سورۃ البقرہ (2): آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں۔ - اردو ترجمہ

اس صفحہ میں سورہ Al-Baqara کی تمام آیات کے علاوہ فی ظلال القرآن (سید ابراہیم قطب) کی تمام آیات کی تفسیر بھی شامل ہے۔ پہلے حصے میں آپ سورہ البقرة کو صفحات میں ترتیب سے پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ یہ قرآن میں موجود ہے۔ کسی آیت کی تفسیر پڑھنے کے لیے اس کے نمبر پر کلک کریں۔

سورۃ البقرہ کے بارے میں معلومات

Surah Al-Baqara
سُورَةُ البَقَرَةِ
صفحہ 36 (آیات 225 سے 230 تک)

لَّا يُؤَاخِذُكُمُ ٱللَّهُ بِٱللَّغْوِ فِىٓ أَيْمَٰنِكُمْ وَلَٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ ۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ لِّلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِن نِّسَآئِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ ۖ فَإِن فَآءُو فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ وَإِنْ عَزَمُوا۟ ٱلطَّلَٰقَ فَإِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ وَٱلْمُطَلَّقَٰتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَٰثَةَ قُرُوٓءٍ ۚ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَن يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ ٱللَّهُ فِىٓ أَرْحَامِهِنَّ إِن كُنَّ يُؤْمِنَّ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْءَاخِرِ ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِى ذَٰلِكَ إِنْ أَرَادُوٓا۟ إِصْلَٰحًا ۚ وَلَهُنَّ مِثْلُ ٱلَّذِى عَلَيْهِنَّ بِٱلْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَٱللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ٱلطَّلَٰقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌۢ بِإِحْسَٰنٍ ۗ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَأْخُذُوا۟ مِمَّآ ءَاتَيْتُمُوهُنَّ شَيْـًٔا إِلَّآ أَن يَخَافَآ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا ٱفْتَدَتْ بِهِۦ ۗ تِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ ٱللَّهِ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلظَّٰلِمُونَ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُۥ مِنۢ بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُۥ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَآ أَن يَتَرَاجَعَآ إِن ظَنَّآ أَن يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
36

سورۃ البقرہ کو سنیں (عربی اور اردو ترجمہ)

سورۃ البقرہ کی تفسیر (فی ظلال القرآن: سید ابراہیم قطب)

اردو ترجمہ

جو بے معنی قسمیں تم بلا ارادہ کھا لیا کرتے ہو، اُن پر اللہ گرفت نہیں کرتا، مگر جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو، اُن کی باز پرس وہ ضرور کرے گا اللہ بہت در گزر کرنے والا اور بردبار ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

La yuakhithukumu Allahu biallaghwi fee aymanikum walakin yuakhithukum bima kasabat quloobukum waAllahu ghafoorun haleemun

اللہ تعالیٰ رؤف ورحیم ہے ، اس لئے اس نے کفارہ اس قسم پر عائد کیا ہے جو قصد و ارادہ سے ہو ، جس میں قسم کھانے والا قصداً قسم کھالے ۔ اور اس کا ارادہ یہ ہو کہ اس نے جس چیز پر قسم کھائی ہے وہ اس کا ارتکاب نہ کرے گا ، لیکن عام طور پر لوگ بلا ارادہ اور بلا قصد جو قسمیں کھالیتے ہیں ان پر کفارہ عائد نہیں کیا گیا۔

لا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ” جو بےمعنی قسمیں تم بلاارادہ کھالیا کرتے ہو ، ان پر اللہ گرفت نہیں کرتا مگر جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ، ان کی باز پرس وہ ضرور کرے گا ۔ اللہ بہت درگزر کرنے والا ہے۔ “

ابوداؤد نے اپنی سند سے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قسم میں لغو یہ ہے کہ آدمی گھر میں کہے ہرگز نہیں اللہ کی قسم ، یا کہے ہاں اللہ کی قسم ۔ ابن جریر نے عروہ کے واسطہ سے اس روایت کو حضرت عائشہ ؓ سے موقوف نقل کیا ، فرماتی ہیں جن بےمعنی قسموں پر اللہ کی گرفت نہیں ہے وہ یہ ہیں ، کہ کوئی کہے ہرگز نہیں اللہ کی قسم یا کہے ہاں اللہ کی قسم ، حسن بن حسن سے ایک مرسل حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ ایک گروہ پر سے گزرے جو تیر اندازی کررہے تھے ۔ رسول ﷺ کے ساتھ ایک صحابی بھی تھے ۔ ایک شخص ان میں سے اٹھا اور چلایا اللہ کی قسم میرا تیر نشانے پر لگ گیا اور تمہارا نشانہ ٹھیک نہیں لگا ، اللہ کی قسم ، رسول ﷺ کے ساتھ جو صحابی جارہا تھا اس نے کہا اللہ کے رسول ﷺ ، یہ شخص تو اپنی قسم میں حانث ہوگیا۔ اس پر رسول ﷺ نے فرمایا ، ہرگز نہیں ، تیر اندازی کا مقابلہ کرنے والوں کی قسمیں لغ وہیں ۔ بےمعنی ہیں ان میں نہ کفارہ ہے اور نہ ہی کوئی عذاب ہے۔

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں ، لغو قسم یہ ہے کہ کوئی شخص غصے کی حالت میں قسم کھابیٹھے ۔ نیز ان سے یہ روایت ہے کہ یمین لغو یہ ہے کہ تم اللہ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام قرار دو ۔ اس میں تم پر کوئی کفارہ نہیں ہے ۔

حضرت سعید ابن المسیب سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ دو انصار بھائیوں کے درمیان میراث کا تنازعہ تھا ، ایک نے دوسرے سے کہا کہ وہ اسے اس کا حصہ دے دے ، اس پر اس نے قسم کھالی کہ اگر تم نے دوبارہ مجھ سے اپنا حصہ طلب کیا تو میرا تمام مال خانہ کعبہ کے لئے وقف ہوا ، حضرت عمر ؓ نے فرمایا کعبہ غریب نہیں ہے ۔ کعبہ کو تیرے مال کی ضرورت نہیں ہے ، اپنی قسم کا کفارہ ادا کرو اور اپنے بھائی سے بات کرو ۔ میں نے رسول ﷺ سے سنا ہے کہ اللہ کی معصیت میں تم جو قسم کھاؤ وہ کوئی قسم نہیں ہے اور نہ وہ کوئی نذر ہے ۔ نہ صلہ رحمہ قطع کرنے کی کوئی قسم واجب ہے ۔ نہ اس چیز کی قسم جس کے تم مالک ہو۔

ان روایات سے جو چیز معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ قسم میں اگر اس کام کے کرنے اور چھوڑنے کی نیت نہ ہو ، جس پر قسم کھائی گئی ہے تو یہ قسم بےمعنی ہے اور اس پر کوئی کفارہ نہیں ہے ۔ وہی قسم ، قسم کہلائے گی کہ قسم کھانے والا کسی بات کے کرنے یا کسی کام سے رکنے کا پختہ ارادہ کرے جس پر وہ قسم کھارہا ہے ۔ ایسی قسم اگر توڑ دی جائے تو اس پر کفارہ واجب ہوگا۔ اور اگر اس قسم کی قسم کسی اچھے کام سے رکنے کے لئے ہو یا کسی برے کام یا برے فعل کے ارتکاب کے لئے ہو ، تو ایسی قسم کا توڑنا لازمی ہے ۔ رہا وہ شخص جو کسی ایسے امر پر قسم کھائے جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ وہ جھوٹا ہے تو بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ اس قسم کا کوئی کفارہ نہیں ہے ، نہ کسی کے کفارے سے اس گناہ کی تلافی ممکن ہے ۔

