سورۃ البقرہ: آیت 221 - ولا تنكحوا المشركات حتى يؤمن... - اردو

آیت 221 کی تفسیر, سورۃ البقرہ

وَلَا تَنكِحُوا۟ ٱلْمُشْرِكَٰتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنكِحُوا۟ ٱلْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا۟ ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ۗ أُو۟لَٰٓئِكَ يَدْعُونَ إِلَى ٱلنَّارِ ۖ وَٱللَّهُ يَدْعُوٓا۟ إِلَى ٱلْجَنَّةِ وَٱلْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِۦ ۖ وَيُبَيِّنُ ءَايَٰتِهِۦ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ

اردو ترجمہ

تم مشرک عورتوں سے ہرگز نکاح نہ کرنا، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ایک مومن لونڈی مشرک شریف زادی سے بہتر ہے، اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو اور اپنی عورتوں کے نکاح مشرک مردوں سے کبھی نہ کرنا، جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ایک مومن غلام مشرک شریف سے بہتر ہے اگرچہ وہ تمہیں بہت پسند ہو یہ لوگ تمہیں آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے اذن سے تم کو جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور وہ اپنے احکام واضح طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے، توقع ہے کہ وہ سبق لیں گے اور نصیحت قبول کریں گے

انگریزی ٹرانسلیٹریشن

Wala tankihoo almushrikati hatta yuminna walaamatun muminatun khayrun min mushrikatin walaw aAAjabatkum wala tunkihoo almushrikeena hatta yuminoo walaAAabdun muminun khayrun min mushrikin walaw aAAjabakum olaika yadAAoona ila alnnari waAllahu yadAAoo ila aljannati waalmaghfirati biithnihi wayubayyinu ayatihi lilnnasi laAAallahum yatathakkaroona

آیت 221 کی تفسیر

درس 15 ایک نظر میں

یہ سبق گویا عائلی قوانین پر مشتمل ایک ضابطہ ہے ۔ اس میں خاندانی نظام کی شیرازہ بندی کی گئی ہے ۔ خاندان تحریک اسلامی کی تنظیم کی اساس ہے ۔ خشت اول ہے ۔ اس اساس کو اسلام نے ہر پہلو سے مضبوط کیا ہے ۔ اس پر بےحد توجہ دی گئی ہے ۔ اسے بڑی تفصیل سے منظم کیا ہے ۔ اسے ہر طرح سے بچاکررکھا گیا ہے۔ اسے دور جاہلیت کی انارکی سے پاک کیا گیا ہے ۔ اس سلسلے میں اتنی کوشش کی گئی ہے کہ قرآن مجید کی مختلف سورتوں میں جگہ جگہ اس سلسلے میں ہدایات دی گئی ہیں اور ان میں وہ تمام بنیادیں فراہم کردی گئی ہیں جو تحریک اسلامی کی تنظیم کے ابتدائی حلقے کی تنظیم اور تعمیر کے لئے ضروری تھیں ۔

اسلام کا اجتماعی نظام ایک قسم کا خاندانی نظام ہے ۔ اس کی اساس خاندان پر ہے ۔ اس لئے کہ انسان کے لئے اس کے رب کا تجویز کردہ نظام ہے ۔ اس میں انسان کی فطرت کی تمام ضروریات ، تمام خصوصیات اور تمام بنیادی باتوں کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔

خاندانی نظام کی جڑیں ابتداً تخلیق تک جاپہنچتی ہیں ۔ اس کی کونپلیں شاخ فطرت سے پھوٹتی ہیں ۔ انسان بلکہ تمام حیوانات کی تخلیق ہی خاندانی نظام پر ہے ۔ قرآن مجید سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ” اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں ۔ شاید کے تم اس سے سبق لو۔ “

ایک دوسری آیت میں فرماتے ہیں سُبْحَانَ الَّذِي خَلَقَ الأزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْبِتُ الأرْضُ وَمِنْ أَنْفُسِهِمْ وَمِمَّا لا يَعْلَمُونَ ” پاک ہے وہ ذات جس نے تمام جوڑوں کو پیدا کیا ، ان تمام چیزوں سے سے جو زمین اگاتی ہے ۔ انسانی نفوس سے اور ان تمام دوسری چیزوں سے جو وہ نہیں جانتے۔ “

اب انسان کا مزید نقطہ نظر سے جائزہ لیا جاتا ہے اور اسے وہ پہلا انسان یاد دلایا جاتا ہے جس کے واسطہ سے یہاں انسانوں کی بستی کا آغاز ہوا ۔ پہلی انسانی آبادی ایک جوڑا تھا ۔ پھر اس کی اولاد پیداہوئی ، پھر اس سے انسانیت اور انسانی آبادی پھیل گئی ۔ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ” لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلادیئے۔ اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو ، اور رشتہ وقربت کے تعلقات بگاڑنے سے پرہیز کرو ۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے ۔ “

دوسری جگہ ہے يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ” لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنادیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ “

پھر بتایا جاتا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان ایک فطری جاذبیت ہے ۔ اس لئے نہیں کہ مرد و عورت علی الاطلاق اکٹھے ہوں ، بلکہ ان کے درمیان انس و محبت کا نتیجہ پیدا ہونا چاہئے کہ وہ خاندان کی بنیاد ڈالیں اور گھرانے تعمیر ہوں : وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً ” اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ “ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُم وَاَنتُم لِبَاسٌ لَّھُنَّ ” وہ تمہارے لئے لباس ہیں اور تم ان کے لئے لباس ہو۔ “ نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لأنْفُسِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ” تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں تمہیں اختیار ہے ۔ جس طرح چاہو اپنی کھیتی میں جاؤمگر اپنے مستقبل کی فکر کرو اور اللہ کی ناراضگی سے بچو ۔ خوب جان لو کہ تمہیں ایک دن اس سے ملنا ہے ۔ “ واللّٰہ جعل لکم من بیوتکم سکنا ” حقیقت ہے کہ اللہ نے تمہارے گھروں کو تمہارے لئے جائے سکون بنایا ہے۔ “

یہ فطرت ہے کہ جو اپنا کام کرتی ہے اور یہ خاندان ہی ہے جو ابتدائی تخلیق اور پھر انسان کی تعمیر وتربیت میں فطرت عمیق مقاصد کی بجا آوری کے لئے لبیک کہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی نظام زندگی میں خاندانی نظام ایک فطری اور طبعی نظام ہے جس کا سر چشمہ انسان کی تخلیق کے آغاز سے پھوٹا ہے ۔ (آدم وحوا سے ) اگر گہرامطالعہ کیا جائے تو کائنات کی تمام اشیاء کا آغاز تخلیق بھی اسی نظام کے مطابق ہوا ہے ۔ اس طرح اسلام نے فطرت کے منہاج کو اپنایا ہے ، جس طرح اس کائنات کی دوسری اشیاء کی تخلیق خاندانی نظام کے اسلوب پر ہوتی ہے ۔ اسی طرح نظام کی اساس بھی خاندان کو قرار دیا گیا کیونکہ انسان بھی بہرحال اس کائنات کا ایک جزء ہے ۔

