلاق دے دے ، پھر رجوع نہ کرے یا یہ دوسرا خاوند بھی تین طلاقوں کا حق استعمال کرے اور عورت ہمیشہ کے لئے جدا ہوجائے تو پھر پہلے مرد کے لئے جائز ہے کہ وہ اس عورت کو اپنے نکاح میں لے لے ۔ لیکن یہ سب کام اپنی قدرتی رفتار سے ہونا چاہئے۔

پہلی طلاق ایک کسوٹی اور ایک معیار ہے جیسا کہ ہم اوپر کہہ آئے ہیں ۔ دوسری طلاق دوبارہ آزمائش اور ایک آخری تجربہ ہے ۔ دوسری طلاق کے بعد اگر زندگی کی گاڑی چل پڑے تو فبہا ورنہ تیسری طلاق اس بات کا بین ثبوت فراہم کردیتی ہے کہ زوجین کے درمیان طبائع اور مزاجوں کا اختلاف بہت ہی بنیادی نوعیت کا ہے اور ناقابل اصلاح ہے۔

بہرحال طلاق بھی ایک آخری علاج ہے ۔ کوششوں کے بعد بھی اگر فریقین کے درمیان مصالحت کا کوئی امکان نہ رہے تو پھر یہی بہتر ہے کہ دائمی جدائی ہوجائے ۔ اگر دوطلاقیں ہوجائیں تو پھر بیوی کو یا تو معروف طریقے سے رکھنا ہے اور نرمی و محبت کا نئے سرے سے آغاز کرنا ہے اور پا پھر بھلے انداز میں حسن و خوبی کے ساتھ ، احسان کے ساتھ ، شرافت کے ساتھ اس کو رخصت کردینا ہے ، یعنی تیسری مرتبہ طلاق دے کر ، جس کے بعد عورت کو پھر زندگی کی نئی لائن اختیار کرنی ہوتی ہے ۔ یہ ہے حقیقت پسندانہ قانون سازی ، جو انسان کے حقیقی واخلاقی زندگی کو سامنے رکھ کر کی گئی ہے ۔ اور جو عائلی زندگی کے پیچیدہ مسائل کا بہترین اور عملی (Paractical) حل پیش کرتی ہے ۔ اس قانون سازی میں ایسی شدت بھی نہیں ہے جو مفید نہ ہو ، انسان کو ایسے اخلاقی نظام میں ڈھالنے کی کوشش نہیں کرتی جو اس کی جبلت سے متصادم ہو ، نہ یہ قانون سازی انسان اور اس کی قوتوں کو مہمل چھوڑنے پر اصرار کرتی ہے ، اگر یہ اسے یوں ہی چھوڑدیتے ہیں کوئی فائدہ نہ ہو۔

ازدواجی زندگی کے دوران مرد نے عورت کو جو مہر دیا ہے ، یا اس پر مختلف قسم کے جو اخراجات کئے ہیں ، مرد کے لئے جائز نہیں ہے کہ تیسری مرتبہ طلاق کے بعد ، وہ اس سے کوئی چیز واپس لینے کا حق دار بن جاتا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ عورت کو ذاتی اسباب کی بناپر ذاتی جذبات اور بمقتضائے طبیعت مرد ناپسند ہو اور عورت یہ محسوس کرتی ہو کہ اس نفرت اور کراہت کی وجہ سے وہ اس خاوند کے ساتھ حدودالٰہی کی پابندی کرتے ہوئے زندگی بسر نہیں کرسکتی ۔ وہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کے ساتھ حسن معاشرت سے پیش آئے ۔ اس کے ادب کا خیال رکھے یا اس کی عزت وآبرو بچائے اور عفیفانہ زندگی بسر کرسکے تو ایسے حالات میں عورت کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ مرد سے طلاق طلب کرے ۔ اس صورت میں یہ عورت چونکہ محض ذاتی وجوہات کی بناپر اس مرد کے جذبات مجروح کرتی ہے اور اس کے خاندان اور گھر کو خراب کررہی ہے ۔ اور اس میں بیچارے مرد کا کوئی ذاتی قصور نہیں ہے ۔ اس لئے اس عورت کا فرض ہے وہ مہر واپس کردے ۔ یہ محض اس لئے کہ عورت اللہ کی معصیت سے بچے ، اس کی حدود توڑنے کا موقع اسے نہ ملے ، اور نہ اپنے نفس پر اور نہ دوسروں پر مصیبت لانے کے مواقع پیدا ہوں۔

یہ ہے اسلامی نظام زندگی ، جس میں لوگوں کو پیش آنے والے تمام واقعی حالات زندگی کی رعایت کی گئی ہے ۔ اس میں انسانی جذبات اور فطری پسند وناپسند کا بھی خاطر خواہ لحاظ رکھا گیا ہے ، جن پر خود انسان کو کنٹرول نہ ہو ، بیوی کو بھی مجبور نہیں کیا گیا کہ وہ اپنی پوری زندگی ایک ایسے شخص کے ساتھ بسر کردے جسے وہ پسند ہی نہیں کرتی ، اس سے طبعاً متنفر ہے ، اور ساتھ ہی مرد کے حقوق کو بھی نظر انداز نہیں کرتی ۔ جس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے ۔ اس طبعی نفرت اور مزاج کی ناہمواری کے پیدا کرنے میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے ۔