امام مالک (رح) مؤطا میں فرماتے ہیں ، اس سلسلے میں سب سے اچھی جو بات میں نے سنی ہے وہ یہ ہے کہ یمین لغو وہ ہے کہ انسان کسی بات پر قسم کھائے اور جان رہا ہو کہ وہ جھوٹا ہے ، گناہ گار ہے ، اس طرح کرنے سے وہ کسی کو خوش کررہا ہو ، یا کسی کا حق مارنا چاہتا ہو ، یہ عظیم گناہ ہے اور کفارہ سے اس کی تلافی نہیں ہوسکتی ۔

جس قسم کے توڑنے میں خیر ہو ، بھلائی ہو ، اس کے حکم کے آخر میں فرمایا جاتا ہے وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ” اللہ سننے والا اور علم رکھنے والا ہے۔ “ اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ تم جو کچھ کہتے ہو وہ اسے سنتا ہے لیکن وہ یہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ خیر کس میں ہے اس لئے وہ یہ حکم دیتا ہے۔

اور لغو وبے معنی قسم اور سچی قسم کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ وہ ” غفور رحیم “ معاف کرنے والا اور رحیم ہے کہ وہ بندوں کے ہر فعل پر مواخذہ نہیں کرتا ۔ جب ان کے منہ سے غلطی سے جو نکل جائے وہ اس پر مواخذہ نہیں کرتا ۔ وہ چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو معاف کردیتا ہے ۔ بشرطیکہ بندہ اس کی طرف لوٹ آئے ۔ ان دونوں تبصروں اور نتائج سے قسم کے یہ معاملات سب کے سب اللہ سے جڑجاتے ہیں اور ایک مسلمان کا دل ہر قول میں اور ہر فعل میں اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔

اردو ترجمہ

جو لوگ اپنی عورتوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھا بیٹھے ہیں، اُن کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے اگر انہوں نے رجوع کر لیا، تو اللہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Lillatheena yuloona min nisaihim tarabbusu arbaAAati ashhurin fain faoo fainna Allaha ghafoorun raheemun

قسم کے قاعدہ کلیہ کے بیان کے بعد اب مسئلہ ایلا کا بیان شروع ہوتا ہے ، جو قسم ہی ایک قسم ہے ۔ ایک خاوند قسم کھالے کہ وہ اپنی بیوی کے پاس نہیں جائے گا ۔ یا محدود وقت کے لئے تو اس قسم کو شرعی اصطلاح میں ایلا کہا جاتا ہے۔ لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْهُرٍ فَإِنْ فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (226) وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ” جو لوگ اپنی عورتوں سے تعلق نہ رکھنے کی قسم کھابیٹھتے ہیں ان کے لئے چار مہینے کی مہلت ہے ۔ اگر انہوں نے رجوع کرلیا ، تو اللہ معاف کرنے والا رحیم ہے ۔ اور اگر انہوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی ہو ، تو جانے رہیں کہ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ “

میاں بیوی کی زندگی میں ایک طویل رفاقت ہوتی ہے ، جس میں مختلف قسم کے حالات پیش آتے رہتے ہیں ۔ مختلف نفسیاتی کیفیات زوجین پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں ۔ اور ان کے بیشمار اسباب ہوتے ہیں ۔ ان حالات میں جب شدت آجاتی ہے تو زوجین مباشرت تک کے تعلقات قطع کردیتے ہیں ۔ یہ عارضی جدائی اور قطع تعلق بیوی کے لئے سخت دشوار ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کی ذات پر نفسیاتی اور اعصابی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ بحیثیت ایک عورت اس کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے ۔ غرض ہر قسم کے تعلقات زن وشوئی ختم ہوکر رہ جاتے ہیں اور حسن معاشرت کے تمام بندھن ٹوٹ کر رہ جاتے ہیں اور اگر یہ کیفیت غیر متعین مدت تک رہے تو پورا خاندان تباہ ہوکر رہ جائے ۔

اسلام نے ابتداء ہی سے ایلا کو حرام قرار نہیں دیا ۔ اس لئے ہوسکتا ہے کہ بعض حالات میں وہ ترش مزاج بیوی کے لئے ایک مفید علاج ہو ، بالخصوص ایسی بیوی کا علاج جسے اپنی نسوانیت پر بہت ناز ہو ۔ جو کبر و غرور میں مبتلا ہو اور اپنے غرور یا ناز وادا کے ذریعہ مرد کو ذلیل کرنا چاہتی ہو ، یا وہ سمجھتی ہو کہ وہ مرد کو جس طرح چاہے زیر کرسکتی ہے ۔ نیز بعض اوقات اس عرصہ میں ذہنی کوفت اور تھکاوٹ دور کرنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ جس طرح بعض اوقات آدمی پر غصے کی کیفیت طاری ہوتی ہے اور اس کے بعد دل کا غبار نکل جاتا ہے اور زندگی کی گاڑی نئے سرے سے بڑی قوت اور خوشی سے چل پڑتی ہے ۔

لیکن اسلام نے مرد کو بھی اس معاملے میں مکمل آزاد نہیں چھوڑدیا ۔ ہوسکتا ہے کہ بعض اوقات وہ حد سے گزرجائے اور عورت کے ساتھ ظلم و زیادتی شروع کردے ۔ اور اسے ذلیل کرکے رکھ دے ۔ اس کی حالت اس طرح ہو جس طرح کوئی چیز فضا میں معلق ہو ، نہ وہ بیوی بن کر رہ سکے اور نہ وہ آزاد ہو کہ کسی دوسری جگہ گھر بساسکے ۔

اس لئے ، متعدد صورتوں ، مختلف قسم کے حالات اور زندگی کے عملی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلام نے یہ فیصلہ کیا کہ ایلا اور تعلق زن وشوئی کے بائیکاٹ کے لئے انتہائی مدت چار ماہ ہے ۔ اس سے زیادہ کسی خاوند کو اجازت نہ ہوگی کہ وہ بائیکاٹ کرے ۔ چار ماہ کی مدت بھی صانع فطرت نے اس لئے مقرر کی ہے اس میں عورت کی فطری خواہشات اور قوت برداشت کا بھی خیال رکھا گیا ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے فطری تقاضے پورے کرنے کے لئے اپنے خاوند کی بجائے کسی دوسرے کسی دوسرے ناجائز ذریعہ کی طرف رجوع کرے ۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت عمر ؓ ایک رات خفیہ طور پر نکلے ۔ لوگوں کے حالات معلوم کرنے کے لئے ۔ ان کی ضروریات معلوم کرنے کے لئے ۔ ایک گھر سے انہیں آواز آئی ایک عورت یہ شعر گا رہی تھی۔

رات لمبی ہے ۔ اور اس کا ہر پہلو تاریک ہوگیا !

میں جاگ رہی ہوں ! کیوں ؟

اللہ کی قسم ! اللہ کی قسم جو نگہباں ہے ، جو دیکھ رہا ہے !