خاندان دراصل ایک قدرتی نرسری ہے ۔ جہاں چھوٹے بچوں کی صحیح دیکھ بھال اور تربیت ہوسکتی ہے ۔ صرف اس نرسری میں وہ صحیح طرح روحانی ، عقلی اور جسمانی نشوونما پاسکتے ہیں ۔ خاندان کے سایہ میں بچے میں محبت ، شفقت اور اجتماعی ذمہ داری (Reciprocal Responsibility) کا شعور پیدا ہوتا ہے ۔ اور اس نرسری میں اس پر جو رنگ چڑھتا ہے ، وہ پوری زندگی میں قائم رہتا ہے۔ بچے کو خاندان کی نرسری میں جو سبق ملتا ہے اسی کی روشنی میں وہ زندگی ۔ عملی زندگی کے لئے آنکھیں کھولتا ہے ، اسی کی روشنی میں وہ حقائق حیات کی تشریح کرتا ہے اور اسی کی روشنی میں زندگی میں عمل پیرا ہوتا ہے۔

تمام زندہ مخلوقات میں طفل آدم کی طفولیت سب سے طویل ہوتی ہے ۔ تمام زندہ چیزوں سے زیادہ ۔ وجہ یہ ہے کہ ہر زندہ ذی روح کا عہد طفولیت دراصل باقی زندگی کے لئے تیاری ، تربیت اور ٹریننگ کا زمانہ ہوتا ہے ۔ اس میں بچے کو اس رول کے لئے تیار کیا جاتا ہے جو اس نے باقی زندگی میں ادا کرنا ہوتا ہے ۔ چونکہ دنیا میں انسان نے جو فرائض سر انجام دینے ہیں وہ عظیم فرائض ہیں ۔ جو رول زمین پر انسان نے ادا کرنا ہوتا ہے وہ ایک عظیم رول ہے ، اس لئے اس کا عہد طفولیت بھی نسبتاً لمبا رکھا گیا ہے تاکہ اسے مستقبل کی ذمہ داریوں کے لئے بطریق احسن تیار کیا جاسکے اور اسے اچھی طرح ٹریننگ دی جاسکے ۔ اس لئے دوسرے حیوانات کے مقابلے میں وہ والدین کے ساتھ رہنے کے لئے زیادہ محتاج ہے لہٰذا ایک پرسکون خاندانی ماحول ، مستقل خاندانی نرسری انسانی نظام زندگی کے لئے لازمی ہے۔ انسانی فطرت کے زیادہ قریب اور اس کی تشکیل اور نشوونما اور اس کی زندگی میں اس کے کردار کے لئے موزوں تر ہے۔

دور جدید کے تجربات نے اس بات کو یقین تک پہنچادیا ہے کہ خاندانی گہوارے کے مقابلے میں لوگوں نے بچوں کی نگہداشت کے جو انتظامات بھی کئے وہ سب کے سب ناقص رہے اور وہ خاندان کے نعم البدل ثابت نہیں ہوسکے ۔ بلکہ ان انتظامات میں سے کوئی انتظام بھی ایسا نہیں ہے جس میں بچے کی نشوونما کے لئے مضر پہلو نہ ہوں یا جس میں اس کی معیاری تربیت ممکن ہوسکے ۔ خصوصاً اجتماعی نرسری کا وہ نظام جسے دور جدید کے بعض مصنوعی اور جابرانہ نظام ہائے حیات نے محض اس لئے قائم کیا کہ وہ اللہ کے قائم کردہ مضبوط فطری اور صالح خاندانی نظام کی جگہ لے سکے ۔ محض اس لئے کہ یہ لوگ دین کی دشمنی میں مبتلا ہوگئے اور دین پر اندھا دھند حملے کرکے اس کی ہر چیز کے خلاف ہوگئے۔ اس لئے خاندانی نظام کو جبراً ختم کرکے اس کی جگہ بچوں کے لئے نرسریاں قائم کردیں۔ اگرچہ بعض اوقات ایسی نرسریاں حکومت کے تحت بھی قائم ہوئیں مثلاً دینی حدود وقیود سے آزاد مغربی ممالک نے ماضی قریب میں جو وحشیانہ جنگیں لڑیں ۔ وہ سب کے سامنے ہیں ۔ ان جنگوں میں وحشیوں نے لڑنے والوں اور پر امن شہریوں میں کوئی تمیز نہ کی ، اس کے نتیجے میں لاتعداد لاوارث بچے ماں باپ کے سایہ کے بغیر رہ گئے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ کی بعض حکومتیں ان بچوں کے لئے اجتماعی نرسریاں قائم کرنے پر مجبور ہوگئیں۔ علاوہ ازیں مغرب کے جاہلی تصور حیات کے نتیجہ میں وہاں کے انسان کے لئے مناسب اجتماعی اور اقتصادی نظام کے مقابلے میں بدشکل اقتصادی اور معاشرتی نظام وجود میں آیا اور جس میں نوزائیدہ بچوں کی مائیں اس پر مجبور ہوگئیں کہ وہ اپنے لئے خود کمائیں اور مجبوراً بتقاضائے ضروریات بچوں کی اجتماعی نرسریاں وجود میں آئیں ۔ یہ نظام نہ تھا بلکہ ایک لعنت تھی ۔ اس نے بچوں کو ماؤں کی مامتا اور خاندان کے زیرسایہ ان کی تربیت سے محروم کردیا ، بیماروں کو نرسری میں پھینک دیا گیا ، نرسری کا نظام بچوں کی فطرت اور ان کے نفسیاتی ساخت سے متصادم تھا اس لئے نتیجہ یہ نکلا کہ اس قسم کے بچے ذہنی الجھنوں کا شکار ہوگئے اور انہیں بیشمار نفسیاتی پریشانیاں لاحق ہوگئیں۔