اس آیت کی اہمیت اور اس کے دوررس نتائج تک پہنچنے کے لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم قارئین کے سامنے وہ واقعی حالات بھی رکھ دیں جن حالات کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بنایا اور اسے نافذ کیا گیا۔ ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے اس ربانی نظام زندگی میں کس حقیقت پسندی ، کس دقت نظری ، کس میانہ روی اور عدل و انصاف کے کس اونچے معیار کو پیش نظررکھا گیا ہے ۔

امام مالک (رح) نے اپنی مشہور کتاب مؤطا میں روایت کی ہے کہ حبیبہ بنت سہل انصاری ، ثابت ابن قیس ابن شماس کی بیوی تھیں ۔ رسول اللہ ﷺ صبح اندھیرے منہ گھر سے باہر نکلے تو دیکھا کہ صبح کی تاریکی میں حبیبہ کھڑی ہیں ۔ رسول ﷺ نے فرمایا کون ہوسکتی ہیں یہ ؟ کہنے لگی میں حبیبہ بنت سہیل ہوں جناب ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! ایسے وقت میں کیسے ؟ کہنے لگی اللہ کے رسول ﷺ میں کسی صورت میں بھی ثابت ابن قیس کے ساتھ نہیں رہ سکتی ۔

اس کے بعد ثابت بن قیس بلائے گئے تو رسول ﷺ نے فرمایا ! ثابت ، یہ حبیبہ ہے اس نے میرے سامنے تمہارے بارے میں وہ باتیں کی ہیں جو اللہ کو منظور ہوں گی۔

اس پر حبیبہ نے کہا اللہ کے رسول ﷺ ” اس نے مجھے جو کچھ دیا ہے وہ میرے پاس محفوظ ہے۔ “

اس پر رسول ﷺ نے ثابت سے کہا اس سے لے لو چناچہ اس نے وہ سب کچھ لے لیا اور حبیبہ اپنے اہل خاندان کے پاس چلی گئی۔

امام بخاری (رح) نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ ثابت ابن قیس ابن شماس کی بیوی رسول ﷺ کے پاس آئیں ۔ کہنے لگیں میں اس کسی بےدینی وبداخلاقی کا الزام نہیں لگاتی ۔ لیکن میں نہیں چاہتی کہ ہم مسلمان ہوکر کفر کا ارتکاب کریں۔

رسول ﷺ نے فرمایا !” کیا تم اس باغ کو واپس کردو گی جو اس نے تمہیں (بطورمہر) دیا ہے ؟ “

اس نے کہا :” ہاں “ رسول ﷺ نے فرمایا :” ثابت ! اپنا باغ واپس لے لو اور اسے ایک طلاق دے دو ۔ “

ایک دوسری روایت میں ذرا زیادہ تفصیل آئی ہے ۔ ابن جریر (رح) نے نقل کیا ہے کہ ابوجریر (رح) نے عکرمہ (رح) سے دریافت کیا : کیا خلع کی کوئی شرعی حقیقت ہے ؟ عکرمہ (رح) نے جواب دیا حضرت ابن عباس ؓ کہا کرتے تھے اسلام میں پہلا خلع عبداللہ ابن ابی کی بہن کا ہوا۔ وہ رسول ﷺ کے پاس آئیں اور کہا : اللہ کے رسول ﷺ ، میرا سر اس چیز کے سر کے ساتھ ہرگز جمع نہیں ہوسکتا ۔ میں نے پردے کا ایک کونا اٹھایا اور اسے چند آدمیوں کے درمیان آتے ہوئے دیکھا۔ وہ سب میں سیاہ رنگ تھا ، سب میں کوتاہ قد اور سب میں قبیح صورت تھا۔ “

اس پر اس کے خاوند نے کہا :” رسول ﷺ میں نے تو اسے بہترین جائیداد عطا کردی ہے ۔ ایک ہی باغ تھا میرا جو میں نے اسے دے دیا ہے کیا وہ میرا باغ واپس کردے گی ؟ “

رسول ﷺ نے عورت سے دریافت کیا تمہاری رائے کیا ہے ؟ اس نے کہا : ہاں اگر وہ چاہتا ہے تو میں اسے واپس کردوں گا۔” ابن عباس کہتے ہیں :” اس پر رسول ﷺ نے دونوں کے درمیان تفریق کرادی۔ “

ان تمام روایات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا نفسیاتی صورت حال تھی ، جو رسول ﷺ کے سامنے آئی۔ رسول ﷺ نے اس صورتحال کو اس طرح قبول کرلیا کہ یہ کیس ناقابل علاج ہے ۔ تشدد اور سختی سے اس کا علاج ممکن نہیں ہے اور نہ اس میں ازدواجی زندگی میں کوئی مفید مثال قائم ہوسکتی ہے ۔ کہ عورت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایسی تلخ معاشرت پر مجبور کرکے رکھ دیا جائے۔ اس لئے رسول ﷺ نے اس صورت حال کا اصل اسلامی نظام زندگی کے مطابق ، اسلامی منہاج کے مطابق ، پیش کردیا جو بےحد عملی ہے ۔ واضح ہے ۔ حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہو ، کہ اس نفس کے اندر کیا جذبات کام کررہے ہیں ۔ کیا رجحانات ہیں ۔