اگر یہ اللہ نہ ہوتا تو میری چارپائی کے چاروں کونے جھٹکاکھا رہے ہوتے۔

حضرت عمر ؓ نے اپنی بیٹی حفصہ سے پوچھا ، کہ عورت خاوند کے بغیر کتنا عرصہ رہ سکتی ہے ۔ حضرت حفصہ ؓ نے فرمایا چھ ماہ یا چار ماہ ۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا ۔ میں اپنے فوجیوں میں سے کسی کو بھی چھ ماہ سے زیادہ باہر نہ رکھوں گا ۔ اسی پر آپ نے احکامات جاری کردئیے کہ فوجیوں کو چھ ماہ سے زیادہ عرصہ کے لئے اپنے گھروں سے دور نہ رکھاجائے ۔

بہرحال ان معاملات میں مختلف لوگوں کے مختلف مزاج ہوتے ہیں۔ لیکن چار ماہ کا عرصہ ایک مرد کے لئے کافی ہے کہ وہ اس میں اپنے نفس اور اپنے جذبات کو آزمائے۔ ان چارمہینوں میں یا تو وہ لوٹ آئے اور میاں بیوی کے درمیان از سر نو ایک صحت مند عائلی زندگی کا آغاز ہوجائے اور اپنی بیوی کو گلے لگائے ۔ اور اپنے بستر پر لوٹ آئے اور یا یہ کہ چار ماہ کے عرصہ میں بھی وہ اپنے آپ کو اس قابل نہ پائے کہ تعلقات کی پھر سے تجدید ہو اور قطع تعلق مجبورا جاری ہو ، اگر حالات دوسری صورت ہی کے ہوں تو پھر قرآن کا حکم یہ ہے کہ عقدۃً نکاح کو کھل جانا چاہئے ۔ بیوی کو طلاق دے کر اسے آزاد کردینا چاہئے ۔ یا وہ خود طلاق دے دے اور اگر وہ نہ دے تو قاضی اس کی طرف سے طلاق دے دے تاکہ میاں بیوی سے ہر دو اس امر میں آزاد ہوجائیں کہ وہ اپنے لئے کسی دوسرے جوڑے سے نئی صحت مند عائلی زندگی کا آغاز کرسکیں۔ بیوی کے لئے بھی یہی شریفانہ اور پاکیزہ راستہ ہے اور مرد کے لئے بھی یہی خوشگوار اور فرحت بخش راستہ ہے ۔ اور یہی مناسب ہے ۔ یہی وہ راستہ ہے جو سنجیدہ راستہ ہے ، جو منصفانہ راستہ ہے ۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر زندگی کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے ورنہ کشیدہ تعلقات کی صورت میں زندگی ، دونوں فریقوں کی زندگی ، منجمد ہوکر رہ جاتی ہے۔ قسم اور ایلا کے مسائل آخر کار طلاق پر منتہی ہوئے ۔ اس مناسبت سے یہاں طلاق کے تفصیلی احکام دیئے گئے ۔ نیز طلاق کے ساتھ دوسرے متعلقہ مسائل مثلاً عدت ، فدیہ ، نفقہ ، رخصتی کا سامان اور دوسرے نتائج وغیرہ۔ سب سے پہلے عدت اور رجوع کے مسائل۔

اردو ترجمہ

اور اگر اُنہوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی ہو تو جانے رہیں کہ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wain AAazamoo alttalaqa fainna Allaha sameeAAun AAaleemun

اردو ترجمہ

جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، وہ تین مرتبہ ایام ماہواری آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھیں اور اُن کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ نے اُن کے رحم میں جو کچھ خلق فرمایا ہو، اُسے چھپائیں اُنہیں ہرگز ایسا نہ کرنا چاہیے، اگر وہ اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتی ہیں اُن کے شوہر تعلقات درست کر لینے پر آمادہ ہوں، تو وہ اِس عدت کے دوران اُنہیں پھر اپنی زوجیت میں واپس لے لینے کے حق دار ہیں عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق اُن پر ہیں البتہ مردوں کو اُن پر ایک درجہ حاصل ہے اور سب پر اللہ غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا موجود ہے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Waalmutallaqatu yatarabbasna bianfusihinna thalathata qurooin wala yahillu lahunna an yaktumna ma khalaqa Allahu fee arhamihinna in kunna yuminna biAllahi waalyawmi alakhiri wabuAAoolatuhunna ahaqqu biraddihinna fee thalika in aradoo islahan walahunna mithlu allathee AAalayhinna bialmaAAroofi walilrrijali AAalayhinna darajatun waAllahu AAazeezun hakeemun

اپنے آپ کو روکیں رکھیں ذرا اپنے جذبات پر کنٹرول کریں۔ تین مرتبہ ایام ماہواری تک یا تین مرتبہ ایام ماہواری سے پاک ہونے تک ، اپنے آپ کو روکیں رکھیں۔ میں نے قرآن مجید کی اس تعبیر اور انداز بیان پر بہت غور کیا ، لطیف نفسیاتی حالت کی یہ عجیب تصویر کشی ہے ۔ مفہوم اور مقصد یہ ہے کہ تین دفعہ ایام ماہواری آنے یا ان سے پاک ہونے تک دوسری شادی کرنے سے باز رہیں ۔ لیکن اس عقلی اور قانونی مفہوم کے علاوہ قرآن کریم کا طرز تعبیر کچھ اور بھی بتاتا ہے ۔ انداز تعبیر روکے رکھیں ، لگام کھینچ لیں باوجود اچھلنے کودنے کے روکے رکھیں ، اس تعبیر سے اس نفسیاتی کیفیت کی طرف اشارہ ہے جو ایسے حالات میں پائی جاتی ہے ۔ ایسے حالات میں بالعموم مطلقہ عورت کو اس بات کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد نئی زندگی کا آغاز ایک نئے شوہر کی قیادت میں کردے ۔ یہ کیفیت فطری ہے ۔ ایسے حالات میں عورت پر شدید اعصابی دباؤ ہوتا ہے ۔ وہ چاہتی ہے کہ وہ ثابت کردکھائے کہ سابقہ تجربہ ازدواج میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔۔ اس میں کوئی جسمانی نقص نہیں ہے ۔ وہ کسی وقت بھی ، دوسرے شوہر کے لئے پرکشش بن سکتی ہے اور جدید ازدواجی زندگی کا آغاز کرسکتی ہے جبکہ یہ جذبہ اور احساس مرد میں نہیں ہوتا ، اس لئے طلاق کا حق اس کے ہاتھ میں ہے ، طلاق کا وار اس نے کیا ہے اور عورت نے اس وار کو برداشت کیا ہے ۔ اس لئے عورت سے یہ کہا گیا ہے کہ ذرا نفس کو روکے رکھو ، اس کی لگام کو کم ازکم تین ماہ تک کھینچے رکھو ۔ یوں قرآن مجید ایک لفظ اور ایک انداز تعبیر سے نفسیاتی کیفیت کی فضا ظاہر کردیتا ہے ۔ اس نفیساتی کیفیت کو ملحوظ خاطر رکھ کر ہدایات دیتا ہے اور ضابطہ بندی کرتا ہے۔

وہ اس عرصہ کے لئے اپنے نفوس کو روکھے رکھیں تاکہ ان کے رحم سابق زوجیت کے آثار سے پاک ہوجائیں اور پھر وہ نئے سرے سے ازدواجی زندگی کا آغاز کرسکیں ، اگر چاہیں لا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ” اور ان کے لئے یہ جائز نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں کو کچھ خلق فرمایا ہو ، اسے چھپائیں ۔ انہیں ہرگز ایسا نہ کرنا چاہئے اگر وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہیں۔ “

ان کے رحم میں حالت حمل ہے یا حالت حیض ان کے لئے جائز نہیں ہے کہ اسے چھپائیں ۔ رحم میں جو کچھ ہے ، اسے اللہ تعالیٰ کی خالقیت سے وابستہ کردیا گیا ہے ۔ تاکہ ان کے دلوں میں اللہ خوفی پیدا ہو ۔ انہیں اللہ اور یوم آخرت پر ایمان و یقین کی غیرت دلا کر کہا جاتا ہے کہ اگر تم مومن ہو تو تمہیں ہرگز کسی چیز کو چھپانا نہیں چاہئے ۔ یہاں یوم آخرت کا ذکر اس لئے ہوا کہ یوم آخرت یوم الجزاء ہے ۔ اس دنیا میں جو چیز احکام خداوندی کے بجالاتے ہوئے فوت ہوجائے وہ ایک مومن کو وہاں بطور اجر ملتی ہے ۔ یہاں چونکہ عورتوں کے لئے حکم ہے کہ باوجود اس کے کہ ان کے جذبات کو ٹھیس لگی ہے وہپ اپنے نفوس کو روکے رکھیں ۔ اس لئے کہا گیا ہے کہ جزاء آنے والی ہے ۔ ہاں اگر وہ پردہ داری کریں گی اور جو کچھ ان کے رحم میں ہے صاف صاف اس کا اظہار نہ کریں گی تو اس پر سزا بھی ہے ۔ اس سے تو کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے ۔ کیا کوئی چیز اللہ سے چھپائی جاسکتی ہے ؟ لہٰذا مت چھپاؤ۔ کسی بات سے اثر لے کر ، کسی مطلب کے لئے ۔ کسی خواہش سے مغلوب ہوکر ، کہیں خلق اللہ کو نہ چھپا لو۔