تعجب انگیز بات یہ ہے کہ ہمارے بعض معاصرین ان حقائق کے باوجود اس بات پر زور دیتے ہیں کہ عورت کے لئے ملازمت کا اختیار کرنا ترقی اور آزادی کی علامت ہے ۔ اور اس بات کا ثبوت ہے معاشرہ رجعت پسندی سے آزاد ہوگیا ہے۔ آپ نے دیکھا ! ان لوگوں کے نزدیک آزادی اور ترقی اس لعنت کا نام ہے جس کی وجہ سے اس دنیا میں انسان کی سب سے قیمتی ذخیرہ یعنی بچوں کی نفسیاتی صحت اور ان کی اخلاقی ترقی تو ختم ہوکر رہ گئی ہے ۔ حالانکہ بچے انسانیت کے مستقبل کا سرمایہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس قیمتی سرمایہ کو ضائع کرکے انسان کیا فائدہ حاصل کرتا ہے ؟ صرف یہ خاندان کی آمدنی میں حقیر سا اضافہ ہوجاتا ہے بجائے اس کے کہ وہ اپنی اولاد کی کفالت کرے ۔ یہ صورتحال اس لئے پیش آئی کہ مغربی جاہلیت اور جدید مشرقی جاہلیت اور اس کے فاسد اجتماعی نظام نے بچوں کے لئے والدہ کی کفالت کی خاطر والدہ کی ملازمت کی حوصلہ شکنی کرنے سے انکار کیا ۔ اور صورت یہ ہوگئی کہ اگر کوئی عورت ملازمت نہیں کرتی تو اس کے ساتھ رشتہ کرنے کے لئے بھی کوئی تیار نہ ہوتا۔ حالانکہ ملازمت سے وہ جو کچھ کماتی وہ اس عظیم سرمایہ کی تربیت اور نگہداشت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ۔ اس لئے بچے انسانیت کا نہایت ہی قیمتی اور نایاب سرمایہ ہیں ۔

نرسریوں کے تجربات سے سب سے پہلے جو چیز ثابت ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے دو سال کے عرصہ میں بچہ فطری اور نفسیاتی طور پر اس بات کا محتاج ہوتا ہے کہ اسے مستقلاً والدین کی گود میں ہونا چاہئے۔ بالخصوص والدہ کے معاملے میں تو اس کی ضرورت یہ ہے کہ والدہ مستقلاً صرف اس کی خدمت گزار ہو اور اس کے ساتھ اس میں کوئی دوسرا بچہ بھی شریک نہ ہو۔ اس کے بعد ایک عرصہ تک پھر اسے یہ ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے ماں اور باپ ہوں اور اس کی نسبت ان کی طرف ہو۔ پہلی ضرورت نرسری کے سلسلہ میں ممکن نہیں ہے اور دوسری صورت سوائے اس کے کہ خاندانی نظام موجود ہو ممکن الحصول نہیں ہے۔

جو بچہ ان دوسہولتوں سے محروم رہے وہ توانائی اور نفسیاتی لحاظ سے ناقص رہے گا ۔ ایسے بچے لازماً کسی نہ کسی نفسیاتی الجھن کا شکار ہوتے ہیں ۔

اگر کسی کو کوئی ایسا حادثہ پیش آجائے اور وہ ان دونوں سہولتوں میں سے کسی ایک سے محروم ہوجائے تو یہ حادثہ اس بچے کے لئے تباہ کن ہوتا ہے لیکن ہمیں تعجب ہے کہ ہم کدہر جارہے ہیں ؟ ذرا اس غافل اور بیخبر جاہلیت پر غور کریں ، جس کی کوشش یہ ہے کہ نرسری کا نظام عام کردیا جائے اور زیادہ سے زیادہ بچوں کو ایسے تباہ کن حادثوں سے دوچار کیا جائے اور پھر جاہلیت کے بعض وہ تماشائی جو اسلام کی عطا کردہ امن وسلامتی سے محروم ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہلاکت ، چھوٹے چھوٹے بچوں کی ہلاکت وتباہی ترقی اور آزادی ہے ۔ ثقافت وتہذیب ہے۔

یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے اسلامی نظام حیات نے ، اپنے اجتماعی نظام کی بنیاد ” خاندان “ پر رکھی ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا یہ تھی کہ مسلمان امن سلامتی کے دائرے میں داخل ہوجائیں ۔ اور اسلام کے زیر سایہ سلامتی اور چین کی زندگی بسر کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے خاندانی نظام کے استحکام پر بہت زیادہ توجہ کی ہے۔ اس لئے کہ اسلام کے اجتماعی نظام میں خاندان بنیادی یونٹ قرار پانے والا تھا ۔ چناچہ قرآن مجید کی مختلف سورتوں میں خاندانی نظام کے استحکام کے لئے ، اس کے مختلف پہلوؤں کو منظم کیا گیا ہے اور اس کے لئے بنیادی مواد فراہم کیا گیا ہے ۔ چناچہ سورة بقرہ ان سورتوں میں سے ایک ہے ۔

اس سورت میں خاندانی نظام کے سلسلے میں جو آیات نازل ہوئی ہیں ان میں نکاح ، معاشرت ، ایلا ، طلاق ، نفقہ ، متعہ ، رضاعت اور حضانت کے اہم مسائل بیان کئے گئے ہیں ، لیکن یہاں ان احکام کو خاص احکام کی شکل میں بیان نہیں کیا گیا جیسا کہ عام طور پر قانون کی کتابیں پڑھنے والے کتب قانون میں مجرد دفعات اور احکام پاتے ہیں۔ ہرگز نہیں ! یہ احکام ایسی فضا میں وارد ہوتے ہیں کہ انسان کا دل و دماغ اسے بحیثیت ایک عظیم اصول کے لیتے ہیں ۔ انسانی زندگی کے لئے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام زندگی کا ایک عظیم اصول اور اس نظریہ حیات کا عظیم اصول جس سے اسلامی نظام زندگی کی کونپلیں پھوٹتی ہیں ۔ اور یہ کہ اس اصول اور اس قانون کا تعلق براہ راست اللہ تبارک وتعالیٰ سے ہے۔ یہ قانون اس کے ارادے ، اس کی حکمت ، اس کی مشیئت سے ملا ہوا ہے ۔ اور یہ اصول اس نظام زندگی کا ایک اہم حصہ ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پسند کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ساتھ اللہ کی رضا وغضب ، ثواب و عقاب وابستہ ہوتے ہیں اور ان احکام کا تعلق اسلامی نظریہ حیات سے ہوتا ہے ۔ اگر کوئی ان پر عمل کرے گا ، تو وہ شخص مسلم کہلائے گا ۔ اگر عمل نہ کرے گا تو مسلم نہ کہلائے گا۔