پھر ایسی تمام صورتوں میں سنجیدہ طرز عمل یا طفلانہ طرزعمل ، اور سچائی کی راہ یا فریب کاری کی راہ اختیار کرنے کے لئے واحد نگراں صرف اللہ خوفی اور اس کی پکڑ کا ڈر ہی ہوسکتا تھا ، اس لئے ان احکام کے خاتمہ پر تنبیہ کردی گئی کہ یہ ہیں اللہ کی حدود ۔ ان سے تجاوز مت کرنا۔

تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ” یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو اور جو حدود الٰہی سے تجاوز کریں ، وہی ظالم ہیں۔ “

یہاں تھوڑی دیر کے لئے رکیے ! یہاں ہمارے سامنے قرآن مجید نے ایک ہی مضمون کو مختلف حالات میں مختلف انداز میں بیان کیا ہے ۔ مضمون ایک ، حالات مختلف ، اس لئے انداز بیان اور ۔

اس صورت میں روزے پر بحث کرتے ہوئے آخر میں یہ تنبیہ فرمائی گئی تھی تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَقْرَبُوهَا ” یہ اللہ کی حدیں ہیں ، ان کے قریب مت پھٹکو اور یہاں یہ کہا گیا ہے ۔ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوهَا ” یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ان سے تجاوز نہ کرو۔ “ سوال یہ ہے کہ انداز میں یہ اختلاف کیوں ہے ؟

حقیقت یہ ہے کہ سابقہ مقام ایسا تھا ، جس میں اللہ تعالیٰ نے ایسی چیزوں سے روکا تھا ، جو طبعاً سخت ناپسندیدہ ہیں بلکہ ایک مادہ پرست کے لئے خلاصہ حیات ہیں وہاں فرمایا گیا تھا :

” تمہارے لئے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کردیا ہے ۔ وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو۔ اللہ کو معلوم ہوگیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کررہے تھے ۔ مگر اس نے تمہارا قصور معاف کردیا اور تم سے درگزر فرمایا۔ اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جو لطف اللہ نے تمہارے لئے جائز کردیا ہے اسے حاصل کرو ۔ نیز راتوں کو کھاؤ پیو یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدہ صبح کی دھاری سے نمایاں نظر آجائے۔ تب یہ سب کام چھوڑ کر اپنا روزہ پورا کرو اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو بیوی سے مباشرت نہ کرو ۔ یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں ، ان کے قریب نہ پھٹکنا ۔ “ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَقْرَبُوهَا

ان آیات میں جن چیزوں کی ممانعت کردی گئی ہے ، وہ سب ایسی ہیں کہ انسان ازروئے طبیعت انہیں بےحد چاہتا ہے ۔ اس لئے یہاں حکم دیا گیا کہ ان کے قریب نہ پھٹکنا ، قریب ہی نہ ہونا ، انسان ضعیف ہے ، ہوسکتا ہے کہ ان چیزوں کی جاذبیت کا مقابلہ نہ کرسکے اور ان میں مبتلا ہوجائے ، ان کے پھندے میں بس کہیں پھنس ہی نہ جائے ۔

اب یہاں سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی چیزوں سے منع کیا گیا ہے جو بذات خود ناپسندیدہ ہیں ۔ گھریلو اختلافات ، جھگڑے بذات خود ناپسندیدہ ہیں ۔ یہاں خطرہ اس بات کا نہیں ہے کہ کوئی لڑائی جھگڑے کا شوق کرے ، بلکہ خطرہ اس بات کا ہے کہ بامر مجبوری اگر کوئی مبتلا ہو ہی جائے تو اس میں حدود سے تجاوز نہ کرے ۔ معقول حدود میں رہے ، حدیں توڑ ہی نہ دے۔ اس لئے یہاں حکم یہ نہیں دیا گیا کہ قریب ہی مت جاؤ بلکہ یہ حکم دیا گیا کہ حدود سے آگے نہ بڑھو۔ انداز بیان میں یہ لطیف فرق اس لئے ہوا ہے کہ موقع ومحل میں اختلاف ہے ۔ دونوں مواقع ومحل کے اس قدر لطیف فرق میں بالکل جدا ہیں ۔ یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ وہ موقع ومحل کے اس قدر لطیف فرق میں بھی انداز بیان مختلف اختیار کرتا ہے۔

احکام طلاق کا سلسلہ جاری ہے ۔ چلتے جائیے :