یہ تو تھا ایک پہلو ، دوسرا پہلو یہ ہے کہ قطعی جدائی سے پہلے ، ایک وقفہ کی ضرورت ہے ۔ معقول وقفہ ۔ اس وقفے میں فریقین جدائی کے بعد اپنے جذبات کو اچھی طرح آزمالیں ۔ ہوسکتا ہے کہ ان کے دل میں محبت کی کوئی چنگاری باقی ہو اور پھر محبت سلگ اٹھے ۔ ہوسکتا ہے کہ جذبات محبت میں پھر طلاطم برپا ہوجائے اور وہ ایک دوسرے سے آملیں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی سوچ جذبات ، کوتاہی یا کبر و غرور کے نیچے دب گئی ہو اور وقفے میں انہیں سوچ آجائے ۔ جب غصہ فرو ہوجائے ، جب طیش اترجائے ، جب نفس مطمئن ہوجائے اور وہ اسباب جو موجب فراق بن گئے تھے دب جائیں ، کچھ عقل کی باتیں سامنے آجائیں ، سوچ کی نئی راہیں کھل جائیں ۔ جب اسباب کو عظیم سمجھ کر فراق کا فیصلہ کرلیا گیا تھا وہ اس وقفے میں مومعمولی نظر آنے لگ جائیں اور فریقین میں از سر نو زندگی کا آغاز کرنے کا داعیہ پیدا ہوجائے ۔ یا اس عرصہ میں کسی اور حسن عمل اور حسن تدبیر سے حالات کا رخ بدل جائے ۔ اس لئے یہ بات نہایت ضروری تھی کہ ایک طلاق کے بعد متعلقہ تین ایام ماہواری یا ان کے پاک ہونے کا انتظار کرے ۔ اسلام میں طلاق مشروع ہے ۔ لیکن اللہ اور رسول کو سخت ناپسندیدہ بھی ہے ۔ یہ کاٹ دینے کا عمل ہے اور اسے صرف اس وقت اختیار کرنا چاہئے ، جب علاج کا کوئی طریقہ ، جوڑنے کا کوئی حربہ کام نہ آسکے ۔ (قرآن مجید میں دوسری جگہ تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے کہ طلاق واقع ہونے سے پہلے صلح وصفائی کے لئے سخت کوشش ہونی چاہئے ۔ نیز یہ بھی ہدایت ہے کہ طلاق ایسی حالت میں دینی چاہئے کہ عورت ایام ماہواری سے پاک ہوچکی ہو ، اور ابھی مرد نے اس کے ساتھ مباشرت نہ کی ہو ، محض اس لئے طلاق دینے یا یا طلاق کا آخری شکل دیتے وقت مرد کو سوچ بچار کی کافی مہلت ملے ۔ اگر حیض کی حالت ہے تو مرد طلاق دینے کے لئے طہر کا انتظار کرے گا۔

جہاں تک پہلی طلاق کا تعلق ہے ، یہ ایک تجربہ ہے ۔ اس تجربہ سے میاں بیوی دونوں یہ معلوم کرلیتے ہیں کہ ان کے جذبات اور احساسات کیا رخ اختیار کرتے ہیں ۔ اگر دوران عدت انہوں نے محسوس کرلیا کہ وہ ایک دوسرے کی رفاقت میں زندگی کا آغاز نئے سرے سے کرسکتے ہیں تو راستہ کھلا وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلاحًا ” ان کے شوہر تعلقات درست کرلینے پر آمادہ ہوں ۔ تو وہ اس عدت کے دوران پھر انہیں اپنی زوجیت میں واپس لینے کے حق دار ہیں ۔ “

فِي ذَلِكَیعنی اس میں ، اس سے مراد عدت کے دوران میں انتظار اور تربص کے زمانے میں ۔ بشرطیکہ تعلقات زوجیت کو نئے سرے سے اختیار کرنے کا اراہ ہو محض عورت کو اذیت دینا مقصود نہ ہو ، محض انتقام لینے کی خاطر اسے ایسی زندگی کی طرف لوٹانا مقصود نہ ہو ، جس میں کانٹے ہی کانٹے ہوں ۔ یا محض غرور کی خاطر یہ رجوع نہ ہو ۔ یا محض اس لئے نہ ہو کہ اگر میں نے رجوع نہ کیا تو اسے کوئی دوسرا خاوند نکاح میں لے لے گا ، جو میرے لئے شرم کی بات ہے : وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ” عورتوں کے لئے بھی معروف طریقے پر وہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں ۔ “ یعنی اس حالت میں مطلقات کے لئے ایسے حقوق ہیں جس طرح ان پر واجبات ہیں وہ مکلف ہیں کے دوران عدت میں اپنے آپ کو روکے ہوں ، ان کے رحموں میں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ خلق فرمایا ہے اسے چھپائیں نہیں ۔ خاوند کا فرض ہے کہ اگر وہ رجوع کرتا ہے تو خالص نیت سے ہو ، اس سے عورتوں کو تکلیف دینا مقصود نہ ہو ، نہ اذیت دینا ہو ، اس پر مزید یہ کہ دوران عدت نان ونفقہ کی بھی حق دار ہوں گی جیسا کہ عنقریب بیان ہوگا ۔ اس لئے کہ وہ ازروئے قانون کی رو سے ہوئی ہیں ۔ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ” البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے۔ “ اس درجہ سے مراد یہ ہے کہ مردوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوران عدت اگر چاہیں تو مطلقہ عورت کو دوبارہ اپنی زوجیت میں لوٹاسکتے ہیں۔ یہ حق اللہ تعالیٰ نے مرد کو اس لئے دیا ہے کہ طلاق کا حق مرد کا ہے ۔ بعض لوگوں نے اس فقرے سے یہ مفہوم لیا ہے کہ عمومی طور پر مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہے ۔ یہ حضرات اس سے مراد یہ نہیں لیتے کہ صرف مرد کو حق مراجعت حاصل ہے چانچہ وہ حق مراجعت عورت کو بھی دیتے ہیں کہ عورت کو بھی اختیار ہے کہ وہ واپس چلی آئے اور مرد کو اپنی زوجیت میں لے لے ، لیکن ان حضرات کا یہ استدلال نہایت ہی سقیم ، بےمحل اور بےموقع ہے ۔ یہ حق ، حق طلاق کے ساتھ وابستہ ہے اور صرف مرد ہی کو حاصل ہے ۔

اب آخری تبصرہ اور نتیجہ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ” اللہ سب پر غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم ودانا ہے۔ “ یعنی اللہ قوت اور اقتدار اعلیٰ کا مالک ہے ۔ لہٰذا وہ ہر قسم کا حکم نافذ کرنے کا مجا زہے ۔ اور پھر یہ کہ حکیم ودانا ہے ۔ اس کے احکام بھی حکیمانہ ہیں ۔ اس آخری تبصرے کا اثر یہ ہے کہہ مختلف وجوہات اور مختلف حالات سے متاثر ہوکر تم اللہ کے احکام سے منحرف نہ ہوجاؤ ، انہیں پس پشت نہ ڈال دو ۔