انسان پہلی ہی نظر میں اس معاملے کی نزاکت اور اہمیت کو سمجھ لیتا ہے ۔ اسی طرح یہ بات بھی اس کی سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس نظام کا ہر جز خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو اہمیت کا حامل ہے ۔ خود اللہ تعالیٰ اس نظام کا نگران ہے اور اس طرف اس کی خاص توجہ ہے ۔ اور یہ کہ اس نظام کی ہر چھوٹی اور بڑی بات مقصد بالذات ہے اور اللہ کے ہاں ایک عظیم مقصد کے لئے اسے رکھا گیا ہے ۔ اور یہ کہ اس انسان کی ذات کی نگرانی خود اللہ تعالیٰ کرتا ہے ۔ پھر تحریک کی تعمیر وتربیت کا کام بھی خودذات باری اپنی نگرانی میں فرماتی ہے اور اس تعمیر اور نشوونما اور ٹریننگ کی غرض صرف یہ ہے کہ تحریک اسلامی کو اس عظیم رول کے لئے تیار کرنا ہے ، جو اس نے اس کائنات میں ادا کرنا ہے ، پھر انسان یہ محسوس کرلیتا ہے کہ اس نظام زندگی کے کسی حصے پر عمل نہ کرنا ، اسے کمزور کرنا ، اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دینا ہے ۔ ایسے افراد شدید غضب کے مستحق ہوجاتے ہیں۔

پھر یہ احکام بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کئے جاتے ہیں ، جب تک ایک حکم ختم نہیں ہوجاتا ، اس کے مالہ وماعلیہ بیان نہیں کردیئے جاتے ، اس وقت تک دوسرے حکم کا آغاز نہیں کیا جاتا ۔ پھر ہر حکم کے بعد تعقیبات اختتامیہ تبصرے اور نتائج بیان کئے جاتے ہیں ۔ بعض اوقات تو یہ تعقیبات اور تنبیہات بیان احکام کے درمیان ہی آجاتی ہیں ، جن سے مقصود یہ بتلانا ہوتا ہے کہ یہ معاملہ اہمیت کا حامل ہے ۔ بالخصوص وہ تعقیبات ، جن کا تعلق ضمیر و احساس اور دل کے تقویٰ سے ہوتا ہے کیونکہ یہ بیدار تقویٰ ، احساس اطاعت اور ضمیر کی نگرانی کے بغیر نہیں ہوسکتا کہ ان احکام کے بجالانے میں حیلہ سازی سے کام لیاجائے۔

پہلا حکم یہ ہے کہ مسلمان مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کریں نہ اپنی عورتوں کا نکاح کرکے مشرک کے حوالہ کریں ۔ اس کی وجوہات یہ بتائی گئی ہیںأُولَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ” یہ لوگ تمہیں آگ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے اذن سے تم کو جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے اور وہ اپنے احکام واضح طور پر لوگوں کے سامنے بیان کرتا ہے ، توقع ہے کہ وہ سبق لیں گے اور نصیحت قبول کریں گے۔ “

دوسرا حکم حیض کے دوران عورتوں سے مباشرت کرنے کے مسئلے کے متعلق ہے ۔ اس پر جو تعلیق وتبصرہ ہے ، اس میں اس فعل کو محض قضائے شہوت کے چند جسمانی منٹ کے تلذذ سے بلند کرکے ، اعلیٰ مقاصد اور انسانی فریضے کے اعلیٰ مقام تک بلند کیا جاتا ہے۔ بلکہ بتایا گیا ہے کہ یہ انسان کے ذاتی اور نجی فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے اور اس کا تعلق خالق تعالیٰ کی اس اسکیم سے ہے کہ اس کی مخلوق اس کی عبادت اور اس کے ڈر کی وجہ سے پاک وصاف ہوجائے۔

فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (222) نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ وَقَدِّمُوا لأنْفُسِكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ ” پھر جب وہ پاک ہوجائیں ، تو ان کے پاس جاؤ اس طرح جیسا کہ اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے ، اللہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے ، جو بدی سے باز رہیں اور پاکیزگی اختیار کریں ۔ تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں ۔ تمہیں اختیار ہے ، جس طرح چاہو ، اپنی کھیتی میں جاؤ مگر اپنے مستقبل کی فکر کرو اور اللہ کی ناراضی سے بچو ۔ خوب جان لو کہ تمہیں ایک دن اس سے ملنا ہے ۔ اور اے نبی جو تمہاری ہدایات لیں انہیں خوشخبری دے۔ “

تیسرے حکم میں قسموں کے بارے میں احکام ہیں بعد میں چونکہ ایلا اور طلاق کے احکام بیان ہوں گے ۔ اس لئے یہاں بطور تمہید قسموں کے بارے میں عمومی حکم دے دیا۔ اللہ کے نام کی قسمیں کھانے کا ربط بھی ، اللہ پر پختہ یقین اور اللہ خوفی سے قائم کردیا گیا ہے ۔ ایک جگہ کہا گیا وَاللّٰہُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ” اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ “ اور دوسری جگہ ہے وَاللّٰہ غَفُورٌ حَلِیمٌ” اللہ بہت درگزر کرنے والا بردبار ہے۔ “

چوتھا حکم ایلا کا ہے اور اس کے آخر میں یہ تعقیب ہے فَإِنْ فَاءُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (226) وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلاقَ فَإِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ” اگر انہوں نے رجوع کرلیا تو اللہ معاف کرنے والا اور رحیم ہے ۔ اور اگر انہوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی ہو تو جانے رہیں کہ اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ “

پانچواں حکم مطلقہ عورت کی عدت کے بارے میں ہے ۔ اور اس حکم کے ساتھ بھی متعدد تعقیبات پیوستہ ہیں ۔

لا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ” اور ان کے لئے یہ جائز نہیں کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو کچھ خلق فرمایا ہو ، اسے چھپائیں ، انہیں ہرگز ایسا نہ کرنا چاہئے اگر وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہیں۔ “

اور چھٹا حکم طلاقوں کی تعداد کے بارے میں ہے اور طلاق کی حالت میں مہر اور نفقہ واپس لینے کے احکام ہیں ۔ ان احکام کے بعد بھی یہ تعقیبات وارد ہیں ۔

وَلا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلا أَنْ يَخَافَا أَلا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ” اور تمہارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو ، اس میں سے کچھ واپس لے لو ، البتہ یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ زوجین کو اللہ کے حدود پر قائم نہ رہ سکنے کا اندیشہ ہو ، ایسی صورت میں اگر تمہیں یہ خوف ہو کہ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم نہ رہیں گے تو ان کے دونوں کے درمیان یہ معاملہ ہوجانے میں مضائقہ نہیں کہ عورت اپنے شوہر کو کچھ معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرے ۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ، ان سے تجاوز نہ کرو اور جو لوگ حدود الٰہی سے تجاوز کریں وہی ظالم ہیں۔ “