اب ہم اگلی آیات کا مطالعہ کرتے ہیں :آیت 229 اَلطَّلاَقُ مَرَّتٰنِ ص ۔ یعنی ایک شوہر کو دو مرتبہ طلاق دے کر رجوع کرلینے کا حق ہے۔ ایک دفعہ طلاق دی اور عدت کے اندر اندر رجوع کرلیا تو ٹھیک ہے۔ پھر طلاق دے دی اور عدت کے اندر اندر رجوع کرلیا تو بھی ٹھیک ہے۔ تیسری مرتبہ طلاق دے دی تو اب وہ رجوع نہیں کرسکتا۔ فَاِمْسَاکٌم بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌم بِاِحْسَانٍ ط۔ یعنی دو مرتبہ طلاق دینے کے بعد اب فیصلہ کرو۔ یا تو اپنی بیوی کو نیکی اور بھلائی کے ساتھ گھر میں روک لو ‘ تنگ کرنے اور پریشان کرنے کے لیے نہیں ‘ یا پھر بھلے طریقے سے ‘ بھلے مانسوں کی طرح اسے رخصت کر دو۔ وَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَیْتُمُوْہُنَّ شَیْءًا جب تم طلاق دے رہے ہو تو تم نے انہیں جو مہر دیا تھا اس میں سے کچھ واپس نہیں لے سکتے۔ ہاں اگر عورت خود طلاق مانگے تو اسے اپنے مہر میں سے کچھ چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن جب مرد طلاق دے رہا ہو تو وہ اس میں سے کچھ بھی واپس نہیں لے سکتا جو وہ اپنی بیوی کو دے چکا ہے۔ سورة النساء آیت 20 میں یہاں تک الفاظ آئے ہیں کہ اگرچہ تم نے سونے کا ڈھیر قِنطَار دے دیا ہو پھر بھی اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔اِلَّآ اَنْ یَّخَافَآ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ ط۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ازدواجی زندگی کے ضمن میں جو اہداف و مقاصد معینّ فرمائے ہیں ‘ اس کے لیے جو احکام دیے ہیں اور جو آداب بتائے ہیں ‘ فریقین اگر یہ محسوس کریں کہ ہم انہیں ملحوظ نہیں رکھ سکتے تو یہ ایک استثنائی صورت ہے ‘ جس میں عورت کوئی مال یا رقم فدیہ کے طور پردے کر ایسے شوہر سے خلاصی حاصل کرسکتی ہے۔فَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ لا فلاَ جُنَاحَ عَلَیْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ ط۔ یعنی ایسی صورت میں عورت اگر فدیہ کے طور پر کچھ دے دلا کر اپنے آپ کو چھڑا لے تو اس میں فریقین پر کوئی گناہ نہیں۔ مثلاً کسی عورت کا مہر دس لاکھ تھا ‘ وہ اس میں سے پانچ لاکھ شوہر کو واپس دے کر اس سے خلع لے لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلاَ تَعْتَدُوْہَا ج۔ دیکھئے روزے وغیرہ کے ضمن میں حدود اللہ کے ساتھ فَلَا تَقْرَبُوْھَا فرمایا تھا۔ یہاں فرمایا : فَلاَ تَعْتَدُوْہَا ج اس لیے کہ ان معاملات میں لوگ بڑے دھڑلے ّ سے اللہ کی مقرر کردہ حدود کو پامال کر جاتے ہیں۔ اگرچہ قانون باقی رہ جاتا ہے مگر اس کی روح ختم ہوجاتی ہے۔