اب آنے والا حکم طلاقوں کی تعداد کی تحدید کے بارے میں ہے ۔ یہ کہ مطلقہ کو یہ حق ہے کہ وہ پورا مہر حاصل کرے ۔ یہ حرام ہے کہ وہ مرد طلاق کے وقت اس سے کچھ لے سکتا ہے ۔ ہاں ایک صورت ایسی ہے جس میں مرد کو حق ہے کہ وہ اگر چاہے تو واپس لے سکتا ہے ۔ اگر صورتحال یہ ہو کہ عورت کو مرد سے سخت نفرت ہو ، اور وہ اس کے ساتھ حدود الٰہی کی پابندی کرتے ہوئے زندگی گزارنے کے اہل نہ ہو ، خطرہ ہو کہ وہ کسی معصیت میں مبتلاہوجائے یعنی خلع کی وہ حالت جس میں عورت ، فدیہ کے بدلے اپنی آزادی خریدنا چاہتی ہو۔ اس صورت میں مرد کو حق ہے کہ وہ کچھ لے لے ۔

اردو ترجمہ

طلاق دو بار ہے پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے اور رخصت کر تے ہوئے ایسا کرنا تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو، اُس میں سے کچھ واپس لے لو البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے، تو اُن دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہو جانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کر لے یہ اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں، اِن سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کریں، وہی ظالم ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Alttalaqu marratani faimsakun bimaAAroofin aw tasreehun biihsanin wala yahillu lakum an takhuthoo mimma ataytumoohunna shayan illa an yakhafa alla yuqeema hudooda Allahi fain khiftum alla yuqeema hudooda Allahi fala junaha AAalayhima feema iftadat bihi tilka hudoodu Allahi fala taAAtadooha waman yataAAadda hudooda Allahi faolaika humu alththalimoona

وہ طلاق جن کے بعد ، فریقین ازدواجی زندگی کا آغاز کرسکتے ہیں دو ہیں ۔ اگر خاوند ان دو سے بھی آگے بڑھ جائے تو پھر ان کے درمیان زادواجی تعلقات صرف اس صورت میں قائم ہوسکتے ہیں ، جس کی تشریح اگلی آیات میں آرہی ہے ۔ یعنی یہ کہ پہلے وہ کسی دوسرے خاوند سے جدا ہوجائے ۔ صرف اس صورت میں پہلے خاوند کے لئے ، جس نے تین طلاقوں کا حق استعمال کرلیا تھا ، یہ جائز ہے کہ اس عورت سے دوبارنکاح کرے بشرطیکہ یہ عورت ازسر نو اس کے ساتھ نکاح کرنے پر راضی ہو۔

اس پابندی کے عائد ہونے کی وجہ کے بارے میں بعض روایات میں آتا ہے کہ اسلامی دور آغاز میں بھی (جاہلیت کی طرح) طلاقوں کی تعداد مقرر نہ تھی ۔ اور مرد کو یہ حق بھی حاصل تھا کہ وہ ہر طلاق کے دوران عدت رجوع کرسکے ۔ چناچہ بعض لوگ اسی طرح طلاق دیتے ، پھر رجوع کرتے اور یوں ہی یہ سلسلہ چلتا رہتا ۔ اسلامی دور میں انصار میں سے ایک صاحب کی اپنی بیوی کے ساتھ ان بن ہوگئی ، اس نے بیوی سے کہا اللہ کی قسم نہ میں تجھے اپنے قریب چھوڑوں گا اور نہ ہی تجھے اپنے سے جدا کروں گا ۔ اس نے کہا کیونکر ہوگا ؟ اس نے کہا میں تجھے طلاق دوں گا ، لیکن جب عدت کا وقت قریب آئے گا تو میں رجوع کرلوں گا ۔ وہ پریشان ہوئی اور اس نے رسول اللہ ﷺ سے یہ شکا یت کی ۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ وحی آئی الطَّلاقُ مَرَّتَانِ ” طلاقیں دو ہیں۔ “

اللہ نے اسلامی نظام کے نزول احکام میں حکیمانہ پالیسی اختیار کی جب بھی کسی حکم کی ضرورت پڑی ، حکم نزال کردیا گیا۔ اور اس طرح بتدریج پورے احکام نازل ہوگئے ۔ اور اسلامی زندگی کے اصول مکمل کرلئے گئے ۔ اب جو کام رہ گیا تھا وہ جزوی اور نئے حالات پر ان اصولی احکام کی تطبیق کا تھا کہ اصول کی روشنی میں جزئیات کے حل معلوم کئے جائیں۔

اس پابندی کے نتیجے میں طلاقوں کی تعداد محدود ہوگئی ۔ اب وہ سابقہ صورت حال باقی نہ رہی کہ خاوند مسلسل طلاق دیتا جائے اور اس کو بازیچہ اطفال بنادے ۔ اب طریق کار یہ ہوگیا کہ جب مرد عورت کو ایک مرتبہ طلاق دے دے تو وہ دوران عدت کسی قانونی پیچیدگی کے بغیر اپنی بیوی سے رجوع کرسکتا ہے ۔ اور اگر یوں ہی عدت گزرجائے تو عورت جدا ہوجائے گی جسے فقہ میں ” بائنہ “ کہتے ہیں ۔ اب بھی عدت کا عرصہ گزرجانے کے بعد وہ محض رجوع سے واپس نہیں لے سکتا ۔ بلکہ اسے ایک نئے نکاح کے ذریعہ ، اور ایک نیا مہر مقرر کرکے عورت کی رضا سے اسے واپس نکاح میں لانا ہوگا ۔ ایک طلاق کے بعد مرد عورت کو دوران عدت میں واپس لے لے ، رجوع کرکے یا عدت گزرنے کے بعد وہ نکاح تازہ کرلے اور جدید مہر کے ساتھ عورت کو واپس کرلے دونوں صورتیں جائز ہیں۔

اس کے بعد اگر دوسری مرتبہ یہ خاوند پھر اسے ایک طلاق دے دیتا ہے تو بھی اسے یہی حق حاصل ہوگا۔ یعنی دوران عدت میں رجوع اور بعد از عدت نکاح جدید ۔ لیکن اگر وہ تیسری مرتبہ طلاق دے دے تو اس صورت میں یہ عورت اس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہوجائے گی ۔ فقہی اصطلاح میں اسے عظیم جدائی (بینونت کبریٰ ) کہتے ہیں ۔ تیسری مرتبہ طلاق دیتے ہی عورت بائن ہوجائے گی یعنی جدا تصور ہوگی ۔ اب یہ مرد دوران عدت رجوع کا حق استعمال نہیں کرسکتا ، نہ وہ نکاح جدید کرسکتا ہے ۔ الایہ کہ اس عورت کا نکاح کسی دوسرے مرد سے ہوجائے اور یہ دوسرا خاوند اپنی ازدواج زندگی کے دوران اسے طلاق دے دے ، پھر رجوع نہ کرے یا یہ دوسرا خاوند بھی تین طلاقوں کا حق استعمال کرے اور عورت ہمیشہ کے لئے جدا ہوجائے تو پھر پہلے مرد کے لئے جائز ہے کہ وہ اس عورت کو اپنے نکاح میں لے لے ۔ لیکن یہ سب کام اپنی قدرتی رفتار سے ہونا چاہئے۔

پہلی طلاق ایک کسوٹی اور ایک معیار ہے جیسا کہ ہم اوپر کہہ آئے ہیں ۔ دوسری طلاق دوبارہ آزمائش اور ایک آخری تجربہ ہے ۔ دوسری طلاق کے بعد اگر زندگی کی گاڑی چل پڑے تو فبہا ورنہ تیسری طلاق اس بات کا بین ثبوت فراہم کردیتی ہے کہ زوجین کے درمیان طبائع اور مزاجوں کا اختلاف بہت ہی بنیادی نوعیت کا ہے اور ناقابل اصلاح ہے۔