اور یہ کہ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ” اور یہ دوسرا شخص بھی اسے طلاق دے دے تب اگر پہلا شوہر اور یہ عورت دونوں یہ خیال کریں کہ حدود الٰہی پر قائم رہیں گے ، تو ان کے لئے ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ، جنہیں وہ ان لوگوں کی ہدایت کے لئے واضح کررہا ہے ، جو (ان حدود کو توڑنے کا انجام) جانتے ہیں۔ “

ساتواں حکم یہ ہے کہ اگر تم عورت کو طلاق دو تو یا پھر صحیح طرح اسے الگ کردو اور یا صحیح طرح اسے اچھے طریقے سے رخصت کردو اور اس حکم پر اللہ تعالیٰ کا تبصرہ یہ ہے ۔................................................ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلا تَتَّخِذُوا آيَاتِ اللَّهِ هُزُوًا وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ” یابھلے طریقے سے انہیں روکو یا بھلے طریقے سے رخصت کرو۔ محض ستانے کی خاطر انہیں نہ روکے رکھنا کہ یہ زیادتی ہوگی اور جو ایسا کرے گا ، وہ درحقیقت آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرے گا ۔ اللہ کی آیات کا کھیل نہ بناؤ۔ بھول نہ جاؤ کہ اللہ نے کس نعمت عظمیٰ سے تمہیں سرفراز کیا ہے ۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ جو کتاب اور حکم اس نے تم پر نازل کی ہے اس کا احترام ملحوظ رکھو۔ اللہ سے ڈرو اور خوب جان لو کہ اللہ کو ہر بات کی خبر ہے ۔ “

دوسری ہدایت یہ ہے :

ذَلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ ” یہ تمہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت نہ کرنا ، اگر تم اللہ اور آخر پر ایمان لانے والے ہو ، تمہارے لئے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو ۔ اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔ “

آٹھواں حکم رضاعت اور اجرت پر دودھ پلانے اور اس کی اجرت کے متعلق ہے ۔ اور مفصل احکام بیان کرنے کے بعد اس پر یہ نصیحت کی جاتی ہے وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ” اللہ سے ڈر و اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو ، سب اللہ کی نظر میں ہے۔ “

نواں حکم اس عورت کی عدت کے بارے میں ہے جس کا خاوند فوت ہوگیا ہو ، اس پر یہ تعقیب باپروانہ آزادی فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ” پھر جب ان کی عدت پوری ہوجائے تو انہیں اختیار ہے کہ اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے ، جو چاہیں فیصلہ کریں ، تم پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اللہ تم سب کے اعمال سے باخبر ہے۔ “

دسواں حکم دوران عدت عورت کو اشارۃً نکاح دینے کے بارے میں ہے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ تعقیب وتبصرہ آتا ہے۔ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ سَتَذْكُرُونَهُنَّ وَلَكِنْ لا تُوَاعِدُوهُنَّ سِرًّا إِلا أَنْ تَقُولُوا قَوْلا مَعْرُوفًا وَلا تَعْزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحِ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حَلِيمٌ” اللہ جانتا ہے کہ ان کا خیال تمہارے دل میں تو آئے گا ہی مگر دیکھو ، خفیہ عہدوپیمان نہ کرنا ، اگر کوئی بات کرنی ہے تو معروف طریقے سے کرو۔ اور عقد نکاح باندھنے کا فیصلہ اس وقت تک نہ کرو جب تک کہ عدت پوری نہ ہوجائے۔ خوب سمجھ لو کہ اللہ تمہارے دلوں کا حال تک جانتا ہے ۔ لہٰذا اس سے ڈرو اور یہ بھی جان لو کہ اللہ بردبار ہے ۔ (چھوٹی چھوٹی باتوں سے) درگذر فرماتا ہے۔ “

گیارہواں حکم اس مطلقہ عورت کے بارے میں ہے ، جس کے ساتھ مباشرت نہ ہوئی ہو ، ایسی عورت کا مہر مقررنہ کیا گیا ہو تو حکم یا ادا کردیا ہو تو حکم ۔ اس پر یہ وجدانی تبصرہ دیکھئے۔

وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَلا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ” اور اگر تم (مرد) نرمی سے کام لو ، تو یہ تقویٰ سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ آپس کے معاملات میں فیاضی کو نہ بھولو ۔ تمہارے اعمال کو اللہ دیکھ رہا ہے۔ “

بارہواں حکم مطلقہ عورتوں کے بارے میں اور جس کا خاوند فوت ہوچکا ہے۔ اس کے بارے میں ہے کہ ایک سال تک نان ونفقہ دو ۔ اس حکم پر آخر میں حکم ہوتا ہے وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ” اور مطلقہ عورتوں کا حق ہے کہ انہیں مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے ۔ یہ حق ہے متقی لوگوں پر ۔ “

اب ان سب احکام کے بیان کرنے کے بعد ان سب پر ایک جامع تبصرہ کیا جاتا ہے : كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ” اس طرح اللہ اپنے احکام تمہیں صاف صاف بتاتا ہے ۔ امید ہے کہ تم سمجھ بوجھ کر کام کروگے ۔ “

یہ سب احکام عبادت ہیں ۔ نکاح میں اللہ کی بندگی ہے ۔ مباشرت اور اضافہ نسل میں اللہ کی بندگی ہے ۔ طلاق اور جدائی بھی اللہ کی غلامی اور بندگی ہے۔ عدت اور دوران عدت طلاق سے رجوع بھی بندگی ہے ، نفقہ اور رخصتی کا سازوسامان بھی اللہ کی بندگی ہے ۔ معروف طریقے سے عورت کو روک کر بیوی بنالینا بھی بندگی ہے ۔ ورنہ اچھے طریقہ سے ہمیشہ کے لئے رخصت کردینا بھی اللہ کی بندگی ، فدیہ دینا بھی بندگی ہے۔ عوض دینا بھی بندگی دودھ پلانا بھی بندگی ہے اور دودھ سے چھڑانا بھی اللہ کی بندگی اور اطاعت ہے۔ غرض ہر حرکت اور ہر پیش آمد واقعہ میں ایک مسلمان کا طرز عمل اگر خدائی ہدایات کے مطابق ہے تو بندگی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان احکام کے عین وسط میں اچانک نماز کا حکم بھی آجاتا ہے ۔ یعنی خوف میں بھی نماز اور امن میں بھی نماز فرماتے ہیں حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ (238) فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالا أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ ” اپنی نمازوں کی نگہداشت رکھو ، خصوصاً ایسی نماز کی جو محاسن صلوٰۃ کی جامع ہو ۔ (یابیچ والی نماز) اللہ کے آگے اس طرح کھڑے ہو ، جیسے فرمانبردار غلام کھڑے ہوتے ہیں ، بدامنی کی حالت ہو تو خواہ پیدل ہو ، خواہ سوار جس طرح ممکن ہو ، نماز پڑھو اور جب امن میسر آجائے تو اللہ کو اس طریقے سے یاد کرو جو اس نے تمہیں سکھایا ہے ، جس سے پہلے تم ناواقف تھے۔ “