رسم طلاق میں آئینی اصلاحات اور خلع : اسلام سے پہلے یہ دستور تھا کہ خاوند جتنی چاہے طلاقیں دیتا چلا جائے اور عدت میں رجوع کرتا جائے اس سے عورتوں کی جان غضب میں تھی کہ طلاق دی، عدت گزرنے کے قریب آئی رجوع کرلیا، پھر طلاق دے دی اس طرح عورتوں کو تنگ کرتے رہتے تھے، پس اسلام نے حد بندی کردی کہ اس طرح کی طلاقیں صرف دو ہی دے سکتے ہیں۔ تیسری طلاق کے بعد لوٹا لینے کا کوئی حق نہ رہے گا، سنن ابو داؤد میں باب ہے کہ تین طلاقوں کے بعد مراجعت منسوخ ہے، پھر یہ روایت لائے ہیں کہ حضرت ابن عباس یہی فرماتے ہیں، ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ نہ تو میں تجھے بساؤں گا نہ چھوڑوں گا، اس نے کہا یہ کس طرح ؟ طلاق دے دوں گا اور جہاں عدت ختم ہونے کا وقت آیا تو رجوع کرلوں گا، پھر طلاق دے دوں گا، پھر عدت ختم ہونے سے پہلے رجوع کرلوں گا اور یونہی کرتا چلا جاؤں گا۔ وہ عورت حضور ﷺ کے پاس آئی اور اپنا یہ دکھ رونے لگی اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی، ایک اور روایت میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد لوگوں نے نئے سرے سے طلاقوں کا خیال رکھنا شروع کیا اور وہ سنبھل گئے، اور تیسری طلاق کے بعد اس خاوند کو لوٹا لینے کا کوئی حق حاصل نہ رہا اور فرما دیا گیا کہ دو طلاقوں تک تو تمہیں اختیار ہے کہ اصلاح کی نیت سے اپنی بیوی کو لوٹا لو اگر وہ عدت کے اندر ہے اور یہ بھی اختیار ہے کہ نہ لوٹاؤ اور عدت گزر جانے دو تاکہ وہ دوسرے سے نکاح کرنے کے قابل ہوجائے اور اگر تیسری طلاق دینا چاہتے ہو تو بھی احسان و سلوک کے ساتھ ورنہ اس کا کوئی حق نہ مارو، اس پر کوئی ظلم نہ کرو، اسے ضرر و نقصان نہ پہنچاؤ، ایک شخص نے حضور ﷺ سے سوال کیا کہ دو طلاقیں تو اس آیت میں بیان ہوچکی ہیں تیسری کا ذکر کہاں ہے ؟ آپ نے فرمایا آیت (اوتسریح باحسان) میں، جب تیسری طلاق کا ارادہ کرے تو عورت کو تنگ کرنا اس پر سختی کرنا تاکہ وہ اپنا حق چھوڑ کر طلاق پر آمادگی ظاہر کرے، یہ مردوں پر حرام ہے۔ جیسے اور جگہ ہے آیت (ۭوَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ) 4۔ النسآء :19) یعنی عورتوں کو تنگ نہ کرو تاکہ انہیں دئیے ہوئے میں سے کچھ لے لو، ہاں یہ اور بات ہے کہ عورت اپنی خوشی سے کچھ دے کر طلاق طلب کرے جیسے فرمایا آیت (فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِيْۗــــــًٔـا مَّرِيْۗـــــــًٔـا) 4۔ النسآء :4) یعنی اگر عورتیں اپنی راضی خوشی سے کچھ چھوڑ دیں تو بیشک وہ تمہارے لئے حلال طیب ہے اور جب میاں بیوی میں نااتفاقی بڑھ جائے عورت اس سے خوش نہ ہو اور اس کے حق کو نہ بجا لاتی ہو ایسی صورت میں وہ کچھ لے دے کر اپنے خاوند سے طلاق حاصل کرلے تو اسے دینے میں اور اسے لینے میں کوئی گناہ نہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ اگر عورت بلاوجہ اپنے خاوند سے خلع طلب کرتی ہے تو وہ سخت گنہگار ہے چناچہ ترمذی وغیرہ میں حدیث ہے کہ جو عورت اپنے خاوند سے بےسبب طلاق طلب کرے اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے، اور روایت میں ہے کہ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی دوری سے آتی ہے، اور روایت میں ہے کہ ایسی عورتیں منافق ہیں، آئمہ سلف و خلف کی ایک بڑی جماعت کا فرمان ہے کہ خلع صرف اسی صورت میں ہے کہ نافرمانی اور سرکشی عورت کی طرف سے ہو، اس وقت مرد فدیہ لے کر اس عورت کو الگ کرسکتا ہے جیسے قرآن پاک کی اس آیت میں ہے اس کے سوا کی صورت میں یہ سب جائز نہیں، بلکہ حضرت امام مالک تو فرماتے ہیں کہ اگر عورت کو تکلیف پہنچا کر اس کے حق میں کمی کر کے اگر اسے مجبور کیا گیا اور اس سے کچھ مال واپس لیا گیا تو اس کا لوٹا دینا واجب ہے، امام شافعی فرماتے ہیں کہ جب حالت اختلاف میں جائز ہے تو حالت اتفاق میں بطور اولی جائز ٹھہرے گا، بکر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ سرے سے خلع منسوخ ہے کیونکہ قرآن میں ہے آیت (وَّاٰتَيْتُمْ اِحْدٰىھُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَـيْـــًٔـا) 4۔ النسآء :20) یعنی اگر تم نے اپنی بیویوں کو ایک خزانہ بھی دے رکھا ہو، تو بھی اس میں سے کچھ بھی نہ لو، لیکن یہ قول ضعیف ہے اور مردود ہے، اب آیت کا شان نزول سنئے، موطا مالک میں ہے کہ حبیبہ بن سہل انصاریہ حضرت ثابت بن قیس شماس کی بیوی تھیں، آنحضرت ﷺ ایک دن صبح کی نماز کیلئے اندھیرے اندھیرے نکلے تو دیکھا کہ دروازے پر حضرت حبیبہ کھڑے ہیں، آپ نے پوچھا کون ہے ؟ کہا میں حبیبہ بن سہل ہوں۔ فرمایا کیا بات ہے ؟ کہا حضور ﷺ میں ثابت بن قیس کے گھر میں نہیں رہ سکتی یا وہ نہیں یا میں نہیں، آپ سن کر خاموش رہے۔ جب ثابت آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری بیوی صاحبہ کچھ کہہ رہی ہیں۔ حضرت حبیبہ نے کہا حضور ﷺ میرے خاوند مجھے جو دیا ہے وہ سب میرے پاس ہے اور میں اسے واپس کرنے پر آمادہ ہوں۔ آپ ﷺ نے حضرت ثابت کو فرمایا سب لے لو، چناچہ انہوں نے لے لیا اور حضرت حبیبہ آزاد ہوگئیں، ایک روایت میں ہے کہ حضرت ثابت نے انہیں مارا تھا اور اس مار سے کوئی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ حضور ﷺ نے جب انہیں یہ فرمایا اس وقت انہوں نے دریافت کیا کہ کیا میں یہ مال لے سکتا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا ہاں، کہا میں نے اسے دو باغ دئیے ہیں، یہ سب واپس دلوا دیجئے۔ وہ مہر کے دونوں باغ واپس کئے گئے اور جدائی ہوگئی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حبیبہ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میں اس کے اخلاق اور دین میں عیب گیری نہیں کرتی لیکن میں اسلام میں کفر کو ناپسند کرتی ہوں چناچہ مال لے کر حضرت ثابت نے طلاق دے دی۔ بعض روایات میں ان کا نام جمیلہ بھی آیا ہے۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ مجے اب غیظ و غضب کے برداشت کی طاقت نہیں رہی۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جو دیا ہے لے لو، زیادہ نہ لینا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت حبیبہ نے فرمایا تھا وہ صورت کے اعتبار سے بھی کچھ حسین نہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ حضرت عبداللہ بن ابی کی بہن تھیں اور سب سے پہلا خلع تھا جو اسلام میں ہوا۔ ایک وجہ یہ بھی بیان کی تھی کہ حضرت ﷺ میں نے ایک مرتبہ خیمے کے پردہ کو جو اٹھایا تو دیکھا کہ میرے خاوند چند آدمیوں کے ساتھ آ رہے ہیں، ان تمام میں یہ سیاہ فام چھوٹے قد والے اور بدصورت تھے۔ حضور ﷺ کے اس فرمان پر کہ اس کا باغ واپس کرو، حبیبہ نے کہا تھا کہ آپ فرمائیں تو میں اس کے منہ پر تھوک دیا کرتی، جمہور کا مذہب تو یہ ہے کہ خلع عورت اپنے سے دئیے ہوئے سے زیادہ لے تو بھی جائز ہے کیونکہ قرآن نے آیت (فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَا فِـيْمَا افْتَدَتْ بِهٖ) 2۔ البقرۃ :229) فرمایا ہے، حضرت عمر کے پاس ایک عورت اپنے خاوند سے بگڑی ہوئی آئی، آپ نے فرمایا اسے گندگی والے گھر میں قید کردو پھر قید خانہ سے اسے بلوایا اور کہا کیا حال ہے ؟ اس نے کہا آرام کی راتیں مجھ پر میری زندگی میں یہی گزری ہیں۔ آپ نے اس کے خاوند سے فرمایا اس سے خلع کرلے۔ اگرچہ گوشوارہ کے بدلے ہی ہو، ایک روایت میں ہے اسے تین دن وہاں قید رکھا تھا، ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا اگر یہ اپنی چٹیا کی دھجی بھی دے تو لے لے اور اسے الگ کر دے۔ حضرت عثمان فرماتے ہیں اس کے سوا سب کچھ لے کر بھی خلع ہوسکتا ہے۔ ربیع بنت معوذ بن عفراء فرماتی ہیں میرے خاوند اگر موجود ہوتے تو بھی میرے ساتھ سلوک کرنے میں کمی کرتے اور کہیں چلے جاتے تو بالکل ہی محروم کردیتے۔ ایک مرتبہ جھگڑے کے موقع پر میں نے کہہ دیا کہ میری ملکیت میں جو کچھ ہے لے لو اور مجھے خلع دو۔ اس نے کہا اور یہ معاملہ فیصل ہوگیا لیکن میرے چچا معاذ بن عفراء اس قصہ کو لے کر حضرت عثمان کے پاس گئے۔ عثمان نے بھی اسے برقرار رکھا اور فرمایا کہ چوٹی کی دھجی چھوڑ کر سب کچھ لے لو، بعض روایتوں میں ہے یہ بھی اور اس (سیس) چھوٹی چیز بھی غرض سب کچھ لے لو، پس مطلب ان واقعات کا یہ ہے کہ یہ دلیل ہے اس پر کہ عورت کے پاس جو کچھ ہے دے کر وہ خلع کرا سکتی ہے اور خاوند اپنی دی ہوئی چیز سے زائد لے کر بھی خلع کرسکتا ہے۔ ابن عمر، ابن عباس، مجاہد، عکرمہ، ابراہیم، نخعی، قیصہ بن ذویب، حسن بن صالح عثمان رحم اللہ اجمعین بھی یہی فرماتے ہیں۔ امام مالک، لیث، امام شافعی اور ابو ثور کا مذہب بھی یہی ہے۔ امام ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں اور اصحاب ابوحنیفہ کا قول ہے کہ اگر قصور اور ضرر رسانی عورت کی طرف سے ہو تو خاوند کو جائز ہے کہ جو اس نے دیا ہے واپس لے لے، لیکن اس سے زیادہ لینا جائز نہیں۔ گو زیادہ لے لے تو بھی قضاء کے وقت جائز ہوگا اور اگر خاوند کی اپنی جانب سے زیادتی ہو تو اسے کچھ بھی لینا جائز نہیں۔ گو، لے لے تو قضا جائز ہوگا۔ امام احمد ابو عبید اور اسحاق بن راھویہ فرماتے ہیں کہ خاوند کو اپنے دئیے ہوئے سے زیادہ لینا جائز ہی نہیں۔ سعید بن مسیب عطاء عمرو بن شعیب زہری طاؤس حسن شعبی حماد بن ابو سلیمان اور ربیع بن انس کا بھی یہی مذہب ہے۔ عمر اور حاکم کہتے ہیں حضرت علی کا بھی یہ فیصلہ ہے۔ اوزاعی کا فرمان ہے کہ قاضیوں کا فیصلہ ہے کہ دئیے ہوئے سے زیادہ کو جائز نہیں جانتے۔ اس مذہب کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو اوپر بیان ہوچکی ہے جس میں ہے کہ اپنا باغ لے لو اور اس سے زیادہ نہ لو۔ مسند عبد بن حمید میں بھی ایک مرفوع حدیث ہے کہ نبی ﷺ نے خلع لینے والی عورت سے اپنے دئیے ہوئے سے زیادہ لینا مکروہ رکھا، اور اس صورت میں جو کچھ فدیہ وہ دے لے گا، کا لفظ قرآن میں ہے۔ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ دئیے ہوئے میں سے جو کچھ دے، کیونکہ اس سے پہلے یہ فرمان موجود ہے کہ تم نے جو انہیں دیا ہے اس میں سے کچھ نہ لو، ربیع کی قرأت میں بہ کے بعد منہ کا لفظ بھی ہے۔ پھر فرمایا کہ یہ حدود اللہ ہیں ان سے تجاوز نہ کرو ورنہ گنہگار ہوں گے (فصل) خلع کو بعض حضرات طلاق میں شمار نہیں کرتے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک شخص نے اپنی بیوی کو دو طلاقیں دے دیں ہیں پھر اس عورت نے خلع کرا لیا ہے تو اگر خاوند چاہے تو اس سے پھر بھی نکاح کرسکتا ہے اور اس پر دلیل یہی آیت وارد کرتے ہیں۔ یہ قول حضرت ابن عباس کا ہے، حضرت عکرمہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ طلاق نہیں، دیکھو آیت کے اول و آخر طلاق کا ذکر ہے پہلے دو طلاقوں کا پھر آخر میں تیسری طلاق کا اور درمیان میں جو خلع کا ذکر ہے، پس معلوم ہوا کہ خلع طلاق نہیں بلکہ فسخ ہے۔ امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عمر طاؤس عکرمہ، احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ، ابو ثور، داؤد بن علی ظاہری کا بھی یہی مذہب ہے۔ امام شافعی کا بھی قدیم قول یہی ہے اور آیت کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں۔ بعض دیگر بزرگ فرماتے ہیں کہ خلع طلاق بائن ہے اور اگر ایک سے زیادہ کی نیت ہوگی تو وہ بھی معتبر ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ ام بکر اسلمیہ نے اپنے خاوند عبداللہ بن خالد سے خلع لیا اور حضرت عثمان نے اسے ایک طلاق ہونے کا فتویٰ دیا اور ساتھ ہی فرما دیا کہ اگر کچھ سامان لیا ہو تو جتنا سامان لیا ہو وہ ہے، لیکن یہ اثر ضعیف ہے واللہ اعلم۔ حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عمر، سعید بن مسیب، حسن، عطا، شریح، شعبی، ابراہیم، جابر بن زید، مالک، ابوحنیفہ اور ان کے ساتھی ثوری، اوزاعی، ابو عثمان بتی کا یہی قول ہے کہ خلع طلاق ہے۔ امام شافعی کا بھی جدید قول یہی ہے، ہاں حنیفہ کہتے ہیں کہ اگر دو طلاق کی نیت خلع دینے والے کی ہے تو دو ہوجائیں گی۔ اگر کچھ کچھ لفظ نہ کہے اور مطلق خلع ہو تو ایک طلاق بائن ہوگی اگر تین کی نیت ہے تو تین ہوجائیں گی۔ امام شافعی کا ایک اور قول بھی ہے کہ اگر طلاق کا لفظ نہیں اور کوئی دلیل و شہادت بھی نہیں تو وہ بالکل کوئی چیز نہیں۔ مسئلہ : امام ابو حنیفہ، شافعی احمد، اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا مسلک ہے کہ خلع کی عدت طلاق کی عدت ہے۔ عمر علی ابن مسعود اور سعید بن مسیب، سلمان بن یسار، عمروہ، سالم، ابو سلمہ، عمر بن عبدالعزیز، ابن شہاب، حسن، شعبی، ابراہیم نخعی، ابو عیاض، خلاس بن عمرو، قتادہ، سفیان ثوری، اوزاعی، لیث بن سعد اور ابو عبید رحمتہ اللہ علیھم اجمعین کا بھی یہی فرمان ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں اکثر اہل علم اسی طرف گئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ چونکہ خلع طلاق ہے لہذا عدت اس کی عدت طلاق کے مثل ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ صرف ایک حیض اس کی عدت ہے۔ حضرت عثمان کا یہی فیصلہ ہے، ابن عمر گو تین حیض کا فتویٰ دیتے تھے لیکن ساتھ ہی فرما دیا کرتے تھے کہ حضرت عثمان ہم سے بہتر ہیں اور ہم سے بڑے عالم ہیں، اور ابن عمر سے ایک حیض کی مدت بھی مروی ہے۔ ابن عباس، عکرمہ، امان بن عثمان اور تمام وہ لوگ جن کے نام اوپر آئے ہیں جو خلع کو فسخ کہتے ہیں ضروری ہے کہ ان سب کا قول بھی یہی ہو، ابو داؤد اور ترمذی کی حدیث میں بھی یہی ہے کہ ثابت بن قیس کی بیوی صاحبہ کو آپ نے اس صورت میں ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا تھا، ترمذی میں ہے کہ ربیع بنت معوذ کو بھی خلع کے بعد ایک ہی حیض عدت گزارنے کا حضور ﷺ کا فرمان صادر ہوا تھا۔ حضرت عثمان نے خلع والی عورت سے فرمایا تھا کہ تجھ پر عدت ہی نہیں۔ ہاں اگر قریب کے زمانہ میں ہی خاوند سے ملی ہو تو ایک حیض آجانے تک اس کے پاس ٹھہری رہو۔ مریم مغالبہ کے بارے میں حضور ﷺ کا جو فیصلہ تھا اس کی متابعت حضرت امیرالمومنین نے کی۔ مسئلہ : جمہور علمائے کرام اور چاروں اماموں کے نزدیک خلع والی عورت سے رجوع کرنے کا حق خاوند کو حاصل نہیں، اس لئے کہ اس نے مال دے کر اپنے تئیں آزاد کرا لیا ہے۔ عبداللہ بن ابی اوفی، ماہان حنفی، سعید اور زہری کا قول ہے کہ اگر واپس کیا پھیر دے تو حق رجعت حاصل ہے بغیر عورت کی رضامندی کے بھی رجوع کرسکتا ہے۔ سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ اگر خلع میں طلاق کا لفظ نہیں تو وہ صرف جدائی ہے اور رجوع کرنے کا حق نہیں اور اگر طلاق کا نام لیا ہے تو بیشک وہ رجعت کا پورا پورا حقدار ہے، داؤد ظاہری بھی یہی فرماتے ہیں، ہاں سب کا اتفاق ہے کہ اگر دونوں رضامند ہوں تو نیا نکاح عدت کے اندر اندر کرسکتے ہیں۔ عبدالبر ایک فرقہ کا یہ قول بھی حکایت کرتے ہیں کہ عدت کے اندر جس طرح دوسرا کوئی اس سے نکاح نہیں کرسکتا، اسی طرح خلع دینے والا خاوند بھی نکاح نہیں کرسکتا، لیکن یہ قول شاذ اور مردود ہے۔ مسئلہ : اس عورت پر عدت کے اندر اندر دوسری طلاق بھی واقع ہوسکتی ہے یا نہیں ؟ اس میں علماء کے تین قول ہیں۔ ایک یہ کہ نہیں، کیونکہ وہ عورت اپنے نفس کی مالکہ ہے اور اس خاوند سے الگ ہوگئی ہے، ابن عباس ابن زبیر عکرمہ جابر بن زید حسن بصری شافعی احمد اسحاق ابو ثور کا یہی قول ہے۔ دوسرا قول امام مالک کا ہے کہ اگر خلع کے ساتھ ہی بغیر خاموش رہے طلاق دے دے تو واقع ہوجائے گی ورنہ نہیں، یہ مثل اس کے ہے جو حضرت عثمان سے مروی ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ عدت میں طلاق واقع ہوجائے گی۔ ابوحنیفہ ان کے اصحاب، ثوری، اوزاعی، سعید بن مسیب، شریح، طاؤس، ابراہیم، زہری، حاکم، حکم اور حماد کا بھی یہی قول ہے۔ ابن مسعود اور ابو الدرداء سے بھی یہ مروی تو ہے لیکن ثابت نہیں۔ پھر فرمایا ہے کہ یہ اللہ کی حدیں ہیں۔ صحیح حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ کی حدوں سے آگے نہ بڑھو، فرائض کو ضائع نہ کرو، محارم کی بےحرمتی نہ کرو، جن چیزوں کا ذکر شریعت میں نہیں تم بھی ان سے خاموش رہو کیونکہ اللہ کی ذات بھول چوک سے پاک ہے۔ اس آیت سے استدلال ہے ان لوگوں کا جو کہتے ہیں کہ تینوں طلاقیں ایک مرتبہ ہی دینا حرام ہیں۔ مالکیہ اور ان کے موافقین کا یہی مذہب ہے، ان کے نزدیک سنت طریقہ یہی ہے کہ طلاق ایک ایک دی جائے کیونکہ آیت (الطلاق مرتان) کہا پھر فرمایا کہ یہ حدیں ہیں اللہ کی، ان سے تجاوز نہ کرو، اس کی تقویت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو سنن نسائی میں ہے۔ حضور ﷺ کو ایک مرتبہ یہ معلوم ہوا کہ کسی شخص نے اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں ایک ساتھ دی ہیں۔ آپ سخت غضبناک ہو کر کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے کیا میری موجودگی میں کتاب اللہ کے ساتھ کھیلا جانے لگا۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا اگر حضور ﷺ اجازت دیں تو میں اس شخص کو قتل کرو، لیکن اس روایت کی سند میں انقطاع ہے۔

آیت 229 - سورۃ البقرہ: (الطلاق مرتان ۖ فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان ۗ ولا يحل لكم أن تأخذوا مما آتيتموهن شيئا إلا أن يخافا...) - اردو