بہرحال طلاق بھی ایک آخری علاج ہے ۔ کوششوں کے بعد بھی اگر فریقین کے درمیان مصالحت کا کوئی امکان نہ رہے تو پھر یہی بہتر ہے کہ دائمی جدائی ہوجائے ۔ اگر دوطلاقیں ہوجائیں تو پھر بیوی کو یا تو معروف طریقے سے رکھنا ہے اور نرمی و محبت کا نئے سرے سے آغاز کرنا ہے اور پا پھر بھلے انداز میں حسن و خوبی کے ساتھ ، احسان کے ساتھ ، شرافت کے ساتھ اس کو رخصت کردینا ہے ، یعنی تیسری مرتبہ طلاق دے کر ، جس کے بعد عورت کو پھر زندگی کی نئی لائن اختیار کرنی ہوتی ہے ۔ یہ ہے حقیقت پسندانہ قانون سازی ، جو انسان کے حقیقی واخلاقی زندگی کو سامنے رکھ کر کی گئی ہے ۔ اور جو عائلی زندگی کے پیچیدہ مسائل کا بہترین اور عملی (Paractical) حل پیش کرتی ہے ۔ اس قانون سازی میں ایسی شدت بھی نہیں ہے جو مفید نہ ہو ، انسان کو ایسے اخلاقی نظام میں ڈھالنے کی کوشش نہیں کرتی جو اس کی جبلت سے متصادم ہو ، نہ یہ قانون سازی انسان اور اس کی قوتوں کو مہمل چھوڑنے پر اصرار کرتی ہے ، اگر یہ اسے یوں ہی چھوڑدیتے ہیں کوئی فائدہ نہ ہو۔

ازدواجی زندگی کے دوران مرد نے عورت کو جو مہر دیا ہے ، یا اس پر مختلف قسم کے جو اخراجات کئے ہیں ، مرد کے لئے جائز نہیں ہے کہ تیسری مرتبہ طلاق کے بعد ، وہ اس سے کوئی چیز واپس لینے کا حق دار بن جاتا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ عورت کو ذاتی اسباب کی بناپر ذاتی جذبات اور بمقتضائے طبیعت مرد ناپسند ہو اور عورت یہ محسوس کرتی ہو کہ اس نفرت اور کراہت کی وجہ سے وہ اس خاوند کے ساتھ حدودالٰہی کی پابندی کرتے ہوئے زندگی بسر نہیں کرسکتی ۔ وہ اس قابل نہیں ہے کہ اس کے ساتھ حسن معاشرت سے پیش آئے ۔ اس کے ادب کا خیال رکھے یا اس کی عزت وآبرو بچائے اور عفیفانہ زندگی بسر کرسکے تو ایسے حالات میں عورت کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ مرد سے طلاق طلب کرے ۔ اس صورت میں یہ عورت چونکہ محض ذاتی وجوہات کی بناپر اس مرد کے جذبات مجروح کرتی ہے اور اس کے خاندان اور گھر کو خراب کررہی ہے ۔ اور اس میں بیچارے مرد کا کوئی ذاتی قصور نہیں ہے ۔ اس لئے اس عورت کا فرض ہے وہ مہر واپس کردے ۔ یہ محض اس لئے کہ عورت اللہ کی معصیت سے بچے ، اس کی حدود توڑنے کا موقع اسے نہ ملے ، اور نہ اپنے نفس پر اور نہ دوسروں پر مصیبت لانے کے مواقع پیدا ہوں۔

یہ ہے اسلامی نظام زندگی ، جس میں لوگوں کو پیش آنے والے تمام واقعی حالات زندگی کی رعایت کی گئی ہے ۔ اس میں انسانی جذبات اور فطری پسند وناپسند کا بھی خاطر خواہ لحاظ رکھا گیا ہے ، جن پر خود انسان کو کنٹرول نہ ہو ، بیوی کو بھی مجبور نہیں کیا گیا کہ وہ اپنی پوری زندگی ایک ایسے شخص کے ساتھ بسر کردے جسے وہ پسند ہی نہیں کرتی ، اس سے طبعاً متنفر ہے ، اور ساتھ ہی مرد کے حقوق کو بھی نظر انداز نہیں کرتی ۔ جس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے ۔ اس طبعی نفرت اور مزاج کی ناہمواری کے پیدا کرنے میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے ۔

اس آیت کی اہمیت اور اس کے دوررس نتائج تک پہنچنے کے لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم قارئین کے سامنے وہ واقعی حالات بھی رکھ دیں جن حالات کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بنایا اور اسے نافذ کیا گیا۔ ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے اس ربانی نظام زندگی میں کس حقیقت پسندی ، کس دقت نظری ، کس میانہ روی اور عدل و انصاف کے کس اونچے معیار کو پیش نظررکھا گیا ہے ۔

امام مالک (رح) نے اپنی مشہور کتاب مؤطا میں روایت کی ہے کہ حبیبہ بنت سہل انصاری ، ثابت ابن قیس ابن شماس کی بیوی تھیں ۔ رسول اللہ ﷺ صبح اندھیرے منہ گھر سے باہر نکلے تو دیکھا کہ صبح کی تاریکی میں حبیبہ کھڑی ہیں ۔ رسول ﷺ نے فرمایا کون ہوسکتی ہیں یہ ؟ کہنے لگی میں حبیبہ بنت سہیل ہوں جناب ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! ایسے وقت میں کیسے ؟ کہنے لگی اللہ کے رسول ﷺ میں کسی صورت میں بھی ثابت ابن قیس کے ساتھ نہیں رہ سکتی ۔

اس کے بعد ثابت بن قیس بلائے گئے تو رسول ﷺ نے فرمایا ! ثابت ، یہ حبیبہ ہے اس نے میرے سامنے تمہارے بارے میں وہ باتیں کی ہیں جو اللہ کو منظور ہوں گی۔

اس پر حبیبہ نے کہا اللہ کے رسول ﷺ ” اس نے مجھے جو کچھ دیا ہے وہ میرے پاس محفوظ ہے۔ “

اس پر رسول ﷺ نے ثابت سے کہا اس سے لے لو چناچہ اس نے وہ سب کچھ لے لیا اور حبیبہ اپنے اہل خاندان کے پاس چلی گئی۔

امام بخاری (رح) نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ ثابت ابن قیس ابن شماس کی بیوی رسول ﷺ کے پاس آئیں ۔ کہنے لگیں میں اس کسی بےدینی وبداخلاقی کا الزام نہیں لگاتی ۔ لیکن میں نہیں چاہتی کہ ہم مسلمان ہوکر کفر کا ارتکاب کریں۔

رسول ﷺ نے فرمایا !” کیا تم اس باغ کو واپس کردو گی جو اس نے تمہیں (بطورمہر) دیا ہے ؟ “

اس نے کہا :” ہاں “ رسول ﷺ نے فرمایا :” ثابت ! اپنا باغ واپس لے لو اور اسے ایک طلاق دے دو ۔ “

ایک دوسری روایت میں ذرا زیادہ تفصیل آئی ہے ۔ ابن جریر (رح) نے نقل کیا ہے کہ ابوجریر (رح) نے عکرمہ (رح) سے دریافت کیا : کیا خلع کی کوئی شرعی حقیقت ہے ؟ عکرمہ (رح) نے جواب دیا حضرت ابن عباس ؓ کہا کرتے تھے اسلام میں پہلا خلع عبداللہ ابن ابی کی بہن کا ہوا۔ وہ رسول ﷺ کے پاس آئیں اور کہا : اللہ کے رسول ﷺ ، میرا سر اس چیز کے سر کے ساتھ ہرگز جمع نہیں ہوسکتا ۔ میں نے پردے کا ایک کونا اٹھایا اور اسے چند آدمیوں کے درمیان آتے ہوئے دیکھا۔ وہ سب میں سیاہ رنگ تھا ، سب میں کوتاہ قد اور سب میں قبیح صورت تھا۔ “