آپ دیکھیں نماز کا یہ حکم عائلی احکام کے درمیان واقعہ ہے ۔ ابھی عائلی احکام ختم نہ ہوئے تھے کہ درمیان میں نماز کا ذکر آگیا ۔ تاکہ نماز کی عبادت کا حکم دوسری عبادات زندگی کے درمیان خلط ہوجائے ۔ یہ خلط اس لئے ہوا کہ یہ اسلام کے مزاج کے عین مطابق ہے ۔ اور اسلامی نظریہ حیات کی رو سے یہ کلی بندگی اور ہر کام میں عبادت وجود انسان کی اصل غرض وغایت ہے ۔ اس پورے سبق کا انداز بیان ، اس طرف بہت ہی لطیف انداز میں اشارہ کرتا ہے ۔ یہ کہ یہ سب چیزیں عبادت ہیں ، جس طرح نماز کے معاملے میں احکام الٰہی کی اطاعت عبادت ہے ، اسی طرح ان دوسرے عائلی معاملات میں بھی احکام الٰہی کی اطاعت عبادت ہے ۔ زندگی ایک اکائی ہے اور عبادات سب کی سب ایک ہی نوعیت کی ہیں ۔ تو احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور یہ سب احکام ہی زندگی کا وہ نظام ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تجویز کیا ہے ۔

ان تمام احکام میں ، جس طرح اللہ کی عبادت اور بندگی کا ماحول ، اللہ کی اطاعت و عبادت کا رنگ ہے اور اللہ کی غلامی کا پرسکون سایہ ہے ، اسی طرح ان میں واقعی زندگی کے ماحول کو بھی نظرانداز نہیں کیا گیا ۔ انسان کی طبعی ساخت اور اس کی فطری خواہشات سے بھی قطع نظر نہیں کی گئی اور اس کرہ ارض پر انسانوں کی انسانی ضروریات کو بھی اچھی طرح پورا کیا گیا ہے۔

اسلام جو قانون بناتا ہے وہ انسانوں کے ایک گروہ کے لئے بنارہا ہے ، وہ یہ قانون بہرحال فرشتوں کے لئے نہیں بنارہا ہے ۔ نہ اڑتے ہوئے تخیلات کے عالم میں کسی فرضی مخلوق کے لئے ۔ اس لئے عام ہدایات اور قانون سازی یا شرعی احکام کے ذریعے ، جب اسلام انہیں اللہ کی بندگی کی فضاتک بلند کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ حقیقت اچھی طرح اس کے سامنے ہوتی ہے کہ وہ سب کچھ ایک انسان کے لئے کررہا ہے ۔ یہ کہ بندگی ایک بشر نے کرنی ہے اور انسانوں میں انسانی جذبات ومیلانات پائے جاتے ہیں ۔ ان میں ضعف ہے اور کئی قسم کی کمزوریاں ہیں ۔ ان کو ضروریات لاحق ہوتی ہیں اور ماحول سے متاثر ہوتے ہیں ، وہ جذبات رکھتے ہیں اور باشعور مخلوق ہیں ۔ ایک طرف ان میں روحانی اشراق ہے تو دوسری طرف انسانی کثافتیں بھی ہیں اور اسلامی نظام زندگی میں ایک ایسا نظام ہے جوان سب امور کا خیال رکھتا ہے ۔ اور ان کے باوجود انسان کو ایک پاک بندگی کی راہ پر لگا دیتا ہے ۔ ایک روشن چراغ انہیں دکھاتا ہے ۔ ہدایت کا روشن چراغ ۔ لیکن بغیر کسی جبر کے ، بغیر کسی مصنوعی ذریعہ کے ، وہ اپنے تمام نظام زندگی کی بنیاد اس پر قائم کرتا ہے کہ یہ انسان بہر حال انسان ہے !

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ایلا کو جائز قرار دیا ۔ یعنی ایک مرد کے جائز ہے کہ وہ ایک مقررہ وقت تک عورت کے ساتھ مباشرت نہ کرنے کی قسم کھالے ۔ لیکن شرط یہ ہے یہ قسم چار ماہ سے زیادہ نہ ہوگی۔ پھر اسلام طلاق کی گنجائش رکھتا ہے ۔ اور اس کے باقاعدہ قانون سازی کرتا ہے۔ اس کے احکام اور نتائج کو بھی منظم طریقے سے قانونی ضابطہ کا پابند کردیتا ہے۔ ایسے حالات میں ازروئے قانون طلاق کی گنجائش رکھی گئی ہے ، جبکہ دوسری طرف خاندانی نظام کی بنیادوں کو پوری طرح مستحکم کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے ۔ خاندانی تعلقات کو مزید پختہ کرنے کی سعی کی گئی ہے اور افراد خاندان کے باہمی ربط کو محض معاشرتی فائدوں سے بلند کرکے اسے اطاعت خداوندی اور عبادت رب کا بلند تصور دے دیا گیا ہے ۔ یہ وہ توازن ہے جو اسلامی نظام زندگی کے عملی پہلوؤں کو واقعی بہت ہی بلند اور ایک حقیقی مثالی نظام کردیتا ہے۔ جو مثالی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی طاقت اور وسعت کے دائرے کے اندر بھی رہتا ہے ۔ اور یوں لگتا ہے کہ یہی نظام ہے جو فی الواقعہ ایک عام انسان کے لئے بنایا گیا ہے۔