اس پر اس کے خاوند نے کہا :” رسول ﷺ میں نے تو اسے بہترین جائیداد عطا کردی ہے ۔ ایک ہی باغ تھا میرا جو میں نے اسے دے دیا ہے کیا وہ میرا باغ واپس کردے گی ؟ “

رسول ﷺ نے عورت سے دریافت کیا تمہاری رائے کیا ہے ؟ اس نے کہا : ہاں اگر وہ چاہتا ہے تو میں اسے واپس کردوں گا۔” ابن عباس کہتے ہیں :” اس پر رسول ﷺ نے دونوں کے درمیان تفریق کرادی۔ “

ان تمام روایات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیا نفسیاتی صورت حال تھی ، جو رسول ﷺ کے سامنے آئی۔ رسول ﷺ نے اس صورتحال کو اس طرح قبول کرلیا کہ یہ کیس ناقابل علاج ہے ۔ تشدد اور سختی سے اس کا علاج ممکن نہیں ہے اور نہ اس میں ازدواجی زندگی میں کوئی مفید مثال قائم ہوسکتی ہے ۔ کہ عورت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایسی تلخ معاشرت پر مجبور کرکے رکھ دیا جائے۔ اس لئے رسول ﷺ نے اس صورت حال کا اصل اسلامی نظام زندگی کے مطابق ، اسلامی منہاج کے مطابق ، پیش کردیا جو بےحد عملی ہے ۔ واضح ہے ۔ حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہو ، کہ اس نفس کے اندر کیا جذبات کام کررہے ہیں ۔ کیا رجحانات ہیں ۔

پھر ایسی تمام صورتوں میں سنجیدہ طرز عمل یا طفلانہ طرزعمل ، اور سچائی کی راہ یا فریب کاری کی راہ اختیار کرنے کے لئے واحد نگراں صرف اللہ خوفی اور اس کی پکڑ کا ڈر ہی ہوسکتا تھا ، اس لئے ان احکام کے خاتمہ پر تنبیہ کردی گئی کہ یہ ہیں اللہ کی حدود ۔ ان سے تجاوز مت کرنا۔

تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ” یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو اور جو حدود الٰہی سے تجاوز کریں ، وہی ظالم ہیں۔ “

یہاں تھوڑی دیر کے لئے رکیے ! یہاں ہمارے سامنے قرآن مجید نے ایک ہی مضمون کو مختلف حالات میں مختلف انداز میں بیان کیا ہے ۔ مضمون ایک ، حالات مختلف ، اس لئے انداز بیان اور ۔

اس صورت میں روزے پر بحث کرتے ہوئے آخر میں یہ تنبیہ فرمائی گئی تھی تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَقْرَبُوهَا ” یہ اللہ کی حدیں ہیں ، ان کے قریب مت پھٹکو اور یہاں یہ کہا گیا ہے ۔ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَعْتَدُوهَا ” یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ان سے تجاوز نہ کرو۔ “ سوال یہ ہے کہ انداز میں یہ اختلاف کیوں ہے ؟

حقیقت یہ ہے کہ سابقہ مقام ایسا تھا ، جس میں اللہ تعالیٰ نے ایسی چیزوں سے روکا تھا ، جو طبعاً سخت ناپسندیدہ ہیں بلکہ ایک مادہ پرست کے لئے خلاصہ حیات ہیں وہاں فرمایا گیا تھا :

” تمہارے لئے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کردیا ہے ۔ وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو۔ اللہ کو معلوم ہوگیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کررہے تھے ۔ مگر اس نے تمہارا قصور معاف کردیا اور تم سے درگزر فرمایا۔ اب تم اپنی بیویوں کے ساتھ شب باشی کرو اور جو لطف اللہ نے تمہارے لئے جائز کردیا ہے اسے حاصل کرو ۔ نیز راتوں کو کھاؤ پیو یہاں تک کہ تم کو سیاہی شب کی دھاری سے سپیدہ صبح کی دھاری سے نمایاں نظر آجائے۔ تب یہ سب کام چھوڑ کر اپنا روزہ پورا کرو اور جب تم مسجدوں میں معتکف ہو تو بیوی سے مباشرت نہ کرو ۔ یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں ، ان کے قریب نہ پھٹکنا ۔ “ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَقْرَبُوهَا

ان آیات میں جن چیزوں کی ممانعت کردی گئی ہے ، وہ سب ایسی ہیں کہ انسان ازروئے طبیعت انہیں بےحد چاہتا ہے ۔ اس لئے یہاں حکم دیا گیا کہ ان کے قریب نہ پھٹکنا ، قریب ہی نہ ہونا ، انسان ضعیف ہے ، ہوسکتا ہے کہ ان چیزوں کی جاذبیت کا مقابلہ نہ کرسکے اور ان میں مبتلا ہوجائے ، ان کے پھندے میں بس کہیں پھنس ہی نہ جائے ۔

اب یہاں سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی چیزوں سے منع کیا گیا ہے جو بذات خود ناپسندیدہ ہیں ۔ گھریلو اختلافات ، جھگڑے بذات خود ناپسندیدہ ہیں ۔ یہاں خطرہ اس بات کا نہیں ہے کہ کوئی لڑائی جھگڑے کا شوق کرے ، بلکہ خطرہ اس بات کا ہے کہ بامر مجبوری اگر کوئی مبتلا ہو ہی جائے تو اس میں حدود سے تجاوز نہ کرے ۔ معقول حدود میں رہے ، حدیں توڑ ہی نہ دے۔ اس لئے یہاں حکم یہ نہیں دیا گیا کہ قریب ہی مت جاؤ بلکہ یہ حکم دیا گیا کہ حدود سے آگے نہ بڑھو۔ انداز بیان میں یہ لطیف فرق اس لئے ہوا ہے کہ موقع ومحل میں اختلاف ہے ۔ دونوں مواقع ومحل کے اس قدر لطیف فرق میں بالکل جدا ہیں ۔ یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ وہ موقع ومحل کے اس قدر لطیف فرق میں بھی انداز بیان مختلف اختیار کرتا ہے۔

احکام طلاق کا سلسلہ جاری ہے ۔ چلتے جائیے :

اردو ترجمہ

پھر اگر (دو بارہ طلاق دینے کے بعد شوہر نے عورت کو تیسری بار) طلاق دے دی تو وہ عورت پھر اس کے لیے حلال نہ ہوگی، الّا یہ کہ اس کا نکاح کسی دوسرے شخص سے ہو اور وہ اسے طلاق دیدے تب اگر پہلا شوہر اور یہ عورت دونوں یہ خیال کریں کہ حدود الٰہی پر قائم رہیں گے، تو ان کے لیے ایک دوسرے کی طرف رجو ع کر لینے میں کوئی مضائقہ نہیں یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، جنہیں وہ اُن لوگوں کی ہدایت کے لیے واضح کر رہا ہے، جو (اس کی حدود کو توڑنے کا انجام) جانتے ہیں

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Fain tallaqaha fala tahillu lahu min baAAdu hatta tankiha zawjan ghayrahu fain tallaqaha fala junaha AAalayhima an yatarajaAAa in thanna an yuqeema hudooda Allahi watilka hudoodu Allahi yubayyinuha liqawmin yaAAlamoona

جیسا کہ ہم اوپر کہہ آئے ہیں ، تیسری بار طلاق اس بات کی دلیل ہے کہ میاں بیوی کے یہاں بنیادی اختلاف موجود ہے ۔ اس قدر گہرا کہ اصلاح کی کوئی سبیل نہیں ہے ۔ تو اس صورت میں مناسب یہی ہے کہ میاں بیوی کو ہمیشہ کے لئے جدا کردیا جائے اور ہر ایک کو آزاد کردیا جائے کہ وہ اپنے لئے جدید رفیق حیات تلاش کریں اور ازسر نو عائلی زندگی کا آغاز کریں۔ اور اگر خاوند محض ژاوہ گوئی ، جلد بازی اور کبر و غرور کی وجہ سے یہ طلاقیں دے رہا ہو تو پھر بھی تیسری طلاق دینے کو نافذ کردیا گیا ہے ۔ اس لئے کہ اس نازک معاملے میں ژاوہ گوئی کے لئے بھی کوئی حد ہونی چاہئے ۔ اس لئے طلاق کی گنجائش اس لئے نہیں رکھی گئی کہ اسے مذاق بنادیا جائے ۔ یہ تو اس لئے مقرر ہوئی ہے کہ بعض قابل علاج اور ناقابل اصلاح کیسوں میں اسے استعمال کرنا چاہئے ۔ اس لئے ایسے جوڑے کو بھی علیحدہ کردینا چاہئے جس کے دل میں اس مقدس عقد کا کوئی احترام اور اس کا تقدس نہیں ہے ۔ اور خاوند بار بار طلاق کو استعمال کررہا ہے اور اس معاملے میں کوئی احتیاط نہیں کرتا۔

یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ ایک غیر ذمہ دار خاوند کی جانب سے لفظ طلاق کے نتیجے میں ایک بےگناہ عورت کا امن و سکون کیوں تباہ کیا جاتا ہے ۔ اس کی زندگی کو کیوں خطرے میں ڈالا جارہا ہے ؟ جواب یہ ہے کہ انسانی معاشرے میں فی الحقیقت ایسے واقعات سے دوچار ہوتے ہیں ، جن کا علاج ضروری ہوتا ہے ، ایسے قضیے ہوتے ہیں جن کا فیصلہ ضروری ہے ، قانون سازی ضروری ہے ۔ اگر ہم یہ علاج نہ کریں جو قرآن کریم نے بتایا جو قرآن کریم نے بتایا ، اس قانون پر فیصلہ نہ کریں جو اللہ نے دیا ہے تو بتائیے کیا کریں ۔ کیا ہم اس عورت کو اس مرد پر ٹھونس دیں لو یہ تمہاری بیوی ہے ، تم چاہو نہ چاہو ، یہ تمہاری بیوی ہے ۔ تم سو بار طلاق دو ہم تمہاری طلاق کو تسلیم نہیں کرتے ۔ تمہاری طلاق بےاثر ہے ، حالانکہ اس شخص کے دل میں بیوی کا کوئی احترام نہیں ہے ۔ اس کے ذرہ بھر محبت نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک عورت کے لئے اس سے بڑی اہانت اور کیا ہوسکتی ہے ؟ ازدواجی تعلقات کی اس سے زیادہ اور تذلیل کیا ہوسکتی ہے ؟ اسلام میں عورت کا احترام ضروری ہے ۔ مردوزن کے باہمی تعلقات کو اسلام مقدس رشتہ سمجھتا ہے ۔ اس رشتے کو محض رشتہ تلذز ہی نہیں سمجھتا بلکہ اسے فریضہ حیات اور اللہ کی عبادت اور بندگی کا درجہ دیتا ہے۔ وہ خاوند جو طلاق کو ایک مذاق بنا دیتا ہے تو اگر اس نے ایک طلاق دی ہے یا دوسری طلاق دی ہے اور قبل از رجوع عورت بائن ہوگئی ہے ، جدا ہوگئی ہے تو اس کی سزا یہ ہے کہ اگر وہ دوبارہ نکاح کرنا چاہتا ہے تو اس عورت کو دوبارہ راضی کرے گا ۔ نکاح ہوگا اور اسے مہر ادا کرنا ہوگا۔ اور اگر وہ تیسری طلاق دیتا ہے تو پھر اس کی یہ سزا ہے کہ وہ عورت اس پر حرام ہوگئی ہے مکمل حرام اگرچہ اب یہ پشیمان ہوجائے ۔ اب اس عورت کی دوسری شادی اور اس میں بھی ناکامی سے قبل یہ اس کے ساتھ نکاح نہیں کرسکتا ۔ مزید یہ کہ مہر بھی اسے دینا پڑے گا اور جو کچھ عورت کو دیا ہے اس کی واپسی سے بھی یہ محروم ہوگا۔ ہر حال میں اسے دوران عدت نفقہ بھی ادا کرنا ہوگا۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم انسانی نفسیات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں ۔ انسان کی زندگی کے عملی پہلوؤں پر غور کریں ۔ ہمیں ایسی تخیلاتی دنیا میں نہیں ٹھہرنا چاہئے چاہے جس کا عملی وجود ، اس کرہ ارض پر نہ ہو ، انسان کی عملی زندگی میں وہ خیالی تصور قابل عمل نہ ہو۔

اب اگر یہ عورت تیسری طلاق کے بعد ، جیسا کہ قدرتی طور پر ہوتا ہے ، دوسرے خاوند سے شادی کرلیتی ہے اور یہ دوسرا خاوند بھی اتفاقًا اس عورت کو طلاق دے دیتا ہے ، تو پھر یہ بیوی اور اس کا پہلا خاوند اگر چاہیں تو دوبارہ معاہدہ نکاح کرسکتے ہیں ، اب ان کے لئے کوئی ممانعت نہیں ہے ۔ صرف یہ شرط ہے (قانونی نہیں ) اخلاقی اور ایمانی شرط ہے۔

إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ” اگر ان دونوں کا خیال یہ ہو کہ وہ حدود الٰہی پر قائم رہ سکیں گے۔ “ اور ویسا معاملہ نہ ہوگا جس طرح پہلے ہوا۔ کیونکہ اسلام میں رشتہ نکاح محض خواہش نفس کی پیروی کا نام نہیں ہے۔ یہ محض داعیہ شہوت کی تشفی کے لئے کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ اور اسلامی معاشرہ میں میاں بیوی کو اس آزاد نہیں چھوڑدیا گیا کہ بس وہ آزاد شہوت رانی کریں ، جب چاہیں نکاح کرلیں ، جب چاہیں ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں ۔ ان کو حدود الٰہی کی پابندی کرنی ہوگی ۔ اسلام کا نظام ازدواج تو حیات انسانی کی شیرازہ بندی ہے ، زندگی کے لئے ایک فریم ہے ۔ اگر زندگی اس فریم سے باہر نکل آئے تو وہ زندگی اللہ کو مطلوب نہیں ہے۔ وہ اللہ کو پسند نہیں ہے۔

وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ” یہ اللہ کی مقررکردہ حدیں ہیں جنہیں وہ ان لوگوں کی ہدایت کے لئے واضح کررہا ہے ۔ جو (اس کی حدوں کو توڑنے کا انجام ) جانتے ہیں۔ “

اپنے بندوں پر اللہ کی یہ عظیم رحمت ہے کہ اس نے اپنی حدیں کھول کر بیان فرمادی ہیں ۔ ان میں کوئی شبہ اور کوئی پیچیدگی نہیں چھوڑی گئی ۔ ان سب کو واضح کردیا گیا ہے لیکن ان لوگوں کے لئے جو جانتے ہیں ، جو قدر کرتے ہیں جو لوگ ان حدوں کو صحیح طرح جانتے ہیں وہ ان حدود پر جاکر رک جاتے ہیں ۔ اگر وہ ان حدود کو پار کرجائیں تو آگے قابل مذمت جاہلی دنیا ہے ۔ اور اندھی جاہلیت ہے ۔

اب ان مردو کو ہدایات دی جارہی ہیں جو طلاق کا حق استعمال کرتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ تم مطلقہ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ شریفانہ رویہ اختیارکرو اور طلاق کے متصلاً بعد کے تلخ دور میں بھی معروف طریقے کے مطابق حسن سلوک کا رویہ اختیار کرو

36