نظام کیا ہے فطرت کی سہولتیں ہی سہولتیں ہیں ۔ مرد اور عورت دونوں کے لئے حکیمانہ سہولیات ہیں ۔ اگر ایک تشکیل شدہ خاندان ، جس کی بنیاد مرد و عورت کے نکاح سے پڑی تھی کامیاب نہیں ہوتا ، اس ابتدائی انسانی خلیہ (Cell) میں امن و سکون قائم نہیں ہوسکتا تو اللہ وہ ذات ہے جو جاننے والا خبردار ہے ، وہ لوگوں کے بارے میں وہ کچھ جانتا ہے ، جو وہ خود بھی نہیں جانتے ۔ اس لئے ذات باری نے یہ نہ چاہا کہ وہ مرد و عورت کے رابطہ نکاح کو ناقابل انفکاک بنادے اور اس طرح ابتدائی انسانی جوڑے کو انس و محبت کے گہوارے کے بجائے ایک قید خانہ بنادے ۔ میاں بیوی ایک دوسرے کو دیکھنا چاہتے ہوں مگر جدائی محال ہو ، ان کے دلوں میں سب شکوک و شبہات سیلابی شکل اختیار کرگئے ہیں لیکن بچنے کی کوئی صورت نہ ہو ۔ میاں بیوی کے تعلقات شبہات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں دب کر ررہ گئے ہوں لیکن روشنی کی طرف نکل آنے کی کوئی صورت نہ ہو ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تومیاں بیوی کے جوڑ اور اس چھوٹے خاندان کو اس لئے بنایا تھا کہ وہ دارالسکون ہو ، دارالامن ہو۔ اگر اس سے یہ مقصد پورا نہ ہورہا ہو اور اس لئے نہ ہورہا ہو کہ فریقین کی فطرت اور طبائع میں اختلاف ہو ، تو پھر ایسی صورت میں بہتر یہی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ہوجائے اور اس بیمار خاندان کو ختم کردیا جائے اور وہ دوبارہ کوشش کریں کہ جڑسکیں لیکن جدائی کا فیصلہ بھی محض سرسری اختلافات کی بنیاد پر نہیں کیا جاتا بلکہ اس خاندان کو بچانے کے لئے تمام وسائل کام میں لائے جاتے ہیں ۔ اس لئے کہ اسلامی نظام زندگی میں انسانی اجتماع میں خاندان مقدس ترین اکٹھ ہے ۔ لیکن جدائی کی صورت میں بھی ایسے احکام دیئے گئے ہیں کہ نہ خاوند کو نقصان پہنچے نہ بیوی کو ۔ نہ بچے کو اور نہ ہی جنین کو ۔

یہ ہے وہ ربانی نظام زندگی ، جسے اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے تشکیل دیا۔

جب انسان اس نظام کی بنیاد وں پر غور کرتا ہے ، جسے اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے تجویز کیا ہے اور پھر اس نظام کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اس معاشرے ، پاک معاشرے پر نگاہ ڈالتا ہے جس میں امن وسلامتی کا دور دورہ ہوتا ہے اور پھر اس کے مقابلے میں اس نظام زندگی کا مطالعہ کرتا ہے ، جو اس وقت فعلاً انسانی زندگی میں قائم ورائج تھا ۔ تو نظر آتا ہے کہ دونوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ اور اسلامی معاشرہ ایک مثالی معاشرہ ہے ۔ اور اگر اسلامی معاشرے کا مقابلہ مشرق ومغرب میں آج کے جدید جاہلی معاشروں سے کیا جائے تو بھی یہ مثالی معاشرہ ایک اونچے مقام پر نظر آتا ہے ، حالانکہ ان جدید جاہلی معاشروں کے حامی اپنے آپ کو بڑا ترقی یافتہ معاشرہ سمجھتے ہیں ۔ اس تقابلی مطالعہ کے نتیجے میں اچھی طرح احساس ہوجاتا ہے کہ اسلام نے شرافت ، پاکیزگی اور امن و سکون کا اونچا معیار قائم کیا ہے ۔ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اس اونچے مقام تک انسانوں کو پہچانے کے لئے قانون بنایا ۔ خصوصاً عورت کو تو اس نظام میں خصوصی رعایتیں دی گئیں ہیں ۔ بہت بڑی حرمت اور شرافت اسے عطاکردی گئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جو مستقیم الفطرت عورت بھی ان خصوصی رعایتوں پر غور کرے ، جو اللہ نے اسلامی نظام میں عورتوں کو دی ہیں ، وہ بےاختیار اللہ تعالیٰ کے ساتھ بےپناہ محبت کرنے لگے گی ، بشرطیکہ وہ استقامت فکر سے غور کرے ۔

(بہت طویل ہونے کی وجہ سے اس آیت کی مکمل تفسیر شامل نہیں کی جا سکی۔ ہم اس کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ برائے مہربانی اس آیت کی تفسیر کا بقیہ حصہ فی ظلال القرآن جلد سے پڑھیں)

آیت 221 وَلاَ تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ ط وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَتْکُمْ ج وَلاَ تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا ط وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ وَّلَوْ اَعْجَبَکُمْ ط۔ خواہ وہ صاحب حیثیت اور مال دار ہو ‘ لیکن دولت ایمان سے محروم ہو تو تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنی بہن یا بیٹی اس کے نکاح میں دے دو۔اُولٰٓءِکَ یَدْعُوْنَ اِلَی النَّارِج ۔ اگر ان سے رشتے ناتے جوڑو گے تو وہ تمہیں بھی جہنم میں لے جائیں گے اور تمہاری اولاد کو بھی۔

پاک دامن عورتیں بت پرست مشرکہ عورتوں سے نکاح کی حرمت بیان ہو رہی ہے، گو آیت کا عموم تو ہر ایک مشرکہ عورت سے نکاح کرنے کی ممانعت پر ہی دلالت کرتا ہے لیکن دوسری جگہ فرمان ہے آیت (وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ اِذَآ اٰتَيْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ وَلَا مُتَّخِذِيْٓ اَخْدَانٍ) 5۔ المائدہ :5) یعنی تم سے پہلے جو لوگ کتاب اللہ دئیے گئے ہیں ان کی پاکدامن عورتوں سے بھی جو زنا کاری سے بچنے والی ہوں ان کے مہر ادا کر کے ان سے نکاح کرنا تمہارے لئے حلال ہے، حضرت ابن عباس کا قول بھی یہی ہے کہ ان مشرکہ عورتوں میں سے اہل کتاب عورتیں مخصوص ہیں، مجاہد عکرمہ، سعید بن جبیر، مکحول، حسن، ضحاک، قتادہ زید بن اسلم اور ربیع بن انس رحمہم اللہ کا بھی یہی فرمان ہے، بعض کہتے ہیں یہ آیت صرف بت پرست مشرکہ عورتوں ہی کے لئے نازل ہوئی ہے یوں کہہ لو یا ووں مطلب دونوں کا ایک ہی ہے۔ واللہ اعلم۔ ابن جریر میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کئی قسم کی عورتوں سے نکاح کرنے کو ناجائز قرار دیا سوائے ایمان دار، ہجرت کر کے آنے والی عورتوں کے خصوصا ان عورتوں سے جو کسی دوسرے مذہب کی پابند ہوں۔ قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت (ۭوَمَنْ يَّكْفُرْ بالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ ۡ وَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ) 5۔ المائدہ :5) یعنی کافروں کے اعمال برباد ہیں ایک روایت میں ہے کہ حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ سخت ناراض ہوئے یہاں تک کہ قریب تھا کہ انہیں کوڑے لگائیں، ان دونوں بزرگوں نے کہا اے امیرالمومنین آپ ناراض نہ ہوں ہم انہیں طلاق دے دیتے ہیں آپ نے فرمایا اگر طلاق دینی حلال ہے تو پھر نکاح بھی حلال ہونا چاہئے میں انہیں تم سے چھین لوں گا اور اس ذلت کے ساتھ انہیں الگ کروں گا، لیکن یہ حدیث نہایت غریب ہے اور حضرت عمر سے بالکل ہی غریب ہے، امام ابن جریر نے اہل کتاب عورتوں سے نکاح کر کے حلال ہونے پر اجماع نقل کیا ہے اور حضرت عمر ؓ کے اس اثر کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ یہ صرف سیاسی مصلحت کی بناء پر تھا تاکہ مسلمان عورتوں سے بےرغبتی نہ کریں یا اور کوئی حکمت عملی اس فرمان میں تھی چناچہ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جب حضرت حذیفہ کو یہ فرمان ملا تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ کیا آپ اسے حرام کہتے ہیں، خلیفۃ المسلمین نے جواب دیا کہ حرام تو نہیں کہتا مگر مجھے خوف ہے کہیں تم مومن عورتوں سے نکاح نہ کرو ؟ اس روایت کی اسناد بھی صحیح ہے، ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ نے فرمایا کہ مسلمان مرد نصرانی عورت سے نکاح کرسکتا ہے لیکن نصرانی مرد کا نکاح مسلمان عورت سے نہیں ہوسکتا اس روایت کی سند پہلی روایت سے زیادہ صحیح ہے، ابن جریر میں تو ایک مرفوع حدیث بھی باسناد مروی ہے کہ ہم اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح کرلیں لیکن اہل کتاب مرد مسلمان عورتوں سے نکاح نہیں کرسکتے لیکن اس کی سند میں کچھ کمزوری ہے مگر امت کا اجماع اسی پر ہے، ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ حضرت فاروق نے اہل کتاب کے نکاح کو ناپسند کیا اور اس آیت کی تلاوت فرما دی، امام بخاری حضرت عمر کا یہ قول بھی نقل فرماتے ہیں کہ میں کسی شرک کو اس شرک سے بڑھ کر نہیں پاتا کہ وہ عورت کہتی ہے کہ عیسیٰ اس کے اللہ ہیں حضرت امام احمد سے اس آیت کا مطلب پوچھا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں مراد اس سے عرب کی وہ مشرکہ عورتیں ہیں جو بت پرست تھیں۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ایمان والی لونڈی شرک کرنے والی آزاد عورت سے اچھی ہے یہ فرمان عبداللہ بن رواحہ ؓ کے بارے میں نازل ہوتا ہے، ان کی ایک سیاہ رنگ لونڈی تھی ایک مرتبہ غصہ میں آکر اسے تھپڑ مار دیا تھا پھر گھبرائے ہوئے آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور واقعہ عرض کیا آپ نے پوچھا اس کا کیا خیال کہا حضور ! وہ روزے رکھتی ہے نماز پڑھتی ہے اچھی طرح وضو کرتی ہے اللہ کی وحدانیت اور آپ کی رسالت کی گواہی دیتی ہے۔ آپ نے فرمایا اے ابو عبداللہ پھر تو وہ ایماندار ہے کہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ ! قسم اس اللہ کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اسے آزاد کر دوں گا اور اتنا ہی نہیں بلکہ اس سے نکاح بھی کرلوں گا چناچہ یہی کیا جس پر بعض مسلمانوں نے انہیں طعنہ دیا، وہ چاہتے تھے کہ مشرکوں میں ان کا نکاح کرا دیں اور انہیں اپنی لڑکیاں بھی دیں تاکہ شرافت نسب قائم رہے اس پر یہ فرمان نازل ہوا کہ مشرک آزاد عورتوں سے تو مسلمان لونڈی ہزارہا درجہ بہتر ہے اور اسی طرح مشرک آزاد مرد سے مسلم غلام بھی بڑھ چڑھ کر ہے، مسند عبد بن حمید میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عورتوں کے محض حسن پر فریفتہ ہو کر ان سے نکاح نہ کرلیا کرو، ممکن ہے ان کا حسن انہیں مغرور کر دے عورتوں کے مال کے پیچھے ان سے نکاح نہ کرلیا کرو ممکن ہے مال انہیں سرکش کر دے نکاح کرو تو دینداری دیکھا کرو بدصورت سیاہ فام لونڈی بھی اگر دیندار ہو تو بہت افضل ہے، لیکن اس حدیث کے راویوں میں افریقی ضعیف ہے، بخاری مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا چار باتیں دیکھ کر عورتوں سے نکاح کیا جاتا ہے ایک تو مال دوسرے حسب نسب تیسرے جمال و خوبصورتی چوتھے دین، تم دینداری ٹٹولو، مسلم شریف میں ہے دنیا کل کی کل ایک متاع ہے، متاع دنیا میں سب سے افضل چیز نیک بخت عورت ہے۔ پھر فرمان ہے کہ مشرک مردوں کے نکاح میں مسلمان عورتیں بھی نہ دو جیسے اور جگہ ہے۔ آیت (لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّوْنَ لَهُنَّ) 60۔ الممتحنہ :10) نہ کافر عورتیں مسلمان مردوں کے لئے حلال نہ مسلمان مرد کافر عورتوں کے لئے حلال۔ پھر فرمان ہے کہ مومن مرد گو چاہے حبشی غلام ہو پھر بھی رئیس اور سردار آزاد کافر سے بہتر ہے۔ ان لوگوں کا میل جول ان کی صحبت، محبت دنیا حفاظ دنیا اور دنیا طلبی اور دنیا کو آخرت پر ترجیح دینی سکھاتی ہیں جس کا انجام جہنم ہے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان کی پابندی اس کے حکموں کی تعمیل جنت کی رہبری کرتی ہے گناہوں کی مغفرت کا باعث بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے وعظ و نصیحت اور پند وعبرت کے لئے اپنی آیتیں واضح طور پر بیان فرما دیں۔

آیت 221 - سورۃ البقرہ: (ولا تنكحوا المشركات حتى يؤمن ۚ ولأمة مؤمنة خير من مشركة ولو أعجبتكم ۗ ولا تنكحوا المشركين حتى يؤمنوا ۚ...) - اردو